اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ ۚ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ ٢٧٧؁(البقرۃ 277 )
وَاْمُرْ اَهْلَكَ بِالصَّلٰوةِ وَاصْطَبِرْ عَلَيْهَا ۭ لَا نَسْــَٔــلُكَ رِزْقًا   ۭ نَحْنُ نَرْزُقُكَ       ۭ وَالْعَاقِبَةُ لِلتَّقْوٰى ١٣٢؁ (طٰہٰ132)

نماز جسے رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے :

وَجُعِلَتْ قُرَّۃُ عَیْنِیْ فِی الصَّلٰوۃِ (مسند احمد ونسائی)

آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دی ہے، اس کی ادائیگی سے متعلق بےشمار آیات و احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اللہ ربّ العالمین نے فرقان حمید میں ارشاد فرمایا: سورۃ البقرۃ آیت 277 میں: بےشک وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے نماز قائم کی زکوٰۃ ادا کی ان لوگوں کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر نہ کوئی خوف ہوگا نہ غمگین ہونگے۔

انسان بے مقصد پیدا نہیں کیا گیا:

دنیا میں آدمی مرد یا عورت اس لئے نہیں آئے کہ وہ کھائیں پیئں، نشوونما پائیں ، خوبصورت پر مسرت زندگی گزاریں ، عیش کریں، بوڑھے ہوں مرجائیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے انسان کی پیدائش میں ایک خاص مقصد رکھا ہے جس کو سورۃ الذاریات کی آیت نمبر56 میں اللہ رب العالمین نے اس طرح ارشاد فرمایا:

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِيَعْبُدُوْنِ 56؀

اور ہم نے جن وانس کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔

اور یہ عبادت کروا کر یہ زندگی کی نعمت لے کر اس آخرت کی زندگی کی تیاری کرانا مقصود ہے جو خوف اور گھبراہٹ کا دن ہے۔

نجات یافتہ کون؟

اور اس دن خوف و گھبراہٹ کن کو نہیں ہوگی وہ کون لوگ ہوں گے جو نجات یافتہ ہونگے وہ جو اِنَّ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا بیشک وہ لوگ جو ایمان لائے۔ (اور صرف ایمان لانا مقصود نہیں صرف کلمہ طیبہ پر نجات کا دارومدار نہیں جنت جہنم صرف توحید و رسالت کے اقرار پر نہیں ) بلکہ : وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اور نیک اعمال کیے اور ان نیک اعمال میںبھی سب سے بہترین درجے کے اعمال کئے وَاَقَامُوا الصَّلٰوةَ : اور نما ز قائم کی

لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْان کے لئے ان کے رب کے پاس اجر ہے

وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ : اور ان پر قبر میں کوئی خوف نہ ہوگا۔ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ اور نہ قیامت میں غمگین ہونگے۔ یعنی کہ ایمان خالی نجات کے لئے کافی نہیں عمل صالح ایمان کے ساتھ مربوط ہے۔ اور ان میں اللہ کی نگاہ میں سب سے بہترین فرائض کی ادائیگی ہے اور ان میں نماز اولین فرض ہے ۔

نماز نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی راحت کا ذریعہ:

آج جس مادی دور سے ہم گزر رہے ہیں ہمارے لئے بڑا صبر آزما اور اعصاب شکن دور ہے ، اور اس کڑی دھوپ میں اللہ رب العالمین نے نماز کی چھاؤں رکھ دی ہے تاکہ دل و دماغ کور احت مل سکے۔

یہ اللہ رب العالمین کا احسان عظیم ہے کہ اس مادی دور میں اللہ تعالیٰ نے ایک پلیٹ فارم مقرر کیا جس میں ہر مسلمان دنیاوی آزمائشوں سے گزرنے کے بعد ہر تھوڑی دیر بعد کچھ سستالے آرام کرلے اس پر فتن دور میں جہاں ایمان ڈگمگا جاتا ہے ہر تھوڑی دیر بعد ایمان کی طاقت سے خود کو منور کرے اور آگے بڑھے۔

مسند احمد وابی داؤ دکی یہ روایت اس بات کی دلیل ہے : محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

قُمْ یَا بِلَالْ فَاَرِحْنَا بِالصَّلوٰۃ

’’بلال اٹھو اور نماز کے ذریعہ ہمیں راحت پہنچاؤ‘‘

نماز اولین فرائض میں سے ایک فرض ہے:

یاد رکھیں جو کوئی مسلمان کہلاتا ہے، عالم اسلام میں کوئی بھی کہیں بھی کسی جگہ بھی موجود ہے اگر مسلمان ہے خواہ بیٹی ہے بہن ہے ، بیوی ہے ، ماں ہے اس پر یہ نماز پڑھنا فرض ہے یہ فرض عین ہے یہ سب نے کرنا ہے ۔ میری ماؤں بہنوں روزہ رکھنے کی استطاعت نہیں اگر قضا کر لیں بعد میں پورے کر لیں اور اگر کوئی مرض ایسا لاحق ہے جس میں رکھ ہی نہیں سکتے تو فدیہ دے دیں کھانا کھلا دیں اور اگر والدین یا قریبی رشتہ دار دنیا سے چلے جائیں ان کے قضا روزوں کو پورا کر لیں ۔ حج استطاعت ہے تو کرلیں زکوٰۃ مال ہے تو ادا کریں لیکن نماز کسی صورت نہ معاف ہے نہ ہی آپ کی جگہ اس عمل کو کوئی اور کر سکتا ہے ۔یہ آپ ہی کو کرنا ہے یہاں تک کہ

جنگ کی حالت میں بھی نماز معاف نہیں:

محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تلواریں چل رہی ہیں گولیاں برس رہی ہیں نیزے کمان میںہیں۔

وَاِذَا كُنْتَ فِيْهِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوةَ

: اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ ان میں موجود ہیں با جماعت نماز ادا کرائیں ۔

آدھی فوج مقابلہ کرے آدھی نماز ادا کرے۔ پھر آدھی فوج نماز ادا کرے اور آدھی فوج مقابلہ کرے۔ کسی صورت معاف نہیں کھڑے ہوکر نہیں تو بیٹھ کر پڑھو، بیٹھ کر پڑھنے کی طاقت نہیں تو لیٹ کر پڑھو اتنی بھی طاقت نہیں تو اشاروں سے پڑھو۔جب تک ہوش و ہواس میں ہو نماز ادا کرنی فرض ہے۔

بے نمازیوں کا انجام:

میں اور آپ پر آسائش گھروں کے مالک ، زندگی کی دوڑدھوپ میں مصروف ، کھاتے پیتے ، چلتے پھرتے غرض زندگی کا ہر لمحہ جیتے ہیں لیکن نماز ادا کرنے کی ہمت نہیں طاقت نہیں کہنے کو ہم مسلمان ہیں یہ مسلمان نام کی تختی گلے میں لٹکائے شب و روز گزار رہے ہیں اور یونہی قبر میں جا پڑیں گے اور پھر قیامت کا جب منظر ہوگا پوچھنے والے پوچھیں گے تم تو بڑا کلمہ کا ورد کرتے تھے آج تمہیں کیا ہوا ۔ تم جہنم میں کیسے چلے گئے قرآن اس کی خوب صورت منظر کشی کرتا ہے۔

’’مَا سَلَكَكُمْ فِيْ سَقَرَ قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّيْنَ

‘‘ تمہیںکس چیز نے جہنم میں ڈلوادیا وہ کہیں گے ہم نماز نہیں پڑھتے تھے۔ ہم پختہ نمازی نہیں تھے صلوٰۃ جیسے فریضے کو معمولی سمجھتے ہوئے ترک کر دیتے تھے ۔

ایمان اور کفر میں فرق کردینے والی چیز :

صرف یہیں تک نہیں بلکہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس وعید سے بھی ڈر جائیے ۔

بین العبد وبین الکفر الصلوٰۃ ( صحیح مسلم)

ترجمہ: ایمان اور کفر میں فرق کردینے والی چیز نماز ہے ۔ اور اس سے بھی واضح الفاظ میں فرمایا’’ من ترک الصلوٰۃ متعمدا فقد کفر ‘‘ جس نے جان بوجھ کر قصداً نماز چھوڑی اس نے کفر کیا۔ دائرہ اسلام سے خارج ہوگیا۔

لا الہ اللہ کے ساتھ خیانت کرنا :

اے مومن عورتوں کی جماعت یہ نماز چھوڑنا معمولی چیز نہیں جس رب کا کلمہ پڑھا ہے اس کلمے کے معنی یہ ہیںکہ میں رب کے قرآن نبی کے فرمان کی اطاعت کروں گی ، پابندی کروں گی اور اگر میں نے ایسا نہ کیا تو میرا ایمان بہت ہی کم درجہ کا ہے جو کبھی بھی ختم ہو سکتا ہے۔

نماز مقررہ اوقات پر فرض ہے:

پھر نمازوں کے اوقات بھی اللہ رب العالمین نے خود متعین کئے ہیں۔

اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَي الْمُؤْمِنِيْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا     ١٠٣؁(النساء)

بے شک نماز ایمان والوں پر مقررہ اوقات پر فرض ہے۔

نماز میں سستی منافقین کی علامت ہے:

پھر اس نماز کی کچھ شرائط ہیں واجبات ہیں ۔ ارکان و مسائل ہیں ، احکامات ہیں ، مقررہ اوقات پر خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھنا فرض ہے۔لیکن حقیقت میں مسلمان نماز کے اول اوقات کو اپنی سستی میں آکر ضائع کر دیتا ہے۔اور اس سستی کو بہت سی احادیث میں منافقین کی علامت بتایا گیا ہے کہ جب بالکل وقت ختم ہونے پر ہوتا ہے تو انہیں نماز کا خیال آتا ہے۔ اور پھر جیسی چاہیں نماز ادا کرتے ہیں۔ سمجھ آئے نہ آئے بس ایک خانہ پوری کرتے ہیں۔ سوچنے کا پہلو یہ ہے کہ میں اور آپ دنیاوی سطح پر ہر چیز بہترین چاہتے ہیں جو ہمیں اللہ رب العالمین ہی دیتا ہے۔ ہمیں ہر گز یہ منظور نہیں ہوتا کہ ہمیں بہترین سے کم چیز ملے لیکن افسوس اللہ رب العالمین کو ہم اپنا کوڑا کرکٹ دیتے ہیں۔ وہ رب العالمین جو میری اور آپ کی ہر سانس کا بھی مالک ہے وہ چاہے تو مجھے اور آپ کو اگلی سانس نصیب نہ ہو اس مہربان رب کے ساتھ یہ کیسا سلوک ہے ۔ مسند احمد و ابو داؤد کی روایت میں آتا ہے کہ:

إِنَّ الْعَبْدَ لَيُصَلِّي الصَّلَاةَ مَا يُكْتَبُ لَهُ مِنْهَا إِلَّا عُشْرُهَا، تُسْعُهَا، ثُمُنُهَا، سُبُعُهَا، سُدُسُهَا، خُمُسُهَا، رُبُعُهَا، ثُلُثُهَا نِصْفُهَا

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ بعض اوقات انسان نماز سے فارغ ہوتا ہے اور اس کے لئے اس کی نماز سے صرف دسواں ، نواں ، آٹھواں، ساتواں، چھٹا، پانچواں، چوتھا، تیسرا اور آدھا حصہ ہی لکھا جاتا ہے۔

نماز کی چوری بدترین چوری:

پھر اس کے ساتھ ساتھ ہم غور کریں کہ کہیں ہم وہ بد نصیب تو نہیں جو اپنی مرضی کا دین بنا کر کبھی چاہیں تو تین نماز پڑھیں کبھی چاہیں تو پانچ پڑھیں کبھی چاہیں تو نہ پڑھیں۔ ایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کیا کہتا ہے۔

فَوَيْلٌ لِّلْمُصَلِّيْنَ Ć۝ۙالَّذِيْنَ هُمْ عَنْ صَلَاتِهِمْ سَاهُوْنَ   Ĉ۝ ۙ(الماعون)

ہلاکت ہے ایسے نمازیوں کے لئے جو سستی کرتے ہیں کبھی پڑھ لی کبھی نہیں پڑھی ۔ دل چاہا ظہر ، عصر پڑھ لی مغرب ، عشاء اور فجر میں چوری کی ، کبھی نیند کے غلبہ کی وجہ سے، کبھی دنیاوی کاموں کی وجہ سے ، کبھی اپنی سستی کی وجہ سے ایسے لوگوں کی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کن لوگوں کے ساتھ جگہ متعین کی ہے ۔ مسند احمد کی روایت میں آتا ہے کہ

اسوأ الناس سرقۃ الذی یسرق من صلا تہ

سب سے برا چور وہ ہے جو نماز پڑھنے میں چوری کرتا ہے ۔

اسوۂ حسنہ سے بہتر نماز کا کوئی طریقہ نہیں:

نماز کے طریقہ پر بحث و الجھاؤ سے بہتر ہے کہ صحیح بخاری کی اس روایت کو اپنی نگاہ میں رکھیں :

صلوا کما رأیتمو نی اصلی

نماز اسی طرح پڑھو جس طرح مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا۔

یاد رہے جبریل علیہ السلام نے آکر جماعت کرائی مرد و عورت دونوں صفوں میں موجود تھے ایک ہی طریقہ سے نماز پڑھائی گئی ۔ فقہی مسائل میں الجھنے سے بہتر ہے کہ کتب احادیث کا خود مطالعہ کریں۔

بیماری کی علامات:

سوچنے کا مقام ہے کہ میں اور آپ ایسا کیوں کرتے ہیں جب دل چاہے نمازادا کریں جب دل چاہے چھوڑ دیں چھوڑیں تو کئی عرصہ نہ پڑھیں ان سب کی وجوہات کیا ہیں اس بیماری کا کیا سبب ہے؟ جواب آکر ایک ہی نقطہ پر رکے گا آخرت سے غفلت دنیا سے محبت۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا نظر آرہی ہے اس کا پھل سامنے ہے آخرت غیب میں ہے اس کا پھل تادیر لیکن دور ہے نگاہوں سے اوجھل ہے تو اس انسان میں میں نے اور آپ نے پانی کے قطرے کے بدلے بد نصیب کے باعث اس سمندر کو چھوڑ دیا جو تھوڑی مسافت کے بعد ہمارا ہو جانا تھا۔ یہ جسم جس کو آرام کا عادی بنادیا یا جس کو حرام سے پرورش دی جسے دنیا کی آسائشوں کے حوالے کیا ہوا ہے جس کو حرکت دیتے ہوئے تھکن ہوتی ہے دشوار لگتا ہے سستی ہوتی ہے اس جسم کو مٹی میں چلے جانا ہے یہ شان و شوکت پیچھے وارثوں کے پاس رہ جائے گی پھر اس جسم کو قبر میں کیڑوں نے کھا جانا ہے جس مال کو جمع کر کے رکھا ہے اس پر جاتے ہی حصہ شروع ہوجائیں گے اور جس اولاد کے لئے نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی جس کے لئے اللہ کو بھول گئے اس اولاد نے ہی سب سے پہلے قبر پر مٹی ڈال کر واپس آجانا ہے ۔ کبھی کسی کو دیکھا ہے جس نے کہا ہو کہ مجھے بھی اپنے اس عزیز کے ساتھ دفنا دو یا کبھی دیکھا ہے کہ کوئی امیر مر گیا ہو تو اس کی قبر میں آسائشیں مہیا کی گئی ہوں اور اگر ایسا کر بھی لیا جائے تو کیا فائدہ اندر والے کو صرف اعمال فائدہ دلائیں گے اور ان میں توحید و رسالت کے بعد سب سے پہلا فریضہ نماز کا ہے۔

بیماری کا حل:

اب بھی وقت ہے توبہ کا دروازہ کھلا ہے اپنے اس جائزہ کے بعد اس رب کی طرف آجائیں جو

اِنَّ اللہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا

بے شک اللہ تعالیٰ تمام گناہوں کو معاف کر سکتا ہے سب کو معافی مل سکتی ہے۔لیکن اس کی شرط ہے کہ وہ گناہ دوبارہ نہیں کرنا ۔ نماز کی پابندی کرنا اور پھر اس میں استقامت کا پختہ ارادہ کر کے اپنے اس عمل کے لئے اللہ سے دعا بھی مانگیں جیسے ابراہیم علیہ السلام نے مانگی ۔

رَبِّ اجْعَلْنِيْ مُقِيْمَ الصَّلٰوةِ وَمِنْ ذُرِّيَّتِيْ ڰ رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاۗءِ   40؁

یا اللہ مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنادے۔ اے ہمارے رب ہماری دعا قبول کر۔ ( سورہ ابراہیم 40)

اولاد بہترین صدقہ جاریہ:

اس دنیا کے جانے کے بعد یہ وہ واحد رشتہ ہے جو قائم رہتا ہے اگر اولاد صالح اور نیک ہو تو وہ جو اعمال کرتی ہے اس کا ثواب ، اس کا حصہ والدین کو ملتا رہتا ہے ۔ اے مومنوں کی جماعت اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا یہ تعلق قائم ہو یہ رشتہ سلامت رہے تو اپنے بچوں کو نمازی بنائیں ۔معزز والدین ان کی دنیا کے لئے جتنا آپ خود کو تھکاتے ہیں ان کی آخرت کے لئے اس سے زیادہ تھکائیں۔ دنیا کی تھکن بے فائدہ ہے آخرت کے لئے کی جانے والی محنت کے ہر لمحے کا اللہ کے پاس اجر ہے ایسا نہ ہو کہ کل قبر میں جا کر پچھتاوا ہو۔ پھر یہ اولاد جس کے بارے میں بہت سی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جب 7سال کی ہوجائے تو اسے نماز کا حکم دو اور جب دس سال کی ہوجائے نماز نہ پڑھے تو مار کر پڑھاؤ۔

والد کا بہترین ورثہ:

ان والدین میں سے ایک کی مثال جنہوں نے اپنی دنیا میں ہی رب کی رضا کے ایسے کام کئے کہ جس کا پھل دنیا میں ہی انہیں حاصل ہونے لگا وہ عظیم والد جو اپنی اولاد کو مرتے وقت وصیت کرتے ہیں تو یہ ترجمہ: جب لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے سے کہا اے میرے پیارے بیٹے نماز کو قائم رکھنا۔ (سورہ لقمان )

فصل کی حفاظت کریں:

اللہ رب العالمین نے آپ کو زمین دی ہے اس زمین کے اوپر آپ نے کاشتکاری کرنی ہے آپ کو مکمل آزادی دی ہے آپ جو چاہیں کریں پھر کچھ لوگوں نے نہ دن دیکھا نہ رات دیکھی اپنی جان کو کھپایا ، سردی ہو یا گرمی خوب محنت کی۔ کہنے والوں نے کہا آرام کر لو جواب دینے والوں نے جواب دیا ابھی آرام کر لیا تو نقصان اٹھائیں گے ہم چاہتے ہیں جب فصل پر بہار آئے تو ان میں سے ایک فصل ہماری بھی ہو جو لہلہاتی ہو ایسے لوگ ہی سابقون الاولون بنے جنہوں نے اپنے نیک اعمالوں سے اپنے اعمال نامہ کو مزین کیا جنہوں نے دنیا والوں کی ملامت کو نظر انداز کیا اپنے رب کی محبت میں اپنے رسول کی اطاعت کرتے چلے گئے جنہوں نے اپنی جان لگائی اور کچھ لوگ ایسے بھی تھے جو اس زمین کے ملنے کے بعد زمین پر گھومتے ہی رہے زمین کی خوبصورتی میں ہی کھو گئے اور جب فصل کا وقت آیا تو زمین بنجر ملی پھر ان کے ہاتھ سوائے حسرت کے کچھ نہ آیا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے پاس نیک اعمال کرنے کے مواقع تھے لیکن وہ دنیا کی رنگینیوں میں ہی کھو گئے۔ دنیا کی محبت نفس پر غالب کر لی اور خالی ہاتھ رہ گئے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے