وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ

پی جا ایام کی تلخی کو بھی ہنس کے ناصر

غم کو سہنے میں بھی قدرت نے مزا رکھا ہے

ہر انسان کو اپنی زندگی میں مصائب و مشکلات کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے چاہے وہ غریب ہو یا امیر، بوڑھا ہو یا جوان، نیک ہو یا بد، مرد ہو یا عورت، سب کو کبھی نہ کبھی مصائب و مشکلات وغیرہ سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔

اگر قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ مصائب اور مشکلات آنے کی دو وجوہات ہیں۔

1۔ بعض دفعہ اللہ رب العزت بندوں کو بطور امتحان مصائب و مشکلات میں مبتلا کر دیتے ہیں۔

2۔ بعض دفعہ اللہ رب العزت بندوں کے گناہوں کی وجہ سے انہیں مصائب سے دوچار کر دیتے ہیں۔

بطورِ امتحان مصائب و مشکلات

اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَلَنَبْلُوَنَّكُمْ بِشَيْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ ۭ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيْنَ، الَّذِيْنَ اِذَآ اَصَابَتْهُمْ مُّصِيْبَةٌ ۙ قَالُوْٓا اِنَّا لِلّٰهِ وَاِنَّآ اِلَيْهِ رٰجِعُوْنَ (البقرۃ 155،156)

اور ہم ضرور تمہیں خوف اور فاقہ میں مبتلا کر کے، نیز جان ومال اور پھلوں کے خسارہ میں مبتلا کر کے تمہاری آزمائش کریں گے۔ اور (اے نبی !) ایسے صبر کرنے والوں کو خوشخبری دے دیجئے۔ کہ جب انہیں کوئی مصیبت آئے تو فوراً کہہ اٹھتے ہیں کہ : ہم (خود بھی) اللہ ہی کی مِلک ہیں۔ اور اسی کی طرف ہمیں لوٹ کر جانا ہے۔

جنت میں گھر تعمیر

جو آدمی مصائب میں (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر تعمیر کردا دیتے ہیں۔

سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِذَا مَاتَ وَلَدُ العَبْدِ قَالَ اللَّهُ لِمَلاَئِكَتِهِ : قَبَضْتُمْ وَلَدَ عَبْدِي ، فَيَقُولُونَ : نَعَمْ ، فَيَقُولُ : قَبَضْتُمْ ثَمَرَةَ فُؤَادِهِ ، فَيَقُولُونَ : نَعَمْ ، فَيَقُولُ : مَاذَا قَالَ عَبْدِي ؟ فَيَقُولُونَ : حَمِدَكَ وَاسْتَرْجَعَ ، فَيَقُولُ اللَّهُ : ابْنُوا لِعَبْدِي بَيْتًا فِي الجَنَّةِ ، وَسَمُّوهُ بَيْتَ الحَمْدِ. (سنن الترمذي رقم الحدیث 1021،(2/ 332)

جب کسی آدمی کا بیٹا فوت ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے پوچھتے ہیں تم نے میرے بندے کے بیٹے کو قبض کر لیا؟ وہ کہتے ہیں جی ہاں! پھر اللہ تعالیٰ پوچھتے ہیں تب میرے بندے نے کیا کہا تھا؟ وہ جواب دیتے ہیں کہ اس نے تیرا شکر ادا کیا اور (انا للہ وانا الیہ راجعون) پڑھا تھا تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: تم میرے بندے کے لیے جنت میں ایک گھر بنا دو اور اس کا نام ’’بیت الحمد‘‘ یعنی شکرانے کا گھر رکھ دو۔

ایک اور روایت میں ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

مَا مِنْ مُسْلِمٍ تُصِيبُهُ مُصِيبَةٌ فَيَقُولُ مَا أَمَرَهُ اللَّهُ إِنَّا لِلَّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ اللَّهُمَّ أْجُرْنِى فِى مُصِيبَتِى وَأَخْلِفْ لِى خَيْرًا مِنْهَا. (صحيح مسلم (3/ 37)

جب مسلمان کوکوئی مصیبت پہنچے پھر وہ اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق پڑھے اور یہ دعا کرے کہ اے اللہ! مجھے میری مصیبت میں اجر دے اور اس مصیبت کے بعد مجھے خیر نصیب کر تو اللہ رب العزت اسے اس سے بہتر چیز عطا کر دیتے ہیں۔

پہلی امتوں کو بھی بطور آزمائش مصائب و مشکلات میں ڈالا گیا۔ اللہ رب العزت نے پہلی امتوں کو بھی آزمانے کے لیے ان کو مصائب، مشکلات، پریشانیوں وغیرہ میں مبتلا کیا۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَمْ حَسِبْتُمْ اَنْ تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ وَلَمَّا يَاْتِكُمْ مَّثَلُ الَّذِيْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ ۭ مَسَّتْهُمُ الْبَاْسَاۗءُ وَالضَّرَّاۗءُ وَزُلْزِلُوْا حَتّٰى يَقُوْلَ الرَّسُوْلُ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ مَتٰى نَصْرُ اللّٰهِ ۭ اَلَآ اِنَّ نَصْرَ اللّٰهِ قَرِيْبٌ   (البقرۃ 214)

کیا تم یہ خیال کرتےہو کہ یونہی جنت میں داخل ہوجاؤ گے جبکہ تمہیں ابھی وہ مصائب پیش ہی نہیں آئے جو تم سے پہلے ایمان لانے والوں کو پیش آئے تھے۔ ان پر اس قدر سختیاں اور مصیبتیں آئیں جنہوں نے ان کو ہلا کے رکھ دیا۔ تاآنکہ رسول خود اور اس کے ساتھ ایمان لانے والے سب پکار اٹھے کہ اللہ کی مدد کب آئے گی؟(اللہ تعالیٰ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے فرمایا) سن لو!اللہ کی مدد پہنچاہی چاہتی ہے۔

انبیاء کرام علیہم السلام اور مومنوں پر آزمائش

اللہ تعالیٰ ہر کسی کو مصائب و مشکلات دے کر آزماتے ہیں حتی کہ انبیاء کو بھی۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ سے سوال کیا:

أَيُّ النَّاسِ أَشَدُّ بَلاَءً ؟

اے اللہ کے رسولﷺ! سب سے سخت مصیبت کس پر آتی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا:

اَلأَنْبِيَاءُ ، ثُمَّ الأَمْثَلُ فَالأَمْثَلُ ، يُبْتَلَى الْعَبْدُ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ ، فَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ صُلْبًا ، اشْتَدَّ بَلاَؤُهُ ، وَإِنْ كَانَ فِي دِينِهِ رِقَّةٌ ، ابْتُلِيَ عَلَى حَسَبِ دِينِهِ ، فَمَا يَبْرَحُ الْبَلاَءُ بِالْعَبْدِ ، حَتَّى يَتْرُكَهُ يَمْشِي عَلَى الأَرْضِ ، وَمَا عَلَيْهِ مِنْ خَطِيئَةٍ. (سنن ابن ماجة (5/ 152)، ترمذی)

انبیاء علیہم السلام لوگوں میں سب سے زیادہ آزمائش میں مبتلا ہوتے ہیں پھر وہ جو سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے اور ہر شخص کو اس کی دینداری کے مطابق آزمایا جاتا ہے اگر وہ دینداری میں مضبوط ہو تو اس پر آزمائش بھی سخت آتی ہے اور اگر وہ اس میں کمزور ہو تو اس کے مطابق ہی اسے آزمائش میں ڈالا جاتا ہے اور آزمائش (مصائب ومشکلات) مومن بندے کو پریشان کئے رکھتی ہیں۔ حتی کہ وہ زمین پر اس حالت میں چلتا ہے کہ وہ گناہوں سے پاک ہو چکا ہوتا ہے۔

اس حدیث سے پتہ چلا کہ سب سے کڑی آزمائش انبیاء علیہم السلام پر آتیں ہیں پھر ان لوگوں پر جو ایمان والے ہیں نیک صاحب ایمان پر مصائب و مشکلات کا آنا اس کے لیے درجات کی بلندی کا ذریعہ ہے دنیا کی مصیبتیں مومن بندے کے لیے نعمت ہیں کیونکہ ان کی وجہ سے وہ آخرت کے عذاب سے بچ جاتا ہے اور یہ اللہ تعالیٰ کی اس سے محبت کی دلیل بھی ہے۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّ عِظَمَ الْجَزَاءِ مَعَ عِظَمِ الْبَلاَءِ وَإِنَّ اللَّهَ إِذَا أَحَبَّ قَوْمًا ابْتَلاَهُمْ فَمَنْ رَضِىَ فَلَهُ الرِّضَا وَمَنْ سَخِطَ فَلَهُ السَّخَطُ (سنن الترمذى(9/ 232)، ابن ماجہ)

بیشک آزمائش جتنی سخت ہو گی اتنا ہی بڑا انعام ملے گا اور اللہ تعالیٰ جب کسی قوم سے محبت کرتے ہیں تو انہیں آزمائشوں میں مبتلا کردیتے ہیں پھر جو شخص آزمائش پر راضی ہو جائے (یعنی اللہ تعالیٰ کا حکم سمجھتے ہوئے اس پر صبر کا مظاہرہ کرے) تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی ہوتے ہیں اور اگر جزع فزع کرے تو اللہ تعالیٰ اس پر ناراض ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مومن بندوں کو ان کی اولاد اور مال کو بھی ہلاک کر کے آزماتے ہیں۔

سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

مَا يَزَالُ الْبَلاَءُ بِالْمُؤْمِنِ وَالْمُؤْمِنَةِ فِى نَفْسِهِ وَوَلَدِهِ وَمَالِهِ حَتَّى يَلْقَى اللَّهَ وَمَا عَلَيْهِ خَطِيئَةٌ (سنن الترمذى (9/ 235)

آزمائش مومن مرد اور مومن عورت کا پیچھا نہیں چھوڑتیں کبھی خود اس پر مصیبت آ جاتی ہے کبھی اس کی اولاد پر اور کبھی اس کے مال پر یہاں تک کہ جب وہ اللہ تعالیٰ سے ملتا ہے تو اس کے نامہ اعمال میں کوئی گناہ نہیں ہوتا۔

مصائب و مشکلات انسان کے بُرے اعمال کا نتیجہ

مصائب و مشکلات وغیرہ نازل ہونے کا دوسرا بڑا سبب خود انسان کے بُرے اعمال ہیں۔ بُرے اعمال کی اصلی سزا تو مرنے کے بعد ملے گی مگر اللہ رب العزت دنیا میں بھی گناہوں کی وجہ سے بندوں کو مصائب و مشکلات میں مبتلا کرتے رہتے ہیں۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَمَآ اَصَابَكُمْ مِّنْ مُّصِيْبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ اَيْدِيْكُمْ وَيَعْفُوْا عَنْ كَثِيْرٍ   (الشوریٰ 30)

تمہیں جو کچھ مصیبتیں پہنچتی ہیں وہ تمہارے اپنے ہاتھوں کے کرتوتوں کا بدلہ ہے اور اللہ تعالیٰ تو بہت سی باتوں سے درگزر فرما لیتےہیں۔

یعنی کچھ برائیاں اور گناہ ایسے ہیں جن کی معمولی سزا دنیا میں ہی دے دی جاتی ہے اور اکثر گناہوں سے تو اللہ تعالیٰ درگزر فرما لیتے ہیں اور اگر اللہ تعالیٰ لوگوں کے تمام گناہوں پر دنیا میں ہی پکڑ فرمانا شروع کر دیں تو دنیا میں انسان و جنات تو کیا چرند و پرند اور دیگر مخلوقات کا بھی نام و نشان مٹ جائے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَى ظَهْرِهَا مِنْ دَابَّةٍ وَلَكِنْ يُؤَخِّرُهُمْ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا (فاطر: 45)

اور اگر اللہ رب العزت انسانوں کے اعمال (گناہوں، کرتوتوں وغیرہ) پرفورا مؤاخذہ شروع دیں تو زمین پر کوئی بھی چلنے والا باقی نہ رہے۔

مصائب کی وجہ سے گناہ معاف

مومن بندوں کو اگر کوئی مصیبت، پریشانی، تکلیف، غم، دکھ پہنچتا ہے تو ان مصائب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ مومن بندوں کے گناہ معاف کر دیتے ہیں۔ جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

ما من شيء يصيب المؤمن في جسده يؤذيه الا كفر الله عنه به من سيئاته (مسند أحمد بن حنبل (4/ 98)

مومن بندے کے جسم میں جو تکلیف پہنچتی ہے تو اس تکلیف کی وجہ سے اللہ رب العزت اس کے گناہوں کو معاف فرما دیتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ مومن بندوں کے ساتھ بہت زیادہ محبت کرتے ہیں جب اللہ تعالیٰ مومن بندوں کے گناہوں کو مٹانا چاہتے ہیں تو ان کو مصائب و مشکلات میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ جیساکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِذَا كَثُرَتْ ذُنُوبُ الْعَبْدِ وَلَمْ يَكُنْ لَهُ مَا يُكَفِّرُهَا ابْتَلاَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِالْحُزْنِ لِيُكَفِّرَهَا (مسند احمد اسنادہ ضعیف، وأورده الهيثمي في “المجمع” 3/291، وقال: رواه أحمد، وفيه ليث بن أبي سُليم، وهو مدلّس، وبقية رجاله ثقات، وأورده أيضاً 10/192 وقال: رواه أحمد والبزار، وإسناده حسن)

جب مومن کے گناہ بڑھ جاتے ہیں اور ان گناہوں کے کفارے کی کوئی صورت باقی نہیں رہتی تو اللہ تعالیٰ اس بندے کو رنج و غم میں مبتلا کر دیتے ہیں اور وہ غم و مصائب اس کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں۔ بلکہ کسی مومن بندے کو اگر ایک کانٹا بھی چبھ جاتا ہے تو وہ بھی گناہوں کو مٹانے کا سبب بن جاتا ہے۔ جیساکہ ہمارے پیارے نبی سیدنا محمد رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

مَا يُصِيبُ الْمُسْلِمَ مِنْ نَصَبٍ ، وَلاَ وَصَبٍ ، وَلاَ هَمٍّ ، وَلاَ حُزْنٍ ، وَلاَ أَذًى ، وَلاَ غَمٍّ حَتَّى الشَّوْكَةِ يُشَاكُهَا إِلاَّ كَفَّرَ اللَّهُ بِهَا مِنْ خَطَايَاهُ (صحيح البخاري (7/ 148)

مسلمان کو جو بھی پریشانی، غم، رنج، تکلیف اور دکھ پہنچتا ہے حتی کہ اگر اس کو کوئی کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کانٹے کے چبھنے کی تکلیف کو اس کے گناہوں کا کفارہ بنا دیتے ہیں۔

ایک اور حدیث میں ہے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُصِيبُهُ أَذًى إِلاَّ حَاتَّ اللَّهُ عَنْهُ خَطَايَاهُ كَمَا تَحَاتُّ وَرَقُ الشَّجَرِ (صحيح البخاري (7/ 149)

مسلمان بندے کو کوئی تکلیف نہیں پہنچتی مگر اللہ رب العزت اس تکلیف کی وجہ سے اس بندے کے گناہ ایسے جھاڑ دیتے ہیں جیسے درخت کے خشک پتے جھڑ جاتے ہیں۔

قارئین کرام معلوم ہوا کہ مصائب انسان کے لیے باعث رحمت ہیں بطور آزمائش ہوں یا بطور سزا، بطور آزمائش ہوں تو یہ محبت الہی کی دلیل ہیں بطور سزا ہوں تو گناہوں کا کفارہ ہیں اس لیے ہم کو مصائب سے گبھرانا نہیں چاہیے۔ شیخ الاسلام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اگر اللہ تعالیٰ بندوں کو دنیاوی مصائب و آلام سے دوچار نہ کرتے تو وہ سر کش ہو جاتے، تکبر، خود پسندی، سنگدلی میں مبتلا ہو جاتے یہ رحمت الٰہی ہی ہے اس نے مصائب کی مختلف دواؤں سے بندوں میں موجود ردی اور فاسد مادوں کا استفراغ کیا۔ (وللہ الحمد)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے