پہلی بات :

قارئین کرام! دین اسلام کے عقائد ونظریات ہوں یا معاملات اخلاقیات ان سب کی بنیاد اور اساس وحی الٰہی کے علم پر ہے دین اسلام کے متبعین کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ ان کی زندگی اور فکر کا سرچشمہ زمانے کے ساتھ تغیر پذیر ہونے والے انسانی اجتہادات وتجربات اور غیر قطعی نظریات کے بجائے خالص وحی الٰہی ہے۔ آیاتِ قرآنیہ ، احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ و سلم ، آثار سلف اور علم کی فضیلت میں اہل علم کا کلام شمار سے باہر ہے پہلے اور پچھلے علماء نے علم، اہل علم کی فضیلت اور لوگوں کی اس طرح ضرورت واحتیاج کا اہتمام کیا ہے علماء کی اکثریت نے اس بارے میں تصانیف لکھی ہیں بعض علماء نے اپنی تصنیفات میں علم پر خاص مباحث لکھ کر روشنی ڈالی ہے جنہوں نے علم اور اہل علم کے متعلق لکھا ہے وہ اصحاب سنن ہیں کہ انہوں نے اپنی کتابوں میں علم کے لیے مستقل کتاب اور ابواب قائم کیے ہیں ۔ علم کے موضوع پر مستقل تصنیف امام ابن عبد البر رحمہ اللہ کی ہے ، جس کا نام ’’ جامع بیان العلم وفضلہ ‘‘ ہے ، اسی طرح خطیب بغدادی کی ’’الفقیہ والمتفقہ‘‘ اور’’ الجامع لآداب الراوی وأخلاق السامع ‘‘ ہے۔ امام ابن جماعہ کی ’’تذکرۃ السامع والمتکلم‘‘ ہے اور معاصرین میں شیخ بکر ابو زید کی ’’ حلیۃ طالب العلم ‘‘ ہے۔ (صحیح فضائل اعمال ، صفحہ نمبر : 340 مترجم سعید الرحمن ہزاروی)

علم دین سے متعلق احکامات ربانیہ اور ہدایات نبویہ کا بیش بہا خزانہ باری تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے قرآن عظیم اور حدیث شریف میں متعدد مقامات پر اہل اسلام کو اصول علم کی طرف رغبت دلائی گئی ہے۔ قرآن وحدیث میں علم دین کے فضائل وبرکات بکثرت موجود ہیں جن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں ۔

فضیلت علم قرآن کی روشنی میں:

mاسلام کی سب سے پہلی تعلیم اور قرآن کی سب سے پہلی آیت جو اللہ نے اپنے نبی پر نازل فرمائی وہ اسی تعلیم سے متعلق تھی اللہ تعالی فرماتا ہے:

اِقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ، خَلَقَ الْإِنْسَانَ مِنْ عَلَقٍ، اقْرَأْ وَرَبُّكَ الْأَكْرَمُ، الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ، عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمْ (العلق: 1 – 5)

پڑھ اپنے رب کے نام سے جس نے پیدا کیا، جس نے انسان کو خون کے لوتھڑے سے پیدا کیا ،تو پڑھتا رہ تیرا رب بڑ اکرم والاہے جس نے قلم کے ذریعے (علم) سکھایا جس نے انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا۔

m جب سیدناابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے کعبہ بنا یا اور وہاں چند لوگ آباد ہوگئے تو دعا فرمائی تھی

رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (البقرة: 129)

اے ہمار ے رب!ان میں انہیں میں سے رسول بھیج جو ان کے پاس تیری آیتیں پڑھے ، انہیں کتاب وحکمت سکھائے اور انہیں پاک کرے ،یقینا تو غلبہ والااورحکمت والاہے۔

m نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم ۖکی بعثت کا مقصد تعلیم وتربیت ہے ارشاد باری تعالی ہے :

هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ

وہی ہے جس نے نا خواندہ لوگوں میں ان ہی میں سے ایک رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیتیں پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے ، یقینا یہ اس سے پہلے کھلی گمراہی میں تھے۔ (الجمعة: 2)

m علماء تقوی شعار ہیں ، باری تعالیٰ کا فرمان ہے :

إِنَّمَا یَخْشَی اللهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمَاءُ

بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے اس سے ڈرتے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں ۔(فاطر:28)

m اہل علم دیگر لوگوں پر سبقت اور فوقیت رکھتے ہیں فرمان باری تعالیٰ ہے :

قُلْ هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ (الزمر:9)

آپ ان سے پوچھئے: کیا جاننے والے اور نہ جاننے والے دونوں برابر ہوسکتے ہیں؟

m اہل علم شکر گزار ہوتے ہیں جیسا کہ رب العزت نے سیدنا داؤد علیہ السلام اور سیدنا سلیمان علیہ السلام کا تذکرہ فرماتے ہوئے کہا :

وَلَقَدْ اٰتَیْنَا دَاوٗدَ وَسُلَیْمٰنَ عِلْمًا ۚ وَقَالَا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِیْ فَضَّلَنَا عَلٰی کَثِیْرٍ مِّنْ عِبَادِهِ الْمُؤْمِنِیْنَ (النمل:15)

نیز ہم نے داؤد اور سلیمان کو علم عطا کیا وہ دونوں (ازراہ تشکر)کہنے لگے ہر طرح کی تعریف اس اللہ کو سزاوار ہے جس نے ہمیں اپنے بہت سے مومن بندوں پر فضیلت عطا کی۔

m اہل علم بلند درجات کے مستحق ہیں ان کی اس خوبی کا تذکرہ رب تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتا ہے کہ

یَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ ۙ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلۃ:11)

تم میں سے جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہیں علم دیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجے بلند کرے گا۔

m کسی بھی شخص کے پاس علم کی موجودگی کا مطلب یہ ہے کہ باری تعالیٰ اس پر فضل فرما رہا ہے جیسا کہ باری تعالیٰ کا فرمان ہے :

وَاَنْزَلَ اللّٰهُ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَةَ وَعَلَّمَکَ مَا لَمْ تَکُنْ تَعْلَمُ ۭ وَکَانَ فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْکَ عَظِیْمًا

اللہ نے آپ پر کتاب و حکمت نازل کی ہے اور آپ کو وہ کچھ سکھلا دیا جو آپ نہیں جانتے تھے، یہ آپ پر اللہ کا بہت ہی بڑا فضل ہے۔(النساء : ۱۱۳)

m اہل علم توحید الٰہی کے شاہد ہیں کیونکہ توحید باری تعالیٰ کی اساس اور بنیاد علم پر ہے باری تعالیٰ کا فرمان ہے

شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗیِٕکَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗیِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ (آل عمران : ۱۸)

اللہ نے خود بھی اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی راستی اور انصاف کے ساتھ یہی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ۔ وہی زبردست ہے، حکمت والا ہے۔

اس آیت کریمہ میں غور کرنے سے ہمیں اہل علم کے متعدد فضائل معلوم ہوتے ہیں ۔

۱۔ اہل علم کی شہادت باری تعالیٰ کی شہادت سے متصل ہے ۔

۲۔ اہل علم کی شہادت کو فرشتوں کی شہادت کے ساتھ ذکر کیا ہے ۔

۳۔ اہل علم عدل وانصاف کے علمبردار ہوتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ عادل اشخاص کو ہی گواہ بناتاہے ۔ ( مفتاح دار السعادۃ لابن قیم )

m باری تعالیٰ نے خود اپنے پیغمبر کو علم میں اضافہ کی دعا سکھلائی اور فرمایا :

وَقُلْ رَبِّ زِدْنِی عِلْمًا

اے میرے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر۔(طٰہ : ۱۱۴)

اہل علم احکامات الٰہیہ اور انعامات ربانیہ کے بارے میں دیگر لوگوں سے زیادہ علم رکھتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے

وَقَالَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ وَیْلَکُمْ ثَوَابُ اللّٰهِ خَیْرٌ لِّمَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ۚ وَلَا یُلَقّٰهَآ اِلَّا الصّٰبِرُوْنَ

مگر جن لوگوں کو علم دیا گیا تھا وہ کہنے لگے: جو شخص ایمان لائے اور نیک عمل کرے تو اس کے لئے اللہ کے ہاں جو ثواب ہے وہ (اس سے) بہتر ہے۔ اور وہ ثواب صبر کرنے والوں کو ہی ملے گا۔(القصص : ۸۰)

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلم اور فضیلت علم

رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے متعدد دفعہ علم کی فضیلت سے امت محمدیہ کو آگاہ کیا ان میں سے چند ایک ارشادات نبویہ درج ذیل ہیں :

m علم سے امامت ملتی ہے :

عن ابن شهاب عن عامر بن واثلة أبي الطفيل أن نافع بن عبد الحارث لقي عمر بن الخطاب بعسفان وكان عمر استعمله على مكة فقال عمر من استخلفت على أهل الوادي قال استخلفت عليهم ابن أبزى قال ومن ابن أبزى قال رجل من موالينا قال عمر فاستخلفت عليهم مولى قال إنه قارئ لكتاب الله تعالى عالم بالفرائض قاض قال عمر أما إن نبيكم صلى الله عليه و سلم قال إن الله يرفع بھذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين،
(ابن ماجہ، الصحيحة 2239 : تخريج المختارة 230 )

ابن ماجہ کی ایک روایت میں ہے کہ نافع بن عبد الحارث جو کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں مکہ کے گورنر تھے ، عمر رضی اللہ عنہ جب مکہ آرہے تھے تو نافع بن عبد الحارث عمر رضی اللہ عنہ کا استقبال کرنے کے لئے مکہ سے مدینہ کے راستے میں مقام عسفان گئے ، عمر رضی اللہ نے پوچھا اپنا خلیفہ کس شخص کو بنا کر آئے ہو ، نافع نے جواب دیا ابن ابزی کو ، عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا یہ ابن ابزی کون ہے ؟ نافع نے جواب دیا : وہ ایک غلام آدمی ہے ، عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کیا ایک غلام کوتم نے اپنا خلیفہ بنایا ہے ؟! نافع نے جواب دیا : کہ وہ اللہ کی کتا ب کا عالم اور حافظ اور میراث کا علم جانتا ہے ، تو عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کہ تمہارے نبی کریم ۖ نے فرمایاہے :

إِنَّ اللهَ يَرْفَعُ بِهَذَا الْكِتَابِ أَقْوَامًا، وَيَضَعُ بِهِ آخَرِينَ (صحيح مسلم (1/ 559)

m انبیاء کے وارث :

علم وحی انبیاء کی میراث ہے اور اس کے حاملین انبیاء کے ورثاء ہیں ۔ رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم  کا ارشاد ہے :

إِنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأَنْبِیَاءِ، إِنَّ الْأَنْبِیَاءَ لَمْ یُوَرِّثُوا دِینَارًا وَلَا دِرْهَمًا، إِنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بِحَظٍّ وَافِرٍ(سنن ابن ماجہ : 223)

بیشک علماء انبیاء کے وارث ہیں انبیاء درہم ودینار کی وراثت چھوڑ کر نہیں جاتے بلکہ وہ علم کا وارث بنا کر جاتے ہیں جس نے اسے حاصل کر لیا اس نے وافر حصہ حاصل کرلیا۔

m جنت کا راستہ :

عن أبی هریرة رضی الله عنه أن الرسول قال: مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الجَنَّةِ (صحیح مسلم : 2699)

سیدنا ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم سے بیان فرماتے ہیں ‘‘ جو ایسے راستے پر چلا جس میں وہ علم تلاش کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے جنت کا راستہ آسان کر دیتا ہے۔

m اللہ کے راستے کا راہی :

حصول علم میں مشغول خوش قسمت افراد اللہ کے راستے کے راہی ہیں جیسا رسول معظم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا :

مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ العِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللهِ حَتَّى يَرْجِعَ (سنن الترمذي (4/ 325)

جو آدمی علم کی جستجو کے لیے اپنے گھر سے نکلتا ہے تو واپس پلٹنے تک اللہ کے راستےمیں ہوتاہے۔

أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا هُرَيْرَةَ يَقُولُ إِنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: مَنْ دَخَلَ مَسْجِدَنَا هَذَا لِيَتَعَلَّمَ خَيْرًا أَوْ يعلِّمه كَانَ كَالْمُجَاهِدِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ

(رواه أحمد بسند صحيح. (13 ) أخرجه أحمد (2/350، رقم 8587)، وابن حبان (1/287، رقم 87)، والحاكم في المستدرك (1/169، رقم 310)، وحسنه الشيخ الألباني في صحيح ابن حبان (1/287).

سیدنا ابوہریرہ tسے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جو شخص ہماری اس مسجد میں خیر سیکھنے سکھانے کے لئے داخل ہو وہ مجاہد فی سبیل اللہ کی طرح ہے۔

m طالب علم کے لیے عظیم خوشخبری :

حدیث کو یاد رکھنے اور اسے آگے پہنچانے والے خوش نصیب افراد کے لیے رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے دعا دیتے ہوئے ارشاد فرمایا :

نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا حَدِیثًا، فَحَفِظَهُ حَتَّی یُبَلِّغَهُ، فَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ إِلَی مَنْ هُوَ أَفْقَهُ مِنْهُ، وَرُبَّ حَامِلِ فِقْهٍ لَیْسَ بِفَقِیهٍ (سنن ابی داؤد : 3660)

اللہ تعالیٰ اس شخص کو تروتازہ رکھیں جس نے ہم سے کوئی حدیث سنی اور اسے یاد کر لیا حتی کہ دوسرے تک پہنچادیا بسا اوقات حامل فقہ اسے سکھاتا ہے جو اس سے بھی زیادہ فقیہ ہوتاہے اور کئی حاملین فقہ خود فقیہ نہیں ہوتے۔

m بے پناہ اجر :

مَنْ دَعَا إِلَی هُدًی، کَانَ لَهُ مِنَ الْأَجْرِ مِثْلُ أُجُورِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ أُجُورِهِمْ شَیْئًا، وَمَنْ دَعَا إِلَی ضَلَالَةٍ، کَانَ عَلَیْهِ مِنَ الْإِثْمِ مِثْلُ آثَامِ مَنْ تَبِعَهُ، لَا یَنْقُصُ ذَلِکَ مِنْ آثَامِهِمْ شَیْئًا ( صحیح مسلم : 2674)

جس نے ہدایت کی طرف دعوت دی اس کے لیے بھی ہدایت کی پیروی کرنے والوں کے اجر کے مثل اجر ہے یہ چیز ان کے اجر وثواب میں کمی واقع نہیں کرے گی اور جس نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس کے لیے بھی اتنا ہی گناہ ہے جتنا کہ اس کی پیروی کرنے والوں کے لیے ہے یہ چیز ان کے گناہوں میں کمی نہیں کر ےگی۔

مَنْ غَدَا إِلَى الْمَسْجِدِ لَا يُرِيدُ إِلَّا أَنْ يَتَعَلَّمَ خَيْرًا أَوْ يَعْلَمَهُ، كَانَ لَهُ كَأَجْرِ حَاجٍّ تَامًّا حِجَّتُهُ (12). 12 ) أخرجه الطبراني (8/94، رقم 7473) صححه الشيخ الألباني في صحيح الترغيب والترهيب (1/20)
عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: ” لاَ حَسَدَ إِلَّا فِي اثْنَتَيْنِ: رَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ مَالًا، فَسَلَّطَهُ عَلَى هَلَكَتِهِ فِي الحَقِّ، وَرَجُلٍ آتَاهُ اللَّهُ حِكْمَةً، فَهُوَ يَقْضِي بِهَا وَيُعَلِّمُهَا (بخاري (2/ 108)، مسلم (1/ 559)

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ حسد صرف دو چیزوں پر جائز ہے ایک وہ شخص جس کو اللہ تعالیٰ نے مال دیا اور اس کو راہ حق پر خرچ کرنے کی قدرت دی اور دوسرا وہ شخص جسے اللہ تعالیٰ نے حکمت (علم) دی اور وہ اس کے ذریعہ فیصلہ کرتا ہے اور اس کی تعلیم دیتا ہے۔

m صدقۂ جاریہ :

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَنْهُ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: إِلَّا مِنْ صَدَقَةٍ جَارِیَةٍ، أَوْ عِلْمٍ یُنْتَفَعُ بِهِ، أَوْ وَلَدٍ صَالِحٍ یَدْعُو لَهُ “(صحیح مسلم : 1631)

سیدنا ابو ہریرہ t سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : جب انسان فوت ہوجاتاہے اس کے اعمال منقطع ہوجاتے ہوئے بجز تین چیزوں کے صدقہ جاریہ ، نفع بخش علم اور صالح اولاد کی دعائیں ۔

عَنْ أَبِی هُرَیْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَکَهُ، وَمُصْحَفًا وَرَّثَهُ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ، أَوْ بَیْتًا لِابْنِ السَّبِیلِ بَنَاهُ، أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ، أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِی صِحَّتِهِ وَحَیَاتِهِ، یَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ

سیدناابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا مومن کے مرنے کے بعد بھی جن اعمال اور نیکیوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ان میں سے چند اعمال یہ ہیں علم جو لوگوں کو سکھا کر پھیلایا (اس میں تدریس، وعظ، تصنیف وافتاء وغیرہ سب داخل ہیں) اور جو صالح اولاد چھوڑی اور قرآن کریم (مصحف) جو میراث میں چھوڑا یا کوئی مسجد بنائی یا مسافر خانہ بنایا یا کوئی نہر جاری کی یا جیتے جاگتے صحت وتندرستی میں اپنی کمائی سے کچھ صدقہ کر دیا ان سب کا اجر اسے مرنے کے بعد ملتا رہے گا۔(رواہ ابن ماجہ وحسنہ الالبانی )

علم اسلاف کی نظر میں :

علم دین کی اہمیت سے متعلق اسلاف سے منقول ارشادات کو بیان کرنے کے لیے کئی ایک دفاتر بھی ناکافی ہیں چند ایک اہل علم کے اقوال زریں پیش خدمت ہیں :

m قال عمر بن الخطّاب t: تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ وَعَلِّمُوهُ النَّاسَ (جامع بیان العلم وفضله (1/ 135)

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے ارشاد فرمایا کہ علم حاصل کرو اور پھر لوگوں کو اس سے روشناس کرواؤ۔

m سیدنا عبد اللہ بن مسعود نے ارشاد فرمایا :

کن عالماً أو متعلماً ولا تکن الثالثة فتهلک

استاد اور طالب علم بن کر رہو تیسرے نہ بنو ہلاک ہو جاؤگے۔

m سیدنا ابن مسعود کا ہی ارشاد ہے

یا أیّها النّاس تعلّموا، فمن علم فلیعمل کتاب العلم لأبی خیثمة زهیر بن حرب

اے لوگو! علم حاصل کرو پس جو شخص علم حاصل کر لینا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے علم پر عمل بھی کرے ۔

وَقَالَ ابْنُ عَوْنٍ: ثَلاَثٌ أُحِبُّهُنَّ لِنَفْسِی وَلِإِخْوَانِی: هَذِهِ السُّنَّةُ أَنْ یَتَعَلَّمُوهَا وَیَسْأَلُوا عَنْهَا، وَالقُرْآنُ أَنْ یَتَفَهَّمُوهُ وَیَسْأَلُوا عَنْهُ، وَیَدَعُوا النَّاسَ إِلَّا مِنْ خَیْرٍ (صحیح البخاری کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ )

سیدنا عبد اللہ بن عون کا فرمان ہے :

کہ تین باتیں ایسی ہیں جنہیں میں اپنے اور اپنے بھائیوں کے لئے پسند کرتا ہوں اس سنت کو سیکھیں اور اس کے متعلق پوچھیں اور قرآن کو سمجھیں اور اس کے متعلق لوگوں سے دریافت کریں اور لوگوں سے بجز نیک کام کے ملنا چھوڑ دیں۔

m امام اہل السنۃ والجماعۃ امام احمد بن حنبل علم کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

النّاس إلی العلم أحوج منهم إلی الطّعام والشّراب. لأنّ الرّجل یحتاج إلی الطّعام والشّراب فی الیوم مرّة أو مرّتین، وحاجته إلی العلم بعدد أنفاسه

لوگوں کے لیے علم(علم شریعت) کھانے پینے سے زیادہ ضروری ہے کیونکہ کھانے پینے کی حاجت تو دن میں ایک یا دو دفعہ ہوتی ہے مگر علم کی ضرورت تو ہرسانس کے ساتھ ہوتی ہے۔ (مدارج السالکین (2/ 470)

هِلَال ا بْنُ خَبَّابٍ، قَالَ: سَأَلْتُ سَعِیدَ بْنَ جُبَیْرٍ قُلْتُ: یَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا عَلَامَةُ هَلَاکِ النَّاسِ؟ قَالَ: إِذَا هَلَکَ عُلَمَاؤُهُمْ

ہلال بن خباب بیان کرتے ہیں میں نے سعید بن جبیر سے دریافت کیا اے ابو عبداللہ لوگوں کے ہلاک ہونے کی نشانی کیا ہے انہوں نے جواب دیا جب ان کے علماء ہلاک ہوجائیں۔ (سنن الدارمی (1/ 309)

دینی مدارس کی اہمیت وخصوصیت :

قارئین کرام درج بالا سطور میں آپ نے علوم اسلامیہ کے فضائل و برکات ملاحظہ کی ہیں اب ہم اپنے موضوع کے دوسرے حصہ پر روشنی ڈالتے ہیں اس حصہ میں ہم مدارس اسلامیہ کے کردار اور ان کی خدمات سے مختصرا بحث کریں  گے یاد رہے کہ معاشرے میں اسلامی اقدار اور روایات کو زندہ رکھنے میں ان مدارس کا تابندہ کردار ہے۔

اگر دین اور اس کے شرعی نظام کی ضرورت ہے تو مذہب کے محافظین و حاملین اور شریعت کے ترجمانوں اور شارحین کی ضرورت رہے گی ایسے میں ان مراکز اور اداروں کی بقاء انتہائی ضروری ہے جو کہ ایسے اشخاص پیدا کر سکیں جن کے ذریعے معاشرے میں نظام اسلامی کا نفاذ ہو سکے۔

دشمنان اسلام اسلامی معاشرہ کو خالص اس کی اپنی راہ سے دو رکرنے اور مغربی سوچ کا خوگر بنانے کے لئے دُنیا پرستوں نے مدارس کو مٹاکر اسکول قائم کئے اور اسکولوں کے ذریعہ اپنے غلام بنائے، جو بقول لارڈمیکالے کے:

”خون اور رنگ کے اعتبار سے تو ہندوستانی ہوں، مگر مذاق، رائے، الفاظ اور سمجھ کے اعتبار سے انگریز ہوں۔“(نقشِ حیات ج:۱ ص:۱۸۶)

اس لئے مسلم قوم کو بیدار ہونے کی ضرورت ہے۔وہ اس طرح ادارے قائم کریں کہ بچے کی دینی تعلیم کی ضروریات پوری ہوسکیں۔ آج پاکستان میں مسلمانوں کا وجود اور اسلامیات کی بقا انہی دینی اداروںکی مرہون منت ہے۔ تاریخ شاہد ہے کہ جب ہندوستان میں  حکومت مغلیہ کا خاتمہ ہوا اور مسلمانوں کا سیاسی قلعہ ان کے ہاتھ سے نکل گیا تو بالغ نظر اور صاحب فراست علماء کرام نے جا بجا شریعت اسلامیہ اور تہذیب اسلام کے قلعے تعمیر کر دیئے انہی قلعوں کا نام عربی مدارس ہے اور آج اسلامی شریعت انہی قلعوں میں پروان چڑھ رہی ہے اسلامی تہذیب و ثقافت کی قوت و استحکام انہی قلعوں پر موقوف ہے۔ اسپین سے دین اس لئے رخصت ہوگیا کہ وہاں مدارس اسلامیہ قائم نہیں ہوسکے۔ اس بات کو اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ نظام شرعی کی حفاظت اور اس کے لیے ایثار قربانی صرف وہی طبقہ کر سکتا ہے جس کی ذہنی و عملی تربیت اس کے موافق ہوئی ہو جس کے رگ و پہ میں اس نظام کی محبت و احترام پیوست ہو گیا ہو اور جس کے قلوب و اذہان اس نظام کی حقانیت پہ آمنّا و صدقنا کہتے ہوں۔

اب مدارس اسلامیہ کی سر گرمیوں اور خصوصیات کا اجمالی خاکہ پیش خدمت ہے یاد رہے کہ یہ خصوصیات تحقیقی ماہنامہ محدث سے حق و اضافہ کے ساتھ نقل کی جارہی ہیں۔

شرعی رہنمائی

پاکستان میں روزمرہ پیش آنے والے تمام مسائل میں شریعت کی رہنمائی کے لئے عوام الناس دینی مدارس کے فیض یافتگان کی طرف رخ کرتے ہیں- کسی بڑے سے بڑے دانشور یا اسلامیات کے ماہر کو پاکستان کا معاشرہ یہ مقام دینے کے لئے تیار نہیں کہ وہ ان کے مسائل میں اُنہیں فتویٰ دے سکے-

چنانچہ طلاق و رضاعت کا کوئی مسئلہ یا وراثت کی کوئی تقسیم، ایسے ہی عبادات ومعاملات میں کوئی سوال پیش آئے تو اس کا حل صرف مدارس کے علما سے ہی کروایا جاتا ہے-

سماجی کردار

ہر معاشرہ میں کچھ ضروریات ہوتی ہیںعوام کی ان ضروریات کی تکمیل بھی صرف علماء دین ہی کرتے ہیں- ان معاشرتی ضروریات میں نکاح، جنازہ، ولادت جیسے کئی امور شامل ہیں-

مساجد میں خدمات

مسجد کسی بھی معاشرتی یونٹ کی ایک اکائی ہے دورِ نبوی میں مسجد عبادات کے علاوہ عدل وانصاف، ضیافت ومہمان نوازی، مرکز ِتعلیم، مرکز حکومت اور مشاورت و کمیونٹی سنٹر کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہے اکستان کی مساجد یعنی اسلامی کمیونٹی سنٹرز 100 فیصد مدارس کے فیض یافتہ علما کے پاس ہیں- ان مدارس میں خطباتِ جمعہ کے ذریعے مدارس کے علما کو اپنے خیالات عوام تک پہنچانے کے وسیع مواقع میسر آتے ہیں-ان مساجد میں امامت کے فرائض بھی یہی مدارس کے فاضلین انجام دیتے ہیں- یاد رہے کہ پاکستان میں خطبہ جمعہ 99 فیصد مدارس کے علما ہی دیتے ہیں-

جماعتی خدمات

پاکستان دینی مدارس کے فاضلین سینکڑوں کی تعداد میں دینی جرائد شائع کرتے ہیں- مدارس کے علاوہ دیگر ذرائع سے شائع ہونے والے دینی جرائد کی تعداد 10 فیصدسے زیادہ نہیں-

خصوصی مضامین کی تدریس

پاکستان کے ان دینی مدارس میں کئی علوم ایسے ہیں، جو صرف یہاں ہی پڑھائے جاتے ہیں، اور اگر مدارس یہ خدمات ختم کردیں تو ملک میں اِن علوم وفنون کا وجود ہی ناپید ہوجائے- ایسے علوم میں حفظ ِقرآن کے جملہ مدارس کے علاوہ تجوید وقراء ت کا علم شامل ہے-

مدارس کا کردار اسی حد تک ہے کہ اُنہوں نے ہماری روایات کو تحفظ عطا کررکھا ہے، اور ہماری دینی ضروریات میں انہوں نے تعطل نہیں آنے ‏دیا،اس میدان میں ہم ‏مدارس کے احسان مند ہیں- اگر حکومتی، تعلیمی، ابلاغی ، عوامی، انسانی اور مالی سطح پر ان کا جائز مقام اور وسائل اُنہیں ‏دیے جائیں تو یہ مدارس روایات کے ‏تحفظ سے آگے بڑھ کر نئے زمانے کے چیلنج کا سامنا بھی کرسکتے ہیں- نباض ملت علامہ اقبال رحمہ اللہ نے ‏مدارس پر اعتراض کرنے والوں سے برملا کہا تھا:‏

ان مکتبوں کو اسی حالت میں رہنے دو، غریب مسلمانوں کے بچوں کو انہی مدارس میں پڑھنے دو، اگر یہ ملا اور درویش نہ رہے تو جانتے ہو، کیا ‏ہوگا؟ جو کچھ ہوگا ‏، میں اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ آیا ہوں- اگر ہندوستانی مسلمان ان مدرسوں کے اثر سے محروم ہوگئے تو بالکل اسی طرح ‏ہوگا جس طرح اَندلس میں ‏مسلمانوں کی آٹھ سو برس کی حکومت کے باوجود آج غرناطہ اورقرطبہ کے کھنڈرات اور الحمرا کے نشانات کے سوا ‏اسلام کے پیروؤں اور اسلامی تہذیب ‏کے آثار کا کوئی نقش نہیں ملتا- ہندوستان میں بھی آگرہ کے تاج محل اور دِلی کے لال قلعے کے سوا ‏مسلمانوں کی آٹھ سو سالہ حکومت او ران کی تہذیب کا ‏کوئی نشان نہیں ملے گا۔ (محدث فروری ، مارچ ‏‏ بتصرف وزیادات)‏

آخری بات

مراکز اسلامیہ حفاظت دین ردبدعات، اصلاح رسول اور الحاد و زنادقہ کے مقابلہ میں گرانقدر خدمات سر انجام دے رہیں۔

تاریخ شاہد ہے کہ معاندین اسلام نے جب بھی اسلام پر ضرب لگائی مراکز اسلامیہ کے متعلقین نے خم ٹھونک کر ان کا مقابلہ کیا ہے ضرورت ‏اس بات کی ‏ہے کہ ہم اپنے اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے ان مراکز و مدارس کے دست و بازو بنیں تاکہ حفاظت دین ترویج اسلام کا یہ کام ‏ٹھوس بنیادوں پر جاری رہ ‏سکے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے