اس سوال کے جواب سے قبل چند باتیں قابل غور ہیں۔

اس وقت ہمیں اسلامی نظام حکومت دستیاب نہیں ہے مگر دینی احکام کو ہر صورت میں جاری رہنا ہے۔

بخل، حرص، مادہ پرستی کا رجحان بڑھتا جارہا ہے ایسے میں بمشکل ہی لوگ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں جو ہر طرح کے کارخیر میں استعمال ہو رہی ہے دیگر صدقات وغیرہ کا حصول ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔

انفرادی زندگی گزارنے کے اس دور میں بھی حتی الامکان اجتماعی انداز کو اختیار کرنا یقیناً مستحسن عمل ہے۔

حالات کا جبر قرار دیں یا دور حاضر کو کوئی اور نام دیں بہرحال ہم بہت سے معاملات میں اضطراری حالت کی زندگی گزرا رہے ہیں۔

ایسے کٹھن حالات میں کہ جب فتویٰ نفی کا دینے والے مفتیان کرام بھی عملاً اپنے فتویٰ کا انکار کرتے دکھائی دیں تو ہمیں اسلام کے مزاج کو یاد رکھنا چاہیے کہ وہ ’’یسر‘‘ آسانی کا درس دیتا ہے نہ کہ تنگی اور عسر کا۔

اجتہاد کا دروازہ اہل علم کے لیے تاقیامت کھلا ہوا ہے بشرطیکہ نصوص و جمہور سلف صالحین کے طرز عمل و آراء کو سامنے رکھا جائے اور لا انکار فی مسائل الاجتہاد بھی یاد رہے۔

اب آئیے سوال کے جواب کی طرف ہماری رائے کے مطابق دینی، فلاحی اداروں اور ان کے کارکنوں خطباء، واعظین، مدرسین، علماء اور خدماء وغیرہ پر مال زکوٰۃ استعمال کیا جا سکتا ہے خصوصا مندرجہ بالا نکات کو سامنے رکھتے ہوئے ہمارے مؤقف کے دلائل درج ذیل ہیں۔

سورۃ التوبہ آیت نمبر 60 میں زکوٰۃ کے مصارف بیان ہوتے ہیں جن میں حسب ترتیب یہ لوگ شامل ہیں (۱) فقراء (۲) مساکین (۳) عاملین (کارندے) (۴) مؤلفۃ القلوب (۵) جو آزاد نہ ہو (۶) قرضہ دار (۷) فی سبیل اللہ (۸) مسافر

ان میں سے ہر ایک کی مکمل وضاحت اہل علم نے اپنے اپنے دالائل اور انداز کے مطابق کر رکھی ہے اس تشریح کے ساتھ کہ ان مصارف کے دائرہ کا ر میں کہاں تک وسعت ہے اور کس انداز سے اور کون کون اس میں شامل ہو سکتا ہے۔

(۱) فقراء اور مساکین ـ:

تقریبا مترادف المعنی ہیں الا یہ کہ فقیر زیادہ حاجت مند ہوتا ہے سورۃ البقرۃ آیت 273 میں ’’فقراء‘‘ ان کو قرار دیا گیا ہے کہ جو فقط اللہ کے دین کے لیے وقف ہو جائیں اور یہ موقف ہونا دینی اداروں اور ان کے وابستگان میں بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔دیکھئے اہل علم نے سورۃ البقرۃ کی ذکر کردہ آیت کی تفسیر و توضیح میں کیا لکھا ہے۔

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے یہاں (مستحقین صدقات کی) چھ صفات کا ذکر کیا ہے جن میں سے دو یہ ہیں (۱) فقر (۲) ان کا خود کو جہاد فی سبیل اللہ اور اللہ کے دین کی نصرت کے لیے محبوس و محصور کر لینا اس طرح کہ دنیا کے تمام اشغال سے انہوں نے خود کو روک لیا اور فقط اللہ اور اس کے راستے میں خود کو کھپا دیا۔(التفسیر القیم ص 171)

شیخ الاسلام مولانا ثناءاللہ امرتسری رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ان محتاجوں کو دو جو اللہ کی راہ میں علم دینی پڑھنے کی وجہ سے بند ہو رہے ہیں۔ باوجود حوائج ضروریہ کے دینی خدمت کی خاطر ایسے ہو رہے ہیں کہ زمین میں سفر نہیں کرسکتے۔(تفسیر ثنائی 1/225)

مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں: خیرات کا ایک ضروری مصرف ایسا تھا جس کی طرف ظاہر بین نگاہوں کی توجہ نہیں ہو سکتی تھی یعنی ان لوگوں کی مدد کرنا جو دنیا کا کام دھندا چھوڑ کر راہ حق کی خدمت کے لیے وقف ہو گئے ہیں نہ تو انہیں تجارت کی مقدرت ہے نہ کوئی دوسرا وسیلہ معاش رکھتے ہیں شب و روز دین و ملت کی خدمت میں مشغول رہتے ہیں حالت ان کی حاجت مندوں کی ہے مگر صورت بے نیازوں کی، چونکہ ایسے افراد خیر کی خبر گیری جماعت کا ضروری فرض تھا اس لیے خصوصیت کے ساتھ اس پر توجہ دلائی۔ (ترجمان القرآن 2/254)

شیخ العرب والعجم شاہ بدیع الدین راشدی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ الذین احصروا فی سبیل اللہ کی تفسیر میں ہرہر قول اپنی اپنی جگہ درست ہے اور آیت کے مفہوم میں داخل ہے بلکہ پانچویں قول کے مطابق وہ طالبعلم جو صرف علم دین سیکھنے کی وجہ سے کسب معاش نہیں کر سکتا یہ بالاولیٰ اس آیت میں داخل ہے اور فقیر میں شامل ہے۔ (بدیع التفاسیر 4/449)

گویا تعلیم و تعلم کے سلسلے پر ’’فقراء‘‘ کا اطلاق ہو سکتا ہے۔

شیخ عبدالرحمن کیلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جن لوگوں نے اپنے آپ کو دین کے علم کے لیے خواہ سیکھ رہے ہوں یا سکھلا رہے ہوں یا دوسرے امور کے لیےوقف کر رکھا ہے اور وہ محتاج ہیں جسے دور نبویﷺ میں اصحاب صفہ تھے یا وہ لوگ جو جہاد میں مصروف ہیں یا ان کے بال بچے کی نگہداشت پر اور ایسے ہی دوسرے لوگوں پر صدقات خرچ کئے جائیں۔ (تیسیر القرآن 1/201)

حافظ صلاح الدین یوسف حفظہ اللہ لکھتے ہیں: اس سے مراد وہ مہاجرین ہیں جو مکہ سے مدینہ آئے اور اللہ کے راستے میں ہر چیز سے کٹ گئے دینی علوم حاصل کرنے والے طلباء اور علماء بھی اس کے ذیل میں آسکتے ہیں۔ (احسن البیان ص 58)

مولانا مودودی رقم طراز ہیں: اس گروہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو خدا کے دین کی خدمت میں اپنے آپ کو ہمہ تن وقف کر دیتے ہیں اور سارا وقت دینی خدمات میں صرف کر دینے کی وجہ سے اس قابل نہیں رہتے کہ اپنی معاش پیدا کرنے کے لیے کوئی جدوجہد کر سکیں۔

نبی اکرمﷺ کے زمانے میں اس قسم کے رضاکاروں کا ایک مستقل گروہ تھا جو تاریخ میں اصحاب صفہ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تین چار سو آدمی تھے جو اپنے اپنے گھر بار چھوڑ کر مدینے آ گئے تھے ہمہ وقت حضور کے ساتھ رہتے تھے ہر خدمت کے لیے ہر وقت حاضر تھے حضور جس مہم پر چاہتے انہیں بھیج دیتے تھے اور جب مدینے سے باہر کوئی کام نہ ہوتا اس وقت مدینے میں ہی رہ کر دین کا علم حاصل کرتے اور دوسرے بندگان خدا کو اس کی تعلیم دیتے رہتے تھے چونکہ یہ لوگ پورا وقت دینے والے کارکن اور اپنی ضروریات فراہم کرنے کے لیے اپنے ذاتی وسائل نہ رکھتے تھے اس لیے اللہ تعالیٰ نے عام مسلمانوں کو توجہ دلائی کہ خاص طور پر ان کی مدد کرنا انفاق فی سبیل اللہ کا بہترین مصرف ہے۔ (تفہیم القرآن 1/210)

ابن جوزی رحمہ اللہ ’’زاد المسیر‘‘ میں ان فقراء کی تفسیر میں چار اقوال نقل کرتے ہیں جن میں سے پہلا قول سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ اور امام مقاتل رحمہ اللہ کا ہے کہ ان سے مراد ’’اصحاب صفہ‘‘ ہیں۔ جنہوں نے تعلیم و تعلم، دعوت و تبلیغ اور جہاد و قتال کے لیے خود کو وقف کر رکھا تھا اور ان کے پاس اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کچھ بھی نہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے اہل ثروت کو اس طرف بذریعہ انفاق کی تعلیم و توجہ دلائی۔

امام طبری اور امام شوکانی رحمہمااللہ وغیرہ نے بھی اپنی اپنی تفسیروں میں یہاں فقراء سے مراد اصحاب صفہ ہی لیے ہیں۔

آج اصحاب صفہ کی طرز پر (کہ جو مستحق صدقات/ زکوٰۃ ہو) کون ہے؟ یقیناً وہی لوگ جو دین کا بیڑا اٹھائے ہوئے، توحید کا پرچم تھامے ورثۃ الانبیاء ہیں یا ان کے رفقاء مدارس دینیہ اور ان سے وابستہ افراد۔

(2) عاملین (کارکن)

وہ لوگ کے جو زکوٰۃ کو لوگوں سے وصول کرنے پر مامور ہوں اس کا حساب و کتاب اور تقسیم کار کو جانتےہوں اور کارخیر میں وقت نکال کر حصہ ڈالتے ہوں تو ایسے لوگ از خود مستحق زکوٰۃ ہوئے اور ان کو انکی محنت کے عوض میں اسی رقم سے تنخواہ، مشاہرہ وظیفہ وغیرہ دیا جا سکتا ہے بلکہ ــ’’المجموع‘‘ کے الفاظ کے مطابق تو تقسیم کی ابتداء اسی مصرف سے ہونی چاہیے۔

امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے کتاب الاحکام میں عنوان قائم کیا ہے ’’باب رزق الحکام و العاملین علیھا‘‘ اور اس کے تحت لکھا ہے کہ قاضی شریح عہدہ قضاء پر اجرت (تنخواہ) لیتے تھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے فرمایا: ’’یتیم کا والی (ان کا نگران) اپنی محنت کے عوض اجرت لے سکتا ہے‘‘ سیدنا صدیق و فاروق رضی اللہ عنہما کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ انہوں نے (خلافت کی ذمہ داریاں اٹھانے پر) بیت المال سے اپنا معاوضہ (بقدر ضرورت) لیا تھا۔

اس باب کے تحت جو حدیث ذکر کی گئی ہے حدیث رقم 71647163 اس سے بھی ثابت ہوتا ہے کہ دینی امور سنبھالنے اور نبھانے پر اجرت لی جا سکتی ہے اور امام بخاری رحمہ اللہ کی فقاہت جو کہ تراجم ابواب سے دکھائی دیتی ہے اس کے مطابق تمام جہود دینیہ سر انجام دینے والے ’’والعاملین علیہا‘‘ کے زمرے میں آتے ہیں۔

جو بھی اس وقت کے معاملات تھے وہ بیت المال کے تحت تھے اور بیت المال میں کئی قسم کے اموال جمع ہوتے تھے مثلاً مال فئے، مال خمس، مال زکوٰۃ وغیرہ ۔

امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

مسئلہ نمبر گیارہ اللہ تعالیٰ کا یہ قول ’’والعاملین علیھا‘‘ اس بات پر دلیل ہے کہ جو شخص بھی فرض کفایہ کے کام (مثلاً زکوٰۃ کے لیے سعی کرینوالا، لکھنے والا، تقسیم کرنے والا، عشر جمع کرنے والا اور اس طرح کے کاموں میں لگا ہوا ہے اور اس (کام) کی اجرت لے سکتا ہے اور اسی میں سے امامت نماز بھی ہے کہ جس (کے پڑھانے) پر اجرت لی جاسکتی ہے اور یہی (اس) باب کی اصل ہے اور نبی علیہ الصلاۃ والسلام نے اپنے قول سے اس کی طرف اشارہ کیا ہے فرمایا ’’اپنی ازواج کا نفقہ اور اپنے عامل کے خرچ کے علاوہ جو میں نے چھوڑا ہے وہ (مال) صدقہ ہے۔ (تفسیر قرطبی سورۃ التوبہ کی تفسیر دیکھئے)

الدررالسنیہ 5/251 میں لکھا ہے ’’مسجد کا امام جو کہ نماز پڑھاتا ہے اور دیکھ بھال کرتا ہے اسے فقر کی صورت میں زکوٰۃ سے دیا جائے گا۔

اس کتاب میں صفحہ 253 پر امام قرطبی رحمہ اللہ کی مندرجہ بالا عبارت لکھنے کے بعد لکھا ہے ’’اس سے یہ سمجھ آتا ہے کہ جو مصلحت عامہ للمسلمین کا ذمہ دار ہو نگران ہو جیسے قضاء، افتاء، تدریس وغیرہ تو وہ باوجود تونگری کے اس (قیام/ خدمت) کے عوض زکوٰۃ میں سے لے سکتا ہے اور پھر لکھا ہے کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے باب باندھا ہے ’’باب رزق الحکام والعاملین علیھا‘‘

علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں:

ابن رشد فرماتے ہیں کہ جن فقہاء نے عاملین زکوٰۃ کو زکوٰۃ فنڈ سے تنخواہیں دینا جائز قرار دیا ہے ان کے نزدیک قضاۃ اور مسلمانوں کی خدمت میں مصروف دیگر افراد کو بھی زکوٰۃ سے تنخواہیں دینا جائز قرار دیا ہے۔

مزید لکھتے ہیں:

نیل الاوطار اور اس کی شرح میں فقہ اباضیہ کا یہ مسلک درج ہے کہ زکوٰۃ میں سے تنخواہ عامل زکوٰۃ کو دی جا سکتی ہے اور ہر اس شخص کو دی جا سکتی ہے جو مسلمانوں کی خدمت میں مصروف ہو جیسے قاضی، والی اور مفتی، اگرچہ یہ لوگ غنی ہوں اس لیے کہ یہ عام مسلمانوں کی خدمت میں مصروف ہیں اور اس بنا پر وہ اپنے طور پر کوئی کام نہیں کر سکتے ۔

نیز یہ بھی لکھا ہے کہ جن فقہاء نے فی سبیل اللہ کی مد میں توسیع اختیار کی ہے ان کے نزدیک بھی زکوٰۃ سے جملہ مفاد عامہ کے کاموں میں مصروف افراد کو تنخواہ دی جا سکتی ہے (فقہ زکوٰۃ 2/72 مترجم)

(3) مؤلفۃ القلوب

تالیف قلب کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں جیسا کہ اہل علم کی تحریروں سے پتہ چلتا ہے۔

علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں

امام طبری رحمہ اللہ نے کیا عمدہ بات کہی ہے کہ ’’درحقیقت اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ میں دو حکمتیں رکھی ہیں پہلی حکمت تو یہ ہے کہ اس سے مسلمانوں کی بھوک کا مداوا ہوتا ہے اور دوسرے یہ کہ اس سے اسلام کو تقویت اور تائید حاصل ہوتی ہے اور جو مد اسلام کی تقویت اور تائید کے لیے ہو وہ غنی اور فقیر سب کو دی جائے گی۔ اس لیے کہ ضرورت کے لیے اسے نہیں دیا جاتا بلکہ اعانت اسلام کے لیے دیا جاتا ہے۔

کچھ آگے چل کر لکھتے ہیں دور جدید میں اس کی ایک صورت یہ ہو سکتی ہے کہ مسلم حکومتیں غیر مسلم حکومتوں کو مالی امداد دیکر ان کو مسلمانوں کا ہمدرد بنائیں یا بعض تنظیموں اور جماعتوں سے مالی تعاون کر کے انہیں اسلام کی جانب مائل کریں اور مصنفین اور اہل قلم سے تعاون کر کے انہیں اسلام کی مدافعت پر آمادہ کریں اور اس امر پر تیار کریں کہ وہ امت مسلمہ پر ہونے والی افتراء پردازیوں پر گرفت کریں اور ان کا جواب دیں۔

علامہ قرضاوی کی اس گفتگو کے تناظر میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ آج عیسائی اور دیگر غیر مسلم مشزیاں ویلفیئر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی میں مسلمانوں کے دل موہ لینے کے لیے سرگرم عمل ہیں جبکہ یہ کام ہم مسلمانوں کا تھا کہ ہم ان کے دل اسلام کی طرف مائل کرتے کہ جس کے لیے ہمیں زکوٰۃ کی ایک مد بھی دیدی گئی تھی۔

اور آج تو خود مسلمانوں کو ہی دفاع اسلام کے لیے تیار کرنے کی ضرورت ہے کہ آج ان کے اپنے دل بھی اس طرف مائل نہیں وجوہات بہت سی ہو سکتی ہیں مگر سرفہرست یہی ہے کہ وہ اس دفاع اسلام وغیرہ کے عمل کی طرف مائل ہوں تو آخر انہیں ملے گا کیا اور وہ کس طرح سے اپنے مالی اور معیشتی معاملات کو ہینڈل کر سکیں گے تو ایسے میں وہ خود ہی اس مد میں آتے ہیں کہ انکی تالیف قلبی کی جائے تاکہ وہ دفاع اسلام کے اس تعلیمی، تصنیفی اور دعوتی کام کو جاری رکھ سکیں کیونکہ یہ حقیقت آج اظہر من الشمس ہے کہ انتہائی کم لوگ آج اسلام کے لیے کچھ کرنے پر آمادہ ہیں۔

(4) الغارمین:

وہ شخص جو قرضے کے بوجھ تلے دبا ہوا ہو

مقروض بھی کئی طرح کے ہو سکتے ہیں جن میں سے ایک تو وہ ہے جو اپنے ذاتی اخراجات کے لیے قرض لیتا ہے اور دوسرا وہ مقروض ہے کہ جو مصلحت عامہ کی وجہ سے قرض تلے دب گیا ہو یعنی کہ اس نے دو قبیلوں یا دو جماعتوں یا دو شخصوں کے درمیان صلح کروانے اور ان کے مابین فتنہ و فساد کو روکنے کے لیے ان کے مالی تاوان کو اپنے ذمہ لے لیا تو اسلام اسے مقروضوں کا قرضہ زکوٰۃ کی مد سے اتارتا ہے تاکہ صلح نامہ میں حصہ ڈالنے والے اس کار خیر سے پیچھے نہ ہٹیں۔

امام قرطبی رحمہ اللہ نے ’’الغارمین‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے کہ صلح اور نیکی کے لیے بوجھ اٹھانے والا زکوٰۃ سے لے سکتا ہے اگرچہ وہ غنی ہی کیوں نہ ہو۔

بسا اوقات ایسے ہی لوگ فقیر کی مد میں بھی داخل ہو جاتے ہیں اپنی تنگدستی اور محتاجی کی وجہ سے

علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں:لوگوں کے درمیان ان صلح کرانے والوں کی طرح وہ اہل خیر بھی ہیں جو کوئی مفید اجتماعی کام کریں مثلاً کوئی صاحب یتیم خانہ قائم کر دیں غریبوں کے علاج کے لیے ہسپتال بنا دے غرض اس قسم کے اجتماعی بہبود اور معاشرتی اصلاح و خیر کے کام کرے تو اس کی مسلمانوں کے عام مال سے مدد کی جائیگی۔

جو افراد اس قسم کی اجتماعی خدمات انجام دیں اور اس کے لیے قرض لے لیں تو ان کے قرض کی ادائیگی زکوٰۃ کے مال سے کی جا سکتی ہے اگرچہ وہ غنی کیوں نہ ہو جیسا کہ بعض مسلک شافعی کے فقہاء نے کہا ہے (فقہ الزکوٰۃ 2/120119)

شیخ امین اللہ پشاوری حفظہ اللہ نے لکھا ’’کہ صلح اور خیر کا بوجھ اٹھانے والے مدارس کے ذمہ داران کا اگر غارمین میں شمار باستدلال کرنا صحیح ہے تو پھر مدارس کو بقدر ضرورت (زکوٰۃ سے) نفقہ دینا صحیح ہے۔ (فتاویٰ الدین الخالص 8/214)

اس گفتگو کے پس منظر میں مدارس اور دیگر فلاحی ادارے ہی مصلحت عامہ کا کام کرتے دیکھائی دیتے ہیں لہذا ان کو زکوٰۃ دینا یا ان اداروں سے وابستگان کو زکوٰۃ دینا جائز ہوگا۔

(5) فی سبیل اللہ

اگرچہ اس سے مراد قول راجح میں فقط جہاد فی سبیل اللہ ہی ہے جیسا کہ اہل علم صراحت سے بیان کر چکے ہیں ۔(دیکھئے مرعاۃ المفاتیح 6)

مگر جہاد فی سبیل اللہ میں اس طرح وسعت پائی جاتی ہے کہ ’’جاھدوا المشرکین باموالکم وانفسکم والسنتکم‘‘ الحدیث

یعنی جہاد مال، جان اور زبان ہر سہہ طریقے سے ہوتا ہے نہ کہ فقط قتال کی صورت میں اگرچہ یہ عمل جہاد کی انتہائی اور اعلیٰ شکل ہے۔

یہی وجہ ہے جہ ’’ابحاث ھئیۃ کبار العلماء‘‘ جلد اول میں ’فی سبیل اللہ‘ سے مراد محاربۃ اعداءاللہ اور نصرت دین اللہ کو لیا گیا ہے اور لکھا ہے کہ ہمارا نصرت اسلام سے تفسیر کرنا اولیٰ ہے وگرنا ’جاھدوا فی سبیل اللہ‘ کا مطلب ہو گا: جاھدوا فی الجہاد۔۔۔ فافہم و تدبر

علامہ یوسف قرضاوی لکھتے ہیں:

میری رائے یہ ہے کہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کو نہ صرف جہاد پر محمول کیا جائے اور نہ اسے عام کرنے پر اس کام پر محمول کیا جائے جو اللہ کی راہ میں اللہ کی خوشنودی کے لیے ہو۔

بلاشبہ ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد اللہ کی راہ میں جہاد ہے لیکن جہاد کا مفہوم صرف جنگ کرنا نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر اس سے وسیع تر مفہوم اس میں شامل ہے یعنی ہر وہ قدم جو اللہ کے دین کی نصرت اور اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اٹھے جہاد صرف تلوار اور توپ سے نہیں ہوتا بلکہ کبھی قلم سے بھی ہوتا ہے اور کبھی زبان سے کبھی اقتصادی جہاد ہوتاہے اور کبھی سیاسی۔ ان میں سے ہر جہاد میں مالی ضرورت ہوتی ہے ہر وہ کوشش جو اعلاء کلمۃ اللہ کے لیے اٹھے اسے ’’فی سبیل اللہ‘‘ کے مفہوم میں شامل کیا جا سکتا ہے۔

1۔ نبی کریمﷺ سے سوال کیا گیا افضل جہاد کیا ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: ’’کسی ظالم و جابر بادشاہ کے سامنے حق بات کہنا‘‘ (مسند احمد و نسائی)

2۔ ایک حدیث میں ہے ’’مشرکوں سے جہاد کرو اپنے مال کے ذریعے، اپنی جان کے ذریعے اور اپنی زبان کے ذریعے‘‘ (مسند احمد، ابو داؤد ، حاکم)

معلوم ہوا کہ جہاد فقط تلوار کی جنگ کا نام نہیں ہے بلکہ بسا اوقات اور حسب ضرورت مال کے ذریعے جہاد ہوتا ہے کبھی جسمانی قوت کا استعمال ہوتا ہے اور کبھی لسانی قوت کام آتی ہے۔

لفظ جہاد کو وسیع تر مفہوم پر محمول کرنے کے لیے اگر کوئی قطعی نص نہ بھی ہو تو تب بھی محض قیاس کی بنیاد پر ایسا کیا جا سکتا ہے کیونکہ جہاد چاہے تلوار سے ہو چاہے قلم سے اور چاہے زبان سے۔ ان میں سے ہر جہاد کا مقصد ایک ہوتا ہے یعنی اعلاء کلمۃ اللہ

مزیدفرماتے ہیں: یہاں ایک بات قابل ذکر ہے کہ حالات اور ماحول کی مناسبت سے بعض کاموں کو اس ملک میںجہاد تصور کیا جائے گا اور وہی کام بعض دوسرے ملکوں میں محض ایک رفاہی کام قرار پائے گا۔ مثلاً ایسے ملک میں جہاں اسلام کا غلبہ ہے مسلمانوں کی اکثریت ہے اور لوگ دینی تعلیم سے آگاہ ہیں وہاں کسی مدرسے یا مسجد کی تعمیر ایک رفاہی کام تو ہو سکتا ہے مگر جہاد نہیں ہو سکتا اس کے برعکس کسی غیر مسلم ملک میں جہاں مسلمانوں کی اقلیت ہو اشاعت الاسلام کی خاطر مسجد یا مدرسے کرنا یقیناً جہاد ہے۔ عیسائی مشنریوں کی مثال واضح ہے انہوں نے چرچ اسپتال اور اسکول کی تعمیر کی آڑ لے کر عیسائیت کی جس قدر تبلیغ کی وہ وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔

اخراجات کی زیادتی اور زکوٰۃ کے مال کی کمی کو سامنے رکھتے ہوئے قرضاوی صاحب اپنی رائے میں مصرف کی تقسیم و ترتیب بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہوتے ہیں۔

میری رائے میں زکوٰۃ کی رقم جہاد کی ان صورتوں میں  بھیجنا زیادہ بہتر ہے جنہیں لسانی ثقافتی فکری اور اعلامی جہاد سے تعبیر کرتے ہیں کیونکہ ان صورتوں میں تھوڑی رقم بھی زیادہ نمایاں کام انجام دے سکتی ہے ذیل میں بعض ایسی ہی صورتیں پیش کرتا ہوں۔

۱۔ اسلامی دعوتی مرکز کا قیام، جہاں سے لوگوں تک اسلام کی دعوت پہنچائی جائے۔

۲۔ خود اسلامی ممالک کے اندر اسلامی ثقافتی مراکز کا قیام جہاں مسلم جوانوں کی عملی تربیت ہو سکے اور انہیں اعلاء کلمۃ اللہ کی خاطر تیار کیا جا سکے۔

۳۔ اسلامی اخبارات و جرائد کا اجراء جو غیر اسلامی صحافتی سرگرمیوں کے لیے چیلنج ہو۔

۴۔ اسلامی کتب کی نشر و اشاعت جس میں اسلام کی صحیح تصویر پیش کی جائے اور کفر کی ریشہ دوانیوں کو اجاگر کیا جائے۔

یہ وہ چند صوتیں ہیں جہاں زکوٰۃ کی رقم ارسال کرنی چاہیے بلکہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی ہر ممکن طریقے سے ان تمام سرگرمیوں میں دل کھول کر مالی تعاون کرنا چاہیے۔

(فتاویٰ یوسف قرضاوی، مترجم طبع دارالنوادر، وفقہ الزکوٰۃ از قرضاوی)

سہ ماہی مجلہ علمی و تحقیقی مجلہ ’’البیان‘‘ کے شمارے نمبر 4 (جون تا اگست 2012) میں لکھا ہے۔

جہاد سے مراد صرف جہاد بالسیف نہیں ہے بلکہ جہاد باللسان یعنی زبان کا جہاد اور قلم کا جہاد بھی اس میں شامل ہے اور یہ جہاد قرآن و حدیث کے نصوص سے ثابت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

فَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَجَاهِدْهُمْ بِهِ جِهَادًا كَبِيرًا (الفرقان: 52)

پس آپ کافروں کا کہنا نہ مانیں اور قرآن کے ذریعے ان سے پوری طاقت سے بڑا جہاد کریں یہاں قرآن کے ذریعے جہاد کا حکم دیا گیا ہے جو کہ یقیناً زبان ہی کے ذریعے ہو سکتا ہے اور یہ سورۃ الفرقان مکی ہے اور مکہ میں جہاد (بمعنی قتال) فرض نہیں ہوا تھا لہذا اس آیت میں تبلیغ دین کو ہی جہاد قرار دیا گیا ہے اسی طرح نبی کریمﷺ کا فرمان ہے:

مشرکین سے جہاد کرو اپنی جانوں کے ساتھ اور مال کے ساتھ اور زبانوں کے ساتھ۔(سنن ابی دواؤو 2504)

لہٰذا ایسے ادارے مراکز اور افراد جو معاشرہ میں انسانوں کی رہنمائی اور شرک و بدعت کے خلاف جہاد میں مصروف عمل ہوں ان کے ساتھ زکوٰۃ کے مال سے تعاون کیا جا سکتا ہے بلکہ موجودہ دور میں یہ جہاد بہت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ حالیہ زمانہ میں قوموں کو اسلحہ کے زور سے فتح کرنے کے بجائے نظریات اور افکار کی جنگ لڑی جاتی ہے اور اس کے نتائج آج ہمیں اپنے معاشرے میں بھرپور طریقے سے نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ جب رابطہ عالم اسلامی (OIC) کی علماء کمیٹی ’’المجمع الفقہی الاسلامی‘‘ سے خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے زکوٰۃ کے متعلق پوچھا گیا تو علماء کمیٹی نے فتویٰ دیا جو کہ 27 جون 1983 کو جاری ہوا اس میں مجمع الفقہی الاسلامی نے ایسے اداروں اور مراکز کو زکوٰۃ کے مصرف فی سبیل اللہ میں سے قرار دیا جو معاشرہ میں جہاد باللسان کا فریضہ انجام دے رہے ہوں۔

ہم یہ بات لکھ چکے ہیں کہ سورۃ التوبہ میں مصارف زکوٰۃ کے بیان میں یہ دو باتیں بھی ہمارے پیش نظر رہیں کہ (۱) جہاد اقسام پر ہے جیسا کہ بیان ہوا اور (۲) یہ کہ تفسیر فتح البیان، بدیع التفاسیر، تیسرالقرآن، ترجمان القرآن اور احسن البیان و دیگر تفسیروں میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد مطلقا ہر کار خیر کو لینے کا جو رجحان یا میلان نظر آتا ہے تو اسے زیادہ سے زیادہ بمقابلہ جمہور علماء کے ایک کمزور مؤقف تو کہا جا سکتا ہے مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ اس پر کوئی فتویٰ ضلالت و گمراہی کا ثبت کر دیا جائے۔

آخر نبی کریمﷺ نے ایک موقعہ پر زکوٰۃ کے اونٹوں سے دیت (خون بہا) ادا کی تھی دیکھئے صحیح بخاری کتاب الدیات، یہاں قابل غور بات یہ ہے کہ اس دیت کی ادائیگی کو مصارف زکوٰۃ کی کس مد میں شمار کیا جائے گا۔ یقیناً ’’فی سبیل اللہ‘‘ کی مد میں۔

(6) ابن السبیل (مسافر)

عمومی طور پر تو اس سے مراد وہ مسافر ہے جو دیار غیر میں آ کر محتاج ہو گیا ہو اور اسے دینے کو زکوٰۃ استعمال ہو خواہ وہ شخص اپنے علاقے اور وطن میں صاحب حیثیت و تو نگر ہی کیوں نہ ہو۔

مگر خصوصی معنی میں وہ طلبۃ العلم بھی مسافر ہی کے زمرے میں آتے ہیں کہ جو بذریعہ علم مصلحت و منفعت عامہ کا کام کرتے ہیں خواہ وہ دینی و دنیوی تعلیم و تربیت ہو یا اور کوئی اصلاح معاشرہ کا کام طلبہ کا یہ سفر، سفر معصیت نہیں کہ جس میں امداد جائز نہیں۔

علامہ یوسف قرضاوی، امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے نقل کرتے ہیں کہ مسافر وہ بھی ہے کہ جو وطن سے دور نکل کر غریب الدیار ہو گیا اور وہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو ارادہ سفر رکھتا ہے مگر زاد راہ نہیں رکھتا۔ شیخ قرضاوی اس قول اور رائے پر لکھتے ہیں کہ ’’امام شافعی رحمہ اللہ کی رائے پر اس صورت میں عمل کیا جا سکتا ہے کہ جب وہ (ارادہ سفر کرنے والا) ایسے کام کے لیے سفر کرے جس سے عام مسلمانوں یا اسلام کو فائدہ پہنچے۔ مثلاً کوئی جماعت ایسی علمی یا عملی مہم پر جائے جس سے تمام مسلمانوں کو فائدہ ہو یا ایسی کوئی مہم ہو جس سے اسلام کو فائدہ پہنچتا ہو اس لحاظ سے یہ مسافر اگرچہ بالفعل ابن السبیل نہیں ہے مگر اس اعتبار سے ہے کہ اس نے عزم کر لیا ہے اور اس کو دینے میں ملت اور امت کا عمومی فائدہ ہے اس لیے یہ اعطاء فی سبیل اللہ کے مشابہ ہو گیا اور ان غارمین کے مشابہ بھی ہو گیا کہ جو لوگوں میں صلح کرانے کی خاطر ان کا مالی بوجھ برداشت کر لیں، اس طرح اس مسافر کو اگر زکوٰۃ سے حصہ دیا جانا ازروئے نص صحیح نہ بھی ہو تو ازروئے قیاس صحیح ہو گا۔ ان چار مصارف میں جو ’’فی‘‘ کے ساتھ آئے ہیں تملیک شرط نہیں ہے یعنی فی الرقاب، الغارمین، فی سبیل اللہ، ابن السبیل کیونکہ چاروں ’’فی‘‘ کے ساتھ آئے ہیں اور ان میں شخص مراد نہیں بلکہ عمومی مصلحت مراد ہے اس لیے ضروری نہیں ہے کہ ابن السبیل کو خود ذاتی حیثیت میں دیا جائے بلکہ ہوائی کمپنی یا بحری کمپنی یا اس جامعہ کو جہاں وہ جا رہا ہے دے کر اس مصرف کی ادائیگی ہو سکتی ہے۔ (فقہ الزکوٰۃ 2/178177)

عوام الناس کے استفسارات اور اہل علم کے جوابات:

اہل علم کے اس سلسلے میں کچھ فتاویٰ جات نظر قارئین کیے جاتے ہیں کہ جو مسئلہ ھذا کی تفہیم و تبیین میں ممدو معاون ہو سکتے ہیں۔

سعودی عرب کی فتویٰ کمیٹی (لجنۃ دائمہ) نے استفتاء رقم 4926 کے جواب میں لکھا تحفیظ القرآن کے مدارس میں طلبہ اور مدرسین کو زکوٰۃ دینا جائز ہے جبکہ وہ فقراء کے زمرے میں آتے ہیں۔

اسی کمیٹی کے فتوی نمبر 11183 میں لکھا ہے کسی بھی سر زمین میں دعاۃ اور مبلغین پر زکوٰۃ خرچ کرنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ وہ اس کام کے لیے ہی مختص اور فارغ ہوں اور ان کے پاس مال بھی نہ ہو کہ جو ان کی حاجت میں کفایت کرے کیونکہ اس عطا میں وہ واجب الاداء ہوتا ہے جس کا تعلق مسلمین کی عام مصلحت سے ہے۔

شیخ ابن باز رحمہ اللہ نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا: ’’جو معلم یا متعلم محتاج ہو تو اس کے فقر و احتیاج کو دیکھ کر اسے زکوٰۃ میں سے دیا جا سکتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’انما الصدقات للفقراء والمساکین‘‘ (مجموع فتاویٰ و مقالات متنوعہ 14/298)

شیخ عبدالمنان نور پوری رحمہ اللہ سے پوچھا گیا تھا کہ ہمارے گاؤں میں مقامی بچوں کا مدرسہ ہے جس کے اساتذہ کی تنخواہ زکوٰۃ اور قربانی کی کھالوں سے پوری کی جاتی ہے کیا اس میں کوئی شرعی امر مانع ہے؟

شیخ رحمہ اللہ نے جواب ارشاد فرمایا: ’’صدقہ و زکوٰۃ کے مصارف اللہ تعالیٰ نے آٹھ بیان فرمائے ہیں ’’انما الصدقات للفقراء والمساکین‘‘ الآیہ، آپ نے جو صورت ذکر فرمائی ہے اگر ان آٹھ مصارف میں سے کسی ایک مصرف کا مصداق ہے تو فبھا ورنہ زکوٰۃ کو اس صورت پر صرف کرنا درست نہیں۔ واللہ اعلم (احکام و مسائل 1/274)

یاد رہے گزشتہ بحث میں یہ بات گزر چکی ہے کہ یہ تعلیم و تعلم کے سلسلے کہیں نہ کہیں ان آٹھ مدوں میں سے کچھ مدوں میں آ ہی جاتے ہیں۔

ڈاکٹری تعلیم حاصل کرنے والی حیادار، دین دار اور ضرورت مند لڑکی پر صرف زکوٰۃ سے متعلق سوا ل آیا تو شیخ نور پوری رحمہ اللہ کا جواب تھا ’’جو حالت و کیفیت سوال میں بیان کی گئی ہے اگر نفس الامر اور واقع میں بھی حالت و کیفیت یہی ہے تو ایسی حالت و کیفیت والوں پر زکوٰۃ و صدقہ کو صرف کرنا شرعا درست اور جائز ہے اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے ’’انما الصدقات للفقراء والمساکین۔۔۔ (احکام ومسائل 1/275)

حافظ صاحب سے مزید سوال ہوا کہ اگر کوئی مدرسہ کے لیے فنڈ جمع کرے اور اس میں سے نصف خود لینے کی بات کرے تو کیا یہ عمل درست ہوگا؟

حافظ صاحب نے فرمایا تھا ’’درست ہے قرآن مجید میں ہے: والعاملین علیھا‘‘

حافظ صاحب سے سوال ہوا کہ زکوٰۃ فنڈ جو جامعات کی مدیرات کے اختیار میں ہوتا ہے اس کو وہ کہاں اور کس طرح خرچ کر سکتی ہیں اور جو مدیرات وظیفہ لیتی ہیں وہ کس قدر لے سکتی ہیں کی اان کے لیے کل زکوٰۃ فنڈ سے آٹھواں حصہ لینا جائز ہے۔۔۔۔؟

شیخ نور پوری نے فرمایا: ’’مدارس میں استاد اور استانیوں کے وظائف مقرر کرتے ہوئے جس اقتصاد و کفایت کا اظہار کیا جاتا ہے مدیر اور مدیرہ کو اپنے لیے بھی اسی اصول کو اپنانا ہوگا۔ (2/412)

مولانا گوہر رحمان (مردان) سے سوال ہوا کہ مدارس پر صرف زکوٰۃ کیسا ہے۔

جواب دیا گیا ’’حنفی مسلک کے مطابق تو زکوٰۃ کی ادائیگی کے لیے تملیک شرط ہے اور زکوٰۃ لینے والے کا فقیر ہونا بھی شرط ہے سوائے عاملین کے، اس لیے نادار طلبہ کے علاوہ مدرسے کے دوسرے اخراجات زکوٰۃ سے پورے نہیں کیے جاسکتے لیکن مجھے حنفی مسلک میں اس شرط کی کوئی قوی دلیل معلوم نہیں ہو سکی۔

مصارف زکوٰۃ میں ’’فی سبیل اللہ‘‘ سے مراد جہاد ہے اور دینی تعلیم بھی جہاد کے مفہوم میں شامل ہے بلکہ امام جصاص رحمہ اللہ نے تو جہاد بالعلم کو جہاد بالسیف سے افضل قرار دیا ہے۔

تملیک کی شرط فقراء ومساکین کی مد میں تو تسلیم کی جا سکتی ہے لیکن جہاد کی مد میں اس کے شرط ہونے کی کوئی قوی دلیل موجود نہیں ہے اس لیے میری ناقص رائے میں دینی مدارس اور دعوتی اور تبلیغی تنظیموں کے تمام اخراجات زکوٰۃ سے پورے کیے جاسکتے ہیں۔(تفہیم المسائل 2/107، نیز ص 135 اور 144، 145 دیکھئے)

خلاصۃ البحث

دفاع اسلام و مسلمین کا کام آج کٹھن ترین حالات سے گزر رہا ہے۔ اس تناظر میں فتاویٰ جات دیئے جائیں تو ’’ان الدین یسر‘‘ اور یسروا ولا تعسروا‘‘ کے نصوص ہمارے مؤید ہیں۔

اجتہادی مسائل میں ایک سے زیادہ رائے ہو سکتی ہیں۔

مدارس دینیہ اور فلاحی ادارہ جات مصلحت عامہ کے لیے کوشاں ہیں جس میں تعلیم و تعلم، تزکیہ نفس اور دفاع اسلام کے عنوانات سر فہرست ہیں۔

زکوٰۃ میں مصلحت و منفعت عامہ کو بھی سامنے رکھا جاتا ہے۔

تحریر بالا میں یہ واضح ہے کہ جب مدارس دینیہ اور ان کے اعمال خدام اور قراء خطباء مساکین، فقراء، عاملین وغیرہ میں سے ہوں گے تو ان پر زکوٰۃ لگ سکتی ہے بصورت دیگر غارمین اور فی سبیل اللہ کی مدیں (مصلحت عامہ اور منفعت انسانیت کے لیے ہونے کی وجہ سے) اپنی شروط و حدود کے ساتھ ان ادارہ جات کی مؤید ہیں۔

یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام مدوں میں ’’تملیک‘‘ شرط نہیں بلکہ شرط تملیک تواز خود علمائے احناف کے ہاں کوئی قوی دلیل نہیں رکھتی پھر اس کا حیلہ کیا حیثیت رکھتا ہوگا؟

آخری بات:

انما الاعمال بالنیات، فاعبدواللہ مخلصین لہ الدین

اور ایسی کئی ایک آیات و احادیث کا یہ درس ہے کہ دینی معاملات سر انجام دینے والے (سب سے بڑھ کر) مخلص اور بے لوث ہوں اور اپنی خدمت کا صلہ حقیقی معنوں میں اللہ سبحانہ وتعالیٰ سے لینے کے امیدوار ہوں اور ’’اخذ اجرت‘‘ کے شرعی جواز کو بصورت ’’تلک عاجل بشریٰ المؤمن‘‘ سمجھتے ہوئے قناعت کا راستہ اختیار کریں۔ واللہ ولی التوفیق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے