اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام تر مخلوقات میں سے چنا اور اسے کرہ ارض کا سردار بنا کر اس کی تکریم کی راہنمائی کے لیے انبیاء و رسول مبعوث فرمائے کتابیں نازل کی تاکہ وہ صحیح طریقے اور سیدھے راستے پر گامزن ہو حقوق وواجبات بیان کرنے کے لیے اور اس پر عائد احکامات متعین فرمائے مگر انسان ظالم اور جاہل واقع ہوا کبھی اس کی طبیعت اسے سر کشی اور حسد کرنے پر آمادہ کرتی ہے تو کبھی وہ اپنے بھائی پر بھیڑیا بن کر ٹوٹتا نظر آتا ہے۔

انسان کا انسان پر ظلم اور ایک کی دوسرے پر سر کشی تاریخ انسانی میں مختلف صورتوں میں سامنے آئی ہے کہیں اندرونی اور بیرونی اسباب ہیں تو کہیں اخلاقی اور اقتصادی جبکہ دین فطرت سے انحراف اس کی سب سے بڑی وجہ نظر آتی ہے۔

یورپ کا سیاہ دور جسے ’’عصر وسطی‘‘ کا نام دیا جاتا ہے ہلاکت اور تباہی کا دور تھا بیسویں صدی کی بہت ساری جنگوں کے محرکات سے اس کا بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے جیسا کہ اکیسویں صدی کا آغاز تباہ کن جنگ ’’جنگ عظیم اول‘‘ سے ہوتا ہے تو بالخصوص یورپ میں اور بالعموم پوری دنیا میںمفکرین، مصلحین کھڑے ہوئے اور اس ظلم و زیادتی سے ڈرانے لگے اور حقوق انسان کے اعتراف میں نعرہ لگانے لگے جبکہ اس سے قبل فرانس میں سب سے پہلے 1789؁ء میں حقوق انسان کمیشن کے قیام کا اعلان کیا گیا تھاجو کہ محض اعلانات اور نعروں تک محدود رہا مگر اس اعلان نے افراد میں رہنمائی کا اثر چھوڑا جس کا نتیجہ 1948؁ء میں حقوق انسانی کا عالمی اعلامیہ سامنے آیا۔

پچھلی دو صدیوں سے اسلامی سوچ میں جمود کی وجہ سے مسلمان پسماندگی کا شکار ہوتے گئے اور بہت سے اسلامی ممالک نے شریعت اسلامیہ کے نفاذ کو ختم کرنے اور بیرونی سوچ کو رواج دینے کے ساتھ وضعی قوانین کو اپنا لیا جس سے مسلمان تو مسلمان تقریباً ہر شہری کی زندگی اجیرن بن گئی۔

انسانی حقوق کی پامالیاں منظر عام پر آنے لگیں تو آفاق میں اسلام میں حقوق انسان کے متعلق سوالات اٹھنے لگے تو اس پر اہل علم حضرات اور اصلاح پسند لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انسان کی تکریم وتوقیر پر روشنی ڈالی اور واضح کیا کہ ’’شرعت اسلامیہ ‘‘ کے نزول کا مقصد ہی انسان کی بھلائی ہے کیونکہ شریعت کی جانب سے بنیادی طور پر مقرر کردہ مقاصد شریعت ہی انسان کی انسانیت کا آغاز ہیں اور انہیں امور سے پتہ چلتا ہے کہ دین الہی کی طرف رجوع میںہی انسانیت کی فلاح و کامیابی ہے۔

مقاصد شریعت کا مفہوم:

مقاصد: مقصد کی جمع ہے کسی چیز کا ارادہ کرنا، قصد کرنا یا کسی کے لیے قصد و ارادہ یا کسی کی طرف قصد و ارادہ کرنے کو کہا جاتا ہے اس کا اصل باب ’’ضرب‘‘ سے ہے جس کے معنی طلب کرنے، کسی کی جانب آنے، ثابت کرنے کے آتے ہیں، قصد کا مطلب: کسی چیز کو طلب کرنا یا کسی چیز کو ثابت کرنا یا کسی چیز کو ذخیرہ کرنا یا اس میں عدالت و عدل سے کام لینے کو کہا جاتا ہے۔ (۱)

علماء کی اصطلاح میں مقاصد شریعت کے معنیٰ: وہ مقاصد و اھداف، نتائج و معانی ہیں جنہیں شریعت مطہرہ لے کر آئی ہے اور احکام میں اسے ثابت کیا گیا ہے اس کے حصول، افزائش، ایجاد اور ان تک رسائی کے لیے ہر زمانے میں کوشش ہوتی رہی ہے۔ (۲)

شریعت کا ہدف:

شریعت اسلامی دنیا میں انسان کی سعادت مندی، بھلائی کے حصول اور زمین میں اس کی خلافت کے لیے سرگرداں ہے اور یہی اس کا مقصد ہے کیونکہ شریعت کے احکامات میں انسان کی مصلحت کی حفاظت کے احکام پائے جاتے ہیں جیسے: منافع جات کا حصول نقصانات کا ازالہ کرنا، گویا شریعت انسان کی بھلائی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور اسے سیدھی راہ کی جانب گامزن کرتی ہے۔

نیکی کی رہنمائی اس کے سامنے حقیقی مصلحتوں سے پردہ اٹھا دیتی ہے۔ تو اس نے اس کے لیے شرعی احکامات متعین کر دیئے تاکہ ان مقاصد و اھداف کا حصول ممکن ہو سکے اور اس پر اصول و ضوابط لاگو کئے جس کی روشنی میں اھداف حاصل کئے جا سکیں اور ان کی حفاظت و صیانت ممکن ہو سکے پھر اس کی حفاظت کی ضمانت کے لیے اور اس پر دست درازی روکنے کے لیے احکامات لاگو کئے۔

علماء کرام مقاصد شریعت کی حدود و قیود سے متعلق بیان میں کہتے ہیں کہ وہ انسان کی دنیا و آخرت کی مصلحتوں کا حصول ہے۔

علامہ عز بن عبدالسلام رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات میں سے کوئی بھی ایسا حکم لاگو نہیں کیا جس کا مقصد انسان کی دنیا و آخرت کی بھلائی کا حصول نہ ہو، یہ اس رب کا اپنے بندوں پہ فضل و احسان ہے۔

پھر فرمایا: لطف و کرم اور آسانی کی یہ علامات نہیںکہ وہ اپنے بندوں کو مختلف قسم کی پابندیوں اور سختیوں کا پابند بغیر کسی دینوی و اخروی فائدے کے کر دے مگر اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس جانب دعوت دی ہے جو انسان کو اس بھلائی کے قریب کر دیتی ہے۔ (۳)

دنیا میں انسان کی مصلحتیں یہ ہیں کہ ہر وہ چیز جس میں ان کا نفع، فائدہ، اصلاح ان کی بھلائی اور آرام ہے انہیں ملیں اور وہ چیز جو ان کو تکلیف و پریشانی سے محفوظ کرے ان سے نقصان اور خسارہ کا ازالہ کرے چاہے وہ دنیا میں ہو یا آخرت میں۔ مصلحت کہلائے گی۔

احکام شریعت لوگوں کے لیے مصلحتوں کے حصول اور نقصانات کے ازالہ کے لیے آئے ہیں اور ہر شرعی حکم کسی نہ کسی مصلحت کی حفاظت یا کسی نہ کسی نقصان و فساد کے ازالے کے لیے آیا ہے یا وہ ان دونوں کے حصول یعنی مصالح کی حفاظت اور مفاسد کے ازالہ کے لیے آیا ہے دنیا و آخرت میں کوئی بھی ایسی مصلحت نہیں جس کا شریعت نے لحاظ اور خیال نہ کیا ہو بلکہ ایسے احکامات جاری کئے ہیں جو ان مصلحتوں کی ایجاد اور ان کی حفاظت کے کفیل اور ضامن ہیں۔

اور اس پُر حکمت شریعت نے دنیا و آخرت کے حوالے سے کوئی ایسی مفسدت نہیں چھوڑی جس سے لوگوں کو آگاہ نہ کر دیا گیا ہو انہیں اس سے ڈرایا نہ گیا ہو اور انہیں اس سے اجتناب کرنے، دور رہنے کی رہنمائی نہ کی گئی ہو اور پھر اس کا ان کے لیے متبادل پیش نہ کیا گیا ہو۔ (۴)

لوگوں کی مصلحتوں کا احاطہ و چھان بین کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اللہ تعالیٰ خلق ثقلین اور ایجادات پر تہذیب و تشریع میں بے فائدہ کام نہیں کرتا۔ اور یہ کہ عقائد و عبادات، اخلاق و معاملات، مالی معاھدات، سیاست شریعت اور جزا و سزا کی علت موجود ہے اور وہ صرف انسانی مصلحت کا حصول اور نقصان کو دور کرنا ہے۔

معاملات میں اللہ تعالیٰ نے حکمت اور ھدف کی نشاندہی بیان فرما دی کہ وہ لوگوں کے لیے مصلحت کے حصول اور بھلائی کے لیے ہے اور ان سے مفاسد، نقصانات، مشقت کے ازالے نیز فساد، دھوکہ دہی، ظلم و ستم کے معاھدات ختم کرنے کے لیے احکامات نافذ کئے گئے تاکہ دونوں اطراف یعنی فریقین کے مابین عدل و مساوات کی فضا برقرار رہے۔

بنی نوع انسان سے متعلق شرعی مصلحتیں ان پر خبیث، گندی اور بری چیزوں کے حرام کرنے سے آتی ہیں کہ جس سے انسان کو فسادات، نقصانات اور ہر تکلیف اور کمزوری سے بچایا جاتا ہے۔ انسان کی مصلحتیں اس مقام پر تو مزید نکھر کر سامنے آجاتی ہیں جہاں اسلام مکارم اخلاق اچھے معاملے، لوگوں پر احسان کرنے نیز انہیں کسی قسم کی تکلیف دینے چاہے وہ تکلیف اشارے ہی سے کیوں نہ ہو منع کرتا ہے اور یہ سب اس لیے کہ لوگوں میں محبت کا رواج ہو۔ اور وہ ایسے ہو جائیں جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی اس حدیث میں تصویر کشی کی ہے۔

مَثَلُ الْمُؤْمِنِينَ فِي تَوَادِّهِمْ، وَتَرَاحُمِهِمْ، وَتَعَاطُفِهِمْ مَثَلُ الْجَسَدِ إِذَا اشْتَكَى مِنْهُ عُضْوٌ تَدَاعَى لَهُ سَائِرُ الْجَسَدِ بِالسَّهَرِ وَالْحُمَّى

مؤمن کی مثال محبت رحمت اور نرم گوشی میں ایک جسم کی مانند ہے اگر ایک عضو کو تکلیف ہو تو انسان کا تمام جسم بیداری و بخار کی حالت میں رہتا ہے۔(۵)

شریعت کے اھداف و مقاصد کی پہچان کی اہمیت اور اس کے فوائد:

کسی بھی کام کے ھدف کا تعین اس کی ادائیگی تکمیل و پیروی، غرض و غایت کا اصل محرک اور باعث ہوتا ہے ہدف کا تعین اس کے حصول کے لیے مختصر وقت میں صحیح راہ اور سمت متعین کرتا ہے اور اس کے لیے اچھا منہج اور اسلوب اختیار کرنے کی رہنمائی کرتا ہے تاکہ کام ادھورے اور محنت رائیگاں نہ جائے۔

شریعت کے احکام اور فروعات میں اھداف کی معرفت اور اس کے فوائد کا ادراک مسلمان کے لیے عمومی اور محقق، عالم، فقیہ اور مجتہد کے لیے جاننا نہایت ضروری ہے۔

m ھدف اسلام کے مکمل تصور کو سامنے لے آتا ہے اوریہی تصور تعلیمات احکام کو واضح کرتا ہے تو نتیجتاً فروعات کا اجمالی وکلی نقشہ سامنے آ جاتا ہے پھر انسان کو پہچان ہو جاتی ہے کہ کون سی چیز اسلام کا حصہ ہے اور کون سی نہیں تو جو چیز بھی دنیا و آخرت کی مصلحتوں کے حصول میں مدد گار ہے وہ شریعت کا حصہ ہے اور ہر مسلمان سے مطلوب ہے اور جو چیز بھی فساد، نقصان، مشقت، افراتفری عدم استحکام کو ہوا دیتی ہے اور شریعت اس سے روکتی ہے وہ شریعت کا حصہ نہیںاور مسلمان پر اس کا کرنا حرام ہوتا ہے کیونکہ اس سے اس کو اور دوسروں کو نقصان لاحق ہوتا ہے اور دوسروں پر بھی ضروری ہے کہ اس سے رک جائیں تاکہ تمام لوگوں کے حق کا خیال کیا جائے۔ (۶)

m اھداف شریعت کی پہچان سے ان اعلیٰ اھداف کی وضاحت ہوتی ہے جن کا شریعت اپنے احکام میں لحاظ رکھتی ہے اور اس سے ان عظیم مقاصد و اھداف سے پردہ اٹھتا ہے جس کے حصول کے لیے انبیاء کرام مبعوث کیے گئے اور کتابیں نازل ہوئی اس سے مؤمن کا ایمان بڑھتا ہے اور وہ اپنے احساسات میں شریعت محسوس کرتا ہے جس سے اس کا دین سے لگاؤ اور صراط مستقیم پر ثابت قدم رہنا مزید بڑھ جاتا ہے اسے اپنے رسول پر فخر اسلام پر عزت محسوس ہوتی ہے بالخصوص جب وہ شریعت اسلامی کا تقابل دیگر ادیان اور وضعی قوانین سے کرے گا تو اسلام پر مزید اس کا اطمینان بڑھ جائے گا۔

m اھداف شریعت کی معرفت سے تقابلی تحقیق میں کسی قول کی ترجیح میں مدد ملتی ہے کہ اس قول کو ترجیح دی جائے جو ان مقاصد کے حصول کا سبب ہے اور اس کے اھداف سے مطابقت رکھتا ہے یعنی مصالح کے حصول اور مفاسد سے بچاؤ جیسا کہ زکاۃ میں غریب، فقیر لوگوں کا لحاظ اور معاملات میں بچوں، یتیموں اور وقف کا لحاظ۔ یہ وہ قندیلیں ہیں جو حکمرانوں کو سیاست شرعیہ میں روشنی مہیا کرتی ہیں مظالم کے فیصلے کے لیے ان کے لیے رہنما بنتی ہیں اور ایسے مسائل میں بھی جن میں شرعی نص نہیں ہوتی جیسا کہ اھداف و احکام کی کلی اور جزوی دلائل میں قول کی ترجیح میں معاون ہوتے ہیںیہاں اس بات کی بھی تائید ہوتی ہے کہ دلائل میں بظاہر تعارض ہوتا ہے جن میں تطبیق دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

أَفَلَا يَتَدَبَّرُونَ الْقُرْآنَ وَلَوْ كَانَ مِنْ عِنْدِ غَيْرِ اللَّهِ لَوَجَدُوا فِيهِ اخْتِلَافًا كَثِيرًا

کیا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے اگر یہ اللہ تعالیٰ کے سوا کسی اور کی طرف سے ہوتا تو یقیناً اس میں بہت اختلاف پاتے۔ (۷)

m شریعت اسلامی کے اھداف کے بیان سے دعوت اسلامی کے اھداف نکھر کر سامنے آتے ہیں جس کی کاوش مصلحت کے حصول اور لوگوں سے مفسدت کو دور کرنا ہے اس سے ان وسائل اور طریقوں کی جانب رہنمائی ملتی ہے جن سے دنیا کی سعادت مندی کاحصول ممکن ہوتا ہے اور آخرت میں اللہ رب العالمین کی رضا ملتی ہے۔

انبیاء کرام و رسل عظام کی مہم انہیں اھداف کا حصول تھا۔

اصلاح و صلاح کی دعوت دینے میں علماء انبیاء کرام کے وارث ہیں اور وہ خیر وبھلائی، نیکی اور فضلیت کے حصول کے لیے کوشاں رہتے تھے فساد، گناہ، برائی، رزائل و شر سے ڈراتے تھے اسی لیے انبیاء کرام کی مہم تمام اعمال سے اعلی و اشرف تھی جسے حقوق انسان کے فیصلے کے تعین کا حق تھا اور یہ سب سے بلند ھدف اور سب سے مقدس مہم ہے جو ان کے راستے پر چلے گا ان سے جا ملے گا ان جیسا اجر پائے گا اس لیے داعی و مصلحین حضرات انبیاء کرام کی راہ کی پیروی پر حریص ہوتے ہیں اور شرع حنیف کی پیروی کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے حقوق پر اعتداء اور حدود سے تجاوز سے منع کرتے ہیں تاکہ بنی انسان کی سعادت مندی حاصل کریں۔

شریعت کے اھداف، کلی و جزوی احکام شریعت کی پہچان کی راہ روشن کرتے ہیں تاکہ ان احکامات کو شریعت کے کلی و فرعی دلائل سے ایک ضابطہ کے تحت اخذ کیا جائے اور یہ اھداف ایک باحث، محقق، مجتہد اور فقیہ کو نصوص شرعیہ کی سمجھ اور واقعات کے مطابق ان کی تعبیر و توضیح کرنے میں مدد گار ثابت ہوتے ہیں جیسا کہ ان مقاصد کی معرفت مجتہد و فقیہ کو الفاظ شرعیہ کے مدلول ومعنی کی تحدید اور اس کے مفہوم و مدیٰ کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے کیونکہ الفاظ و عبادات کے معانی و مفاہیم متعدد ہوتے ہیں اور ان کی دلالتیں مختلف ہوتی ہیں لہذا یہ اھداف آیت کے صحیح معنی و مفہوم کے تعین میں مدد دیتے ہیں تاکہ ایک مجتہد انہیں واقعات پر صحیح منطبق کر سکے۔

m اگر نئے پیدا ہونے والے واقعات و مسائل میں نص دستیاب نہ ہو تو کوئی بھی مجتہد فقیہ، قاضی اور امام اپنے مقاصد کی طرف رجوع کرتا ہے تا کہ ان کی روشنی میں اجتہاد، قیاس، استحسان، سد الذرائع، استصلاح، عرف وغیرہ سے احکام و مسائل مستنبط کر سکے جو دینی روح سے موافق اور شریعت کے بنیادی احکامات اور اھداف کے مطابق ہوں۔

لہذا یہ فوائد کسی بھی باحث محقق، عالم مجتہد فقیہ کے لیے اس بات کو ضروری کر دیتے ہیں کہ وہ شریعت کے اھداف کو اپنے سامنے رکھے تاکہ وہ اس کی راہ کو روشن کریں اس کی سمت کو درست کریں اور حق وعدل، صحیح و صواب تک پہنچنے میں مدد دیں۔

فقہاء شریعت کا اتفاق ہے کہ حاکم و امام کے تصرفات یا اس کے نائب کے تصرفات اور ان کے اعمال مصلحت کے تابع ہوں تو جس چیز میں انسانوں کی مصلحت ہو گی وہ اسے لاگو کریں گے اور جس میں مفسدت ہوگی وہ احکام باطل ہو جائیں گے اور اس کے ذمہ داروں کو دنیا و آخرت میں جواب دہ ہونا پڑے گا انہیں احکامات سے متعلق فقہاء کرام نے ایک مشہور فقہی قاعدہ وضع کیا کہ :

’’رعایا پر تصرف مصلحت سے مرتبط ہے‘‘۔ (۸)

اھداف کی مصلحتوں کے اعتبار سے تقسیم:

گزشتہ بحث سے واضح ہوا کہ شریعت کے اھداف میں مصلحتوں کا حصول ہے مگر مصلحتیں ایک رتبہ اور ایک درجہ پہ نہیں ہیں بلکہ اہمیت، خطرہ اور لوگوں کی ضروریات کے لحاظ سے ان میں فرق ہے بعض مصلحتیں انتہائی ضروری، جوہری اور بنیادی حیثیت رکھتی ہیں جن کا تعلق انسان کے وجود اور اس کی زندگی کی بنیادی ضروریات سے ہوتا ہے اور بعض دوسرے درجے میں آتی ہیں تاکہ وہ سابقہ ضروری مصلحتوں کے لیے تکمیلی وسیلے کی حیثیت سے کام دے سکیں اور انسان کے اپنے زندگی کے مختلف پہلوؤں سلوک، معاملات، تعلقات اور روابط کے لحاظ سے استفادہ میں انسان کو مدد دیں اور بعض مصلحتیں ایسی ہوتی ہیں جو زندگی کے لیے اتنی انتہائی اہم نہیں ہوتیں کہ جن پر زندگی کا انحصار ہو اور نہ ان کا انسانی ضروریات و حاجتوں سے تعلق ہوتا ہے مگر مکارم اخلاق اور اچھا ذوق اس کا تقاضا کرتا ہے اور عقل سلیم بھی اس کا تقاضا کرتی ہے تاکہ لوگوں کو خوشحالی اور سامان عشرت بہم مل سکے اور انہیں کمال اور فارغ البالی کا حصول ممکن ہو۔ (۹)

علماء کرام نے لوگوں کی مصلحتوں کو ان کی اہمیت، افادیت، خطرہ انسانی زندگی میں ان کے اثرات اور انسان کو اس کی حاجت و ضرورت کے لحاظ سے تین حصوں میں تقسیم کیا ہے۔

(ا) ضروری مصلحتیں (ب) حاجت کی مصلحتیں (ج) اصلاحات و بہتری کی مصلحتیں۔ (۱۰)

ضروری مصلحتوں کا حصول

لوگوں کی ضروری مصلحتیں اسلام کی نظر میں پانچ چیزوں میں محصور ہیں۔ 1: دین، 2: نفس، 3: عقل، 4: نسل، عزت یا نسب، 5: مال۔

شریعت انہی مصلحتوں کی حفاظت کے لیے نازل ہوئی اور اس نے ایسے احکامات جاری کئے ہیں جو دین، نفس، عقل، نسل اور مال کی حفاظت کرتے ہیں۔ (۱۱)

تمام آسمانی شریعتوں نے ان حقوق اور مصلحتوں کا لحاظ رکھا ہے ان کی طرف دعوت دی ہے ان کی رعایت و حفاظت کی ہے۔

امام غزالی رحمہ اللہ فرماتے ہیں شریعت کی مخلوق سے غرض پانچ چیزیں ہیں یہ کہ ان کے دین کی ان کے نفس کی ان کی عقل کی ان کی نسل کی اور ان کے مال کی حفاظت کی جائے اور جو چیز ان پانچ اصولوں کی حفاظت پر مشتمل ہو وہ مصلحت ہے اور جو چیز بھی ان اصولوں کے ضیاع کا سبب ہو وہ مفسدت ہے اور اس کا رد کرنا ازالہ کرنا مصلحت ہے پھر فرمایا: ان پانچ اصولوں کی حفاظت ضروریات کے مرتبے میں آتی ہے لہٰذا ضروریات کا رتبہ مصلحتوں کا مضبوط ترین رتبہ ہے۔ (۱۲)

پھر فرمایا: ان پانچ ضروریات کے ضیاع کی حرمت پر اور اس سے روکنے پر محال ہے کہ کسی شریعت میں کوئی حکم نہ ہو اور ان شریعتوں میں سے کوئی بھی ایسی شریعت جس کا مقصد خلق کی اصلاح ہو ممکن نہیںکہ وہ شریعت ان احکامات سے عاری ہو اس لیے تمام شریعتوں کا کفر کے حرام ہونے، قتل، زنا، چوری اور نشہ آور اشیاء کے استعمال کی حرمت پر اتفاق ہے۔ (۱۳)

حاجت کی مصلحتیں:

یہ وہ امور ہیں جن کی انسان کو اپنی زندگی کے معاملات آسانی و سہولت سے چلانے کی ضرورت ہوتی ہے اور اس سے ان سے مشقت دور ہوتی ہے پابندیوں میں تخفیف اور نرمی ہوتی ہے اور یہ زندگی کے بارگراں اٹھانے میں ان کی مدد کرتے ہیں۔

بالفرض اگر یہ چیزیں موجود نہ ہوں تو اس سے لوگوں کا نظام زندگی معطل نہیں ہوتا اور نہ ہی انسان کے وجود کو اس سے گزند پہنچتی ہے اور نہ ہی انہیں اس کے فقدان سے خطرہ، تباہی، ہلاکت، بد نظمی ملتی ہے۔ ہاں اس کے فقدان سے انہیںکچھ تنگی، مشقت ضرور لاحق ہوتی ہے اس لیے ایسے احکام لاگو کئے جاتے ہیں جن کے ذریعے لوگوں کی حاجت کی مصلحتیں حاصل کی جائیں تاکہ ان سے تنگی دور کی جائے اور معاملات کی راہیں آسان کی جائیں تاکہ انہیں اپنی ضروری مصلحتوں کی حفاظت اور انہیں آگے بڑھانے میں مدد مل سکے اور اچھی طرح ادائیگی کر سکیں اور وہ حاجاتی احکام کے ذریعے ضروریات کی حفاظت کر سکیں جیساکہ عبادات میں  رخصت اور معاملات میں نرمی دینا۔ (۱۴)

اصلاحات و بہتری کی مصلحتیں:

اس سے مراد وہ امور ہیں جنہیں مروت، اخلاق وآداب اور ذوق عام کی طلب ہوتی ہے اور لوگوں کو اپنی زندگی کے معاملات کو بہتر طریقے سے جلانے کے لیے ان اصلاحات کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ وہ مکمل طریقے اچھے منہج پر زندگی گزار سکیں اگر یہ چیزیں ان کی زندگی سے غائب ہو جائیں تو ان کی زندگی کا نظم معطل نہیں ہوتا اور نہ ہی اس میں رکاوٹ آتی ہے اور نہ ہی حرج و مشقت محسوس ہوتی ہے مگر وہ کچھ اکتاہٹ، اچاٹ پن، شرمندگی محسوس کرتے ہیں اور ان کی عقلیں بھی کچھ کدورت محسوس کرتی ہے یعنی ان کے فقدان سے ان کی فطرت کچھ نامونیست کا اظہار کرتی ہے۔ یہ تحسینی امور اور اصلاحی و بہتری کی چیزوں کا تعلق اخلاق فاضلہ، اعلیٰ ذوق سے ہوتا ہے اور یہ اصلاحات ضروری مصلحتوں اور حاجت کی مصلحتوں کو اعلی تناسب اور اچھی پوزیشن کے ساتھ مکمل اور بہتر بناتی ہیں۔ (۱۵)

ان اھداف کے حصول کے لیے استعمال کئے جانے والے شرعی وسائل:

شریعت اسلامیہ تمام مصلحتوں کو مامون و محفوظ بنانے کے لیے آتی ہے اس نے ہر ایک کی صراحت اور اس کی اہمیت بیان کی ہے نیز اس کے مقام و مرتبہ سے بھی آگاہ کیا ہے کہ یہ چیز کس طرح انسان کے لیے سعادت مندی کا باعث بنتی ہیں۔

شرعی نصوص و احکامات کی مکمل چھان بین، تحقیق، مطالعہ اور تامل اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ شریعت انسان کی ضروری، حاجتی اور اصلاحاتی تمام قسم کی مصلحتوں کے حصول کے لیے آتی ہے اور تمام کے تمام شرعی احکامات ان مصلحتوں کے حصول کے لیے لاگو کئے گئے ہیں کوئی بھی شرعی حکم اور اس کا پابند کئے جانے کا مقصد صرف اور صرف ان مصلحتوں میں سے کسی ایک مصلحت کا حصول یا ایک سے زائد مصلحتوں کا حصول ہوتا ہے تاکہ شریعت تمام قسم کی مصلحتوں کے حصول کی کفیل اور ضامن بن جائے۔ لہٰذا شریعت اسلامیہ کا ان مصلحتوں کی حفاظت اور لحاظ کے لیے اپنایا گیا منہج دو بنیادی طریقوں پر مشتمل ہے۔

اول: ایسے احکامات لاگو کرنا جو ان مصلحتوں کے حصول، ان کی افزائش، توفیر اور وجود کو مامون بنائیں۔

دوم: ایسے احکامات لاگو کرنا جو ان مصلحتوں کی حفاظت، نگہداشت اور اسے بیرونی دراندازیوں سے محفوظ بنائیں اور ان میں کسی قسم کے نقص اور کوتاہی کے دروازے بند کریں اور ان کے کسی صورت میں تلف ہونے یا ضائع ہونے کی صورت میں اس کے عوض اور بدلے کی ادائیگی کی ضمانت دیں۔ (۱۶)

اس سے ہی حقوق انسان محفوظ کئے جا سکتے ہیں اور ان کی حفاظت بھی کی جا سکتی ہے اور لوگ ان سے مستفید بھی ہو سکتے ہیں اور ان کی عملی طور پر زندگی میں تربیت اور عمل درآمد کرنے سے ان سے مستفیض ہو سکتے ہیں۔

دین کی حفاظت

دین اختیار کرنے کاحق انسان کی ضروری مصلحتوں میں شمار ہوتا ہے کیونکہ وہ انسان کے اپنے رب سے تعلقات استورا کرنے کا مستوجب ہے انسان کے اپنے نفس کے ساتھ تعلقات اور انسان کے دوسرے انسان اور معاشرے سے تعلقات استوار کرتا ہے یعنی دین حق انسان کو خالق کائنات، زندگی اور انسان سے متعلق مکمل تصور دیتا ہے کیونکہ وہ حق و عدل، استقامت اور بھلائی کا مصدر ہے۔

جس دین کا ہم ذکر کر رہے ہیں اس سے مراد صرف اور صرف دین اسلام ہے جس کا مطلب انسان کا خود کو مکمل کا مکمل اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دینا ہے تمام انبیاء کرام نے اسی کی جانب دعوت دی ہے اور ہمارے پروردگار نے اپنے اس فرمان میں اس دین کی تخصیص کی ہے۔

إِنَّ الدِّينَ عِنْدَ اللَّهِ الْإِسْلَامُ

بیشک اللہ تعالیٰ کے نزدیک دین اسلام ہی ہے۔ (۱۷)

اللہ تبارک وتعالیٰ نے احکامات صادر فرما کر ان احکامات کو بیان کرنے، وضاحت کرنے کی ذمہ داری خود لی۔

ارشاد خداوندی ہے:

وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ

جو شخص اسلام کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے اس کا دین قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہوگا۔ (۱۸)

اور اللہ تعالیٰ نے پابندیوں اور مسئولیت کو دین کے اس بیان و توضیح سے متعلق کیا ہے فرمایا:

وَمَا كُنَّا مُعَذِّبِينَ حَتَّى نَبْعَثَ رَسُولًا

اور ہماری سنت نہیں کہ رسول بھیجنے سے پہلے ہی عذاب کرنے لگیں۔ (۱۹)

شریعت نے عقیدہ و ایمان کے مکمل احکامات متعدد آیات میں بیان فرمائے ہیں اور اسلام نے ارکان خمسہ بیان کرنے کے بعد عبادات کی اقسام اور ان کی کیفیات بیان فرمائی ہیں تاکہ دلوں میں دین کی افزائش اور بڑھوتری ہو دلوں میں راسخ ہونے کے بعد زندگی اور معاشرے میں لاگو ہوں اور دنیا کے کونے کونے تک وہ پھیلیں اسی کی جانب دعوت و تبلیغ کو اللہ تعالیٰ نے حکمت اور موعظہ حسنہ کے ساتھ بلانے کا حکم دیا ہے تاکہ لوگوں کو اندھیروں سے نکالا جاسکے۔

اسی دین کی حفاظت، اس کی رعایت اور اس کی سلامتی کی ضمانت نیز اس پر دراندازی روکنے اور اس دین کو فتنوں سے مامون رکھنے کے لیے جہاد فی سبیل اللہ کا حکم نازل کیا گیا۔ فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَقَاتِلُوهُمْ حَتَّى لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ لِلهِ

ان سے لڑو جب تک فتنہ نہ مٹ جائے اور اللہ تعالیٰ کا دین غالب نہ آجائے۔ (۲۰)

اور فرمایا:

وَجَاهِدُوا فِي اللهِ حَقَّ جِهَادِهِ

اور اللہ کی راہ میں ویسا ہی جہاد کرو جیسے جہاد کا حق ہے۔ (۲۱)

اور مزید حکم دیا:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ

اے نبی! کافروں اور منافقوں سے جہاد جاری رکھو اور ان پر سخت ہو جاؤ۔ (۲۲)

اسی لیے اسلام نے مرتد کی سزا متعین فرمائی کیونکہ اس کا مرتد ہونا دین سے کھیل اور اس کے مقدسات سے مذاق کرنے کا موجب ہے۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:

وَمَنْ يَرْتَدِدْ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَيَمُتْ وَهُوَ كَافِرٌ فَأُولَئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَأُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُون

اور تم میں سے جو لوگ اپنے دین سے پلٹ جائیں اور اسی کفر کی حالت میں مریں ان کے اعمال دینوی اور اخروی سب غارت ہو جائیں گے یہ لوگ جہنمی ہوں گے اور ہمیشہ ہمیشہ جہنم میں ہی رہیں گے۔ (۲۳)

آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے فرمان کی روشنی میں کہ

مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوه

جو اپنے دین کو بدلے اسے قتل کرو۔ (۲۴)

تمام فقہاء کرام کا مرتد کے قتل پر اتفاق ہے۔

آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

لَا يَحِلُّ دَمُ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا بِإِحْدَى ثَلَاثٍ: الثَّيِّبُ الزَّانِي، وَالنَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَتَارِكٌ لِدِينِهِ الْمُفَارِقُ لِلْجَمَاعَةِ

کسی مسلمان شخص کا خون حلال نہیں مگر تین صورتوں میں شادی شدہ زانی، نفس کے بدلے نفس اور اپنے دین کو ترک کرنے جماعت سے مفارقت کرنے والےکا۔ (۲۵)

اسلام نے اس دین کی حفاظت کے لیے بدعتی کی سزا تجویز کی ہے اسی طرح دین سے انحراف کرنے والوں کی اور تارک نماز، مانع زکاۃ، رمضان میں روزہ خور کے مؤاخذہ کرنے کے احکامات جاری کئے ہیں اور جو دین کے ضروری اور اہم ارکان کا انکار کرتا ہے یا اس حوالے سے جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کی بھی پکڑ کا حکم ہے تاکہ لوگوں کو عقائد میں عقل دوڑانے، ایمان کے سر چشموں سے کنارہ کشی اختیار کرنے سے روکا جائے تاکہ شرک کے مفاسد اور شیاطین کے وسوسوں سے محفوظ رہ سکیں اور انہیں انحراف و گمراہی میں پڑنے سے بچایا جائے تاکہ عقل طاغوت کی بندگی، عبادات میں اس کی غلام نہ بن جائے اسلام اس کے ذریعے بشریت (نوع انسائی) کو باطل عقائد، مصنوعہ عبادات، گھٹیا اور بے ہودہ ترغیبوں سے نجات دلا کر صحیح عقائد کی جانب رہنمائی کرتا ہے۔ (۲۶)

اسلام نے محض دین کی ایجاد اور اس کی حفاظت کے لیے ہی احکام وضع نہیں کئے بلکہ ایسی حاجات کے مطابق احکامات جاری کئے تاکہ حفاظت کے ساتھ احسن و اعلیٰ صورت میں باقی رہ سکیں اس لیے اسلام نے عبادات و عقائد میں رخصتیں جاری کی تاکہ مؤمنین سے مشقت اور تنگی کو زائل کیا جا سکے اور ان پر آسانی کی جائے اس لیے مجبوری کی حالت میں کلمہ کفر کہنے کی اجازت دی رمضان میں عذر کے باعث روزہ چھوڑنے کی اجازت دی نماز کے قصر اور جمع کرنے کے، مسافر اور حاجی کے لیے احکامات متعین کئے، عاجز اور بیمار شخص کو بیٹھ یا لیٹ کر نماز ادا کرنے کی اجازت دی اور اسی طرح موزوں پر مسح کی اجازت دی۔

پھر اسلام نے دین کی حفاظت کے لیے چند اصلاحی احکامات بھی جاری فرمائے ہیں اللہ تعالیٰ نے عبادات میں مختلف احکامات لاگو کئے تاکہ عبادت اچھے طریقے سے ادا ہو جائے جیسا کہ طہارت، ستر پوشی، بناء مساجد اور ان کا احترام، عبادات کا اہتمام جس کے لیے آذان جو کہ اسلام کا شعیرہ ہے توحید خالص کے اعلان کے لیے نماز باجماعت مشروع کی گئی اور اسکے لیے صف بندی، جمعہ کا خطبہ ، عیدین کا خطبہ لوگوں کو دین و دنیا کی تعلیم، جہاد میں عورتوں، بچوں، راہبوں کے قتل کو حرام قرار دینا، درختوں کے کاٹنے کی ممانعت، کھیتوں کے اجاڑنے کی ممانعت، دھوکے کی ممانعت، مثلی کرنے کی ممانعت، قیدیوں کے بارے میں احسان کا معاملہ کرنا، تبلیغ سے پہلے جنگ نہ کر، دین میں زبردستی کی ممانعت یہ امور ہمیں انسانی حقوق کی بنیادی چیز کی تفصیل بیان کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔ یعنی دین کا حق۔

دین کے اختیار کا حق، اعتقاد کی آزادی کا حق انسان کی زندگی کے بعد یعنی جان کے بعد یہ اہم ترین حقوق میں شمار ہوتا ہے اگرچہ یہ معنوی طور پر اس سے بھی بڑھ کر ہے کیونکہ دین کا حق ضروریات خمسہ سے ہے اور یہ دین کی اہم ضروریات میں سے ہے اسے زندگی کے حق پر بھی مقدم رکھا گیا ہے اس لیے دین کی حفاظت اس کی نشر و اشاعت کے لیے جہاد فرض کیا گیا دعوت اور دین کی حفاظت کے لیے شہادت پر تحریض دلائی گئی تاکہ عقیدے کی آزادی کی ضمانت مل سکے دین داری کے حق کی حفاظت ہو تاکہ انسان اپنے عقیدے اور دین سے تعلق جوڑتے ہوئے عزت و احترام کی زندگی گزار سکے۔

بالخصوص جب وہ دین حق ہو جو اللہ تعالیٰ کی جانب سے نازل کیا گیا ہے تحریف سے پاک ہے فطرت اور حالات سے میچ رکھتا ہو کائنات، انسان اور زندگی کے صحیح تصور کو اجاگر کرتا ہو۔

دین داری کا حق عقل و فکر سے مرتبط ہے ارادے کی آزدی، اختیار اور انسان کے شخصی قناعت سے تعلق رکھتا ہے عقیدہ دل سے نکلتا ہے اور اس پر اللہ کے علاوہ کسی کو اختیار حاصل نہیں ہے اس لیے قرآن کریم نے عقائد کی آزادی اور دین اختیار کرنے کے حق سے متعلق صراحت سے بیان فرمایا ہے گمراہی اور فساد سے ڈرایا۔

فرمان باری تعالیٰ ہے:

لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ قَدْ تَبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ

دین کے بارے میں کوئی زبردستی نہیں ہدایت ضلالت سے روشن ہو چکی ہے۔ (۲۷)

ینز فرمایا:

وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَآمَنَ مَنْ فِي الْأَرْضِ كُلُّهُمْ جَمِيعًا أَفَأَنْتَ تُكْرِهُ النَّاسَ حَتَّى يَكُونُوا مُؤْمِنِين

اور اگر آپ کا رب چاہتا تو تمام روئے زمین کے لوگ سب کے سب ایمان لے آتے تو کیا آپ لوگوں پر زبردستی کر سکتے ہیں یہاں تک کہ وہ مؤمن ہی ہو جائیں۔ (۲۸)

اسلام نے دین حق کی جانب رہنمائی فرمائی ہے کیونکہ یہ دین فطرت ہے۔

فرمان الٰہی ہے:

فِطْرَتَ اللَّهِ الَّتِي فَطَرَ النَّاسَ عَلَيْهَا لَا تَبْدِيلَ لِخَلْقِ اللَّهِ ذَلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ

اللہ تعالیٰ کی وہ فطرت ہے جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے اللہ تعالیٰ کے بنانے کو بدلنا نہیں یہی سیدھا دین ہے۔ (۲۹)

پھر اللہ تعالیٰ ان لوگوں کو ڈرایا جو صحیح ایمان اور شریعت مطہرۃ سے اعراض کرتے ہیں فرمان خداوندی ہے:

وَقُلِ الْحَقُّ مِنْ رَبِّكُمْ فَمَنْ شَاءَ فَلْيُؤْمِنْ وَمَنْ شَاءَ فَلْيَكْفُر

اور اعلان کر دیجئے کہ یہ سراسر برحق قرآن تمہارے رب کی طرف سے ہے اب جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔ (۳۰)

کیونکہ انسان بنیادی طور پر فطرت پر پیدا ہوتا ہے پھر اسے انسانی فعل یا شیطانی وسوسوں سے تبدیل کرتا ہے فرمان نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے:

كُلُّ مَوْلُودٍ يُولَدُ عَلَى الْفِطْرَةِ، فَأَبَوَاهُ يُهَوِّدَانِهِ أَوْ يُنَصِّرَانِهِ أَوْ يُمَجِّسَانِهِ

ہر پیدا ہونے والا بچہ فطرت پر پیدا ہوتا ہے اس کے والدین اسے یہودی، نصرانی یا مجوسی بنا دیتے ہیں۔ (۳۱)

اسلام نے جہاں مسلمان کو عقیدے کی آزادی کی ضمانت دی ہے اور دین پر کسی کو مجبور کرنے سے منع فرمایا ہے وہاں دیگر تمام ادیان سے نرمی اور تعاون کے معاملے کا حکم دیا ہے اس چیز کی مثال تاریخ نے آج تک نہیں دیکھی۔

مراجع و مصادر

۱۔ القاموس المحیط 1/327 مادہ قصد، معجم المقالیس اللغۃ: 5/95، المصباح المنیر 2/691، مختار الصحاح ص 536، تہذیب الاسماء واللغات 2/93

۲۔ مقاصد الشریعۃ الاسلامیہ الطاہر بن عاشور ص 13، الاصول العامہ لوحدۃ الدین الحق د/وھبۃ الزحیلی

۳۔ شجرۃ المعارف والاحوال ص 401

۴۔ ضوابط المصلحہ/ ڈاکٹر محمد سعید رمضان البوطی ص 45، الفتاوی الکبری 20/148، السیاسۃ الشرعیہ

۵۔ صحیح البخاری رقم الحدیث 5665، اخرجہ بلفظ ’’تری المومنین۔۔۔۔‘‘ وامام مسلم بہذا اللفظ رقم الحدیث 2586

۶۔ اعلام الموقعین 3/5

۷۔ سورۃ النساء آیت 82

۸۔ القواعد الفقہیہ علی المذھب الحنفی و الشافعی ص: 436، المادۃ: 78 من مجلۃ احکام العدلیۃ

۹۔ قواعد الاحکام للعز بن عبدالسلام ص 71 حقوق الانسان فی الاسلام ڈاکٹر وھبہ الزحیلی ص 80

۱۰۔ روضۃ الناظر وجنۃ المناظر لابن قدامۃ ص

۱۱۔ المستصفیٰ 1/286 الموافقات للشاطبی 2/4، اصول الفقہ عبدالوہاب خلاف ص 199 ط8، الاصول العامۃ لوحدۃ الدین الحق للزحیلی ص 6061

۱۲۔ المستصفیٰ 1/287

۱۳۔ المستصفیٰ 1/288، فلسفہ العقوبۃ للشیخ محمد ابو زھرۃ ص 42

۱۴۔ المستصفیٰ 1/289

۱۵۔ الموافقات للشاطبی 2/6، علم اصول الفقہ للخلاف ص 200

۱۶۔ الاصول العامۃ لوحدۃ الدین الحق ص 65، الموافقات 2/5

۱۷۔ سورۃ آل عمران 19

۱۸۔ سورۃ آل عمران 85

۱۹۔ سورۃ بنی اسرائیل 15

۲۰۔ سورۃ البقرۃ 193

۲۱۔ سورۃ الحج 78

۲۲۔ سورۃ التوبہ 73

۲۳۔ سورۃ البقرۃ 217

۲۴۔ اخرجہ الام البخاری رحمہ اللہ 3/1098 رقم الحدیث 2854، مسند احمد رحمہ اللہ 1/282۔ 5/231، نیل الاوطار 7/201

۲۵۔ اخرجہ البخاری 6/2521 رقم: 6484 ومسلم 11/164 رقم 1676

۲۶۔ المستصفیٰ 1/287، الموافقات 2/15، ضوابط المصلحۃ ص 119

۲۷۔ سورۃ البقرۃ 256

۲۸۔ سورۃ یونس 99

۲۹۔ سورۃ الروم 30

۳۰۔ سورۃ الکھف 29

۳۱۔ اخرجہ الامام البخاری 1/456 رقم 1292، ومسلم 16/207 رقم 2658

—–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے