(10)وقار اور سکینت

عالم اور طالب علم کو اپنے شایان شان وقار و سکینت کا اہتمام بھی کرنا چاہئے تمام عادات و افعال جو عالم کے شایان شان نہیں ان سے گریز کرنا چاہئے ۔سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:

’’علم حاصل کرو۔اور لوگوں کو یہ علم سکھا ؤ اور اس علم کے لئے وقار اور سکینت بھی سیکھو اور جس سے یہ علم حاصل کرو اس کے سامنے تواضع بھی اختیار کرواور جنہیں یہ علم سکھلاؤ ان کے ساتھ بھی اچھا رویہ رکھو جابر علماء نہ بن جاؤتمہارا جہل تمہارے علم کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتا۔‘‘(جامع بیان العلم)

اسی طرح امام مالک h کا قول ہےکہ جب تو علم حاصل کرتا ہے تو تجھ میں اس علم کے آثار ،خاموش رہنا، سکینت، وقار اور حلم نظر آئے گا۔علماء بہت زیادہ نہیں بولتے ،بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ پورے مہینے کا کلام ایک گھنٹے میں ہی کرجاتے ہیں ۔(یہ علماء کے شایان شان نہیں کہ اتنا کلام کریں)(المدخل لابن الحاج124/2)

امام مالک hہی کا قول ہے : ’’جو علم کا طالب ہے اس پر لازم ہے کہ وہ باوقار اور سکینت والا ہو۔اور صاحب خشیت ہو۔اچھا علم وہی ہے جس کی وجہ سے خیر مل جائے اور یہ اللہ کی طرف سے تقسیم ہے ۔لوگوں کی جاہ کو اپنے دل میں کوئی حیثیت نہ دیں۔یہ آدمی کی سعادت ہے کہ اسے خیر مل جائے ۔اور آدمی کی شقاوت اور بدبختی یہ ہےکہ وہ ہمیشہ غلطی ہی کرتا رہے ۔علم کی تذلیل اور اہانت ہے کہ آدمی علم والی باتیں کسی ایسے شخص کے پاس کرے جو اس کی بات نہ مانے۔‘‘(سیر اعلام النبلاء)

(11)معلم اور کتاب کا ادب:

استاد اور جس کتاب سے علم حاصل کیا جارہا ہے ان کا ادب علم میں اضافے کے اسباب میں سے ہے اور اس کے برعکس بے ادبی علم سے محرومی کا سبب ہے۔اسلاف کی سیرت کو دیکھا جائے کہ وہ کس حد تک اساتذہ اور کتب حدیث کا ادب کیا کرتے تھے ۔مثلاً امام مسلم ،امام بخاری کے شاگرد ہیں ،ان سے بڑی محبت کرتے تھے اور کہا کرتے تھے مجھے موقع دیں کہ میں آپ کے پاؤں چوم لوں ۔اسی طرح امام ترمذی کے بارے میں آتا ہے کہ انہوں نے اپنے استاذ امام بخاری کی وفات کے بعد رورو کے نابینا ہوگئے تھے۔

امام احمد رحمہ اللہ سے حدیث کی کتاب کو تکیہ کے نیچے رکھنے کے بارے میں پوچھا گیا کہ کیا کوئی آدمی کتابوں کو اپنے سر کے نیچے رکھ سکتا ہے۔کہا کون سی کتب ؟ کہا حدیث کی کتابیں۔فرمایا: اگر اس کو کتابیں چوری ہونے کا خطرہ ہوتو پھر تو رکھ سکتا ہے۔ اگر ویسے ہی تکیہ بناکر رکھنا چاہتا ہے تو پھر ایسا نہ کرے۔(طبقات الحنابلۃ )

(12)علم کے بارے میں تکلف سے کام نہ لے:

قرآن مجید میں فرمان باری تعالی ہے:

(اے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) ) ان سے کہہ دو کہ میں اس تبلیغ پر تم سے کوئی اجر نہیں مانگتا اور نہ میں تکلف کرنے والوں میں سے ہوں ۔ (ص:86)

مسروق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص کندہ میں بیان کر رہا تھا کہ قیامت کے دن دھواں سا پیدا ہوگا جو منافقوں کے کان اور آنکھ میں گھسے گا اور ایمانداروں کو زکام جیسا ہوجائے گا میں یہ سن کر ڈرا اور پھر عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا وہ تکیہ کے سہارے بیٹھے تھے میں نے ان سے وہ واقعہ بیان کیا آپ کو غصہ آگیا فرمانے لگے کہ آدمی کو چاہئے جو بات معلوم ہو وہ بیان کرے ورنہ کہہ دے کہ اللہ بہتر جا نتا ہے اس لئے کہ یہ بھی ایک طرح کا علم ہے کہ جو نہ معلوم ہو اس کیلئے کہہ دے کہ میں نہیں جا نتا اللہ تعالیٰ اپنے رسول سے فرماتا ہے کہ آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی تبلیغ ونصیحت پر کوئی صلہ تم سے نہیں چاہتا اور نہ میں تم سے کسی طرح کی بناوٹی باتیں کرتا ہوں ۔(صحیح بخاری: 4774، صحیح مسلم:2798 )

انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم سیدنا عمررضی اللہ عنہ   کے پاس بیٹھے ہوئے تھے، تو انہوں نے کہا کہ ہم تکلف سے منع کئے گئے ہیں۔ (صحیح بخاری : 7293)

امام مالک رحمہ اللہ کے بارے میں مشہور واقعہ ہے کہ ایک شخص ان کے پاس دور دراز کا سفر طے کرکے سوال پوچھنے آیا اور امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیا مجھے نہیںمعلوم ۔اس نے اصرار کیا اور کہا کہ آپ کو نہیں معلوم ؟؟ فرمایا کہ ہاں مجھے نہیں معلوم ۔

خلاصہ یہ کہ سلف کا معاملہ تھا کہ وہ علم کے بارے میں بالکل تکلف سے کام نہ لیتے اگر وہ کسی چیز کا علم رکھتے جواب دے دیتے اور ناواقف ہوتے تو کہہ دیتے ہم نہیں جانتے ۔بلکہ علوم الحدیث کی کتب میں بکثرت سلف کے اقوال نظر آئیں گے کہ انہوں نے لا ادری یعنی میں نہیں جانتا کو نصف علم قرار دیا۔سلف کے مقابلے میں یقیناً ہماری کوئی حیثیت نہیں ہمیں تو بالاولی ایسا معاملہ رکھنا چاہئےاور علم کے بارے میں تکلف سے احتراز کرنا چاہئے۔

(13)علم کو رسوا نہ کیا جائے :

علم کی عزت اور شرف کا تقاضہ یہ ہے کہ جس نے یہ علم حاصل کرنا ہے ،تو اسے اس کے حصول کے لئے جد و جہد کرنی پڑے گی ۔اور اہل علم کو بھی چاہئے بحیثیت معلم جو ان سے علم سیکھنا چاہتا ہے وہی چل کے ان کے پاس آئے نہ کہ یہ علم کو گھر گھر ایک بکھاری کی طرح لیتے پھریں۔اس لئے کہ پیاسے کو کنویں کے پاس جانا پڑتا ہے نہ کہ کنواں پیاسے کے پاس خود چل کے آجاتا ہے۔اسلاف نے بھی علم کی توقیر میں سے یہ بھی سمجھا ہے کہ معلم خود گھر گھر یا اہل ثروت احباب کے پاس اس علم کو چند پیسوں کی خاطر لیتا پھرے۔دیکھئے امام بخاری رحمہ اللہ کو بخارا کے والی خالد بن احمد الذھلی نے آپ سے جامع الصحیح پڑھنے کی خواہش کااظہار کیا ایک قاصد کے ذریعے ۔لیکن وہ قاصد جب دوبارہ جواب لے کر جاتا ہے تو وہ جواب یہ ہے کہ انی لا اذل العلم ولا احملہ ابواب السلاطین (مقدمہ فتح الباری )

یعنی میں اس علم بادشاہوں کے دروازوں پر لے جاکر رسوا نہیں کرنا چاہتا ۔اگر علم حاصل کرنا ہے تو میری مسجد میں میرے پاس آکر علم حاصل کرو۔

اس والی بخارا سے یہ کھرا جواب برداشت نہ ہوا اور آپ کوبخاراسے نکلنے کا حکم دے دیا آپ نےبخاراچھوڑا اورسمرقند کے قریب ہی ایک علاقے خرتنک میں اپنے قریبی رشتے داروں کے پاس قیام کیا ۔اور اسی علاقے میں وفات پائی ۔

اور جب اسی طرح کا کام ہارون الرشید نے کیا تھا تو امام مالک رحمہ اللہ کا جواب تھا کہ ان العلم یزار ولا یزور ۔یعنی علم حاصل کرنے کے لئے آیاجاتا ہے علم خود متعلمین کے پاس چل کر نہیں آتا۔

(14)حصول علم اور علم نافع کے لئے دعائیں کی جائیں:

ایک طالب علم کا حصول علم کے معاملے میں نیکیوں کے ذریعے سے بھی اور دعاؤں کے ذریعے سے بھی اللہ کے ساتھ تعلق جوڑنا بہت ضروری ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے اپنے لئےبھی اور بعض صحابہ کے لئے بھی خصوصی اور پھر عمومی دعائیں کی ہیں ۔جنہیں ذیل میں ذکر کر رہے ہیں :

نبی ﷺکوعلمکےبارےمیںدعاکرنےکاحکم :

قرآن مجید میں نبی ﷺ کو علم میں اضافے کی دعا کرنے کا کہا گیا جیسا کہ فرمان الہی ہے:

وَقُلْ رَّبِّ زِدْنِيْ عِلْمًا (طہ :114)

اور دعا کیجئے کہ ’’اے میرے پروردگار! مجھے مزید علم عطا کر۔‘‘

نبی ﷺکیاپنےلئےعلمکےبارےمیں دعائیں :

نبی ﷺ کی سیرت سے ثابت ہے کہ نبی ﷺ میںعلم میں اضافہ اور علمِ نافع کے بارے میںدعائیں کیا کرتے تھے۔

ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ یہ دعا مانگا کرتے تھے اے اللہ! جو علم آپ نے مجھے عطا فرمایا اس سے نفع بھی دیجئے اور مجھے ایسے علوم سے نواز دیجئے جو میرے لئے نافع اور مفید ہوں اور میرے علم میں خوب اضافہ فرما دیجئے اور ہر حال میں تمام تعریفیں آپ ہی کے لئے ہیں۔ (ترمذی : 3599)

ابوہریرہ t فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کی ایک دعا یہ بھی ہے اے اللہ میں آپ سے پناہ مانگتا ہوں علم غیر نافع سے (یعنی جس کے مطابق عمل نہ کرے) اور اس دعا سے جو سنی نہ جائے اور اس دل سے جس میں خوف نہ اور ایسے نفس سے جو کبھی بھی سیر نہ ہو۔(سنن نسائی:5467)

نبی ﷺکیصحابہکرامyکے لئے دعائیں :

ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے لئے دعا:

سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :اے ابوالمنذر !کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ کی کتاب میں سے سب سے بڑی آیت کونسی ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا: کیا تمہیں معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں سب سے بڑی آیت کونسی ہے؟ میں نے کہا 🙁 اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ)(یعنی آیت الکرسی ) آپ ﷺنے میرے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا: اے ابوالمنذر یہ علم تمہیں مبارک ہو۔ (صحیح مسلم :810)

ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ کے لئے دعا :

جب سیدنا ابوھریرۃ رضی اللہ عنہ نے شکایت کی میں آپ کی احادیث کو یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں لیکن بھول جاتا ہوں۔آپ ﷺ نے فرمایا: چادر بچھاؤ،پھر آپﷺ دعا فرمائی اور کہا اسے اپنے سینے سے لگالو۔اور اس کے بعد ابوھریرۃ  نے اس چادر کو اپنے سینے سے لگالیا۔اور پھر کبھی اس علم کو کبھی بھولے نہیں۔(صحیح مسلم)

ابن عباس رضی اللہ عنہ کے لئے دعا :

نبی ﷺ نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دعا دی تھی: اے اللہ ! اسے دین کی سمجھ اور تفسیر کا علم عطا فرما۔

نبی ﷺکیعمومیدعائیں :

ابن مسعود  فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺسے سنا کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے (یعنی اسے خوش رکھے) جس نے ہم سے کوئی چیز (بات) سنی اور پھر بالکل اسی طرح دوسروں تک پہنچا دی جس طرح سنی تھی۔ اس لئے کہ بہت سے ایسے لوگ جنہیں حدیث پہنچے گی وہ سننے والے سے زیادہ سمجھ اور علم رکھتے ہوں گے۔ (جامع ترمذی :2658،ابن ماجۃ : 230)

نبی ﷺ کا علم کے بارے میں دعائیں کرنے کا حکم :

جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی سے علم نافع کا سوال کرو اور اس علم سے اللہ کی پناہ مانگو جو فائدہ نہ دے۔

(ابن ماجۃ : 3843، سلسلۃ الصحیحۃ : 1151)

اس تمام تر تفصیل جس میں وضاحت کے ساتھ نبی ﷺ کا علم کے حوالے پوری امت کے لئے عمومی دعائیں کرنا ،اور بعض صحابہ کے لئے خصوصی دعا کرنا اور اپنی ذات کے لئے بھی دعائیں کرنا ۔اس تفصیل سے واضح ہواکہ ہمیں یہ تینوں عمل کرنے چاہییں یعنی اپنی ذات کے لئے بھی اور اگر کسی میں اچھی ذہانت و فطانت محسوس کریں اس کے لئے بھی اور عام مسلمانوں کے لئے بھی دعاؤں کا سلسلہ جاری رکھا جائے۔اور بحیثیت شاگرد کے اپنے اساتذہ اور بحیثیت معلم اپنے شاگردوں کے لئے بھی دعائیں کرتے رہیں اور ہوسکے تو اس بندۂ خاکسار کو بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے