Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

مضمون نگار

  • ڈاکٹر مقبول احمد مکی ڈاکٹر مقبول احمد مکی
  • الشیخ  محمد طاہر آصف الشیخ محمد طاہر آصف
  • عبدالرشید عراقی عبدالرشید عراقی
  • بنت محمد رضوان بنت محمد رضوان
  • الشیخ ابو نعمان بشیر احمد الشیخ ابو نعمان بشیر احمد
  • الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
  • حبیب الرحمٰن یزدانی حبیب الرحمٰن یزدانی
  • خالد ظہیر خالد ظہیر
  • راحیل گوہر ایم اے راحیل گوہر ایم اے
  • عطاء محمد جنجوعہ عطاء محمد جنجوعہ
  • ڈاکٹر عبدالحی المدنی ڈاکٹر عبدالحی المدنی
  • مدثر بن ارشد لودھی مدثر بن ارشد لودھی
  • محمد شعیب مغل محمد شعیب مغل
  • الشیخ محمد شریف بن علی الشیخ محمد شریف بن علی
  • حافظ محمد یونس اثری حافظ محمد یونس اثری
  • الشیخ محمد یونس ربانی الشیخ محمد یونس ربانی

تفسیر سورۃ البقرہ

Written by الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی 17 May,2014
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (٢١) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (٢٢)

اے لوگو! اپنے اس رب کی بندگی اختیار کرو جس نے تمہیں اور تم سے قبل تمام لوگوں کو تخلیق کیا تاکہ تم لوگ تقوی اختیار کرو۔ وہی تو ہے جِس نے تمہارے لیے زمین کو بطور فرش بچھایااور آسمان کو چھت بنایا، اور آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھیراؤ۔

ان دو آیات میں جو کلمات اہم اور قابل مطالعہ و غور وفکر ہیں ان کا اختصار کے ساتھ ذکر درج ذیل ہے:

اُعْبُدُوْا تم سب عبادت کرو، عبد یعبد سے فعل امر ہے اور لفظ عبادت قرآن مجید کی ایک انتہائی جامع اصطلاح ہے جو مسلمان کی مکمل زندگی پر محیط ہے ۔ اس کی وضاحت اس آیت میں ملتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انس و جن کی تخلیق کا مقصد عبادت بتایا ہے :

وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إِلا لِيَعْبُدُوْنِ

میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔(الذاریات:56)

اس لئے عبادت کا مکمل مفہوم سے آگاہی حاصل کرنا بہت ضروری ہے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس عمل کو عبادت سمجھ رہے ہو ں وہ عبادت ہی نہ ہو، اللہ کی خوشنودی کی بجائے اسکی ناراضگی ملے اور اسکی رحمت کی جگہ غضب کے مستحق ٹھریں۔ کیونکہ اس وقت بہت سے مسلمان کتاب و سنت سے غیر ثابت شدہ اعمال کو بطورعبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ سرے سے عبادت کے دائرے میں داخل ہی نہیں ہے۔

عبادت کی تعریف:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عبادت کی یہ تعریف بیان کی ہے : عبادت ہر اس ظاہری اور باطنی قول و عمل کا نام ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور اس سے راضی بھی ہوتا ہے۔

لہذا مسلمان کی زندگی کے تمام افعال و اعمال جو اللہ کی خوشنودی و رضا کی خاطر ہوں تو وہ سب کی سب عبادت میں شمار ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   (الأنعام:162)

آپ ان سے کہئے کہ:میری نماز، میری عبادت، میری زندگی اور میری موت سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے۔

عبادت کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی حاجت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق انجام دیتا ہے تو اس کا یہ فعل بھی عبادت کے زمرے میں شمار کیا جائے گا مثال کے طور پر پانی اگر دائیں ہاتھ سے اور تین سانس میں بیٹھ کر پیا جائے تو یہ پانی پینا بھی عبادت ہے اور اگر پانی سنت کے آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیا جائے تو ممکن ہے اس سے انسان کی حاجت تو پوری ہو جائے گی لیکن اس کا تعلق عبادت سے نہ ہوگا اور اگر وہ آداب سنت سے واقفیت کے باوجود مخالفت کرتا ہے تو ممکن ہے اس پر اس سے موخذاہ بھی کیا جائے اور اسی طرح اسکا اپنی بیوی سے خواہش پوری کرنا بھی عبادت ہے، نیز اس کا اپنے کسی مومن بھائی سے خندہ پیشانی اور اچھے اخلاق سے ملاقات کرنا بھی عبادت میں شامل ہے۔

قرآن و سنت سے عبادت کا ثبوت :

عبادت کے حوالے سے اولین ضابطہ یہ ہے کہ اس کا ثبوت قرآن مجید یا احادیث سے مل رہا ہو اسکی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ

لوگوں کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو صرف اسی کیلئے خالص کرکے۔ (البینۃ:5)

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صلاۃ (نماز)اس طرح پڑھو جیسا کہ تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔(رواہ البخاری)

نیز آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: حج کے احکام مجھے سے سیکھ لو (نسائی ۳۰۶۴ )

لہذا یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ کوئی فعل بظاہر کتنا ہی نیک اور مفید کیوں نہ ہو لیکن اگر اسکا ثبوت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے نہ ہو تو عمل صحیح نہ ہوگا۔

ایک مغالطہ اور اس کا ازالہ :

عمومی طور پر معاشرہ میں رائج کسی غیر ثابت شدہ عمل کا جب انکار کیا جاتا ہے تو فوراً یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ: کیا شریعت میں اس عمل سے منع کیا گیا ہے ؟، یہ اوپر بیان کئے گئے ضابطہ کے خلاف ہے، نیز دین کی جو حدبندی کی گئی ہے اس کے بھی خلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی وفات سے پہلے ہی اس دین کے مکمل ہو نے کا اعلان کر دیا ہے

اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا

آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت کی تم پر تکمیل کردی اور اسلام کو دین کی حیثیت سے تمہارے لئے پسند کر لیا۔ (المائدہ:۳)

یعنی اب دین اسلام میں کسی بھی قسم کی کمی یا اضافہ کی گنجائش ممکن نہیں ہے اور اگرایسا کوئی امر پایا جائے گا تو وہ رد کر دیا جائے گا اور اس کا فاعل عذاب کا مستحق ہو گا جیسا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات (عمل، عبادت وغیرہ) ایجاد کی جو اس میں موجود نہیں ہے تو وہ عمل مردود ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے: جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں نہیں ہے وہ عمل مردود ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ دین اور دین کی تمام باتیں واضح اور مکمل ہیں، اس میں اب کوئی پوشیدگی باقی نہیں ہے، اس لئے نہ تو اس میں کسی طرح کا کوئی اضافہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کمی۔

عبادت کی شرطیں

عبادت کی دو شرطیں ہیں، جب تک یہ دونوں شرطیں نہیں پائی جائیں گی کوئی بھی عبادت صحیح نہیں ہوگی:

پہلی شرط: عبادت میں اخلاص پایا جائے یعنی وہ عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اس میں کسی طرح کا شرک یا شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ (البینہ:5)

ترجمہ: لوگوں کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو صرف اسی کیلئے خالص کرکے۔ اگر کسی عبادت یا عمل میں یہ شرط نہیں پائی گئی تو وہ عبادت اور عمل صحیح نہیں ہو گا، ایسے ہی اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاءً مَنْثُوْرًا ( الفرقان:23)

اور ہم نے بڑھ کر ان کے اعمال کو ضائع و برباد کر دیا، (کیونکہ ان کے اعمال اخلاص اور متابعت سے خالی ہیں)۔

دوسری شرط: عبادت اس طریقے پر ہونی چاہئے جیسے ہمارے نبی ﷺ نے کی ہے، کیونکہ کوئی عبادت اس وقت تک صحیح نہ ہوگی جب تک وہ سنت رسول اللہ ﷺ کے موافق نہ ہو۔ صحیح مسلم میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے اچھا کلام، کلام اللہ، اور سب سے اچھا طریفہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔ (مسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا جو مقام و مرتبہ اور حیثیت بتائی ہے وہ کسی مومن سے مخفی نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لَقَد کَانَ لَکُمْ فیْ رَسُوْلِ اللہ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ

یقیناًتمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود ہے)

اور فرمایا:

وَمَا آتَاکُمُ الرَّسولُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانتَھُوا (الحشر:7)

اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ۔ اس معنی کی بے شمار آیات ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کا مقام و مرتبہ بتایا گیا ہے، اس لئے جب تک عبادت سنت رسول ﷺ کے مطابق نہ ہوگی، در ست نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اہل تقلید کو یہ سوچنا چاہئے کہ کیا انہوں نے حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کا مقام و مرتبہ پہچانا ہے؟

عبادت کی مختلف اقسام ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے

قولی عبادت : کلمہء لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنا، قرآن کریم کی تلاوت، وغیرہ۔

فعلی عبادت : اعضاء و جوارح سے کوئی عبادت کرنا، مثال کے طور پر صلاۃ ادا کرنا، مسجد کی طرف چل کر جانا، وغیرہ۔

قلبی عبادت : اللہ سے محبت، اللہ کا خوف، اللہ کی رحمت کی امید، دل کا ذکر اللہ میں مشغول ہونا،اعمال میں اخلاص کا پیدا کرنا، صلاۃ میں خشوع و خضوع کی کیفیت کا پیدا کرنا و غیرہ۔

مالی عبادت: مال کی زکاۃ نکالنا، دیگر صدقہ و خیرات کرنا، والدین، اور اہل و عیال پر خرچ کرنا، وغیرہ۔

عبادت کے متعلقات : اسکی پانچ قسمیں ہیں:

کچھ عبادتیں ایسی ہیں جن کا تعلق کسی مخصوص جگہ سے ہوتا ہے لہٰذا اسکے علاوہ کسی دوسری جگہ وہ عبادت درست نہ ہوگی، جیسے: طواف کعبہ، حجر اسود کا بوسہ، صفا و مروہ کی سعی، یہ ایسی عبادتیں ہیں جن کو آپ دوسرے مقامات پر ادا نہیں کر سکتے۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ آج نہ جانے کتنے مسلمان ایسے ہیں جو قبروں اور آستانوں کا طواف نیکی سمجھ کر کرتے ہیں۔ (العیاذ باللہ)

کچھ عبادتیں ایسی ہیں جو مخصوص ایام اور مخصوص اوقات میں مشروع ہیں، جنہیں ان مخصوص ایام و اوقات کے علاوہ ادا نہیں کیا جا سکتا، جیسے، رمضان المبارک کے روزے اسی ماہ کے ساتھ خاص ہیں، حج کے لئے ماہ شوال، ذی القعدہ، اور ذی الحجہ کے دس ایام خاص ہیں، وغیرہ

کچھ عبادتیں ایسی ہیں جو مخصوص حالات میں ادا کی جاتی ہیں، یعنی جن کو ان حالات کے علاوہ اس مخصوص نیت کے ساتھ نہیں ادا کیا جاسکتا، جیسے: دعاء استفتاح (ثناء پڑھنا)، رکوع و سجود کی دعائیں، رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہنا، تشہد میں التحیات اور درود نیز دیگر دعاء مسنون کا پڑھنا۔

کچھ عبادتیں کسی خاص ہیئت اور کیفیت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں جیسے : صلاۃ میں حالتِ قیام میں دونوں ہاتھوں کی خاص ہیئت، حالت رکوع میں پیٹھ اور سر کی ہیئت، عمرہ میں طواف کے پہلے تین چکروں کی کیفیت، کوہ صفا و مروہ پر کھڑے ہو کر دعا کرنے کی خاص ہیئت، وغیرہ۔

عبادت کا تعلق کسی خاص عدد سے ہو، یعنی کچھ عبادتوں میں تعداد کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، جیسے : صلوات خمسہ کی خاص تعداد، سنت مؤکدہ کی خاص تعداد، تہجد کی آٹھ رکعتیں، طواف کی دو رکعتیں، رمضان کے تیس یا انتیس دنوں کے روزے، طواف، اور سعی میں خاص عدد کا لحاظ، وغیرہ۔

عبادت کے تعلق سے دین کی یہ وہ ضروری معلومات ہیں جن کا جاننا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے، تاکہ وہ صحیح طور پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی بجا لائے اور عبادت میں ان تمام امور سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے جنکا ثبوت پیارے نبی ﷺ کی لائی ہوئی شریعت میں نہیں ہے۔ اس کے بغیر عمل کے درست ہونے کی ضمانت نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پیارے نبی ﷺ کو اسی لئے بھیجا کہ عبادت کی قسموں کے ساتھ ساتھ عبادت کے طریقے بھی بتائیں۔ لہٰذا کسی بھی بندۂ مومن کیلئے یہ قطعاً مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی عبادت میں ہدی نبی ﷺ کو جانے اور پھر اسکو نہ مانے بلکہ کسی اور کے طور طریقے کو سنت نبوی پر فوقیت دے، اس سلسلے میں کلام الٰہی میں مختلف وعیدیں آئی ہیں۔

-----

تفسیر سورۃ البقرہ

شاہ فیض الابرار صدیقی

يَا أَيُّهَا النَّاسُ اعْبُدُوا رَبَّكُمُ الَّذِي خَلَقَكُمْ وَالَّذِينَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ (٢١) الَّذِي جَعَلَ لَكُمُ الأرْضَ فِرَاشًا وَالسَّمَاءَ بِنَاءً وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ فَلا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ (٢٢)

اے لوگو! اپنے اس رب کی بندگی اختیار کرو جس نے تمہیں اور تم سے قبل تمام لوگوں کو تخلیق کیا تاکہ تم لوگ تقوی اختیار کرو۔ وہی تو ہے جِس نے تمہارے لیے زمین کو بطور فرش بچھایااور آسمان کو چھت بنایا، اور آسمان سے پانی برسایا اور اس کے ذریعے سے ہر طرح کی پیداوار نکال کر تمہارے لیے رزق بہم پہنچایا پس جب تم یہ جانتے ہو تو دوسروں کو اللہ کا مد مقابل نہ ٹھیراؤ۔

ان دو آیات میں جو کلمات اہم اور قابل مطالعہ و غور وفکر ہیں ان کا اختصار کے ساتھ ذکر درج ذیل ہے:

اُعْبُدُوْا تم سب عبادت کرو، عبد یعبد سے فعل امر ہے اور لفظ عبادت قرآن مجید کی ایک انتہائی جامع اصطلاح ہے جو مسلمان کی مکمل زندگی پر محیط ہے ۔ اس کی وضاحت اس آیت میں ملتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے انس و جن کی تخلیق کا مقصد عبادت بتایا ہے :

وَمَاخَلَقْتُ الْجِنَّ وَالإنْسَ إِلا لِيَعْبُدُوْنِ

میں نے جن و انس کو صرف اپنی عبادت کیلئے پیدا کیا ہے۔(الذاریات:56)

اس لئے عبادت کا مکمل مفہوم سے آگاہی حاصل کرنا بہت ضروری ہے ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم جس عمل کو عبادت سمجھ رہے ہو ں وہ عبادت ہی نہ ہو، اللہ کی خوشنودی کی بجائے اسکی ناراضگی ملے اور اسکی رحمت کی جگہ غضب کے مستحق ٹھریں۔ کیونکہ اس وقت بہت سے مسلمان کتاب و سنت سے غیر ثابت شدہ اعمال کو بطورعبادت کرتے ہیں حالانکہ وہ سرے سے عبادت کے دائرے میں داخل ہی نہیں ہے۔

عبادت کی تعریف:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے عبادت کی یہ تعریف بیان کی ہے : عبادت ہر اس ظاہری اور باطنی قول و عمل کا نام ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند فرماتا ہے اور اس سے راضی بھی ہوتا ہے۔

لہذا مسلمان کی زندگی کے تمام افعال و اعمال جو اللہ کی خوشنودی و رضا کی خاطر ہوں تو وہ سب کی سب عبادت میں شمار ہوں گے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

قُلْ اِنَّ صَلَاتِيْ وَنُسُكِيْ وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِيْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ   (الأنعام:162)

آپ ان سے کہئے کہ:میری نماز، میری عبادت، میری زندگی اور میری موت سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے۔

عبادت کا دائرہ اتنا وسیع ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی کسی حاجت کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق انجام دیتا ہے تو اس کا یہ فعل بھی عبادت کے زمرے میں شمار کیا جائے گا مثال کے طور پر پانی اگر دائیں ہاتھ سے اور تین سانس میں بیٹھ کر پیا جائے تو یہ پانی پینا بھی عبادت ہے اور اگر پانی سنت کے آداب کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پیا جائے تو ممکن ہے اس سے انسان کی حاجت تو پوری ہو جائے گی لیکن اس کا تعلق عبادت سے نہ ہوگا اور اگر وہ آداب سنت سے واقفیت کے باوجود مخالفت کرتا ہے تو ممکن ہے اس پر اس سے موخذاہ بھی کیا جائے اور اسی طرح اسکا اپنی بیوی سے خواہش پوری کرنا بھی عبادت ہے، نیز اس کا اپنے کسی مومن بھائی سے خندہ پیشانی اور اچھے اخلاق سے ملاقات کرنا بھی عبادت میں شامل ہے۔

قرآن و سنت سے عبادت کا ثبوت :

عبادت کے حوالے سے اولین ضابطہ یہ ہے کہ اس کا ثبوت قرآن مجید یا احادیث سے مل رہا ہو اسکی دلیل اللہ تعالی کا یہ فرمان ہے :

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ ڏ

لوگوں کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو صرف اسی کیلئے خالص کرکے۔ (البینۃ:5)

اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صلاۃ (نماز)اس طرح پڑھو جیسا کہ تم نے مجھے پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔(رواہ البخاری)

نیز آپ ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: حج کے احکام مجھے سے سیکھ لو (نسائی ۳۰۶۴ )

لہذا یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ کوئی فعل بظاہر کتنا ہی نیک اور مفید کیوں نہ ہو لیکن اگر اسکا ثبوت کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ ﷺ سے نہ ہو تو عمل صحیح نہ ہوگا۔

ایک مغالطہ اور اس کا ازالہ :

عمومی طور پر معاشرہ میں رائج کسی غیر ثابت شدہ عمل کا جب انکار کیا جاتا ہے تو فوراً یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ: کیا شریعت میں اس عمل سے منع کیا گیا ہے ؟، یہ اوپر بیان کئے گئے ضابطہ کے خلاف ہے، نیز دین کی جو حدبندی کی گئی ہے اس کے بھی خلاف ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول ﷺ کی وفات سے پہلے ہی اس دین کے مکمل ہو نے کا اعلان کر دیا ہے

اَلْيَوْمَ اَ كْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا

آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور اپنی نعمت کی تم پر تکمیل کردی اور اسلام کو دین کی حیثیت سے تمہارے لئے پسند کر لیا۔ (المائدہ:۳)

یعنی اب دین اسلام میں کسی بھی قسم کی کمی یا اضافہ کی گنجائش ممکن نہیں ہے اور اگرایسا کوئی امر پایا جائے گا تو وہ رد کر دیا جائے گا اور اس کا فاعل عذاب کا مستحق ہو گا جیسا کہ ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا روایت کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جس نے ہمارے اس دین میں کوئی نئی بات (عمل، عبادت وغیرہ) ایجاد کی جو اس میں موجود نہیں ہے تو وہ عمل مردود ہے۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) اور صحیح مسلم کی روایت میں ہے: جس نے ایسا عمل کیا جو ہمارے دین میں نہیں ہے وہ عمل مردود ہے۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ دین اور دین کی تمام باتیں واضح اور مکمل ہیں، اس میں اب کوئی پوشیدگی باقی نہیں ہے، اس لئے نہ تو اس میں کسی طرح کا کوئی اضافہ کیا جاسکتا ہے اور نہ کمی۔

عبادت کی شرطیں

عبادت کی دو شرطیں ہیں، جب تک یہ دونوں شرطیں نہیں پائی جائیں گی کوئی بھی عبادت صحیح نہیں ہوگی:

پہلی شرط: عبادت میں اخلاص پایا جائے یعنی وہ عبادت صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کے لئے ہو اس میں کسی طرح کا شرک یا شرک کا شائبہ تک نہ ہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِيَعْبُدُوا اللّٰهَ مُخْلِصِيْنَ لَهُ الدِّيْنَ (البینہ:5)

ترجمہ: لوگوں کو اس بات کا حکم دیا گیا ہے وہ اللہ کی عبادت کریں، دین کو صرف اسی کیلئے خالص کرکے۔ اگر کسی عبادت یا عمل میں یہ شرط نہیں پائی گئی تو وہ عبادت اور عمل صحیح نہیں ہو گا، ایسے ہی اعمال کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے

وَقَدِمْنَآ اِلٰی مَا عَمِلُوْا مِنْ عَمَلٍ فَجَعَلْنَاہُ ھَبَاءً مَنْثُوْرًا ( الفرقان:23)

اور ہم نے بڑھ کر ان کے اعمال کو ضائع و برباد کر دیا، (کیونکہ ان کے اعمال اخلاص اور متابعت سے خالی ہیں)۔

دوسری شرط: عبادت اس طریقے پر ہونی چاہئے جیسے ہمارے نبی ﷺ نے کی ہے، کیونکہ کوئی عبادت اس وقت تک صحیح نہ ہوگی جب تک وہ سنت رسول اللہ ﷺ کے موافق نہ ہو۔ صحیح مسلم میں ہے کہ: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا سب سے اچھا کلام، کلام اللہ، اور سب سے اچھا طریفہ محمد ﷺ کا طریقہ ہے۔ (مسلم) اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کا جو مقام و مرتبہ اور حیثیت بتائی ہے وہ کسی مومن سے مخفی نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

لَقَد کَانَ لَکُمْ فیْ رَسُوْلِ اللہ اُسْوَۃٌ حَسَنَۃٌ

یقیناًتمہارے لئے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ (موجود ہے)

اور فرمایا:

وَمَا آتَاکُمُ الرَّسولُ فَخُذُوْہُ وَ مَا نَھَاکُمْ عَنْہُ فَانتَھُوا (الحشر:7)

اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جاؤ۔ اس معنی کی بے شمار آیات ہیں جن میں رسول اللہ ﷺ کا مقام و مرتبہ بتایا گیا ہے، اس لئے جب تک عبادت سنت رسول ﷺ کے مطابق نہ ہوگی، در ست نہیں ہو سکتی۔ چنانچہ اہل تقلید کو یہ سوچنا چاہئے کہ کیا انہوں نے حقیقت میں رسول اللہ ﷺ کا مقام و مرتبہ پہچانا ہے؟

عبادت کی مختلف اقسام ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے

قولی عبادت : کلمہء لا الہ الا اللہ کا اقرار کرنا، قرآن کریم کی تلاوت، وغیرہ۔

فعلی عبادت : اعضاء و جوارح سے کوئی عبادت کرنا، مثال کے طور پر صلاۃ ادا کرنا، مسجد کی طرف چل کر جانا، وغیرہ۔

قلبی عبادت : اللہ سے محبت، اللہ کا خوف، اللہ کی رحمت کی امید، دل کا ذکر اللہ میں مشغول ہونا،اعمال میں اخلاص کا پیدا کرنا، صلاۃ میں خشوع و خضوع کی کیفیت کا پیدا کرنا و غیرہ۔

مالی عبادت: مال کی زکاۃ نکالنا، دیگر صدقہ و خیرات کرنا، والدین، اور اہل و عیال پر خرچ کرنا، وغیرہ۔

عبادت کے متعلقات : اسکی پانچ قسمیں ہیں:

کچھ عبادتیں ایسی ہیں جن کا تعلق کسی مخصوص جگہ سے ہوتا ہے لہٰذا اسکے علاوہ کسی دوسری جگہ وہ عبادت درست نہ ہوگی، جیسے: طواف کعبہ، حجر اسود کا بوسہ، صفا و مروہ کی سعی، یہ ایسی عبادتیں ہیں جن کو آپ دوسرے مقامات پر ادا نہیں کر سکتے۔ غور کرنے کا مقام ہے کہ آج نہ جانے کتنے مسلمان ایسے ہیں جو قبروں اور آستانوں کا طواف نیکی سمجھ کر کرتے ہیں۔ (العیاذ باللہ)

کچھ عبادتیں ایسی ہیں جو مخصوص ایام اور مخصوص اوقات میں مشروع ہیں، جنہیں ان مخصوص ایام و اوقات کے علاوہ ادا نہیں کیا جا سکتا، جیسے، رمضان المبارک کے روزے اسی ماہ کے ساتھ خاص ہیں، حج کے لئے ماہ شوال، ذی القعدہ، اور ذی الحجہ کے دس ایام خاص ہیں، وغیرہ

کچھ عبادتیں ایسی ہیں جو مخصوص حالات میں ادا کی جاتی ہیں، یعنی جن کو ان حالات کے علاوہ اس مخصوص نیت کے ساتھ نہیں ادا کیا جاسکتا، جیسے: دعاء استفتاح (ثناء پڑھنا)، رکوع و سجود کی دعائیں، رکوع سے اٹھتے وقت سمع اللہ لمن حمدہ کہنا، تشہد میں التحیات اور درود نیز دیگر دعاء مسنون کا پڑھنا۔

کچھ عبادتیں کسی خاص ہیئت اور کیفیت کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں جیسے : صلاۃ میں حالتِ قیام میں دونوں ہاتھوں کی خاص ہیئت، حالت رکوع میں پیٹھ اور سر کی ہیئت، عمرہ میں طواف کے پہلے تین چکروں کی کیفیت، کوہ صفا و مروہ پر کھڑے ہو کر دعا کرنے کی خاص ہیئت، وغیرہ۔

عبادت کا تعلق کسی خاص عدد سے ہو، یعنی کچھ عبادتوں میں تعداد کا لحاظ رکھنا ضروری ہوتا ہے، جیسے : صلوات خمسہ کی خاص تعداد، سنت مؤکدہ کی خاص تعداد، تہجد کی آٹھ رکعتیں، طواف کی دو رکعتیں، رمضان کے تیس یا انتیس دنوں کے روزے، طواف، اور سعی میں خاص عدد کا لحاظ، وغیرہ۔

عبادت کے تعلق سے دین کی یہ وہ ضروری معلومات ہیں جن کا جاننا ایک مسلمان کیلئے ضروری ہے، تاکہ وہ صحیح طور پر اللہ سبحانہ وتعالیٰ کی بندگی بجا لائے اور عبادت میں ان تمام امور سے اپنے آپ کو محفوظ رکھے جنکا ثبوت پیارے نبی ﷺ کی لائی ہوئی شریعت میں نہیں ہے۔ اس کے بغیر عمل کے درست ہونے کی ضمانت نہیں ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پیارے نبی ﷺ کو اسی لئے بھیجا کہ عبادت کی قسموں کے ساتھ ساتھ عبادت کے طریقے بھی بتائیں۔ لہٰذا کسی بھی بندۂ مومن کیلئے یہ قطعاً مناسب نہیں کہ وہ کسی بھی عبادت میں ہدی نبی ﷺ کو جانے اور پھر اسکو نہ مانے بلکہ کسی اور کے طور طریقے کو سنت نبوی پر فوقیت دے، اس سلسلے میں کلام الٰہی میں مختلف وعیدیں آئی ہیں۔

 

Read 1203 times Last modified on 12 Oct,2015
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in مئی
الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی

الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی

Latest from الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی

  • مثالی کتب بر دفاعِ صحابہ رضی اللہ عنہم
  • موبائل سوفٹ وئیر اور فہم اسلام
  • لا إلہ الا اللہ...کا مفہوم
  • فكري الحاد قدیم سےحاضر تک
  • فیوض القرآن

Related items

  • فہم قرآن کورس سبق 16 سورۃالفیل تا سورۃ الکوثر
    in فہمِ قرآن کورس
  • فہم قرآن کورس سبق 15 سورۃالعصر تا سورۃ الھمزہ
    in فہمِ قرآن کورس
  • فہم قرآن کورس سبق 14 سورۃالعادیات تا سورۃ التکاثر
    in فہمِ قرآن کورس
  • فہم قرآن کورس سبق 13 سورۃالقدر تا سورۃ الزلزال
    in فہمِ قرآن کورس
  • تبصرۂ کتب! مترجم قرآن مجید عکسی
    in جنوری 2019
More in this category: تعزیت میں میت کے لئے دعائے مغفرت(دلائل و تجزیہ) »
back to top

About Usvah e Hasanah

اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں

Contact us

ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان

Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

facebook

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2014