اسلام میں علم اور علم حاصل کرنے کی بہت فضیلت آئی ہے کیونکہ علم ہی انسان کو اچھائی اور برائی نیکی و بدی اور خیر و شر میں تمیز کرنا سکھاتا ہے انسان کو گمراہی سے نکال کر ہدایت کے راستے پر علم ہی چلاتا ہے۔

غرض علم ہی اللہ کی پہچان اور اس کے احکام جانتے اور معلوم کرنے کا واحد ذریعہ ہے اسی بنا پر اسلام نے علم کے حصول پر لوگوں کو ابھارا اور اس کی نشر و اشاعت کی ترغیب پر زور دیا ہے مزید یہ کہ افضلیت اور فوقیت کا مستحق بھی اہل علم کو قرار دیا ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الَّذِينَ يَعْلَمُونَ وَالَّذِينَ لَا يَعْلَمُونَ (سورۃ الزمر: 9)

آپ کہہ دیجئے کہ علم والے اور بےعلم کیا برابر ہیں؟

یعنی کہ عالم اور جاہل کبھی برابر نہیں ہو سکتے بلکہ اہل علم کے درجات بلند کرنے کا اللہ نے وعدہ کیا ہے۔

فرمان ربانی ہے:

يَرْفَعِ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ ۙ وَالَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ (المجادلہ 11)

اللہ تعالیٰ تم میں سے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ہیں اور جو علم دیئے گئے ہیں درجے بلند کر دے گا۔

دین کا علم حاصل کرنا یہ وہ سعادت ہے جو خوش نصیب شخص کو ہی حاصل ہوتی ہے اس لیے کہ اللہ رب العزت جس سے خیر و بھلائی کا ارادہ کرتے ہیں اسی کو دین کی سمجھ بوجھ عطا فرماتے ہیں۔

جیسا کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:

مَنْ يُرِدِ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ

(صحيح البخاري (1/ 25)، صحيح مسلم (2/ 718)

جس شخص کے ساتھ اللہ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔

اس حدیث سے یہ امر واضح ہو جاتا ہے کہ جو لوگ اللہ کے دین کو حاصل کر رہے ہوتے ہیں یہ لوگ اللہ کے منتخب کردہ لوگ ہوتے ہیں جن سے اللہ نے بھلائی کا ارادہ کیا ہوتا ہے صرف یہی نہیں بلکہ اس راستے کو اختیار کرنے کی بدولت اللہ رب العزت جنت کا حصول آسان فرما دیتے ہیں اور انسان اپنی زندگی کے اصل مقصد میں کامیاب ہو جاتا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:

مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا يَلْتَمِسُ فِيهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللَّهُ لَهُ طَرِيقًا إِلَى الجَنَّةِ (سنن الترمذي ت شاكر (5/ 28)

جو شخص علم (دین) کی تلاش کے لیے کسی راستے پر چلے تو اللہ اس کے لیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں۔

جو شخص علم دین میں سمجھ حاصل کر کے لوگوں کو اس کی تعلیم دیتا ہو یا اس کی نشر و اشاعت کرتا ہو اس کی مثال ایک سر سبز و شاداب خطے کی طرح ہے جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے کہ اللہ نے مجھے جو ہدایت اور علم دے کر بھیجا ہے اس کی مثال ایک زور دار بارش کی طرح ہے جو برستی ہے تو عمدہ زمین اس کو قبول کر کے گھاس اور خوب سبزی اگا دیتی ہے اور کوئی زمینی خطہ ایسا بھی ہوتا ہے جو سخت ہونے کی بنا پر پانی روک لیتا ہے جس کے ذریعے اللہ لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔

وہ اس کو پیتے اور پلاتے ہیں اور اپنے کھیتوں کو سیراب کرتے ہیں مگر بعض خطے ایسے بھی ہوتے ہیں جو بالکل چٹیل ہوتے ہیں جو نہ تو پانی روک سکتے ہیں اور نہ گھاس بھوس اگا سکتے ہیں تو یہ مثال ہے اس شخص کی جس نے اللہ کے دین میں سمجھ داری حاصل کی اور میرے پیغام کے ذریعے اسے فائدہ پوا اس طرح اس نے اس علم کو خود سیکھا اور دوسروں کو سکھایا اور (تیسری) مثال اس شخص کی ہے جس نے (اس علم کی خاطر) اپنا سر ہی نہیں اٹھایا اور میرے ذریعے بھیجی ہوئی اللہ کی ہدایت کو قبول ہی نہیں کیا۔ (صحیح بخاری کتاب العلم)

اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جو لوگ دین کا علم حاصل کرتے ہیں اور اس پر عمل کرنے اور دوسروں کو بھی اس کی تعلیم دینے کے علاوہ قرآن و حدیث کے فیض کو زیادہ سے زیادہ عام کرتے ہیں وہ لوگ سب سے بہتر ہیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  کا فرمان ہے:

مَنْ خَرَجَ فِي طَلَبِ العِلْمِ فَهُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ حَتَّى يَرْجِعَ (سنن الترمذي ت شاكر (5/ 29)

جو شخص علم کی جستجو میں نکلتا ہے تو وہ لوٹنے تک اللہ کی راہ میں ہوگا۔

سیدنا ابو امامہ t سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: عابد پر عالم کی فضیلت ایسے ہی ہے جیسے میری فضیلت تمہارے ایک آدمی پر ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ اس کے فرشتے اور آسمان و زمین کی مخلوق حتی کہ چیونٹی اپنے بل میں اور مچھلی تک لوگوں بھلائی سکھانے والوں پر رحمت بھیجتی اور دعائیں کرتی ہیں۔ (ترمذی، ابواب العلم)

اس حدیث میں عالم سے مراد قرآن و حدیث کا وہ عالم ہے جو فرائض و سنن کی پابندی کے ساتھ تعلیم و تعلم میں  مصروف رہتا ہے اور عابد سے مراد وہ شخص ہے جو اکثر و بیشتر اپنا وقت ذکر و اذکار میں گزارتا ہے اور اس کا فائدہ اس کی ذات تک محدود رہتا ہے جبکہ عالم کے علم کا فیض دوسروں تک بھی پہنچتا ہے۔

دین کا علم حاصل کرنا تمام مسلمانوں پر فرض ہے۔

‏ جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:‏

طَلَبُ الْعِلْمِ فَرِيضَةٌ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ (ابن ماجه (1/ 81)‏

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔

اور پھر دین کا علم حاصل کرنا یہ ایک بہت بڑی سعادت وخوش نصیبی ہے اوپر ذکر کی گئیں فضیلت اور سعادتیں اسی شخص کے لیے ہیں جو اس علم کو حصول ‏رضا الٰہی کے لیے حاصل کرے اور اخلاص کے ساتھ اس کی نشر و اشاعت اور ترویج کرنے کی سعی کرے اور جو شخص اپنی اولاد کو اس علم کے حاصل ‏کرنے کے لیے وقف کرے گا اس کے لیے ان شاء اللہ اس کی یہ اولاد صدقہ جاریہ بن جائے گی اور اس مختصر زندگی کے خاتمے کے بعد بھی ان شاء اللہ ‏اس کو اس کا اجر و ثواب ملتا رہے گا۔‏

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا فرمان ہے:‏

‏ إِذَا مَاتَ الْإِنْسَانُ انْقَطَعَ عَمَلُهُ إِلَّا مِنْ ثَلَاثَةٍ: مِنْ صَدَقَةٍ جَارِيَةٍ، وَعِلْمٍ يُنْتَفَعُ بِهِ، وَوَلَدٍ صَالِحٍ يَدْعُو لَهُ (سنن النسائي (6/ 251)‏

جب انسان مر جاتا ہے تو اس کے عمل کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب اسے ملتا رہتا ہے ایک صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے فائدہ اٹھایا جائے یا ‏نیک اولاد جو اس کے لیے دعائے خیر کرتی رہے۔

اسلام میں تعلیم اور دعوت الی اللہ کی بہت اہمیت ہے اگر کسی کی دعوت سے ایک شخص بھی ہدایت یافتہ بن گیا تب بھی وہ شخص کامیاب و کامران ہو جائے گا ‏جیساکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک مرتبہ سیدنا علی‏ سے اس طرح فرمایا: اللہ کی قسم تمہارے ذریعے اللہ اگر کسی ایک آدمی کو بھی ہدایت دے دے تو ‏یہ تمہارے لیے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہوگی۔ (مسلم فضائل صحابہ)‏

یعنی دنیا و آخرت کی خوش نصیبی و کامیابی اللہ کے دین کے حصول اور اس پر عمل کرنے پر محیط ہے لہٰذا ہمیں خود اور اپنی اولاد کو اللہ کے اس دین کے علم کا ‏طالب بننا چاہیے تاکہ دنیا و آخرت کی سعادتیں اور کامرانیاں حاصل کرسکیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے