برطانوی سامراج نے برصغیر (پاک و ہند) میں دین اسلام اور مسلمانان ہند کو نقصان عظیم پہنچانے کے لیے ضلع گورداس پور (مشرقی پنجاب) کے قصبہ قادیان کے ایک مخبوط الحواس شخص آنجہانی مرزا غلام احمد قادیانی کو استعمال کیا۔ اور اس شخص کے سپرد یہ کام کیا کہ وہ مسلمانان ہند میں تفرقہ ڈالنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ اور دین اسلام میں بھی طرح طرح کی موشگافیاں پیدا کرے۔ اور اسلام کے بنیادی احکام اور اصول و احکام کو مٹانے کے لیے پوری طرح سعی و کوشش کرے اور غلام احمد قادیانی کو یہ پٹی پڑھائی کہ ایک ایسے مذہب کی بنیاد رکھے جس کا مقصد فرنگی اور اس کی حکومت کی اطاعت ہو اور اسلامی تہذیب و تمدن اور روایات کا استیصال بھی ہو اور ہر صورت میں برطانوی سامراج کی اطاعت کو اپنا مقصد زندگی کو ملحوظ رکھا جائے۔

چنانچہ آنجہانی مرزا قادیانی سے سب سے پہلے تبلیغ اسلام کا ڈھونگ رچایا اور ایک کتاب براہین احمدیہ لکھ کر شائع کی اور اس کے ذریعہ برصغیر میں اس کی شہرت ہوئی اس کے بعد پہلے مجدد ہونے کا دعویٰ کیا پھر مسیح موعود بن گیا۔ اور اس کے بعد نبوت کاذبہ کی کرسی پر براجمان ہو گا۔ اور اس نے یہ اعلان کیا کہ:

(۱) حضرت محمد رسول اللہﷺ کی نبوت ختم نہیں ہوئی خاتم النبیین کے معنی نعوذ باللہ سند ہیں اور سلسلہ رسالت قیامت تک جاری و ساری رہے گا۔

لعنۃ اللہ علی الکاذبین

(۲) مرزا قادیانی نے یہ بھی اعلان کیا کہ محمد میں تمام انبیاء کی صفات پائی جائی ہیں مرزا خود کہتا ہے

میں کبھی آدم کبھی موسیٰ کبھی یعقوب ہوں

نیز ابراہیم ہوں نسلیں ہیں میری بے شمار

(۳) مرزا قادیانی نے یہ بھی کہا کہ میں عیسیٰ بن مریم سے بہتر اور اعلیٰ ہوں۔

بقول مرزا

ابن مریم کے ذکر کو چھوڑو

اس سے بہتر غلام احمد ہے

حقیقت یہ ہے کہ جتنا نقصان اسلام اور مسلمانوں کو قادیانی فتنہ نے پہچایا ہے اتنا آریہ سماج نے نہیں پہنچایا آریہ سماج نے چند صد مسلمانوں کو مرتد کیا مگر قادیانی مذہب نے لاکھوں مسلمانوں کو مرتد کیا۔ مرزا غلام احمد قادیانی اور اس کے حواریوں کے عزائم یہ تھے کہ دین اسلام کی بیخ کنی کی جائے۔

مسلمانوں میں تفرقہ ڈالا جائے اور ان کے دینی عقائد کو خراب کیا جائے مولانا محمد داؤد راز دہلوی (۱۴۰۲؁ھ) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ

مرزائی مذہب نے لاکھوں مسلمانوں کا ارتداد کیا اور شدھی و سنگٹن کی تحریکات سے فتنہ قادیانیت بہت زیادہ مہلک مضر اور مفسد ثابت ہوا چونکہ توحید الٰہی میں بھی شرک کو مدغم کرنا اسلام کی سالمیت کو توڑنا ملت بیضاء کی وحدت کو پارہ پارہ کرنا امت محمدیہ میں نفاق و افتراق ڈالنا، کتاب و سنت کی جگہ تصانیف مرزا کی تعلیم دینا، آیات قرآنی کے ترجمہ و تفسیر میں تاویلات گھڑنا اور ان کے معانی و مطالب توڑ مروڑ کر پیش کرنا نبیﷺ کی ختم المرسلین سے انکار کر کے پیغمبر قادیاں کو آخری نبی ماننا۔ قوم میں تفتت و انتشار پھیلانا اسلام کے بنیادی اصولوں سے انحراف کر کے ان کی بجائے نئے نئے مسائل و احکام گھڑنا۔ دین حنیف میں رخنے ڈالنا، عقائد باطلہ کو ترویج دینا اور عامۃ الناس کو غلط و گمراہ کن راستوں پر چلانا اس مذہب کا خاصا دستور ہے۔ اس لیے اس نے تھوڑے ہی عرصہ میں اسلام کے جماعتی و ملی نظام کو درہم برہم کر دیا۔ اور اسلام کے پردے میں وہ کام کر دکھایا جو کسی بدترین دشمن دین سے ہونا نا ممکن تھا۔ (حیات ثنائی ص 390 طبع دہلی ۱۴۲۴؁ھ)

فتنہ قادیانیت اور علمائے اہلحدیث

جب برصغیر (پاک و ہند) میں قادیانی فتنہ نے جنم لیا تو سب سے پہلے علمائے اہلحدیث اس فتنہ کے استیصال کے لیے میدان میں نکلے اور مرزا قادیانی کے خرافات کا تحریری اور تقریری طور پر جواب دیا۔

حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

مولانا ابو سعید محمد حسین بٹالوی (م۱۹۲۰؁ء) کی ذات محتاج تعارف نہیں اللہ تعالیٰ ان کو ذہانت و فطانت، فہم و ذکاء اور علم و تفقہ سے حظ وافر عطا فرمایا تھا۔ اور ساتھ ہی اس توفیق سے بھی نوازا کہ انہوں نے اپنی خداداد صلاحیتوں کو اللہ کے نازل کردہ دین اسلام خالص اور بے آمیز اسلام کی تبلیغ، اس کی نشر واشاعت اور اس کی وکالت و دفاع میں بھرپور طریقے سے استعمال کیا۔ چنانچہ اپنے وقت کے تمام اہم فتنوں کے استیصال میں وہ سر گرم رہے اور اسلام کی ترجمانی اور دفاع کا فریضہ پوری قوت اور تندہی سے سر انجام دیا۔

جزاہ اللہ عن الاسلام والمسلمین خیر الجزاء

مولانا بٹالوی مرحوم کی زندگی ہی میں قادیانی فتنہ اور اس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنی نبوت کاذبہ کا پرچار کرنا شروع کر دیا تھا اس لیے مولانا بٹالوی رحمہ اللہ نے اس طرف توجہ کی۔

حافظ صلاح الدین یوسف صاحب حفظہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

قادیانی فتنہ چونکہ ان کے سامنے ہی پیدا ہوا تھا ان کے دیکھتے دیکھتے ہی اس نے بال و پر نکالے تھے اور اپنے عواقب کے لحاظ سے بھی یہ نہایت خطرناک تھا اسلیے قدرتی طور پر مولانا مرحوم نے اس کی تردید میں پورا زور صرف کیا اس کے دلائل کا تاروپود بکھیرا اور ہر محاذ پر اس سے ٹکرلی۔

مولانا بٹالوی مرحوم نے سب سے پہلے یہ قدم اٹھایا کہ مرزا غلام قادیانی کے بارے میں ایک مستقل باحوالہ استفتاء مرتب کیا۔ جس میں اس کی کتابوں سے اس کے عقائد نقل کیے اور سب سے پہلے یہ استفتاء اپنے استاد محترم شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م ۱۳۲۰؁ھ) کی خدمت میں پیش کیا۔ اور حضرت محدث دہلوی رحمہ اللہ نے اس کا مفصل جواب لکھا جس میں انہوں نے واضح کیا کہ :

استفتاء میں درج عقائد کا حامل اور اس کے پیروکار اہل سنت سے خارج ہیں نہ ان کی نماز جنازہ جائز ہے اور نہ مسلمانوں کے قبرستانوں میں انہیں دفن کیا جائے۔

اس کے بعد حافظ صلاح الدین یوسف صاحب لکھتے ہیں

اس فتویٰ تکفیر کی تائید و تصویب مولانا بٹالوی نے متحدہ ہندوستان (پاک و ہند) کے تمام سر برآوردہ اور ممتاز علماء سے کرائی اور تقریباً دو صد علماء کے مواہیر اور دستخطوں کے ساتھ اس فتویٰ کو شائع کیا۔

مرزا غلام احمد قادیانی اور امت مرزائیہ کی تکفیر پر یہ سب سے پہلا متفقہ فتویٰ ہے جو مولانا بٹالوی اور حضرت شیخ الکل میاں سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی کی مشترکہ مساعی کے نتیجے میں ظہور میں آیا۔ (پاک و ہند کے علمائے اسلام کا اولین متفقہ فتویٰ، ص۵،۶)

اسمائے گرامی علمائے اہلحدیث

قادیانی فتنہ کی تردید اور اس فرقہ باطلہ کا قلع قمع کرنے اور اس کو نیست و نابود کرنے کے لیے برصغیر کے علمائے اہلحدیث نے اپنی زندگی کا مقصد قرار دیا۔ اور اس سلسلہ میں جو تحریری و تقریری خدمات انجام دیں۔ وہ تاریخ اہلحدیث کا ایک سنہری باب ہے۔

ذیل میں چند نامور علمائے اہلحدیث کے اسمائے گرامی درج کئے جاتے ہیں جنہوں نے اس فرقہ باطلہ کی تردید میں اپنی زندگی کا اولین مقصد ٹھہرایا۔

1۔ شیخ الاسلام مولانا ابو الوفاء ثناءاللہ امرتسری (م۱۳۶۷؁ھ )

2۔ مناظراسلام مولانا ابو القاسم سیف بنارسی (م ۱۳۶۹؁ھ)

3۔ حضرت مولانا محمد بشیر سہسوانی (م۱۳۲۶؁ھ)

4۔ امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی (م ۱۳۷۵؁ھ)

5۔ مولانا عبدالرحیم رحیم بخش بہاری (م۱۳۱۴؁ء)

6۔ مولانا قاضی محمد سلیمان سلمان منصور پوری (م۱۹۳۰؁ء)

7۔ مولانا عبداللہ معمار امرتسری (م۱۹۵۰؁ء)

8۔ مولانا صوفی نذیر احمد کاشمیری (م۱۹۸۵؁ء)

9۔ مولانا حافظ محمد گوندلوی (م۱۹۸۵؁ء)

10۔ مولانا محمد اسمعیل علی گڑھی (م۱۳۱۱؁ء)

11۔ مولانا محمد یوسف شمس فیض آبادی (م۱۳۵۷؁ء)

12۔ مولانا عبدالمجید خادم سوہدری (م۱۹۵۹؁ء)

13۔ مولانا ابوالمحمود ہدایت اللہ سوہدری (م۱۹۶۷؁ء)

14۔ مولانا نور حسین گھر جاکھی (۱۹۵۲؁ء)

15۔ مولانا عبدالستار صدری دہلوی (۱۳۵۶؁ء)

16۔ مولانا حافظ محمد یوسف گکھڑوی (م۱۹۸۰؁ء)

17۔ مولانا محمد اسمعیل سلفی (م۱۹۶۸؁ء)

18۔ مولانا اثرالدین گکھڑوی (م۱۹۷۳؁ء)

19۔ مولانا صفی الرحمان مبارک پوری (م۲۰۰۶؁ء)

20۔ مولانا عبداللہ ثانی امرتسری (۱۹۸۷؁ء)

21۔ مولانا حافظ عنایت اللہ اثری وزیر آبادی (م۱۹۸۰؁ء)

22۔ مولانا عبدالرحمان عتیق وزیر آبادی (م۱۹۹۵؁ء)

23۔ مولانا عبدالکریم فیروزپوری (م۱۹۶۱؁ء)

24۔ مولانا محمد حنیف ندوی (۱۹۸۷؁ء)

25۔ مولانا عبداللہ گورداسپوری (۲۰۱۲؁ء)

26۔ علامہ احسان الٰہی ظہیر شہید (ش ۱۹۸۷؁ء)

27۔ مولانا محمد علی جانباز (م۲۰۰۹؁ء)

28۔ مولانا حافظ عبداللہ روپڑی (م۱۹۶۴؁ء)

29۔ مولانا محمد یحیٰ گوندلوی (م۲۰۱۰؁ء)

30۔ مولانا حافظ عبدالقادر روپڑی (م۱۹۹۹؁ء)

دور حاضر کے علماء میں مولانا ارشاد الحق اثری، مولانا محمد اسحاق بھٹی، پروفیسر حافظ عبدالستارحامد وزیر آبادی، مولانا حافظ محمد صلاح الدین یوسف، مولانا حافظ فاروق الرحمان یزدانی، مولانا لیاقت علی باجوہ، مولانا محمد رمضان یوسف سلفی، مولانا حافظ عبدالوہاب روپڑی، میاں محمد جمیل، مولانا حافظ مقصود احمد حفظہم اللہ جمیعاً اور دوسرے علمائے کرام فتنہ قادیانی کا استیصال کرنے میں ہمہ وقت سرگرم عمل ہیں۔

امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ

امام العصر مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ کی ذات تعارف کی محتاج نہیں آپ کا شمار برصغیر (پاک وہند) کی ان نامور اور یگانہ روزگار شخصیات میں ہوتا ہے جن کی دینی و علمی، قومی و ملی اور سیاسی خدمات کا احاطہ نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ تعالیٰ نے مولانا محمد ابراہیم کو کوناگوں اوصاف سے متصف فرمایا تھا۔ اور ان میں بے شمار خوبیاں ودیعت فرمائی تھیں۔ آپ بیک وقت مفسر بھی تھے اور محدث بھی، مؤرخ بھی تھے اور محقق بھی، متکلم بھی تھے اور معلم بھی، خطیب بھی تھے اور مقرر بھی، ادیب بھی تھے اور دانشور بھی، مبصر بھی تھے اور نقاد بھی، مفکر بھی تھے اور مدبر بھی، صحافی بھی تھے اور مصنف بھی، اور فن مناظرہ میں بھی انہین خاص ملکہ حاصل تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ملکی سیاست میں ان کا بڑا اونچا مقام تھا۔

خطابت میں ان کا مرتبہ و مقام اعلیٰ و ارفع تھا۔ ایک دور تھا کہ پورے برصغیر میں مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی (م ۱۳۳۶ھ) شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری (م۱۳۶۷ھ)، مناظر اسلام مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی (م ۱۳۶۹ھ) اور امام العصر مولانا محمد ابراہیم میرسیالکوٹی (م ۱۳۷۵ھ) کا طوطی بولتا تھا۔ جماعت اہلحدیث کا جلسہ ہو یا کوئی اور سیاسی جلسہ، وہ کامیاب نہیں ہوتا تھا جس میں یہ چاروں علمائے کرام یا ان میں سے ایک دو شریک نہ ہوں۔ یہ علمائے کرام برصغیر کی فضائے بسیط پر چھائے ہوئے تھے اور پورے ملک میں ان کا ڈنکا بجتا تھا۔

مولانا محمد ابراہیم اپریل ۱۸۷۴؁ء میں سیالکوٹ میں پیدا ہوئے ان کے والد محترم کا اسم گرامی سیٹھ قادر بخش تھا جن کا شمار سیالکوٹ کے رؤسا میں ہوتا تھا۔ مولانا میر سیالکوٹی کی عصری تعلیم ایف اے تھی علامہ اقبال مرے کالج میں ان کے کلاس فیلو تھے دینی تعلیم کا آغاز قرآن مجید سے ہوا اس کے بعد علوم اسلامیہ کی تحصیل مولانا ابو عبداللہ عبیداللہ غلام حسن سیالکوٹی (م۱۹۱۸؁ء) استاذ الاساتذہ شیخ الحدیث حافظ عبدالمنان محدث وزیر آبادی (م۱۳۳۴؁ھ) سے کی۔

وزیر آباد میں تکمیل تعلیم کے بعد مولانا محمد ابراہیم میر عازم دہلی ہوئےاور حضرت شیخ الکل میاں صاحب سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی (م۱۳۲۰؁ھ) سے حدیث و سند و اجازہ سے مفتخر ہوئے حضرت میاں صاحب کے یہ آخری دور کے شاگرد ہیں۔ فراغت تعلیم کے بعد اپنے وطن سیالکوٹ تشریف لائے اور میانہ پورہ کی مسجد (جوان کے والد محترم نے تعمیر کروائی تھی) میں درس و تدریس کا سلسلہ شروع کیا ان کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے تاہم ان کے مشہور تلامذہ حسب ذیل ہیں۔

شیخ الحدیث مولانا محمد اسمعیل سلفی، مولانا عبدالمجید خادم سوہدروی، مولانا عبدالواحد سیالکوٹی، مولانا عبداللہ ثانی امرتسری، حافظ محمد شریف سیالکوٹی، مولانا محمد صدیق فیصل آبادی، مولانا محمد ابراہیم ریاستی، مولانا حافظ احمد اللہ بڈھیمالوی، مولانا معین الدین لکھوی رحمہم اللہ اجمعین۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ مولانا سیالکوٹی صحافت کا بھی ذوق رکھتے تھے۔ آپ نے مختلف ادوار میں وہ ماہوار رسالے ’’الہدی اور الہادی‘‘ جاری کئے یہ دونوں بہت علمی رسائل تھے۔ ان میں زیادہ تر تحقیقی مضامین شائع ہوتے تھے۔ ماہنامہ الہادی کے بارے میں مولوی ابو یحیٰ امام خان نوشہروی (م۱۹۶۶؁ء) لکھتے ہیں کہ اس زمانہ میں پنجاب میں ترویج عیسائیت کا زور تھا جس کی پشت مسیح جدید (قادیان) نے مضبوط کر دی۔ ان ہر دو کے لیے یہ رسالہ وقف تھا۔ (ہندوستان میں اہلحدیث کی علمی خدمات ص 100)

برصغیر (پاک وہند) میں جماعت اہلحدیث کو منظم اور فعال بنانے میں مولانا محمد ابراہیم سیالکوٹی کی خدمات ناقابل فراموش ہیں۔ دسمبر ۱۹۰۲؁ء میں جب آل انڈیا اہلحدیث کانفرنس کی تشکیل ہوئی تو اس کانفرنس کو متعارف کروانے کے لیے تین علمائے کرام کا وفد ترتیب دیا گیا۔ ان میں ایک مولانا سیالکوٹی تھے دوسرے دو علماء مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی اور شیخ الاسلام مولانا ثناء اللہ امرتسری رحمہم اللہ تھے۔

سیاستی اعتبار سے مولانا محمد ابراہیم کا تعلق مسلم لیگ سے تھا آپ ۱۹۳۰؁ء کے اجلاس مسلم لیگ الہ آباد (جس کی صدارت علامہ اقبال نے کی تھی)اور اجلاس مسلم لیگ منعقدہ مارچ ۱۹۴۰؁ء (جس میں قرار داد پاکستان منظور ہوئی تھی) میں شرکت کی تھی۔

مولانا محمد ابراہیم میر دو قومی نظریے کے حامی تھے اور متحدہ قومیت کے سخت مخالف تھے جب جمعیۃ علمائے ہند کے دو قومی نظریہ کی بجائے متحدہ قومیت کے سحر کا شکار ہو گئے۔ تو مولانا محمد ابراہیم میر نے مولانا شبیر احمد عثمانی کے تعاون سے جمعیۃ علمائے اسلام کے نام سے علیحدہ جماعت تشکیل دی اور اس جماعت کا پہلا تاسیسی اجلاس اکتوبر ۱۹۴۵؁ء میں کلکتہ میں منعقدہ ہونا قرار پایا۔ اس اجلاس کی صدارت مولانا سیالکوٹی نے کی مولانا شبیر احمد عثمانی بوجہ ناسازی طبع اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔

نامور ادیب اور دانشور اور مولانا ظفر علی خان کے دیرینہ رفیق پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی (م۱۹۹۴؁ء) اپنے ایک مضمون میں لکھتے ہیں کہ:

یہ علماء کا ایک شاندار اور باوقار اجتماع تھا جس میں برصغیر کے کونے کونے سے علماء شریک ہوتے تھے مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے ’’تمدن و معاشرت اسلامیہ‘‘ کے موضوع پر صدارتی خطبہ دیا جس میں کتاب و سنت کی روشنی میں آزاد و خود مختار مملکت کے قیام کے لیے پاکستان کو اسلامیان ہند کی سیاسی اقتصادی، معاشرتی دینی اور ملی ضرورت قرار دیا۔ مولانا نے اپنے خطبہ میں ہندو ذہنیت کا پوسٹ مارٹم کیا اور کانگرسی وزارتوں کے قیام کے بعد ہندو ازم کے قیام اور مسلمانوں پر مظالم کی تصویر کشی کرتے ہوئے گاندھی کے کردار کو بے بقاب کیا۔ (سوانح حیات مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ص 159)

مولانا سیالکوٹی کے دوست اور جماعت اہلحدیث کے جلیل القدر عالم دین مولانا ابوالقاسم سیف بنارسی (۱۳۶۹؁ھ) متحدہ قومیت کے حامی تھے انہوں نے ایک مضمون لکھا جو ہندوستان کے کانگرسی اخباروں میں شائع ہوا۔ اس مضمون میں مولانا بنارسی نے قیام پاکستان کی سخت مخالفت کی تھی۔ اور کئی اعتراضات کئے تھے اور مسلمانان ہند کے لیے قیام پاکستان کو مہلک قرار دیا۔

پروفیسر حکیم عنایت اللہ نسیم سوہدروی مرحوم لکھتے ہیں کہ:

جب مولانا ابوالقاسم بنارسی نے قیام پاکستان کے حوالے سے اعتراضات کے لیے اردو مضمون لکھا تو مولانا ابراہیم میر نے فوراً دلائل وبراہین سے بھر پور ایک مضمون کے ذریعے ان اعتراضات کو غیر حقیقت پسندانہ اور غیر منصفانہ و غیر عادلانہ قرار دیا۔ اور ثابت کیا کہ اہل اسلام کی قومیت کی بنیاد دین اسلام ہے۔ (سوانح مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ص 160)

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کا یہ مضمون روزنامہ ’’احسان‘‘ لاہور دسمبر ۱۹۴۵ء کی اشاعت میں شائع ہوا۔ اخلاق و عادات اور علم و فضل کے اعتبار سے مولانا محمد ابراہیم میر اعلیٰ اوصاف کے مالک تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ان میں بہت ہی اوصاف جمع کر دیئے تھے۔ علوم اسلامیہ میں جامع الکمالات تھے۔ تفسیر قرآن میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا ادیان باطلہ پر بھی ان کا مطالعہ وسیع تھا۔ مناظرے میں بھی ان کی بڑی شہرت تھی۔ عیسائیوں، آریوں، قادیانیوں، شیعوں، منکرین حدیث اور مقلدین احناف (دیوبندیوں، بریلویوں) کے ساتھ انہوں نے متعدد مقامات پر مناظرے کئے اور کامیابی سے ہمکنار ہوئے۔ مولانا محمد ابراہیم میر عبادت و ریاضت کے بہت زیادہ پابند تھے اس کے پوتے پروفیسر ساجد میر حفظہ اللہ اپنے ایک مضمون میں رقمطراز ہیں کہ:

مطالعہ، علمی و تبلیغی مشاغل اور لکھنا پڑھنا ان کی زندگی کا مقصد تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ تہجد اور ذکر صبح گاہی کے پابند تھے اور فجر سے بہت پہلے بیدار ہو کر نوافل سے فارغ ہونے کے بعد مطالعہ کے عادی تھے۔ نماز فجر کے بعد اپنے والد محترم کی بنا کردہ مسجد میں درس قرآن کے علمی موتی بکھیرتے۔ اور گھر آکر تھوڑا سا آرام کرنے کے بعد پھر لکھنے پڑھنے میں مشغول ہو جاتے یہ معمول آخر عمر تک رہا۔

وفات

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی نے ۱۲ جنوری ۱۹۵۶؁ء مطابق ۲۶ جمادی الاولیٰ ۱۳۷۵؁ھ بروز جمعرات سیالکوٹ میں انتقال کیا۔ اناللہ وانا الیہ راجعون۔ ان کی نماز جنازہ ۱۳ جنوری ۱۹۵۶؁ء بعد نماز جمعہ حضرت العلام مولانا حافظ عبداللہ محدث روپڑی نے پڑھائی۔ راقم کو مولانا سیالکوٹی کا جنازہ پڑھنے کی سعادت حاصل ہے۔

اللھم اغفرہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ۔

تصانیف

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی ایک جلیل القدر عالم و فاضل ہونے کے ساتھ بہت بڑے مصنف تھے۔ انہوں نے تفسیر قرآن، احادیث نبویﷺ، تاریخ و سیرت، سوانح، عقائد، فقہ، اخلاق، تردید عیسائیت، آریہ سماج، قادیانیت، انکار حدیث، شیعت پر چھوٹی بڑی (90) کے قریب کتابیں لکھیں۔ قادیانیت کی تردید میں آپ کی تصانیف کی تعداد (۲۱) ہے۔ جن کی مختصر تفصیل حسب ذیل ہے۔

1۔ شہادت القرآن (۲جلد)

مولانا محمد ابراہیم میر سیالکوٹی کی یہ عظیم الشان کتاب دو جلدوں پر محیط ہے۔ پہلی جلد میں حیات عیسیٰ علیہ السلام پر بحث ہے جس میں حیات عیسیٰ علیہ السلام پر ایسی گواہی ہے۔ کہ معروف آیت ’’وفی متوفیک و رافعک الی‘‘ کی ایسی بے نظیر تفسیر فرمائی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کومردہ بتانے والے بھی کذلک یحی اللہ الموتی ویریکم ایتہ لعلکم تتقون پکارے اٹھے۔

جلد دوم میں مرزا قادیانی کے پیش کردہ ان (۳۰) آیات کا تسلی بخش جواب ہے جنہیں اس نے ’’ازالہ اوہام‘‘ میں وفات عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں پیش کیا۔ مولانا میر سیالکوٹی نے اپنی اس کتاب میں مرزا قادیانی کی قلعی کھول دی ہے۔ اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا بجسدہ الصغری آسمان پر اٹھایا جانا ثابت کیا ہے۔

2۔ انجر الصیح عن قبر المسیح

مرزا قادیانی لکھتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور ان کی قبر کشمیر میں ہے۔ مولانا سیالکوٹی نے قرآن و حدیث اور آثار سلف سے یہ ثابت کیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ اور آسمان پر ہیں اور مرزا قادیانی اپنے اقوال میں جھوٹا ہے۔

3۔ ختم نبوت اور مرزائے قادیان

مرزا غلام احمد قادیانی نے سورۃ فاتحہ کی آیت (صراط الذین انعمت علیہم) سے رسول اکرمﷺ کے بعد بھی نبوت جاری رہنے کی دلیل پکڑی ہے مولانا سیالکوٹی کا یہ رسالہ اسی کے تردید میں ہے۔

4۔ رسائل ثلاثہ

یہ کتاب تین مضامین کا مجموعہ ہے۔

۱۔ امام زماں

۲۔ مہدی منتظر

۳۔ مجدد دوران

اس کتاب میں مرزا قادیانی کے مختلف دعوؤں کی تردید کی گئی ہے۔

5۔ نزول الملائکۃ والروح علی الارض

اس رسالہ میں فرشتوں کے بارے میں قادیانی کذاب کا جو عقیدہ ہے اس کی تردید کی گئی ہے۔

6۔ مرزا غلام احمد کی بد کلامیاں

اس رسالہ قادیانی دجال کی بد کلامیوں کا جواب بڑے اچھے انداز میں دیا گیا ہے۔

7۔ فص خاتم النبوۃ بعموم الدعوۃ و جامعیۃ الشریعۃ

اس رسالہ میں یہ بتایا گیا ہے کہ سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر سیدنا محمد رسول اللہﷺ تک نبوت کا سلسلہ کیوں جاری رہا۔ اور اب یہ سلسلہ کیوں جاری نہ رہ سکا اس کے علاوہ اس رسالہ میں ختم نبوت پر بڑے عمدہ پیرائے میں روشنی ڈالی ہے اور آخر میں مرزا قادیانی کے دعوؤں (مسیح موعود، مہدی، نبی) کی تردید کی گئی ہے۔

8۔ مسلم الوصل الی اسرار اسراء الرسول

قادیانی کذاب مرزاغلام احمد نے نبیﷺ کے معراج جسمانی کا انکار کیا ہے۔ اس لیے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے رفع الی السماء سے انکار کے لیے معراج جسمانی کے انکار کی ضرورت تھی۔ مولانا سیالکوٹی نے اپنے اس رسالہ میں قادیانی کذاب کے نقطہ نظر کی تردید کی ہے۔

9۔ صدائے حق

اس رسالہ میں مرزا قادیانی کے اس دعویٰ کی تردید کی گئی ہے کہ عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور اس کے ساتھ اس رسالہ میں یہ بھی بتایا ہے کہ مرزا قادیانی نہ مہدی موعود ہے نہ نبی و رسول بلکہ کذاب دجال اور شیطان ہے۔

10۔ 11۔ کھلی چھٹی نمبر ۱،۲۔

مرزائی مناظر غلام رسول آف راجیکی نے ایک رسالہ بنام ’’چھٹی‘‘ لکھا ہے مولانا سیالکوٹی نےاس رسالہ کے جواب میں دو رسائل بنام ’’کھلی چھٹی نمبر ۱،۲ تحریر فرمائے اور مرزائی مصنف کے دلائل کا دندان شکن جواب دیا۔

12۔ ختم نبوت

اس رسالہ میں قرآن و حدیث، آثار صحابہ و اقوال تابعین و آئمہ کرام مسئلہ ختم نبوت پر بڑے عمدہ انداز میں روشنی ڈالی ہے۔

13۔ آئینہ قادیانیت

یہ رسالہ بھی قادیانی عقائد کی تردید میں ہے۔

14۔ مرقع قادیانی

اس رسالہ میں بھی قادیانی خرافات کا جواب دیا گیا ہے۔

15۔ فیصلہ ربانی برمرگ قادیانی

یہ رسالہ پنجابی نظم میں ہے اور اس میں قادیانی عقائد کو پیش نظر رکھا گیا ہے۔

16 رحلت قادیانی بمرگ ناگہانی

اس رسالہ میں مرزا قادیانی کی موت جس عبرت ناک حالات میں ہوئی اس کو تفصیل سے بتایا ہے۔

17۔ تردید مفادات مرزائیہ

اس رسالہ میں جیساکہ نام سے ظاہر ہے اس میں مرزائیوں کے پیدا کردہ بعض مفاسلوں کی تردید کی گئی ہے۔

18۔ قادیانی حلف کی حقیقت

اس رسالہ کا موضوع اس کے نام سے ظاہر ہے۔

19۔ مرزا قادیانی کا آخری فیصلہ

مرزا قادیانی نے 15 اپریل 1907 ؁ء کو شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ کے نام ایک اشتہار شائع کیا جس کا عنوان تھا ’’مولوی ثناءاللہ کے ساتھ آخری فیصلہ‘‘ اس اشتہار میں قادیانی کذاب نے یہ دعا کی تھی کہ:

جھوٹا سچے کی زندگی میں مر جائے۔

اس کا یہ نتیجہ ہوا کہ قادیانی کذاب 25 مئی 1908   ؁ء کو واصل جہنم ہوا اور شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ نے 15 مارچ 1948 ؁ء کو رحلت فرمائی۔ مولانا امرتسری رحمہ اللہ نے مرزا قادیانی کی موت پر فرمایا:

کذب میں پکا تھا پہلے مر گیا

ؕنامرادی میں ہوا اس کا آنا جانا

مولانا سیالکوٹی رحمہ اللہ نے اپنے اس رسالہ میں اس آخری فیصلہ کی تفصیل بیان کی ہے۔

20۔ کشف الحقائق یعنی روداد مناظرات قادیانیہ

یہ کتاب اس مناظرہ کی روداد ہےجو قادیانیوں اور اہلحدیث کے مابین ماہ جون 1933 ؁ء کو سیالکوٹ میں ہوا تھا: اس کتاب میں فریقین کے دلائل جمع کئے گئے ہیں۔

21۔ قادیانی مذہب مع ضمیمہ خلاصہ مسائل قادیانیہ

اس رسالہ میں قادیانی عقائد پر بحث کی گئی ہے اور بتایا ہے کہ ایسا فضول اور مچر مذہب کوئی ذی ہوش انسان اختیار نہیں کر سکتا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے