ان الحمد للہ وحدہ و الصلاۃ والسلام علی من لا نبی بعد ہ وعلی الہ وصحبہ وازواجہ و ذریاتہ واہل بیتہ و علی خلفاء ہ الراشدین المھدیین منھم ابوبکر و عمر و عثمان و علی رضی اللہ عنھم اجمعین

بے اعتبار شخص تھا سو وار کر گیا،لیکن میرے شعور کو بیدار کر گیا،کچھ وہ شکایتیں سر بازار کر گیا،پہلے وہ میری ذات کی تعمیر میں رہا ،پھر مجھ کو اپنے ہاتھ سے مسمار کر گیا،وہ آ ملا تو فاصلے کٹتے چلے گیے،بچھڑا تو راستے میرے دشوار کر گیا،بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی ،اک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا.

زندگی اس دنیا میں آنے کا نام ہے اور موت اس دنیا سے رخصت ہونے کا نام ہے قانون الہٰی ہے جو اس دنیا میں آیا ہے اس نے اس دنیا سے واپس ضرور جانا ہے اور وہ وقت کب آجا ئے کوئی نہیں جانتا ۔ رب العالمین نے اس موت و حیات کے قانون کا مقصد سورۃ الملک میں بیان فرمایا۔

اَلَّذِيْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الملك: 2)

کامیاب وہ ہی شخص ہوگا جو اپنی زندگی کو مقصد الہٰی کے مطابق اس کے تابع ہو کر گزارے اور موت کے وقت اس کو یہ عندیہ مل جائے

يَا أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّةُ ارْجِعِي إِلَى رَبِّكِ رَاضِيَةً مَرْضِيَّةً فَادْخُلِي فِي عِبَادِيْ وَادْخُلِيْ جَنَّتِيْ (الفجر: 27 – 30)

اور اس موت کا کیا کہنا کہ جس موت سے حیاتِ ابدی مل جائے اور رب العالمین اعلان فرما دیں

وَلَا تَحْسَبَنَّ الَّذِينَ قُتِلُوْا فِي سَبِيْلِ اللهِ أَمْوَاتًا بَلْ أَحْيَاءٌ عِنْدَ رَبِّهِمْ يُرْزَقُونَ (آل عمران: 169)

تاریخ میں ایسے ولی کامل بہت کم گزرے ہیں جنہوں نے رب سے اپنی موت مانگی اور رب نے انکا خاتمہ انکی مرضی و منشاء کے مطابق فرما دیا۔ ایسی ہی ایک ہستی سرخیل مسلک اہل حدیث کی ممتاز علمی شخصیت عظیم سیاسی لیڈر اسلام کے بے باک سپاہی شہید ملت اسلام علامہ احسان الہٰی ظہیر ر حمہ اللہ کی ذات ہے۔ جنہوں نے اپنی تقاریر میں متعدد بار رب سے شہادت کی دعا مانگی اور بلاخر 23 مارچ 1987کو مینار پاکستان میں ایک عظیم الشان جلسہ سے خطاب کر تے ہوئے دھماکے میں زخمی ہوگئے۔

اس وقت آپ کے ساتھ اسٹیج کی زینت مولانا حبیب الرحمن یزدانی اورمولانا عبد الخالق قدوسی محمد خان نجیب مولانا محمد شفیق پسرور ی جیسے علماء کے علاوہ شیخ احسان الحق نعیم بادشاہ رانا زبیر فاروق جیسے مخلص کارکن موجود تھے۔

(ذیل میں علامہ احسان الٰہی ظہیر رحمہ اللہ کے حوالے سے کچھ معلومات لکھی جاتی ہیں۔)

ولادت :

آپ رحمہ اللہ 31 مئی 1945 بمطابق 18 جمادی الاول بروز جمعرات سیالکوٹ کے محلہ احمد پورہ میں ایک دیندار گھرانے میں پیدا ہوئے ۔ آپ کے والد حاجی ظہور الہٰی امام العصر حضرت مولانا ابراہیم میر سیالکوٹی کے عقیدتمندوں میں سے تھے۔ آپ تمام بہن بھائیوں میں بڑے تھے ۔

تعلیم و تربیت :

ابتدائی تعلیم اپنے گائوں کے ایم بی پرائمری اسکول میں حاصل کی اس دوران ابھی آپ کی عمر ساڑھے سات برس ہی تھی کہ آپ کو اونچی مسجد میں قرآن مجید حفظ کرنے کے لیے بھیجا گیا۔ آپ کو بچپن سے ہی پڑھنے لکھنے کا شوق تھا۔خداداد ذہانت و فطانت اور اپنے ذوق و شوق کی بنا پر9 برس کی عمر میں آپ نے قرآن کریم حفظ کر لیا اور اسی سال نماز تراویح میں آپ نے قرآن سنا بھی دیا ۔ ابتدائی دینی تعلیم دارالسلام سے حاصل کی اس کے بعد محدث العصر فضیلۃ الشیخ حافظ محمد گوندلوی رحمہ اللہ کے مدرسہ جامعہ الاسلامیہ گوجرانوالہ چلے آئے۔ اور کتب حدیث سے فراغت کے بعد جامعہ سلفیہ فیصل آباد میں داخلہ لیا جہاں علوم وفنون عقلیہ کے ماہر فضیلۃ الشیخ مولانا شریف سواتی رحمہ اللہ سے آپ نے معقولات کا درس لیا۔

1960 میں دینی علوم کی تحصیل سے فراغت پائی اور پنجاب یونیورسٹی سے عربی میں بی اے اونرز کی ڈگری حاصل کی اور پھر کراچی یونیورسٹی سے لاء کا امتحان پاس کیا 1960 میں ایم اے فارسی اور1961 میںاردو کا امتحان پاس کیا اس کے بعد اعلیٰ دینی تعلیم کے لئے ملت اسلامیہ کی عظیم درسگاہ جامعہ اسلامہ (مدینہ یونیورسٹی ) میں داخلے کی سعادت نصیب ہوئی اور آپ کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ آپ اس وقت مدینہ یونیورسٹی میں دوسرے پاکستانی طالبعلم تھے ۔ ان دنوں مدینہ یونیورسٹی میں 98 ممالک کے طلباء زیر تعلیم تھے۔

اساتذہ کرام :

آپ نے تاریخ کے نامور اور وقت کے ممتاز علماء سے کسب علم کیا ان میں سرفہرست

(1) فضیلۃ الشیخ علامہ ناصر الدین البانی رحمہ اللہ

(2) فضیلۃ الشیخ محمد امین الشنقیطی رحمہ اللہ

(3) فضیلۃ الشیخ عطیہ محمد سالم رحمہ اللہ قاضی مدینہ منورہ

(4) فضیلۃ الشیخ علامہ عبد العزیز بن باز رحمہ اللہ رئیس ادارۃ البحوث الااسلامیہ و الدعوۃ والاشاد ریاض سابق رئیس جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

(5) فضیلۃ الشیخ علامہ عبد المحسن العباد وغیرہ شامل ہیں۔

علمی اعزاز :

آپ نے زمانہ طالب علمی کے دور میں جامعہ اسلامیہ میں’’ القادیانیہ دراسات و تحلیل ‘‘کے نام سے عربی میں ایک کتاب لکھی یہ کتاب آپ کے ان لیکچرز پر مشتمل ہے۔ جو ا ٓپ نے اپنی کلاس کے طلباء کو اپنے اساتذہ کی جگہ دئے تھے۔ کیونکہ فتنہ احمدیہ کے بارے میں اساتذہ کی معلومات نہ ہونے کے برابر تھی۔ کتب طبع ہونے لگی تو علامہ سے پبلشر نے کہا کہ مؤلف کے طور پر آپ کے نام کے ساتھ متعلم جامعہ اسلامیہ کے بجائے متخرج جامعہ اسلامیہ لکھ دیا جائے تو اس کتاب کی اہمیت کئی گنا زیادہ ہوجائے گی۔ ان دنوں یونیورسٹی کے وائس چانسلر شیخ ابن باز ہوا کرتے تھے علامہ صاحب نے پبلشر کی خواہش کا اظہار آپ کے سامنے کیا انہوں نے یہ معاملہ یونیورسٹی کی گورننگ کمیٹی کے سامنے پیش کیا جس نے اس کتاب کی اہمیت اور آپ کے علمی مقام کو مدنظر رکھتے ہوئے یہ فیصلہ کیا کہ احسان الٰہی ظہیر کو اپنی کتاب پر نام کے ساتھ متخرج جامعہ اسلامیہ لکھنے کی اجازت دے دی جائے۔ اس طرح آپ کو یہ اعزاز حاصل ہوا کہ فارغ التحصیل ہونے سے قبل ہی آپ کو جامعہ اسلامیہ جیسی عظیم درسگاہ سے سرٹیفکیٹ دے دیا گیا۔ جب آپ کو سرٹیفکیٹ مل گیا تو علامہ نے شیخ بن باز وائس چانسلر مدینہ یونیورسٹی سے عرض کرتے ہوئے کہا: شیخ اگر میں امتحان میں فیل ہو گیا تو اس سرٹیفکیٹ کا کیا بنے گا۔ شیخ ابن باز کو اپنے اس شاگرد رشید کی صلاحیتوں پر اس قدر ناز تھا کہ انہوں نے فوراً کہا کہ اگر احسان الہٰی امتحان میں فیل ہو گیا تو ہم یونیورسٹی بند کر دیں گے۔ علمی و تعلیمی دنیا میں یہ اعزاز منفرد و لاثانی ہے۔

1970 میں آپ مدینہ یونیورسٹی سے اس اعزاز کے ساتھ فارغ ہوئے کہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم 98 ممالک کے طلباء میں اول پوزیشن پر رہے اور آپ نے (2.1/93) فیصد نمبر حاصل کئے آج تک کوئی عربی بھی اتنے نمبر حاصل نہ کر سکا ہو جو ایک عجمی کا ریکارڈ توڑسکے۔ (ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء)

مدینہ یونیورسٹی سے فارغ ہونے کے بعد آپ کو یونیورسٹی میں منصب تحقیق و تدریس پیش کیا گیا مگر آپ نے اپنے وطن میں خدمت دین کو ترجیح دی۔ وطن واپسی پر آپ نے تحریر کا سلسلہ جاری رکھا اور چٹان لیل ونہار اور اس جیسے دیگر رسائل میں لکھتے رہے۔ اسلام اور مرزائیت کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ پنجاب یونیورسٹی سے عربی اسلامیات، فلسفہ، تاریخ اور سیاست میں پے در پے ایم   اے کے امتحانات میں نمایاں کامیابی حاصل کی۔ جمعیت اہل حدیث کے جریدے ہفت روزہ الاعتصام اور ہفت روزہ اہلحدیث کے مدیر بھی رہے۔ اس دوران ہی آپ کو حافظ گوندلوی سے شرف دامادی حاصل ہوا آپ جامع مسجد چینیاں والی لاہور میں خطبہ ارشاد فرمانے لگے۔ اور لاہور و اطراف سے لوگ آپ کے جمعہ میں دور دور سے آنے لگے۔ اس عرصہ میں آپ نے لاہور کے علاقے شادمان ٹاون میں اپنے گھر کی تعمیر کرائی اور مستقل یہاں سکونت پزیر ہو گئے۔ اور ترجمان اہلحدیث کے نام سے ایک رسالہ جاری کیاجو کہ جمعیت اہل حدیث کے زیر امارت آج تک مسلک اہل حدیث کی ترجمانی کر رہا ہے۔

سیاسی سرگرمیاں : (1968 تا 1987)

آپ نے خطبہ عید میں ایوب خان کے خلاف اپنی پہلی سیاسی تقریر کی اس کے بعد بھٹو دور میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں آپ پر کئی مقدمات بھی بنائے گئے۔ بنگلہ دیش مردہ باد تحریک میں آپ نے پھرپور حصہ لیا اور باقاعدہ اپنے خطبہ جمعہ میں بھی بنگلہ دیش کے مسئلہ پر اپنی حب الوطنی کو دل کی گہرائیوں سے اٹھنے والے درد کو بیان کیا۔ 1972 میں آپ نے تحریک استقلال میں ایک پارٹی ورکر کی حیثیت سے شمولیت اختیارکی بعد میں آپ مرکزی سیکرٹری اطلاعات کے عہدے پر فائز ہوئے ۔

1977 کی تحریک استقلال کے قائم مقام سربراہ بھی رہے۔ 1978میں بعض اختلافات کی بنا پر تحریک استقلال سے مستعفی ہو گئے ۔ پھر آپ نے جمعیت اہل حدیث کو از سر نو منظم کرنے کا پروگرام بنایا ۔ صدر ضیاء الحق نے آپ کو علماء ایڈوائزر کونسل کا رکن بھی نامزد کیا تھا لیکن آپ نے استعفٰی دے دیا ۔1984 میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کی طرف سے جامعہ محمدیہ گوجرانوالہ میں ایک کنونشن بلایا گیا جس میں فضیلۃ الشیخ مولانا محمد عبد اللہ کو امیر اور مولانا محمد حسین شیخوپوری کو ناظم اعلیٰ منتخب کیا گیا۔ اہل حدیث میں دو دھڑوں کی بنا پر کافی انتشار رہا مولانا محمد حسین نظامت سے مستعفی ہو گئے ۔ تو علامہ شہید رحمہ اللہ ناظم اعلیٰ کے منصب پر فائز ہوئے انہوں نے بڑی محنت سے جمعیت کو ایک منظم اور متحرک جماعت بنا دیا اور جلسے جلوس اجتماعات میں ایک نئی روح پھونک دی کہ مسلک اہل حدیث کا بچہ بچہ ہر نوجوان آپ کی صدا پر لبیک کہتے ہوئے میدان عمل میں کود پڑتا تھا۔ جس دور میں اہل حدیث کے پاس کوئی پلیٹ فارم نہ تھا علامہ علیہ الرحمہ نے اپنے سیاسی پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ علامہ نے منتشر اہل حدیث کی ضرورت کو بالکل صحیح انداز میں محسوس کیا اور اسے باحسن پورا کیا۔ اہل حدیث افراد اپنے پلیٹ فارم کی طرف کھچے چلے آنے لگے۔ اس سلسلہ میں 18 اپریل 1986کو موچی دروازہ لاہور2 مئی 1986 کو سیالکوٹ اور 9مئی 1986 گوجرانوالہ میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کے سیاسی جلسہ عام میں آپ نے جمعیت کے سیاسی موقف کو جس طرح پیش کیا وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ آج بھی تاریخ اس کی معترف ہے آپ کی تقریر و بیانات کو اہم مسلکی اخبارات نے شہ سرخیوں سے شائع کیا۔ علامہ کے عظیم ارادے پختہ ہوا کرتے تھے اس سلسلہ میں جمعیت اہل حدیث پاکستان کے مرکزی دفتر کے لیے ایک خطیر رقم صرف کرکے ۵۳ لارنس روڈ لاہور میں ایک وسیع و عریض جگہ حاصل کی جہاں آپ نے جملہ احبابِ جماعت اور مجلس شوریٰ کا اجلاس طلب کیا ۔ جملہ احبابِ جماعت اور مجلس شوریٰ نے اس عظیم کارکردگی کو خوب سراہا اور آپ کو داد تحسین پیش کی آپ اس مرکز میں مسجد ،ہسپتال ،مدرسہ ،آڈیٹوریم اور جمعیت کے دفاتر قائم کرنے کا ارادہ رکھتے تھے ۔ اس مرکز میں آپ نے نماز تراویح اور درس قرآن کا سلسہ بھی شروع کیا تھا اور بغیر کسی اطلاع کے لوگوں کا جم غفیر آپ کے دروس میں حاضر ہوتا تھا اور ۲۹ مارچ کو آپ نے اس ادارے کی مسجد میں خطبہ جمعہ کا پروگرام بھی بنایا ہوا تھا کہ اس ادارے میں باقاعدہ جمعہ کی نمازبھی شروع کی جائے مگر رب کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ آپ کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔ آپ نے مختلف ممالک میں تبلیغی سفر کیے سعودی عرب و دیگر عرب ممالک کے علاوہ بیلجیم، ہالینڈ، سوئیڈن، ڈنمارک، اسپین، اٹلی، فرانس، جرمنی، انگلینڈ ،یوگو سلاوایا، ویانا، کھایا، نائجیریا، کینیا، جنوبی کوریا، جاپان، فلپائن، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ، امریکہ، چین، بنگلہ دیش،ایران،افغانستان اور ہندوستان میں مختلف علمی کانفرنسوں سے خطاب کیا۔ عرب ممالک تو آپ کا آنا جانا ایک معمول اور روز مرہ کا کام تھا اور آئے دن معلوم ہوتا تھا کہ علامہ صاحب فلاں عرب ملک گئے ہوئے ہیں اسی طرح یورپ امریکہ اور افریقہ کے اسفار کا حال تھا۔ اتنے تقریری و تبلیغی اور ادارتی مصروفیات کے باوجود آپ نے عربی ادب میں شاندار اضافہ کیا ہے اوربھاری بھرکم کتب تالیف کرنا علامہ صاحب کا بہت بڑا کارنامہ ہے اور آپ کی وسعت مطالعہ کی بہت بڑی دلیل ہے۔

آپ رحمہ اللہ کا تحریری سرمایہ

(1) الشیعہ و اھل البیت (عربی)

اس کتاب میں شیعہ کی مذعومہ حب اہل بیت کی حقیقت آشکار کی گئی ہے اور نہایت شرح و بسط سے واضح کیا گیا ہے کہ وہ طائفہ جو حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر زبان طعن دراز کرنے کو اپنی سعادت سمجھتا ہے در حقیقت یہ حب اہل بیت میں بھی مخلص و صادق نہیں ہے کیونکہ اہل بیت اور دیگر صحابہ کرام باہم شیر و شکر تھے ان جلیل القدر اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کرنا حب اہل بیت کے دعوی کے متناقض ہے۔ کتاب کے آغاز میں گیارہ صفحات کا پر مغز مقدمہ ہے۔ کتاب چار ابواب پر مشتمل ہے ۔یہ کتاب ایک بہت بڑا علمی ذخیرہ ہے جس میں42 شیعہ کتب اور 88 اہل سنت کی کتب سے استفادہ کیا گیاہے ۔

(2) الشیعہ والسنہ (عربی):

یہ کتاب علامہ صاحب کی شیعہ موضوع پر اولین کاوش ہے ۔ سولہ صفحات کے بعد تین ابواب ہیں ۔ پروفیسر رانا ایم این احسان الٰہی کے انگریزی ترجمہ کے ساتھ بھی شائع ہو چکی ہے۔اس کتاب کے دنیا کی کئی زبانوں فارسی ،تامل، انڈونیشی، تھائی، ملائشین اور افریقی زبان ہوسا میں تراجم ہو چکے ہیں۔

(3) الشیعہ والقرآن (عربی )

شیعہ ازم پر علامہ صاحب کی یہ تیسری معرکتہ الارء تالیف ہے26 صفحات کا مقدمہ ہے جس میں علامہ صاحب نے اس کتاب کی وجہ تالیف بیان کی ہے ۔ اس کتاب کے چار ابواب ہیں اور اس دور کے شیعہ اکابرکی زبان سے تحریف قرآن کا دعویٰ ثابت کیا ہے ۔ 78شیعہ اور6 اہل سنت کتب سے استفادہ کیا گیا ہے۔

(4)الشیعہ والتشیع (فرق و تاریخ،عربی)

کتاب کا مقدمہ11صفحات پر محیط ہے اس کتاب کا موضوع شیعہ ازم کی مکمل مفصل تاریخی پس منظر اور مختلف فرقے ہیں۔ اس کتاب میں 7 ابواب ہیں۔ یہ کتاب 259 مراجع و مصادر سے مزین ایک انسائیکلوپیڈیاہے۔

(5) البریلویہ( عقائد و تاریخ ‘عربی)

کتاب کے شروع میں 6 صفحات پر عطیہ محمد سالم قاضی مدینہ منورہ و مدرس مسجد نبوی کی خوبصورت تقریظ شائع کی گئی ہے صفحات 7 سے 12 تک مئولف کی طرف سے مقدمہ ہے کتاب 5 ابواب پر مشتمل ہے ۔ عرب ممالک میں یہ کتاب ہاتھوں ہاتھ لی گئی ہے اور عرب دنیا میں اس کتاب نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑے یہی وجہ ہے کہ بریلوی حضرات اس کتاب سے اس قدر متوحش اور خائف ہوئے کہ انہیں درحکومت پر اس کتاب کی پابندی کے لیے دستک دینا پڑی۔ اس کتاب پر پابندی لگا کر اسے ضبط کر لیا گیا ۔جس سے ملک کے طول و عرض کے علمی حلقوں میں رنج و غم کی لہر دوڑ گئی لیکن اس مجاہد ملت نے پابندی کے باوجود علی الاعلان 6 ایڈیشن اس کتا ب کے شائع کئے ۔

اس کے علاوہ علامہ کی تحریر میں

cالقادیانیہ (عربی)،
cالبھائیہ (نقد و تحلیل‘ عربی)
cالبابیہ (عرض و نقد‘ عربی)، التصوف المنشا و المصادر
cالاسماعلیہ بین الشیعہ و اھل السنہ
cدراسۃ فی التصوف

شامل ہیں ۔ آپ نے جس موضوع یا جس فرق باطلہ پر قلم اٹھایا اللہ کے فضل و کرم سے اس موضوع کا حق ادا کر کے دکھایا اور آج تک آپ کی کسی کتاب کا بھی علمی جواب کوئی نہیں دے سکا۔ علامہ صاحب کی شخصیت ملکی و بین الاقوامی طور پر آج بھی کسی تعارف کی محتاج نہیں ہے۔ آپ کی ان کتابوں کے تراجم دنیا کی مختلف زبانوں میں شایع ہو چکے ہیں۔ عرب ممالک میں آپ کے قارئین، مداحین، عقیدت مندوں اور علم دوست حضرات کا ایک وسیع حلقہ ہے ۔ سیاسی حلقوں میں آپ کی بصیرت اور مجاہدانہ للکار آج بھی گونجتی اور دلوں میں اترتی معلوم ہوتی ہے اور باطل کی روح کانپ جاتی ہے ۔

23 مارچ 1987 کو لاہور میں جلسہ سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم میں مولانا حبیب الرحمن یزدانی کی تقریر کے بعد علامہ شہید کا خطاب شروع ہوا آپ کا باطل شکن خطاب اپنے نقطہ عروج کو پہنچ رہا تھا ابھی آپ 20 منٹ کی تقریر ہی کرپائے تھے کہ11بج کر 20 منٹ پر بم کا انتہائی خوفناک لرزہ خیز دھماکہ ہوا تمام جلسہ گاہ میں قیامت صغریٰ کا عالم تھا ماحول مہیبت تاریخی میں ڈوب گیا دلدوز آہوں سے ایک کہرام سا مچ گیا۔ درندہ صفت بزدل کمینہ دشمن اپنے مزموم مقصد میں کامیاب ہو چکا تھا اس دھماکے میں علامہ صاحب زخمی ہوگئے اور شدید زخمی حالت میں 5 دن تک میؤ ہسپتال میں انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہے ۔ 29 مارچ کو پونے پانچ بجے سعودی ائیر لائن کی پرواز کے ذریعہ شاہ فہد رحمہ اللہ کی دعوت پر سعودیہ عرب علاج کے لئے روانہ ہوئے آپ کو فیصل ملٹری ہسپتال میں داخل کیا گیا ڈاکٹروں نے آپریشن کے لئے بے ہوش کیا لیکن ناکام آپریشن کے بعد آپ کا وقت موعود آچکا تھا۔علامہ صاحب 22 گھنٹے ریاض میں زندگی اور موت کی کشمکش میں رہنے کے بعد قافلہ شہداء میں شامل ہوئے (انا للہ و انا الیہ راجعون)

تدفین:

جماعت اہل حدیث میں ایک ایسا خلا پیدا ہو گیا جو شاید تاریخ میں کبھی پورا نہ ہو سکے ۔ عالم اسلام کی متاع عظیم چھن گئی اور علم و فضل کا آفتا ب وادی بطحاء میں غروب ہو گیا۔ مفتی اعظم سعودیہ عرب سماحۃ الشیخ عبدالعزیز بن باز نے دیرہ ریاض کی مرکزی مسجد میں نماز جنازہ پڑھائی ۔ نماز جنازہ کے بعد آپ رحمہ اللہ کے جسد خاکی کو لے جایا گیا مدینہ منورہ میں تدفین کا اہتمام فضیلۃ الشیخ عبد اللہ صالح العبید چانسلر مدینہ یونیورسٹی نے کیا یونیورسٹی کے شیوخ و اساتذہ اور طلباء کے علاوہ سعودی عرب کے اطراف سے ہزاروں اہل علم اشکبار آنکھوں سے جنازے میں شامل تھے ۔ اقصائے عالم سے آنے والے وفود و شیوخ اساتذہ علماء اور طلباء کی وجہ سے مسجد نبوی میں انسانوں کا سیلاب نظر آتا تھا اور تاحد نگاہ سر ہی سردیکھائی دیتے تھے ۔

اژدہام کا یہ عالم تھا کہ آپ کا آخری دیدار کرنا محال تھا۔ مولانا شمس الدین افغانی (جامعہ اثریہ پشاور کے سابق مدیر،مفسر، مصنف، محقق)نے نماز جنازہ پڑھائی۔ پھر یہاں سے علامہ شہید رحمہ اللہ کی میت کو جنت البقیع کے قبرستان لایا گیا ہزاروں سوگواروں کے ٹھاٹھےمارتے ہوئے سمندر کے جلوس میں آپ کے والد محترم جناب حاجی ظہور الٰہی نے قبر میں اتر کر اپنے فرزند ارجمند کا آخری دیدار کیا ۔ آپ کو یہ سعادت نصیب ہوئی کہ آپ رحمہ اللہ کی قبر امام مالک کی قبر کے پہلو میں ہے جس کی دائیں طرف ازواج مطہرات امہات المومنین رضی اللہ عنہن کی قبر یں ہیں اور اس سے تھوڑے فاصلے پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر ابراہیم رضی اللہ عنہ کی قبر ہے۔

اللھم اغفرلہ وارحمہ عافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ، وادخلہ الجنہ
آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے