ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِهَا ( البقرہ : 114)

ترجمہ: اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے اور ان کی بربادی کی کوشش کرے۔

مندرجہ بالا آیتِ کریمہ مساجد کے انتظام اور پرسکون ماحول میں عبادات کی ادائیگی کے حوالے سے متولی اور نمازی حضرات کےلئے عملی رہنمائی فراہم کرتی ہے۔

برائے توجہ متولی حضرات

bمسجد اللہ تعالیٰ کا گھر ہے اور گھر کا حقِ ملکیت صرف اس کے مالک یعنی اللہ تعالیٰ ہی کے لئے ہے۔اللہ تعالیٰ کی راہ میں اثاثے وقف کرنے کے بعدانسان کا دیگر اثاثوں کی طرح ذاتی منفعت کے لئے حق ملکیت اور تصرف باقی نہیں رہتا۔ مساجد کے منتظمین اس لحاظ سے خوش نصیب ہیں اور درجہ (Edge) رکھتے ہیں کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے گھر کی نگہداشت کا موقع ملتا ہے۔ اور مسجد کی حد تک اولی الامر(Authority)ہیں۔ ان کے حقوق ان کے فرائض کی بہتر انجام دہی اور عملداری قائم کرنے کے حوالے سے ہیں۔ نیز مسجد کا ذمہ داریا مسؤل ہونے کی وجہ سے متولی حضرات پر دین کے اصولوں پر خود عمل کرنے کی ذمہ داری بڑھ جاتی ہے۔

bمتولی حضرات کی ذمہ داری ہے کہ مسجد سے متعلق اجتماعی عبادات کی پرسکون ادائیگی کے ضمن میں تمام شرعی ضروریات کا بہترین انتظام پوری خوشدلی سے اور بلاتاخیر کریں۔

b نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لئے اپنے اختیارات کا مشروع اور متوازن انداز اختیار کریں۔ ذاتی پسند یا ناپسند سے گریز کریں اور غیر ضروری پابندیاں نہ لگائیں۔مخلص، متقی اور تجربہ کار نمازیوں کو شاملِ مشورہ رکھیں، ضرورت پڑنے پر اپنے تمام اقدامات کی علمائے کرام سے تصدیق بھی کروائیں اور رہنمائی حاصل کریں۔

bمسجد کے بنیادی افعال کی بہتر انجام دہی کے لئے مسجد کا رکن عملہ، بشمول خطیب،امام مسجد، مؤذن اور خادم انتہائی باصلاحیت، متقی اور مستعد افراد ہونے چاہئیں،ان کے انتخاب کے وقت ہی مذکورہ صلاحیتوں کو متعلقہ معیار پر پرکھنا چاہیے، کیونکہ چناؤ کے وقت اصولوں سے روگردانی یادیگر ترجیحات بعد کے ممکنہ پیچیدہ مسائل کا سبب بنتی ہیں۔ نیز ان کے ساتھ مسجد کے منتظمین اور نمازی حضرات کا رویہ انتہائی مؤدبانہ ہونا چاہیے۔ متوازن ذمہ داریوں کی عدم کارکردگی کی صورت میں بھی ان کا احتساب عزت نفس مجروح کئے بغیر شائستہ انداز میں علیحدہ سے کرنا چاہیے نہ کہ نمازیوں کے سامنے شرمندہ کیا جائے۔

برائے توجہ نمازی حضرات

bنمازیوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ مساجد بنیادی طور پر مسلمانوں کی اجتماعی عبادات اور دیگر مذہبی مصروفیات کے لئے ہیں۔ اجتماعیت کا یہ نکتہ تقاضہ کرتا ہے کہ کوئی نمازی یا نمازیوںکا گروہ اپنے پسندیدہ یا ناپسندیدہ معاملے کے لئے متولی حضرات پر کسی قسم کا غیر شرعی دباؤ نہ ڈالے اور اس ضمن میں دھڑے بازیوں ياLobyingکے حربے نہ اختیار کرے۔

bمساجد کی سہولیات کا متوازن استعمال کریں اور ان سہولیات اور دیگر چیزوں کے لئے اضافہ یا تبدیلی وغیرہ کے لئےانتظامیہ پر غیر ضروری دباؤ نہ ڈالیں۔ اللہ تعالیٰ کے گھر میں نمازی حضرات کا حقِ تصرف لامحدود نہیں ہوتااور وہ فیصلہ سازی میں بھی کوئی استحقاق نہیں رکھتے۔

bکسی بھی قسم کی خرابی کی نشاندہی اور بہتری کی تجویز کے لئے انتظامیہ سے تحریراً رابطہ کریں، یا شائستہ انداز سے بات کریں۔ توقعات پوری نہ ہونے کی صورت میں صبر و برداشت سے کام لیں اور اپنی بات منوانے کے لئے مختلف النوع دباؤ اور حربے نہ اختیار کریں۔

bمساجدمیں ہر قسم کے جھگڑے اور شور و غوغا سے بالکل اجتناب کریں۔صورتحال چاہے جیسی بھی ہو، گفتگو ہمیشہ دھیمی آواز سے کریں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے تحمل و برداشت سے کام لیں،متنازع مسئلے کو شریعت کی روشنی میں مل بیٹھ کر باہمی افہام و تفہیم کے ساتھ حل کریں نہ کہ مسجد کو اکھاڑہ بنائیں اور زور آوری کا مظاہرہ کرکے فریقِ ثانی کو دبائیں۔ زیادتی ہونے کی صورت میں بھی مسجد کے تقدس کی خاطر اور تنازعے کو بڑھنے سے بچنے کے لئے اپنا حق چھوڑ دیں۔یہ بڑے اجر کا بھی موجب ہے۔ لڑائی جھگڑا کرنے پر مصر افراد پر سورۂ حجرات کی آیت نمبر9کی روشنی میں مناسب تادیبی کاروائی ہونی چاہیے تاکہ فتنے سے بچا جا سکے۔

bحالات کے تناظر میں مسجد کے کھلنے اور بند کرنے کےاوقات کو ملحوظ خاطر رکھیں۔

bپیشگی اجازت کے بغیر مسجد میں چندہ، تقریر یا کسی اور پروگرام سے گریز کریں۔

bاگرکوئی شخص مسجد یا انتظامیہ سے کسی بھی قسم کا براہِ راست یا بالواسطہ تعاون کرتا ہے تو نیکی جتا کر،یا مسجد سے پرانے تعلق کی بنیاد پرکوئی غیر اصولی یا اضافی مراعت حاصل کرنے کی کوشش کرکے اپنا اجر ضائع مت کرے۔

bمسجد میں اپنے دوست و احباب سے ملاقات کے وقت متوازن رویہ رکھیں اور بےجا شوخی، ہنسی مذاق اور دنیاوی امور پر گفتگو سے پرہیز کریں اس سے مسجد کا تقدس اور دیگر نمازی متاثر ہوتے ہیں۔

خلاصہ

شرعی حدود کے تحت انتظامی معاملات میں متولی کا حقِ فیصلہ طے شدہ اور قابلِ تسلیم ہےاور نمازی ان کےفیصلوں پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے گھر کے وقار اور تقدس میں اضافے اور پرسکون ماحول کی خاطر تحمل ،برداشت اور عفو و درگزر سے کام لیں اور مندرجہ بالا آیتِ کریمہ میں بیان کردہ ظالم انسان والے اعمال سے بچنے کی کوشش کریں۔اعمالِ صالحہ کی حفاظت کریں۔اجر ضائع کرنے والے اعمال سے اجتناب کریںتاکہ روزِ آخرت کے حساب و کتاب کا معاملہ آسان رہے۔زندگی کے دیگر معاملات کی طرح مسجد سے متعلق معاملات کے لئے فوری اور سخت ردّ عمل کا طریقہ کارزیادہ نقصان دہ ہے۔ ا للہ تعالیٰ تمام متعلقین کو خوشدلی کے ساتھ اپنی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین۔

وما علینا الا البلاغ المبین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے