ایک آدمی کا سلام پوری مجلس کےلیےکافی ہے

عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ أَبُو دَاوُد رَفَعَهُ الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ قَالَ يُجْزِئُ عَنْ الْجَمَاعَةِ إِذَا مَرُّوا أَنْ يُسَلِّمَ أَحَدُهُمْ وَيُجْزِئُ عَنْ الْجُلُوسِ أَنْ يَرُدَّ أَحَدُهُمْ (سنن ابی داؤد: كِتَاب الْأَدَبِ، بَابُ مَا جَاءَ فِي رَدِّ الْوَاحِدِ عَنِ الْجَمَاعَةِ،(5210)،

(سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے) امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے اسے مرفوعا روایت کیا ہے، کہ اگر جماعت گزرے اور اس میں سے ایک آدمی سلام کرے تو (پوری جماعت کے لیے) کافی ہے اور بیٹھے ہوئے لوگوں میں سےبھی اگر ایک آدمی جواب دے دے تو کافی ہے۔

غائب شخص کے سلام کاجواب کیسے دِیاجائے؟

عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهَا يَا عَائِشَةُ هٰذَا جِبْرِيلُ يَقْرَأُ عَلَيْکِ السَّلَامَ فَقَالَتْ وَعَلَيْهِ السَّلَامُ وَرَحْمَةُ اللهِ وَبَرَکَاتُهُ تَرَی مَا لَا أَرَی تُرِيدُ النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ (صحیح بخاری: كِتَابُ بَدْءِ الخَلْقِ، بَابُ ذِكْرِ المَلاَئِكَةِ،(3217)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے ان سے فرمایا: اے عائشہ! یہ جبرائیلعلیہ السلام ہیں تمہیں سلام کہتے ہیں انہوں نے جواب دیا وعلیہ السلام و رحمۃ اللہ و برکاتہ اور رسول اکرمﷺ سے کہا کہ آپﷺ وہ دیکھتے ہیں جو میں نہیں دیکھ سکتی۔

فائدہ: اس سے اندازہ لگائیں کہ جس ماں کو فرشتوں کاسردار اور اللہ کا مقرب ترین فرشتہ سلام کرتا ہو وہ   ماں خود کتنی عظیم ہوگی؟۔

منکرتقدیرکوسلام نہ کرو

عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ مَجُوسَ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْمُکَذِّبُونَ بِأَقْدَارِ اللهِ إِنْ مَرِضُوا فَلَا تَعُودُوهُمْ وَإِنْ مَاتُوا فَلَا تَشْهَدُوهُمْ وَإِنْ لَقِيتُمُوهُمْ فَلَا تُسَلِّمُوا عَلَيْهِمْ (سنن ابن ماجہ: افتتاح الكتاب في الإيمان وفضائل الصحابة والعلم ، بَابٌ فِي الْقَدَرِ ،(92)

سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جناب رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: اس امت کے مجوسی وہ لوگ ہیں جو اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والے ہیں اگر وہ بیمار ہو جائیں تو ان کی عیادت نہ کرو، اگر وہ مر جائیں تو ان کے جنازوں پر نہ جاؤ اور اگر تم ان سے ملو تو سلام نہ کرو۔ (فرقہ قدریہ کی طرف اشارہ ہے)

اہلِ کتاب کو سلام میں پہل نہ کرو

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا تَبْدَئُوا الْيَهُودَ وَلَا النَّصَارَی بِالسَّلَامِ فَإِذَا لَقِيتُمْ أَحَدَهُمْ فِي طَرِيقٍ فَاضْطَرُّوهُ إِلَی أَضْيَقِهِ (صحیح مسلم: كتاب الْآدَابِ ، بَابُ النَّهْيِ عَنِ ابْتِدَاءِ أَهْلِ الْكِتَابِ بِالسَّلَامِ وَكَيْفَ يُرَدُّ عَلَيْهِمْ ،(2167)

سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا: یہود اور نصاری کو سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو اور جب تمہیں ان میں سے کوئی راستہ میں ملے تو اسے تنگ راستہ کی طرف مجبور کر دو۔

سلام کرنے میں ابتداء نہ کرو، کا مطلب یہ ہے کہ انھیں سلام کرنے میں پہل نہ کرو، کیونکہ سلام میں پہل کرنا درحقیقت اسلامی تہذیب کا بخشا ہوا ایک اعزاز ہے جس کے مستحق وہی لوگ ہو سکتے ہیں جو اسلامی تہذیب کے پیرو ہوں اور مسلمان ہوں اس اعزاز کا استحقاق ان لوگوں کو حاصل نہیں ہو سکتا جو دین کے دشمن اور خدا کے باغی ہوں، اسی طرح ان باغیوں اور دشمنوں کے ساتھ سلام اور اس جیسی دوسری چیزوں کے ذریعے الفت و محبت کے مراسم کو قائم کرنا بھی جائز نہیں ہے۔

کیونکہ ارشادِ باری تعالی ہے۔

لَا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللهَ وَرَسُولَهُ ( المجادلة 22)

آپ ایسی کوئی قوم نہ پائیں گے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتی ہو اور ان لوگوں سے بھی دوستی رکھتی ہو جو اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہوں۔

ہاں اگر وہ لوگ سلام میں خود پہل کریں اور السلام علیک یا السلام علیکم کہیں تو اس کے جواب میں صرف علیک یا علیکم کہہ دیا جائے۔

حدیث کے آخری الفاظ کا مطلب یہ ہے کہ یہود و نصاری جو دین کے دشمن ہیں اور اپنے مکر و فریب اور سازشوں کے ذریعہ اسلامی پرچم کو سرنگوں کرنا چاہتے ہیں، اس سلوک کے مستحق ہیں کہ جب وہ راستےمیں ملیں تو ان پر راستہ تنگ کردیا جائےتاکہ وہ سکڑ کر گزرنے پر مجبور ہو جائیں تاکہ اسلام کی عظمت و شوکت اور مسلمانوں کا رُعب و دبدبہ اور غیر مسلم کی ذلّت و پستی ظاہر ہو، کیونکہ یہ اسلامی حمیّت کی بات ہے۔

جب اہلِ کتاب کو سلام میں پہل کرنا ضروری ہو

1: أَنَّ ابْنَ عَبَّاسٍ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ أَبَا سُفْيَانَ بْنَ حَرْبٍ، أَخْبَرَهُ: أَنَّ هِرَقْلَ أَرْسَلَ إِلَيْهِ فِي نَفَرٍ مِنْ قُرَيْشٍ، وَكَانُوا تِجَارًا بِالشَّأْمِ، فَأَتَوْهُ – فَذَكَرَ الحَدِيثَ – قَالَ: ثُمَّ دَعَا بِكِتَابِ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُرِئَ، فَإِذَا فِيهِ: بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللهِ وَرَسُولِهِ، إِلَى هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ، السَّلاَمُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الهُدَى، أَمَّا بَعْدُ (صحیح بخاری: كِتَابُ الِاسْتِئْذَانِ ، بَابٌ: كَيْفَ يُكْتَبُ الكِتَابُ إِلَى أَهْلِ الكِتَابِ ،(6260)

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ابوسفیان بن حرب نے انہیں بتایا کہ ہرقل نے انہیں قریش کی ایک جماعت میں بلا بھیجا، جو شام میں تجارت کی عرض سے گئی ہوئی تھی وہ لوگ اس کے پاس گئے پھر پوری حدیث بیان کی اور کہا کہ ہرقل نے رسول اکرمﷺ کا خط منگوایا جسے پڑھا گیا، اس میں لکھا ہوا تھا۔

(بِسْمِ اللهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ مُحَمَّدٍ عَبْدِ اللهِ وَرَسُولِهِ إِلَی هِرَقْلَ عَظِيمِ الرُّومِ السَّلَامُ عَلَی مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَی أَمَّا بَعْدُ)

یہ تحریر اللہ کے بندے اور اس کے رسول ﷺکی طرف سے ہرقل کی طرف بھیجی گئی ہے جو روم کا بڑا حاکم ہے۔ سلام ہے اس پر جوراہِ ہدایت کی اتباع کرے: امابعد۔

2: عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى عَائِشَةَ أَنَا وَعَمَّارٌ وَالْأَشْتَرُ، فَقَالَ عَمَّارٌ: السَّلَامُ عَلَيْكِ يَا أُمَّتَاهُ، فَقَالَتْ: السَّلَامُ عَلَى مَنْ اتَّبَعَ الْهُدَى، حَتَّى أَعَادَهَا عَلَيْهَا مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَاللهِ إِنَّكِ لَأُمِّي وَإِنْ كَرِهْتِ، قَالَتْ: مَنْ هٰذَا مَعَكَ؟ قَالَ: هٰذَا الْأَشْتَرُ، قَالَتْ: أَنْتَ الَّذِي أَرَدْتَ أَنْ تَقْتُلَ ابْنَ أُخْتِي؟ قَالَ: نَعَمْ، قَدْ أَرَدْتُ ذَلِكَ وَأَرَادَهُ، قَالَتْ: أَمَا لَوْ فَعَلْتَ مَا أَفْلَحْتَ، أَمَّا أَنْتَ يَا عَمَّارُ ، فَقَدْ سَمِعْتَ أَوْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مَنْ زَنَى بَعْدَمَا أُحْصِنَ،أَوْ كَفَرَ بَعْدَمَا أَسْلَمَ أَوْ قَتَلَ نَفْسًا فَقُتِلَ بِهَا (مسنداحمد: مُسْنَدُ النِّسَاء: مُسْنَدُ الصِّدِّيقَةِ عَائِشَةَ بِنْتِ الصِّدِّيقِ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا، (24304)

عمرو بن غا لب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں، عمار اور اشتر ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عمار نے کہا اماں جان! السلام علیک انہوں نے جواب میں فرمایا: السلام علی من اتبع الھدی (اس شخص پر سلام ہوجو ہدایت کی پیروی کرے) عمار نے دو تین مرتبہ انہیں سلام کیا اور پھر کہا کہ بخدا آپ میری ماں ہیں اگرچہ آپ کو یہ بات پسند نہ ہو، انہوں نے پوچھا یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ عمار نے بتایا کہ یہ اشتر ہے، انہوں نے فرمایا: تم وہی ہو جس نے میرے بھانجے کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی، اشتر نے کہا جی ہاں! میں نے ہی اس کا ارادہ کیا تھا اور اس نے بھی یہی ارادہ کر رکھا تھا، انہوں نے فرمایا: اگر تم ایسا کرتے تو تم کبھی کامیاب نہ ہوتے اور اے عمار! تم نے یا میں نے نبی کریمﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے، الا یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ ہو، شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرے، اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہو جائے، یا کسی شخض کو قتل کرے، جس کے بدلے میں اسے قتل کر دیا جائے۔

3: وَعَنْ أَبِي وَائِلٍ قَالَ: كَتَبَ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ إِلَى أَهْلِ فَارِسٍ يَدْعُوهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مِنْ خَالِدِ بْنِ الْوَلِيدِ إِلَى رُسَيْمَ وَمِهْرَانَ وَمَلَأِ فَارِسٍ، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّا نَدْعُوكُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ فَإِنْ أَبَيْتُمْ فَأَعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ، فَإِنْ أَبَيْتُمْ فَإِنَّ مَعِي قَوْمًا يُحِبُّونَ الْقَتْلَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَمَا تُحِبُّ فَارِسُ الْخَمْرَ. وَالسَّلَامُ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى (مجمع الزوائد: كِتَابُ الْجِهَادِ، بَابٌ مِنْهُ فِي الدُّعَاءِ إِلَى الْإِسْلَامِ وَفَرَائِضِهِ وَسُنَنِهِ(9593)،

سیدنا ابووائل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے اہلِ فارس (ایران کے زعماء اور سرداروں) کو اسلام کی دعوت دینے کے لیےیہ مکتوب بھیجا: آ یت (بسم اللہ الرحمن الرحیم) خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی طرف سے رستم ومہران کے نام جو زعماء ایران میں سے ہیں، سَلَامٌ عَلَى مَنِ اتَّبَعَ الْهُدَى اس شخص پر سلامتی ہو جو حق و ہدایت کی پیروی کرے۔ بعد ازاں! واضح ہو کہ ہم تمہیں اسلام (قبول کرنے) کی دعوت دیتے ہیں، اگر تم اسلام قبول نہیں کرتے ہو تو ذلت وخواری کے ساتھ اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کرو اور اگر تم اس (جزیہ ادا کرنے) سے (بھی) انکار کرو گے تو تمہیں آگاہ ہو جانا چاہئے کہ ہلاکت و پشیمانی تمہارا مقدر بن چکی ہے، کیونکہ بلاشک وشبہ میرے ساتھ ایسے لوگوں کی جماعت ہے جو خون بہانے کو (یا خدا کی راہ میں اپنی جان قربان کر دینے کو) اسی طرح پسند کرتے ہیں جس طرح ایران کے لوگ شراب کو پسند کرتے ہیں اور سلامتی ہو اس پر جو حق وہدایت کی پیروی کرے۔

نوٹ:

شراب کی مثال دینے کامطلب یہ تھاکہ جس طرح تم ایرانیوں کو شراب کے نشہ میں کیف وسرور حاصل ہوتا ہے اسی طرح میری جماعت کے لوگوں کواللہ کی راہ میں قتل وقتال میں سرمستی وسرشاری حاصل ہوتی ہے یا ان کو اللہ کی راہ میں جان لینے اور جان دینے میں وہی خوشی اور وہی لذت حاصل ہوتی ہے جو تم شراب میں محسوس کرتے ہو۔ (واللہ اعلم بالصواب)

اہلِ کتاب کے سلام کاجواب’’ علیکم‘‘ہے

1: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ الْيَهُودَ دَخَلُوا عَلَی النَّبِيِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا السَّامُ عَلَيْکَ فَلَعَنْتُهُمْ فَقَالَ مَا لَکِ قُلْتُ أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا قَالَ فَلَمْ تَسْمَعِي مَا قُلْتُ عَلَيْکُمْ (صحیح بخاری: كِتَابُ الجِهَادِ وَالسِّيَرِ، بَابُ الدُّعَاءِ عَلَى المُشْرِكِينَ بِالهَزِيمَةِ وَالزَّلْزَلَةِ، (2935)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہےکہ یہودی ایک روز رسول اکرمﷺ کے پاس آئے اور کہا’’ السّام علیکم‘‘ یعنی تم پر موت آئے (نعوذباللہ)۔ تو میں نے ان پر لعنت کی، آپﷺ نے فرمایا: تمہیں کیا ہوگیا ہے میں نے کہا آپﷺ نے نہیں سنا جو ان لوگوں نے کہا، فرمایا: تم نے نہیں سنا، جومیں نے کہہ دیا ’’علیکم‘‘ یعنی تم پر ہو۔

2: عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا أَنَّ الْيَهُودَ أَتَوْا النَّبِيَّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالُوا السَّامُ عَلَيْکَ قَالَ وَعَلَيْکُمْ فَقَالَتْ عَائِشَةُ السَّامُ عَلَيْکُمْ وَلَعَنَکُمْ اللهُ وَغَضِبَ عَلَيْکُمْ فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَهْلًا يَا عَائِشَةُ عَلَيْکِ بِالرِّفْقِ وَإِيَّاکِ وَالْعُنْفَ أَوْ الْفُحْشَ قَالَتْ أَوَلَمْ تَسْمَعْ مَا قَالُوا قَالَ أَوَلَمْ تَسْمَعِي مَا قُلْتُ رَدَدْتُ عَلَيْهِمْ فَيُسْتَجَابُ لِي فِيهِمْ وَلَا يُسْتَجَابُ لَهُمْ فِيَّ (صحیح بخاری: كِتَابُ الأَدَبِ، بَابُ لَمْ يَكُنِ النَّبِيُّﷺ فَاحِشًا وَلاَ مُتَفَحِّشًا،(6030)

ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہاکہتی ہیں کہ یہود نبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، اور کہا السَّامُ عَلَيْکَ آپ نے فرمایا: وَعَلَيْکُم،م المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے کہا: السَّامُ عَلَيْکُمْ وَلَعَنَکُمُ اللّٰهُ وَغَضِبَ عَلَيْکُم (تم پر ہلاکت ہو اور اللہ تم پر لعنت کرے اور تم پر اپنا غضب نازل کرے) رسول اکرمﷺ نے فرمایا: اے عائشہ! اس کو چھوڑو، نرمی اختیار کرو، اور سختی سے بچو فرمایا: بدگوئی سے بچو، ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا، کیا آپ نے نہیں سنا، جو ان لوگوں نے کہا؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تم نے نہیں سنا جو میں نے جواب دیا، میری دعا ان کے حق میں قبول ہوتی ہے لیکن ان کی دعا میرے حق میں قبول نہیں ہوتی۔

3: عَنْ أَنَسٍ أَنَّ أَصْحَابَ النَّبِيِّ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالُوا لِلنَّبِيِّ إِنَّ أَهْلَ الْکِتَابِ يُسَلِّمُونَ عَلَيْنَا فَکَيْفَ نَرُدُّ عَلَيْهِمْ قَالَ قُولُوا وَعَلَيْکُمْ قَالَ أَبُو دَاوُد وَکَذَلِکَ رِوَايَةُ عَائِشَةَ وَأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْجُهَنِيِّ وَأَبِي بَصْرَةَ يَعْنِي الْغِفَارِيَّ (سنن ابی داؤد: كِتَابُ الأَدَبِ، بَابٌ فِي السَّلَامِ عَلَى أَهْلِ الذِّمَّةِ (5207)

سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرمﷺ کے صحابہ نے عرض کیا کہ رحمت عالمﷺ کے اہل کتاب ہمیں سلام کرتے ہیں تو ہم کیسے جواب دیں؟ آپ نے فرمایا: کہو وعلیکم اور تم پر بھی یعنی اگر واقعتاً تم نے سلامتی کی دعا کی ہے تو تم پر بھی اور اگر موت کی بدعا کی ہے کہ تو وہ بھی تم پر ہی ہو۔

امام ابوداؤد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اس حدیث کو ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا، سیدنا ابو عبدالرحمن الجہنی اور سیدنا ابوبصرہ الغفاری رضی اللہ عنہما نے اسی طرح روایت کیا ہے۔

سلام کرنا ایمان کی علامت ہے

عَنْ عَمْرٍو عَنْ عَطَائٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَی إِلَيْکُمْ السَّلَامَ لَسْتَ مُؤْمِنًا قَالَ قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ کَانَ رَجُلٌ فِي غُنَيْمَةٍ لَهُ فَلَحِقَهُ الْمُسْلِمُونَ فَقَالَ السَّلَامُ عَلَيْکُمْ فَقَتَلُوهُ وَأَخَذُوا غُنَيْمَتَهُ فَأَنْزَلَ اللهُ فِي ذَلِکَ إِلَی قَوْلِهِ تَبْتَغُونَ عَرَضَ الْحَيَاةِ الدُّنْيَا تِلْکَ الْغُنَيْمَةُ قَالَ قَرَأَ ابْنُ عَبَّاسٍ السَّلَامَ (صحیح بخاری: كِتَابُ تَفْسِيرِ القُرْآنِ، بَابُ {وَلاَ تَقُولُوا لِمَنْ أَلْقَى إِلَيْكُمُ السَّلاَمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا}

[النساء: 94] ،(4591)

عمروبن دینار، عطاء، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کی کہ(وَلَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰى اِلَيْكُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا۔ الخ) (4۔ النسآء:94) اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ کچھ مسلمان کسی جہاد سے واپس آرہے تھے کہ انہیں راستہ میں ایک گڈریا ملا تو اس نے مسلمانوں سے السلام علیکم کہا، مسلمانوں نے اس کو مار ڈالا اور اس کی تمام بکریاں لے لیں، چنانچہ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی ابن عباس نے اس آیت میں السلام کا لفظ پڑھا ہے۔

ہرجان، اَنجان کوسلام کرو

1: عَنْ يَزِيدَ عَنْ أَبِي الْخَيْرِ عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ رَسُوْ لَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيُّ الْإِسْلَامِ خَيْرٌ قَالَ تُطْعِمُ الطَّعَامَ وَتَقْرَأُ السَّلَامَ عَلَی مَنْ عَرَفْتَ وَمَنْ لَمْ تَعْرِفْ (صحیح بخاری: كِتَابُ الإِيمَانِ، بَابٌ: إِطْعَامُ الطَّعَامِ مِنَ الإِسْلاَمِ، (12)، (28)وغیرہ

عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اکرمﷺ سے پوچھا کہ کس قسم کا اسلام بہتر ہے؟ تو آپﷺ نے فرمایا: کھانا کھلاؤ اورسلام کرو جس کو جانتے ہو اور جس کو نہ جانتے ہو (سب کو)

2: عَنْ الطُّفَيْلَ بْنَ أُبَيِّ بْنِ کَعْبٍ أَخْبَرَهُ أَنَّهُ کَانَ يَأْتِي عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ فَيَغْدُو مَعَهُ إِلَی السُّوقِ قَالَ فَإِذَا غَدَوْنَا إِلَی السُّوقِ لَمْ يَمُرَّ عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ عَلَی سَقَاطٍ وَلَا صَاحِبِ بِيعَةٍ وَلَا مِسْکِينٍ وَلَا أَحَدٍ إِلَّا سَلَّمَ عَلَيْهِ قَالَ الطُّفَيْلُ فَجِئْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ عُمَرَ يَوْمًا فَاسْتَتْبَعَنِي إِلَی السُّوقِ فَقُلْتُ لَهُ وَمَا تَصْنَعُ فِي السُّوقِ وَأَنْتَ لَا تَقِفُ عَلَی الْبَيِّعِ وَلَا تَسْأَلُ عَنْ السِّلَعِ وَلَا تَسُومُ بِهَا وَلَا تَجْلِسُ فِي مَجَالِسِ السُّوقِ قَالَ وَأَقُولُ اجْلِسْ بِنَا هَاهُنَا نَتَحَدَّثُ قَالَ فَقَالَ لِي عَبْدُ اللهِ بْنُ عُمَرَ يَا أَبَا بَطْنٍ وَکَانَ الطُّفَيْلُ ذَا بَطْنٍ إِنَّمَا نَغْدُو مِنْ أَجْلِ السَّلَامِ نُسَلِّمُ عَلَی مَنْ لَقِيَنَا (مؤطا امام مالک: السَّلاَمُ، جَامِعُ السَّلاَمِ، (3353)

طفیل بن ابی بن کعب رضی اللہ عنہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آتے اور صبح صبح ان کے ساتھ بازار کو جاتے، طفیل کہتے ہیں جب ہم بازار میں پہنچے تو عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ ہر ایک ردی بیچنے والے پر اور ہر دکاندار پر اور ہر مسکین پر اور ہر کسی پر سلام کرتے ایک روز میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا انہوں نے مجھے بازار لے جانا چاہا میں نے کہا تم بازار میں جا کر کیا کرو گے نہ تم بیچنے والوں کے پاس ٹھہرتے ہو نہ کسی اسباب کو پوچھتے ہو اس سے یہیں بیٹھے رہو ہم تم باتیں کریں گے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے کہا اے پیٹ والے اور طفیل (بڑے) پیٹ والے تھے، ہم بازار میں صرف سلام کرنے جاتے ہیں، ہر اس کو سلام کرتے ہیں جس سے ملاقات ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے