علم قرآن و سنت کے حصول کے لئے سرکردہ رہنے والے لوگ یقیناً بڑے خوش نصیب ہیں کہ اللہ نے عظیم ترین کام کے لئے ان کا انتخاب کیاہے۔کیونکہ علم بہت بڑی نعمت ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ہر شے سے پہلے علم ہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید کی پہلی وحی کا سب سے پہلا لفظ اقراء ہے، یعنی پڑھ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم اُمّی پیدا ہوئے اور سب سے پہلی وحی میں ہی انہیں پڑھنے کا حکم دیا جارہا ہے اس سے اس کی حیثیت اور اہمیت واضح ہوگئی۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں باب قائم کیا ہے:باب العلم قبل القول والعمل اور اس باب میں یہ آیت ذکر کی

(فَاعْلَمْ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا اللّٰهُ) (محمد:19)

اس سے استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں: فبدأ بالعلم یعنی اللہ تعالی نے توحید کے ذکر سے پہلے علم حاصل کرنے کے حکم سے ابتداء کی۔

معلوم ہوا کہ علم سب سے پہلے ہے۔اسی لئے ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: دنیا اور اس کی تمام چیزیں ملعون ہیں البتہ اللہ کا ذکر اور اس کی معاون چیزیں اور عالم یا متعلم اللہ کے نزدیک محبوب ہیں۔ (ترمذی : 2322، ابن ماجۃ: 4112)اور ایک روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے طالب علم کے لئے یہ نوید بھی سنائی کہ جو حصول علم کی راہ پر چلتا ہے اللہ اس کے لئے جنت کی راہ آسان کردیتا ہے اور ایسی مجلسوں کو اللہ کی رحمت کے فرشتے ڈھانپ لیتے ہیں اور اللہ ایسے لوگوں کا فرشتوں کے سامنے ان کا ذکر کرتا ہے۔ (مسلم:2699) بلکہ اہل علم کی شان کاا یک انداز یہ ہے کہ اللہ نے قرآن مجید میں اپنی توحید کی گواہی خود دی اور پھر اس گواہی میں مزید فرشتوں اور اہل علم کا بھی تذکرہ گیا چناچہ ارشاد باری تعالی ہے:

(شَهِدَ اللّٰهُ اَنَّهٗ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ ۙ وَالْمَلٰۗىِٕكَةُ وَاُولُوا الْعِلْمِ قَاۗىِٕمًۢا بِالْقِسْطِ ۭ لَآ اِلٰهَ اِلَّا ھُوَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ) (آل عمران :18)

اللہ نے خود بھی اس بات کی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں، اور فرشتوں نے بھی اور اہل علم نے بھی راستی اور انصاف کے ساتھ یہی شہادت دی ہے کہ اس کے سوا کوئی الٰہ نہیں ۔ وہی زبردست ہے، حکمت والا ہے۔

اس آیت کے حوالے سے امام ابن القیم aفرماتے ہیں ’’اللہ تعالی نے اہل علم کے بارے میں عظیم ترین چیز کی گواہی دی وہ ہے توحید۔اور ان کی گواہی کو فرشتوں کی گواہی سے ملادیا یعنی اس ضمن میں اللہ تعالی ان کی تعدیل بھی کردی۔اس لئے کہ اللہ کسی مجروح کی گواہی نہیں دے سکتا۔‘‘ (مدارج السالکین )

اور علم کی ضرورت کے حوالے سے کیا ہی عمدہ قول امام احمد رحمہ اللہ کا ہے ،فرماتے ہیں :’’لوگ علم کے کھانے پینے سے زیادہ محتاج ہیں ۔اس لئے کہ کوئی شخص کھانے پینے کا دن میں ایک یا دو مرتبہ محتاج ہوتا ہے۔اور علم کی ضرورت اسے اس کے ہر سانس کے ساتھ پڑتی ہے۔امام ربیعہ فرماتے ہیں کہ

العِلْمُ وَسِيْلَةٌ إِلَى كُلِّ فَضِيلَةٍ. (سیر اعلام النبلاء)یعنی علم ہی ہر فضیلت کا سبب ہے۔(مدارج السالکین : 470/2)

بہرحال ہم نے بطور تمہید ان فضائل کی طرف اشارہ کیا ہے ورنہ علم کے فضا ئل تو بہت ہیں ۔یہاں ہم اس مضمون میںدر اصل چند نصائح تحریر کرنا چاہتے ہیں، جوکہ اپنی ذات کے لئے بھی ہیںاور ان تمام خوش نصیب لوگوں کے لئے ہیں، جنہیں اللہ نے دین کے تعلیم و تعلم کے لئے چن لیا ہے ۔

(1)علم نافع کی طلب کا ہی ذوق ہونا چاہئے:

حصول علم کے وقت ہماری نظر اس چیز پر ضرور ہونی چاہئے کہ ہم جس علم کو حاصل کررہے ہیں وہ نافع ہے یا نہیں ۔یعنی ہمارے لئے مفید بھی ہے یا نہیں ،اب ظاہر سی بات ہے ایک فائدہ دنیا کا عارضی ہے اور دوسرا آخرت کا دائمی فائدہ ہے ۔لہذا ہمیں وہی علم حاصل کرنا چاہئے جو اخروی فوائد رکھتا ہے۔اور حقیقی علم وہی ہے جس کےحصول سے انسان میں تقوی اور اللہ کی خشیت ،اچھا اخلاق اور صالحیت آجائے۔یہی وجہ ہے کہ قرآن مجید میں اللہ تعالی نےاہل علم کا وصف بیان کیا کہ وہ اللہ سے ڈرنے والے ہیں چناچہ فرمان الہی ہے

: (اِنَّمَا يَخْشَى اللّٰهَ مِنْ عِبَادِهِ الْعُلَمٰۗؤُا اِنَّ اللّٰهَ عَزِيْزٌ غَفُوْرٌ )

بلاشبہ اللہ کے بندوں میں سے اس سے ڈرتے وہی ہیں جو علم رکھنے والے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ یقینا ہر چیز پر غالب اور بخشنے والا ہے۔(فاطر:28)

یہی وجہ ہے کہ ایک حدیث میں تین اعمال کا ذکر ہے کہ انسان کے خاتمے کے بعد ان کا ثواب جاری رہتا ہے:

سیدناابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :جب انسان مر جاتا ہے تو تین اعمال کے علاوہ تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں صدقہ جاریہ یا وہ علم جس سے نفع اٹھایا جائے یا نیک اولاد جو اس کے لئے دعا کرتی رہے۔(مسلم :1631)

اس حدیث میں شرط یہ لگائی کہ ایسا علم جس سےفائدہ حاصل کیا جارہا ہو۔مطلب یہ کہ علم نافع ہی کا ثواب جاری رہے گا اوراگر حاصل کیا گیاعلم ، علمِ نافع نہیں تھا،تو اس کا یہ فائدہ نہیں ہوگا۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے علم کی مثال دی جس سے علم کے نافع و غیر نافع ہونے کے مفہوم کو سمجھا جاسکتاہے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:

ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ جو علم اور ہدایت اللہ تعالیٰ نے مجھے عطاء فرما کر مبعوث فرمایا ہے اس کی مثال اس بارش کی طرح ہے جو زور کے ساتھ زمین پر برسے، جو زمین صاف ہوتی ہے وہ پانی کو پی لیتی ہے اور بہت گھاس اور سبزہ اگاتی ہے اور جو زمین سخت ہوتی ہے وہ پانی کو روک لیتی ہے، پھر اللہ تعالیٰ اس سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے وہ اس کو پیتے اور جانوروں کو پلاتے ہیں اور کھیتی کو سیراب کرتے ہیں اور کچھ بارش زمین کے ایسے حصے کو پہنچے کہ جو بالکل چٹیل میدان ہو، نہ وہاں پانی رکتا ہو اور نہ سبزہ اگتا ہو، پس یہی مثال ہے اس شخص کی جو اللہ کے دین میں فقیہ ہو جائے اور اس کو پڑھے اور پڑھائے اور مثال ہے اس شخص کی جس نے اس کی طرف سر تک نہ اٹھایا اور اللہ کی اس ہدایت کو جس کے ساتھ میں بھیجا گیا ہوں، قبول نہ کیا۔(صحیح بخاری: 79)

امام حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں :فقیہ، دین کا عالم اور دنیا سے بے رغبت ہوتا ہے اور اپنے رب کی عبادت میں مشغول ہوتا ہے۔(شعب الایمان )

امام حسن بصری رحمہ اللہ ہی کا قول ہے : بغیر علم کے عمل کرنے والا شخص ایسا ہے کہ جیسے کوئی بغیر کسی راستے کے چل رہا ہو۔اور بغیر علم کے عمل کرنے والا اکثر عبادات غلط ہی کرے گا۔علم حاصل کرو کہ اس کے طلب سے عبادت میں کمی نہ آئے۔اور عبادت کو حاصل کرو اس کے کرنے سے حصول علم میں کمی نہ آئے۔کچھ لوگ عبادت کو حاصل کرتے ہیں مگر علم کو چھوڑدیتے ہیں حتی کہ وہ تلواریں لے کر امت محمدیہ کے مقابلے میں ہی نکل آتے ہیں۔ اور اگر وہ علم حاصل کریں تو وہ اس میں اپنے اس عمل پر کوئی رہنمائی نہیں پائیں گے۔(جامع بیان العلم )

امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ’’: جسے علم دیا گیا اور وہ خوف ،حزن اور رونے میں نہیں بڑھتاایسے شخص کے لائق یہی ہے کہ اس کو علم ہی نہ دیا جائے۔پھر یہ آیات تلاوت کیں

۔أَفَمِنْ هذَا الْحَدِيثِ تَعْجَبُونَ o وَتَضْحَكُونَ وَلا تَبْكُونَ (النجم:59،60)

(شعب الایمان )

امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :’’یعنی علم کثرتِ روایت کا نام نہیں لیکن یہ ایسا نور ہے جو اللہ تعالی دل میں ڈال دیتا ہے اس کے حصول کی شرط اتباعِ سنت اور خواہشات و بدعات سے فرار ہے۔‘‘(سیر اعلام النبلاء)

(2)اہل علم سے مسائل پوچھے جائیں :

عوام الناس کو اپنے مسائل کے حل کے لئے اہل علم سے ہی رجوع کرنا چاہئے اور اسی طرح ہر عالم اپنے آپ کو ایک طالب علم ہی سمجھے اور جس موڑ پر بھی وہ کہیں تشنگی محسوس کرے تو بجائے اس کے اپنی قیاس آرائیاں کرے اسے اپنے سے بڑے عالم سے رجوع کرنا چاہئے ۔

اس حوالے سے یہ حدیث بھی قابل غور ہے: سیدنا عبداللہ ابن عمرو t سے مروی ہے کہ میں اور میرا بھائی ایسی مجلس میں بیٹھے ہیں کہ اس کے بدلے میں مجھے سرخ اونٹ بھی ملنا پسند نہیں ہے ایک دفعہ میں اپنے بھائی کے ساتھ آیا تو کچھ بزرگ صحابہ کرام yمسجد نبوی کے کسی دروازے کے پاس بیٹھے ہوئے تھے ۔ہم نے ان کے درمیان گھس کر تفریق کرنا مناسب نہ سمجھا ،اس لئے ایک کونے میں بیٹھ گئے ۔اس دوران صحابہ کرام yنے قرآن کی ایک آیت کا تذکرہ چھیڑا اور اس کی تفسیر میں ان کے درمیان اختلاف رائے ہو گیا یہاں تک کہ ان کی آوازیں بلند ہونے لگیں نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم غضب ناک ہو کر باہر نکلے، آپ صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ مبارک سرخ ہو رہا تھا اور آپ صلی اللہ علیہ و سلم مٹی پھینک رہے تھے اور فرما رہے تھے لوگو! رک جاؤ تم سے پہلی امتیں اسی وجہ سے ہلاک ہوئیں کہ انہوں نے اپنے انبیاء کے سامنے اختلاف کیا اور اپنی کتابوں کے ایک حصے کو دوسرے حصے پر مارا قرآن اس طرح نازل نہیں ہوا کہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تکذیب کرتا ہو بلکہ اس کا ایک حصہ دوسرے کی تصدیق کرتا ہے اس لئے تمہیں جتنی بات کا علم ہو اس پر عمل کر لو اور جو معلوم نہ ہو تو اسے اس کے عالم سے معلوم کر لو۔

(مسند احمد :182/2وصححہ الشیخ احمد شاکر رحمہ اللہ )

اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم صحابہ کو اختلاف کے حل کے لئے تلقین کررہے ہیں کہ اگر علم نہیں ہے تو جھگڑنے کے بجائے اہل علم سے پوچھ لو اور اس وقت سب سے بڑے عالم نبی صلی اللہ علیہ و سلم تھے اس لئے صحابہ کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے ہی پوچھ لینا چاہئے تھا اسی طرف اشارہ ہے۔اور آج بھی نبی صلی اللہ علیہ و سلم کی اس نصیحت کو صحیح معنی میں اپنالیا جائے باہم اختلاف رائے کی وجہ سے پیدا ہونے والی موجودہ مختلف قسم کی تلخیاں اور شدت ختم ہوسکتی ہے۔

(3)گھروالوں کو تعلیم دینا:

یہ بھی ضروری ہے کہ انسان حصول علم کے بعد اسے اپنی ذات پر نافذ کرے اور لوگوں میں عام کرےاور ساتھ ہی اپنے گھر والوں کو بھی یہ علم کی باتیں پہنچائے ۔کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کو بھی یہی حکم دیا گیا تھا کہ اپنے گھر والوں کو بھی ڈرائیں۔ (الشعراء:214) اور تمام مسلمانوں کو بھی حکم آیا: اپنی جانوں اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچالو۔(التحریم : 6) اسی طرح علم کے بارے میں بھی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایسی ہی تلقین کی۔ چنانچہ سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئے اور ہم تقریبا برابر کی عمر کے چند جوان تھے۔ بیس(۲۰) شب و روز ہم آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی خدمت میں رہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نرم دل مہربان تھے جب آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے محسوس کیا کہ ہم کو اپنے گھر والوں کے پاس پہنچنے کا اشتیاق ستا رہا ہے تو ہم سے ان کا حال پوچھا جن کو ہم اپنے پیچھے چھوڑ آئے تھے۔ہم نے آپ صلی اللہ علیہ و سلم کو سب کچھ بتایا ۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ واپس لوٹ جاؤ اور ان ہی لوگوں میں رہو اور ان کو تعلیم دو اور اچھی باتوں کا حکم دو اور چند باتیں آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیان فرمائیں۔(صحیح بخاری : 631)

اسی طرح اپنے گھر والے تو گھر والے، لونڈی کو تعلیم دینے کی کیا فضیلت ہے،ملاحظہ فرمائیں:

ترجمہ : سیدنا ابوبردہ اپنے والد (ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:تین شخص ایسے ہیں کہ جن کے لئے دوگنا ثواب ہے (ایک) وہ شخص جو اہل کتاب میں سے ہو اپنے نبی پر ایمان لایا ہو اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم پر بھی ایمان لائے اور (دوسرا وہ) مملوک غلام جب کہ وہ اللہ کے حق کو اور اپنے مالکوں کے حق کو ادا کرتا رہے اور (تیسرے) وہ شخص جس کے پاس لونڈی ہو جس سے وہ مباشرت کرتا ہے، وہ اسے ادب سکھلاتاہے اور عمدہ ادب دیا اور اس کی تعلیم و تربیت کی اور عمدہ تعلیم و تربیت کی اور پھر اسے آزاد کردیا اور اس سے نکاح کر لیا اس کے لئے بھی دوگنا ثواب ہے۔

(صحیح بخاری :3011، صحیح مسلم :154)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے