عقل و شعور اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے جو انسان و حیوان کے درمیان فرق کرتی ہے۔یعنی انسان چرند و پرند، حیوان و جمادات و نباتات سے افضل اور ممتاز حیثیت رکھتا ہے تو اس کی وجہ یہی عقل ہے۔ اسی کے ذریعے سے انسان بڑے چھوٹے ،صحیح و غلط اور اچھے برے کی تمیز کرتا ہے ۔اسی عقل کی بنیاد پر انسان کوشرعی احکام کا مکلف بنایاگیا ہے کہ شرعی احکام میں جس طرح انسان مکلف ہیں دوسری تمام مخلوقات جو غیر ذوی العقول ہیں جیسے جمادات و نباتات ،چرندو پرند ،احجار و اشجار یہ سب غیر ذوی العقول ہونے کی وجہ سے شریعت کے مکلف نہیں۔بلکہ یوں کہئے کہ اگر انسان کی بھی عقل زائل ہوجائے تو وہ بھی شرعی احکامات کا مکلف نہیں رہتا ،جیسا کہ جنون ،غشی ،بے ہوشی وغیرہ کی وجہ سےکسی کی عقل زائل ہوجائے تو وہ شرعی مکلف نہیں رہتا یعنی اس سے نماز وغیرہ کی فرضیت زائل ہوجاتی ہے ۔بہرحال عقل و شعور انسانی تخلیق ایک اہم عنصر ہے۔ہم اس تحریر میں اسی حوالے سے کچھ اہم بحوث کریں گے، جس میں اس کی اصل اور حیثیت سے لے کر دیگر کئی ایک موضوع بھی اپنے اپنے مقام پرجزواً آجائیں گے۔(ان شاء اللہ)

عقل کیا ہے ؟

اس حوالے سے لکھنے والوں نے بہت کچھ لکھا ہے ،ہم اس بارے میں امام ابن تیمیہ اور ابن القیم رحمہما اللہ کے قول پیش کرتے ہیں ،جو اس حوالے سے ہمیں بہتر معلوم ہوتے ہیں ۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا قول :

إن اسم العقل عند المسلمين وجمهور العقلاء إنما هو صفة وهو الذي يسمى عرضا قائما بالعاقل

یعنی : اسم عقل مسلمانوں اور جمہور عقلاء کے یہاں ایسی صفت ہے جس کانام عرض رکھا جاتا ہےاور عاقل کے ساتھ قائم ہوتی ہے۔

پھر فرماتے ہیں :

.4والعقل المشروط في التكليف لا بد ا ن يكون علوما يميز بها الإنسان بين ما ينفعه وما يضره فالمجنون الذي لا يميز بين الدراهم والفلوس ولا بين ا يام الا سبوع ولا يفقه ما يقال له من الكلام ليس بعاقل ا ما من فهم الكلام وميز بين ما ينفعه وما يضره فهو عاقل (مجموع الفتاوی: ۹/۲۸۷)

یعنی: وہ عقل کہ جس کی اسلامی احکامات کے مکلف ہونے کے لئے شرط لگائی گئی ہے ،وہ ان علوم کا نام ہے کہ جن کے ذریعے سے انسان نفع و نقصان کے درمیان فرق کرتا ہے۔ایسا مجنون جودرہم و فلوس کے درمیان فرق نہیں کرسکتا اور نہ ہی اس سے جو کلام کی جائے وہ سمجھ سکے تو وہ عاقل نہیں ۔البتہ جو کلام سمجھے اور نفع و نقصان میں فرق کرسکے تو وہ عاقل ہے۔

پھر اس حوالے سے مزید مؤقفات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’بعض لوگ کہتے ہیں کہ عقل علوم ضروریۃ کا نام ہے۔بعض کہتے ہیں کہ عقل ان علوم ضروریہ کے بموجب عمل کانام ہے۔صحیح بات یہ ہے کہ اسم عقل ان دونوں چیزوںکو شامل ہے۔کبھی عقل سے مراد وہ جبلی عقل لی جاتی ہے جس کے زریعے سے انسان جانتا ہےنقصان سے بچتے ہوئے فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔جیساکہ امام احمد ، حارث المحاسبی وغیرہ کے نزدیک عقل اسی جبلی سمجھ بوجھ کا نام ہے ۔اورجمہور عقلاء اس جبلی عقل کا اثبات کرتے ہیں،جس طرح آنکھ میں ایک ایسی قوت ہے جس کے ذریعے سے انسان دیکھتا ہے اور زبان میں ایک قوت ہے جس کے ذریعے سے وہ چکھتا ہے۔اور جلد میں قوت ہے کہ جس کے ذریعے سے انسان چھوتا ہے۔جمہور عقلاءان قوتوں کا اثبات کرتے ہیں۔(اسی طرح عقل بھی جبلی طور پر سمجھنے کی ایک قوت ہے)بعض نے ان قوتوں اور طبائع کا انکار کیا ہے۔ جیسا کہ ابوالحسن اور اصحاب مالک ،اصحاب شافعی اور اصحاب احمد رحمہم اللہ جمیعاًوغیرہ میں سے جو اس کے پیروکار ہیں ۔‘‘(مجموع الفتاوی :۹/۲۸۷)

ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

والْعقل عقلان عقل غريزة وَهُوَ اب الْعلم ومربيه ومتمره وعقل مكتسب مُسْتَفَاد وَهُوَ ولد الْعلم وثمرته ونتيجته فَإِذا اجْتمعَا فِي العَبْد فَذَلِك فضل الله يؤتيه من يَشَاء واستقام لَهُ امْرَهْ واقبلت عَلَيْهِ جيوش السَّعَادَة من كل جَانب وَإِذا فقد احدهما فالحيوان البهيم احسن حَالا مِنْهُ

(مفتاح دارالسعادۃ )

یعنی: عقل کی دو طرح کی ہے۔(1) عقل غریزۃ:(یعنی جو جبلت میں موجود ہے،جس قدر یہ جبلی عقل قوی ہوگی اسی قدر علم کے اعلی مراتب اور گہرائیاں حاصل ہوجائیں گی۔)علم کی اصل(یعنی یہ جبلی عقل ہوگی تو علم صحیح حاصل ہوگا) اور اس کے حصول و اضافہ کا بھی بنیادی ذریعہ یہی ہے ،(2) عقل جو کہ حاصل ہوتی ہے۔(اس سے مراد شعور وو بصیرت ہے۔)یہ علم کی فرع ،ثمرہ اور نتیجہ ہے۔ (یعنی علم کے آنے کی وجہ سے جو عقل و شعور حاصل ہوتا ہے۔اسے ولد العلم اس لئے کہا گیا کہ علم کی وجہ سے اس میں اضافہ اور ترقی ہوتی ہے۔یعنی جس قدر علم آئے گا اسی قدر اس(دوسری قسم کے ) عقل و شعور میں ترقی ہوگی۔)یہ دونوں(جبلی عقل اور شعور بصیرت ) جس میں جمع ہوجائیں (یہ اللہ کا فضل ہے۔جسے اللہ تعالی عطا فرمادے۔) اس کا معاملہ سیدھا ہوجاتا ہے۔نیک بختی اسے حاصل ہوجاتی ہے۔اور ان میں سے ایک قسم کی بھی عقل نہ ہوتو ایسے شخص سے جانور بہتر ہے۔

ان دونوں اقوال سے عقل کی حقیقت اور ماہیت واضح ہوجاتی ہےکہ عقل اس معنی میں بھی استعمال ہوتی ہے جو جبلی طور پر انسان میں موجود ہےاور دوسرا معنی شعورو بصیرت جو علم اور تجربہ سے انسان کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کے لئے بھی لفظ عقل بولا جاتا ہے۔

عقل و شعور کی اہمیت

چونکہ یہ انسانی خلقت کا ممتاز وصف ہے ،اسی لئے اسلام نے بھی اس کی اہمیت کو مختلف انداز میں بیان کیا ہے۔قرآن مجید ،احادیث اور اقوال السلف ،سب میں اس کی اہمیت ملتی ہے ،ذیل میں ہم اسے ذکر کئے دیتے ہیں۔

قرآن اوردلائل عقلیہ :

قرآن مجید میں اللہ تبارک و تعالی نے جہاں اپنی دیگر نعمتوں کا ذکر کیا وہاں اس عقل و شعور کا بھی مختلف انداز میں ذکر موجود ہے۔مثلاًسورۃ الفجر میں اللہ تبارک وتعالی نے پانچ مختلف چیزوں کی قسم اٹھانے کے بعد فرمایا:

هَلْ فِيْ ذٰلِكَ قَسَمٌ لِّذِيْ حِجْرٍ (الفجر:5)

یعنی: ان باتوں میں اہل عقل کے لیے ضرور بڑی قسم ہے۔بلکہ قرآن مجید میں بکثرت ایسی آیات موجودہیں کہ جن میں مختلف قسم کی نشانیوں کے ذکر بعد اہل عقل کو سمجھنے کی دعوت دی گئی ،کہیں اللہ تعالی نے مشرکین کو قرآن مجید میں کئی مقامات پر دلائل عقلیہ کے ذریعے سے بھی توحید کے فہم کی دعوت دی۔اور مختلف قسم کی نشانیوں کا ذکر کرنے کے بعد یہی فرمایا کہ عقل مند لوگ ہی سمجھیں گے ،نصیحت حاصل کریںگے یا عبرت پکڑیں گے، کہیں خاص اہل عقل سے خطاب کرتے ہوئے انہیں اللہ کے ڈر کی دعوت دی گئی ۔ایسی آیات بڑی تعداد میں موجود ہیں ،بعض نے 300 کی تحدید کی ،مگر ایسی آیات اس سے بھی کہیں زیادہ ہیں ،جن میں سے ہم صرف چند ایک کے حوالے درج کرتے ہیں۔

سورۃ البقرۃ :73، 164 ، 179 ، 197، 269، آل عمران:7 ، 190، المائدۃ:100 ، یوسف : 111 ، الرعد: 4، 19 ، ابراھیم:52 ،النحل : 12، 67، العنکبوت: 35، الروم: 24، 28، یس: 68، الزمر:9 ، 21، غافر:54 ، الطلاق : 10۔القصص:72 ، السجدۃ: 27، الذاریات:21،الجاثیہ:5، الحشر:2۔

احادیث اور عقل و شعور :

احادیث میں بھی عقل و شعور کی اہمیت کا ذکر مختلف انداز میں ملتا ہے ،جس کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

 مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ ( صحیح مسلم:1037عن معاویۃ، جامع ترمذی : 2645عن ابن عباس ، وقال الترمذی ’’و فی الباب عن عمر ، و ابی ھریرۃ ،و معاویۃ ‘‘)

یعنی: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالی جس شخص کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے ،اسے دین کا فہم عطا فرمادیتا ہے۔

رسول اللہ ﷺنے اشج عبد القیس سے جو قبیلہ عبد القیس کا سردار تھا فرمایا:

إِنَّ فِيكَ خَصْلَتَيْنِ يُحِبُّهُمَا اللهُ: الْحِلْمُ، وَالْأَنَاةُ (صحیح مسلم:17)

تمہارے اندر دو خصلتیں ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے سمجھ داری اور سوچ سمجھ کر کام کرنا۔

اس حدیث سے واضح ہوا کہ نبی اکرمﷺ نے اس صفت کا خصوصی ذکر کرکے اشج عبدالقیس کی تعریف کی۔ جس سے رسول اللہ ﷺ کی نظر میں اس وصف کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

ایک روایت میں تو صاحب عقل و دانا شخص کو قابل رشک تک قرار دیا گیا ،چناچہ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے:

لا حسد إلا في اثنتين رجل آتاه الله مالا فسلطه علی هلکته في الحق ورجل آتاه الله حکمة فهو يقضي بها ويعلمها (صحیح بخاری :73 ، صحیح مسلم:816)

یعنی: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا :دو آدمیوں کے سوا کسی پر رشک کرنا جائز نہیں ایک وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے مال عطا فرمایا ہو اور وہ اسے حق کے راستے میں خرچ کرتا ہو اور دوسرا وہ آدمی جسے اللہ تعالیٰ نے دانائی عطا فرمائی اور وہ اس کے مطابق فیصلہ کرتا ہو اور اسے لوگوں کو سکھاتا ہو۔

مزید یہ کہ ایک روایت میں رسول اللہ ﷺ نے نماز میں صفوں کی درستگی کے حوالے سے نصیحت کرتے ہوئےفرمایا:

لِيَلِنِي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ (صحیح مسلم :432 ،سنن ابی داؤد: 674 )

یعنی تم میں سے جو عقلمند اور سمجھدار ہوں وہ میرے قریب کھڑے ہوں، پھر جو(اس وصف میں )ان کے قریب ہوں پھر جو(اس وصف میں ) ان کے قریب ہوں ۔

اس حدیث سے بھی اس عظیم وصف (عقل و شعور ) کی اہمیت واضح ہوجاتی ہے۔

ایک حدیث میں آخرت کو یاد رکھنے والے کو عقل مند قرار دیا۔چناچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : میںنبی مکرمﷺ کے ساتھ تھا اس دوران ایک انصاری شخص آپ ﷺکے پاس آیا اور سلام کیا ،پھر اس نے سوال کیا: اے اللہ کے رسول ﷺ! أَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَفْضَلُ؟ تمام مومنوں میں سےکون سا مومن افضل ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: أَحْسَنُهُمْ خُلُقًا۔ جس کا اخلاق اچھا ہو۔ پھر اس شخص نے پوچھا: فَأَيُّ الْمُؤْمِنِينَ أَكْيَسُ؟ مؤمنین میں سے کون سا شخص زیادہ عقل مند اور دانا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: أَكْثَرُهُمْ لِلْمَوْتِ ذِكْرًا، وَأَحْسَنُهُمْ لِمَا بَعْدَهُ اسْتِعْدَادًا، أُولَئِكَ الْأَكْيَاسُ۔ جو موت کو بہت یادکرنے والا اور اس کے بعد (آخرت میں جو کچھ ہونا ہے) کی تیاری کرنے والاہے، وہی عقلمند ہے۔(سنن ابن ماجۃ: 4259)

خلاصہ یہ ہے کہ احادیث کی روشنی میں بھی اس کی اہمیت واضح ہوگئی کہ کہیں یہ ایسا وصف نظر آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ ایسے شخص کی حوصلہ افزائی کے لئے اس کے سامنے ہی تعریف فرمارہے ہیں،کہیں ایسے شخص کو قابل رشک قرار دیا ،کہیں نماز میں اقرب ترین افراد کے لئے اسی وصف میں برتری کو معیار بنادیا گیا ،کہیں اسےاللہ تعالی کے ارادۂ خیر سے تعبیر کیا گیا ۔الغرض مختلف انداز میں اس وصف کا ذکر و اہمیت موجود ہے۔اب آئیے اقوال سلف صالحین کی طرف کہ انہوں نے شعور و بصیرت کو کیا اہمیت دی ؟ اور اہل عقل کے کیا اوصاف بیان کئے

عقل و شعور کے بارے میں سلف صالحین کے اقوال :

اہل علم نے عقل و شعور کی حیثیت و اہمیت پر بحث کی ہے، بلکہ ابن ابی الدنیا کی اس حوالے سے مستقل کتاب ہے ’’العقل و فضلہ‘‘ اسی طرح امام بیھقی نے شعب الایمان میں اس حوالے سے مستقل ایک فصل قائم کی ہے ،اگر چہ اس کے تحت بعض ایسی احادیث بھی ہیں جو صحت تک نہیں پہنچتیں، البتہ اس فصل کے تحت انہوں نے کئی اہل علم کے اقوال بھی نقل کئے ہیں جن میں سے چند یہاں نقل کئے جاتے ہیں۔

عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ کاقول:

قِيلَ لِعَبْدِ اللهِ بْنِ الْمُبَارَكِ: أَيُّ خَصْلَةٍ فِي الْإِنْسَانِ خَيْرٌ؟ قَالَ: ” غَرِيزَةُ عَقْلٍ “، قيلَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ؟ قَالَ: ” فَأَدَبٌ حَسَنٌ “. قِيلَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ؟ قَالَ: ” أَخٌ شَقِيقٌ يُشَاوِرُهُ “، قِيلَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ؟ قَالَ: ” فَصَمْتٌ طَوِيلٌ “، قِيلَ: فَإِنْ لَمْ يَكُنْ؟ قَالَ: ” فَمَوْتٌ عَاجِلٌ”.(شعب الایمان:4354)

عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ انسان میں کون سی خصلت سب سے اچھی ہے ؟انہوں نے جواب دیا :بہت زیادہ عقل و فہم کا ہونا۔ ان سے پوچھاگیا:اگر یہ نہ ہو؟انہوں نے جواب دیا :اچھا ادب۔ ان سے پوچھا گیا:اگر یہ بھی نہ ہو؟ انہوں نےجواب دیا :اس کا بھائی جواسے اچھامشورہ دے۔پوچھا گیااگر یہ بھی نہ ہو؟ انہوں نے جواب دیا طویل خاموشی ۔ پوچھا گیا: اگر یہ بھی نہ ہو ؟ انہوں نےجواب دیا کہ پھر جلدی آنے والی موت۔

احمد بن ابی عاصم الانطاکی رحمہ اللہ کا قول :

قَالَ أَحْمَدُ بْنُ عَاصِمٍ الْأَنْطَاكِيُّ: ” أَنْفَعُ الْعَقْلِ مَا عَرَّفَكَ نِعَمَ اللهِ عَلَيْكَ وَأَعَانَكَ عَلَى شُكْرِهَا، وَقَامَ بِخِلَافِ الْهَوَى “(شعب الایمان:4341)

یعنی :احمد بن عاصم انطاکی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سب سے زیادہ نافع عقل یہ ہے کہ جس کے ذریعےسے آپ کو اللہ کی نعمتوں کی پہچان ہوجائے،اور جو ان نعمتوں کا شکر ادا کرنے میں تیری مدد کر ے،اورجو تجھے خواہشات کی پیروی نہ کرنے دے۔

سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ کا قول:

قَالَ سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ: ” لَيْسَ الْعَاقِلُ الَّذِي يَعْرِفُ الْخَيْرَ وَالشَّرَّ، إِنَّمَا الْعَاقِلُ إِذَا رَأَى الْخَيْرَ اتَّبَعَهُ، وَإِذَا رَأَى الشَّرَّ اجْتَنَبَهُ (شعب الایمان:4342)

سفیان بن عیینیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عقل مند وہ نہیں جو خیر و شر کو جانتا ہو، بلکہ عقل مند وہ ہے کہ جو خیر کو دیکھےتو اسے اپنالے۔ اور شر کو دیکھے تو اس سے اجتناب کرے۔

ابوعمرو الزجاجی رحمہ اللہ کا قول:

كَانَ النَّاسُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَتَّبِعُونَ مَا تَسْتَحْسِنُهُ عُقُولُهُمْ وَطَبَائِعُهُمْ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَرَدَّهُمْ إِلَى الشَّرِيعَةِ وَالِاتِّبَاعِ فَالْعَقْلُ الصَّحِيحُ الَّذِي يَسْتَحْسِنُ مَحَاسِنَ الشَّرِيعَةِ، وَيَسْتَقْبِحُ مَا يَسْتَقْبِحُهُ (شعب الایمان:4343)

ابوعمرو الزجاجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ دور جاہلیت میں لوگوں کا معاملہ یہ تھا کہ جو ان کی عقلوں اور طبیعتوں کو اچھا لگتا اسی کو اختیار کرلیتے،پھر نبی اکرمﷺ کی بعثت ہوئی، آپ ﷺنے ان کو شریعت کی طرف اور اپنی اتباع کی طرف پھیر دیا۔پس عقل صحیح وہی ہے جو شریعت کے محاسن کو اچھا سمجھے اور شریعت جسے قبیح قرار دے اسے قبیح سمجھے۔

قیس بن ساعدہ رحمہ اللہ کا قول:

قِيلَ لِقَيْسِ بْنِ سَاعِدَةَ: مَا الْعَقْلُ؟ قَالَ: ” مَعْرِفَةُ الْإِنْسَانِ نَفْسَهُ “، (شعب الایمان : 4349)

قیس بن ساعدۃ رحمہ اللہ سے پوچھا گیا کہ عقل کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: انسان کا اپنے نفس کو پہچان لینا عقل مندی ہے۔

ابو عبداللہ النباجی رحمہ اللہ کا قول:

كَانَ أَبُو عَبْدِ اللهِ النبَّاجِيُّ رَحِمَهُ اللهُ يَقُولُ: ” كَيْفَ يَكُونُ عَاقِلًا مَنْ لَمْ يَكُنْ لِنَفْسِهِ نَاظِرًا، أَمْ كَيْفَ يَكُونُ عَاقِلًا مَنْ يَطْلُبُ بِأَعْمَالِ طَاعَتِهِ مِنَ الْمَخْلُوقِينَ ثَوَابًا عَاجِلًا، أَمْ كَيْفَ يَكُونُ عَاقِلًا مَنْ كَانَ بِعُيُوبِ نَفْسِهِ جَاهِلًا، وَفِي عيوبِ غَيْرِهِ نَاظِرًا، أَمْ كَيْفَ يَكُونُ عَاقِلًا مَنْ لَمْ يَكُنْ لِمَا يَرَاهُ مِنَ النَّقْصِ فِي نَفْسِهِ أَنَّهُ مَحْزُونًا بَاكِيًا، أَمْ كَيْفَ يَكُونُ عَاقِلًا مَنْ كَانَ فِي قِلَّةِ الْحَيَاءِ مِنَ اللهِ عَزَّ وجل اسْمُهُ مُتَمَادِيًا “(شعب الایمان :4350)

ابو عبداللہ النباجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اپنے نفس پر غور نہ کرنے والا کیسے عا قل ہوسکتا ہے ؟ یا اعمال طاعت میں لوگوں سے جلدی بدلہ مانگنے والا کیسے عاقل ہوسکتا ہے ؟یا اپنے عیبوں سے ناواقف اور دوسروں کے عیوب تلاش کرنے والا کیسے عاقل ہوسکتا ہے؟ یا اپنے نفس میں خامی نہ دیکھنےوالا کیسے عاقل ہوسکتا ہے ؟ ایسا شخص تو غمزدہ ہی ہوگا۔ یا اللہ سے حیاء نہ کرنے والا کیسے عقل مند ہوسکتا ہے؟

اس قول کی روشنی میں عقل مند کے اوصاف معلوم ہوئےکہ وہ اپنے نفس پر غور کرنے والا ، نیکی صرف اللہ کے لئے کرنے والا، اپنے عیبوں اور خامیوں پر نظر رکھنے والااور اللہ سے حیاء کرنے والا ہوتا ہے۔

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کا قول:

كَانَ السَّلَفُ يَقُولُ: إِنَّ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ زَكَاةً، وَزَكَاةَ الْعَقْلِ طُولُ الْحُزْنِ (شعب الایمان: 4351)

فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سلف فرمایا کرتے تھے کہ ہر چیز کی زکوۃ ہوتی ہے اور عقل کی زکوۃ طویل حزن ہے۔

منصور بن معتمر رحمہ اللہ دعا میں عقل صحیح طلب کیا کرتے تھے:

عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي إِسْمَاعِيلَ، قَالَ: كُنَّا نُجَالِسُ مَنْصُورَ بْنَ الْمُعْتَمِرِ، فإِذَا أَرَادَ أَنْ يَقُومَ اعْتَمَدَ عَلَى يَدَيْهِ، وَقَالَ: ” اللهُمَّ اجْمَعْ عَلَى الْهُدَى أَمْرَنَا، وَاجْعَلِ التَّقْوَى زَادَنَا، وَالْجَنَّةَ مَآبَنَا، وَارْزُقْنَا شُكْرًا يُرْضِيكَ عَنَّا، وَوَرَعًا يَحْجِزُنَا عَنْ مَعَاصيكَ، وَخُلُقًا نَعِيشُ بِهِ بَيْنَ النَّاسِ وَعَقْلًا يَنْفَعُنَا بِهِ “، قَالَ: فَكَانَ إِذَا قَالَ: وَعَقْلًا يَنْفَعُنَا بِهِ يَأْخُذُنِي الضَّحِكُ، فَيَقُولُ: ” مِنْ أَيِّ شَيْءٍ تَضْحَكُ يَا ابْنَ أَبِي إِسْمَاعِيلَ؟ قال إِنَّ الرَّجُلَ لَيَكُونُ عِنْدَهُ وَيَكُونُ عِنْدَهُ، وَلَا يَكُونُ لَهُ عَقْلٌ فَلَا يَكُونُ عِنْدَهُ شَيْءٌ “. (شعب الایمان:4378)

محمد بن ابی اسماعیل فرماتے ہیں کہ ہم منصور بن معتمر کے ساتھ ہوتے اور وہ اپنے ہاتھوں کے ذریعے سہارالیتے ہوئے کھڑے ہوتے وقت یہ پڑھا کرتے تھے : اے اللہ ہمارے معاملے کو ہدایت پر جمع کردے اور تقوی کو ہمارا زاد راہ بنادے اور جنت کو ہمارا ٹھکانہ بنادے اور ہمیں شکر کی توفیق دے کہ جو تجھے راضی کردے۔اور ایسی ورع کہ جو تیری نافرمانی سے روک لے اور اچھا اخلاق جس کے ساتھ ہم لوگوں کے درمیان رہیں اور ایسی عقل جو ہمیں فائدہ پہنچائے۔محمد بن ابی اسماعیل کہتے ہیں کہ جب انہوں نے یہ کہا (یعنی عقل کے بارے میں بھی دعاکی )تو مجھے ہنسی آگئی ۔ منصور بن معتمر فرمانے لگےابواسماعیل کیوں ہنستے ہو؟ آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ یہ بھی اس کے پاس ہو اور وہ بھی اس کے پاس ہو۔ لیکن جس کے پاس عقل نہ ہو اس کے پاس کوئی چیز نہیں۔ (یعنی ہر شے کے بارے میں جہاں دعاکی جاتی ہے وہاں عقل صحیح کے بارے میں دعا کرنا زیادہ ضروری ہے۔)

ابوعاصم رحمہ اللہ کا قول:

كَانَتِ الْعَرَبُ تَقُولُ: كُلُّ صَدِيقٍ لَيْسَ لَهُ عَقْلٌ فَهُوَ أَشَدُّ عَلَيْكَ مِنْ عَدُوِّكَ (شعب الایمان:9025)

ابوعاصم رحمہ اللہ فرماتے ہیں عرب یہ کہا کرتے تھے کہ بے عقل دوست دشمن سے بھی زیادہ نقصان دہ ہے۔

امام شعبی رحمہ اللہ کا قول:

إِنَّمَا كَانَ يَطْلُبُ هَذَا الْعِلْمَ مَنِ اجْتَمَعَتْ فِيهِ خَصْلَتَانِ: الْعَقْلُ وَالنُّسُكُ، فَإِنْ كَانَ نَاسِكًا، وَلَمْ يَكُنْ عَاقِلًا، قَالَ: هَذَا أَمْرٌ لَا يَنَالُهُ إِلَّا الْعُقَلَاءُ فَلَمْ يَطْلُبْهُ. وَإِنْ كَانَ عَاقِلًا، وَلَمْ يَكُنْ نَاسِكًا قَالَ: هَذَا أَمْرٌ لَا يَنَالُهُ إِلَّا النُّسَّاكُ، فَلَمْ يَطْلُبْهُ. فَقَالَ: الشَّعْبِيُّ وَلَقَدْ رَهِبْتُ أَنْ يَكُونَ يَطْلُبُهُ الْيَوْمَ مَنْ لَيْسَتْ فِيهِ وَاحِدَةٌ مِنْهُمَا: لَا عَقْلٌ وَلَا نُسُكٌ: ” (سنن الدارمی :383)

یعنی: امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’ یہ علم وہ شخص طلب کرے جس میں دو خصوصیات پائی جاتی ہوں ،عقلمندی اور عبادت گزاری۔ جو شخص عبادت گزار ہو اور عقل مند نہ ہو۔ وہ یہ کہے گا یہ وہ کام ہے جسے عقل مند ہی حاصل کرسکتےہیں ، اس لئے وہ اسےحاصل نہیں کرے گا۔ اور اگر وہ شخص جو عقلمند ہو اور عبادت گزار نہ ہو تو وہ کہے گا کہ یہ وہ معاملہ ہے جسے عبادت گزار ہی حاصل کر سکتے ہیں، اس لئے وہ اس علم کو حاصل نہیں کرے گا۔ شعبی ارشاد فرماتے ہیں اب تو مجھے یہ اندیشہ ہے کہ آج کل وہ لوگ علم حاصل کرنا شروع نہ کر چکے ہوں جن میں ان دونوں میں سے کوئی بھی خصوصیات نہیں پائی جاتی۔ نہ عقل پائی جاتی ہے اور نہ عبادت گزاری پائی جاتی ہے۔‘‘

یہ قول بڑا ہی قابل غور ہے ،اس قول کی گہرائی میں جایا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہ تینوں چیزیں علم ،عقل اور عبادت باہم ایسا تعلق رکھتی ہیں کہ ایک شے کی اصلاح کے لئے باقی دونوں کا بھی اس سے متصل ہونا ضروری ہے۔ مثلاً عقل کا عبادت و علم دونوں سے تعلق ہے۔یعنی ایسی عقل کا کیا فائدہ جس کے ذریعے سے نہ عبادت کو سمجھا جائے اور نہ ہی اس کے ذریعے سے حصول علم کی کوشش کی جائے۔

اسی طرح علم کا عقل و عبادت دونوں سے بڑا گہراتعلق ہے ۔علم کاحصول عقلِ صحیح کے بغیر ممکن ہی نہیں ۔اور علم ِنافع اس وقت ہوتاہے ،جب اس پر عمل کیا جائے ۔جوکہ عبادت کہلاتا ہے۔

اسی طرح عبادت کا علمِ صحیح اور عقل وفہم ِصحیح دونوں سے بڑا گہرا تعلق ہے ۔اس لئے کہ عبادت ِمطلوب جو اللہ کی بارگاہ میں مقبول ہے۔ اس کی اساس یہی ہے کہ اس عبادت کے بارے میں شرعی علم بھی ہوکہ یہ عمل شریعت سے ثابت بھی ہے یا نہیں اور اگر ثابت ہے تو اس عبادت کے بجالانے کا کیا طریقہ ہے؟جب یہ علم ہوگا تو یہ عبادت مقبول ہوگی ورنہ کتنے ہی لوگ عبادت و غیر عبادت کے درمیان فرق ہی نہیں کرپاتے۔سنت کو بدعت اور بدعت کو سنت سمجھ لیتے ہیں۔اور یہ علم ،عقل و شعور کی بنیاد پر حاصل ہوتا ہے۔

امام شعبی کے اس مذکورہ قول خصوصاً اس کے آخری حصے کو اس تفصیل کی روشنی میں سمجھا جائے تو اس قول کی گہرائی معلوم ہوتی ہے۔

یقیناً یہ اقوال بڑے رہنما اور پر حکمت اقوال ہیں۔ان اقوال سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسلاف کے یہاں دانا اور نادان شخص کا کیا معیار تھا؟؟

عقل و شعور انبیاء و مومنین کا وصف :

قرآن مجید میں عقل وشعور اور بصیرت کوانبیاء و مومنین کے عمدہ وصف کے طور بھی بیان کیا گیا ہےجیسا کہ بعض انبیاء کا تذکرہ کرتے ہوئےفرمان باری تعالی ہے:

وَاذْكُرْ عِبٰدَنَآ اِبْرٰهِيْمَ وَاِسْحٰقَ وَيَعْقُوْبَ اُولِي الْاَيْدِيْ وَالْاَبْصَارِ (سورۃ ص:45)

اور ہمارے بندوں ابراہیم، اسحاق اور یعقوب کو یاد کیجئے جو بڑی قوت عمل رکھنے والے اور صاحبان بصیرت تھے۔

اس آیت میں چند انبیاء کانام لے کر ان کے اہل بصیرت ہونے کی گواہی دی گئی۔اسی طرح فرمان باری تعالی ہے

قُلْ هٰذِهِ سَبِيْلِي أَدْعُوْٓ إِلَى اللهِ عَلٰى بَصِيْرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِيْ وَسُبْحَانَ اللهِ وَمَآ أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ (يوسف: 108)

کہہ دیجئےیہی میرا راستہ ہے، میں اللہ کی طرف بلاتا ہوں، پوری بصیرت پر، میں اور وہ بھی جنھوں نے میری پیروی کی ہے اور اللہ پاک ہے اور میں شریک بنانے والوں سے نہیں ہوں ۔

اس آیت میں نبی اکرمﷺ اور آپﷺ کے متبعین کی بصیرت کا بیان ہے۔

اسی طرح سورۃ الزمر میں بھی مومنین اور متبعین کا یہی وصف اس انداز میں بیان کیا گیا، چناچہ ارشاد الہی ہے:

الَّذِيْنَ يَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَيَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَهٗ ۭ اُولٰۗىِٕكَ الَّذِيْنَ هَدٰىهُمُ اللّٰهُ وَاُولٰۗىِٕكَ هُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ (الزمر:18)

جو بات کو توجہ سے سنتے ہیں پھر اس کے بہترین پہلو کی پیروی کرتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جنہیں اللہ نے ہدایت بخشی اور یہی دانشمند ہیں۔

اس آیت میں مومنین کا وصف بیان ہوا کہ وہ ہدایت یافتہ اور عقل والے ہیں۔

اسی طرح حدیث میں ہے کہ (لاَ يُلْدَغُ المُؤْمِنُ مِنْ جُحْرٍ وَاحِدٍ مَرَّتَيْنِ) (صحیح بخاری:6133،صحیح مسلم:2998)

یعنی مومن ایک بل سے دو مرتبہ ڈسا نہیں جاتا۔ یہ حدیث بھی مومن کی فراست و بصیرت کو واضح کردیتی ہے۔کہ مومن کو اگر دانستہ نا دانستہ کبھی ٹھوکر لگ بھی جائے اور وہ کسی دھوکہ یا نقصان کا شکار ہوبھی جائے ،تو وہ مسلسل ایسی غلطیوں کا شکار نہیں ہوتااور اپنی اصلاح کرتا ہے۔

فتنہ دجال اور مومن کی بصیرت :

مومن صاحب بصیرت ہوتا ہے اور اس کی بنیاد دین اسلام کا فہم اور اس سے وابستگی ہے ۔جیساکہ نبی اکرمﷺ نے دجال کے فتنے بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص دجال کی جھوٹی ربوبیت کا انکار کرے گا،تو دجال اسے قتل کرے گا، دو ٹکڑے کردے گا ،پھر دوبارہ زندہ کرکے پوچھے گا کہ بتا! تیرا رب کون ہے؟ یہ شخص کہےگا: میرا رب اللہ ہے ۔اور تو اللہ کا دشمن دجال ہے۔ اور پھر کہے گا

وَاللهِ مَا كُنْتُ قَطُّ أَشَدَّ بَصِيرَةً مِنِّي اليَوْمَ

( صحیح بخاری:1882 ،صحیح مسلم: 2938، سنن ابن ماجہ:4077 ، مسند احمد: 37/3، صحیح ابن حبان:6801)

یعنی آج میں تیرے بارے میں (تیرے اس عمل کی وجہ سے )بصیرت میں مزید بڑھ گیا ہوں۔(کہ تو وہی دجال ہے جس کے بارے میں رسول اللہ ﷺ نے خبر دی تھی)

دیکھیں جب بڑی تعداد دجال کے فتنے میں آجائے گی، دین اسلام کے صحیح فہم کی وجہ سے حاصل ہونے والا شعور اور بصیرت مومن کے لئے جہاں دیگر کئی فتنوں سے نجات کاسبب بنے گی، وہاں یہ مومن انتہائی اضر (نقصان دہ )فتنۂ دجال سے محفوظ ہو جائےگا۔

میدان مقتل اور بصیرت ِ مومن :

مومن کی بصیرت کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے، قرآن مجید میں مسلمانوں کے غلبہ کا تذکرہ کیا چناچہ:

( يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ حَرِّضِ الْمُؤْمِنِيْنَ عَلَي الْقِتَالِ ۭاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ عِشْرُوْنَ صٰبِرُوْنَ يَغْلِبُوْا مِائَـتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفًا مِّنَ الَّذِيْنَ كَفَرُوْا بِاَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَفْقَهُوْنَ   ؀ اَلْئٰنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِيْكُمْ ضَعْفًا ۭفَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ مِّائَةٌ صَابِرَةٌ يَّغْلِبُوْا مِائَتَيْنِ ۚ وَاِنْ يَّكُنْ مِّنْكُمْ اَلْفٌ يَّغْلِبُوْٓا اَلْفَيْنِ بِاِذْنِ اللّٰهِ ۭ وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰبِرِيْنَ) (انفال : 65، 66)

اے نبی(ﷺ)! مسلمانوں کو جہاد پر ابھاریئے اگر تم میں سے بیس صابر ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر ایک سو ہوں تو کافروں کے ایک ہزار آدمیوں پر غالب آئیں گے۔ کیونکہ کافر لوگ کچھ سمجھ نہیں رکھتے۔اب اللہ نے تم سے تخفیف کر دی اور اسے معلوم ہے کہ (اب) تم میں کمزوری ہے۔ لہذا اگر تم میں سے سو صبر کرنے والے ہوں تو وہ دو سو پر غالب آئیں گے اور اگر ہزار ہوں تو اللہ کے حکم سے دو ہزار پر غالب آئیں گے اور اللہ صبرکرنے والوں کے ساتھ ہے۔

اس آیت میں بڑے واضح انداز میں سو (100) مومنین کے دوسو (200)کافروں پر غالب آجانے کے اسباب میں سے ایک سب بیان کیا گیا کہ کافر سمجھ نہیں رکھتے۔ اور تمہارے پاس بصیرت موجود ہے۔یہی وجہ ہے کہ تاریخ کا سرسری مطالعہ کریں، کئی ایک جنگیں جن میں مسلمان تعداد میں کم ہونے کے باوجود فتح یاب ہوئے، مثلاً غزوہ بدر میں 313مسلمان ایک ہزار کافروں پر غالب آگئے۔اسی طرح دیگر نبی مکرمﷺ کے دور کی بلکہ خلفاء راشدین کے دور کی جنگوں میں بھی اس کا عملی نمونہ موجود ہے۔لہذا یہ بھی مومن کی بصیرت کی بڑی عظیم مثال ہے۔

حدود و قصاص کا نفاذ اہل ایمان کی عقل و شعور کی علامت :

شریعت اسلامیہ کا ایک امتیاز یہ بھی ہے گناہ اور برائیوں کی بیخ کنی اور معاشرے کی اصلاح کے لئے اسلام نے حدود و قصاص کا قانون بنایا کہ اگر کوئی کسی کو قتل کرے گا بدلے میں اسے قتل ہی کیا جائے گا۔چور کے ہاتھ کاٹے جائیں گے ۔زانی کو رجم کیا جائے گا۔ شرابی کو بھی سزا دی جائے گی۔ تہمت لگانے والے کو اسّی (80)کوڑے لگائیں جائیں گے۔اگر کسی نے کسی کا ہاتھ ،پاؤں ،ناک ، ہاتھ ،توڑا ہے تو بدلے میں اس کا بھی وہی عضو توڑا جائے گا۔قرآن مجید نے اس قصاص کا قانون متعین کیا اور ساتھ ہی اس کا فائدہ بھی بتلایا چناچہ فرمان باری تعالی ہے :

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلٰي ۭ اَلْحُــرُّ بِالْحُــرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْاُنْـثٰى بِالْاُنْـثٰى ۭ فَمَنْ عُفِيَ لَهٗ مِنْ اَخِيْهِ شَيْءٌ فَاتِّـبَاعٌۢ بِالْمَعْرُوْفِ وَاَدَاۗءٌ اِلَيْهِ بِاِحْسَانٍ ۭ ذٰلِكَ تَخْفِيْفٌ مِّنْ رَّبِّكُمْ وَرَحْمَـةٌ ۭ فَمَنِ اعْتَدٰى بَعْدَ ذٰلِكَ فَلَهٗ عَذَابٌ اَلِيْمٌ وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيٰوةٌ يّـٰٓــاُولِي الْاَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ:178,179)

اے ایمان والو! قتل کے مقدمات میں تم پرقصاص فرض کیا گیا ہے۔ اگر مقتول آزاد ہے تو اس کے بدلے آزاد ہی قتل ہوگا۔ غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت ہی قتل کی جائے گی ۔ پھر اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں ) سے کچھ معاف کردیا جائے تو معروف طریقے سے (خون بہا) کا تصفیہ ہونا چاہیے اور قاتل یہ رقم بہتر طریقے سے (مقتول کے وارثوں کو) ادا کردے۔ یہ (دیت کی ادائیگی ) تمہارے رب کی طرف سے رخصت اور اس کی رحمت ہے اس کےبعد جو شخص زیادتی کرے،اسے درد ناک عذاب ہوگا۔اور اے اہل عقل و دانش ! تمہارے لیے قصاص ہی میں زندگی ہے۔ (اور یہ قانون اس لیے فرض کیا گیا ہے) کہ تم ایسے کاموں سے پرہیز کرو۔

ان دو آیات میں قصاص کا قانون بھی نافذ کیا گیا اور اس کے فوائدبتلاتے ہوئے اہل عقل کو مخاطب کیا اور فائدے بتلائے کہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ قصاص میں زندگی ہے اور اس کے نفاذ سے مجرم، جرم کے ارتکاب سے باز رہے گا۔یعنی جب مجرم کو سزا بھی ویسی ہی ملے گی تو لوگوں پر اس طرح ظلم نہیں کرے گا اور اگر اسے قصاص کا ڈر نہ ہوا تو وہ مزید جری ہوکر لوگوں کو نقصان پہنچائے گا اور پھر رفتہ رفتہ دیکھا دیکھی خانہ جنگی کی صورت بن جائے گی ۔جیسا کہ جاہلیت کا دور تھا۔ مگر عجیب یہ ہے کہ آج کل خود کو دانشوروں میں شمار کرنے والے (حقیقتاً دانشمندی سے کوسوں دور ہیں۔)حدود و قصاص پر اعتراض کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ سزائیں انسانیت کے حقوق کے منافی ہیں ۔کتنی عجیب بات ہے جن سزاؤں کے ذریعے سے مجرم کو جرم سے روکا جاسکتا ہے اور عین انسانی حقوق کی پاسداری ہوسکتی ہے۔ انہیں انسانی حقوق کے منافی سمجھتے ہیں ۔ایسے لوگ دراصل نادانی کی گہری کھائی میں گرے معلوم ہوتے ہیں،اس لئے کہ جہاں قوانین میں نرمی ہے اور قوانین پر عمل درآمد نہیں ،وہاں جرائم کی شرح کیا ہے اور اس کے مقابلے میں جہاں اسلامی قانون نافذ ہے وہاں جرائم کی شرح کیا ہے؟اہل مشاہدہ بخوبی جانتے ہیں کہ جہاں اسلامی قانون نافذ العمل ہے ،وہاں دوسرے ممالک کی بنسبت جرائم کی شرح آٹے میں نمک کے برابر ہے ، اس حقیقت کے باوجود نادان ’’دانشمند ‘‘ اسلامی قوانین پر انگلیاں اٹھاکر کیا باور کرانا چاہتے ہیں؟؟

بہرحال حدود و قصاص کا نفاذ اہل ایمان کے شعور و بصیرت کی بڑی عمدہ مثال ہے،اور یہی بات قرآن مجید کہہ رہا ہے۔

دین کی خدمت کے لئے عقل مند اور ذہین بچےیا شخص کا انتخاب ہونا چاہئے:

عقل و حافظہ جب ایک عظیم نعمت ہے تویقیناً اس کا شکرانہ بھی ضروری ہے ۔اور شکر قول و فعل سے ہونا چاہئے۔ لہذا اس حوالے سے ہمیں شکر کے طور پر زبان سے بھی شکر ادا کرنا چاہئے اور عملاً بھی ۔عمل سے شکرکی ادائیگی اس طرح ہے کہ دینیات کو یاد کیا جائے ،یعنی قرآن و سنت کو یاد کیا جائے ۔اور اس کے علم سے حقیقی تعلق جوڑا جائے۔مگر افسوس ہمارا معاملہ اس کے برعکس ہے ،ہم اپنی اولاد میں جس بچے کو زیادہ ذہین سمجھتے ہیں، اسے ڈاکٹر ،انجینئر وغیرہ بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔اور جس بچے کے بارے میں دیکھتے ہیں کہ وہ حافظے میں کم ہے۔ اسے مدرسے کی جانب لے آیا جاتا ہے کہ یہ قرآن و سنت کا علم حاصل کرے گا۔ دیکھئے دین کے لئے ہمارے دلوں میں یہ حیثیت اور جگہ ہے۔جبکہ ہمارے اسلاف کی زندگیوں کو اگر دیکھا جائے تو انہوں نے اس علم کے حصول کے لئے دنیا کی بڑی بڑی اشیاء کی قربانیاں دی ہیں۔ اور دین کی خدمت کے لئے بھی ذہین و فطین افراد کا انتخاب کیا جاتا تھا۔یہاں صرف دو مثالیں دی جاتی ہیں۔

(1) سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو ابو طلحہ خود بچپن میں ہی نبیﷺ کے پاس لے کر آئے تھے۔چناچہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ خود بیان کرتے ہیں۔کہ جب رسول اللہ ﷺ مدینہ آئے ان کاکوئی خادم نہیں تھا ۔ابو طلحہ رضی اللہ عنہ نے مجھے ہاتھ سے پکڑا اور رسول اللہ ﷺ کے پاس لے گئے اور کہا:’’ يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَنَسًا غُلاَمٌ كَيِّسٌ فَلْيَخْدُمْكَ ‘‘

اے اللہ کے رسول ﷺ! یہ انس بڑا عقل مند ،سمجھ دار لڑکا ہے ،یہ آپ کی خدمت کرے گا۔(صحیح بخاری:2768، صحیح مسلم: 2309)

ایک روایت میں ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’ وَكُنَّ أُمَّهَاتِي يَحْثُثْنَنِي عَلَى خِدْمَتِهِ‘‘

(مسند ابی یعلی:3554)

میری مائیں مجھے نبی ﷺ کی خدمت کا شوق دلایا کرتی تھیں۔

اسی تربیت کا نتیجہ تھا کہ سیدنا انس t نے نبیﷺ کی دس سال خدمت کی، سفر و حضر میں نبی اکرمﷺ کے ساتھ ہوتے تھے۔ اور بڑی تعداد میں نبیﷺ کی روایات کو امت تک بھی پہنچایا ۔یقیناً یہ نتیجہ والدین و مربیین کی تربیت اور ان کے انتخاب کا تھا۔ذہین لڑکے کو نبیﷺ کی خدمت کے لئے پیش کیا۔

(2) دوسری مثال یہ ہے کہ نبی رحمتﷺ کی وفات کے بعد سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ خلیفہ بنے، اور جب جمع قرآن کا مسئلہ آیا، تو سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا انتخاب کیا۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نبی ﷺ کے دور میں بھی وحی لکھتے تھے۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ زید بن ثابت کی اگرچہ عمر بہت زیادہ نہیں تھی لیکن ان کی یہی خصلت کہ وہ سمجھدار تھے ،اسی خصلت کی بنیاد پر انہوں نے زید بن ثابت کا انتخاب کیا تھا، چناچہ جب سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ نے زید بن ثابت کو یہ ذمہ داری سونپنے کے لئے بلایا تھا اور یہ ذمہ داری سونپتے وقت یہی کہا تھا ’’إِنَّكَ رَجُلٌ شَابٌّ عَاقِلٌ لاَ نَتَّهِمُكَ، وَقَدْ كُنْتَ تَكْتُبُ الوَحْيَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَتَبَّعِ القُرْآنَ فَاجْمَعْهُ‘‘ (صحیح بخاری:4986)

آپ سمجھ دار نوجوان ہواور ہم آپ کو متہم بھی نہیں سمجھتے، اور آپ رسول اللہ ﷺکے لئے وحی لکھتے تھے۔ اس لئے قرآن کو تلاش کر کے جمع کرو ۔

ان دونوں مثالوں کو سامنے رکھ کے ہمیں بھی یہی انداز اختیار کرنا چاہئے کہ اپنی اولاد میں سے عمدہ کو ہی اللہ کی راہ کے لئے منتخب کریں۔تاکہ صحیح معنی میں دینی خدمت کا حق ادا ہوسکے۔لیکن اس کا قطعاً یہ معنی بھی نہیں کہ جس میںعقل کی کمی دیکھی جائے اسے سرے سے ہی اس علم سے محروم رکھا جائے۔

بہرحال ہماری اس گفتگو سے یہ واضح ہوگیا ہے کہ اسلام نے عقل و شعورکی حیثیت و اہمیت کو کس طرح سے بیان کیا ہے ،نیز انبیاء اور مومنین وصالحین دانشمند اور صاحب بصیرت کا بھی بڑے احسن انداز میں ذکر کیا گیا ہے۔اس حوالے سے اس کا یہ پہلو بھی قابل مطالعہ ہے کہ انبیاء و مومنین وصالحین کی بصیرت و فراست کے عملی مظاہرجو قرآن و سنت اور کتب سیر و تراجم میں موجود ہیں۔ اس باب کو کسی اور موقع کے حوالے کئے دیتے ہیں۔اور مومنین کے مقابلے میں مشرکین کے شعور و بصیرت کی طرف آتے ہیں۔

مشرکین نادان اور بے عقل :

قرآن مجید میں دو طرح کے عقلی دلائل ملتے ہیں۔ انفسی دلائل، یعنی اپنے نفسوں میں غور کروکہ تمہیں کس نے پیدا کیا۔اور آفاقی دلائل آسمان وزمین اور پورے عالم کی دیگر اشیاء کی طرف غور کرو کہ انہیں کس نے پیدا کیا۔دلائل عقلیہ پیش کرنے کے باوجود جو لوگ دولت توحید و اسلام سے محروم رہے اور مشرک و کفار ٹھہرے ۔اللہ تعالی نےان کی نادانی اور بے عقلی کو واضح طور بیان کیا ۔ فرمان باری تعالی:

وَمَثَلُ الَّذِينَ كَفَرُوا كَمَثَلِ الَّذِي يَنْعِقُ بِمَا لَا يَسْمَعُ إِلَّا دُعَاءً وَنِدَاءً صُمٌّ بُكْمٌ عُمْيٌ فَهُمْ لَا يَعْقِلُونَ (البقرة: 171)

کافروں کی مثال ایسی ہے کہ کوئی شخص ایسی چیز (مثلا جانو روں) کو پکارتا ہے وہ جانور اس کی پکار اور آواز کے سوا کچھ بھی سمجھ نہیں سکتے اسی طرح یہ ( کافر) بھی بہرے، گونگے اور اندھے ہیں جو کوئی بات سمجھ نہیں سکتے۔

اس آیت میں واضح طورپر ان کے عقلی نقص کی نفی کردی گئی ہے۔ایک مقام پر انہیں جانور بلکہ جانور سے بھی بدتر کہا گیا ۔فرمان باری تعالی:

وَلَقَدْ ذَرَأْنَا لِجَهَنَّمَ كَثِيرًا مِنَ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ لَهُمْ قُلُوبٌ لَا يَفْقَهُونَ بِهَا وَلَهُمْ أَعْيُنٌ لَا يُبْصِرُونَ بِهَا وَلَهُمْ آذَانٌ لَا يَسْمَعُونَ بِهَا أُولَئِكَ كَالْأَنْعَامِ بَلْ هُمْ أَضَلُّ أُولَئِكَ هُمُ الْغَافِلُونَ (الأعراف: 179)

بہت سے ایسے جنّ اور انسان ہیں جنہیں ہم نے جہنم کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔ ان کے دل تو ہیں مگر ان سے (حق کو) سمجھتے نہیں اور آنکھیں ہیں، لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور کان ہیں لیکن ان سے سنتے نہیں ۔ ایسے لوگ چوپایوں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے اور یہی لوگ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر کئی آ یات میں مشرکین و منافقین اورکفار وغیرہ کی اس کمزوری و نقص کا مختلف انداز میں ذکر ہے۔مثلاً سورۃ المائدۃ:58،103، انفال: 22، یونس :42، 100، الحج :46، الفرقان: 44، العنکبوت :63 ، الحشر: 14، الملک: 10

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے