یہ بات شک وشبہ سے بالاتر ہے کہ کسی بھی معاشرے ، یاتہذیب وتمدن کی ترقی صحیح اور اچھی تربیت کے رہینِ منت ہے ۔ جو قومیں تربیت میں پیچھے ہیں وہ تعمیر وترقی میں بھی پیچھے ہیں ۔ اس لئے ماہرین تربیت کہتے ہیں کہ

’’جذور التربیۃ مرّۃ ، ولکن ثمارھا حلوۃ ‘‘

تربیت کی جڑیں کڑوی ہیں لیکن اس کا پھل بہت میٹھا ہے ۔

نسل انسانی کی بہترین پرورش کی ذمہ داری بنیادی طور پردولوگوں پر ڈالی گئی ہے، والدین اور اساتذہ۔ یہ ذمہ داری اس قدر اہمیت کی حامل ہے جسے نظر انداز نہیں کی جاسکتا۔ اسی طرح معاشرے کی مختلف اکائیاں ہیں جو تربیت میں کلیدی کردار ادا کرتی ہیں ۔ ان میں ایک استاد بھی ہے ۔ اور استاد کا کردار اگر معاشرے سے نکال دیا جائے وہ زمین بوس ہوجاتاہے ۔ اس لئے کسی کہنے والے نے یہ کہا تھا کہ ’’ جو شخص تعلیم کی سختی برداشت نہیں کرتا وہ اپنی پوری عمر جہالت کے اندھیروں میں گذار دیتاہے ، اور جو تعلیم کی مشکلات پر صبر کرتا ہے اس کا انجام دنیا وآخرت کی عزت پر منتج ہوتا ہے ۔

کسی شاعر نے بھی اس پہلو کو خوبصورت پیرائے میں بیان کیا ہے :

ومن لم یذق مُرّالتعلّم ساعۃ
تجرّع ذُل الجھل طول حیاتہ

جو تعلیم کی مشقت ایک گھڑی برداشت نہیں کرتا وہ ساری زندگی جہالت کی ذلت کےجام نوش کرتا رہے گا ۔

ایک استاد کا تہذیب کو بنانے اور اسے سلیقہ سکھانے میں کلیدی کردار ہوتا ہے ۔ ماں باپ کی کوکھ کے بعد بچہ جس تربیتی مکتب کا رخ کرتا ہے وہ تعلیمی ادارے ہیں ۔ جہاں موجود استاد اس کی صحیح نہج پر تربیت کرتے ہیں ۔ مگر افسوس صد افسوس کہ اس وقت اگر تعلیمی اداروں پر طائرانہ نظر ڈالی جائے تودنیاوی اداروں میں بالعموم اور دینی اداروں میں بالخصوص تعلیم تو موجود ہے مگر تربیت کا انتہائی فقدان ہے۔ جبکہ اس کے برعکس شر کا جادو سر چڑھ کر بول رہاہے۔ کارٹون سیریز ، ڈرامے اور فلمیں منفی ذہن سازی کرنے میں ایک دوسرے سے سبقت لے جارہی ہیں ۔ جن میں محض شدت پسندی ، دھوکہ دہی ، خرافات ، فحاشی کا درس دیا جاتاہے۔جو فرد کو مہذب نہیں مجرم نمایاں کرتے ہیں۔ ڈاکٹر خالد جریسی اپنی کتاب( الفن الواقع والمأمول) میں لکھتے ہیں کہ ’’ تحقیقات اور مختلف سروے یہ بتاتے ہیں کہ ۹۰فیصد بچے جو جرائم کا ارتکاب کرتے ہیں اس کا سبب تشدد والی فلمیں ہیں‘‘۔ ایسی صورت حال میں بجائے اس کے کہ اہل خیر اور ان کے ادارے اس سیل رواں کے سامنے بند باندھیں وہ معاشرے کی ضروریات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتے ہیں ۔

اداروں میں محض تعلیم پر زور ہے تربیت کا فقدان ہے ۔ مگر یہ بات واضح رہے کہ منہج چاہے کتنا بھی معیاری اور اعلیٰ قسم کا ہو جب تک ایک بہترین معلّم جو استاد ہونے کے ساتھ ساتھ بہترین مربی بھی ہو نہیں ہوتا اس وقت تک اس تعلیم میں کوئی روح نہیں ہوتی ۔

سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے :’’ لاینفع تکلم بحق لا نفاذ لہ‘‘اس حق کےپرچار کرنےکا کوئی فائدہ نہیں جسے اپنی زندگی میں نافذ نہ کیا جائے ‘‘ ۔

طلباء کو صرف یہ سکھانا کفایت نہیں کرتا کہ جھوٹ ، چغلی ، حسد ، کینہ ، بغض حرام ہے ۔ بلکہ ان رذیل صفات کا ان کی زندگیوں سے خاتمہ کرنا اصل تعلیم ہے۔ اس لئے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ و سلم میں کئی ایک آثار موجود ہیں جنہوں نے محض سورۃ بقرہ آٹھ سال میں ختم کی۔ ابو عبدالرحمٰن فرماتے ہیں:

کانوااذاتعلموا عشر آیات لم یخلفوھا حتی یعملوا بمافیھامن العمل فتعلمناالقرآن والعمل جمیعا ‘‘

صحابہ جب دس آیات سیکھ لیتے تو اس وقت تک آگے نہ بڑھتے جب تک ان پر عمل نہ کرلیتے اس طرح ہم نے قرآن اور عمل ایک ساتھ سیکھے ۔

اس لئے ان میں محض سورۃ بقرہ کے پڑھنے والے کو وہ مقام ومنزلت اور عزت وشرف ملا کرتا تھا جو آج کے حافظِ کتب کو بھی نہیں ملتا ۔

سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

کان الرجل منا اذا قرأ البقرۃ جدّ فینا

ہم میں اگر کوئی شخص سورہ بقرہ پڑھ لیتا تو ہماری نظروں میں بڑا عظیم شمار ہونے لگتا ۔

قصہ مختصر یہ کہ ہم نے ضالین کو مغضوب علیہم نہیں بنانا بلکہ انہیں راشدین ، صالحین اور متقین بناناہے ۔ اور یہ کام ایک ماہر مربی استاد کے بغیر ممکن نہیں ۔

اس لئے سلف میں کسی سے کہا گیا ہے مسجد میں کچھ لوگ بیٹھے فقہ کا مذاکرہ کر رہے ہیں اس کے مسائل کا جائزہ لے رہے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ کیا ان کا کوئی استاد ہے ؟ کہا گیا نہیں : انہوں نے فرمایا تو یہ لوگ کبھی بھی دین کی سمجھ حاصل نہیں کرسکتے ۔

فی زمانہ استاد کا کردار معاشرے میں اس حد کو پہنچ چکا ہے کہ کوئی استاد بننے کیلئے تیار نہیں ۔

تربیت ایک انتہائی وسیع موضوع ہے جس پر مارکیٹ میں بے شمار کتابیں میسر ہیں لیکن بغرض افادہ عامہ استاد کی تربیتی ذمہ داریوں کے حوالے سے چند ایک اہم پہلؤں پر نظر ڈالتے ہیں ۔ جو طالب علم کی زندگی کو تعمیری اور مفید بناتے ہیں ۔

تربیت کے چند بنیادی عناصر درج ذیل ہیں :

۱ : استاد کو طلباء کیلئے قابل نمونہ ہونا چاہئے :

کیونکہ طالب علم اپنے استاد کو جس ہیئت اور حلیے میں دیکھتا ہے اسی کی پیروی کرتا ہے۔ لہٰذا ایک معلّم کی حرکات وسکنات سے لیکر اس کے معاملات، میل جول، اس کا مظہر طالب علم میں ایک اثر چھوڑتا ہے۔

۲: ایک معلم کی ذمہ داری بنتی ہےکہ وہ طلباء کے دلوں میں اعتماد اور اطمینان پیدا کرے ۔

تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں ، اور تحصیل علم میں کسی قسم کا خوف ، تردد ، اور اضطراب ان کی تعلیمی زندگی میں نہ آنے پائے۔ جو بات مشاہدے میں آئی ہے کہ ایک طالب علم آٹھ یا دس سال کی تعلیم تو حاصل کرلیتا ہے مگر وہ احساس کمتری میں ہی مبتلا رہتا ہے۔ اس کے پاس سب سے اعلیٰ وارفع علم شرعی کی دولت ہوتی ہے لیکن تعلیمی زندگی کے تمام مراحل میں وہ اسی تذبذب اور شک کا شکار رہتاہے کہ میں جو پڑھ رہا ہوں اس سے میرا مستقبل کیسے سنورے گا۔ میں فارغ التحصیل ہوکر کیا کروں گا ؟ وغیرہ وغیرہ ۔ اس بے یقینی کیفیت کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ فرد نہ اِدھر کا رہتا ہے نہ اُدھر کا۔ اپنے ارد گرد کے لوگوں کو دیکھ کر کڑھتا رہتا ہے کہ کاش میں بھی عصری تعلیم حاصل کرکے اعلیٰ پوسٹ پر فائز ہوتا ۔ ایسے موقع پرایک استاد کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ جو چیز وہ پڑھا رہا ہے طلباء اس سے وہ محض ایک علم ہونے کے نہیں بلکہ ایک قیمتی زیور ہونے اور بیش بہا خزانے ہونے کی نیت سے پڑھیں ۔ اور ان کی دلوں میں یہ بات ڈالنی چاہئے کہ دین کا راستہ سب سے عظیم راستہ ہے ۔تاکہ اس کے دل میں شوق اور لگن پیدا ہو ۔

۳ : مختلف واقعات سے طالب علموں کی ذہن سازی اور تربیت کرنا:

اسلام کی تاریخ سنہرے واقعات سے بھری ہوئی ہے ایک کامیاب استاد ان واقعات کو طلباء کی زندگی کا حصہ بنانے اور انہیں اس سے نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کی تلقین کرتارہتا ہے ۔

۴: مدنی قوانین جو انسانیت کی اصلاح کیلئے متعین کئے گئے ہیں ان کی پاسداری کرنے پر تربیت کی جائے۔

جیسے ٹریفک قوانین ہیں۔ طلباء کی ایک بہت بڑی تعداد اس کا لحاظ نہیں کرتی ۔

۵ : استاد کیلئے تربیتی لحاظ سے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ طالب علم کی نفسیات اور اس کے حالات سے بخوبی واقف ہواور مشکلات میں اس کی مناسب رہنمائی کرے۔ بسا اوقات کسی طالب علم کو کسی قسم کی مادی یا معنوی مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی کبھار کہیں شفارش کی نوبت آجاتی ہے تو استاد کو چاہئے کہ وہ طالب علموں کے ساتھ ایسے مواقع پر ساتھ دیں۔

۶ : نرم روئی اچھی رائے اور اچھے الفاظ سے تربیت کرنا ۔

تربیت کی کتابوں میں سے ایک کتاب میں میری نظر ایک واقعے پر پڑی جو سبق آموز ہے ۔

ایک بچے والد نے اپنے بیٹے کے حوالے سے بتایا ان کے استاد اپنی کلاس میں مسلسل اپنے شاگردوں کو فجر کی نماز کا اہتمام کرنے کی تلقین کرتے رہتے اور صدق دل سے ان کے جذبات کو ابھارتے اس استاد کی انہی سچی نصائح تیسری کلاس کے ایک بچے کے دل میں گھر گئیں ۔ بچہ گھر گیا تو یہ عزم کرچکا تھا کہ فجر کی نماز اب کبھی نہیں چھوڑوں گا پہلے دن وہ اٹھ نہ پایا دوسرے دن اس نے دیکھا کہ گھر میں تو کوئی فجر میں اٹھتا نہیں مجھے کون اٹھائے گا ؟۔ لہذا اس نے یہ فیصلہ کیا کہ آج رات میں سوؤں گا ہی نہیں تاکہ فجر کی نماز باجماعت ادا کرسکوں ۔ ابھی اس کی اسی کیفیت پر کچھ دن گذرے تھے کہ مدرسے کے اس استاد کا انتقال ہوگیا ۔ بچہ گھر آیا زارو قطار رو رہاتھا ۔ باپ نے کہا بیٹا کیا ہوا اگر استاد فوت ہوگیا ہے تو کیا ہوا وہ ایک اجنبی شخص تھا تمہیں کیا سروکار بچہ کہنے لگا کہ میرے ابو کاش آپ ان کی جگہ مرجاتے! باپ نے حیرت سے پوچھا بیٹے تم کیسے ہو کہ ایک اجنبی فرد کی جگہ اپنے باپ کے مرنے کی تمنا کررہے ہو بیٹے نے کہا ہاں۔ آپ مرجاتے تو اچھا تھا کیونکہ میرے استاد نے مجھے فجر میں اٹھنا اور باجماعت نماز ادا کرنا سکھایا جبکہ آپ نے مجھے کبھی فجر کیلئے نہیں جگایا۔ یہ سننا تھا کہ باپ ہچکی باندھ کر رونے لگا اور زارو قطار روتا ہی رہا۔ یہ مقام اس کے باپ کی تبدیلی کا بھی نکتہ تھا یہیں سے اس استاد کی کاوش سے اس بچے کے والد کی زندگی بھی سدھر گئی۔ اچھے کلمات یقینا سلیم الفطرت انسان کی زندگی پر اثر چھوڑتے ہیں۔

اس کی چند ایک مثالیں اسلاف کی سیرت سے بھی ملاحظ ہوں۔

۱ : امام بخاری رحمہ اللہ کا صحیح بخاری کی تصنیف کا سبب صرف ایک لفظ اور کلمہ ہی تھا جو انہوں نے اپنے استاد کی زبان سے سنا تھا فرماتے ہیں:

كناعندإسحاق بن راهويه فقال: لوجمعتم كتاباً مختصراًلصحيح سنة النبي صلی اللہ علیہ و سلم ، قال: فوقع ذلك في قلبي فأخذت في جمع الجامع الصحيح.

ہم اسحاق بن راھویہ کی مجلس میں بیٹھے تھے تو آپ فرمانے لگے ’’اگر تم میں سے کوئی صحیح سنت رسول صلی اللہ علیہ و سلم پر ایک کتاب تصنیف فرمادے تو بہت عمدہ ہوگا ۔ امام بخاری فرماتے ہیں یہ بات میرے دل میں بیٹھ گئی وہیں سے میں نے جامع الصحیح کی تصنیف اور جمع کا آغاز کردیا ۔

۲: امام زھری رحمہ اللہ کا علم حدیث سے منسلک ہونے اور مشغول ہونے کا سبب بھی ایک ہی جملہ تھا۔ فرماتے ہیں امام برزالی نے جب میری رائٹنگ دیکھی تو فرمانے لگے تمہاری یہ لکھائی محدثین کی لکھائی سے ملتی ہے۔

امام زھری فرماتے ہیں یہاں سے اللہ تعالیٰ نے میرے دل میںعلم حدیث کو میرے لئے محبوب بنادیا ۔ صرف ایک ہی جملے نے امام زھری کو ائمہ حدیث میں ایک جلیل القدر امام کا رتبہ ادا کردیا ۔

علامہ اقبال اسی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

 دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے

پر نہیں ، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

قدسی الاصل ہے، رفعت پہ نظر رکھتی ہے

خاک سے اُٹھتی ہے ، گردُوں پہ گذر رکھتی ہے

 ۷: طلباء کے منہج کی تصحیح ضروری ہے ۔

دینی اداروں کی حیثیت فلٹر کی حیثیت ہے۔ یہاں معاشرے کے ہر قسم کے لوگ آتے ہیں، مختلف قسم کی عادات، اطوار، اخلاق کے حامل ہوتے ہیں کسی کی طبیعت میں تعصب، عناد ہوتا ہے۔ کسی کے منہج میں انحراف ہوتا ہے۔ کوئی اخلاقی برائیوں میں مبتلا ہوتا ہے۔ جب وہ مدارس میں آگئے تو سمجھیں ایک فلٹر مشین میں داخل ہوگئے۔ مگر یہاں سے جانے کے بعد ان کی بہت بڑی تعداد دوبارہ اسی گندے معاشرے میں رچ بس جاتی ہے۔ انہی عادات کو پھر سے پریکٹس کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ ان کی اچھے نہج پر تربیت نہ ہونا، ان کی نفسیات کی مناسب اصلاح نہ ہونا ہوتا ہے۔

ایک اچھے استاد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ طالب علم میں منہجی اور اخلاقی برائیوں کا تدارک کرے اور ان کو ختم کرنے کی رفتہ رفتہ کوشش کرے ۔ جبکہ عملی طور پر یہ ہوتا ہے کہ استاد صرف لیکچر دینا اپنا مقصد سمجھتے ہیں اس سے آگے ان کی کوئی ذمہ داری نہیں ہوتی نہ وہ نبھاتے ہیں الا ماشاء اللہ مگر اس رویے کے نتائج خطرناک ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج کوئی ٹیچر بننے کو تیار نہیں ہوتا۔ جن لوگوں کی ڈاکٹر یا انجینئر بننے کی کوششیں بار آور نہیں ہوتیں وہ استاد لگ جاتے ہیں۔ اور جن طالب علموں کی ذہنی استعداد کم ہوتی ہے انہیں مدارس کے حوالے کردیا جاتاہے۔ جبکہ شرعی قاعدہ اور ضابطہ یہ ہے کہ اللہ کی راہ کیلئے دی جانے والی چیز اور اس کےلئے صرف کیا جانے والا فرد اور شخص انتہائی قیمتی اور لائق فائق ہونا چاہئے چنانچہ فرمان باری تعالیٰ ہے :

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ڛ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَيْءٍ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِيْمٌ (سورہ آل عمران 92)

جب تم اپنی پسندیدہ چیز سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو گے ہرگز بھلائی نہ پاؤ گے اور تم جو خرچ کرو اسے اللہ بخوبی جانتا ہے۔

جتنے ٹوٹے ہوئے دل سے اساتذہ اپنا کام کرتے ہیں ویسے ہی نتائج کے حامل ان کے طالب علم ہوتے ہیں ۔

۸ : بچوں کو خواب دیکھنے اور اچھا سوچنے سے مت روکیں۔ بلکہ انہیں باور کرائیں کہ ان کا مستقبل تابناک ہے ۔ان کی حوصلہ افزائی کریں اور کسی بھی طالب کو اس کی مالی ومعاشی حالت یا کند ذہنی کا طعنہ نہ دیں ۔ کیونکہ مستقبل کے حوالے سے اچھا سوچنے والے طالب علم ہی زندگی میں کامیاب ہوتے ہیں ۔ کتنے ایسے طالب علم ہیں جو محض استاد کی تحقیر اور طعنہ زنی کا شکار ہوکر مدارس کو چھوڑچکے ہیں۔ اسی حوالے سے روزنامہ ایکسپریس میں درج ایک واقعہ اس معاملے کی وضاحت کے لیے کافی ہے۔ ’’ایک دس سال کا بچہ جس کاباپ ایک بہت بڑے اصطبل کا رکھوالہ تھا، گھوڑے پالنے کا بڑا شوق رکھتا تھا۔ ایک روز کلاس میں خاتون استاد نے بچوں سے اپنی زندگی گزارنے کے بارے میں مضمون لکھنے کو کہا۔

اس بچے نے اپنے ایک خواب کو خوبصورت ڈرائنگ کی شکل دے کر کاغذ پر اتارا۔ استاد نے دیکھ کر اسے بہت ڈانٹا کہ کیوں خوابوں کی دنیا میں رہتے ہو، اتنے غریب ہو کر تمہیں یہ سب سوچنا بھی نہیں چاہیے۔ یہ کہہ کر استاد نے بچے کو ٹیسٹ میں فیل کردیا اور کہا ایک ہفتے کے اندر اندر نیا مضمون لکھ کر لائو ورنہ اسکول نہ آنا۔ وہ بچہ بڑا پریشان ہوا لیکن اس نے مضمون نہ بدلا اور ایک ہفتے کے بعد وہی مضمون لے کر دوبارہ استاد کے پاس گیا اور کہا میں مضمون نہیں تبدیل کروں گا اور اسکول چھوڑ دیا۔ چند سال بعد وہی ٹیچر کسی دعوت پر اپنی کلاس کے بچوں کو لے کر ایک زرعی فارم لے گئی۔ استقبال کرنے کے لئے ان کاوہی طالب علم کھڑا تھا جس نے کبھی یہ خواب دیکھا تھا اور وہ زرعی فارم ایسا ہی تھا، جیسے اس نے تصویر میں بنایا تھا۔ فرق صرف یہ تھا کہ ٹیچر بہت شرمندہ تھی کیوں کہ اس کامیابی میں اُس کا حصہ نہیں تھا‘‘۔

الغرض تربیت ایک اہم ذمہ داری بھی ہے اور مشکل کام بھی لیکن جس نے اس مشکل کام کو کرلیا وہی مستقبل کا معمار ہوگا ۔ وہی تہذیبیں ترقی کریں گی جن کے معلمین ، معلم ہونے کے ساتھ مربی بھی ہوتے ہیں۔ جب تک ہمارے اساتذہ، ہمارے ادارے تعلیم کے ساتھ تربیت پر توجہ نہیں دیں گے، نہ ہمارا معاشرہ بہتر ہوگا، نہ ترقی ملے گی، نہ تعمیر ہوگی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں راہ حق پر ثابت قدم رکھے ۔ انہ ولی التوفیق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے