الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین وعلی آلٰہ واصحابہ اجمعین وبعد!

اسلام نے خواتین کو جو مقام عطاکیا ہے انہیں جو اہمیت دی ہے اس کی مثال دنیا کا کوئی دوسرا مذہب دینے سے قاصر ہے۔ بھلا اور کس مذہب میں آپکو ملے گا کہ ماں کے قدموں کے نیچے جنت ہے اور کس مذہب والے آپ کو بتائیں گے کہ ہماری خدمت اور حسن سلوک کی سب سے زیادہ حقدار ہماری مائیں ہیں۔ اور حقیقت یہی ہے کہ شروع ہی سے ہماری نوزائیدہ نسلیں اپنی بالیدگی تربیت اور نشوونما کے لیے اپنی ماؤں کی محتاج رہی ہیں بچوں کی تربیت اور ان کی مناسب انداز میں اٹھان اتنا بڑا کام ہے اور اس کے لیے اتنی توجہ، صبر، محبت اور محنت کی ضرورت ہوتی ہے کہ جو مرد کے بس سے باہر کی بات ہے یہ صرف خواتین ہی سمجھ سکتی ہیں کہ اس عظیم کام میں انہیں کتنی صعوبت اٹھانی پڑتی ہے کن کن جذباتی کیفیتوں سے گزرنا پڑتا ہے کس طرح راتوں کو جاگنا پڑتا ہے اور دنوں میں تربیت کی مشقت برداشت کرنا پڑتی ہے۔قوم کی تعمیر کے ان مرحلوں میں عورت کو ذہانت و دور اندیشی بھی درکار ہوتی ہے انسانیت کے اعلیٰ اصولوں سے واقفیت بھی اور زندگی کی اعلیٰ قدروں سے شناسائی بھی مذہبی تعلیمات سے بھی آشنا ہونا پڑتا ہے اور دنیا کے بدلتے رجحانات سے بھی۔ اور پھر اس طرح اپنے ماضی حال اور مستقبل سے جڑی ہماری نئی نسل اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے کے لیے تیار ہوتی ہے۔ اسی بنا پر ایک عورت اپنے ہر رشتے کے اعتبار سے مقدس و محترم ہوتی ہے۔ چاہے وہ ایک ماں، نانی، دادی، بہن، بیٹی، خالہ اور پھوپھی کے روپ میں ہو یا ساس، بہو اور بیوی کے روپ میں۔

اسلام ماں کے ساتھ حسن سلوک کی بے حد تلقین کرتا ہے آئیے دیکھیں کہ اسلام کے بعض مشاہیر کا اپنی ماؤں کے ساتھ تعلق کیسا تھا۔

امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ اپنی والدہ کے ساتھ حسن سلوک کا اس قدر خیال رکھتے تھے کہ خود ان کا بیان ہے۔

والله ما ارتقيت سطح بيت ووالدتي في البيت -لئلا يرتفع عليها

اللہ کی قسم اپنی والدہ محترمہ کے گھر میں موجود رہتے ہوئے میں کبھی چھت پر نہیں چڑھا مبادا میں ان سے اونچا نہ ہو جاؤں۔

امام ابن سیرین کا معمول تھا کہ وہ اپنی والدہ محترمہ کی خدمت میں کھانا خود پیش کرتے اور اس وقت تک کھانا شروع نہیں کرتے تھے جب تک کہ ان کی والدہ کھانا شروع نہ کر دیتی نیز وہ اس برتن سے کھانا نہیں کھاتے تھے جس میں ان کی والدہ کھاتی جب ان سے اس کی وجہ پوچھی گئی تو انہوں نے فرمایا:

لأخشى أن تقع عينها على شيء من الطعام فآخذه فأكون عاقاً

میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میری والدہ کی نگاہ انتخاب کسی کھانے کی چیز پر پڑے اور میں اسے اٹھا کر کھالوں اور نافرمان بن جاؤں۔

امام ابن سیرین کی عادت تھی کہ جب کبھی اپنی ماں کے سامنے بیٹھتے تو اپنی نگاہ اونچی نہیںکرتے تھے بلکہ اپنی ماں کے سامنے اپنی نگاہ اس قدر پست رکھتے کہ دیکھنے والا انہیں زرغلام سمجھتا۔

یہی حال امام اہل السنۃ خادم حدیث امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کا تھا انہوں نے خود کو ماں کا وفادار خادم بنا لیا تھا وہ اپنی والدہ کے کپڑے خود اپنے ہاتھوں سے دھویا کرتے۔ ان کے لیے کھانا بناتے اور ان کی جملہ ضروریات کی تکمیل کیا کرتے تھے اس لیے کہ انہوں نے اپنی کتاب ’’مسند امام احمد‘‘ میں یہ حدیث نقل کی تھی کہ ایک مرتبہ سیدنا معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:

يَا رَسُولَ اللهِ، أَرَدْتُ الْغَزْوَ وَجِئْتُكَ أَسْتَشِيرُكَ.

اے اللہ کے رسول! میں جہاد پر جانا چاہتا ہوں اور آپ کی خدمت میںآپ سے مشورہ طلب کرنے حاضر ہوا ہوں۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا:

هَلْ لَكَ مِنْ أُمٍّ؟

کیا تیری ماں زندہ ہے؟

سیدنا معاویہ بن جاہمہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا! جی ہاں

رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اِلْزَمْهَا فَإِنَّ الْجَنَّةَ عِنْدَ رِجْلِهَا

اپنی ماں کی خدمت کر کیونکہ جنت اس کے قدموں کے نیچے ہے۔ (مسند احمد 429/3، ابن ماجہ 2781)

ماں کی دعا جنت کی ہوا

ایک معزز خاتون کی شادی اسماعیل نامی شخص سے ہوئی اسماعیل ایک متقی شخص اور جلیل القدر عالم تھے انہوں نے امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے زانوئے تلمذہ کیے تھے اس مبارک شادی کا پھل میاں بیوی کو ایک نامی گرامی بچے کی صورت میں ملا جس کا نام انہوں نے ’’محمد‘‘ رکھا۔

شادی ہوئے ابھی کچھ ہی سال گزرے تھے کہ اسماعیل بیوی اور چھوٹے بچے کو داغ مفارقت دے گئے اور وراثت میں کافی دولت چھوڑ گئے۔

والدہ انتہائی انہماک کے ساتھ اپنے بیٹے کی تربیت میں جت گئیں ان کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ایک جلیل القدر عالم دین بن کر افق عالم پر چمکے اور اپنے علم سے تاریک دنیا کو منور کرے۔ لیکن ان کی حسرت کا اس وقت کوئی ٹھکانہ نہ رہا جب ان کے بچے کی مستقبل میں ترقی اور ان کی تمناؤں کی تکمیل میں ایک بڑی رکاوٹ پیدا ہوگئی۔بچپن میں ہی ان کا یہ بچہ بینائی سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ اب نابینا ہونے کی صورت میں یہ بچہ حصول تعلیم کے لیے علماء کے دروس میں شرکت سے معذور تھا اور نہ حصول علم کے لیے دوسرے شہروں کا سفر اختیار کر سکتا تھا۔ ماں کو یہ غم کھائے جا رہا تھا کہ آخر اس بچے کا کیا ہوگا۔ عالم دین کیوں کر بن سکے گا بینائی کے بغیر علم کا حصول کیسے ممکن ہے؟ وغیرہ وغیرہ۔

اس خواہش کی تکمیل کے لیے ایک ہی ذریعہ باقی تھا ایک ہی راستہ تھا اور وہ راستہ دعا کا تھا چنانچہ اللہ تعالیٰ نے اس پر دعا کے دروازے کھول دیے اور وہ پورے اخلاص اور سچی نیت کے ساتھ دربار الٰہی میں گڑگڑا کر رونے لگی۔ یہ دعائیں کتنی مدت تک ہوتی رہیں کہ ایک رات اس نے ایک عجیب و غریب خواب دیکھا سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام خواب میں نظر آئے وہ کہہ رہے تھے:

یا ھذہ قد رد اللہ علی ابنک بصرہ بکثرۃ دعائک

ابے بی بی تیری دعاؤں کی کثرت کے سبب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے تیرے بیٹے کی بینائی واپس کر دی ہے جب محمد کی والدہ نیند سے بیدار ہوئیں تو دیکھا کہ واقعی اس کے بیٹے کی بینائی بحال ہو گئی ہے ان کی زبان سے بے ساختہ یہ الفاظ نکلے:

أَمَّنْ يُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاهُ وَيَكْشِفُ السُّوءَ وَيَجْعَلُكُمْ خُلَفَاءَ الْأَرْضِ أَإِلَهٌ مَعَ اللهِ

[النمل: 62]

اے ہمارے پروردگار! پریشان حال کی دعائیں تیرے علاوہ کون سن سکتا ہے اور کون ہے جو بندوں کی تکلیفوں کو دور کرتا ہے؟

یہ عظیم خاتون جو مسلسل دعائیں مانگتی رہیں امام المحدثین محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ کی والدہ محترمہ تھیں جنہوں نے بیٹے کی بینائی لوٹ آنے کے بعد اس کی تعلیم و تربیت اس قدر محنت سے کی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے بیٹے پر علوم وفنون کے دروازے کھول دیے اور پھر آگے چل کر یہ بچہ ایک بہت بڑا محدث بنا اور کتاب اللہ کے بعد دنیا کی صحیح ترین کتاب تصنیف کی جو ’’صحیح بخاری‘‘ کے نام سے مشہور ہے اور اس بچے کو لوگ امام بخاری کے نام سے جانتے ہیں جن کا پورا نام محمد بن اسماعیل بخاری رحمہ اللہ ہے۔ (ماخوذ سنہری کرنیں)

ماں کی دعا جنت کی ہوا ہوتی ہے۔

ماں کی دعا انسان کی زندگی کو بدل دیتی ہے جس پر ماں راضی ہوتی ہے اس پر اللہ بھی راضی ہوتا ہے حقیقت بات ہے کہ ماں کو تنگ کرنے والا دنیا اور آخرت دونوں میں تنگ اور ذلیل ہو جاتا ہے ماں کی دعا اللہ رب العزت کبھی رد نہیں کرتے اور جیسے دعا کبھی رد نہیں کرتے ایسے ہی ان کی بد دعا بھی فورا قبول کرتے ہیں۔

قارئین سے گزارش ہے کہ ہم میں سے اگر کسی نے اپنی والدہ محترمہ کو تنگ کیا ہے تو ان سے ہمیں معافی مانگنی چاہیے اور والدین کی دعائیں لینی چاہئیں اللہ رب العزت ہمیں والدین کا خدمت گزار بنائے اور ہم میں سے جن کے والد یا والدہ اس دار فانی سے چلے گئے ہیں اللہ رب العالمین ان کی مغفرت فرما کر جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین

(ماخوذ ’’مواقف ایمانیہ‘‘ از نجیب عامر معمولی تصرف کے ساتھ)

ماں ساتھ ہے تو سایہ قدرت بھی ساتھ ہے

ماں کے بغیر لگے دن بھی رات ہے

میں دور ہو جاؤ تو اس کا میرے سر پہ ہاتھ ہے

میرے لیے تو میری ماں ہی کائنات ہے

دامن میں ماں کے صرف وفاؤں کے پھول ہیں

ہم سارے اپنی ماں کی قدموں کی دھول ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے