سیرۃ  سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ‏

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے صاحبزادی تھیں۔ ان کی کنیت ام عبداللہ، لقب حمیرا اور خطاب ام المؤمنین تھا۔ عرب میں کنیت شرافت کا نشان ہے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی کوئی اولاد نہ تھی۔ اس لیے آپ نے اپنے بھانجے سیدہ اسماء (بڑی بہن) کے بیٹے عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم کے نام پر اپنی کنیت ام عبداللہ رکھی۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب ساتویں آٹھویں پشت پر رسول اللہﷺ سے مل جاتا ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدہ کا نام ام رومان تھا۔ جن کا انتقال عہد عثمانی میں ہوا تھا۔ اور ان کے والد خلیفہ اول سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ جنہوں نے 13ھ میں رحلت فرمائی۔

ولادت

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی ولادت کب ہوئی۔ اس بارے میں ارباب سیر اور مؤرخین کی مختلف آراء ہیں مؤرخ ابن سعد نے ان کا سن ولادت نبوت کا چوتھا سال بتایا ہے اور بیشتر ارباب سیر نے ابن سعد کی تقلید کی ہے۔ لیکن علامہ سید سلیمان ندوی (م 1375ھ) نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ فرماتے ہیں:

اگر نبوت کے چوتھے سال کی ابتداء میں ان کی ولادت مان لی جائے تو نبوت کے دسویں سال ان کی عمر 6 سال کی نہیں 7 سال کی ہوگی اصل یہ ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر کے متعلق چند باتیں متفقہ طور پر ثابت ہیں ہجرت سے تین سال پہلے 6 سال کی عمر میں بیاہی گئیں شوال 1 ہجری میں 9 سال کی تھیں کہ رخصتی ہوئی۔ 18 سال کی عمر میں ربیع الاول 11 ہجری میں بیوہ ہوئیں اس طرح ان کی ولادت کی صحیح تاریخ نبوت کے پانچویں سال کا آخری حصہ ہو گیا۔ یعنی شوال 9 ہجری قبل ہجرت مطابق جولائی 614ء۔ (سیرت عائشہ ص 7 مطبوعہ اعظم گڑھ 1985ء)

رسول اللہﷺ سے شادی

رسول اللہﷺ کی پہلی شادی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بنت خویلد سے ہوئی۔ اس وقت آپﷺ کی عمر مبارک 25 سال تھی۔ اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی عمر 40 برس تھی اس کے علاوہ وہ 25 برس آپﷺ کی شرف صحبت سے فیض یاب رہیں ۔ رمضان 10 نبوت میں 65 برس کی عمر میں مکہ مکرمہ میں وفات پائی۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد رسول معظمﷺ بہت ملول رہا کرتے تھے۔ آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو فطری طور پر اس سے پریشانی تھی چنانچہ سیدنا عثمان بن خطعون کی بیوی سیدہ خولہ بنت حکیم رضی اللہ عنہا جو رسول اللہﷺ کی ایک ممتاز صحابیہ تھیں آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ آپ دوسری شادی کر لیجئے۔ انہوں نے اس سلسلہ میں دو نام پیش کئے۔ ایک سودہ بنت زمعہ جو بیوہ خاتون تھیں اور دوسرا سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی چھوٹی صاحبزادی عائشہ رضی اللہ عنہا کا۔ رسول اللہﷺ نے سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا کو اجازت دی۔ کہ وہ آپ کی طرف سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے والدین کو پیغام دے دیں۔ جب سیدہ خولہ رضی اللہ عنہا نے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ بات کی تو انہوں نے کہا: ’’وہ میرے بھائی ہیں عائشہ رضی اللہ عنہا تو ان کی بھتیجی ہوئی‘‘ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’ابو بکر میرے دینی بھائی ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں‘‘۔

سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اس سے پہلے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا رشتہ مطعم بن جبیر کے بیٹے سے کر چکے تھے۔ اس لیے انہوں نے مطعم سے پوچھا کہ تمہارا کیا ارادہ ہے وہ چونکہ ابھی تک مسلمان نہیں ہوئے تھے لہذا انہوں نے کہا کہ وہ اس رشتے کو ختم کرنا چاہتے ہیں سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہا کو اطمینان ہوگیا کہ اب وہ رسول اللہﷺ کی طرف سے دیا ہوا پیغام قبول کرنے کے لیے آزاد ہو گئے ہیں رسول اللہﷺ سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا نکاح خود سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے پڑھایا۔ مستند روایات کے مطابق 500 درہم مہر باندھا گیا۔ اس اثنا میں سیدہ سودہ rکا آپﷺ سے نکاح ہو گیا تھا۔ (طبقات ابن سعد ص 43)

ہجرت

نکاح کے بعد سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تین برس تک اپنے میکہ میں رہیں (2 برس 3 ماہ مکہ میں اور تقریباً 8 ماہ مدینہ میں ہجرت کے بعد)۔ رسول اللہﷺ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ہمراہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لے جا چکے تھے۔ جب مدینہ میں ذرا اطمینان ہوا تو رسول اللہﷺ نے اپنے اہل و عیال کو لانے کے لیے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ اور ابو رافع رضی اللہ عنہ غلام کو مکہ بھیجا۔ سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنا آدمی بھیج دیا۔ چنانچہ سیدنا عبداللہ بن ابی بکر رضی اللہ عنہ اپنی ماں اور دونوں بہنوں (سیدہ اسماء، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما) کو لے کر مدینہ پہنچ گئے۔ رسول اللہﷺ کے اہل عیال میں سیدہ سودہ رضی اللہ عنہ اور آپﷺ کی دو صاحبزادیاں (سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما) تھیں آپﷺ کی بڑی صاحبزادی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کو ان کے خاوند نے روک لیا تھا۔ اور آپ کی چوتھی صاحبزادی سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اپنے خاوند سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے ہمراہ پہلے ہی ہجرت کر کے مدینہ منورہ میں قیام فرما تھیں۔

رخصتی

سیدہ عائشہ r کی رخصتی شوال 1 ہجری میں ہوئی۔ اس وقت ان کی عمر 9 سال کی تھی۔ سیدہ عائشہ r کا نکاح اور رخصتی دونوں شوال ہی کے مہینہ میں ہوئی۔ وہ خود فرماتی ہیں کہ میری شادی اور رخصتی دونوں شوال میں ہوئیں اور مجھ سے زیادہ رسول اللہﷺ کے حضور میں کوئی خوش قسمت نہ تھی۔(بخاری)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خانگی زندگی

آنحضرتﷺ کا فرمان ہے:

خَيْرُكُمْ خَيْرُكُمْ لأَهْلِهِ وَأَنَا خَيْرُكُمْ لأَهْلِي

(سنن الترمذي (6/ 192)

تم میں اچھا وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے سب سے اچھا ہے اور میں اپنی بیوی کے لیے تم سب سے اچھا ہوں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کی ازدواجی زندگی 9 سال ہے اس 9 سالہ زندگی میں کوئی ایسا نا خوش گوار واقعہ پیش نہیں آیا جس سے گھر میں رسول اللہﷺ اور ان کے مابین اختلاف ہوا ہو ماسوائے واقعہ ایلاء کے جو ایک معمولی واقعہ تھا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کے بعد رسول اللہﷺ نے اپنی حیات مبارکہ میں دس نکاح کئے۔ جب آپﷺ اس دنیائے فانی سے رحلت فرما گئے تو 9 امہات المؤمنین حیات تھیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا ان سب سوکنوں سے نہایت اچھا برتاؤ تھا کبھی بھی کسی سوکن سے کسی قسم کی رنجش پیدا نہیں ہوئی۔

سوکنوں کے علاوہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا سوتیلی اولاد سے بھی برتاؤ بہت اچھا تھا۔ آنحضرتﷺ کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بطن سے چار صاحبزادیاں تھیں۔ سیدہ زینب، سیدہ رقیہ، سیدہ ام کلثوم، سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہن۔ جب سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی کے ایک سال بعد 2 ہجری جنگ بدر کے موقع پر انتقال کیا۔ سیدہ زینت رضی اللہ عنہ کی وفات 8 ہجری میں اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے 9 ہجری میں رحلت فرمائی۔ یہ دونوں بہنیں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے سات آٹھ سال زندہ رہیں ان سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا برتاؤ مثالی تھا۔ ان سے بھی کسی قسم کی رنجش پیدا نہیں ہوئی۔

چوتھی صاحبزادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں جن کی شادی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے سامنے سیدنا علی رضی اللہ عنہ بن ابی طالب سے ہوئی ان سے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا برتاؤ بہت اچھا تھا۔ حدیث اور تاریخ کی کتابوں میں کوئی ایسا واقعہ نہیں ملتا جس سے یہ معلوم ہو کہ ان دونوں (سیدہ عائشہ اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما) کے مابین کوئی رنجش اور کدورت پیدا ہوئی ہو۔

واقعہ افک

رسول اللہﷺ کی حیات مبارکہ کے ان واقعات میں جنہوں نے آپ ﷺ کو بہت زیادہ دکھ پہنچایا وہ واقعہ افک یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر بہتان کا ہے اس واقعہ نے آپﷺ کو کافی دن مضطرب رکھا اس واقعہ کی تشہیر میں منافقین مدینہ کا بڑا ہاتھ تھا۔ علامہ سید سلیمان ندوی (م 1375ھ) لکھتے ہیں کہ:

مدینہ میں آکر مسلمانوں کو جن مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا وہ مکہ سے بالکل مختلف تھیں مدینہ میں منافقوں کا ایک گروہ پیدا ہو گیا تھا جو ہمیشہ اسلا م کے خلاف سازشوں میں مصروف رہتا تھا۔ انسان کے پاس سب سے بڑی چیز آبرو ہے اور اس پر حملہ بڑے کمینہ دشمن کا کام ہے لیکن یہاں اسلام کو مخلص، وفا شعار اور محبت واے دوست ملے تھے اسی قسم کے نفاق پرور، عداوت پیشہ اور غدار دشمن بھی ہاتھ آئے تھے اس قسم کے غلط اور خلاف آبرو واقعات کی تشہیر اور باہمی خانہ جنگی کے اسباب کی فراہمی ان کا سب سے بڑا ہتھیار تھا۔ اگر خدانخواستہ توفیق الٰہی شامل حال نہ ہوتی تو ان کی یہ خانہ بر انداز کوششیں پہلے ہی کئی بار صحابہ رضی اللہ عنہم کے درمیان تفریق بلکہ خونریزی میں کامیاب ہو چکی ہوتیں۔

ان کوششوں کی سب سے ذلیل مثال افک یعنی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے کا واقعہ ہے معلوم ہے کہ اس منافق گروہ کے سب سے بڑے دشمن سیدنا ابو بکر اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہما تھے۔ اس بنا پر حرم نبوت اور بارگارہ خلافت کی شہزادیوں سیدہ عائشہ اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہما کے بدنام کرنے میں ان کی ناکام کوششوں کو بڑا حصہ صرف ہوا۔

(سیرت عائشہ ص 73 مطبوعہ اعظم گڑھ)

واقعہ افک کو پھیلانے میں رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی بن سلول پیش پیش تھا اس واقعہ سے امت مسلمہ کے اتحاد واتفاق کو بھی نقصان پہنچنے کا خطرہ پیدا ہو گیا۔ اگر قرآن مجید واضح الفاظ میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بے گناہی کا اظہار نہ فرماتا تو یہ معاملہ منافقوں اور دوسرے اسلام دشمن کے ہی نہیں مخلص مسلمانوں کے بعض حلقوں میں بھی موضوع بحث بنا رہتا اور لوگ باتیں بناتے۔

افک کا واقعہ 5 ہجری میں غزوہ بنی مصطلق میں پیش آیا۔ اس غزوہ میں منافقین کی ایک کثیر تعداد نے شرکت کی مؤرخ ابن سعد لکھتے ہیں کہ:

اس سفر میں منافقین کی بڑی تعداد شریک تھی جو کسی اور غزوہ میں شریک نہیں ہوئی۔ (ابن سعد جز مغازی ص 45)

رسول اکرمﷺ جب کسی سفر میں جاتے تو ازواج مطہرات کے مابین قرعہ ڈالتے جس کے نام قرعہ نکلتا اس کو اپنے ساتھ لے جاتے اس سفر میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے نام قرعہ نکلا۔ تو آپ رسول اللہﷺ کی شریک سفر ہوئیں۔

واقعہ افک کو امام محمد بن اسمعیل بخاری (م256ھ) نے اپنی کتاب ’’الجامع الصحیح البخاری‘‘ میں 14 مقام پر نقل فرمایا ہے۔ 2مقام پر تعلیقاً اور 12 مقام پر پوری اسناد کے ساتھ مرفوعاً۔ بعض مقامات پر موضوع اور باب کے لحاظ سے اختصار فرمایا ہے اور بعض مقامات میں مفصل قصہ ذکر کیا ہے۔

صحیح بخاری کی احادیث نمبر 2453، 2494، 2518، 2542، 2723، 3208، 3801، 3910، 3912، 4413، 4414، 4472، 4473، 4479، 6285، 6301، 6935، 6936، 7061، 7106 (مقالات حدیث از مولانا محمد اسمعیل سلفی ص 478)

واقعہ افک کی تفصیل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ:

نبی اکرمﷺ کسی غزوہ اور سفر کے لیے تشریف لے جاتے تو اس سے پہلے اپنی بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی فرماتے۔ جس بیوی کا قرعہ نکلتا آپ اسے اپنے ساتھ لے جاتے۔ غزوہ بنی مصطلق میں قرعہ میرے نام نکلا میں آپ کے ساتھ سفر میں تھی۔ واپسی پر ہم نے مدینہ سے کچھ دور رات کے پہلے پہر قیام کیا مجھے حاجت کے لیے پڑاؤ سے دور جانا پڑا۔ جب فارغ ہو کر پڑاؤ کی جگہ آنے لگی تو میرے گلے کا ہار ٹوٹ کر نیچے گر پڑا۔ میں اسے تلاش کرتی رہی جب پڑاؤ کے مقام پر پہنچی تو قافلہ جاچکا تھا۔ قافلہ والوں نے میرا ہودج اٹھا کر اونٹ پر رکھا اور چل دیئے۔ میرا وجود ہلکا تھا قافلہ والوں نے کوچ کی جلدی میں ہودج کے ہلکے پن کا خیال نہ کیا۔ اور خالی ہودج کے ساتھ چل نکلے۔ میں اور ادھر ادھر تلاش کرنے کی کوشش کی۔ لیکن قافلہ دور نکل چکا تھا۔ میں یہ سوچ کر پڑاو کی جگہ آکر بیٹھ گئی کہ جب شتربانوں کو معلوم ہوگا تو واپس اسی جگہ لوٹیں گے میں اسی جگہ بیٹھی انتظار کرتی رہی۔ اسی حالت میں مجھے نیند آگئی میں زمین پر لیٹ گئی۔

صفوان بن معطل کی ڈیوٹی تھی کہ وہ قافلے کے آخر میں رہیں تاکہ گری پڑی چیز کا خیال رکھیں۔ وہ کچھ دیر کے بعد میرے قریب پہنچے تو اس نے مجھے پہچان لیا کیونکہ پردے کا حکم آنے سے پہلے اس نے مجھے دیکھا ہوا تھا اس نے میرے قریب آکر قدرے بلند آواز سے انا للہ وانا الیہ راجعون کہا اس کی آواز سن کر میں اٹھ کر بیٹھ گئی۔ اور میں نے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔ اللہ کی قسم نہ اس نے مجھ سے کوئی بات کی اور نہ ہی میں نے اس سے کلام کیا۔ اس نے اپنی سواری کو میرے قریب لا کر بٹھایا تاکہ میں سوار ہو جاؤں۔ میں اونٹ پر سوار ہوئی وہ مہار تھامے ہوئے پیدل چلنے لگے۔ ہم دوپہر کے وقت قافلے کے ساتھ شامل ہوگئے اس وقت قافلہ دوپہر کے آرام کے لیے ایک جگہ ٹھہرا ہواتھا۔ اس واقعہ کو عبداللہ بن ابی رئیس المنافقین نے اچھالا یہاں تک کہ مسطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت خواتین میں حمنہ بنت جحش جو ام المؤمنین حضرت زینب بنت جحش کی بہن تھیں انہوں نے منافقوں کی مذموم مہم میں حصہ لیا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: کہ میں سفر سے واپسی پر بیمار پڑ گئی۔ مجھے کچھ معلوم نہ تھا کہ میرے خلاف کیا طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا ہے البتہ رسول کریمﷺ کا رویہ میرے ساتھ پہلے جیسا نہ تھا۔ پہلے کبھی بیمار ہوتی تو رسول کریمﷺ کی شفقت و مہربانی غیر معمولی ہوتی لیکن اس مرتبہ آپ میرے گھر تشریف لائے تو فقط اتنا استفسار فرماتے کہ عائشہ آپ کیسی ہیں؟ ایک دوجملوں کے سوا کوئی بات نہ کرتے۔ میں سمجھ گئی کہ معاملہ بدلا ہوا ہے ایک رات قضائے حاجب کے لیے باہر گئی کیونکہ ان دنوں گھروں میں لیٹرین نہیں ہوتی تھی مسطح بن اثاثہ کی والدہ ام مسطح میرے ساتھ تھیں۔ قضائے حاجت کے بعد ہم گھر آ رہی تھیں کہ اچانک ام مسطح گر پڑیں اور اس کے منہ سے مسطح کے بارے میں بد دعا نکلی۔ کہ مسطح ہلاک ہو جائے میں نے کہا ماں آپ نے ایسے الفاظ کیوں کہے۔ مسطح تو بدری صحابی ہیں اس نے کہا بھولی بیٹی تجھے معلوم نہیںکہ وہ آپ کے بارے میں کیا کہتا پھرتا ہے اس نے مجھے پوری بات بتلائی۔ میں گھر پہنچی تو میری طبیعت بالکل نڈھال ہو چکی تھی۔ رسول کریمﷺ تشریف لائے آپ نے پہلے کی طرح چند الفاظ میں میری طبیعت کے بارے میں پوچھا میں نے آپ سے عرض کی کہ آپ مجھے میکے جانے کی اجازت مرحمت فرمائیں آپ نے بلا تاخیر اجازت دے دی میں اپنے والدین کے گھر آئی میرے گھر والوں کی پریشانی نمایاں تھی۔ میں نے دن رات روتے ہوئے گزارے۔ اس حالت میں تقریباً ایک مہینہ گزر گیا۔ ایک دن نبی کریمﷺ ہمارے گھر تشریف لائے میرے پاس تشریف فرما کر فرمانے لگے کہ عائشہ اگر تو پاکباز ہے تو اللہ تعالیٰ تیری برأت فرمائے گا۔ اگر تجھ سے غلطی ہو گئی ہے تو تجھے اپنے اللہ سے معافی مانگنی چاہیے یقیناً اللہ تعالیٰ معاف فرمانے والا ہے۔ آپﷺ کی باتیں سن کر میرے آنسو تھم گئے میں نے اپنی والدہ سے کہا کہ آپ نبی کریمﷺ کو میری صفائی پیش کریں انہوں نے کہا بیٹی میں کیا جواب دوں میں نے اپنے والد سے درخواست کی کہ ابا جان آپ میری صفائی دیں لیکن انہوں نے فرمایا واللہ میں کیا جواب دوں۔ آخر میں نے اپنے آپ کو سنبھالا اور کہا کہ اللہ کی قسم میں جانتی ہوں کہ یہ بات آپ لوگوں کے دل میں بیٹھ گئی ہے اگر میں کہوں کہ اللہ جانتا ہے کہ میں پاک صاف ہوں تو آپ لوگ پھر بھی یقین نہیں کریں گے اگر میں اپنے آپ پر لگنے والے الزام کو تسلیم کر لوں تو آپ لوگ اس پر یقین کر لیں گے۔ اللہ کی قسم میرا معاملہ آپ کے ساتھ سیدنا یوسف علیہ السلام کے والد جیسا ہے۔ مجھے پریشانی کی وجہ سے سیدنا یعقوب علیہ السلام کا نام بھول گیا۔ اس لیے میں نے سیدنا یعقوب علیہ السلام کا نام لینے کی بجائے کہا کہ میرا معاملہ سیدنا یوسف علیہ السلام کے والد جیسا ہے۔ میرے لیے صبر کرنا ہی بہتر ہے اللہ تعالیٰ میری مدد فرمانے والا ہے یہ کہہ کر میں نے کروٹ بدل لی۔ مجھے یقین تھا کیونکہ میں اس الزام سے بری ہوں۔ اللہ تعالیٰ ضرور میری برأت فرمائےگا۔ لیکن یہ خیال نہ تھا کہ اللہ تعالیٰ میری برأت قرآن مجید میں نازل فرمائے گا۔ ابھی نبی کریمﷺ اپنی جگہ سے اٹھے نہ تھے کہ آپ پر وحی کی کیفیت طاری ہو گئی۔ سردی کے باوجود آپ کی پیشانی سے پسینہ ٹپکنے لگا۔ وحی ختم ہوئی تو آپﷺ نے مسکراتے ہوئے فرمایا:

تیرے لیے خوش خبری عائشہ تیری برأت اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں نازل فرما دی ہے۔

یہ سن کر میری والدہ نے فرمایا کہ بیٹی اٹھو اور رسول اللہﷺ کا شکریہ ادا کرو میں نے کہا اللہ کی قسم میں صرف اپنے رب کا شکریہ ادا کروں گی جس نے میری پاکدامنی کے لیے آیات نازل فرمائی ہیں۔

(فہم القرآن 4/534 تا 536)

واقعہ افک کے متعلق قرآنی آیات

واقعہ افک کے متعلق اللہ تعالیٰ نے جو آیات نازل فرمائیں وہ سورۃ نور کی دس آیات (11 تا 20) ہیں۔

ملاحظہ فرمائیں:

جن لوگوں نے تہمت کی باتیں کیں وہ تم میں سے ایک ٹولہ ہے۔ اسے تم اپنے لئے برا نہ سمجھو بلکہ وہ تمہارے لیے بہتر ہے۔ جس نے اس میں جتنا حصہ لیا اتنا ہی گناہ کمایا اور ان میں سے جو شخص اس تہمت کے بڑے حصہ کا ذمہ دار بنا اس کے لئے عذاب عظیم ہے۔جب تم نے یہ قصہ سنا تھا تو مومن مردوں اور مومن عورتوں نے اپنے دل میں اچھی بات کیوں نہ سوچی اور یوں کیوں نہ کہہ دیا کہ یہ تو صریح بہتان ہے پھر یہ تہمت لگانے والے اس پر چار گواہ کیوں نہ لاسکے؟ پھر جب یہ گواہ نہیں لاسکے تو اللہ کے ہاں یہی جھوٹے ہیں۔ اور اگر تم پر دنیا اور آخرت میں اللہ کا فضل اور اس کی زحمت نہ ہوتی تو جن باتوں میں تم پڑ گئے تھے اس کی پاداش میں تمہیں بہت بڑا عذاب آلیتا۔جس وقت تمہاری ایک زبان سے دوسری زبان اس جہان کو لیتی جارہی تھی اور تم اپنے منہ سے وہ کچھ کہہ رہے تھے جس کے متعلق تمہیں کچھ علم نہ تھا اور تم اسے معمولی بات سمجھ رہے تھے، حالانکہ وہ اللہ کے ہاں بہت بڑی بات تھی۔جب تم نے یہ قصہ سنا تھا تو تم نے یوں کیوں نہ کہہ دیا کہ:ہمیں یہ مناسب نہیں کہ ایسی بات کریں، سبحان اللہ! یہ تو بہت بڑا بہتان ہے اللہ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر تم مومن ہو تو آئندہ کبھی ایسی حرکت نہ کرنا۔ اللہ تمہیں واضح ہدایات دیتا ہے اور وہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں میں بے حیائی کی اشاعت ہو ان کے لئے دنیا میں بھی دردناک عذاب ہے اور آخرت میں بھی۔ اور (اس کے نتائج کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت شامل حال نہ ہوتی ( تو اس کے برے نتائج تمہارے سامنے آجاتے) اور اللہ تعالیٰ یقینا بڑا مہربان اور نہایت رحم والا ہے۔ (تیسیر القرآن)

اس کے بعد تہمت تراشی کے جرم میں مطح بن اثاثہ، حسان بن ثابت اور حمنہ بن جحش رضی اللہ عنہم کی (80،80) کوڑے مارے گئے۔ البتہ خبیث عبداللہ بن ابی کی پیٹھ اس سزا سے بچ گئی حالانکہ تہمت تراشوں میں وہی سر فہرست تھا اور اسی نے اس معاملے میں اہم رول ادا کیا تھا اسے سزا نہ دینے کی وجہ یا تو یہ تھی کہ جن لوگوں پر حدود قائم کر دی جاتی ہیں وہ ان کے لیے اخروی عذاب کی تخفیف اور گناہوں کا کفارہ بن جاتی ہیں اور عبداللہ بن ابی کو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں عذاب عظیم دینے کا اعلان فرما دیا تھا یا پھر وہی مصلحت کار فرما تھی جس کی وجہ سے اس کی اسلام دشمنی کے باوجود قتل نہیں کیا گیا۔ (صحیح بخاری 1/364) (الرحیق المختوم ص 455 طبع دہلی 2009ء)

تحریم

علامہ سید سلیمان ندوی اپنی کتاب سیرۃ عائشہ رضی اللہ عنہا میں لکھتے ہیں کہ:

ازواج مطہرات دو گروپوں میں تقسیم تھیں۔

1۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا، سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا، سیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا۔

2۔ سیدہ زینب بنت جحش اور دوسری ازواج مطہرات۔

رسول اللہﷺ کا روزانہ کا معمول تھا کہ آپ نماز عصر کے بعد کچھ دیر ازواج مطہرات کے حجروں میں تشریف لے جایا کرتے تھے لیکن اتفاقاً سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں چند روز معمول سے زیادہ تشریف فرما رہے سیدہ زینب رضی اللہ عنہا آپﷺ کو شہد پیش کرتی تھیں۔ کیونکہ آپﷺ کو شہد زیادہ مرغوب تھا جس وجہ سے آپﷺ سیدہ زینب رضی اللہ عنہا کے ہاں قیام دوسری ازواج کے ہاں قیام کے مقابلہ میں زیادہ ہو جاتا تھا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ حفصہ اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہما سے ذکر کیا کہ اس کی کوئی تدبیر کرنی چاہیے چنانچہ آپﷺ نظافت پسند تھے اس لیے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سیدہ حفصہ اور سیدہ سودہ رضی اللہ عنہما کو سمجھا دیا کہ جب رسول اللہﷺ تشریف لائیں تو ان کی خدمت میں عرض کریں کہ:

اے اللہ کے رسولﷺ کہ آپ کے منہ سے مغافیر کی بُو آتی ہے۔

چنانچہ ایسا ہی ہوا آپﷺ نے فرمایا میں نے زینب کے ہاں شہد پیا ہے اور اب میں شہد نہیں پئوں گا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے عتاب فرمایا اور یہ آیت نازل فرمائی:

اے نبی!جس چیز کو اللہ نے آپ کےلئے حلال کیا ہے۔ اسے آپ کیوں حرام کرتے ہیں؟ (کیا) آپ اپنی بیویوں کی خوشی چاہتے ہیں اور اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔ (التحریم 1)

صاحب احسن البیان اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ آپﷺ سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے سیدہ حفصہ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں نے وہاں معمولی سے زیادہ دیر تک آپ کو ٹھہرنے سے روکنے کے لیے یہ اسکیم تیار کی کہ ان میں سے جن کے پاس آپﷺ تشریف لائیں تو وہ ان سے کہے کہ اللہ کے رسول آپﷺ کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کا پھول جس میں بساند ہوتی ہے) کی بُو آرہی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایسا ہی کیا آپﷺ نے فرمایا: میں نے تو زینب کے گھر سے صرف شہد پیا ہے اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا لیکن یہ بات تم کسی کو مت بتانا۔

(صحیح بخاری تفسیر سورۃ تحریم)، (احسن البیان ص 1597)

ایلاء

واقعہ تحریم کے سلسلہ میں ایلاء کا واقعہ پیش آیا یہ 9ھ کا واقعہ ہے اس وقت عرب کے پیشتر اسلامی سلطنت کے زیرنگین ہو چکے تھے مال غنیمت اور سالانہ محاصل کا بے شمار ذخیرۃ وقتاً فوقتاً دارالخلافہ (مدینہ طیبہ) آتا رہتا تھا۔ ازواج مطہرات کے لیے غلہ اور کجھور کی جو مقدار مقرر تھی وہ ان کی ضروریات کے لیے کافی نہ تھی اور ان کا گزارہ تنگ دستی میں ہوتا تھا چنانچہ ازواج مطہرات نے اپنے مقرر کردہ گزارہ میں اضافہ کی خواہش کی۔ سیدنا صدیق اکبررضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے اپنی صاحبزادی سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا کو اس مطالبہ سے باز رکھا اور سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے کہا:تم کو جس چیز کی ضرورت ہے وہ مجھ سے مانگ لے۔

لیکن دوسری ازواج مطہرات اپنے مطالبات پر قائم رہیں اتفاق سے اسی زمانہ میں رسول اکرمﷺ گھوڑے سے گر پڑے۔ اور پہلو مبارک پر چوٹ لگی۔ آپﷺ نے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے حجرہ کے متصل ایک بالا خانےمیں قیام فرمایا اور عہد کیا کہ ایک مہینہ تک ازواج مطہرات سے نہ ملیں گے منافقین ایسے موقع کی تلاش میں تھے انہوں نے مشہور کر دیا کہ آپﷺ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس اطلاع سے بہت مغموم ہوئے سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اللہﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی:

یا رسول اللہﷺ کیا آپ نے اپنی بیویوں کو طلاق دے دی۔ آپﷺ نے فرمایا: نہیں۔

سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیم اجمعین کو اطلاع دی کہ رسول اللہﷺ نے ازواج مطہرات کو طلاق نہیں دی۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں:

میں ایک ایک دن گنتی تھی 29 دن ہوئے تو رسول اللہﷺ بالا خانے سے اتر آئے اور سب سے پہلے میرے پاس تشریف لائے میں نے عرض کیا اے اللہ کے رسولﷺ آپ نے ایک مہینہ کا عہد فرمایا تھا اور آج 29 دن ہوئے ہیں فرمایا: مہینہ کبھی 29 دن کا بھی ہوتا ہے۔

تخییر

واقعہ ایلاء کے بعد ازواج توسیع نفقہ کی طالب تھیں لیکن پیغمبرﷺ اپنی بیویوں کی رضا مندی کے لیے اپنے دامن کو فرحارق دینوی سے ملوث نہیں کرنا چاہتے تھے ایک دن رسول اللہﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا:

عائشہ میں تم سے ایک بات دریافت کرنا چاہتا ہوں اس کا جواب اپنے والدین سے مشورہ کر کے دو تو بہتر ہوگا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا:

یا رسول اللہﷺ وہ کیا بات ہے؟رسول اکرمﷺ نے یہ آیات تلاوت فرمائیں۔

اے نبی! اپنی بیویوں سے کہہ دیجئے کہ (اگر تم دنیا کی زندگی اور اس کی زیبائش ہی چاہتی ہو تو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر بھلے طریقے سے رخصت کردوںاور اگر تم اللہ، اس کا رسول اور آخرت کا گھر چاہتی ہو تو اللہ تعالیٰ نے تم میں سے نیکو کاروں کے لئے بہت بڑا اجر تیار کر رکھا ہے۔ (الاحزاب 28۔29)

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا:

یارسول اللہﷺ اس میں والدین سے مشورہ کی کیا ضرورت ہے میں تو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور آخرت کا گھر اختیار کرتی ہوں۔

رسول اللہﷺ نے یہ جواب پسند فرمایا یہی بات دوسری ازواج مطہرات سے پوچھی تو انہوں نے بھی ویسا ہی جواب دیا۔

صاحب احسن البیان آیات کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:

جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی تو سب سے پہلے آپﷺ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو یہ آیت سنا کر انہیں اختیار دیا تاہم انہیں کہا کہ اپنے طور پر فیصلہ کرنے کی بجائےے اپنے والدین سے مشورے کے بعد کوئی اقدام کرنا۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں آپ کے بارے میں مشورہ کروں بلکہ میں اللہ اور رسولﷺ کو پسند کرتا ہوں یہی بات دیگر ازواج مطہرت رضی اللہ عنہن نے بھی کہی اور کسی نے بھی رسول اللہﷺ کو چھوڑ کر دنیا کے عیش و آرام کو ترجیح نہیں دی۔ (صحیح بخاری تفسیر سورۃ احزاب)

اس وقت آپﷺ کے حبالۂ عقد میں 9 بیویاں تھیں۔ 5 قریش میں سے تھیں۔ سیدہ عائشہ، حفصہ، ام حبیبہ، سودہ او رام سلمہ رضی اللہ عنہن۔ اور 4 ان کے علاوہ تھیں یعنی سیدہ صفیہ، میمونہ، زینب او رجویرہ رضی اللہ عنہن۔ (احسن البیان ص 1176)

اخلاق و عادات

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا اخلاق و عادات کے اعتبار سے بلند مرتبہ و مقام کی حامل تھیں نہایت سنجیدہ، پاکیزہ سیرت، فیاض، قانع، رحمدل، عبادت گزار، شوہر کی اطاعت و فرمانبردار، آپﷺ کی مسرت ورضا کے حصول میں کوشاں، خودستائی سے نفرت و اجتناب، خوداری میں بے مثال، نہایت شجاع اور دلیر، سخاوت اور غرباء و مساکین کی مدد کرنے میں اعلیٰ و ارفع، دل میں خوف و خشیت الٰہی، رقیق القلب، بہت زیادہ عبادت الٰہی میں مصروف رہتیں۔ بہت زیادہ روزے رکھا کرتی تھیں حج کی شدت سے پابند تھیں منہیات سے پرہیز کرتی تھیں۔ غلاموں پر شفقت کرتی تھیں اور پردہ کا بہت زیادہ خیال رکھتی تھیں۔

مناقب

رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

(۱) فَضْلُ عَائِشَةَ عَلَى النِّسَاءِ كَفَضْلِ الثَّرِيدِ عَلَى سَائِرِ الطَّعَامِ

عائشہ رضی اللہ عنہا کو عام عورتوں پر اسی طرح فضیلت ہے جس طرح ثرید کے کھانے کو عام کھانے پر۔

(صحیح بخاری، جامع ترمذی)

(۲) خواب میں رسول ا للہﷺ کو ان کے حرم نبوی ہونے کی خوشخبری سنائی (صحیح بخاری)

(۳) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بستر پر نبیﷺ پر وحی نازل ہوئی۔ (صحیح بخاری)

(۴) جبرئیل امین نے ان کے آستانہ پر اپنا سلام بھیجا۔

(صحیح بخاری شریف)

(۵)جنت میں بھی آپﷺ کی بیوی ہوں گی۔ (بخاری)

علم و فضل

علم و فضل کے اعتبار سے سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا جامع الکمالات تھیں ارباب سیر اور محدثین کرام نے ان کو ’’فقیہ امت‘‘ کہا ہے صحابہ کرام میں چند جلیل القدر کو چھوڑ کر تمام صحابہ کرام ان کو فضیلت حاصل تھی۔ جامع ترمذی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ ہے روایت ہے:

مَا أَشْكَلَ عَلَيْنَا أَصْحَابَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثٌ قَطُّ فَسَأَلْنَا عَائِشَةَ إِلَّا وَجَدْنَا عِنْدَهَا مِنْهُ عِلْمًا (ترمذي 5/ 705)

ہم صحابہ کو کوئی ایسی مشکل بات کبھی پیش نہیں آئی کہ ہم نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا ہو اور ان کے پاس ان کے متعلق کچھ معلومات ہم کو نہ ملی ہوں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تمام علوم اسلامیہ یعنی تفسیر، حدیث، فقہ، فرائض، سیر و تاریخ، انساب، حلال و حرام، اخبار و اشعار، طب و حکمت غرض سب علوم کی جامع تھیں اور ان کی جامعیت، فقاہت اور ژرف نگاہی پر تمام اکابر صحابہ معترف تھے۔

امام زہری رحمہ اللہ کا قول ہے:

لَو جمع علم عَائِشَة إِلَى جَمِيع أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم وَعلم جَمِيع النِّسَاء لَكَانَ علم عَائِشَة أفضل (تأويل مختلف الحديث (ص: 56)

اگر تمام ازواج مطہرات کا علم بلکہ تمام مسلمان عورتوں کا علم جمع کیا جائے اور اس کے مقابلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا علم جمع کیا جائے تو ان کا علم سب سے اعلیٰ و افضل ہوگا۔ (بنات الاسلام کی دینی وعلمی خدمات از قاضی اطہر مبارکپوری ص 72)

صحابہ کرام y بیشتر مشکل مسائل کے حل کے لیے حضرت عائشہ r کی طرف رجوع کرتے تھے۔

امام شمس الدین ذہبی (م748ھ) لکھتے ہیں:

من أكبر فقهاء الصحابة. كان فقهاء أصحاب رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم يرجعون إليها. تفقه بها جماعة. (تذكرة الحفاظ = طبقات الحفاظ للذهبي (1/ 25)

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بڑے فقہاء صحابہ میں سے تھیں اور رسول اللہﷺ کے فقہائے صحابہ ان کی طرف رجوع کرتے تھے اور ایک جماعت نے ان سے فقہ حاصل کی ہے۔

تفسیر قرآن میں ان کو خاص ملکہ حاصل تھا قرآن مجید میں نماز کے بارے میں حکم ہے:

حَافِظُوا عَلَى الصَّلَوَاتِ وَالصَّلَاةِ الْوُسْطَى

(سورۃ البقرة:آیت نمبر 238)

نمازوں کی حفاظت کرو بالخصوص درمیان والی نماز کی۔

درمیان والی نماز سے کیا مراد ہے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اس میں اختلاف ہے بعض صحابہ کرام نے ظہر کی نماز اور بعض نے فجر کی نماز کو قرار دیا ہے حضرت عائشہr فرماتی ہیں کہ درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے ان کو اپنی صحت پر اس قدر اعتماد تھا کہ اپنے مصحف کے حاشیہ میں انہوں نے اس کو لکھوا دیا تھا۔

(صحیح بخاری تفسیر آیت البقرۃ 238)

حدیث میں بھی ان کو خاص درک حاصل تھا۔ قاضی اطہر مبارکپوری نے محمود بن لبید کا قول اپنی کتاب میں نقل کیا ہے۔

يَحْفَظْنَ مِنْ حَدِيثِ النَّبِيّ صلى الله عليه وسلم كَثِيرًا وَلا مِثْلاً لعَائِشَة وَأُمِّ سَلَمَةَ

(طبقات ابن سعد 2/375)

ازواج مطہرات رضی اللہ عنہن رسول اللہﷺ کی حدیثیں بہت زیادہ یاد رکھتی تھیں مگر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سب سے آگے تھیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا شمار مکثرین صحابہ کرام میں ہوتا ہے جن کی تعداد ہزاروں تک پہنچتی ہے اور وہ سات صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں۔

۱۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (م 59ھ) مرویات 5374

۲۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ (م 68ھ) مرویات 2660

۳۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ (م 73ھ) مرویات 1630

۴۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا (م 58ھ) مرویات 2210

۵۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ (م 78ھ) مرویات 1560

۶۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ (م 93ھ) مرویات 1286

۷۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ (م 74ھ) مرویات 1170

(خطبات مدارس ص 53)

سیرت سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں سید سلیمان ندوی رحمہ اللہ نے مکثرین صحابہ کرام کی تعداد مرویات درج ذیل لکھی ہیں۔

۱۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ مرویات 5364

۲۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ مرویات 1660

۳۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ مرویات 2630

۴۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا مرویات 2210

۵۔ سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ مرویات 1540

۶۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ مرویات 2286

۷۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ مرویات 1170

(سیرت عائشہ مطبوعہ اعظم گڑھ ص 181)

ان سات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعداد مرویات کو سید صاحب نے اپنی دونوں کتابوں میں پانچ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین (ابو ہریرہ، ابن عباس، ابن عمر، جابر، انس بن مالک) میں فرق ظاہر کیا ہے دو صحابہ کرام (عائشہ، ابو سعید خدری) میں فرق نہیں بتایا۔ (صحیح تعداد تو ماہر اسماء الرجال عالم دین ہی بتاسکتا ہے) سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایات تعداد 2210 ہے۔

صحیحین میں 286، بخاری و مسلم میں مشترک احادیث 174، صرف بخاری میں 54، اور صرف مسلم میں 58۔

دوسرے علوم اسلامیہ میں بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو امتیازی حیثیت حاصل تھی۔

سیدنا عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا أَعْلَمَ بِالْحَلَالِ وَالْحَرَامِ وَالْعِلْمِ وَالشِّعْرِ وَالطِّبِّ مِنْ عَائِشَةَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ (المستدرك على الصحيحين للحاكم (4/ 12)

میں نے حلال و حرام و علم و شاعری اور طب میں ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا۔

دوسری روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:

مَا رَأَيْتُ أَحَدًا مِنَ النَّاسِ أَعْلَمَ بِالْقُرْآنِ وَلَا بِفَرِيضَةٍ وَلَا بِحَلَالٍ وَلَا بِحَرَامٍ وَلَا بِشِعْرٍ وَلَا بِحَدِيثِ الْعَرَبِ وَلَا بِنَسَبٍ مِنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ تَعَالَى عَنْهَا (حلية الأولياء وطبقات الأصفياء (2/ 49)

قرآن، فرائض، حلال و حرام، فقہ، شاعری، طب، عرب کی تاریخ اور نسب کا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے بڑھ کر عالم کسی کو نہیں دیکھا۔

سیدنا عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں : کہ

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا افقہ الناس، احسن الناس اور عام باتوں میں اعلم الناس تھیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے استنباط کا اصول یہ تھا کہ وہ سب سے پہلے قرآن مجید پر نظر کرتی تھیں اگر قرآن مجید اس میں رہنمائی نہ کرتا تو حدیث نبویﷺ کی طرف رجوع کرتیں اگر حدیث بھی خاموش ہوتی تو پھر قیاس عقلی سے کام لیتیں۔

ایک شخص نے متعہ کے بارے میں سوال کیا (متعہ ایک مدت معین تک کے لیے نکاح جاہلیت اور آغاز اسلام میں 7 ہجری تک جائز تھا جنگ خیبر میں اس کی حرمت کا اعلان کیا گیا)

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے متعہ کے بارے میں سوال کرنے والے کے جواب میں قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی:

وَالَّذِينَ هُمْ لِفُرُوجِهِمْ حَافِظُونَ، إِلَّا عَلَى أَزْوَاجِهِمْ أَوْ مَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ فَإِنَّهُمْ غَيْرُ مَلُومِينَ (المؤمنون: 5، 6)

اور جو لوگ اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں مگر اپنی بیویوں کے ساتھ یا اپنی باندیوں کے ساتھ ان پر کوئی ملامت نہیں۔

ان دو صورتوں کے علاوہ (لتی ممتوعہ نہ بیوی ہے نہ باندی) کوئی اور صورت جائز نہیں۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا تمام اسلامی علوم سے کماحقہ واقف تھیں علامہ سید سلیمان ندوی فرماتے ہیں:

بہرحال نوشت و خواند تو انسان کی ظاہری تعلیم ہے حقیقی تعلیم و تربیت کا معیار اس سے بدرجہا بلند ہے انسانیت کی تکمیل، اخلاق کا تزکیہ، ضروریات دین سے واقفیت، اسرار شریعت کی آگاہی، کلام الٰہی کی معرفت، احکام نبویﷺ کا علم بھی اعلیٰ تعلیم ہے۔ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اس تعلیم سے کامل طور پر بہرہ اندوز تھیں علوم دینیہ کےعلاوہ تاریخ، ادب اور طب میں ان کو یدطولیٰ حاصل تھا۔ (سیرت عائشہ مطبوعہ اعظم گڑھ ص 22)

ادب و خطابت میں بھی ارفع و اعلیٰ تھیں بہت زیادہ شیریں اور فصیح اللسان تھیں ان کے ایک شاگرد موسیٰ بن طلحہ فرماتے ہیں:

ما رایت افصح عن عائشہ

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے زیادہ فصیح اللسان میں نے نہیں دیکھا (جامع ترمذی مناقب عائشہ رضی اللہ عنہا)

تعلیم، افتاء، ارشاد

علم کی ایک یہ بھی خدمت ہے کہ اسے دوسروں تک پہنچایا جائے۔ ارشاد نبویﷺ ہے:

فلیبلغ الشاھد الغائب

جو حاضر ہو وہ غائب تک پہنچائے

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے تاحیات یہ فریضہ ادا کیا آپ ہر سال حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے جاتیں لوگ ان کے حلقہ درس میں شریک ہوئے اور مسائل پیش کرتے اور جواب حاصل کرتے تھے۔

افتاء میں بھی ان کو خاص مقام حاصل تھا عہد صدیقی اور عہد فاروقی میں فتویٰ دیا کرتی تھیں بڑے بڑے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ان سے مسائل دریافت کرتے تھے۔

سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے فریضہ ارشاد کو جس حد تک ادا کیا وہ دیگر صحابہ کی کوششوں سے کسی طرح کم نہیں ہے وہ موسم حج میں غرض کہ کہیں بھی اس سے غافل نہیں رہتی تھیں۔

ایک دفعہ ان کے بھائی عبدالرحمن بن ابی بکر wان کے پاس آئے اور جلدی ہی معمول کی طرح وضو کر کے چلے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فورا ٹوکا اور فرمایا عبدالرحمن وضو اچھی طرح کیا کرو۔ رسول اللہﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سناہے کہ وضو میں جو عضو پانی سے خالی رہ جائیں گے اس پر جہنم کی پھٹکار ہو۔ (مسند احمد 6/285)

وفات

سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں 17 رمضان المبارک 58ھ مطابق جون 678ء مدینہ طیبہ میں انتقال کیا انا للہ وانا الیہ راجعون۔

عمر 67 سال تھی۔ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (مدینہ کے قائم مقام گورنر تھے) نے نماز جنازہ پڑھائی۔ قاسم بن محمد بن ابی بکر، عبداللہ بن عبدالرحمن بن ابی بکر، عبداللہ بن عتیق، عروہ بن زبیر اور عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہم بھتیجوں اور بھانجوں نے قبر میں اتارا اور حسب وصیت جنت البقیع میں دفن ہوئیں۔ (سیرت عائشہ ص 146)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے