تیونس اور مصرکے انقلابی واقعات سے متاثر ہو کر شام میں پھوٹنے والی انقلابی لہر زوال پذیری کا شکار ہوکر فرقہ وارانہ خونریزی میں تبدیل ہو چکی ہے۔ انقلابی قیادت سے محرومی کے باعث امیدیں المیوں میں تبدیل ہو گئی ہیں۔ دوسری طرف امریکہ کا منافقانہ اور دھمکی آمیزرویہ بھی مضحکہ خیزرہا جو واضح طورپر امریکی طاقت کی اصل حدودوقیود کو ظاہرکرتاہے۔ طویل عرصے سے امریکہ اپنے آپ کو کسی کا جوابدہ نہیں سمجھتا تھا تاہم شام کی صورتحال پر اوباما کی بوکھلاہٹ نے دنیا میں طاقتوں کے نئے توازن کو عیاں کیا ہے۔ اس حقیقت کے باوجود کہ امریکہ سب سے بڑی جمہوری طاقت ہے، امریکہ کی زیر سرپرستی ”امن“ کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں جس کے دوررس اثرات بھی مرتب ہورہے ہیں۔ 12 سالوں کی بدترین خونریزیوں اور امریکہ کے قومی خزانے سے عسکریت پر بے پناہ اخراجات نے امریکہ کی لڑنے کی صلاحیت اور جرات کو پسپا کرکے رکھ دیا ہے۔ عراق اور افغانستان میں جارحیت کی عبرتناک ہزیمت کے بعد سے امریکہ کوشش کر رہاہے کہ وہ مشرق وسطیٰ کے معاملات سے باہر رہے۔ پنٹاگون، سی آئی اے اور اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ میں براجمان ماہرین اور حکمت سازوں کیلئے اب معاملات اتنے سادہ اور آسان نہیں رہے ۔

سارا مشرق وسطیٰ امریکی دائرہ اختیار سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ کئی حکومتوں کا پہلے ہی خاتمہ ہوچکا اور ایک کے بعد دوسرے ملک میں انقلاب کا لاوا ابل رہاہے۔ فرانس اور برطانیہ، جن کے بحری بیڑے، تاجر اور افواج کبھی ساری دنیا کو اپنے قدموں تلے روندتے پھرتے تھے، اب اپنے ہی سائے کے پیچھے بھاگتے پھررہے ہیں۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ ان کے لیڈروں کو اب کوئی پوچھتا ہی نہیں۔ یورپی یونین کے ممالک اپنے ہی اندرونی تضادات میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں۔ سوویت یونین کے انہدام کے بعد سے ذلت و ندامت سے نبردآزما روس بھرپور کوشش کررہاہے کہ وہ علاقے میں اپنے اثرورسوخ کو قائم کر سکے اور اس کیلئے وہ اپنی حیثیت سے بھی زیادہ ہاتھ پائوں ماررہاہے۔ خطے کا ایک شیر، ترکی کا مرد آہن، طیب اردگان اپنے ہی ملک میں ڈرامائی طورپرپھوٹ پڑنے والے انقلاب کی زد میں آیاہواہے۔ کئی سالوں کی انقلابی لہروں اور انتخابی نتائج کی حیرانی کی زد میں آنے والا ایران طاقت کا توازن کھوچکا۔ یہاں تک کہ اسرائیل کو بھی امریکہ کی ناکامی کی وجہ سے تنی ہوئی رسی پر چلنا پڑ رہا ہے۔ وہاں بھی بڑے عوامی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں۔ ہرطرف بڑھتے ہوئے عدم استحکام نے اسے مجبور کر دیاکہ اس کے لیڈر تمام تر روایتی بے چینی کے باوجود سکون کریں۔ صورتحال ایک ایسے خطرناک بارود کی شکل اختیارکرچکی ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔

اس قسم کی پرپیچ کیفیت میں امریکہ مایوس ہوکرایک طرف نہیں بیٹھ سکتا۔ اب بھی امریکہ کے زعم میں اس کے پاس چند ایک آپشن ہیں لیکن ان میں سے کوئی بھی امریکہ کیلئے خوش آئند ثابت نہیں ہوگا۔ عراق سے دم دبا کر بھاگنے کے بعد اور اسی طرح افغانستان میں خجالت کے بعد سے امریکہ نے دنیا کو یہ باور کروانا ہے کہ وہ ایک دیوہیکل عالمی طاقت ہے نہ کہ کاغذی شیر۔ امریکہ ایک طرف شام پر حملہ کرنے کے عزم کی بات کرتاہے لیکن دوسری جانب کسی بھی عملی پیش قدمی سے گریزاں ہے۔ بشارالاسد نے اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کرنے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ اس نے ہزاروں لاکھوں شہریوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا اور شہروں کے شہر کھنڈرات میں بدل کے رکھ دیے اوریقینا یہ سب اس نے روایتی ہتھیاروں کی مدد سے ہی کیا۔ بھلا اسے کیا پڑی تھی کہ وہ کیمیائی ہتھیار استعمال کر کے امریکہ کو شام میں براہ راست مداخلت کا کو ئی موقع یا جواز فراہم کرے؟ بشار بے رحم ضرورہے لیکن بیوقوف نہیں۔ شام میں کیمیائی ہتھیار استعمال ہوئے، اس بات پر شک وشبہ نہیں۔ لیکن یہ کس نے، کس کے حکم پر استعمال کئے؟ یہ ایک سوال ہے۔ کیا یہ کام شامی فوج کے کمانڈروں نے احکام کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کیا؟ کیا یہ کام ”باغی“ گروپوں میں سے کسی نے کیا تاکہ غیر ملکی مداخلت کوممکن بنایا جائے؟ کیا یہ بشار الاسد کے اپنے حکم پر ہوا؟ سچائی کیاہے، اس کا شاید پتہ نہ چل سکے۔ لیکن مغربی میڈیا کے معروف لفظ ”عالمی رائے عامہ“ نے فوری طورپر ہی یہ قرار دیا کہ بشارالاسد نے ہی اپنے لوگوں کو گیس کے ذریعے ماراہے اور اب ”ریڈ لائن“ سے بات آگے بڑھ چکی ہے چنانچہ کچھ کیاجائے۔

امریکہ کے پرانے اتحادیوں نے اس موقع پر آسمان سر پر اٹھالیا کہ اقوام متحدہ فوری طورپر حملے کیلئے منظوری دے اور ایک متفقہ کاروائی کی جائے، سرجیکل بمباری کی ایک مہم شروع کی جائے جس کی مدد سے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کی صلاحیت کو کمزور کردیاجائے۔ اس کے ساتھ ہی باغیوں کی مددسے اور ان کی معاونت کرتے ہوئے فضائی حملے شروع کردیے جائیں جس سے بشارالاسداور اس کی علوی حکومت کا خاتمہ آسان ہوجائے گا۔ اس خیال کو ترکی اور سعودی عرب کی تائید وحمایت میسر تھی۔ ماضی کامزار بن چکی اپنی سامراجیت کے زعم میں مبتلا فرانس اور برطانیہ نے پہل کرتے ہوئے فوری ملٹری ایکشن کا اعلان کردیا۔ لیکن شومئی قسمت کہ برطانوی وزیراعظم کو اپنی پارلیمنٹ میں اس مسئلے پر شکست ہوگئی، پھر فرانس نے بھی چاروناچاراقوام متحدہ سے رجوع کرنے کا کہہ دیا۔ جرمنی نے ابتدا میں تو ایکشن کی تائید کی، اسی طرح ڈنمارک جیسے چھوٹے ملک نے بھی جنگ کیلئے اپنی خدمات کی پیشکش کردی لیکن جلد ہی دونوں نے اپنی پوزیشنوں سے انحراف کرلیا اور اقوام متحدہ پر معاملہ چھوڑنے کا کہہ دیا۔

اس کیفیت نے دنیا کے ”طاقتور ترین انسان“ کو اپنے دوستوں اور اتحادیوں کے بارے میں سوچنے پر مجبورکردیا۔ وہ احکام صادر کرنے اور شام کی طرف پیش قدمی کرنے کی بجائے وائٹ ہائوس کے آنگن میں اکیلے چہل قدمی کرنے پر مجبور ہوگیا۔ امریکہ سمجھتا ہے کہ اس کیلئے طاقت کا مظاہرہ ضروری ہے تاکہ ایران، روس اور چین سمیت ان تمام طاقتوں کو پیغام بھیجاجاسکے جو امریکہ کی کمزوری کا ادراک رکھتے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کی سوچ رہے ہیں۔

امریکی عوام کی طرف سے امریکہ کے جنگ میں جانے کے خلاف رائے شدت اختیار کر چکی ہے۔ جائزے کے مطابق 80فیصد امریکی اس جنگ کے خلاف ہیں۔ اس کے بعد ڈیموکریٹس نے بھی موقع کو سمجھتے ہوئے اوبامہ سے نظریں پھیر لینا مناسب سمجھا۔ اوبامہ تنہا ہوکرمحض ایسے دوچار مصاحبین تک ہی محدود ہو کے رہ گیا جنہیں ایک ہی راگ ایک ہی گیت یاد ہوتا ہے ”کہیں نہ کہیں حملہ کرو“۔

اس دفعہ 20 کی سربراہی کانفرنس شام میں مارے جانے والے لوگوں کی لاشوں کے معاملے پر متوجہ رہی اور بالآخر ان لاشوں کے ٹھیکیدار ، امریکہ اور روس دونوں اس نتیجے پر پہنچے کہ ان کا اس معاملے میں اتفاق نہیں ہوسکتا۔ کانفرنس میں تلخ کیفیت رہی کیونکہ اوبامہ نے بھر پور کوشش کی کہ وہ حملے کیلئے سپورٹ حاصل کر سکے۔ لیکن بحرانوں، بے یقینیوں اور عدم استحکام کی عالمگیر کیفیت میں تعلقات اور معاملات میں حیران کن ڈرامائی تبدیلیاں واقع ہورہی ہیں۔ یہ موجودہ عہد کا خاصہ ہے۔ مضحکہ خیز لیکن سنجیدہ کیفیت اس وقت سامنے آئی جب روس اور شام کے وزرائے خارجہ سرجی لواروف اور ولید معلم نے مشترکہ طورپر یہ قراردے دیا کہ بشارالاسد روس کی حکومت کی اس تجویز پر عملدرآمد کیلئے تیار ہے کہ وہ اپنے کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے کو عالمی کنٹرول کے تحت کردے۔ تجویز کے ایک حصے کے طورپر، یہ ہتھیار ضائع کردیے جائیں گے اور شام کیمیائی ہتھیاروں کے بارے میں عالمی کنونشن کا حصہ بن جائے گا۔ عین موقع پر کہ جب جنگ مسلط ہونے جارہی تھی، روس اور شام کی جانب سے سامنے آنے والی اس تجویز نے اوبامہ کے جنگ کرنے کے غبارے سے ہوا نکال دی، چنانچہ اس اعلان سے تمام ”معززین“ کا بھرم باقی رہ گیا۔

روس کی طرف سے تجویز آنے اور شام کی جانب سے اسے فوری طورپرتسلیم کرنے کے بعد اوبامہ نے اپنی دھن بدل لی۔ اس نے کانگریس سے کہا کہ وہ جنگ پر اپنی ووٹنگ روک لے کیونکہ اب معاملہ سفارتکاری سے حل کئے جانے کی تگ ودو شروع ہو چکی ہے، اوبامہ کو کانگریس سے جنگ کیلئے ہاں کا ووٹ نہ ملنے کا بھی اندیشہ تھا اور اس لیے بھی کہ وہ اپنی بے بسی کو چھپا سکے۔

9 ستمبر کی رپورٹ میں بی بی سی نے لکھا ہے ” یورپ کے دورے میں جب جان کیری جنگ کیلئے تائیدوحمایت کیلئے متحرک تھا، اس دوران ایک پریس کانفرنس میں جب اس سے پوچھا گیا کہ کیا شام کے پاس کوئی راستہ ہے کہ وہ اس جنگ سے بچ جائے تو اس کا جواب دیتے ہوئے کیری نے کہا کہ ہاں اگر شام کی حکومت ایک ہفتے کے اندر اپنے کیمیائی ہتھیاروں کو عالمی برادری کے حوالے کر دے تو جنگ سے بچا جا سکتا ہے“۔ کیا جان کیری کے یہ الفاظ کسی سفارتی کوشش کی ابتدا کی نشاندہی کرتے ہیں؟ یا پھر یہ ایک دھمکی ہے؟ یہ آئیڈیا جہاں سے بھی آیا ہو، اوبامہ انتظامیہ نے جان کیری کی پوزیشن کو فوری سر آنکھوں پر لیا۔ دوسری جانب جان کیری کے ان الفاظ پر سب سے پہلے روس نے تالیاں بجائیں۔ شام کی جانب سے فوری طورپر خیرمقدم کیا گیا۔ اور یوں امریکہ کا متذبذب منصوبہ جنگ سے پہلے ہی کمزور پڑگیا۔

اوبامہ کویہ قبول کرنا پڑا کہ اس قسم کا معاہدہ قابل عمل ہوسکتاہے۔ اس نے کہا کہ شام کے لوگوں کی بہتری کیلئے امریکہ شام کی نگرانی جاری رکھے گا۔ امریکہ کا یہ بیان اسکی پسپائی اور کمزوری کا ایک اور ثبوت تھا۔ اوبامہ نے کہا کہ ہم کوشش کریں گے کہ اس معاہدے سے وہی مقاصد حاصل کر لئے جائیں جو امریکہ کو جنگ کے نتیجے میں متوقع تھے اور جن کے بعد کیمیائی ہتھیار استعمال نہیں ہو سکیں گے۔ نیویارک ٹائمز کے مطابق”اس قسم کے پروگرام کی نگرانی کرنا، اگرچہ شام نے قبول بھی کرلیاہے تو بھی ایک جان جوکھم کا کام ہوگاجو بہت طویل اور صبر آزماہوگا۔ خاص طورپر اس لئے بھی کہ بشارالاسد نے بہت پہلے سے اپناہتھیاروں کا ذخیرہ کہیں چھپا دیاہواہے۔ یہاں تک کہ ایک سخت گیر نگرانی کی مہم کو بھی اپنے مقصد کے حصول میں سالوں لگ سکتے ہیں کہ وہ کیمیائی ہتھیاروں کا سراغ لگا سکے اور وہ بھی اس بے یقینی کی کیفیت میں کہ یہ ہیں بھی یا نہیں۔ ایسا ہی جواز بناکر صدر بش نے 2003ءمیں عراق پر جارحیت کی تھی۔“

یقینا یہ بیان اپنی کمزوری اور ناکامی کا اعتراف ہی ہے۔ اسی مضمون میں نیویارک ٹائمزنے یہ وضاحت بھی کی ہے کہ ”اوبامہ کی جانب سے نئے موقف (روسی منصوبے ) کو تسلیم کرنے سے اوبامہ کو اس عسکری جارحیت سے بچنے کا موقع ملا ہے جس کا حکم جاری کرنے کیلئے وہ ہچکچا رہاتھا۔ یہ ایک ایسی کیفیت میں ہوا جب جنگ کی اجازت دینے کے معاملے پر سپورٹ حاصل کرنے کی امید ہاتھ سے نکلتی چلی جارہی تھی، یہاں تک کہ شروع میں جو پارلیمنٹیرین حملے کے حق میں تھے، وہ بھی پیچھے ہٹ گئے تھے“۔

سی این این کو دیے گئے اپنے انٹرویو میں صدر اوبامہ نے روس کی جانب سے لائی گئی تجویز کو ایک مثبت قدم قراردیا، ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہاکہ شام پر عسکری حملے کے تاثر کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔ اس نے روس کی تجویز اور اس پر شام کی آمادگی کا کریڈٹ لیتے ہوئے کہا کہ چونکہ امریکہ سختی سے حملے کے موقف پر قائم رہا، اسی لئے تو یہ ممکن ہورہاہے۔ سی این این نے اس موقع پر جو سرخی جمائی وہ یہ تھی ”شام نے گھٹنے ٹیک دیے“۔ حالانکہ جاننے والے جانتے ہیں کہ گھٹنے کون ٹیک گیا۔

امریکہ کے اندر اوبامہ کیلئے پچھلے کافی عرصے سے صورتحال بدسے بدتر ہوتی چلی جارہی ہے۔ اوبامہ کئیر سے لے کر تجارتی خسارے کی انتہا تک، امیگریشن اصلاحات سے لے کر سوشل سکیورٹی میں کٹوتیوں تک، اوبامہ کی سب مشہور پالیسیاں یا تو تعطل کا شکار ہوچکی ہیں یاپھرمنظرنامے سے باہر ہوگئی ہیں۔ سب کچھ شام کے بحران کی لپیٹ میں آیاہواہے۔ یہ سب ظاہرکرتاہے کہ امریکی حکمران طبقہ کس قدر ٹوٹ پھوٹ اور اضطراب کا شکار ہوچکاہے کہ اب وہ مستقبل میں پیش آنے والے فیصلہ کن واقعات سے نپٹنے سے گھبرا رہا ہے۔ بحران کی وجہ سے پہلے ہی وائٹ ہائوس اور پنٹاگان کے درمیان تضادات بڑھ گئے ہیں۔ ایک ریٹائرڈ میجر جنرل اور امریکی وارکالج کے سابق کمانڈر، رابرٹ ایچ سکیلز نے واشنگٹن پوسٹ میں اپنے ایک مضمون میں امریکی فوج کی اعلیٰ قیادت کے نقطہ نظرکو بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” سب لوگ اوبامہ انتظامیہ کی جانب سے کوئی قابل عمل اورموثر حکمت عملی نہ بناسکنے کی نادانیوں کے ہاتھوں بہت تنگ آچکے ہیں۔ وائٹ ہائوس میں کسی ایک کوبھی جنگ کے متعلق کوئی تجربہ ہے نہ ہی کوئی فہم و ادراک۔ جہاں تک اس کیفیت کا تعلق ہے یہ تو بہر طور جنگ کے اصول و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ ہماری تو حیرانی دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔“ یہ حقیقت ہے کہ امریکی فوج کے کچھ حصے یہ چاہ رہے ہیں کہ ان کا موقف زیادہ واضح انداز میں لوگوں کے سامنے آتا رہے اور اس کی وجہ سے امریکی حکمران طبقات میں خطرے کی گھنٹیاں بج رہی ہیں۔

اس بات کو سمجھنے کیلئے کہ سطح کے نیچے کس قسم کے تضادات موجود ہیں، ہمیں ظاہری صورتحال سے بالا تر ہوکر تجزیہ کرنا ہوگا۔ شام کے اندر کیمیائی ہتھیاروں کے ذخیرے نہ توپہلے کبھی اصل وجہ تھی نہ ہی اب ہیں۔ شام کی حکومت کی جانب سے کیمیائی ہتھیاروں کو عالمی کنٹرول میں دینے کا وعدہ کر لینے سے اس کی پوزیشن پر کوئی فرق نہیں پڑا البتہ یہ ضرور ممکن ہوا ہے کہ اس کے بعد اس کی طاقت میں اضافہ ہوگیا۔ بشار حکومت یہ کہہ سکتی ہے کہ اس نے عالمی مطالبے کو تسلیم کیاہے۔ اسے کھلا موقع مل گیا کہ وہ روایتی ہتھیاروں کی مددسے عوامی فوج کا قلع قمع کرنے میں مزید مستعد ہو گیا ہے۔ امریکی حکومت کیمیائی ہتھیاروں کو ایک بہانے کے طورپر استعمال کرکے شام میں مداخلت کارستہ ہموارکرناچاہتی ہے۔ اوبامہ، کیمرون، ہالینڈے یہاں تک کہ پوٹن تک کو بھی شام کے لوگوں کی حالت زار سے کوئی دلچسپی نہیں۔ شام کے لوگ ان حکمرانوں کی جیو پولیٹیکل حکمت سازی کا محض ایک چھوٹا سا جزوہیں۔ امریکی سامراج کا حقیقی مقصد شام کی حکومت کو کمزورکرنااور اس کے گھٹنے ٹکواناہے تاکہ ایسی کیفیت پیداہوجائے کہ نہ تو حکومت اور نہ ہی عوامی فوج کو بالادستی حاصل ہو سکے۔ اس کے بعد لامحالہ دونوں تھکے ہارے متحارب فریقین کو مذاکرات کیلئے تیار کیا جائے گاجن کے ذریعے مختلف سامراجی حکومتوں کے مفادات کی بندر بانٹ آسان ہو سکے گی۔ اس حکمت عملی پر کام کیلئے ضروری ہے کہ وہاں جاری خانہ جنگی کو طوالت دی جائے، اس امید کے ساتھ کہ آپس میں لڑ لڑ کر دونوں فریق کمزور ہو جائیں گے۔ آہستہ آہستہ یہی حربہ وہ پورے ایشیا پر مذہبی فسادات کے نام سے استعمال کرنا چاہتا ہے۔ اس وقت تک اس لڑائی کے نتیجے میں ڈیڑھ لاکھ سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ لڑائی کے مزید طول اور شدت پکڑنے کا مطلب ہوگا مزید انسانوں کی موت لیکن امریکہ اور اسکے حمایتی سامراج کے لیے یہ اموات قابل قبول ہوسکتی ہیں کیونکہ یہ کیمیائی ہتھیاروں سے نہیں ہوں گی !

اس حکمت عملی کے ذریعے بشارالاسدکے خاتمے یا خاموشی سے اسے منظر عام سے ہٹانا مقصود ہے، جبکہ اس کی حکومتی مشینری کا بڑاحصہ قائم رہے گا۔ امریکی وہ غلطی نہیں دہراناچاہیں گے جو وہ عراق میں کر چکے، جہاں انہوں نے نہ صرف صدام کو بلکہ اس کے ریاستی اور عسکری ڈھانچے کو بھی اکھاڑ پھینکاتھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ عراق میں ایک ایسی آگ بھڑک چکی ہے جو کسی کے بھی قابو میں نہیں ہے۔ لیکن امریکی بشارالاسد کے خلاف جس عوامی فوج کی پشت پناہی کرتے آرہے ہیں، وہ بھی ان کے لیے ناقابل اعتبار ہیں۔ ان میں سے بیشتر القاعدہ سے منسلک مجاہدین ہیں۔ بشارکے گرنے کے بعد پیداہونے والے خلا سے یہ عوامی فوج فائدہ اٹھاسکتی ہے۔ اوبامہ کے ہاتھ اپنے ہی ملک میں جنگ مخالف وسیع عوامی مزاحمت اور روس کی نئی سفارتی چالبازی نے باندھ دیے ہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ اتحادیوں کا ایک رازدان ایڈورڈ سنوڈن بھی روس کی پناہ میں ہے۔ آخرکار ایک ایسی پوزیشن آئے گی کہ جب ہر ایک کو اپنی اپنی عزت بچا کر صورتحال سے باہر نکلنے کی سوجھے گی لیکن اس کے ساتھ ہی ہر ایک جانتا ہے کہ ہونا کیا ہے۔ اوبامہ اور جان کیری کو پوٹن اور بشار نے سفارتی سازشوں سے لاچار کر دیا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکہ کی اس حالیہ کاوش کو سخت دھچکا لگاہے جس کے ذریعے وہ دنیا کو دکھانا چاہ رہاتھا کہ وہ کتنا طاقتور ہے۔ یہ امریکہ کی عالمی پیمانے پرہر لحظہ کمزور سے کمزورتر ہوتی طاقت کا بدیہی اظہار ہے۔ یہ ایک ایسا ترش پھل ہے جو ”سپرپاور“ کو چاروناچار چکھناہی پڑے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے