گذشتہ ماہ ایک مؤقر مجلہ ماہنامہ میں ایک مضمون بعنوان ’’تعزیت میں میت کے لیے دعائے مغفرت‘‘ شائع ہوا۔ جس میں صاحب مضمون نے اہل میت کے ہاں جاکر ہاتھ اٹھا کر اجتماعا دعا کرنے کو نا صرف جائز بلکہ سنت قرار دیا ہے۔

صاحب مضمون لکھتے ہیں:

یہ کیا دلجوئی ہوئی کہ آپ صرف زندہ آدمی سے جس کا یہ دکھ بہر حال عارضی ہے چند تعزیتی کلمات کہ کر آجائیں اور اس کی وہ میت جو ابدی زندگی کی طرف منتقل ہو چکی اور بے بس اور لاچار ہو چکی اس کے لیے بخشش و دعا کے چند کلمات بھی نہ کہیں کہ وہ بے بس و لاچار میت اس زندہ سے تعزیت کی نسبت دعا کی کہیں زیادہ محتاج ہے اس لیے آپ ان دونوں کے لیے دعا کریں۔

تو گزارش ہے کہ میت کے لیے دعائیں کرنی چاہیے واقعتاً وہ اس کی محتاج ہے لیکن غلط طریقے اور غلط رواج کو ختم کرنا چاہیے۔ جو کام خلاف شرع ہو اس پر مصر ہونا قابل مؤاخذہ ہے یہ مجالس تعزیت کا ہرگز مفہوم نہیں جو صاحب مضمون سمجھ بیٹھے ہیں لفظ تعزیت کا تقاضہ ہے کہ اہل میت کو تسلی تشفی دی جائے اور زبان سے دعائیہ کلمات نکالے جائیں۔

پھر صاحب مضمون لکھتے ہیں کہ:

شیخ البانی نے اپنی عظیم کتاب احکام الجنائز میں تعزیت کا مستقل باب قائم کرکے اس کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

وهي الحمل على الصبر بوعد الاجر، والدعاء للميت والمصاب.

یعنی تعزیت کا معنی ہے اجروثواب کے وعدے کے ذریعے مصیبت زدہ کو صبر و تحمل پر آمادہ کرنا اور میت و مصیبت زدہ (اہل میت) کے لیے دعا کرنا۔

تو عرض ہے کہ میت کے لیے دعا کرنا تو ٹھیک ہے مگر اہل میت کے ہاں جا کر ہاتھ اٹھا کر سب کا اجتماعا دعا کرنا اس سے کیسے ثابت ہوا۔

بلکہ شیخ البانی رحمہ اللہ تعالیٰ اپنی شہرہ آفاق کتاب ’’احکام الجنائز و بدعھا‘‘ میں لکھتے ہیں:

وينبغي اجتناب أمرين وإن تتابع الناس عليهما:
(۱) الاجتماع للتعزية في مكان خاص كالدار أو المقبرة أو المسجد.
(۲) اتخاذ أهل الميت الطعام لضيافة الواردين للعزاء.
وذلك لحديث جرير بن عبد الله البجلى رضي الله عنه قال: (كنا نعد (وفي رواية: نرى) الاجتماع إلى أهل الميت، وصنيعة الطعام بعد دفنه من النياحة).

فرمایا: اور دو کاموں سے بچنا چاہیے اگرچہ لوگ وہ کام کر رہے ہیں (۱) کسی خاص مکان میں تعزیت کے لیے جمع ہونا مثلاً گھر میں یا قبرستان میں یا مسجد میں۔

(۲) اہل میت کا مہمانوں کی ضیافت کے لیے کھانا تیار کرنا جو تعزیت کے لیے آئے ہین اور یہ اس لیے کہ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم شمار کرتے تھے اور ایک اور روایت میں ہے ہم سمجھتے تھے میت کے گھر جمع ہونا اور اس کے دفن کے بعد کھانا تیار کرنا نوحہ ہے۔ (مسند احمد: 6905)

علامہ البانی کی عبارت میں ذکر کردہ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت سنن ابن ماجہ اور مسند احمد میں موجود ہے نور الدین السندی حاشیہ سندی علی سنن ابن ماجہ میں لکھتے ہیں:

قَوْلُهُ: (كُنَّا نَرَى) هَذَا بِمَنْزِلَةِ رِوَايَةِ إِجْمَاعِ الصَّحَابَةِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمْ أَوْ تَقْرِيرِ النَّبِيِّ ـ ﷺ (حاشية السندي على سنن ابن ماجه (1/ 490)

اس روایت سے تو پتا چلا کہ اہل میت کے ہاں اجتماع ہی ممنوع ہے بلکہ یہ کام نوحہ ہے اور نوحہ حرام فعل ہے۔

جیسا کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا:

اَلْمَيِّتُ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِمَا نِيحَ عَلَيْهِ

میت پر نوحہ کیا جائے تو اس کو قبر میں اس کی وجہ سے عذاب ہوتا ہے۔(صحيح مسلم (2/ 639)

قارئین کرام اب آپ خود ہی اندازہ لگا لیجئے اہل میت کے ہاں اجتماع نوحہ ہے اور نوحہ حرام ہے اور یہ میت کے لیے ہمدردی ہے یا پھر باعث عذاب؟

اب صاحب مضمون کا یہ کہنا کہ ’’ آئندہ کبھی ایسی جگہ پر کوئی حقہ نہ رکھا جائے نہ کوئی سگریٹ نوشی کی کوشش کرے اخبارات پڑھنے کے بجائے وہاں دینی کتاب رکھ دیجئے جو آخرت کے احوال پر مشتمل ہو تاکہ کسی پڑھے لکھے آدمی کو بھی فراغت کے یہ لمحات گزارنے آسان ہو جائیں۔

شریعت اسلامیہ تو اہل میت کے ہاں اجتماع کی اجازت نہیں دیتی مگر صاحب مضمون پٹی اور صفیں بچھا کے پڑھے لکھے افراد کے لیے آخرت کے احوال پر مشتمل کتب بھی رکھوا رہے ہیں۔ واہ سبحان اللہ۔

اب اس مسئلہ کے بارہ میں کبار اہل علم رحمہم اللہ کی آراء بھی دیکھ لیجئے۔

حجۃ الاسلام حافظ عبدالمنان محدث نورپوری رحمہ اللہ کا فتویٰ:

شیخنا حجۃ الاسلام حافظ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا۔

سوال: کیا موجودہ طریقہ جو مروج ہے تین دن تک پٹی یا صفیں بچھا کر بیٹھنے کا یہ طریقہ درست ہے کیا وہاں جا کر اجتماعی دعا کی جا سکتی ہے؟

حافظ صاحب کا جواب دو ٹوک تھا فرماتے ہیں:

موجودہ طریقہ مروجہ تین دن تک پٹی یا صفیں بچھا کر بیٹھنا کسی آیت یا حدیث میں وارد نہیں ہوا پھر وہاں رائج دعا کا بھی کہیں ذکر نہیں ملتا۔

ایک دوسرے استفسار کے جواب میں لکھتے ہیں:

کسی کے مرنے کے بعد بھورے پر بیٹھ کر اجتماعی یا انفرادی طور پر ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے دعا کرنا رسول اللہﷺ سے ثابت نہیں۔ (احکام و مسائل کتاب الجنائز ص 264/265)

ایک اور سوال تعزیت کا مسنون طریقہ کیا ہے؟ کے جواب میں فرماتے ہیں:

تعزیت کا مسنون طریقہ یہی ہے کہ کتاب و سنت کی روشنی میں اہل میت کو تسلی دی جائے صبر کی تلقین کی جائے مصیبت پر صبر جمیل کے اجر کا تذکرہ کیا جائے بہتر ہے۔

تعزیت کے لیے ان الفاظ کا انتخاب کیا جائے جو رسول اللہﷺ تعزیت کے موقع پر استعمال فرماتے تھے موقع کی مناسبت سے کچھ اور الفاظ بھی استعمال کئے جا سکتے ہیں بشرطیکہ کتاب و سنت کے مخالف نہ ہوں۔ (احکام و مسائل محدث نور پوری ص 266)

عظیم محقق و محدث زبیر علی زئی رحمہ اللہ تعالیٰ کا فتویٰ:

عظیم محقق و محدث زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں۔

سوال: بعض علاقوں میں ایسا ہوتا ہے کہ مرنے والے کے بعض رشتے دار اور دوست اس کی وفات کے بعد چارپائیوں یا چٹائیوں وغیرہ پر تین یا چار دنوں کے لیے بیٹھ جاتے ہیں پھر جو لوگ تعزیت کے لیے آتے ہیں ان میں سے ایک باآواز کہتا ہے دعا کریں پھر سب لوگ ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں اس طرح کی مروجہ دعا متعین جگہ اہل میت کا اجتماع تعزیت کے دنوں کا تعین اور مروجہ طریقہ تعزیت کا ثبوت کیا ہے؟ قرآن و سنت سے جواب دیں۔

علامہ زبیر علی زئی رحمہ اللہ لکھتے ہیں چالیس دن کے لیے تعزیت کے لیے بیٹھنا ہر آدمی کا باآواز دعا کا مطالبہ کرنا پھر سب لوگوں کا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا یہ سب بدعت ہیں جس کا کوئی ثبوت شریعت اسلامیہ میں موجود نہیں۔ پھر مزید رقمطراز ہیں کہ میت پر تعزیت کے لیے لوگوں کا بار بار آنا دعا کی درخواست کرنا اور اجتماعی طور پر ہاتھ اٹھا کر کر دعا کرنا کسی حدیث سے ثابت نہیں۔ پھر آگے مزید لکھتے ہیں: احناف کے ایک عالم دین مولانا نعیم الدین نے رجل رشید کے نام سے ایک کتا ب لکھی مولانا نعیم الدین نے اس کتاب میں اپنے دیوبندی علماء کے کئی فتوے نقل کیے ہیں۔ جس میں تعزیت کی مروجہ دعا کو غیر ثابت اور غیر درست قرار دیا ہے۔ مثلا دارالعلوم کراچی کے مولانا محمد کمال الدین اور مولانا محمود اشرف دونوں لکھتے ہیں مروجہ طریقہ کے مطابق تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا شرعا ثابت نہیں اس لیے تعزیت کے لیے رسمی طور پر ہاتھ اٹھا نا درست نہیں کیونکہ تعزیت کی حقیقت صرف اس قدر ہے کہ میت اور اس کے اقارب کے لیے زبانی دعا کی جائے اور ان کو صبر دلایا جائے۔ (رجل رشید 171)

مولانا مفتی رشید احمد لدھیانوی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں تعزیت کی دعا میں ہاتھ اٹھا نا بدعت ہے۔ (احسن الفتاویٰ ج 4، ص 245)

مولانا نعیم الدین دیوبندی قاری عبدالرشید دیوبندی سے نقل کرتے ہیں وہ مفتی عبدالحمید سے کہ جب قاری لطف اللہ دیوبندی صاحب ایک حادثہ میں فوت ہوئے تو ایک دیوبندی عالم تعزیت کے لیے ان کے پاس تشریف لے گئے اور دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے فقیر اللہ صاحب نے فورا فرمایا کہ مولانا کیا یہ حدیث ثابت ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ حضرت جی غلطی ہو گئی اور ہاتھ چھوڑ دیئے۔ (رجل رشید 149)

مولانا فقیر اللہ صاحب دیوبندی قاری لطف اللہ دیوبندی کے والد اور دیوبندی مدرسہ جامعہ رشیدیہ ساہیوال کے بانی تھے۔ جنہوں نے اپنے بیٹے کی موت پر مروجہ دعا سے اشارتاً منع کر دیا۔ (فتاویٰ علمیہ ص 513/514)

محقق شیخ زبیر علی زئی رحمہ اللہ ایک اور سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں کہ میت کے گھر یا اہل میت کے پاس جاکر تین دن تک بار بار ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا کوئی ثبوت اسلام میں نہیں یہ کام بدعت ہے۔

مفتی رشید احمد لدھیانوی لکھتے ہیں: کہ تعزیت کی دعا میں ہاتھ اٹھانابدعت ہے۔ (احسن الفتاویٰ ج4، ص245)

جامعہ خیر المدارس ملتان سے فتویٰ جاری ہوا کہ تعزیت مسنونہ میں آپﷺ اور صحابہ کرام سے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا ثابت نہیں۔ (رجل رشید 173)

دارالعلوم دیوبند کے مفتی نے فتویٰ لکھا: تعزیت کا مسنونہ طریقہ یہ ہے کہ انفرادی طور پر میت کے گھر جائے اور گھر والوں کو صبر کی تلقین کرے اور تسلی کے کچھ کلمات کہہ دے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا ثابت نہیں۔ (رجل رشید 170)

دارالعلوم کراچی والوں نے بھی فتویٰ دیا: کہ مروجہ طریقہ کے مطابق ہاتھ اٹھا کر فاتحہ پڑھنا اور دعا کرنا شرعا ثابت نہیں اس لیے تعزیت کے لیے رسمی طور پر ہاتھ اٹھانا درست نہیں۔ (رجل رشید 171)

مفتی اہلحدیث مولانا عبدالستار حماد حفظہ اللہ کا فتویٰ:

مفتی اہلحدیث مولانا عبدالستار حماد صاحب ایک استفسار کے جواب میں رقمطراز ہیں:

حشمت علی تحصیل جہانیاں سے سوال کرتے ہیں کہ اہل حدیث حضرات تعزیت کے لیے ہاتھ اٹھا کر دعا نہیں کرتے؟ جبکہ صحیح مسلم میں تعزیت کی دعا مروی ہے جو اللھم ’’اغفرلابی سلمہ‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ نیز بتائیں کہ تعزیت کے لیے کتنے دنوں تک بیٹھا جا سکتا ہے؟ تیسرے دن رشتے دار اکٹھے ہوتے ہیں۔ اب اہلحدیث کے علماء بھی لواحقین کو بلانے پر تیسرے دن تقریر کر دیتے ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں شرعی حیثیت سے واضح کریں؟

جوابا مولانا مفتی عبدالستار حماد حفظہ اللہ رقمطراز ہیں:

تعزیت میں دو چیزیں ہیں:

(۱) میت کے لیے اخروی کامیابی کی دعا کرنا اور اہل میت کو تسلی دینا اور صبر و تحمل کی تلقین کرنا الحمد للہ اہلحدیث ان دونوں چیزوں کی پابندی کرتے ہیں۔ لیکن اہل میت کے گھر جا کر مخصوص انداز اختیار کر کے ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے کا ثبوت کتاب و سنت سے نہیں ملتا اس لیے اہلحدیث اس رسم پر عمل نہیں کرتے۔ سوال میں جس دعا کا ذکر کیا گیا ہے اس پر علامہ نووی نے بایں الفاظ باب قائم کیا ہے۔ (باب فی اغماض المیت والدعا لہ اذا حضر) جب موت واقع ہو جائے تو میت کی آنکھیں بند کرنا۔

دراصل جب ابو سلمہ رضی اللہ عنہ فوت ہوئے تو ان کی آنکھیں کھلی تھی آپﷺ نے انہیں بند فرما دیا اور ان کے لیے دعائے مغفرت کی دعا کی، یہ کفن دفن سے پہلے کا معاملہ ہے۔ نیز اس میں ہاتھ اٹھانے کا ذکر نہیں ہے۔ میت پر تین دن سوگ کر سکتے ہیں صرف بیوی کو اپنے خاوند کی وفات پر چار ماہ دس دن تک سوگ کرنے کی اجازت ہے۔ لیکن سوگ کے ایام میں دریاں بچھا کر بیٹھنے رہنا اور آنے والوں کا مخصوص انداز سے تعزیت کے لیے فاتحہ خوانی کرنا ثابت نہیں ہے۔ تعزیت کے لیے تین دن کی تحدید بھی بدعت جبکہ انسان کو جب بھی موقع ملے اہل میت سے تعزیت کی جا سکتی ہے۔

جیسا کہ رسول اللہﷺ نے سیدنا جعفر طیار رضی اللہ عنہ کے اہل خانہ سے تین دن کے بعد تعزیت فرمائی تھی۔ (مسند امام احمد حدیث نمبر 1755)

حضرت جریر بن عبداللہ الجبلی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم میت کے دفن کرنے کے بعد اہل میت کے ہاں اجتماع اور ان کے گھر کھانا پکانے کو نوحہ کی ایک قسم شمار کرتے تھے۔ (مسند احمدج2، ص204)

اہل میت کے لیے کھانے کا اہتمام اور دیگر رشتے داروں یا پڑوسیوں کو کرنا چاہیے۔ بہرحال اہل میت کے ہاں اجتماع کتاب وسنت سے متصادم ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھئے المجموع ج 5، ص 306، زادالمعاد ج 1، ص 304)

دین اسلام چونکہ ایک ضابطہ حیات ہے۔ جس میں ترمیم و اضافہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے میت کے دفن کرنے کے تین چار دن بعد مسجد یا گھر وغیرہ میں اکٹھے ہونا، تقریر کرنا پھر میت کے لیے اجتماعی دعا کرنا یہ سب رواجی چیزیں ہیں۔ جس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ قرون اولیٰ میں اس کا کوئی ثبوت ملتا ہے۔ اس لیے بریلوی حضرات کا فوتگی کے دوسرے یا تیسرے دن قل خوانی کا اہتمام کرنا اور اہلحدیث حضرات کا مسجد یا گھر میں تقریر کرنا اور اس کے بعد میت کے لیے اجتماعی دعا کا اہتمام کرنا ان دونوں میں اصولی طور پر کوئی فرق نہیں ہے۔ یہ سب حیلے بہانے مروجہ بدعات و رسوم کو مشرف باسلام کرنے کے لیے کئے جاتے ہیں۔ ایک مسلمان اور خود دار اہلحدیث کو تمام باتوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔ تعزیت سے مراد اہل میت کو صبر کی تلقین اور ان کے لیے دعائے استقامت پھر میت کے لیے دعا مغفرت کرنا ہے۔

اس کے لیے کسی دن، جگہ یا خاص شکل و صورت کا اہتمام قطعاً درست نہیں ہے۔

شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ کا فتویٰ:

حافظ ثناء اللہ مدنی حفظہ اللہ ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں:

سوال: کسی بھی آدمی کے فوت ہوجانے پر تین دن تک افسوس کے لیے بیٹھا جاتا ہے اگر کوئی آدمی وہاں آ کر دعا مانگنے کو کہتا ہے اور ہاتھ اٹھا کر جو دعا مانگی جاتی ہے۔ اس بارے میں رسول اکرمﷺ کا طریقہ کار بتائیں کیا ہاتھ اٹھا کر دعا کرناجائز ہے یا نہیں؟

جواب: فوت شدگان کی پسماندگان سے تعزیت کرنا مسنون و مستحب ہے۔ لیکن اس عمل کے لیے حقہ لگا کر بیٹھے رہنے کا کوئی ثبوت نہیں بلکہ حدیث جریر بن عبدا للہ میں اہل میت کے ہاں اجتماع کو نوحہ قرار دیا گیا ہے۔

كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ (مسند أحمد مخرجا (11/ 505)

علامہ شوکانی فرماتے ہیں: کہ حدیث جریر: اخرجہ ایضا ابن ماجہ و اسنادہ صحیح، نیل الاوطار 4/104

ہم سمجھتے تھے میت کے گھر جمع ہونا اور اس کے دفن کے بعد کھانا تیار کرنا نوحہ ہے۔

بسلسلہ دعا مولانا اسماعیل سلفی رحمہ اللہ رقمطراز ہیں:

موت کے بعد میت کے لیے دعا اور صدقہ یقیناً مفید ہیں جنازہ میت کے لیے دعا ہے لیکن صدقہ اور دعا کے لیے کسی وقت کا تعین شرعاً ثابت نہیں۔ لیکن موت کے بعد میت کے گھر بیٹھ کر عموما دعاؤں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ہر آنے والا اس انداز سے دعا کی درخواست کرتا ہے گو کہ وہ اپنی حاضری نوٹ کروا رہا ہے۔ ایک منٹ میں دعا ختم ہو جاتی ہے اور حقہ اور گپوں کا دور شروع ہو جاتا ہے اور دعا کے وقت بھی دل حاضر نہیں ہوتا حالانکہ دل کی توجہ دعا کے لیے از بس ضروری ہے:

لا یقبل اللہ من قلب لاہ

اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا کو قبول نہیں کرتے۔

میت کے لیے دعا ہر وقت بلا تخصیص کی جا سکتی ہے اور زندوں کی طرف سے یہی بہترین صلہ ہے جو میت کو دیا جاتا ہے بشرطیکہ سنت کے مطابق ہو۔ تعزیت کا مطلب گھر والوں کو تسلی دینا ہے دعا اگر مجلس کی بجائے انفرادی کی جائے تو دعا کا مقصد پورا ہو سکتا ہے غرض یہ کہ تین دن کا جلسہ دعائیہ سنت سے ثابت نہیں۔ ان مجالس میں حقہ اس کے مقصد کو اور بھی تباہ کر دیتا ہے۔

شیخ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ کا فتویٰ

شیخ ثناء اللہ امرتسری رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں:

سوال: گھر میں کوئی فوت ہو جائے اس کے گھر کے لوگ تین روز تک آتے رہتے اور دعا کرتے ہیں یہ جائز ہے یا نہیں؟

جواب: جو صورت سوال میں ممکن ہے سنت نہیں۔ (فتاویٰ ثنائیہ ص 55)

دیگر علماء و محقیقین کے مؤقفات

شیخ الاسلام ابن قیم رحمہ اللہ کا مؤقف

وکان من ھدیہ ﷺ تعزیۃ اھل المیت ولم یکن من ھدیہ ان یجتمع للعزاء، ویقراء لہ القرآن لا عند قبرہ ولا غیرہ وکل ھذا بدعۃ حادثۃ مکروھۃ (زاد المعاد ج1، ص508)

میت کی تعزیت کرنا آپﷺ کے اسوہ و طریقہ میں سے ہے اور یہ آپﷺ کا طریقہ نہیں کہ میت کے گھر تعزیت کے لیے جمع ہوا جائے یا میت کے پاس یا قبر کے پاس یا اس کے علاوہ جگہ پر میت کے لیے قرآن پڑھا جائے یہ سب باتیں بدعت، دین میں نئی ایجاد شدہ اور نا پسندیدہ ہیں۔

غور فرمائیں شیخ الاسلام ابن قیم اہل میت کے ہاں اجتماع کو بدعت گردان رہے ہیں چہ جائے وہاں پٹی یا بوری بچھا کر بیٹھا جائے اور اجتماعاً ہاتھ پھیلا کر دعا کی جائے۔

امام شوکانی رحمہ اللہ کا مؤقف:

امام صاحب لکھتے ہیں:

كُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَى أَهْلِ الْمَيِّتِ وَصَنِيعَةَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِهِ مِنَ النِّيَاحَةِ .4(یعنی انہم کانوا یعدون الاجتماع عند اھل المیت بعد دفنہ واکل الطعام عندھم نوعا من النیاحۃ)

ہم سمجھتے تھے میت کے گھر جمع ہوتا اور اس کے دفن کے بعد کھانا تیار کرنا نوحہ ہے۔ یعنی صحابہ کرام میت کو دفن کرنے کے بعد اہل میت کے ہاں اجتماع کو اور انکے ہاں کھانے کو نوحہ کی ایک قسم شمار کرتے تھے۔ (جب اجتماع ہی ممنوع ہے تو دیگر امور کیسے ثابت ہوں گے)

امام نووی رحمہ اللہ کا مؤقف:

واما اصلاح اھل المیت طعاما وجمع الناس وعلیہ فلم ینقل فیہ شیء وھو بدعۃ غیر مستحبۃ (المجموع شرح مھذب جز 5، ص 320)

جہاں تک اہل میت کے لیے کھانا بنانے کا تعلق ہے اور لوگوں کا اس پر جمع ہونے کا تعلق ہے (کتاب وسنت سے) اس کے بارے میں کوئی بھی بات منقول نہیں، یہ بدعت اور غیر مستحبہ غیر پسندیدہ فعل ہے۔

شیخ البانی رحمہ اللہ کا مؤقف:

علامہ البانی رحمہ اللہ احکام الجنائز میں بدع الجنائز یعنی جنازے کی بدعات ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

الاجتماع فی مکان للتعزیۃ (احکام الجنائز ص 105)

کسی جگہ تعزیت کے لیے جمع ہونا (بدعت ہے)

غور فرمائیں شیخ البانی رحمہ اللہ اہل میت کے ہاں تعزیتی اجتماع کو ہی بدعت قرار دے رہے ہیں۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ کا مؤقف:

شیخ ابن باز رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا:

س: کیا دفن کے بعد اہل میت کے ہاں کسی خاص جگہ پر تین دن تعزیت کرنا اور ساتھ کھانے پینے کا اہتمام کتاب و سنت سے ثابت ہے؟

ج: اس کی کوئی دلیل نہیں تعزیت کے لیے کوئی خاص جگہ مقرر نہیں اہل میت سے راستے میں تعزیت کی جائے یا مسجد میں یا قبرستان میں دفن کرنے سے پہلے یا بعد میں تعزیت کی جائے اس میں کوئی حرج والی بات نہیں۔

ایک اور سوال جو اس سے بھی واضح ہے ایک شخص سوال کرتا ہے۔

سوال: جب ہم تعزیت کے لیے جائیں تو اہل میت سے مصافحہ کرنے سے پہلے ہاتھ اٹھائیں اور میت کے لیے دعا کریں پھر کھڑے ہو کر ان سے مصافحہ کریں کیا یہ عادت صحیح ہے؟

جواب: اس کے بارے میں مجھے کسی دلیل کا علم نہیں لیکن پہلے یا بعد میں میت کے لیے دعا کرنا اس میں کوئی حرج نہیں لیکن ہاتھ اٹھانے کو عادت بنا لینا اس کے لیے کوئی دلیل نہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں شیخ ابن باز رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’میت کے گھر میں کھانے پینے یا قرآن خوانی کے لیے جمع ہونا بدعت ہے اسی طرح جمع ہو کر اجتماعی طور پر دعا کرنا بھی بدعت ہے جس کی کوئی دلیل نہیں۔‘‘ (فتاویٰ اسلامیہ ج2، ص 86 ناشر دارالسلام)

فضیلۃ الشیخ صالح العثیمن رحمہ اللہ کا مؤقف:

شیخ صالح العثیمن فرماتے ہیں:

اصل الجلوس للعزاء غیر مشروع فانہ لیس من ھدی النبیﷺ واصحابہ رضی اللہ عنہم بل قد روی الامام احمد وابن ماجہ باسناد صحیح عن جریر بن عبداللہ البجلی کنا نعد الاجتماع الی اھل المیت وصنعۃ الطعام بعد دفنہ من النیاحۃ (مجموع الفتاویٰ ورسائل العثیمن)

اصل بات یہ ہے کہ تعزیت کے لیے بیٹھنا کتاب و سنت سے ثابت نہیں اور نہ ہی یہ نبی اکرمﷺ اور نہ ہی آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کا طریقہ ہے بلکہ امام احمد اور ابن ماجہ سے بسند صحیح مروی ہے سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم شمار کرتے تھے میت کے گھر جمع ہونا اور اس کے دفن کے بعد کھانا تیارکرنا نوحہ ہے۔

پھر شیخ ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

واحسن مایعزی بہ الانسان ماغزی بہ النبیﷺ احدی بناتہ وقد ارسلت الیہ رسولا تطلب منہﷺ ان یحضر فقال النبیﷺ لھذا الرسول مرھا فلتصبر ولتحتسب فال للہ ما اخذ ولہ ما ابقی وکل شیء باجل مسمیٰ (مجموع الفتاوی ورسائل العثیمن)

سب سے بہترین طریقہ تعزیت وہ ہے جس طریقہ کے ساتھ نبی اکرمﷺ نے تعزیت کی۔ آپﷺ کی ایک بیٹی نے آپ کی طرف پیغامبر بھیجا کہ آپﷺ میرے پاس تشریف لائیں۔ آپﷺ نے پیغامبر سے کہا ان سے جاکر کہہ دے:

فلتصبر ولتحتسب فان للہ ما اخذ ولہ ما ابقی وکل شیء باجل مسمیٰ

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

واما اجتماع الناس فی بیت واحد فان ذلک من البدعۃ (مجموع الفتاویٰ ورسائل العثیمن)

اور جہاں تک لوگوں کا کسی ایک گھر میں تعزیت کے لیے جمع ہونے کا تعلق ہے تو یہ کام بدعت ہے۔

ایک اور جگہ فرماتے ہیں:

قرائۃ الفاتحۃ عند التعزیۃ مع الرفع الیدین بدعہ (مجموع الفتاویٰ ورسائل العثیمن)

تعزیت کرتے وقت ہاتھ اٹھا کر فاتحہ خوانی بدعت ہے۔

قارئین کرام! غور فرمائیں عرب وعجم کے علماء، محدیثین، محققین اسے بے اصل بدعت قرار دے رہے ہیں۔ لیکن صاحب مضمون اسے نہ صرف جائز بلکہ سنت قرار دینے پر مصر ہیں۔ واہ سبحان اللہ۔

صاحب مضمون کے دلائل اور ان کا تجزیہ:

صاحب مضمون نے تین دلیلیں پیش کی مگر صاحب مضمون کی پیش کردہ تین دلیلوں میں سے کوئی بھی ایسی نہیں جو صاحب مضمون کے دعویٰ کو ثابت کر سکے۔

صاحب مضمون کی پہلی دلیل:

صاحب مضمون لکھتے ہیں کہ صحیح مسلم میں ہے۔ سیدنا بریدہ بن حصیب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب ایک صحابی رسول سیدنا ماعز بن مالک رضی اللہ عنہ سے زنا کا ارتکاب ہو گیا اور اپنی جوش ایمانی سے انہوں نے خود اس کا اعتراف بھی کر لیا بلکہ اینٹوں اور پتھروں سے رجم ہونے کے لیے اپنے آپ کو آپﷺ کے سامنے پیش کر دیا۔ آپﷺ نے اسے رجم کرنے کا حکم دے دیا اور وہ رجم کر دیے گئے تو اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دو ذہن ہو گئے بعض نے اس جرأت پر اسے داد تحسین دی جبکہ بعض نے اس فعل کو اچھا نہ جانا:

فَلَبِثُوا بِذَلِكَ يَوْمَيْنِ أَوْ ثَلَاثَةً، ثُمَّ جَاءَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمْ جُلُوسٌ، فَسَلَّمَ ثُمَّ جَلَسَ، فَقَالَ: اسْتَغْفِرُوا لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ، قَالَ: فَقَالُوا: غَفَرَ اللهُ لِمَاعِزِ بْنِ مَالِكٍ

پھر اسی کشمکش میں دو یا تین دن رہے پھر اللہ کے رسول آئے اس حال میں کہ وہ سب بیٹھے ہوتے تھے۔ آپﷺ نے السلام علیکم کہا پھر بیٹھ گئے پھر فرمایا: ماعز بن مالک کے لیے بخشش و معافی کی دعا کرو۔ حاضرین نے دعا کرتے ہوئے کہا: یا باری تعالیٰ! ماعز بن مالک کو بخشش و معافی سے نوار دے۔ (صحیح مسلم 1695)

پہلی دلیل کا تجزیہ:

صاحب مضمون کی اس دلیل پر کئی وجوہ سے مناقشہ ہے۔

(۱) اس حدیث مبارکہ میں اہل میت کے ہاں دعا کرنے کا کوئی ذکر نہیں یہ ایک احتمال ہے جس کا صاحب مضمون خود اعتراف کر رہے ہیں۔

(۲) اگر صاحب مضمون کا دعوی ہے کہ یہ دعا اہل میت کے ہاں تھی تو صاحب مضمون پر لازم ہے اس کی دلیل قطعی پیش فرمائیں خالی الفاظ سے شریعت ثابت نہیں ہوئی ویسی بھی فقہی قائدہ ہے۔

اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال

کہ جب احتمال آ جائے تو استدلال باطل ہو جاتا ہے۔

(۳) اس روایت میں ہیئت مخصوصہ کے ساتھ اجتماعا ہاتھ اٹھا کر دعا کرنے پر حدیث ایک لفظ بھی دلالت نہیں کرتا۔

(۴) بلکہ اس میں ذکر ہے کہ صحابہ کے دو گروہ ہو گے بعض نے اس جرأت پر اسے داد تحسین دی جبکہ بعض نے اس فعل کو اچھا نہ جانا پھر اسی کشمکش میں دو یا تین دن گزر گئے آپﷺ تشریف لائے دونوں گروہ جو واقعہ پر تبصروں میں مشغول تھے آپﷺ نے انہیں کہا کہ بس چھوڑو ان کے لیے بخشش کا سوال کرو تو سب نے بخشش کا سوال کیا۔

(۵) صاحب مضمون سے ہم دریافت کرتے ہیں کہ جس دلائل کا آپ ذکر کر رہے ہیں کیا صحابہ کرام کو اس کا علم نہ ہوا؟ وہ ان کی وجہ دلالہ سمجھ نہیں پائے؟ وہ تو اہل میت کے ہاں خالی اجتماع کو بھی نوحہ سمجھتے تھے جیسا کہ جریر بن عبداللہ الجبلی رضی اللہ عنہ کی حدیث پیچھے گزر چکی ہے۔

(۶)مابہ النزاع سے اس روایت کا کوئی تعلق نہیں  صاحب مضمون کے دعوی اور دلیل میں کوئی مطابقت نہیں ہے۔

صاحب مضمون کی دوسری دلیل:

صاحب مضمون لکھتے ہیں کہ صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے: روای حدیث سیدنا ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں مجھے اور میرے چچا ابو عامر کو رسول اللہﷺ نے ایک جنگ میں بھیجا۔ میرے چچا اس جنگ میں جام شہادت نوش کر گئے۔ شہید ہوتے وقت انہوں نے مجھے امیر لشکر بنا دیا اور کہہ گئے بھتیجے! اللہ کے نبی کو میرا سلام پہنچانا اور ان سے کہنا میرے لیے بخشش کی دعا کردیں کہتے ہیں جنگ سے واپسی پر میں حاضر ہوا اور چچا جان ابو عامر کے لیے بخشش دعا کی درخواست پیش کی۔ حدیث کے الفاظ ہیں:

فَدَعَا رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَآءٍ فَتَوَضَّأَ مِنْهُ وَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ: “اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لعبيدٍ أَبِي عَامِرٍ………….

آپﷺ نے پانی منگوایا اس سے وضو فرمایا پھر دونوں ہاتھ اٹھائے اور دعا کرتے ہوئے فرمایا: اے باری تعالیٰ اپنے بندے ابو عامر کو معاف کر دے۔

آپﷺ نے ہاتھ اس قدر اٹھائے کہ میں نے آپ کی بغلوں کی سفیدی دیکھ لی پھر آپ نے مزید (دعا کرتے ہوئے) فرمایا: اے باری تعالیٰ! روز قیامت اسے اپنی بہت سی مخلوق سے اونچا مقام عطا کرنا یا لوگوں سے اونچا مقام عطا فرمانا۔ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ (موقع غنیمت جانتے ہوئے) میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! میرے لیے بھی بخشش کی دعا فرما دیجئے! تو نبی کریمﷺ نے (میرے لیے بھی دعا کرتے ہوئے) فرمایا: اے باری تعالیٰ! عبداللہ بن قیس کے گناہ معاف فرما دے اور روز قیامت باعزت داخلے کی جگہ میں داخل فرمانا۔ (صحیح البخاری: 4323)

دوسری دلیل کا تجزیہ:

اس دلیل پر بھی کئی وجوہ مناقشہ ہے۔

(۱) اس حدیث میں اہل میت کے گھر جا کر دعا کرنے پر حدیث کا ایک لفظ بھی دلالت نہیں کرتا بلکہ جہاں آپ کو اطلاع ملی وہاں آپ نے دعا کردی۔

(۲) یہ دعا تو اس وصیت اور پیغام پر مبنی تھی جو ابو عامر رضی اللہ عنہ نے اپنے انتقال کے وقت نبیﷺ کو دیا تھا اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ اپنے لیے بھی دعا کی درخواست کر دی۔ نیک شخص سے دعا کروانے کا تو کوئی بھی انکار نہیں کرتا۔

(۳) کاش صاحب مضمون، مضمون لکھنے سے پہلے کچھ ہی غور فرما لیتے کہ مطلق دعا او راس میں ہاتھ اٹھانے کا مسئلہ بالکل دوسرا ہے۔ مابہ النزاع سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔

(۴) ہیئت مخصوصہ جو آج کل اختیار کی جاتی ہے جس کے صاحب مضمون مؤید ہیں اس کا اس میں ذکر تک نہیں ۔

صاحب مضمون کی تیسری دلیل:

آپﷺ نے ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد اس کی بیوی ام سلمہ رضی اللہ عنہ کے ہاں جاکر دعا کی اور فرمایا:

اَللّٰهُمَّ اغْفِرْ لِأَبِيْ سَلَمَةَ، وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ، وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ، وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ، اللهُمَّ افْسَحْ فِي قَبْرِهِ وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ

یعنی اے اللہ! ابو سلمہ رضی اللہ عنہ کو بخشش و مغفرت سے نواز ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کے درجات بلند فرما اور اس کے بعد اس کی باقی ماندہ اولاد کے امور سنبھال لے اے رب العالمین! ہمیں اور اس میت کو بخشش دے اور اس کی قبر کو اس کے لیے وسیع کر دے اور اسے منور فرما۔ (صحیح مسلم 920 واحکام الجنائز ص 208)

تیسری دلیل کا تجزیہ:

پہلی دو دلیلوں کی طرح اس تیسری دلیل کا بھی مابہ النزاع سے بالکل تعلق نہیں یہ میت کی آنکھیں بند کرتے وقت آپﷺ نے دعا کی تھی اور کفن دفن سے پہلے کا معاملہ ہے اس میں ہاتھ اٹھا کر اجتماعا دعا کرنے کا بھی کوئی ذکر نہیں ہے۔

اس کا مفصل جواب شیخ الحدیث مفتی عبدالستار حماد حفظہ اللہ کے فتوی کے ضمن میں گزر چکا ہے وہاں سے ملاحظہ فرمایا جا سکتا ہے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں کتاب و سنت کا صحیح فہم نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

 

 

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے