اللہ رب العالمین نے جن باتوں کے ساتھ اس امت سے دنیا و آخرت میں رفعت و منزلت ، شان و عظمت ، سعادت اور خوش بختی کا وعدہ کیا ہے ان باتوں میں ایک اہم ترین فرض امر بالمعروف ونہی عن المنکر (نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا) ہے۔ جو ہر فرد کو اپنی استطاعت کے بقدر ادا کرنا ہے اور یہ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو اللہ رب العالمین نے امت اسلامیہ پر فرض کیا ہے لیکن عام طور پر یہ بات دیکھنے میں آتی ہے کہ دین سے لا تعلق لوگوں نے نہیںبلکہ دین سے تعلق والے بہت سے لوگ جو کہ اس فریضے کو تسلیم کرتے ہوئے نظر آتے ہیں لیکن فکری اور عملی طور پر اس کو صرف مردوں کے دائرے میں محدود کر دیتے ہیں ان کی سوچ کی تنگ نظری ہے کہ وہ اس فریضہ کو صرف مردوں کا حق اور ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

ان کے خیال کی رو سے خواتین اس فرض سے بری الذمہ ہیں۔ وہ سرعام اس کا اعلان کرتے ہیں کہ یہ ذمہ داری صرف مردوں کا حق ہے ۔ عورت کے ذمہ صرف گھر داری اور اولاد کی تربیت ہے۔ معاشرے کے بگاڑ کے لئے کئے جانے والے اقدامات میں ان کا کوئی حصہ نہیں اور اس فریضے کو نبھانے پر وہ امت مسلمہ کی ان عظیم عورتوں کو بے دین قرار دینے سے بھی نہیں رکتے۔ جو کوئی ان کی سوچ کے برعکس دکھائی دیتا ہے اس سے اعلان برات کرتے ہیںہر چیز سے بے پرواہ ہو کر اس کی عزت و آبرو کو طنزو مزاح کا سامان بناتے ہیں اس کے راستوں میں کانٹے بچھاتے ہیں غرض یہ کہ جو ان سے ہو سکتا ہے اس کام کو روکنے کے لئے وہ کرتے ہیں لیکن اللہ کے دین کا کام نہ کوئی روکنے والا کبھی پیدا ہوا ہے نہ کوئی اس کو روک سکتا ہے جو اللہ کے دین کی مدد کرتا ہے اللہ تعالیٰ کا اس کی مدد کا وعدہ ہے اور پھر اللہ تعالیٰ ایسی خواتین کو وہ ثبات عطا کرتا ہے کہ ان کے قدم سختی کے ساتھ جم جاتے ہیں اور طوفان ، آندھیاںبھی جنہیں ہلا نہیں پاتے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اے ایمان والوں اگر تم اللہ کے دین کی مدد کرو گے تو یقینا اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہارے قدم سختی سے جمادے گا۔(محمد: 7)

حقیقت بات یہ ہے کہ کسی بھی بندے کی سوچ دین نہیں بن سکتی دین صرف وہ ہے جو اللہ رب العالمین نے نازل کیا ہے ۔اس نقطہ پر مزید بحث و الجھاؤ سے بہتر ہے کہ ہم قرآن و سنت کے دلائل کی روشنی میں جائزہ لیں کہ کیا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا اہم ترین کام ہے ؟کیا مرد و عورت دونوں پر یہ فرض ہے ؟کیا عورتیں اس سے مستشنٰی ہیں؟ کیا صحابیات رضی اللہ عنھن کا اس میں کوئی کردار ہے ؟ کیا یہ ایمان کی شرائط میں سے ہے ؟

ارشاد باری تعالیٰ ہے ( ترجمہ)زمانے کی قسم ، بے شک انسان خسارے میں ہے ۔مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کئے اور ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کی اور صبر کی تاکید کی۔(سورۃ النصر)

اس سورت میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا ہے کہ تمام انسانیت خسارے سے دوچار ہے البتہ وہ خسارے سے نجات حاصل کر لیں گے جن میں درج ذیل چار صفات پائی جائیں گی۔

(۱) ایمان باللہ (۲) عمل صالح (۳) ایک دوسرے کو حق بات کی تلقین کرنا (۴) ایک دوسرے کو صبر کی تاکید کرنا۔

ان صفات میں سے تیسری صفت (تو اصو بالحق ہے) حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ اس کی تفسیر بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔ التواصی با داء الطاعات وترک المحرمات (تفسیر ابن کثیر) یعنی نیک باتوں کی ایک دوسرے کو تاکید کرنااور ممنوعہ کاموں سے باز رہنے کی تلقین کرنا۔

علامہ فخر الدین رحمہ اللہ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں اس سورت میں شدید وعید ہے اس تیسری صفت میں مکلف جس طرح خود اپنے متعلق کچھ کام کریں اسی طرح وہ دوسروں کے متعلق بھی چند فرائض سر انجا م دینے کا ذمہ دار ہے ۔ انہی فرائض میں سے انہیں دین کی نصیحت کرنا ، دعوت دینا ، نیکی کا حکم دینا، برائی سے روکنا اور ان کے لئے اسی بات کو پسند کرنا جو اپنے لئے پسند ہو شامل ہیں ۔

انسانوں میں جس طرح مرد شامل ہیں اسی طرح خواتین بھی شامل ہیں اور جس طرح خسارے سے نجات کے لئے مردوں کے لئے یہ کام ضروری ہیں اسی طرح عورتوں کے لئے بھی ان چار صفات کو اپنانا لازمی امر ہے جس میں سے تیسرا نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا شامل ہے۔ اسی کی دلیل ہم اللہ رب العالمین کے ایک اور ارشاد سے لیتے ہیں ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ

تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے نکالی گئی ہو۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو اور تم اللہ پر ایمان لاتے ہو۔(آل عمران: 110)

قاضی ابن عطیہ اندلسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس آیت کی تفسیر میں تحریر کیا ہے اللہ تعالیٰ کی جانب سے امت کے لئے مقررکردہ اس فضیلت کو وہی شخص پا سکتا ہے جو امر بالعمروف و نہی عن المنکر اور ایمان باللہ کی شروط کو پورا کرے گا۔ ایک اور جگہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

وَالْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بَعْضُهُمْ أَوْلِيَاءُ بَعْضٍ يَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَيَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ۔۔۔۔، وَعَدَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا۔۔۔۔ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ (التوبة: 71، 72)

اور مومن مرد و عورتیں ایک دوسرے کے ساتھی ہیں نیکی کا حکم دیتے ہیں برائی سے روکتے ہیں۔۔۔۔۔ اللہ تعالیٰ نے مومن مرد اور عورتوں سے جنت کا وعدہ کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔ یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مومن مرد اور عورتوں کی جن صفات کا ذکر کیا ہے ان میں سے دوسری صفت نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا ہے علاوہ ازیں یہ بھی فرمایا ان کے لئے دنیا اور آخرت میں بہترین جزا کا وعدہ ہے ۔ علامہ ابن نحاس دمشقی رحمہ اللہ رقم طراز ہیںاس کی تشریح میں کہ ’’ میں کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا (والمومنات ) فرمانا اس بات کی دلیل ہے کہ بحالت استطاعت عورتوں پر مردوں کی مانند ( امر بالمعروف ونہی عن المنکر )واجب ہے ۔امام بخاری و مسلم رحمہما اللہ اپنی کتابوں میں اس حدیث کو لے کر آتے ہیں ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل ہے نبی اکرمﷺ نے فرمایا ’’ خبردار تم میں سے ہر ایک نگہبان ہے اور ہر ایک سے اس کی رعایا کے متعلق سوال کیا جائے گا‘‘۔ امام خطابی رحمہ اللہ تفسیر میں تحریر کرتے ہیں ’’نگہبان‘‘ کا یہاںمطلب ہے جن لوگوں کا وہ سرپرست بنا ہے ان کی حفاظت کرے ان کے معاملے میں امانت دار ہو جن کی نگہداشت کی ذمہ داری اسے سونپی گئی ہو وہ انہیں نیکی کا کام چھوڑنے پر اس کا حکم دے ۔ برائی کے ارتکاب پر انہیں منع کرے۔ دیگر نگہبانوں کی طرح صاف واضح ہے کہ عورت سے بھی اس روز باز پرس ہوگی جیسے کہ حدیث میں آتا ہے ۔ وھی مسوئلۃ عنھم۔ یعنی کہ عورتوں سے ان کے زیر سرپرستی افراد کے متعلق پوچھا جائے گا ۔

ان ساری باتوں کو زیر بحث لانے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ جو تنقید کرتے ہیں وہ اس آئینہ کو بھی سامنے رکھیں اور جو عورتیں اس سے بے پرواہی برتتی ہیں ان کو معلوم ہو کہ یہ ایک حقیر ترین کام نہیں بلکہ بہت ہی بلند پایہ کاموں میں سے ہے ۔ اس کا اجر اللہ کی مدد کے ساتھ مشروط ہے۔ امر بالمعروف ونہی عن المنکر کے میدان میں خواتین کی سعی اور کوشش کی حیثیت و اہمیت بہت زیادہ ہے اور قرون اولیٰ کی مسلمان خواتین نے اس فریضہ کو اس ذمہ داری کو جانا اور پہچانا اور پھر اس فریضہ کی انجام دہی کے لئے مقدور بھر سعی و کوششیں کیں، حدیث ، سیرت، تراجم اور مختلف تاریخ کی کتابوں میں ان عورتوں کا عام لوگوں ، اقارب، معارف ، علماء و طلباء اور اہل اقتدار و اختیار کا احتساب کرنا ان کو المعروف کی تلقین کرنا اور المنکر سے ارتکاب پر ابھارنا ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں ۔ قرون اولیٰ کی مسلمان عورتوں کو اس حقیقت کا ادراک تھا کہ دین ہر مسلمان کی خیر خواہی کا نام ہے۔اور مسلمان کی بہترین خیر خواہی ، نیکی کا حکم دینا اوربرائی سے روکنا ہے۔ عام طور پر ویسے بھی کسی سے وفاداری نبھانے کااندازہ بھی جبھی ہوتا ہے جب وہ آپ کے ساتھ ظاہر و باطن میں ایک ہو ۔ آپ کا آئینہ ہو ۔وہ ہم عورتوں سے بالکل مختلف تھیںاور اس فرمان پر پوری طرح عمل پیرا تھیں (واذاقلتم فاعدلوا ولو کان ذا قربیٰ) ان کا کردار ایک تھا وہ انصاف گو عورتیں تھیں وہ انصاف کی بات کرتیں خواہ وہ عوام الناس سے ہو یا پھر اس کی زد میں رشتہ دار آجائیں ۔ کسی سے قرابت داری شناسائی ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بنتی تھی۔ خواہ وہ غلطی کرنے والا پھر ایک شخص ہو یا ایک جماعت ۔ہم انہی خواتین میں سے چند ایک کو زیر بحث لا کر یہ دیکھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تڑپ کیا تھی کس حکمت کے ساتھ انہوں نے اس فریضہ کو ادا کیا اور کس بے خوفی کے ساتھ اہل اقتدار کے سامنے بھی جم کر کھڑی ہوگئیں کیسا ایمان تھا ۔

خواتین کا عوام الناس ، اقربا کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا:

افراد کا احتساب

ام سُلِیم ْرضی اللہ عنہ :

سیدہ انس رضی اللہ عنہ کی والدہ محترمہ، ایک عظیم صحابیہ رسولﷺ۔ آپ کے شوہر کی وفات کے بعد سیدہ ابو طلحہٰ رضی اللہ عنہ ( جو کہ اس وقت اسلام نہیں لائے تھے) اپنے نکاح کا پیغام پیش کرتے ہیں۔ آپ کے بیٹے حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں جب ابو طلحہٰ رضی اللہ عنہ نے آپ رضی اللہ عنہاکو نکاح کا پیغام دیا تو آپ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا ’’میری لئے ایک مشرک کے ساتھ شادی کرنا درست نہیںاے ابو طلحہٰ کیا آپ کو اس بات کا علم نہیں کہ جن معبودوں کی تم پرستش کرتے ہو انہیں فلاں قبیلہ کے بڑھئی غلام نے چھیل کر بنایا ہے اور اگر آپ ان میں آگ لگاؤ تو جل کر راکھ ہو جائیں گے ۔ (الطبقات الکبری)

ایک روایت میں اور آتا ہے کہ انہوں نے فرمایا کیا تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم ایک لکڑی کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہو جو زمین میں اگتی ہے مزید کہا کہ اگر آپ لا الہ اللہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گواہی دے دیں تو میرے لئے آپ کا یہ قبول اسلام ہی حق مہر ہے ۔(ثابت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ام سُلِیم رضی اللہ عنہا کے حق مہر سے زیادہ باوقار حق مہر نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہے نہ سنا ہوگا۔) تاریخ شاہد ہے کس حکمت کے ساتھ انہوں نے دلائل پیش کر کے ابو طلحہٰ رضی اللہ عنہ کو قبول اسلام کی دعوت دی اور آپ کا امر بالعمروف و نہی عن المنکر کے اس فریضہ کو نبھانے کے نتیجہ میں ابو طلحہٰ رضی اللہ عنہ کا اسلام لے آنا کس قدر پر مسرت اور پر مشرف ہے۔ رضی اللہ عنہم ورضو عنہ

عمرہ رحمۃ اللہ علیہا :

ایک بڑی عبادت گزار عورت ایک رات کو بیدار ہوتی ہیں شوہر حبیب اجمی سورہے ہیں۔ شوہر کو سحری کے وقت یہ کہتے ہوئے بیدار کرتی ہیں ۔ ’’ اے بندے اٹھو ! رات بیت چکی ہے اور دن آچکا ہے آپ کو طویل سفر طے کرنا ہے اور زاد سفر تھوڑا ہے نیک لوگوں کے قافلے جاچکے ہیں اور ہم پیچھے رہ گئے ہیں۔ ‘‘اللہ اکبر کیا پاکیزہ اور عمدہ بات ہے کس قدر آخرت کی فکر ہے اور صرف اپنی نہیں اپنے سے منسوب اس اہم رشتہ کی بھی اتنی ہی فکر ہے جتنی اپنی آخرت کی ہے کیا عظیم گھر ہے جس میں یہ کہا جائے اور سنا جائے کیا عظیم عورت ہیں جو ہماری طرح آرام اور گہری نیند کا سوچنے کے بجائے اپنے شوہر کو فکرِآخرت کے لئے جگا رہی ہیں اور کس حکمت کے ساتھ ان کے شوق کو ابھار رہی ہیں۔

خواتین کا عوام الناس ، اقربا کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا:

جماعت کا احتساب

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما:

سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازاوج مطہرات رضی اللہ عنھن نے پیغام بھیجا کہ ان کا جنازہ مسجد میں سے گزارا جائے۔ تاکہ وہ ان کی نمازِ جنازہ پڑھ لیں۔ ( صحیح مسلم)

لوگوں نے اس پر تنقید کی کہ جنازے مسجد میں داخل نہیں ہوتے۔سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کو اس کا علم ہوا تو بے خوفی کے ساتھ فرمایا جس بات کا لوگوں کو علم نہیں اس پر تنقید کرنے میں اتنی جلد بازی کیوں حالانکہ یہ نبی مکرم ﷺکی سنت ہے آپﷺ نے سہیل بن بیضاء رضی اللہ عنہ کی نماز جنازہ مسجد کے اندر ادا کی تھی۔

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے ہی ایک اور روایت آتی ہے آپ کے گھر والے عشاء کے بعد بیکار بیٹھے گفتگو کررہے تھے آپ کو معلوم ہوا تو فرمایا کیا تم نامہ اعمال لکھنے والے فرشتوں کو آرام نہیں کرنے دو گے۔ یقینا آپ کی نگاہ میں امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کی روایت ہے ۔ ترجمہ: یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء سے پہلے سونے اوراس کے بعد گفتگو کو ناپسند فرماتے تھے۔

مومنات:

جنگ یرموک کے اندر رومیوں کے شدت کے حملہ کی وجہ سے بعض مسلمان میدان چھوڑ کر بھاگنے لگے تو ان مسلمان عورتوں نے ان سے کہا ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں’’ وہ ان مسلمان مردوں کو کہتیں تم کہاں جارہے ہو ہمیں عجمی کافروں کے ہاتھوں میں چھوڑ کر۔ (البدایہ والنھایہ) ان کی ڈانٹ سے مسلمان مردوں کے لئے میدان کارزار کی طرف پلٹنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا۔

قرون اولیٰ کی ان عورتوں نے اہل علم اور طلبہ کو بھی امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا حکم دیا ۔ غلطی سرزد ہونے کی صورت میں کسی کا علم و فضل ان کی راہ میں رکاوٹ نہ بن سکا بلکہ انہوں نے دلائل کے ساتھ نڈر ہو کر حق بات کہی۔

خواتین کا اہل علم و طلباء کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا:

سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما:

سیدناعبد اللہ ابن عمررضی اللہ عنہما کی رائے تھی کہ گھر والوں کے رونے کی بناء پر میت کو عذاب دیا جاتا ہے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کو اس بات کا علم ہوا آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا۔ ’’ اللہ تعالیٰ ابو عبد الرحمن رضی اللہ عنہ پر رحم فرمائے انہوں نے ایک چیز کو سنا اور اس کو یاد نہیں رکھا (حقیقت یہ ہے کہ)نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک یہودی عورت کے جنازے کے پاس سے گزر ہوا اس کے احباب وا قارب اس پر رو رہے تھے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تو اس پر رو رہے ہو اور اس کو یقینا عذاب دیا جارہا ہے۔ (یعنی کے تمہارا رونا بے اثر ہے وہ اسلام سے منکر ہو کر مری ہے اس پر عذاب ہو رہا ہے تمہارا رونا کسی کام کا نہیں) اس میں آپ رضی اللہ عنہما نے عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی عزت و تکریم کی یعنی کہ انہیں کنیت سے پکارا عرب میں یہ عزت و تکریم کا ایک خاص طریقہ ہے ۔ پھر آپ رضی اللہ عنہما نے یہ فرمایا کہ ان سے بھول ہوگئی یعنی کہ آپ نے انہیں جھوٹا نہیں کہا ان پر الزم تراشی نہیں کی بلکہ اچھا گمان رکھ کر دلیل کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات آگے رکھ دی۔ کیا بہترین انداز ہے ایک اہل علم فقیہہ صحابیہ رضی اللہ عنہما کا بہترین اخلاق و حکمت کے ساتھ احتساب کیا۔

خواتین کا اہل اقتدار کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا:

سیدہ اسما بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما:

اہل اقتدار کے سامنے حق بات کو بغیر کسی خوف وہراس کے بیان کرنا وہ بھی ایک عورت کا انتہائی قابل تحسین ہے اور ایمان کے اعلیٰ مقام کی دلیل ہے ۔

حجاج بن یوسف تقفی نے عبد اللہ ابن زبیر رضی اللہ عنہما کو شہید کرنے کے بعد ان کی والدہ کے پاس آکر ان پر الزامات لگانے شروع کر دئیے کہنے لگا تیرے بیٹے نے حرم میں الحاد کیا اسی باعث میں نے اسے قتل کر دیا یہ اللہ کی طرف سے اسے درد ناک عذاب چکھا یا گیا ہے آپ رضی اللہ عنہما نے فرمایا تو جھوٹ بکتا ہے ، تو نے بلا شک اس کو اس حالت میں شہید کیا کہ وہ بہت زیادہ روزے رکھنے والا، بہت زیادہ قیام کرنا کرنے والا ، والدین کے ساتھ نیکی کرنے والا، دین کی حفاظت کرنے والا ۔ تونے اس کی دنیا کو برباد کرکر اپنی آخرت برباد کی ہے اور بلا شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا تھا کہ ثقیف قبیلہ سے دو بڑے جھوٹے نمودار ہونگے ان میں سے دوسرا پہلے سے بد تر ہوگا اور وہ بہت تباہی کرنے والا ہوگا اور اے حجاج وہ دوسرا شخص تو ہی ہے ۔ کس قدر جرات اور بے باکی سے الزامات کی تردید کرتے ہوئے حجاج کو اس کا آئینہ دکھایا۔

خلاصہ کلام:

محبت کا اعلیٰ درجہ کا تقاضہ یہ ہے کہ محبوب جو کہے اس کو سر تسلیم کیا جائے ان پاکیزہ عورتوں نے اس تقاضہ کو بھی پوری طرح ادا کیا جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ آج میرے اور آپ کے پاس یہ علم صحیح سند کے ساتھ آج بھی زندہ ہے۔ اس میں خواتین کا بہت اہم کردار ہے۔ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے لے کر بعد میں آنے والی نسلوں تک ایک لمبی قطار ہے ان مومنات کی جنہوں نے اپنی جان و مال کے ساتھ اللہ کے دین کی مدد کی ۔ اس کے برعکس آج کی مغربی تہذیب سے متاثر عورت نے اپنی زبان صرف اس وقت استعمال کی جب مغرب نے اسے اپنے بنائے ہوئے فریبوں میں الجھایا حقوق نسواں کی آزادی کو ایک بڑا پروپیگنڈہ بنا کر پیش کیا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فساد ہوا بے حیائی کا چلن ہوا ، خواتین کی عصمتیں لٹ گئیں ۔ آخر میں التجا ہے مومن عورتوں سے کہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے فریضہ کی اہمیت کو سمجھیں شاید کہ پھر امت اسلامیہ آسمان کی بلندیوں پر پرواز کرے اور مسلمان مردوں سے پرزور تاکید ہے کہ امت اسلامیہ کی بلند ی میں مومن عورتوں کی اہمیت و فرضیت کو سمجھیں اس سلسلہ میں ان کی حوصلہ افزائی کریں ۔اللہ رب العالمین نے جہاں مجھے اور آپ کو بحیثیت عورت اپنی زبان کا صحیح استعمال سکھایا ہے اس میں ہمیں آزادی ہے کہ شرعی حدود کے اندر رہ کر اس زبان کو استعمال کیا جائے ۔ اس سے نیکی کا حکم دیا جائے اور برائی سے روکا جائے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے جو کوئی برائی کودیکھے وہ اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے اگر ( ہاتھ سے بدلنے کی ) استطاعت نہ ہو اپنی زبان سے اور اگر اس کی بھی طاقت نہ ہو تو اپنے دل سے اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔ (صحیح مسلم) مسلمان خواتین کا احتساب دین کے کسی ایک شعبہ کے ساتھ مخصوص نہیں ہوتا بلکہ وہ جہاں بھی شریعت اسلامیہ کی مخالفت کو دیکھتی ہیں اس پر اپنی بساط کے مطابق احتساب کرتی ہیں۔ لیکن یہ فریضہ میں اور آپ جب ہی ادا کر سکتے ہیں جب ہم خود اسلام کے عملی پیکر ہوںجس قدر عمل میں پختہ ہوں گے اس قدر احتساب کرنا آسان ہوگا۔ اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ اللہ رب العالمین ہم سے صحیح معنوں میں دین اسلام کا بہترین کام لے لے اور ہمیں وہ نور کا مینارہ بنا دے جس سے عالم اسلام روشن ہوگا اور ہمیں ہر ایک سے بے پرواہ ہو کر اپنی محبت میں دین اسلام کی محبت میں شدیدکردے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:اور ایمان والے تو اللہ کی محبت میں شدید ہوتے ہیں۔ (البقرة: 165)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے