دنیا مسلمانوں سے اور مسلمان دینی مدارس سے قائم و دائم ہیں۔ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جس میں اسلام نے انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں نہ صرف راہنمائی کی ہے بلکہ اسے عروج پر پہنچانے کے لئے بھی راہ ہموار کی ہے اور باقی تمام اَدیان کی نسبت صرف اسلام ہی ایک ایسا دین ہے جو عقلِ سلیم اور فطرتِسلیمہ کے مطابق ہے، جس کا اعتراف اسلام دشمن مستشرقین بھی کرچکے ہیں۔

آج ہم اور ہمارامعاشرہ مختلف مسائل میں گھرا ہوا ہے اور ہر فرد اپنی جگہ پریشان اور غیر مطمئن زندگی گزار رہا ہے۔جس کی حقیقی وجہ دین سے دوری ہے یعنی اسلام کو عملی طور پر ترک کرنا۔اگر آج ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہم مطمئن زندگی گزاریں اور ہماری اَولاد ہماری فرماں بردار ہو، ہر طرف اَمن و امان کا چرچا ہو، عزت ووقار دوبارہ حاصل ہو، ہماری معیشت اور معاشرت ترقی کرے، ہمیں سکون اور چین نصیب ہو، ہم دنیا پر غالب آجائیں تو اس کے لئے ضروری ہے کہ ہم غیر مسلموں کی غلامی کا طوق گلے سے اُتار پھینکیں اور

لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اﷲِ اُسْوَة حَسَنَة

(الأحزاب :۲۱)

کو عملی طور اپناتے ہوئے اپنی زندگیوں کو ڈھال لیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کو اپنا کر اس کے مطابق لوگوں کی بھی راہنمائی کریں کہ اسی میں ہی ہماری کامیابی و کامرانی کا راز پنہاں ہے۔

آج مادہ پرستی کے اس دور میں جب دولت کی ہوس اور دنیا کی محبت نے انسان بلکہ مسلمانوں کو اسلام سے دور کردیا ہے، کچھ افراد ایسے بھی ہیں جو صرف قرآن وسنت کو تھامے ہوئے نظر آتےہیں۔ ان کے اقوال و اعمال سے اسوۂ حسنہ کی خوشبو آتی ہے اور وہ اپنے کردار کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کردار کے مطابق بنانے میں مصروف عمل ہیں۔ عمومی طور پر جب لوگ دنیا کی خاطر اپنے گھر بار چھوڑ رہے ہوتے ہیں تو یہ لوگ قرآن وسنت کاعلم سیکھنے کے لئے گھروں سے نکلتے ہیں۔ آسائشات دنیا کو ترک کرکے اسلام کی سربلندی کے لئے اپنی توانائیاں صرف کرنے کی کوششیں کرنے میں نظر آتے ہیں۔ یہ مدارس میں پڑھنے اور پڑھانے والے لوگ ہیں۔

میری اس تمہید کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ دینی جامعات میں داخلہ کی اہمیت و ضرورت کیاہے؟ اور کیا ہماری پہلی ترجیح دینی جامعات ہی ہونی چاہئیں؟ کیا یہ ہمارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں؟ کیا صحیح اور حقیقی علم کے وارث یہی ہیں؟ کیا صحیح راہنمائی کے اہل یہی لوگ ہیں؟ کیا ہمارے مسائل کا صحیح حل انہی کے پاس ہے؟

اور سچ تو یہ ہے کہ ان تمام سوالات کا جواب ’ہاں‘ میں ہی ہونا چاہیے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد مبارک ہے:

اَلْعُلَمَاءُ وَرَثةُ الاَنْبِيَاءِ (سنن أبو داود:3641)

علماء انبیاء کے وارث ہیں۔

دینی مدارس ہر دور میں معاشرے کا ایک لازمی جزوِر ہیں اور ان کی اہمیت و ضرورت سے کوئی ذی عقل سلیم و صاحب فطرت سلیمہ انکار کر ہی نہیں سکتا گو کہ کچھ روشن خیال، ملحد جدت پسند، احساس کمتری کا شکار لوگ اس کو ختم کرنے یا کم از کم اس کی حقیقی شکل مسخ کرنے کے درپے ہیں، لیکن میں یہ کہتا ہوں کہ آج کے دور میں ان کی ضرورت و اہمیت اور زیادہ ہوگئی ہے، کیونکہ آج اگر دیکھا جائے تو پوری دنیا میں مسلمان ریاستیں جس طرح منظم انداز میں عالم کفر کی چہار اطراف یلغار کا سامنا کر رہی ہیں جس کی واضح مثال فلسطین، افغانستان، عراق، شام، الجزائر، مالی، سوڈان، مصر وغیرہ ہیں اور اُن کے علاوہ غیر مسلم ریاستیں جیسے ہندوستان الغرض جہاں جہاں بھی مسلمان رہ رہے ہیں وہ کسی نہ کسی صورت میں ذلت کی زندگی گزار رہے ہیں۔ جبکہ مسلمانوں کے پاس معدنی وسائل کا بے پناہ ذخیرہ پایا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود امریکہ کی غلامی میں عافیت سمجھی جاتی ہے اور اسے اپنا آقا ومالک سمجھ کر اس کے تلوؤں میں زندگی گزارنے کو اپنے لئے قابل فخر سمجھا جاتا ہے۔ امریکہ جو کہ یہود کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے اس کی غاصبیت اور جبر وتشدد و ظلم کے خلاف اگرہمیں کہیں سے راہنمائی مل سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف دینی مدارس ہیں جو ہمیں ان کی غلامی سے نکال کر ایک خالق ومالک کی غلامی میں داخل کرسکتے ہیں اوریہی حقیقی کامیابی و کامرانی ہے۔ اس لیے کہ دنیاوی جامعات میں تو صرف کورس ہی ختم کروایا جاتا ہے اور یہ بتایا جاتا ہے کہ کس طرح اچھے نمبر لینے ہیں اور کیسے اچھی نوکری حاصل کرنی ہے اور دنیا کے حصول میں کس طرح آگے بڑھا جا سکتا ہے وہاں اسلام اور مسلمانوں کا کوئی عمل دخل نہیں کہ پڑھانے والے 99 فی صد خود مغربی افکار سے متاثر اور صرف نام نہادمسلمان ہیں۔

اس دور میں جب ہمارے حکمران اپنے آپ کو امریکہ کا غلام بنانے میں فخرمحسوس کرتے ہیں عوام کے لئے اور زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ ان کے نظریات کی مخالفت کرتے ہوئے اپنے بچوں کو صحیح اسلامی نہج پر چلانے اور دین و دنیا کی کامیابی کے لئے اسلامی تعلیمات سے روشناس کروائیں تاکہ وہ دین حق کو سمجھیں اور اس کے راستے پر چلتے ہوئے مستقبل میں نہ صرف ایک اچھے داعی مبلغ بنیں بلکہ لوگوں کی راہنمائی کافریضہ بھی احسن طریقے سے ادا کریں۔

علاوہ ازیں آج کے دور میں معاشی مسئلہ کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اکثر لوگوں کاخیال ہے کہ اگر ہمارے بچے سکول کی تعلیم حاصل کریں گے تو زیادہ بہتر طریقے سے روزی کما سکیں گے اور معاشرے میں ان کو زیادہ قدر کی نگاہ سے دیکھاجائے گا، لیکن اللہ تعالیٰ کا فرمان کچھ اس طرح ہے:

وَمَا مِنْ دَآبَّة فِیْ الاَرْضِ إلَّا عَلَی اﷲِ رِزْقُھَا

اور زمین پر کوئی چلنے پھرنے والا نہیں مگر اس کا رزق اللہ کے ذمے ہے۔ (ہود :6)

اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ و سلم ہے:

ثُمَّ یَقُوْلُ یَا رَبِّ مَا رِزْقُہُ، مَا اَجَلُہُ، مَا خُلُقُہُ، ثُمَّ یَجْعَلُہُ ﷲ شَقِیًّا أوْ سَعِیْدًا(صحیح مسلم: :2645)

پھر فرشتہ کہتا ہے اس کا رزق کتنا ہے۔ اس نے کب مرنا ہے اور اس کا اخلاق کیسا ہے پھر اللہ اسے نیک یا بدبخت بنادیتاہے۔ (یعنی پیدا ہونے سے پہلے ہی سب کچھ لکھ دیا جاتاہے۔)

ان کے علاوہ اور بھی بہت سی آیات اور احادیث اس چیز پردلالت کرتی ہیں کہ انسان کو رزق صرف وہی ملتا ہے جو کہ اس کے لئے لکھا جا چکا ہے لہٰذا اس کے لئے پریشان ہونا اور صرف اسی کے حصول میں زندگی گزار دینا عبث معلوم ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں یہ بھی دیکھنے میں آیاہے کہ سکولوں، کالجوں سے فارع ہونے والے طلباء بہ نسبت مدارس کے زیادہ بے روزگار ہوتے ہیں جب کہ ان کے مقابلہ میں جو طلبہ مدارس سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں جلد ہی ان کواپنی اپنی قابلیت کے مطابق مناسب جگہ مل جاتی ہے گو کہ زیادہ تر طلبہ مدارس یا مساجد میں ہی خدمات انجام دیتے ہیں لیکن ان کی معقول تعداد کمرشل اداروں میں بھی خدمات انجام دے رہی ہے۔جب کہ دنیاوی جامعات سے فارغ ہونے والے طلبہ نوکریوں کی تلاش میں سرگرداں رہنے کے بعد جب کوئی سرکاری ملازمت حاصل کرتے ہیں تو اس کو اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔ حالانکہ ملازمت کے بعد گورنمنٹ کی ہر غلط و صحیح پالیسی کو ماننا اور اس کے مطابق عمل کرنا ان کے لئے ضروری ہوجاتا ہے۔ اس طرح سے ان کے ضمیر کی آواز دب کر رہ جاتی ہے اور ایک کام کو نہ چاہتے ہوئے بھی انہیں کرنا پڑتاہے۔ اس کی مثالیں ہمیں پاکستان میں بہت زیادہ مل سکتی ہیں جن میں سے ایک واضح مثال روشن خیالی کے سابقہ خبیث مستبد کے دور میں لال مسجد اورجامعہ حفصہ کے خلاف فوج اور پولیس کا ایکشن ہے۔ جس کے بعد یہ لوگ نہ صرف معاشرے میں اپنا وقار کھو بیٹھے ہیں ۔

انسان کی انفرادی اور معاشرتی زندگی میں اَخلاقیات کا بہت گہرا عمل دخل ہے اس حوالے سے بھی دینی مدارس ہی سب سے آگے نظر آتے ہیں دینی مدارس سے فارغ طلبہ عمدہ اخلاق کا پیکر ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان ہوتا ہے کہ:

إِنَّمَا بُعِثْتُ لاُتَمِّمَ مَکَارِمَ الاَخْلَاقِ

تحقیق میں اعلیٰ اخلاق کی تکمیل کے لئے مبعوث کیا گیا ہوں۔ (سنن الکبری للبیہقی)

اس کی سب سے واضح مثال یہ دی جا سکتی ہے کہ عمومی طور پر اگر روشن خیالی کے سابقہ خبیث مستبدّ کے دور کی ترجیحات کو نکال دیا جائے تو دینی مدارس کے فارغ طلبہ کہیں بھی نقص امن کے حوالے سے نظر نہیں آئیں گے جبکہ اس کے برخلاف دنیاوی جامعات کے طلبا ء کی ہر تھانے میں شکایات کی بھرمار ہوتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دینی مدارس بچوں کی اس نہج پر تربیت کرتے ہیں کہ جس سے معاشرے کا امن و اَمان بحال رہتا ہے۔ انھیں بتایا جاتا ہے کہ تشدد اور دہشت گردی کی اسلام میں ہرگز گنجائش نہیں ہے اور اگر کوئی اس قسم کی سرگرمی میں ملوث ہو توہوسکتا ہے کہ وہ دنیا کی سزا سے بچ جائے، لیکن قیامت کے دن قائم ہونے والی اللہ کی عدالت میں انھیں ضرور جواب دہ ہونا ہے کہ جس دن نہ رشوت کام آسکے گی اور نہ ہی کوئی سفارش۔ ہرایک کو اس دن اس کاپورا پورا بدلہ ملنا ہے:

فَـمَنْ یَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّۃٍ شَرًّایَّرَہٗ ( الزلزال:8)

جس نے ایک ذرہ برابر بھی بُرائی کی وہ اسے پالے گا۔

چنانچہ ہرایک کو اپنے کئے کی سزا ملنی ہے اور اسی یقین کے ساتھ کہ ہم نے اللہ کے سامنے ایک دن ہر عمل کا جواب دینا ہے، وہ غلط قسم کی سرگرمیوں میںملوث نہیں ہوتے۔

دورِ جدید میں میڈیااور سوشل میڈیابہت اَہم کردار اداکررہے ہیں اور ان کے اثرات بالواسطہ یا بلاواسطہ معاشرہ میں موجود ہر آدمی تک پہنچ رہے ہیں بلکہ جو بات میڈیا پر آجاتی ہے اس کو ہی عام طور پر صحیح اور سچ تسلیم کیا جاتا ہے اور بطورِ دلیل اسے پیش بھی کیا جاتا ہے۔ جہاں بعض ٹی وی چینلزاور رسائل وجرائد خالص قرآن و سنت کی تبلیغ و اشاعت میں دن رات مصروف عمل ہیں وہاں اکثریت ایسے چینلجز اور رسائل و اخبارات کی ہے جو عالم کفر کے ایجنڈے کے تحت اسلامی تعلیمات کو غلط رنگ دے رہے ہیں جس کی نمایاں مثال نام نہاد مسلم توہین صحابہ کے مرتکب مسلم سکالرز جو موسیقی اور جوئے کے ذریعے رمضان میں بھی اسلام کے تقدس کو مسخ کرنے میں مصروف عمل ہیں اور کوشش ہوتی ہے کہ کسی طریقے سے اسلام میں خامیاں نکالنے میں کامیاب ہوجائیں۔ تاکہ یہ باور کرایا جاسکے کہ (نعوذ باللہ) اسلام ایک نامکمل دین ہے اور ہماری ہر معاملہ میں راہنمائی نہیں کر سکتا۔

بعض لوگوں نے مخصوص افراد کو ہی دین کا ٹھیکے دار سمجھ رکھا ہے۔ خصوصا جو لوگ میڈیا پر زیادہ آتے ہیں ان کی ہر بات کو بلا دلیل و حجت تسلیم کر لیا جاتا ہے ۔ان کا خیال یہ ہوتا ہے کہ ٹی وی پر آنے والا ہر شخص بہت بڑا عالم ہے اور یہ کبھی غلط بات نہیں کر سکتا ۔جب کہ ہوتا یہ ہے کہ وہ سوچی سمجھی سازش کے تحت لوگوں کو دین سے دور کر رہے ہوتے ہیں اور غیر مسلموں کے افکار و نظریات کو فروغ دے رہے ہوتے ہیں۔ ان تمام باتوں سے نمٹنے کے لئے بھی مدارس میں ایسی تعلیم دی جاتی ہے کہ جس سے طلبہ کو یہ بات ذہن نشین کرائی جاتی ہے کہ دین کسی ایک فرد کےقول و فعل کا نام نہیں بلکہ امام مالک رحمہ اللہ کے فرمان کے مطابق کہ:

إنما انا بشر أخطئ وأصیب فانظرونی رأیی فکلما وافق الکتاب والسنة فخذوہ وکلما لم یوافق فاترکوہ [جلب المنفعۃ،ص68]

میں تو انسان ہوں صواب اور خطا دونوں کو پہنچتا ہوں، آپ میری رائے میں دیکھا کریں جو بات قرآن و حدیث کے موافق ہو اس کو لے لیں اور جو خلاف ہو اسے چھوڑ دیں۔

اور مزید فرمایا:

مامن أحد إلا یؤخذ من قولہ ویرد إلا قول صاحب ھذا القبر (تفسیر ابن کثیر:541، سلسلۃ الصحیحۃ للألبانی تحت رقم:520)

کسی بھی (فقیہ یا عالم) کا قول قبول بھی کیا جاسکتا ہے اور رد بھی سوائے اس قبر والے کے۔ (یعنی محمد صلی اللہ علیہ و سلم )

لہٰذا دینی مدارس خصوصا اہلحدیث مدارس کا نصاب تعلیم ایسی خصوصیات کا حامل ہے کہ جس میں شخصی تقلید کے بجائے یہ بتایا جاتا ہے کہ کسی کے قول کے صحیح یا غلط ہونے کے لئے معیار اورپیمانہ صرف اور صرف کتاب و سنت ہے۔ جس کی بات کتاب وسنت کے موافق ہوگی اس کو قبول کرلیا جائے گااورجس کی بات کتاب وسنت کے خلاف ہو اس کو چھوڑ دینا واجب ہے۔اسی طرح دورِجدید میں اِسلام مخالف قوتیں کون کون سے طریقے استعمال کر رہے ہیں ان سے بھی طلبہ کوآگاہ کیا جاتا ہے۔

ہماری نوجوان نسل کے بگڑنے کا ایک بہت بڑا سبب تربیت کافقدان ہے چونکہ عام طور پر ہماری نوجوان نسل کی تربیت صحیح طریقے اور صحیح منہج پرنہیں ہوپاتی اس لئے وہ غیر ضروری سرگرمیوں میں حصہ لیتے ہیں اور اپنے اصل مقصد اور ہدف کو بھول جاتے ہیں۔ جس کی وجہ سے وہ معاشرے پر نہ صرف بوجھ بن جاتے ہیں بلکہ بعض اوقات ملک اورمعاشرے کے لئے سنگین مسائل بھی پیدا کرتے ہیں۔ لہٰذا ضروری ہے کہ نوجوان نسل کی صحیح طریقے سے تربیت ہو تاکہ وہ اپنے اور ملک و قوم کے لئے سود مند زندگی گزارنے کے قابل ہوسکیں۔

مدارس دینیہ کا معاشرے میں اس حیثیت سے بھی اہم کردار ہے کہ وہ اپنے طلبہ کی قرآن وسنت کے مطابق تربیت کرتے ہیں۔ جس سے طلباء معاشرے میں قابل فخرفرد کی حیثیت سے سامنے آتے ہیں۔ جس سے معاشرہ ترقی بھی کرتا ہے اور اس کا امن و اَمان بھی بحال رہتا ہے۔

اور اگر میں یہ کہوں کہ دنیا میں اسلام کو اگر زندہ رکھا ہی صرف دینی مدارس نے ہے تو یہ مبالغہ آرائی نہیں کیوں کہ بیسویں صدی میں جہاں جہاں کمیونسٹ حکومتیں تھی وہاں وہاں مسلمانوں کو اپنے دین و مذہب پر عمل پیراہونے کے لیے جن آزمائشوں سے گذ رنا پڑا وہ نہ صرف اسلامی بلکہ انسانی تاریخ کا ناقابل یقین حصہ تھا، بڑے ہی کٹھن مراحل سے وہاں کے مسلمانوں کو گذرنا پڑا، ان لوگوں نے تہہ خانوں میں چھپ چھپ کر اپنے ایمان کی حفاظت کی اور اپنے بچوں کو قرآن مجید سکھایا جبکہ ان کے لیے قرآن مجید کے مصاحف کو اپنے گھروں میں رکھناایسا ناقابل معافی جرم تھا کہ اس کی سزا پھانسی سے کم نہیں تھی۔

مسلمانوں پر انسانیت سوز مظالم کی کچھ اسی طرح کی داستان ماضی قریب میں سوویت یونین یعنی روس کی مسلم ریاستوں کی بھی رہی ہے ازبکستان، قزاقستان ، ترکستان ، تاجکستان، آذربائیجان اور کرغیزیا وغیرہ میں مسلم اکثریتی آبادی کے باوجود اسلام پر عمل پیرا ہونا تو درکنار غلطی سے نام لینا بھی اس ملک کے خلاف بغاوت سے بھی بڑا جرم تھا، وہاں کے دینی مدارس پر جو آج برصغیر میں دیوبند وندوہ سے بھی بڑے اور قدیم وتاریخی تھےتالے لگائے گئے، مساجدکو آثار قدیمہ میں بدل دیا گیا، اذان پر پابندی تھی، قرآن مجید کی تلاوت و اشاعت ممنوع تھی، شعائراسلام کے اظہار پر امتناع تھا، لیکن ان روسی مسلمانوں نے پہاڑوں کی چوٹیوں میں جاجا کر اور قبرستانوں میں بڑے بڑے گڈھے کھود کر اور اس میں چھپ چھپ کر نہ صرف اپنے بلکہ اپنی نئی نسلوں کے ایمان کو محفوظ رکھا، مجھے میرے ایک ہم جماعت جو کہ ازبکستان سے تعلق رکھتا تھا بتایا کہ میرے گھر میں قرآن مجید نہیں تھا بلکہ سورۃ الاسراء کے چند اوراق ہی تھے جو ہمارا اسلام سے تعلق قائم رکھے ہوئے تھے ہمیں دین اسلام کے احکامات سے قطعا ناواقفیت تھی نماز روزہ وغیرہ کا ہمیں بالکل علم نہیں تھا وہ طالب علم رو پڑتا تھا جب ہم اس کو پاکستان کے احوال بتاتے تھے اور اس نے بتایا کہ ہمارے گھر میں ایک تہہ خانہ تھا اور ہم باری باری جاتے تھے اس قرآن مجید کے ان چند اوراق کو دیکھتے، چومتے اور واپس آجاتے تھے کہ ہمیں پڑھنا نہیں آتا تھا بس ہمارا اسلام کے ساتھ یہی تعلق تھا یہ تو جہاد افغانستان کے بعد روسی ریاستیں آزاد ہوئی تو پھر صورت حال بدلی؟ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اسپین میں ایسا کیوں نہیں ہوا؟

چین ہو یاروس کی مسلم ریاستیں، ترکی کی عثمانی خلافت ہو یامشرق بعید کی اسلامی حکومتیں ، سب جگہ اسلام کو دبانے کی کوشش کی گئیں اور کچھ مدت تک ان سب جگہوں پر مسلمان مغلوب و مظلوم بھی رہے ، لیکن اسلام کا سورج پہلے سے زیادہ آن بان اور بہتر شان کے ساتھ وہاں دوبارہ طلوع ہوا لیکن اس سوال نے مجھے ایک طویل عرصے تک بے چین کیے رکھا

اندلس یعنی موجود اسپین میں بھی 711ء سے 1492ء تک 781سال مسلسل مسلمان پوری آزادی سے وہاں حکومت کرتے رہے،

غور کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ روسی ریاستیں اور چینی علاقوں میں اس وقت یہاں کے مسلمانوں نے دینی تعلیم کے مدارس ومراکز کے قیام پر پوری توجہ دی تھی، جس کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بخارا میں 167 دینی مدارس (ح)قرغیزیا میں 23 مدارس اور اوفا جو کہ بشکریا کا دارالحکومت بھی تھا اس میں 6220 مدراس جس میں ابتدائی،ثانوی اور اعلی سب شامل ہیں (المسلمون فی الاتحاد السوفیتی ،ص 65) اسی طرح بیسویں صدی کی ابتداء میں چین میں مساجد جو کہ ابتدائی مدارس کا کام بھی کرتے تھے ان کی تعداد 40327 تھی جس میں سے بکین کا مدرسہ المعلمین، شنگھائی میں مدرسہ المسلمین الاسلامیہ اور سیجوان کا مدرسہ المعلمین الاسلامیہ بونغاو میں مدرسہ الاخلاق الاسلامیہ قابل ذکر ہیں۔

گویا اس وقت ان علاقوں کے مسلمانوں کو اسلام کی طرف واپس لانے میں انہی دینی مدارس نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے گو کہ دیگر عوامل بھی کارفرما ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ اہم مدارس کا وجود ہے کیونکہ اسپین کے مسلمانوں کی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو وہاں ان دینی مدارس کے علاوہ ہر چیز نظر آتی ہے جس میں مساجد بھی شامل ہیں اور مساجد کا وہی کردار ہے جس میں نمازوں کا اہتمام شامل ہے یعنی مساجد کا اس طرح جامعیت کے ساتھ تعلیمی میدان میں کوئی عمل دخل نہیں رہا لہذا یہ کہا جا سکتا ہے مدارس کی کمی ہی نےنہ صرف ان کو اس الحاد و ارتداد تک پہنچایا کہ ان کی نسلیں اسلام کی طرف دوبارہ لوٹنا تو درکنار اسلام کا نام بھی بھول گئیں۔ اس خیال کی تائید اس سے بھی ہوئی کہ علامہ اقبال جب اسپین کےدورہ سے واپس آئے تو انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں سے صاف کہا کہ یہاں سے اگر ہمارے دینی مدارس و مکاتب کا یہ سلسلہ ختم ہوجائے گا تو صاف سن لو کہ ہمارے ملک کی بھی وہی حالت ہوجائے گی جو میں اسپین میں دیکھ کر آیاہوں کہ دینی مدارس نہ ہونے کی وجہ سے آج وہاں مسلمانوں کا نام و نشان بھی نہیں رہا ہے اس لیے اے مسلمانو! ان مدارس و مکاتب کو اسی حالت میں رہنے دو، بلکہ کہا جاتا ہے کہ اسپین کے دورہ سے قبل علامہ اقبال مرحوم ہمارے ان مدارس کے بارے میں کچھ اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے لیکن اسپین کے دورہ نے ان دینی مدارس کی اہمیت ان کےدل میں بٹھا دی۔

روسی اور چینی ریاستوں کا اندلس کے علاقوں کے ساتھ اس تقابل سے یہ بات تو واضح ہو جاتی ہے ان علاقوں میں اسلام کے احیاء میں ہمارے ان مدارس کا کس قدر بنیادی اوراہم کردار ہے اور عالم اسلام میں ہمیں اس وقت نظر آنے والے غیر متزلزل اور قابل رشک ایمان کی جھلکیاں ہمارے ان مدارس ہی کی بدولت نظر آرہی ہیں۔

عالم اسلام کے موجودہ ناگفتہ بہ حالات پر جب ہم بصارت کے بجائے بصیرت کی نگاہ دوڑاتے ہیں توصاف محسوس ہوتا ہے کہ اس وقت خالص دین اور حقیقی اسلام صرف ہمارے ان دینی مدارس ہی کی بدولت قائم ہے، تھوڑی دیر کے لیے ہم یہ تصور کر لیں اگر اس وقت روئے زمین پر دینی مدارس کی شکل میں دین کے یہ قلعے نہ ہوتے اور علماء یہاں سے فارغ ہو کر امت کی رہنمائی نہیں کرتے تو مسلمانوں کا اس وقت کیا حال ہوتا، ظاہر بات ہے کہ حق و باطل کے ساتھ خلط ملط ہوجاتا، حلال کے نام پر حرام کی ترویج ہوتی، روشن خیالی اور ترقی پسندی کے نام سے غیر اسلامی وغیرشرعی چیزوں کو بھی اسلام اور شریعت کانام دیا جاتا، احکام و مسائل کی تحقیق صحیح قرآنی و نبوی ہدایات کے مطابق نہیں ہوتی، شریعت کی تشریح ایک مذاق بن کر رہ جاتی اور ان سب کے نتیجہ میں دین سے مسلمانوں کی وابستگی برائے نام رہ جاتی۔

برصغیر کےعلماء کے قائم کیے ہوئے انہی مدارس کی وجہ سے نہ صرف مغربی تہذیب و ثقافت سے ملت اسلامیہ کو دور رکھنے میں بہت حد تک کامیابی ہوئی بلکہ شرک و کفر کی آلودگیاں واضح کرنے میں بھی قابل ذکر کامیابیاں حاصل ہو رہی ہیں۔ یہاں اسلامی حکومت کےنہ ہونے کے باوجود ہمارے ان دینی مدارس کی وجہ سے آج پورے عالم اسلام میں تمام بڑی دینی تحریکات اٹھانے کی کامیابی ملی ۔

دینی تعلیم کے دنیاوی فوائد:

گو کہ دینی تعلیم کاحصول دراصل اپنے ایمان کی حفاظت کے لیے ہوتا ہے اور اس پر اللہ تعالی کی طرف سے جو وعدے کیے گئے ہیں اس کا تو مشاہدہ مرنے کے بعد ہی ہوسکتا ہے لیکن اس زمانے میں دینی تعلیم کے فوائد کچھ دنیا میں بھی ظاہر ہو رہے ہیں جس کی ایک کیفیت دنیاوی تعلیمی ادارے بھی اپنے نصاب میں اسلامی مضامین کو داخل کر رہے ہیں اور اپنے تعلیمی اداروں کو اسلام کے نام سے مشرف بہ اسلام کر رہے ہیں اور اس کے علاوہ ایسے سکول جن میں عصری تعلیم کے ساتھ قرآن مجید کے حفظ اور دینی مضامین کے نام پر احادیث ،فقہ ، سیرت اور تاریخ کے موضوعات شامل نصاب ہیں۔

مدارس کا کوئی متبادل نہیں:

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دین کی باتوں سے واقفیت اور احکام شریعت پر عمل کے لیے مطلوبہ ضروری معلومات کانام ہی دینی تعلیم ہے اس کے لیے تو خود ذاتی مطالعہ اور مساجد کے دروس اور وعظ ہی کافی ہیں لیکن دینی تعلیم حقیقت میں ایسی مہارت کا نام ہے جس کے لیے باقاعدہ مدارس کا قیام عمل میں آتا ہے، دراصل دینی مدارس اس سے بھی بڑھ کر ایک عظیم مقصد کو حاصل کرنے کےلیے قائم کیے جاتے ہیں، جہاں شریعت پر گہری نگاہ اور قرآن وحدیث کی تعلیمات سے واقفیت رکھنےوالے اور سب سے بڑھ کر امت مسلمہ ہی کی نہیں بلکہ پوری انسانیت کی زندگی کے ہر میدان میں رہنمائی کرنے والے علماء پیدا کئےجاتے ہیں، جب جب بھی اسلام کےنام سے اس کی غلط ترجمانی کرنے والے میدان میں آتےہیں تو مدارس کے یہی علماء اس کا مقابلہ کرتے ہوئے قبلہ نما بن کر سامنے آتے ہیں اور اسلام کی صحیح منشاء وروح کی ترجمانی کرتے ہیں، وہ اس خلائی سٹیلائٹ کی طرح ہوتے ہیں جو خلاء میں رہ کر پوری دنیا کی ایک ایک حرکت پر نگاہ رکھتا ہے، ہمارے علماء بھی دینی سٹیلائٹ بن کرامت کی ایک ایک حرکت پر وہ مؤمنانہ فراست کے ساتھ دوربیں نگاہ رکھتے ہیں کہ کہیں امت بہک نہ جائے اور راہ راست سے نہ ہٹ جائے، اس پر ان کو وہ فوراً متنبہ کرتے ہیں، بسااوقات جب غلط افکار و نظریات کی اسلام کے نام سے تشریح کرتے ہوئے پانی سر سے اونچا ہو جاتاہے تو یہی علماء خود میدان میں آکر الحاد ی افکار وغلط نظریات کے طوفان بلاخیز کے دھارے کو موڑ دیتے ہیں اور وہ مادی منافع اور عامۃ الناس کی تعریف و توصیف سے بے پرواہ ہو کر صر ف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کےلیے حقیقت دین سے بندگان خدا کو واقف کرانے کا فریضہ انجام دیتے ہیں۔

خالص اسلامی اسکول بھی مدارس کی جگہ نہیں لے سکتے:

برصغیر پاک و ہند میں انگریز وں کی آمد سے قبل یہاں کا نظام تعلیم مثالی تھا لیکن انہوں نے یہاں اپنا تسلط مضبوط کرنے کے لیے اس مثالی نظام تعلیم کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا دینی تعلیم اور دنیاوی تعلیم۔ یہ تقسیم اب دو متوازی کناروں کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اس فرق کو ختم کرنے کے لیے کچھ افراد نے نئی نسل کو الحادی وغیر اسلامی افکار و نظریات سے محفوظ رکھنے اور خالص دنیاوی تعلیمی اداروں (جن سے پڑھنے کے بعد مسلمان گھرانے میں جنم لینے والا نوجوان صرف نام کا مسلمان باقی رہ جاتا ہے) سے بچانےاورایمان پر باقی رکھنے کے لیے مسلم تعلیمی درسگاہوں کا قیام تیزی سے عمل میں آرہا ہے جو بظاہر بڑی خوش آئند بات ہے اور ملت کی ایک بڑی اہم ضرورت کی تکمیل ہے، یہ الگ بات ہے کہ اس میں سے بہت سارے اسکولوں وکالجز کومسلم تعلیمی ادارے تو کہہ سکتے ہیں اسلامی ادارے نہیں، سوائے اس کے کہ اس کو چلانے والے مسلمان ہیں اس کے علاوہ اس کی کوئی امتیازی مذہبی شان نہیں ان میں سوائے چند ایک کو مستثنیٰ کرکے سب میں غیر دینی نصابی و ثقافتی سرگرمیاں ہوتی ہیں جن کا اسلام سے دوردور تک تعلق نہیں ہوتا، لیکن اگر بالفرض تھوڑی دیر کے لیے ہم مان بھی لیں کہ ہمارے بچے خالص اسلامی بنیادوں پر قائم اسلامی اسکولوں و کالجز میں ہی پڑھ رہے ہیں اور اس طرح کے اداروں کی ایک بڑی تعداد الحمدللہ ملک و بیرون ملک میں بھی پائی جارہی ہے تب بھی یہ اسلامی عصری تعلیمی ادارے ہمارے دینی مدارس کا متبادل نہیں بن سکتے، عام طور پر عام مسلمانوں کو یہ غلط فہمی ہوجاتی ہے کہ اس طرح کے اسلامی اسکولوں میں اپنے نونہالوں کو انہوں نے داخل کرکے ان کو دینی تعلیم سے بھی آراستہ کرلیا، حالانکہ یہ تو بقدر ضرورت صرف ایمان پر باقی رکھنے والی اسلامی تعلیم دی جاتی ہے،قرآن وحدیث میں ایک عالم دین کے لیے جو فضائل اور ان کی خصوصیات بیان کی گئی ہیں اس سعادت کوآپ ان اسلامی اسکولوں سے بھی حاصل نہیں کرسکتے اگرچہ آپ کا بچہ ان اسکولوں سے فارغ ہو کر اچھی عربی بولنےلگے اور قرآن کی کچھ سورتوں کے اس کو تراجم بھی یاد ہوجائیں ، وہ نماز روزے کا پابند ہوجائے اور دیکھنے میں ایک عالم کی طرح نظر بھی آئے لیکن وہ 12؍13 سال تک مسلسل مدرسہ میں وقت لگا کر فارغ ہونے والے کسی عالم دین کے برابر نہیں ہوسکتا، چاہے وہ خود اپنے کو اور دنیا والے اس کو شریعت کا ماہر اور عالم سمجھیں، لیکن وہ زیادہ سے زیادہ ایک اچھا مسلم اسکالر کہلا سکتا ہے اس سے زیادہ نہیں۔

مدارس کی ضرورت قیامت تک:

راقم کا ایک طویل زمانے تک یہی خیال تھا کہ دینی مدارس کے نصاب میں ترمیم کرکے اس کو وقت کے تقاضوں کے مطابق کرلینا چاہیے ان میں عصری علوم کی بھی اس طرح آمیزش ہونی چاہیے کہ ہمارے مدارس کے فارغین دنیاوی میدان میں کسی کے دست نگر یا محتاج نہ ہوں اور معاشی اعتبار سے بھی خود کفیل ہوں،اور ہمارے فضلاء وقت کے تقاضوں کے مطابق تیار ہوسکیں جہاں تک اس ترمیم میں انگریزی اور کمپیوٹر کی تعلیم کی بات تھی تو سمجھ میں آتی ہے لیکن اس کے علاوہ حکومتی سطح اور غیر حکومتی سطح پر نام نہاد سکالرز کی جو ترمیمات ہمارے سامنے آتی ہیں ان کو اپنانے کے بعد تو مدارس کی شکل و صورت ہی بگڑ جاتی ہے۔ لیکن گزرتے وقت کے ساتھ مدارس کے نظام نصاب میں تبدیلی کا یہ تصور غلط ہوتا جا رہا ہے مدارس کو اپنی اسی روایتی طرز پر ہی باقی رہنا چاہیے البتہ دنیاوی تعلیم کا حصول ایک مستحسن امر ہے جس کی بہر حال حوصلہ افزائی کی جانی چاہیے لیکن دینی تعلیم سے الگ اس کا بندوبست ہونا چاہیے۔

اس کے پس منظر میں مدارس کی خالص دینی تعلیم کو عصری علوم کے اختلاط سے آلودہ کرکے مدارس کو اس کے اصل روح سے ہٹانے اور اس کے بنیادی مقاصد سے ان کو دور رکھنےکی ایک منصوبہ بندکوشش ہوتی ہے جس کو ہم اپنی سادہ لوحی سے سمجھ نہیں پاتے ، مدارس کا کام ملک کا نظم و نسق چلانے والے I.A.S افسران پیدا کرنا، اچھے دیندار ڈاکٹر یا انجینئر بنا کر ان کو معاشرے کی خدمت میں لگانا، اچھے تاجر و سماجی کارکن یا سیاسی لیڈر بناکر میدان عمل میں لاکر پیش کرنا نہیں، اس کے لیے ملک کے دوسرے ادارے وتنظیمیں ہیں جنہوں نے اپنے ذمہ یہ کام لیا ہے، ہمارے مدارس کا قیام شریعت کے ماہرین اور دین کے متخصصین پیدا کرنے کے لیے ہوا ہے، دینی مدارس تو در اصل ملت اسلامیہ کی اس ضرورت کی تکمیل کا سامان فراہم کرتے ہیں جس کا حکم اللہ رب العزت نےسورہ توبہ کے اخیر میں پوری امت کو مخاطب کرکے دیا ہے کہ تم میں سے ہر قوم میں ایک ایسی جماعت ضرور ہونی چاہیے جودین کی گہری سمجھ حاصل کرے اور دعوت کا فریضہ انجام دے:

فَلَولا نَفَرَ‌مِن كُلِّ فِر‌قَةٍ مِنهُم طائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهوا فِى الدّينِ وَلِيُنذِر‌وا قَومَهُم إِذا رَ‌جَعوا إِلَيهِم لَعَلَّهُم يَحذَر‌ونَ

قرآن حکیم کے مطابق ہر زمانے میں علماء کی اس جماعت کی ضرورت رہے گی اور قیامت تک اسلام پر بقاء کے لیے ایسے علماء کا وجود ملت کے لیے ناگزیر ہوگا، ہمارے دینی مدارس الحمدللہ اپنے اسی فریضہ کو پورا کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور اپنی انتظامی و تربیتی کمزوریوں کے باوجود جس کا خود انہیں احساس ہے اس کی اصلاح کی بھی کوشش کررہے ہیں، الحمدللہ ذمہ داران مدارس بھی اپنی بصیرت و فراست کے ذریعہ دشمنوں کی ان چالوں کو سمجھنے کے باوجود عالمی سطح پر رونما ہونے والے واقعات و حالات کے پس منظر میں دینی تعلیم کی روح کو باقی رکھتے ہوئے اس دینی تعلیم نظام کو بہتر سے بہتر بنانے کی بھی کوشش کررہے ہیں جس سے فارغین مدارس دعوتی میدان میں اور بہتر طریقہ پر اپنے فرائض کو انجام دے سکیں لیکن اسی کے ساتھ ہمیں سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ قرآن مجید میں بیان کئے گئے ایسے علماء جو ملت کی ناگزیر ضرورت ہیں دینی مدارس کےبجائے کیا مسلم اسکولوں واسلامی کالجس یا یونیورسٹیوں سے پیدا ہونے کی ہم امیدرکھیں یا پھر ایسے مدارس سے جوحدسے زیادہ عصری علوم کی شمولیت کے ساتھ نہ گھر کے نہ گھاٹ کے مصداق بن کر سامنے آرہے ہیں ، یادر کھیئے ایسے علماء خالص دینی تعلیم کے ان مدارس ہی سے پیدا ہوئے ہیں اور پیدا ہوں گے، غرض یہ کہ ہمارے یہ دینی مدارس ہی ہیں جو آج ہندوستان کو اندلس بننے سے اور یہاں اس کی تاریخ دہرانے کی دشمنوں کی شاطرانہ چالوں کو کامیاب ہونے سے روکے ہوئے ہیں، اس لیے ان مدارس کی حفاظت و وکالت ہم سب کا ملّی فریضہ ہے۔

دینی مدارس کی اہمیت کا پہلو ایک اور زاویہ سے لگایا جا سکتا ہے دنیا کی فلاح کسی مسلمان کا مقصودِ حقیقی ہے، یا آخرت کی فلاح؟ کیا اللہ نے دنیا کو انسان کی آسائش وآرائش کے لئے پیدا کیا ہے یا اپنی بندگی کے لئے؟ جس کا نتیجہ آخرت میں ثواب وعقاب کی صورت میں ملے گا۔ اسلام کا یہ موقف بڑا واضح ہے جس پر قرآن کی سیکڑوں آیات موجود ہیں۔

اب جو ھدف انسان کی پہلی ضرورت اور خالق کا پہلا تقاضا ہے، اس کو ہی پہلے سیکھنا ضروری ہوگا۔ ظاہر ہے کہ انسان کی پہلی ضرورت اللہ کی بندگی اور آخرت کی کامیابی ہے، دنیا میں انسان اللہ کی اطاعت وبندگی کے لئے ہی آیا ہے، اس لئے پہلے اسے سیکھنا ہوگا۔ اور جب اسلام دنیا کی زینت کو ناجائز قرار نہیں دیتا تو اس حد تک سہولیات کے ان علوم کو سیکھنا بھی جائز ہوگا۔

آج ہم دنیوی لحاظ سے مغلوب ہیں اور دینی لحاظ سے بھی محروم۔ اس لئے صرف دنیوی غلبہ کے خاتمہ سے آغاز کرنے کی بجائے پہلے علومِ اسلامیہ کے احیا اور اس کو زندہ کرنے پر توجہ صرف کرنا ہوگی اورپھر دیگر علوم کی تحصیل۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ میں تشریف آوری کے بعد سب سے پہلے اللہ سے تعلق مستحکم کرنے والی مسجد ِنبویؐ تعمیر کی اور اپنے صحابہ کو اللہ کی بندگی کے آداب سکھائے۔ دورِ نبوی میں مدنی معاشرہ میں تمدنی سہولیات نہ ہونے کے برابر تھیں، لیکن عمر رضی اللہ عنہ کا دور آنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں اسلامی معاشرہ مثالی بنتا گیا، توں توں نظم وانتظام اور شہری سہولیات کے میدان میں بھی ترقی کی گئی اور ہرشعبۂ زندگی کی تنظیم ہوئی۔ اسی طرح ملت اسلامیہ نے پہلے کتاب وسنت کے علوم کو منظم ومدون کیا اور امت اسلامیہ کا علوم کا سنہرا دور قرآن وسنت کے علوم کی ترقی کا ہی زمانہ ہے۔

اسی لیے ہی اسلام نے خیر القرون دورِ نبوی کو قرار دیا ہے جس میں اللہ کی بندگی کی صورتحال سب سے مثالی رہی، جب کے ا س دو رکا مدینہ منورہ بنیادی شہری سہولیات سے مزین نہ تھا۔ اس کے بالمقابل آج کی مغربی تہذیب لندن اورپیرس کو بہترین شہر اور موجودہ دور کو بہترین دورقرار دیتی ہے، کیونکہ اس میں خواہش نفس کی تسکین بخوبی ہوتی ہے اور دنیوی زندگی آرائش وآسائش کے ساتھ بسر ہوتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے