انسان کی فطرت بھی عجیب ہے۔ اگر اس کے ساتھ کوئی نیکی کرے تو اس کے معاوضے کے لیے سالہا سال میں بھی تیار نہیں ہوتا۔ لیکن اگر اس کے ساتھ برائی کی جائے تو جلد سے جلد انتقام لینا چاہتا ہے۔ بدی کی مکافات کا جذبہ اس کے دل میں بہت جلد پیدا ہوتا ہے اور بری طرح پیدا ہوتا ہے۔ انتقام کا بھوت اس کے حواس معطل کر دیتا ہے آسمانی فرشتے ’’واعفوا واصفحوا‘‘ کی صدا بلند کرتے ہیں اور ’’والکاظمین الغیظ‘‘ کے نعرے لگاتے ہیں لیکن اسے کچھ سنائی نہیں دیتا۔

رب تعالیٰ کا آئین ہے کہ بدی کی سزا بدی کے برابر اور نیکی کی جزا دس گناہ دی جاتی ہے لیکن انسانی فطرت کا قانون اس کے برعکس ہے ایک انسان نیکی کا بدلہ اگر دیتا ہے تو نیکی کے بقدر لیکن بدی کا بدلہ وہ دس گنا زیادہ لینا چاہتا ہے۔

پس اگر کوئی اسے ’’تم‘‘ کہتا ہے تو وہ اسے ’’تو‘‘ کہتا ہے اور جو اسے ’’تو‘‘ کہتا ہے تو اس کا جواب گالی سے دیتا ہے پھر اس کا جواب زبان کے بجائے ہاتھ سے دینا چاہتا ہے موقع ہو یا نہ ہو لیکن اس کا انتقام لینے کی طرف بالبطع میلان ہے۔ اور میلان بھی ایسا ہے کہ دوسرا میلان اس کی برابری نہیں کر سکتا۔ اس لیے اس کی روک تھام میں سب سے زیادہ اہتمام چاہے۔ انتقام ایک وحشیانہ فعل ہے قانونی نہیں۔قانون کا کام یہ ہے کہ انتقام کی راہ کو بند کرے جو شخص کسی کے ساتھ برائی کا مرتکب ہوتا ہے وہ قانون سے تجاوز کرتا ہے لیکن جو شخص اس کا عوض لیتا ہے وہ قانون کو معطل کرتا ہے۔

دشمن سے انتقام لینے میں آدمی اس کے برابر بلکہ اس سے بدتر ہو جاتا ہے مگر معاف کرنے میں اس سے بڑھ جاتا ہے کیونکہ بزرگوں اور بادشاہوں کا کام ہے معاف کرنا۔

دانشمند حال اور استقبال کی طرف توجہ کرتے ہیں ماضی کی باتوں کویہ سمجھتے ہیں کہ وہ ہو چکیں۔

ایک شخص نے اپنے بے وفا دوستوں کے بارے میں کہا کہ دوست جو برائی کریں وہ معاف نہیں ہو سکتی کیونکہ حکم یہ ہے کہ دشمنوں کی خطائیں معاف کرو نہ کہ دوستوں کی۔ لیکن اس میں بھی ہمیں افراط و تفریط سے بچ کر اعتدال کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ یہ امر تحقیق شدہ ہے کہ جو شخص انتقام کے درپے رہتا ہے اور اپنے زخموں کو ہرا رکھتا ہے اگر وہ انتقام کے درپے نہ رہتا تو یہ زخم بھر کر خود بخود اچھا ہو جاتا۔

بہترین اور سخت ترین انتقام یہ ہے کہ تم اپنے دشمنوں کے ساتھ نرمی اور شیریں کلامی کے ساتھ ان کی ہڈیاں توڑ دو اور ان کے سر پر کوئلے جدا کر دو ان کی روح کو مجروح کرو اور ان کی خطائیں معاف کر کے اپنی روحانی خوشیوں کی پرورش کرو۔

انتقام استقائے روح ہے کہ اس سلسلہ میں ہم جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس سے خود ہم ہی کو زیادہ تکلیف پہنچتی ہے جو شخص انتقام لیتا ہے وہ برائی کرنے والے سے زیادہ برا ہوتا ہے اسی جذبہ انتقام کی بدولت سلطنتیں تباہ ہو جاتی ہیں۔ خاندان برباد ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے تمام پروگرام زیر و زبر ہو جاتے ہیں لہذا انسان کی بہتری اسی میں ہے کہ وہ اپنے دل و دماغ سے انتقام اور کینہ کو نکال کر پھینک دے انتقام لینا وہ پہلی شیطانی حرکت ہے جو شیطان نے آدم علیہ السلام سے کی لہذا انسان سے شیطان کے کام کرانے والا انتقام سے زیادہ اور کام کوئی نہیں۔ انتقام میں اپنے ہی مزاج کا زہریلا پن اپنے اوپر اثر انداز ہوتا ہے۔ اگر تم پورا انتقام نہیں لے سکتے تو فی الحال تم اس تکلیف میں مبتلا رہو گے اور اگر پورا بدلہ لے سکتے ہو تو آئندہ خود سخت ترین رنج اٹھاؤگے انسان کو انتقام سے زیادہ کوئی چیز گذند رساں نہیں جو کہ اس کو خود اپنے آپ سے پہنچتا ہے۔

انتقام غصہ کی سب قسموں سے زیادہ سخت قسم ہے جو شخص کسی کو ضرر پہنچاتا ہے وہ برائی شروع کرتا ہے مگر وہ اس برائی کا انتقام لیتا ہے وہ اس کو بے انتہا بڑھاتا اور ایک ایسی مستقل بے عزتی اور بے آرامی خریدتا ہے۔ جس کو نیک دلی اور خوش چلنی بھی الگ نہیں کر سکتی لہذا اپنے فائدے کو مدنظر رکھتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ جو شخص ہمیں ضرور پہنچائے ہم اس کی مثل بدتر نہ بنیں۔

انتقام کا جذبہ کیوں پیدا ہوتا ہے؟

آپ نے کبھی غور کیا کہ انتقام کا جذبہ کیونکر پیدا ہوتا ہے؟ صرف ذاتی مفاد کی مخالفت پر یہ جذبہ ابھرتا ہے خواہ یہ مفاد مال سے آبرو سے یا خواہ جان سے تعلق رکھتا ہو مثلا کوئی شخص کسی کو مالی نقصان پہنچائے یا اس کی توہین کرے یا اس کے جسمانی تکلیف کا باعث ہو۔ تو فورا انتقام کے لیے آمادہ ہو جائے گا۔

جب انتقام کی آگ بھڑکتی ہے اور کوئی شخص بدلہ لینے کے لیے آمادہ ہوتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنی قوتوں کا جائزہ لیتا اور دیکھتا ہے کہ اسکے اندر کون سی ایسی طاقت موجود ہے جسے وہ اپنے حریف کے خلاف کامیابی سے استعمال کر سکتا ہے۔ پس انسان میں جو خاص طاقت ہوتی ہے وہ اسے استعمال کر کے اپنے حریف کو نقصان پہنچاتا ہے اور انتقام کے جذبے کو تسکین دیتا ہے۔ چنانچہ ایک تنومند اور طاقتور انسان جب کسی سے انتقام لینا چاہتا ہے تو اس کی رگوں میں خون کھولنے لگتا ہے اس کے بازوؤں کو جنبش ہوتی ہے اور وہ اپنے حریف کو زدوکوب کی دھمکی دیتا ہے یا بالکل مغلوب الغضب ہو کر اسے جسمانی آزار پہنچاتا ہے اور اس طرح اپنے دل کا بخار نکالتا ہے بہرحال انتقام کا جذبہ بہت خوفناک ہے۔

اگر لوگوں کو صبر وتحمل کی عادت ہو جائے اور وہ واقف ہو جائیں کہ عفو میں بھی لذت ہے تو انسانی زندگی ہزارہا تلخیوں اور نامرادیوں سے پاک ہوجائے۔ اگر صبر کی تکلیف نہ اٹھائی جائے تو کم از کم غوروفکر سے مدد لے کر معاملات کو آسان بنایا جاسکتا ہے مثلا جب کسی شخص سے بدی سرزد ہو تو اس کے اسباب پر غور کریں اور جب انتقام کا جذبہ ہمارے دل میں پیدا ہو تو اس کے انجام و عواقب کو پہلے سوچ لیں صرف ان باتوں پر عمل کرنے سے بڑی حد تک انتقام کی آگ فرد ہو جائے گی اور ہمارے قلوب بغض و عداوت کی آلودگیوں سے نجات پا جائیں گے اللہ تعالیٰ سے اگر کسی کو جسمانی مالی اجتماعی یا علمی طاقت یا حکومت عطا کی ہے تو اس عطیہ الہی کو انتقام اور ایذا ہی میں صرف کرنا اس کی بد ترین توہین ہے جس سے ہر شکر گزار بندے کو اجتناب کرنا چاہیے۔

ایک جنگ میں سیدنا علی رضی اللہ عنہ اپنے دشمن کے سینے پر چڑھ بیٹھے قریب تھا کہ اسے خنجر سے قتل کردیں کہ دشمن نے آپ کے منہ مبارک پر تھوک دیا آپ فورا اس کے سینے سے اتر آئے دشمن نے غیر متوقع اور بے محل مہربانی کی وجہ دریافت کی تو آپ نے فرمایا: پہلے تم سے اللہ کے لیے دشمنی تھی اب ذاتی غصہ و انتقام کا نتیجہ ہو گی۔ عفو اسلامی کی اس مثال سے وہ شخص مسلمان ہو کر کفار کے ساتھ لڑتا رہا۔ (گلدستہ اخلاق)

تاریخ میں بعض ان جابروں کے قصے ہیں جنہوں نے اپنے دشمنوں کو شدید ایذاہیں اور تکلیفیں پہنچا پہنچا کر مارا پھر ان کو قتل کر کے بھی چین نہ ملا تو ان مردوں کو سولی دی ظاہر بات ہے کہ مردہ کو سولی سے نہ تکلیف ہوتی ہے نہ کوئی احساس کیونکہ روح جسم کا ساتھ پہلے ہی چھوڑ چکی ہے لیکن زندہ قاتل کو انہیں زیادہ سے زیادہ ایذا پہنچا کر سکون ملتا ہے ایسے اذیت پسندوں کے دل کی آگ کبھی ٹھنڈی نہیں ہوتی ان کے انتقام کا شعلہ کبھی نہیں بجھتا حتی کہ وہ دشمنوں سے پہلے خود انہیں کو اندر سے جلاتا رہتا ہے۔ کیا یہ تعجب اور افسوس کی بات نہیں کہ بنی امیہ کے سقوط کے بعد بنو عباس کے بعض خلفاء نے انتقام کی آگ یوں ٹھنڈی کی کہ پہلے مرے ہوئے مردوں اور ان کی ہڈیوں کو نکال کر سولی پر لٹکایا پھر انہیں جلا دیا یہ اسی اندھے جذبہ انتقام کا شاخسانہ تھا جو خود منتقم کی ذات کے لیے بھی سوہان روح ہوتا ہے اس کے اعصاب اس کے راحت اور سکون و اطمینان سب کو غارت کر ڈالتا ہے۔

حکماء کے بقول:

جاہل کو دشمن اتنا نقصان نہیں پہنچاتے جتنا وہ خود اپنے آپ کو پہنچا دیتا ہے۔

وَاِذَا خَلَوْا عَضُّوْا عَلَيْكُمُ الْاَنَامِلَ مِنَ الْغَيْظِ ۭ قُلْ مُوْتُوْا بِغَيْظِكُمْ (اٰل عمران 119)

وہ لوگ جب تمہیں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے مگر جب علیحدہ ہوتے ہیں تو تم پر غصہ کے مارے اپنی انگلیاں کاٹنے لگتے ہیں ۔ آپ ان سے کہئے کہ اپنے غصہ میں جل مرو۔

غصہ پی جانے والے محسن ہیں جو سینہ میں بھی غصہ دبا کر رہ جاتے ہیں سب و شتم اذیت و عداوت وغیرہ کا اظہار نہیں بلکہ اپنے آپ پر جبر کر کے انتقام کا خیال چھوڑ دیتے ہیں یہی لوگ صحیح احسان والے ہیں اللہ تعالیٰ ہم کو بھی ایسا بنا دیں۔ آمین ثم آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے