ساتویں اور آٹھویں صدی ہجری میں مسلمانوں پر تاتاری ایک عذاب الٰہی کی صورت میں نازل ہوئے اور اسی دور میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا۔ جو اپنے وقت کے ایک متبحرعالم دین تھے اور جنہوں نے اپنی خداداد علمی بصیرت کی وجہ سے ایک مجتہدانہ مقام حاصل کیا اور ان کے اساتذہ اور معاصرین نے ان کے علم و فضل اور صاحب کمال ہونے کا اعتراف کیا ہے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ صاحب قلم بھی تھے اور صاحب سیف بھی۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے ایک طرف عقائد کی اصلاح کے لیے جدوجہد کی، شرک و بدعت کی تردید کی پھر یونانی فلسفہ و منطق کی بیخ کنی کی اور صوفیاء پر برملا تنقید کی اور ان کے عقائد باطلہ کی قرآن و حدیث اور فقہ اسلامی کی روشنی میں تردید کی عیسائیت اور شیعت کی بھی تردید کی اور ان ہر دوگروہوں کے عقائد اور اسلام اور مسلمانوں  کے خلاف ان کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا سب سے عظیم علمی کارنامہ علوم شریعت کی تجدید ہے امام ابن تیمیہ نے اپنے خداداد حافظہ سے علوم اسلامیہ پر عبور حاصل کیا اور ان کو فکری طور پر ہضم کیا اور اس سے اپنی تصنیفات میں پورا فائدہ اٹھایا اور امام صاحب نے اپنی فکر کا موضوع تفسیر قرآن کو بنایا اور تفسیر قرآن میں اتنی بصیرت حاصل کر لی تھی کہ ان کی نماز جنازہ کا اعلان’ ’الصلاۃ علی ترجمان القرآن‘‘ ہے ہوا۔

فکر اسلامی کے احیاء کے لیے امام ابن تیمیہ نے جو کارہائے نمایاں انجام دیئے وہ تاریخ اسلام کا ایک سنہری باب ہے۔

مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا یہ تجدیدی کارنامہ ہے کہ انہوں نے جس طرح کتاب وسنت کو عقائد کا ماخذ بنانے کی پرزور دعوت دی اور خود کامیابی کے ساتھ اس پر عمل کیا اسی طرح کتاب و سنت کو فقہیات و احکام کا ماخذ بنانے اور ان کو حق کا معیار قرار دینے کی طاقت ور دعوت دی اور اپنے زمانہ میں اس پر عمل کر کے دکھایا اور ’’فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول‘‘ پر عمل کا نمونہ پیش کیا ان کی اس دعوت نے ان فقہی دائروں اور امت کے علمی حلقوں میں جن میں عرصہ سے نئے غور و فکر اور احکام و مسائل کے کتاب وسنت کا مقابلہ کرنے کاکام بند ہو گیا تھا اور اجتہاد و استنباط کا سلسلہ عرصہ سے مسدود تھا۔ نئی علمی و فکری حرکت اور براہ راست کتاب و سنت کی طرف رجوع کی تحریک پیدا ہوئی۔ اسی طرح انہوں نے صحیح اسلامی فکر کا احیاء کیا جو قرون اولیٰ میں پائی جاتی تھی اور مسلمانوں کی زندگی کی بنیاد تھی وہ اپنے ان تمام علمی و عملی کارناموں کی بنا پر تاریخ اسلام کی ان چیدہ شخصتیوں میں سے ہیں جن سے اللہ تعالیٰ نے اس دین کی تجدید و احیاء کا کام لیا۔

ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم (تاریخ دعوت و عزیمت 2/375)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ

امام ابن تیمیہ جامع الصفات شخصیت تھے اور بلاشبہ ملت اسلامیہ کے لیے سرمایہ صد افتخار تھے آپ کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ آپ نے اسلامی تعلیمات کو خاص کتاب اللہ اور سنت رسول اللہﷺ کی بنیاد پر پیش کیا اور اس کے ساتھ ان کی اصلاحی جدوجہد بھی ان کا عدیم المثال کارنامہ تھا۔

علامہ شبلی نعمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

اسلام میں سینکڑوں، ہزاروں بلکہ لاکھوں علماء فضلاء، مجتہدین، ائمہ دین اور مدبرین گزرے ہیں لیکن مجدد یعنی ریفارمر بہت کم پیدا ہوئے۔

مجدد کے لیے تین شرطیں ضروری ہیں۔

1۔ مذہب یا علم سیاست میں کوئی مفید انقلاب پیدا کر دے۔

2۔ جو خیال دل میں آیا ہو کسی کی تقلید سے نہ آیا ہو بلکہ اجتہاد ہو۔

3۔ جسمانی مصیبتیں اٹھائی ہوں جان پر کھیلا ہو اور سرفروشی کی ہو تیسری شرط اگر ضروری قرار نہ دی جائے تو امام ابو حنیفہ، امام غزالی، امام رازی، امام شاہ ولی اللہ اس دائرہ میں آ سکتے ہیں لیکن جو شخص ریفارمر (مجدد) کا اصلی مصداق ہو سکتا ہے وہ علامہ ابن تیمیہ ہیں مجدد کی اصلی خصوصتیں جس قدر علامہ ابن تیمیہ کی ذات میں پائی جاتی ہیں اس کی نظر کم مل سکتی ہے۔

(مقالات شبلی 5/63)

مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

آٹھویں صدی ہجری کے اوائل میں جب دعوت عامہ امت تجدید شریعت و احیاء السنۃ بعد موتہا و إخماد البدعۃ بعد شیوعہا وإرتفاعہاکی روح القدس نے آیت میں آیات اللہ وحجۃ قائمۃ من حجج اللہ شیخ المصلین وملاء المجددین، سند الکاملین، امام العارفین، وارث الانبیاء وقدوۃ الاولیاء حضرت شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے وجود مبارک میں ظہور کیا اور عہد اواخر کے تمام مسالک دعوت کی تجدید کی امامت وفاتحیت وقطبیت و مرکزیت کا مقام اس مجدد اعظم کے سپرد کیا گیا دیار مصر وشام علمائے کاملین سے مملو و مشحون تھے۔ بڑے بڑے حفاظ و نقاد علوم اور خواص اعاظم نظر اجتہاد موجود تھے جن کے بعد اس درجہ کے لوگ تمام عالم اسلامی میں پیدا نہیں ہوئے اور ان کے معاصرین کو یک زبان و یک قلم ہو کر اعتراف کرنا پڑا۔

ما راینا مثلہ وإنہ ما رائ مثلہ

نہ تو ہماری آنکھوں نے اس کا مثل دیکھا اور نہ خود اس کو اپنا مثل کوئی نظر آیا۔

(تذکرہ مطبوعہ انار کلی کتاب گھر لاہور ص 161)

حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

ہم نے ان (ابن تیمیہ) کے حالات کی خوب تحقیق کی وہ قرآن مجید کے عالم حدیث رسول اللہﷺ کے حافظ دونوں کے لغوی و شرعی معانی کے ماہر، آثار سلف کے عارف، نحو اور لغت کے استاد تھے۔

(مکتوبات شاہ ولی اللہ دہلوی ص 27)

مولانا سید نواب صدیق حسن خان رحمہ اللہ رئیس بھوپال فرماتے ہیں:

در سلوک شانے عظیم داشت، حکایت و کرامات و روایات و برکات اور بیش از مصرامت (تقصار جیود الاحرار ص 76)

برصغیر میں امام ابن تیمیہ اور تصانیف ابن تیمیہ کا تعارف

برصغیر (پاک وہند) میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ اور ان کے علوم و معارف کا تعارف کا شرف علمائے اہلحدیث کو حاصل ہوا۔ محقق شہیر مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

علمائے غزنویہ (امرتسر) کا امراء و علماء نجد سے تعلق پیدا ہو گیا جس کے نتیجہ میں ہمارے ہاں معارف ابن تیمیہ کا مزید ورود ہوا۔ جبکہ نواب صدیق حسن خان کا ذریعہ علمائے یمن تھے بزرگان غزنویہ مولانا محمد صاحب غزنوی محشی تفسیر جامع البیان، مولانا عبدالجبار، مولانا عبدالرحیم، مولانا عبدالواحد رحمہم اللہ تعالیٰ کی توجہ سے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی بعض تصانیت طبع ہوئیں اور تدریسی طریقے سے آپ کی دعوت توحید اور ذکر و فکر کو عوام تک پہنچانے کی کوشش کی گئی اس کےساتھ مصر سے شیخ الاسلام کی تصانیت اور تراجم پر مشتمل کئی کتابیں اور مختلف مجلات میں اہل علم کے مقالات آنے شروع ہو گئے اب تعلیمات ابن تیمیہ سے صدیوں سے پڑے ہوئے پردے بڑی حد تک اٹھ گئے حقیقت حال سے تحقیق پسند علماء واقف ہوئے تو علوم ابن تیمیہ کی شیدائیت بڑھی اردو فارسی کا شرف اردو کو حاصل ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے اردو ادب کے دو صاحب علم مولانا شبلی نعمانی اور مولانا ابو الکلام آزاد کو توفیق بخشی کہ انہوں نے اردو دان طبقے کو شیخ الاسلام سے روشناس کرایا۔(حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ (اردو) ص 8)

نام و نسب و ولادت:

شیخ الاسلام کا نام احمد عرف ابن تیمیہ، کنیت ابوالعباس اور لقب تقی الدین تھا۔

سلسلہ نسب یہ ہے۔

احمد بن عبدالحلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن خضر بن محمد بن خضر بن علی بن عبداللہ۔

آپ کی ولادت 10 ربیع الاول 661ھ شام کے ایک شہر حران میں ہوئی۔ (امام ابن تیمیہ از محمد یوسف کوکن ص775، مقالات شبلی 5/64)

نقل سکونت:

امام ابن تیمیہ جس دور میں پیدا ہوئے اس وقت عالم اسلام پر تاتاریوں کی یلغار تھی امام ابن تیمیہ نے اپنی زندگی کے ابتدائی سال حران میں گزارے جب ساتویں سال میں قدم رکھا تو حران پر تارتاریوں نے یلغار کر دی چنانچہ امام ابن تیمیہ کے والد امام عبدالحلیم نے اپنے خاندان کے ہمراہ حران سے دمشق کی طرف ہجرت کی تاتاریوں نے تعاقب کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے محفوظ و مامون رکھا۔ (مقالات شبلی 5/64)

آغاز تعلیم:

امام ابن تیمیہ کی تعلیم کا آغاز حران میں ہو گیا تھا لیکن باقاعدہ تعلیم کا آغاز دمشق میں ہوا اور دارالحدیث السکریہ میں ان کی تعلیم کی ابتدا ہوئی جہاں آپ کے والد محترم امام عبدالحلیم کا تقرر بطور شیخ الحدیث ہو گیا تھا دارالحدیث السکریہ کے علاوہ امام ابن تیمیہ نے دارالحدیث الحنبیلہ میں بھی تعلیم حاصل کی۔ (امام ابن از کوکن ص 56)

غیر معمولی حافظہ:

امام ابن تیمیہ کا خاندان غیر معمولی حافظہ کی نعمت سے بہرہ ور ہونے میں مشہور و معروف تھا ان کے والد عبدالحلیم اور دادا امام عبدالسلام بھی غیر معمولی حافظہ کے مالک تھے لیکن تقی الدین ابن تیمیہ ان دونوں سے سبقت لے گئے قرآن مجید تو آپ نے بچپن ہی میں حفظ کر لیا تھا اور قرآن مجید سے آپ کو بچپن سے شغف تھا اپنی زندگی میں کسی بھی لمحہ تلاوت سے ناغہ نہیں کیا آخری عمر میں جب جیل میں تھے تو آپ نے جیل میں 80 مرتبہ قرآن مجید اول تا آخر پڑھا۔ (البدایہ والنہایہ 14/138)

آپ کے حافظہ کی شہرت دمشق سے باہر دوسرے شہروں میں بھی پھیل گئی صاحب العقور الدریہ نے آپ کے غیر معمولی حافظہ کے بارے میں لکھا ہے کہ:

حلب کے ایک مشہور عالم دمشق آئے اور انہوں نے امام ابن تیمیہ کا امتحان لیا اور آپ امتحان میں کامیاب ہو گئے تو شیخ حلبی نے فرمایا:

یہ لڑکا اگر زندہ رہا تو بڑا مرتبہ حاصل کرے گا میری نظر سے آج تک ایسا لڑکا نہیں گزرا۔ (العقود الدریہ ص 21)

تکمیل تعلیم:

دارالحدیث السکریہ اور مدرسہ الحنبلیہ کے فاضل اساتذہ سے استفادہ کے بعد دوسرے علمی مراکز سے بھی امام ابن تیمیہ نے کسب فیض کیا۔ اور ان سے فقہ، اصول فقہ، ادب، تاریخ، لغت، صرف ونحو، فلسفہ و منطق، معقول و منقول، حدیث و تفسیر کی کتابیں پڑھیں قرآن مجید کی تفسیر امام ابن تیمیہ کا محبوب مشغلہ تھا اور اس فن سے ان کو فطرتاً مناسبت تھی قرآن مجید کی تلاوت، تدبر اور کثرت مطالعہ سے اللہ تعالیٰ نے ان پر علوم قرآن کا خاص اضافہ فرمایا تھا تفسیر قرآن کے علاوہ حدیث اور علوم حدیث سے بھی ان کو خاص انس تھا اور حدیث کی تعلیم آپ نے کئی ایک اساتذہ سے حاصل کی تھی حدیث کی کتابون میں آپ نے سب سے پہلے جو کتاب حفظ کی وہ امام حمیدی کی ’’الجمع بین الصحیحین‘‘ ہے۔

(حیات ابن تیمیہ ابو زہرہ ص 57)

اساتذہ

امام ابن تیمیہ کے شیوخ کی تعداد دو سو سے متجاوز ہے جیسا کہ حافظ ابن عبدالہادی نے اس کی تصریح کی ہے۔

(امام ابن تیمیہ از غلام جیلانی برق ص 26)

امام ابن تیمیہ نے مسند امام احمد بن حنبل، صحیح بخاری، صحیح مسلم، سنن ابی داؤد، جامع ترمذی، سنن نسائی، سنن ابن ماجہ اور سنن دار قطنی کی بار بار سماعت کی جس کی وجہ سے انہوں نے حدیث پر مکمل عبور حاصل کر لیا اور یہاں تک یہ کہا جانے لگا۔

’’جس حدیث کو امام ابن تیمیہ نہیں جانتے وہ حدیث ہی نہیں ہے‘‘۔ (امام ابن تیمیہ از کوکن ص 67)

دوسرے علوم میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا کمال:

تفسیر و حدیث میں کمال حاصل کرلینے کے بعد امام ابن تیمیہ نے دوسرے علوم یعنی فقہ، اصول فقہ، فلسفہ و منطق، ادب، تاریخ و سیر، اسماءالرجال، لغت و عربیت اور ریاضی میں بھی بے مثال دسترس حاصل کی اور تمام علوم میں ان کے صاحب کمال ہونے کا اعتراف ان کے حریف علمائے کرام نے بھی کیا ہے چنانچہ ان کے مشہور حریف علامہ کمال الدین الزمکانی نے آپ کے جامع العلوم ہونے کا اعتراف درج ذیل الفاظ میں کیا ہے کہ:

ابن تیمیہ کے لیے اللہ تعالیٰ نے علوم اس طرح نرم کر دیئے تھے جس طرح داؤد علیہ السلام کے لیے لوہا نرم کر دیا تھا جس علم کے بارے میں ان سے سوال کیا جاتا اس طرح جواب دیتے کہ دیکھنے والا یا سننے والا یہ سمجھتا کہ وہ اس فن کے سوا کچھ نہیں جانتے اور یہ فیصلہ کرنا پڑتا کہ ان کی طرح کوئی اور اس فن کا عالم نہیں ہر مذہب و فقہ کے علماء جب ان کی مجالس میں شریک ہوتے تو ان کو کوئی نہ کوئی ایسی چیز معلوم ہوتی جو ا ن کو پہلے سے معلوم نہ تھی یہ کبھی نہیں ہوا کہ انہوں نے کسی سے مناظرہ کیا ہو اور اس کا جواب نہ دیا ہو یا شکست کھائی ہو جب کبھی انہوں نے کسی شرعی یا عقلی علم میں کلام کیا تو ماہرین فن اور اس کے مخصوص عالموں سے بڑھ گئے تصنیف میں ان کو یدلی طولیٰ حاصل تھا۔ (تاریخ دعوت و عزیمت 2/44)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا پہلا درس:

امام ابن تیمیہ کی عمر 22 سال تھی کہ ان کے والد محترم امام عبدالحلیم نے 30 ذی الحجہ 682ھ کو انتقال کیا امام عبدالحلیم اس وقت دارالحدیث السکریہ کے شیخ الحدیث تھے۔ اس وقت دینی مدارس کی سر پرستی حکومت وقت کرتی تھی۔ اور اساتذہ کا تقرر بھی حکومت کرتی تھی چنانچہ امام ابن تیمیہ کو ان کے والد کے انتقال کے بعد دارالحدیث السکریہ کا شیخ الحدیث مقرر کیا گیا اس وقت امام ابن تیمیہ کے علم و فضل کی شہرت عام ہو چکی تھی اور اس وقت یہ بھی دستور تھا کہ جب کسی استاد کی تقرری ہوتی تھی تو اس کے لیے لازمی تھا کہ وہ افتتاحی درس دے اور یہ بھی دستور تھا کہ افتتاحی درس میں ممتاز علمائے کرام اور عمائدین اور اعیان حکومت شریک ہوں۔

چنانچہ امام ابن تیمیہ کے درس میں قاضی القضاہ بہاؤ الدین یوسف، شیخ الاسلام تاج الدین الفزاری، شیخ زین الدین عمر الشافعی اور شیخ الحنابلہ زین الدین ابو البرکات کے علاوہ عمائدین شہر اور اعیان حکومت بھی شریک ہوئے امام ابن تیمیہ نے صرف ’’بسم اللہ الرحمان الرحیم‘‘ پر درس دیا۔ اور ایسے علمی نکات بیان کئے کہ تمام سامعین حیرت زدہ ہوگئے اور سب نے امام صاحب کے علمی متجر حاضر دماغی، فہم و بصیرت اور فصاحت و بلاغت کا اعتراف کیا۔ حافظ ابن کثیر جو شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تلامذۃ میں سے ہیں اس درس کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:

یہ محیر العقول درس تھا شیخ تاج الدین الفزاری نے اس کے کثیر فوائد اور لوگوں کی عام پسندیدگی کی وجہ سے اس کو اپنے قلم سے ضبط کیا حاضرین نے امام صاحب کی کم عمری اور جوانی کی بنا پر اس درس کی بڑی تعریف کی اور ان کی بہت داد دی اس لیے کہ ان کی عمر اس وقت 22 سال کی تھی۔ (البدایہ والنہایہ 13/303)

عہدہ قضاء کی پیشکش:

امام ابن تیمیہ کے علم وفضل کا شہرہ اس قدر پھیل چکا تھا کہ 690 ہجری میں جب کہ ان کی عمر 30 سال تھی قاضی القضاہ کی عہدہ پیش کیا گیا لیکن آپ نے اس منصب کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ 690ھ میں حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ اور جب حج سے واپس آئے تو تمام ممالک اسلامیہ میں ان کے علم وفضل کا سکہ جم چکا تھا۔

(مقالات شبلی 5/65)

ایک دل آزار واقعہ اور امام ابن تیمیہ کی دینی حمیت اور جذبہ عملی کا اظہار:

693ھ میں دمشق میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے امام ابن تیمیہ کی دینی حمیت اور عملی جذبہ کا اظہار ہوتا ہے یہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ ایک عیسائی نے رسول مکرمﷺ کی شان اقدس میں گستاخی کی جس سے مسلمان مشتعل ہو گئے اور عیسائی نے حاکم دمشق کے ہاں پناہ لی مسلمان امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوئے اور واقعہ کی اطلاع دی۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ دارالحدیث السکریہ کے شیخ الحدیث امام زین الدین الفارقی کے ہمراہ حاکم دمشق کے دربار میں تشریف لے گئے لوگوں کی ایک کثیر تعداد بھی امام صاحب کے ہمراہ تھی امام صاحب نے حاکم دمشق سے فرمایا:

قیامت کے روز جب محشر میں تمام دنیا حاضر ہو گی اور آپ بھی وہاں ہوں گے اور رسول مکرمﷺ اللہ تعالیٰ آپ کی شکایت کریں گے اور اللہ تعالیٰ سے فرمائیں گے کہ یا اللہ اس حاکم سے دریافت کیا جائے کہ اس کے دور حکومت میں میری کیوں توہیں کی گئی تو آپ اس وقت کیا جواب دیں گے۔

حاکم وقت امام ابن تیمیہ کے زبان سے یہ الفاظ سن کر خوف زدہ ہو گیا اور اسی وقت عیسائی کو زدوکوب کیا اور عیسائی نے اسی وقت اسلام قبول کرلیا اس کے بعد امام صاحب واپس تشریف لے گئے اور اسی زمانہ میں آپ نے اپنی مشہور کتاب ’’الصارم المسلول علی شاتم الرسول‘‘ لکھی جس میں آپ نے بدلائل ثابت کیا کہ:

رسول اللہﷺ کو گالی دینے والا چاہے وہ مسلمان ہو یا کافر اس کا قتل کرنا واجب ہے۔ (البدایہ والنہایہ 13/335، امام ابن تیمیہ از کوکن ص 80)

امام ابن تیمیہ کی پہلی مخالفت:

امام ابن تیمیہ درس و تدریس میں مشغول تھے اور ان کے علم و فضل کی شہرت اور عوام وخواص میں مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہو رہا تھا۔

698ھ میں ان کے خلاف پہلی شورش ہوئی ان کی ذات اور عقائد کو موضوع بحث بنایاگیا اس واقعہ کی تفصیل یہ ہے کہ حماۃ (شام) کے باشندوں نے ان کی خدمت میں ایک استفساء بھیجا کہ اس کا جواب قرآن وحدیث، آثار صحابہ اور اقوال تابعین کی روشنی میں دیا جائے سوال یہ تھا: الرحمن علی العرش استویٰ، ثم استویٰ علی السماء یعنی آیات اور ان قلوب بنی آدم بین اصبعین من اصابع الرحمان اور یضع الجبار قدمہ الی النار میں علماء کی کیا تحقیق ہے اور صفات کے بارے میں علمائے اہل سنت کا مسلک کیا ہے۔

امام ابن تیمیہ نے ان سوالات کے جواب میں ’’العقیدة الحمویة الکبری‌‘‘ کے نام سے لکھا جس میں وضاحت کے ساتھ قرآن و حدیث، صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین، آئمہ مجتہدین، متکلمین اور متقدمین کے اقوال سے مسئلہ پر روشنی ڈالی اور تفصیل سے آئمہ سلف کے عقیدہ کی وضاحت کی مگر اشاعرہ اور متکلمین جن کو جمہور اور حکومت کی حمایت حاصل تھی اور جو قضا اور افقاء کے سرکاری منسبوں سے لے کر درس و تصنیف کے علمی حلقوں پر حاوی تھے ناراضگی کی ایک لہر دوڑ گئی۔

حافظ ابن کثیر نے امام ابن تیمیہ کی اس مخالفت کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نے خطبہ جمعہ میں انک لعلی خلق عظیم پر وعظ فرمایا اور ہفتہ کے روز قاضی امام الدین شافعی سے ملاقات کی اور فتوی حمدیہ کے بارے میں ان کے سوالات کے جواب دیئے اور کئی مقامات کی توضیح کی جب سے قاضی امام الدین مطمئن ہوگئے اور حالات اعتدال پر آ گئے۔ (البدایہ والنہایہ 14/4)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ میدان جہاد میں:

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ درس و تدریس میں مصروف تھے کہ 699ھ میں تاتاریوں نے شام پر دھاوا بول دیا اور شامی فوجوں نے شکست کھائی اس شکست سے مسلمان سراسیمہ ہوگئے اور دمشق سے بھاگنا شروع کر دیا۔

پروفیسر ابو زہرہ مصری لکھتے ہیں کہ:

اس حملہ کے خوف سے علماءاور اکابر نے راہ فرار اختیار کی اعیان و امراء کو بھاگتے بنی حد یہ ہے کہ قاضی شافعیہ امام الدین اور قاضی مالکیہ زواری اور دوسرے کبار علماء اور کبائر رجال کے قدم بھی نہ ٹک سکے حالت یہ تھی کہ شہر تمام بڑے آدمیوں سے خالی ہو گیا نہ کوئی حاکم تھا اور نہ نظم و انتظام اور امن و امان بحال رکھتا نہ کوئی عالم تھا کہ وعظ و تذکیر اور پند وارشاد کا سلسلہ جاری رکھتا جس سے حوصلے بلند ہوتے اور عزائم قائم رہتے لیکن ایک ایسا عالم تھا جو بے فوا اور بے سہارا عوام کے درمیان استقلال و عزیمت کی پوری شان کے ساتھ موجود تھا نہ اس کے قدم اکھڑے اور نہ ہی اس نے راہ فرار اختیار کی یہ تھے شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (حیات ابن تیمیہ ص 87)

تارتاریوں کی دوبارہ آمد اور امام ابن تیمیہ میدان جہاد میں:

700 ہجری میں تارتاریوں نے دوبارہ شام پر حملہ کر دیا اس حملہ سے اہل شام حواس باختہ ہو گئے امام ابن تیمیہ نے شاہ مصر کو اہل شام کی مدد کے لیے آمادہ کیا خود بھی میدان جہاد میں تشریف لے گئے اور شامی و مصری فوجوں کی حوصلہ افزائی کی اور اپنی تقریر میں قرآن مجید کی درج ذیل آیت مبارکہ

ذٰلِكَ ۚ وَمَنْ عَاقَبَ بِمِثْلِ مَا عُوْقِبَ بِهٖ ثُمَّ بُغِيَ عَلَيْهِ لَيَنْصُرَنَّهُ اللّٰهُ ۭ اِنَّ اللّٰهَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ ؀

(ترجمہ)اور اللہ نے اس قدر بدلہ لے لیا جس قدر اسے تکلیف دی گئی تھی اور پھر اس پر زیادتی کی گئی تھی تو اللہ ضرور اس کی مدد کرے گا بے شک اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والا اور معاف کرنے والا ہے۔ (الحج60)

کی تفسیر ایسے دنشین انداز میں بیان کی کہ شامی اور مصری فوجوں کے حوصلے بلند ہوگئے اور تارتاریوں کو شکست فاش ہوئی امام ابن تیمیہ نے اس جنگ میں شجاعت و بہادری کے ایسے جوہر دکھائے کہ تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ (حیات ابن تیمیہ ص 85)

شرک و بدعت کی تردید کے لیے امام ابن تیمیہ کی مساعی:

امام ابن تیمیہ ایک پرجوش مبلغ اور جید عالم دین تھے وہ یک سوئی سے کتاب و سنت کی اشاعت، ترقی اور ترویج میں اپنا زیادہ وقت صرف کیا کرتے تھے ان کے سامنے رسول اکرمﷺ کا یہ ارشاد مبارک تھا۔

مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ (صحيح مسلم (1/ 69)

تم میں سے جو کوئی شخص برائی دیکھے تو چاہیے اس کو اپنے ہاتھ سے بدل دے اگر اس کی استطاعت نہ ہوتو زبان سے کام لے اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہو تو اپنے دل میں برا سمجھے یہ ایمان کا کمزور درجہ ہے۔

امام ابن تیمیہ نے کتاب وسنت کی ترقی و ترویج اور شرک وبدعت کی تردید و توبیخ میں ہمہ تن مصروف ہوگئے اور آپ کی زندگی کا اصل مقصد یہ تھا کہ شرک و بدعت کا قلع قمع کیا جائے اس زمانہ میں یہودیوں اور عیسائیوں کے اختلاط کی وجہ سے اور دوسری طرف فاسد العقیدہ جاہل علماء کی تعلیم سے مسلمانوں میں ایسے اعمال رواج پذیر ہوگئے تھے جن کا منبع جاہلیت، بدعات اور شرک و بت پرستی سے ملتا تھا چنانچہ امام صاحب نے کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں لوگوں کو صحیح اسلامی مسائل سے آگاہ کیا اور لوگوں کو اس بات سے روشناس کرایا کہ کس طرح کتاب و سنت سے استنباط کیا جا سکتا ہے اس کے ساتھ امام صاحب نے ایک عملی قدم اٹھایا کہ نہر غلوط کے کنارے ایک چٹان تھی جس کی لوگ زیارت کرتے تھے اور وہاں نذرونیاز بھی دیتے تھے آپ نے اس چٹان کو پاش پاش کر دیا تاکہ:

نہ رہے بانس اور نہ بجے بانسری

(البدایہ والنہایہ 14/34)

فتنہ عقائد:

کتاب اللہ العزیز (قرآن مجید) میں ہر مسلمان کے لیے یہ ضروری قرار دیا گیا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں اور یوم آخرت، قضاء و قدر، قیامت، بعث بعد الموت اور جزاء و سزا پر ایمان رکھے کیونکہ ان پر ایمان لائے بغیر ان کا ہر عمل بے کار ہو جاتا ہے مسلمانوں کے تمام اعمال کی بنیاد انہی عقائد پر ہے ان پر ایمان لائے بغیر ان کی نجات نہیں ہو سکتی۔

قرآن مجید میں ایمان لانے کے ساتھ ساتھ عمل پر بھی زور دیا گیا ہے اور عقائد کی ان باتوں کو بار بار دہرایا گیا ہے جو انسان کے دل و دماغ اور اس کی عبادت اور اعمال و اخلاق کی اصلاح و درستگی سے تعلق رکھتی ہیں اور اس کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ عام لوگوں کے ذہین نشین ہو جائیں۔

امام ابن تیمیہ نے یہودیت و نصرانیت کی تردید کرتے ہوئے اس کے ساتھ شرک و بدعت کی بھی تردید کی شیعہ عقائد کی حقیقت واضح کی اور صوفیا پر تنقید کی اور کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں تمام مسائل واضح کیے شیخ محی الدین ابن عربی کے مسلک پر کھل کر تنقید کی اور ان کے عقائد کی کتاب و سنت و آثار صحابہ کرام واقوال تابعین کی روشنی میں وضاحت کی اور اس سلسلہ میں ’’الفرقان بين الحق والباطل‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔ (تاریخ دعوت و عزیمت 2/76)

اس کتاب کے شائع ہونے پر نام نہاد صوفیا کے اندر کھلبلی مچ گئی اورامام صاحب کے دلائل کا ان کے پاس کوئی جواب نہ تھا انہوں نے خاموشی اختیار کی اور اس کے ساتھ امام ابن تیمیہ کے علم و فضل کا اعتراف بھی کیا۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا دور ابتلاء

ایک طرف امام صاحب کی مخالفین آپ کے علم و فضل کا اعتراف کر رہے تھے اور دوسری طرف در پردہ آپ کو نقصان پہنچانے میں مصروف تھے صوفیا پر آپ نے جو تنقید کا سلسلہ شروع رکھا تھا اس سے در پردہ امام صاحب کے خلاف ایک محاذ قائم کیا جا رہا تھا حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ شیخ تقی الدین (ابن تیمیہ) سے فقہاء کی ایک جماعت جلا کرتی تھی اس لیے کہ وہ حکومت کی نگاہ میں وقار کے حامل تھے عوام ان کے ارشادات پر سر تسلیم خم کر رہے تھے۔

امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا فریضہ تن تنہا انجام دینا ان کا شعار تھا اس کے باعث وہ لوگوں میں مقبول تھے ان کے اتباع کی تعداد شمار سے خارج تھی ان کی حمیت دینی اور علم و فضل نے انہیں محسود بنا دیا تھا۔ (البدایہ والنہایہ 14/37)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی سلطان مصر سے شکایت:

ابن عربی کے معتقدین نے سلطان مصر سے شکایت کی کہ شیخ الاسلام امام تقی الدین ابن تیمیہ صوفیا پر بہت تنقید کرتے ہیں اور خاص کر ابن عربی پر ان کی تنقید بہت زیادہ ہے جس کی وجہ سے شیخ ابن عربی کے وقار کو گھٹایا جارہا ہے اور ان کے افکار و خیالات کی دھجیاں اڑا رہے ہیں لہٰذا ہماری آپ سے استدعا ہے کہ امام ابن تیمیہ کو اس سے باز رکھا جائے۔

مصر طلبی:

5 رمضان المبارک 705ھ سلطان مصر کا پروانہ دمشق پہنچا جس میں امام صاحب کو قاہرہ طلب کیا گیا تھا چنانچہ 22 رمضان المبارک کو امام ابن تیمیہ دمشق سے قاہرہ پہنچے ان کے پہنچنے سے پہلے قاضی القضاۃ بدرالدین شافعی کو انکوائری افسر مقرر کیا جا چکا تھا چنانچہ 10 شوال بروز منگل قاہرہ میں ایک مجلس مذاکرہ منعقد ہوئی شافعی عدالت کے سامنے علمائے کرام نے درخواست کی کہ:

امام ابن تیمیہ پر جو الزامات ہیں ان پر ان کو سزا دی جائے۔

امام ابن تیمیہ نے سب الزامات کی تردید کی اور کتاب وسنت کی روشنی میں اپنا نقطہ نظر واضح کیا اس پرلوگوں میں اختلاف پیدا ہو گیا ایک گروہ امام صاحب کا ہم نوا ہوگیا اور دوسرا گروہ مخالف، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ امام صاحب کے بارے میں کوئی فیصلہ نہ ہو سکا۔

(امام ابن تیمیہ از کوکن ص 345)

جب مخالفین ابن تیمیہ اپنے مشن میں کامیاب نہ ہو سکے تو مخالفت برائے مخالفت کے اصول کے پیش نظر دوبارہ سلطان مصر سے شکایت کی کہ امام صاحب کی تنقیدات اب بھی صوفیاء پر جاری ہیں اس لیے ان کے خلاف کاروائی کی جائے چنانچہ حکومت نے دوبارہ امام صاحب کو طلب کیا اور آپ کے لیے تین شرطیں رکھیں۔

1۔ قاہرہ سے دمشق چلے جائیں اور مشروط زندگی گزاریں۔

2۔ قاہرہ سے اسکندریہ چلے جائیں اور مشروط زندگی گزاریں۔

3۔ اگر دونوں شرطیں منظور نہیں تو جیل چلے جائیں۔

امام صاحب نے تیسری شرط منظور کر لی اور جیل چلے گئے ان کو جیل میں ہر قسم کی سہولت مہیا کی گئی ان کے وقار و احترام کو ملحوظ رکھا گیا تصنیف و تالیف کی بھی اجازت تھی درس و تدریس پر بھی کوئی پابندی نہ تھی اور اس کے علاوہ یاران صحبت کو بھی جیل میں ملاقات کی اجازت تھی۔(مقالات شبلی 5/76)

لیکن جیل سے باہر ان کے متبعین حنابلہ پر حکومت کی گرفت سخت ہو گئی اور ان سے اہانت میز سلوک ہونے لگا۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

امام ابن تیمیہ کے جیل جانے سے دربار مصر میں حنابلہ کو بہت زیادہ اہانت و ذلت ورسوائی سے دوچار ہونا پڑا۔

(البدایہ و النہایہ 14/38)

مشروط رہائی کی پیشکش:

18 ماہ گزر گئے امام ابن تیمیہ کو جیل میں تو حکومت کو خیال آیا کہ امام صاحب کو رہا کر دیا جائے لیکن مشروط۔ اس سلسلہ میں جب امام صاحب سے گفتگو ہوئی تو آپ نے مشروط رہائی سے انکار کر دیا۔ بقول حافظ ابن کثیر کے حکومت کا نمائندہ 7 مرتبہ امام صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا مگر آپ نے مشروط رہا ہونے سے انکار کر دیا اور واضح الفاظ میں ارشاد فرمایا:

السِّجْنُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِمَّا يَدْعُونَنِي إِلَيْهِ (يوسف: 33)

یہ لوگ مجھے جس طرف بلا رہے ہیں اس کے مقابلہ میں جیل کی زندگی میرے لیے کہیں زیادہ مرغوب اور پسندیدہ ہے۔ آخر حکومت نے مجبور ہو کر امام صاحب کو غیر مشروط رہا کر دیا۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ دوبارہ جیل میں

رہائی کے بعد امام ابن تیمیہ کا مصر میں رہنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا لیکن حالات کچھ ایسے ہو گئے کہ آپ کا مصر میں قیام طویل ہو گیا مصر کے قیام کے دوران آپ نے مشاہدہ کیا کہ یہاں سب سے زیادہ قوی گروہ صوفیا کا ہے اور یہ لوگ وحدۃ الوجود کے قائل ہیں اس لیے امام صاحب نے ان صوفیوں کے عقائد باطلہ کی پرزور تردید کرنی شروع کی اور کتاب و سنت اور فقہ اسلامی کی روشنی میں واضح دلائل سے ثابت کیا کہ ایسے فاسد خیالات کا حامل شخص دائرہ اسلام میں نہیں رہ سکتا چنانچہ حاسدین نے دوبارہ حکومت سے شکایت کی اور حکومت نے امام صاحب کو گرفتار کر کے دوبارہ جیل بھیج دیا سلطان مصر ان دنوں اسکندریہ میں تھا جب اس کو امام صاحب کی گرفتاری کی اطلاع ملی تو اس نے فورا امام صاحب کی رہائی کا حکم صادر کر دیا اور امام صاحب کو اسکندریہ طلب کیا۔

(حیات ابن تیمیہ ص 121)

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اسکندریہ میں

امام صاحب جب قاہرہ سے اسکندریہ روانہ ہوئے تو ایک جم غفیر نے ان کو الوداع کیا اور جب آپ اسکندریہ پہنچے تو سلطان مصر نے چند قدم آگے بڑھ کر والہانہ استقبال کیا سلطان کے ساتھ اس وقت قاضی القضاۃ مصر قاضی جمال الدین اور دوسرے جید علمائے کرام اور اہلیان حکومت بھی تھے۔

سلطان مصر کے استقبال کا چشم دید واقعہ قاضی جمال الدین کی زبانی حافظ ابن کثیر نے البدایہ والنہایہ میں  درج کیا ہے اس اجتماع میں ایک ایسا واقعہ پیش آیا جس سے امام صاحب کی حق گوئی کا اندازہ ہوتا ہے اور وہ واقعہ اس طرح پیش آیا کہ:

وزیر سلطنت نے سلطان مصر کی خدمت میں یہ درخواست پیش کی کہ غیر مسلم رعایا نے شاہی خزانہ سے سات لاکھ درہم جمع کرانے کی پیش کش کی ہے جو وہ سالانہ ٹیکس ادا کرتے ہیں ان کے علاوہ ہو گی اور یہ رقم اس لیے جمع کرائی جائے گی کہ ان کو سفید عمامہ استعمال کرنے کی اجازت دی جائے اس پر آپ کیا حکم دیتے ہیں سلطان مصر بھی خاموش رہا اور علمائے کرام نے بھی سکوت اختیار کیا لیکن امام ابن تیمیہ کی دینی حمیت نے جوش مارا اور سلطان مصر سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ:

وزیر سلطنت نے جو کہا ہے یہ کسی طرح جائز نہیں اگر آپ اجازت دیں گے تو سراسر شریعت اسلامی کے منافی ہوگا چنانچہ سلطان نے اس پیش کش کو ٹھکرا دیا۔

(البدایہ والنہایہ 4/54)

قاہرہ واپسی:

اس کے بعد امام ابن تیمیہ اسکندریہ سے واپس قاہرہ پہنچے اور درس و تدریس، افتاء وارشاد کی مسند سنبھالی تصنیف و تالیف کا سلسلہ بھی شروع کیا۔ (حیات ابن تیمیہ ص 145)

دمشق کی طرف واپسی:

712ھ میں سات سال کے بعد امام ابن تیمیہ قاہرہ (مصر) سے واپس دمشق تشریف لے گئے اور آتے ہی درس و تدریس، وعظ و تبلیغ اور افتاء وارشاد اور تصنیف و تالیف میں مشغول ہو گئے۔

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ آخری مرتبہ جیل میں:

امام ابن تیمیہ دمشق میں درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں مصروف تھے کہ آپ کے خلاف ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا گیا اور یہ ہنگامہ آپ کے ایک فتویٰ پر کھڑا ہوا جو آپ نے 17 سال قبل زیارۃ القبور کے متعلق دیا تھا کہ:

کسی قبر کی زیارت کے لیے خواہ وہ قبر انور علی صاحبہ الف الف صلوٰۃ وسلام اہتمام کے ساتھ سفر نہ کیا جائے مگر تین مساجد کی طرف، مسجد حرام (خانہ کعبہ) میری مسجد (مسجد نبوی) اور مسجد اقصیٰ (بیت المقدس)

(تاریخ دعوت و عزیمت 2/127)

امام ابن تیمیہ کے خلاف یہ سازش مصر میں ابن عربی کے مقلدین نے تیار کی اور فتویٰ توڑ موڑ کر سلطان کے سامنے پیش کیا سلطان مصر نے بغیر تحقیق کے امام صاحب کی گرفتاری کا حکم صادر کر دیا چنانچہ سلطان مصر کا حکم نامہ دمشق پہنچا اور امام ابن تیمیہ کو اس سے مطلع کیا گیا تو آپ نے فرمایا:

میں تو اس کا منتظر تھا اس میں بڑی خیر اور مصلحت ہے۔

چنانچہ آپ کو قلعہ دمشق میں نظر بند کر دیا گیا اور اس دفعہ بھی آپ کو اجازت دی گئی کہ اپنی رفاقت اور خدمت کے لیے اپنے بھائی کو ساتھ رکھ سکتے ہیں اور ان کے مصارف کی ایک معقول رقم بھی مختص کر دی چنانچہ آپ کے چھوٹے بھائی اور آپ کے تلمیذ رشید حافظ ابن القیم رحمہ اللہ بھی آپ کے ساتھ جیل گئے۔ (حیات ابن تیمیہ ص 150)

جیل میں امام ابن تیمیہ کے مشاغل:

عرصہ دراز کے بعد امام ابن تیمیہ کو جیل میںیکسوئی اور سکون کی دولت نصیب ہوئی تصنیف و تالیف، کتابوں کی تنقیح و تصیح اور عبادات تلاوت قرآن مجید میں مشغول رہتے بقول حافظ ابن کثیر آپ نے جیل میں 80 مرتبہ قرآن مجید ختم کیا اس کے علاوہ بعض مسائل کے جوابات لکھے آخر حاسدین نے جیل میں بھی امام صاحب کو سکون سے نہ رہنے دیا اور حکومت سے شکایت کی کہ قلم دوات سے محروم کرا دیا۔ آپ کے تمام مسودات اورکتابیں حکومت نے ضبط کر لیں مگر آپ نے کسی قسم کا جزع و فزع نہیں کی آپ نے منتشر اوراق پر کوئلہ سے لکھنا شروع کر دیا۔ (تاریخ دعوت و عزیمت 2/132)

وفات:

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے بھائی زین الدین عبدالرحمان بیان کرتے ہیں کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے میرے ساتھ قرآن مجید کے (80) دور ختم کئے اور 81 ویں مرتبہ سورۃ القمر کی اس آیت

إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَنَهَرٍ فِي مَقْعَدِ صِدْقٍ عِنْدَ مَلِيكٍ مُقْتَدِرٍ (القمر: 54، 55)

پرہیز گار لوگ بلاشبہ باغوں اور نہروں میں ہوں گے اور مقتدر بادشاہ کے نزدیک سچی جگہ حاصل کئے ہونگے۔

پر پہنچے تو آپ پر غشی طاری ہو گئی اور چند گھٹنوں کے اندر ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔

انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔

یہ واقعہ 28 ذی قعدہ 728ھ کا ہے انتقال کے وقت آپ کے عمر 67 سال تھی۔(امام ابن تیمیہ ازکوکن )

امام ابن تیمیہ کی وفات کی اطلاع قلعہ کے مؤذن نے قلعہ کے مینار سے دی لوگوں کا ہجوم قلعہ کے باہر جمع ہو گیا حکومت نے قلعہ کا دروازہ کھول دیا اور لوگ جوق در جوق امام صاحب کی زیارت کرنے لگے۔

(تاریخ دعوت و عزیمت 2/136)

جنازہ کی کیفیت اور تدفین:

غسل کے بعد جنازہ تیار ہوا پہلی نماز جنازہ قلعہ کے اندر شیخ محمد بن قاسم نے پڑھائی اس کے بعد جنازہ قلعہ کے باہر لایا گیا اور لوگوں کا اتنا ہجوم تھا کہ فوج نے لوگوں کو کنٹرول کیا اسی حال میں ہجوم میں سے کسی نے بلند آواز سے پکارا۔

ھکذا تکون جنائز ائمۃ السنۃ

آئمہ سنت کا جنازہ اسی طرح کا ہوتا ہے۔

یہ سن کر کہرام مچ گیا جنازہ میں دو لاکھ افراد نے شرکت کی اور آپ کو آپ کے بھائی شرف الدین عبداللہ کے پہلو میں دفن کر دیا گیا حافظ ابن کثیر نے لکھا ہے کہ:

دمشق کی تاریخ میں اتنا بڑا جنازہ کی مثال نہیں  ملتی۔(البدایہ والنہایہ 14/139)

غائبانہ نماز جنازہ:

حافظ ابن رجب لکھتے ہیں کہ امام ابن تیمیہ کی غائبانہ نماز جنازہ یمن اور چین میں پڑھی گئی اور چین کے ایک بعید ترین شہر میں یہ اعلان ہوا کہ ترجمان القرآن کی غائبانہ نماز جنازہ ہوگی۔ (ذیل طبقات الحنابلہ 2/407)

مولانا ابو الکلام آزاد لکھتےہیں کہ:

امام موصوف کے انتقال کے 60-70 سال بعد ابن بطوطہ نے چین کا سفر کیا تھا ان کو موجودہ شہر بیکن کے قریب قبائل عرب تجار اہل اسلام کی ایک بہت بڑی آبادی ملی تھی جس میں فقہاء محدثین و اصحاب درس و تدریس موجود تھے شیخ بدرالدین محدث نے ان کی دعوت کی اس کے علاوہ وہ عام دربار چین میں بھی ہر جگہ عرب اور نو مسلم تعداد کثیر موجود تھے اور بلاد عرب سے آمدورفت کا سلسلہ برابر جاری تھا انہی لوگوں نے امام موصوف کی خبر وفات سن کر نماز جنازہ پڑھی ہوگی۔ (تذکرۃ ص 199)

اخلاق و عادات و ذاتی اوصاف:

امام ابن تیمیہ کی زندگی اسوہ رسولﷺ کا ایک روشن ترین نمونہ تھی وہ اپنے ہر قول و فعل میں کتاب و سنت کو بھی پیش نظر رکھتے تھے۔ فرائض اور سنن کے سختی سے پابند تھے شب و روز عبادت الٰہی میں مشغول رہتے تلاوت قرآن مجید سے خاص شغف تھا بچپن ہی سے مطالعہ کے شوقین تھے اور مطالعہ گہری نظر سے کرتے تھے اور کسی فن کی کوئی کتاب ایسی نہ تھی جو ان کی نظر سے نہ گزری ہو خطیب بھی بہترین تھے اور مشکل سے مشکل مسائل ایسے انداز میں پیش کرتے کہ سامعین آپ کی تقریر سے اکتاتے نہیں تھے حق گوئی و بیباکی کے اوصاف سے متصف تھے اور یہ ان کا خاص وصف تھا ساری زندگی

افضل الجہاد کلمۃ الحق عند سلطان جائر

پر عمل کر کے دکھایا علم و فضل میں صاحب امتیاز ہونے کے ساتھ صاحب سیف بھی تھے ۔

امام ابن تیمیہ بہت مفکر المزاج تھے زہد و اتقاء میں بھی بے مثال تھے علم اور زہد ان کو وراثت میں ملا تھا ایثار اور سخاوت میں بھی ان کا مرتبہ و مقام بلند تھا ساری عمر شادی نہیں کی عفو و درگزر کے اوصاف بھی ممتاز تھے ان کی مخالفت بہت کی گئی مگر کسی مخالف سے بدلہ نہیں لیا بلکہ معاف کر دیا۔

استفتاء میں ان کی مثال نہیں ملتی حکومت نے کئی دفعہ عہدہ کی پیشکش کی مگر اس کو قبول نہیں کیا سرعت تصنیف میں آپ کو خاص ملکہ حاصل تھا آپ نے رسالہ حمویة ظہر و عصر کے درمیان ایک ہی نشست میں تحریر فرمایا تھا۔

(امام ابن تیمیہ از کوکن ص 589)

تصانیف:

امام ابن تیمیہ کی عمر 17 سال کی تھی جب آپ نے قلم سنبھالا اور 45 سال تک ان کا قلم رواں دواں رہا امام صاحب کی تصانیف کچھ منفرد خصوصیات رکھتی ہیں جو اس عصر کی تمام تصانیف سے ان کو نمایاں طور پر ممتاز کرتی ہیں۔

مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

ابن تیمیہ کی تصانیف کئی صدیاں گزر جانے کے بعد اور بڑے اہم علمی و دینی انقلابات کے باوجود ابھی تک ایک نئی نسل کے دل و دماغ کو متاثر کرتی ہیں اور اس کا نتیجہ ہے کہ اس عقلیت پسند اور جدت طلب دور میں وہ ازسر نو مقبول ہو رہی ہیں۔ (تاریخ دعوت و عزیمت 2/156)

امام ابن تیمیہ نے ہر موضوع پر قلم اٹھایا محقق شہیر اور ممتاز اہلحدیث عالم مولانا عطاء اللہ حنیف بھوجیانی مرحوم و مغفور لکھتے ہیں کہ:

امام صاحب کی تصانیف و تحریرات کی مختلف نوعیتں ہیں بعض تصانیف کسی کتاب کی شرح یا تعلیق کی صورت میں مستقل حیثیت رکھتی ہیں یاقاعدہ اور فصل کے عنوان سے کسی مسئلہ کی تحقیق مستقلا لکھ ڈالی۔ بعض کتابوں کے جواب میں لکھی گئیں بعض مکتوبات و مراسلات کی شکل میں تھیں جو وقتا فوقتا لوگوں کو لکھے گئے لیکن عظیم اکثریت سوالوں کے جوابات اور فتاویٰ کی تھی جن میں تفسیر و اصول تفسیر، حدیث و اصول حدیث، عقائد و کلام، اقسام تصوف، اخلاق، فقہ و اصول فقہ وغیرہ مسائل و مباحث شامل ہیں مختصر سے مختصر بھی اور طویل سے طویل بھی۔(حیات ابن تیمیہ (اردو) ص 804)

مولانا محمد یوسف کوکن عمری مرحوم لکھتے ہیں کہ:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی عمر 17 سال کی تھی جب انہون نے قلم سنبھالا اس کے بعد ان کی زندگی میں کئ اہم واقعات رونما ہوگئے مگر امام صاحب کا قلم 45 سال تک رواں دواں رہا اور اس میں آپ نے تفسیر، حدیث، فقہ، اصول فقہ، تاریخ، ادب، شیعوں، صوفیوں، یہودیوں، عیسائیوںاور منطقیوں وغیرہ کی تردید میں کافی لکھا کئی ایک خطوط لکھے اور سینکڑوں سوالوں کا جواب لکھا۔

(امام ابن تیمیہ ص 638)

تصانیف کی تعداد

شیخ الاسلام ابن تیمیہ صاحب تصانیف کثیرہ تھے ان کی تصانیف کی تعداد مولانا محمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانی نے (591) اور ڈاکٹر غلام جیلانی برق نے (385) بتائی ہیں جن کی تفصیل درج ذیل ہے۔

1۔ تفسیر، مولانا محمد عطاءاللہ حنیف کے نزدیک 102، ڈاکٹر غلام جیلانی برق کے ہاں80 ہے۔

2۔ احادیث، مولانا محمد عطاءاللہ حنیف 41، ڈاکٹر غلام جیلانی برق 40

3۔ فقہ و فتاویٰ، مولانا محمد عطاءاللہ حنیف 138، ڈاکٹر غلام جیلانی برق 120

4۔ اصول فقہ ،مولانا محمد عطاءاللہ حنیف 28، ڈاکٹر غلام جیلانی برق 20

5۔ عقائد و کلام، مولانا محمد عطاءاللہ حنیف 126، ڈاکٹر غلام جیلانی برق 20

6۔ اخلاق تصوف و زہد، مولانا محمد عطاءاللہ حنیف 78، ڈاکٹر غلام جیلانی برق 60

7۔ فلسفہ و منطق پر نقد و جرح ،مولانا محمد عطاءاللہ حنیف 17، ڈاکٹر غلام جیلانی برق 10

8۔ مکاتیب، مولانا محمد عطاءاللہ حنیف 7، ڈاکٹر غلام جیلانی برق صفر

9۔ متفرقات ،مولانا محمد عطاءاللہ حنیف 54، ڈاکٹر غلام جیلانی برق 35

کل میزان مولانا محمد عطاءاللہ حنیف 591، ڈاکٹر غلام جیلانی برق 385 (حیات ابن تیمیہ (اردو) ص 798 تا 834، امام ابن تیمیہ از برق ص 129 تا 185

امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مشہور تصانیف:

امام ابن تیمیہ کی تمام تصانیف علم الہدیٰ کا درجہ رکھتی ہیں تاہم ذیل میں چند مشہور تصانیف کا ذکر کیا جاتا ہے۔

1۔ مقدمہ فی اصول تفسیر

2۔ رسالہ فی تفسیر قولہ لاالہ الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین

3۔ شرح حدیث انما الاعمال بالنیات

4۔ شرح حدیث لا تسبوا الدھر

5۔ الاختیارات العلمیہ

6۔ شرح العمدہ (4 جلد)

7۔ اسوہ فی اصول الفقہ

8۔ اتباع الرسول لصحیح العقول

9۔ العقیدة الحمویة الکبری‌

10۔ منہاج السنۃ النبویہ فی نقض کلام الشیعہ والقدریہ

11۔ الجواب الصحیح عن بدل دین المسیح

12۔ الصارم المسلول الی شاتم الرسول

13۔ اقتضاء الصراط المستقیم فی الرد اصحاب الحجیم

14۔ کتاب النبوات

15۔ الفرقان بین الاولیاء الرحمان واولیاء الشیطان

16۔ کتاب الرد المنطقیین

17۔ کتاب الرد علی البکری

18۔ کتاب الرد علی الاخنائی

19۔ الوصیۃ الکبریٰ

20۔ الوصیۃ الصغریٰ

21۔ فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ (34 جلد)

امام ابن تیمیہ کے حالات زندگی اور ان کی خدمات عالیہ پر مستقل کتابیں:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے علمی تجر اور ان کے فضل و کمال پر اہل سیر اور تذکرہ نگاروں نے مستقل کتابیں تصنیف کیں اور تاریخ و تراجم کی کتابوں میں ان کے مختصر اور مبسوط حالات اور ان کی علمی، مذہبی، دینی اور دین اسلام کے دفاع میں ان کی خدمات کا تذکرہ کیا ہے۔

عربی زبان میں حافظ ابن عبد الہادی کی کتاب العقود الدریہ، شیخ مرعی بن یوسف کی الکوکب الدریہ اور پروفیسر محمد ابو زہرہ مصری کی حیات شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ شائع ہوئیں ان تینوں کتابوں میں امام صاحب کے حالات زندگی اور ان کے علمی کارناموں کا تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں محی السنۃ مولانا سید نواب صدیق حسن خان قنوجی رئیس بھوپال (م 1307ھ) امام ابن تیمیہ کے حالات زندگی اور ان کی علمی و دینی خدمات کا ذکر اپنی درج ذیل تصانیف میں تفصیل سے کیا ہے۔

1۔ ابجد العلوم (عربی)

2۔ تقصار جیود الاحرار (فارسی)

3۔ اتحاف النبلاء (فارسی)

4۔ التاج المکلل (عربی)

5۔ حجج الکرامۃ(فارسی)

6۔ ہدایہ السائل (فارسی)

اردو زبان میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ پر مستقل کتابیں تالیف ہوئیں ان کی تفصیل یہ ہے۔

1۔ مولانا غلام رسول مہر کی امام ابن تیمیہ

2۔ ڈاکٹر جیلانی کی امام ابن تیمیہ

3۔ مولانا محمد یوسف کوکن عمری کی امام ابن تیمیہ

4۔ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی کی تاریخ دعوت و عزیمت (جلد دوم)

5۔ علامہ محمد حسن حسنی کی صاحب سیف و قلم

6۔ عبدالرشید عراقی کی امام ابن تیمیہ اور ان کے تلامذہ

پروفیسر محمد ابو زہرہ مصری مرحوم کی کتاب حیات ابن تیمیہ کا اردو میں ترجمہ سید رئیس احمد جعفری ندوی مرحوم نے کیا ہے اور ا س پر ایک جامع و علمی مقدمہ مولانا غلام رسول مہر مرحوم نے تحریر فرمایا اور اس پر حواشی و تخریج و تنقیح مولانا محمد عطاء اللہ حنیف بھوجیانی مرحوم نے لکھے ہیں۔

یہ کتاب مولانا عطاءاللہ حنیف نے اپنے اشاعتی ادارے المکتبہ السلفیہ لاہور سے شائع کی اب تک اس کتاب کے چار ایڈیشن طبع ہو چکے ہیں۔

تلامذہ:

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے تلامذہ کی فہرست طویل ہے ان کے دور میں کوئی ایسا شخص نظر نہیں آتا جو شاگردوں  میں شیخ تقی الدین ابن تیمیہ سے سبقت لے گیا ہو۔ ذیل میں آپ کے چار مشہور تلامذہ کا مختصر تعارف پیش خدمت ہے۔ حافظ ابن قیم، حافظ ابن عبدالہادی، حافظ ابن کثیر اور حافط شمس الدین ذہبی رحمہم اللہ اجمعین

1۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ:

حافظ ابن قیم، شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کے ارشد تلامذۃ میں سے تھے ان کا اسم گرامی شمس الدین محمد تھا اور ابو عبداللہ کنیت، والد محترم کا نام ابو بکر بن ایوب تھا جو مدرسہ جوزیہ کے قیم تھے اس لیے ابن قیم کہلائے۔

7 صفر 691ھ میں دمشق میں پیدا ہوئے ابتدائی تعلیم اپنے والد محترم سے حاصل کی بعد ازاں جملہ علوم اسلامیہ کی تحصیل مختلف اساتذہ کرام سے کی آپ نے سب سے زیادہ استفادہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ سے کیا ان کی خدمت میں (16) سال رہ کر تمام علوم اسلامیہ میں اکتساب فیض کیا۔

حافظ ابن قیم کا علمی مرتبہ و مقام بہت بلند تھا ان کے معاصرین اور تلامذہ نے ان کے علمی تجر، علم و فضل، فہم و بصیرت اور علوم اسلامیہ میں یکتا اور منفرد ہونے کا اعتراف کیا ہے حافظ شمس الدین ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

حافظ ابن قیم تفسیر، حدیث، رجال اور فقہ میں بڑی مہارت رکھتے تھے اصول فقہ اور اصول حدیث میں ان کو ید طولیٰ حاصل تھا اور مطالعہ کا انہیں بہت ذوق تھا۔

(تذکرۃ الحفاظ 4/41)

حافظ ابن رجب رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

ابن قیم کو علوم اسلامیہ میں بہت دخل تھا لیکن تفسیر قرآن میں ان کی نظیر نہیں ملتی میں نے قرآن و حدیث کے معانی اور ان علوم میں ان کی ژرف نگاہی رکھنے والا ان سے بڑا عالم نہیں دیکھا۔ (ذیل طبقات الحنابلہ 3/392)

حافظ ابن قیم گوناگوں خصائص کے مالک تھے۔

حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ جو ان کے مخلص دوست اور ساتھی تھے ان کا بیان ہے کہ میں نے ان جیسا عبادت گزار نہیں دیکھا۔ (البدایہ والنہایہ 14/235)

مولانا محمد یوسف کوکن عمری مرحوم و مغفور کے بقول حافظ ابن قیم مذہبی شدت میں بہت مشہور تھے لیکن ان کے ساتھ حد درجہ خلیق بھی تھے۔ (امام ابن تیمیہ ص 659)

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

حافظ ابن قیم زہد و ورع، تقویٰ ومہارت، تواضع و انکساری اور حسن خلق میں ممتاز تھے۔ (الدررالکامنہ 3/400)

حافظ ابن قیم اپنے استاد شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی طرح ابتلاء و آزمائش اور مجاہدات کی منازل سے گزرے اور امام ابن تیمیہ کے ساتھ جیل کی بھی صعوبتیں برداشت کیں جب امام ابن تیمیہ کو آخری بار جیل بھیجا گیا تو حافظ ابن قیم بھی اپنے استاد کے ساتھ اسیر زنداں ہوئے اور ان کی رہائی شیخ الاسلام کے انتقال سے ہوئی۔

(شذرات الذہب 6/186)

حافظ ابن قیم صحیح معنوں میں اپنے شیخ حافظ ابن تیمیہ کے علوم کے ناشر تھے ان کی اپنے استاد سے رفاقت کی مدت (16) سال ہے۔

حافظ ابن قیم تقلید شخصی کے سخت مخالف تھے فقہی مسلک میں اپنے استاد و امام ابن تیمیہ کی طرح ان کا میلان امام احمد بن حنبل کی طرف تھا۔ لیکن فروع میں آزاد تھے علامہ ابن العماد حنبلی نے ان کو مجہتد مطلق لکھا ہے۔(شذرات الذہب 6/186)

حافظ ابن قیم کی ساری زندگی درس و تدریس اور تصنیف و تالیف میں بسر ہوئی کتابوں سے ان کو بہت زیادہ محبت تھی اور جمع کتب کا انہیں بہت شوق تھا حافظ ابن حجر لکھتے ہیں کہ:

حافظ ابن قیم نے ایک بہت بڑا کتب خانہ بنایا تھا ان کی وفات کے بعد ان کی اولاد مدتوں کتابیں فروخت کرتی رہی۔ (الدررالکامنہ 3/400)

حافظ ابن قیم کا شمار صاحب تصانیف کثیرہ میں ہوتا ہے ارباب سیر نے ان کی تصانیف کی تعداد (71) بتائی ہے ان کی مشہور و معروف تصانیف یہ ہیں۔

1۔ زاد المعاد فی ھدی خیر العباد

2۔ اعلام الموقعین عن رب العالمین

3۔ ابو ابل الصیب

4۔ مدارج السالکین

5۔ شفاءالعلیل فی مسائل الحکمۃ التعلیل

6۔ اغاثۃ اللفہان

7۔ تہذیب السنن

8۔ الطرق الحکمیہ

9۔ کتاب الروح

10 الجواب الکافی

11۔ قصیدہ نونیہ

حافظ ابن قیم نے 23 رجب 751ھ کو 60سال کی عمر میں دمشق میں انتقال کیا اور باب الصغیر کے قبرستان میں دفن ہوئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون

(تاریخ دعوت و عزیمت 2/281)

2۔ حافظ ابن عبدالہادی رحمہ اللہ

حافظ شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عبدالہادی امام ابن تیمیہ کے ارشد تلامذہ میں سے تھے ان کا سن ولادت 704ھ ہے۔ (البدایہ والنہایہ 14/210)

حافظ ابن عبدالہادی نے نامور اساتذہ سے جملہ علوم اسلامیہ میں استفادہ کیا سب سے زیادہ اکتساب فیض آپ نے دو نامور اساتذہ سے کیا۔

حافظ ابوالحجاج یوسف بن عبدالرحمان مزی

حافظ ابو العباس تقی الدین احمد بن عبدالحلیم (ابن تیمیہ)

حافظ ابن عبدالہادی کے علم و فضل اور ان کے صاحب کمال ہونے کا اعتراف ان کے معاصرین اور ارباب سیر نے کیا ہے اور سب کی متفقہ رائے ہے حافظ ابن عبدالہادی فن رجال، علل حدیث میں خاص مہارت اور بصیرت رکھتے تھے۔ اصول حدیث، اصول فقہ اور علوم عربیت میں انہیں کامل دستگاہ حاصل تھی اور مذاہب اسلامیہ میں ان کو خاص تفقہ حاصل تھا۔ (الدرر الکامنہ 3/400)

حافظ ابن عبدالہادی کا شمار صاحب تصانیف کثیرہ میں ہوتا ہے ان کی تصانیف علم الہدیٰ کا درجہ رکھتی ہیں مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

علامہ ابن عبدالہادی نے کم عمر پانے کے باوجود تصانیف کی ایک بڑی تعداد چھوڑی ہے جو ضخامت اور صفحات کی تعداد کے لحاظ سے بڑی اہمیت رکھتی ہیں اور حسن تصنیف اور مواد کے لحاظ سے بھی۔ (تاریخ دعوت و عزیمت 2/406)

حافظ ابن عبد الہادی کی مشہور تصانیف یہ ہیں:

1۔ الاحکام الکبریٰ (7 جلد)

2۔ المحرر فی الاحکام

3۔ کتاب العمدۃ فی الفاظ (2 جلد)

4۔ تعلیقہ للثقات (2جلد)

5۔ احادیث الصلوٰۃ علی النبیْﷺ

6۔ الاعلام فی ذکر مشائخ الائمۃ الاعلام اصحاب الکتب الستۃ۔ (متعدد اجزاء)

7۔ تعلیق علی سنن البیہقی (2جلد)

8۔ ترجمہ الشیخ تقی الدین ابن تیمیہ

9۔ منتقیٰ من تہذیب الکمال للمزی (5جلد)

10۔ منتخب من مسند الامام احمد ابن حنبل (2جلد)

11۔ منتخب من البیہقی

12۔ منتخب من سنن ابی داؤد

13۔ شرح الفیہ لابن مالک

14۔ الرد علی ابی حیان النحوی

15۔ تنقیح تحقیق فی احادیث التعلیق

(تاریخ دعوت و عزیمت 2/406)

علامہ تقی الدین ابن السبکی نے شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے مسئلہ ’’زیارۃ القبور‘‘ کی تردید میں ’’شفاء السقام فی زیارہ خیر الانام‘‘ سے کتاب لکھی تو حافظ ابن عبدالہادی نے اس کے جواب ’’الصارم المنکی فی الرد علی السبکی‘‘ کے نام سے کتاب لکھی۔ ’’الصارم المنکی‘‘ کے بارے میں مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:

حافظ ابن عبدالہادی نے ’’الصارم المنکی فی الرد علی السبکی‘‘ کے نام سے اس کا ناقدانہ و محدثانہ جواب لکھا ان کی علمی فضیلت اور حدیث و رجال پر وسعت نظر کا گواہ ہے۔ (تاریخ دعوت و عزیمت 2/406)

علامہ محمود الوسی لکھتے ہیں کہ:

’’الصارم المنکی‘‘ مصنف کی رجال میں وسعت نظر اور ان کے غزارتِ علم پر شاہد ہے۔ (جلاء العینن بحوالہ حیات ابن تیمیہ (اردو) ص 769)

علامہ سید محمد انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

علامہ سبکی کی کتاب ’’شفاء السقام‘‘ میں کمزور روایتوں کے سوا کچھ نہیں۔ (المعرف الشذی ص 63)

حافظ ابن عبدالہادی کے علمی تجر کا اعتراف حافظ ابن کثیر نے ان الفاظ میں کیا ہے کہ حافظ ابن عبدالہادی تفسیر، حدیث، فقہ اور تاریخ کے امام تھے۔

(البدایہ والنہایہ 14/210)

حافظ ابن عبدالہادی نے 10 جمادی الاولیٰ 744ھ کو 40 سال کی عمر میں انتقال کیا۔

حافظ ابن کثیر فرماتے ہیں کہ:

ان کے والد نے مجھے بتایا کہ آخری الفاظ جو ان کی زبان پر جاری رہے وہ یہ تھے:

أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللهِ، اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَّوَّابِينَ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُتَطَهِّرِينَ

ان کے جنازہ میں بڑا اژدھام اور ایک خاص قسم کی نورانیت اور رونق تھی جنازہ میں شہر کے قضاۃ، اعیان و مشاہیر، علماء و حکام، عمائدین، تجار اور عوام سب شریک ہوئے۔ (البدایہ والنہائیہ 14/210)

3۔ حافظ ابن کثیررحمہ اللہ

حافظ ابن کثیر آٹھویں صدی ہجری کے نامور مصنف، مفسر، محدث اور مؤرخ تھے۔ تمام علوم اسلامیہ پر ان کو مکمل دسترس حاصل تھی 701 ھ میں بُصری (شام) میں ان کی ولادت ہوئی 2 سال کی عمر میں سایہ پدری سے محروم ہوگئے اور 6 سال کی عمر میں اپنے برادر اکبر کمال الدین عبدالوہاب کے ہمراہ دمشق کو گئے۔

حافظ ابن کثیر کا نام عماد الدین اسمعیل بن عمر، ابوالفداء کنیت، لیکن ابن کثیر کے نام سے شہرت پائی تعلیم کا آغاز اپنے برادر اکبر علامہ کمال الدین عبدالوہاب سے کیا آپ نے اپنے دور کے نامور اساتذہ سے اکتساب فیض کیا لیکن سب سے زیادہ استفادہ امام ابو الحجاج مزی اور حافظ ابن تیمیہ سے کیا۔ حافظ مزی سے ان کو دامادی کا شرف بھی حاصل تھا۔

حافظ ابن کثیر علم و فضل کے اعتبار سے جامع الکمالات تھے تمام علوم میں ان کو مکمل دسترس تھی تفسیر، حدیث، فقہ و فتاویٰ اور تاریخ و سیر میں ان کی ژرف نگاہی مسلّم تھی رجال و علل حدیث میں نظر وسیع تھی ان کے معاصرین اور ارباب سیر نے ان کے صاحب کمال ہونے کا اعتراف کیا ہے حافظ ذہبی (م 748ھ) فرماتے ہیں:

ھو فقیہ، متقن و محدث محقق و مفسر نقاد ولہ تصانیف مفیدہ

وہ پختہ کار فقیہ، محقق، محدث اور نقاد و مفسر ہیں اور مفید تصانیف رکھتے ہیں۔ (تذکرۃ الحفاظ 4/23)

حافظ ابن حجر (م 852ھ لکھتے ہیں:

کان کثیر الاستحضار وسارت تصانیف فی البلاد فی حیاتہ وتنتفع بہ الناس بعد وفاتہ

بڑے حاضر العلم کثیر المحفوظات تھے ان کی تصانیف ان کی زندگی ہی میں متفرق شہروں میں پھیل گئی تھیں اور لوگوں نے ان کی وفات کے بعد بھی ان سے فائدہ اٹھایا۔(الدرر الکامنہ 3/373)

شیخ الاسلام ابن تیمیہ کے بہت گرویدہ تھے اور ان سے خوب استفادہ کیا شافعی المذہب ہونے کے باوجود شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی عظمت و امامت کے قائل تھے۔

مولانا محمد عطاءاللہ حنیف بھوجیانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

حافظ ابن کثیر کا امام ابن تیمیہ سے تعلق خاص ہی نہیں بلکہ سلسلہ تلمذی بھی قائم ہو گیا اور خوب فیض حاصل کیا۔

(حیات ابن تیمیہ (اردو) ص 770)

حافظ ابن کثیر مسئلہ طلاق وغیرہ میں اپنے شیخ حافظ ابن تیمیہ کے ہمنوا تھے جس کی بنا پر ان کو بلاء و محن اور ایذا رسانی سے دوچار ہونا پڑا۔ (شذرات الذھب 6/232)

علامہ ابن العماد حنبلی نے بھی حافظ ابن کثیر کے علم و فضل کا اعتراف کیا ہے اور لکھا ہے کہ:

تاریخ، تفسیر، حدیث وغیرہ علوم میں مہارت تامہ کا آپ پر خاتمہ ہے۔ (شذرات الذہب 6/232)

حافظ ابن کثیر بلند پایہ اور پختہ کار مصنف تھے ان کی تصانیف علم الہدیٰ کا درجہ رکھتی ہیں ان کی مشہور تصانیف درج ذیل ہیں:

1۔ التکمیل فی معرفۃ الثقات والضعفاء والمجاھیل (5جلد)

2۔ الھدی والسنن فی احادیث المسانید والسنن

3۔ تخریج ادلۃ التنبیہ

4۔ مسند الشیخین

5۔ علوم الحدیث

6۔ طبقات الشافعیہ

7۔ جامع المسانید

8۔ الفصول فی اختصار سیرۃ الرسولﷺ

9۔ تفسیر ابن کثیر

10۔ البدایہ والنہایہ (14 جلد)

حافظ ابن کثیر کی دو کتابوں کو شہر ت دوام حاصل ہوئی اور وہ ہیں (۱) تفسیر ابن کثیر (۲) البدایہ والنہایہ

تفاسیر قرآن میں تفسیر ابن کثیر سب سے زیادہ مقبول ہے اور اس تفسیر سے علمی حلقوں میں اس وقت تک استفادہ کیا جا رہا ہے علامہ سیوطی رحمہ اللہ اس تفسیر کے بارے میں فرماتے ہیں:

لہ التفسیر الذی لم تولف مثلہ

اس تفسیر جیسی عمدہ تفسیر اس سے پہلے نہیں لکھی گئی۔

حافظ ابن کثیر نے محدثانہ طریق پر مرتب کر کے ایک عظیم خدمت انجام دی ہے۔

مولانا سید ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ:

اس میں شبہ نہیں کہ موجودہ تفاسیر میں محدثانہ نقطہ نظر سے یہ تفسیر سب سے زیادہ قابل اعتماد واستفادہ ہے۔

(تاریخ دعوت و عزیمت 2/409)

تفسیر ابن کثیر کا اردو ترجمہ سب سے پہلے مولانا محمد بن ابراہیم جونا گڑھی نے تفسیر محمدی کے نام سے کیا جو دہلی سے شائع ہوا۔

تفسیر ابن کثیر ہندوستان و پاکستان میں کئی ناشروں نے شائع کی ہے پاکستان میں مکتبہ قدوسیہ لاہور، مکتبہ اسلامیہ لاہور اور نعمانی کتب خانہ لاہور نے بڑے عمدہ انداز میں تخریج و تنقیح کے ساتھ شائع کی ہے۔

حافظ ابن کثیر کی دوسری اہم اور مقبول ترین تصنیف البدایہ والنہایہ ہے یہ کتاب (14) جلدوں میں مطبوع ہے اور یہ کتاب عرب مؤرخین کے دستور کے مطابق ابتدائے آفرینش سے 767ھ تک کے واقعات پر مشتمل ہے اس کتاب کا اردو ترجمہ لاہور اور کراچی سے شائع ہو چکا ہے۔

سیرۃ الرسولﷺ کا ترجمہ مولانا ہدایت اللہ ندوی مرحوم نے کیا اور مکتبہ قدوسیہ لاہور نے شائع کیا ہے۔

حافظ ابن کثیر نے شعبان 774ھ میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ الصرفیہ میں دفن ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون (تذکرۃ الحفاظ 4/23)

4۔ حافظ ذہبی رحمہ اللہ

شمس الدین ابو عبداللہ محمد بن احمد بن عثمان الذہبی 673ھ میں دمشق میں پیدا ہوئے۔ 18سال کی عمر میں طلب حدیث کے سلسلہ میں شام، حجاز اور مصر کا سفر کیا اور ہر شہر اور ملک میں فاضل اساتذہ و شیوخ حدیث سے استفادہ کیا۔ آپ کے اساتذہ کی تعداد ارباب سیر اور تذکرہ نگاروں نے بہت بتائی ہے ان کے اساتذہ میں حافظ ابو الحجاج مزی، علامہ ابن دقیق العید اور شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے اسمائے گرامی نمایاں طور پر لکھتے ہیں۔

(حیات ابن تیمیہ (اردو) ص 771)

اللہ تعالیٰ نے حافظ ذہبی کو قوت حافظہ کی غیر معمولی نعمت سے نوازا تھا جس کی وجہ سے آپ نے تمام علوم اسلامیہ میں مہارت تامہ حاصل کی تاریخ میں ان کو ید طولیٰ حاصل تھا اور اس فن میں ان کو دسترس حاصل ہونے کی بدولت ان کا شمار نادر محدثین اور مؤرخین میں ہوتا ہے۔

(حیات ابن تیمیہ (اردو) ص 771)

حافظ ذہبی کو تصنیف و تالیف کا اچھا خاصا ملکہ حاصل تھا آپ نے جس موضوع پر بھی قلم اٹھایا اُس کا حق ادا کر دیا آپ کی کتابوں کا موضوع تاریخ و سیر، فنون حدیث، عقائد سلف، زہد و اخلاق اور اسماءالرجال ہے۔ حافظ ذہبی کو یہ بھی شرف حاصل ہوا کہ ان کی زندگی میں ان کی تصانیف کو قبول عام حاصل ہوا۔

حافظ ذہبی کی تصانیف میں درج ذیل کتابیں علم الہدیٰ کا درجہ رکھتی ہیں:

1۔ تذکرۃ الحفاظ

2۔ سیر اعلام النبلاء (25 جلد)

3۔ میزان الاعتدال

4۔ تاریخ الاسلام

5۔ تلخیص المستدرک (امام حاکم)

6۔ تجرید الاسماء الصحابہ

7۔ کتاب العلو للعلی الغفار

علامہ صلاح الدین صفوی لکھتےہیں کہ:

حافظ ذہبی میں ایک خصوصیت بدرجہ اتم پائی جاتی تھی کہ وہ تحقیق سے لکھتے تھے اور ہر سنی سنائی بات پر توجہ نہیں دیتے تھے حدیث نقل کرنے میں اسنادی حیثیت کو پیش نگاہ رکھتے تھے اور ان کی یہ خصوصیت مجھے دوسری جگہ نظر نہ آئی۔ (حیات ابن تیمیہ (اردو) ص 775)

حافظ ذہبی کی کتاب ’’کتاب العلو للعلی الغفار‘‘ کے بارے میں علامہ بھوجیانی مرحوم لکھتے ہیں:

حافظ ذہبی کی ایک کتاب ’’کتاب العلو للعلی الغفار‘‘ ہے جو اللہ تعالیٰ کے عرش پر ہونے اور اس کی صفات میں مسلک اہلحدیث کی تائید میں پر زور اور مدلل کتاب ہے۔ (حیات ابن تیمیہ (اردو) ص 775)

حافظ ذہبی نے 748ھ میں دمشق میں رحلت فرمائی اور وہیں دفن ہوئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔

(الدررالکامنہ 3/338)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے