آداب نیت

ارشاد الہی ہے حالانکہ انہیں یہ حکم دیا گیا ہے ہ دین کو خالص اللہ کے لیے مانتے ہوئے یکسوئی کے ساتھ اللہ (اکیلے) کی عبادت کریں نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں اور یہی توحید پر مضبوطی سے قائم رہنے والی امت کا دین ہے۔ (البینہ5)

اور فرمایا:

(اے رسول) آپ کہہ دیجئے اگر تم اپنے دلوں میں کوئی بات چھپاؤ گے یا اسے ظاہر کرو گے اللہ تعالیٰ کو (ہر حال میں) اس کا علم ہو جائے گا اور (یہی نہیں) وہ تو آسمانوں میں اور زمین میں جو کچھ ہے سب کو جانتا ہے اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔ (آل عمران 29)

امیر المؤمنین سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اکرمﷺ نے فرمایا: بلاشبہ اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے اور ہر آدمی کے لیے وہی کچھ ہے جس کی اس نے نیت کی۔ (بخاری1، مسلم 1907)

ایک موقعہ پر آپ علیہ الصلاۃ والسلام سے پوچھا گیا ایک آدمی اپنی شجاعت و بہادری کے جوہر دکھلانے کے لیے اور ایک حمیت کی بناء پر اور ایک شہرت کی خاطر لڑتا ہے تو ان میں سے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا کون ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: جو اس لیے لڑتا ہے تاکہ اللہ کے حکم کا بول بالا ہو وہ ہی راہ الہی میں ہے۔ (بخاری 7458، مسلم 1904)

چنانچہ تمام قولی و فعلی کاموں میں نیت کا خالص کرنا ہی اللہ کے حضور مقبول ہونے کا باعث کامیابی و کامرانی ہر کام کے نفع بخش اور بابرکت ہونے کا سبب ہے آداب نیت میں سے ہے کہ اللہ کے لیے اخلاص کو پیدا کرنا اور قول و فعل سے اللہ تعالیٰ کی رضا مندی مطلوب و مقصود ہو ہر قسم کے ریاء دکھلاوے شہرت اور فخر و مباہت سے اجتناب برتنا ہے کیونکہ یہ ہی وہ ناسورہے جو ہر کام سے برکت کو زائل کر دیتا ہے اور اجر و ثواب کے ضائع ہونے کا سبب اول ہے۔

اگر انسان شروع سے ہی احتساب نفس، اخلاص عمل، تزکیہ قلب ہر حال میں صدق و سچائی کا پیرھن اوڑھے تمام معاملات میں اللہ اس کی کتاب، اس کے رسولوں اور ائمۃ المسلمین یعنی حکمران اور عام لوگوں کے لیے نصیحت و خیرخواہی کی عادت ڈالے تو اللہ تعالیٰ اس کے ہر کام میں برکت پیدا کر دے گا اور ہر خیر و بھلائی کی اس کو توفیق و عنایت فرمائے گا کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی دلوں کے حال سے آگاہ اور نیتوں سے باخبر ہے۔

کیا جس نے پیدا کیا اسے (اپنی مخلوق کی کیفیات کا) علم نہیں ہوگا وہ تو بڑا باریک بین اور (ہربات سے) باخبر ہے۔ (الملک 14)

احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت و بندگی اس طرح کرے تو گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اس کو نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔

بے شک ہمارے پروردگار عظیم نے ہمیں آزمایا ہے تاکہ واضح ہو جائے کہ کون اچھائی کرنے والا اور کون ہے برائی کا خوگر ہے اردشاد باری ہے: تاکہ وہ تم کو آزمائے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ (الملک 2)

اور عمل میں احسان سے مراد نیت کا صالح ہونا اور سراً و جہراً اللہ کے لیے اخلاص پیدا کرنا ہے اور جس نے بھی اپنے عمل میں غیر اللہ کو شریک ٹہرایا تو اس کا عمل باطل، اس کی تمام تر کاوشیں خاک ہو جائیں گی اس کے گفتار و کردار سے برکت اٹھ جائے گی اور وہ خسارہ پانے والوں میں  سے ہو جائے گا جب بھی مسلمان اپنے مباح اعمال میں خیر کی نیت کرے گا تو کامل اجر و ثواب پائے گا سلف صالحین میں سے کتنے ہی ایسے تھے جو عمل کرنے سے پہلے رک جاتے تاکہ ہر قسم کی شہرت اور ریاء کے مرض اور اس غرض کو جس سے رضاء الہی مقصود نہ ہو کو پھینک کر اپنی نیت کی اصلاح کرتے تھے۔

اللہ تعالیٰ سے عافیت، خالص نیت اور اپنے جملہ کاموں میں اللہ کے لیے اخلاص پیدا کرنے کی دعا کرتے ہیں وہ ہی سننے والا دعاؤں کو قبول کرنے والا ہے۔

تفہیم:

اس میں کوئی شک نہیں کہ بغیر اخلاص کے کیے ہوئے عمل کی حیثیت اللہ کے نزدیک مچھر کے پر برابر بھی نہیں بلکہ الٹا یہی ہلاکت و رسوائی کے دھانے پر کھڑا کر دے گا جس کا ذکر حدیث شریف میں آیا ہے۔ (مسلم حدیث نمبر 1905، ترمذی حدیث نمبر2383)

کیا یہ ہی وجہ نہیں کہ ایک جری انسان خود کو اسلحہ سےلیس کرتے ہوئے میدان کار زار میں کود پڑتا ہے اپنی جان کی فکر کیے بغیر ننگی، بے نیام خون آشام تلواروں، نیزوں اور تیروں کی بوچھاڑ کے سامنے، پامردی، استقامت و استقلال، جرأت و ہمت، شجاعت و بہادری کے جوہر دکھاتے دشمنوں کی صفیں چیرتے ہوئے آگے بڑھتا ہے باوجود اس کے کہ اس کا پورا جسم لہو لہو ہوتا ہے بالآخر لڑتے لڑتے اپنی جان کا نذرانہ پیش کرتا ہے۔

اسی طرح وہ صاحب ثروت جو اپنے مال کو حاتم طائی کی یاد کو تازہ کرتے ہوئے صبح و شام خرچ کرتا، فقراء مساکین کا پیٹ بھرتا، بھوک و افلاس جیسے مرض کا علاج کرتا ہے ننگے جسم کو پیرھن اوڑھاتا اور مسافروں کو زاد راہ دیتا ہے غرضیکہ اپنے مال کو بے دریغ خرچ کرتا ہے۔

تیسرا وہ قاری جو کتاب اللہ کی خوب قرأت کرتا ہے جس کے جمال صوت اور حسن قرأت سے لوگ جھوم جھوم اٹھتے ہیں پڑھنا، پڑھانا ہی اس کا اوڑھنا اور بچھونا اور سیکھنا اور سکھانا مشغلہ ہے لیکن۔۔۔۔۔ روز قیامت بدلے میں پھوٹی کوڑی بھی اپنے نامہ اعمال میں نہ پائیں گے اس پر مستزاد یہ کہ ان کو منہ کے بل گھسیٹا جائے گا اور سب سے پہلے ان ہی سے جہنم کی آگ کو سلگایا جائے گا۔

آخر کیوں۔۔۔۔۔۔؟

کیا کٹ مرنے سے بڑھ کر کوئی کام ہے جب کہ لوگ لوگ نازو نعم کے مزے لوٹ رہے ہوں اور ذرا سی تکلیف بھی برداشت نہیں کرتے بلکہ خود کی حفاظت کے لیے کئی کرائے کے محافظ رکھتے ہیں۔

کیا اپنی جیب سے پیسہ خرچ کرنا آسان ہے جس کو سالوں خون پسینے کی محنت سے حاصل کیا ہو اور بجائے خود کہ دوسروں پر پانی کی طرح بہا دینا کوئی معمولی بات ہے جب کہ لوگ اس پیسہ سے عیش و عشرت فرحت و شادمانی کا سامان لے رہے ہوں گھومنے پھرنے سیر و سیاحت دنیاوی لذت کے پیچھے بھاگ رہے ہوں۔

کیا کلام الہی کی تلاوت کرنا لوگوں کے قلوب و اذہان کو قرآن مجید کی ضیاء پاشیوں سے منور کرنا کوئی بازیچہ اطفال ہے جب کہ لوگ قرآن کی تلاوت سے کوسوں دور رہتے ہوں جب تک گانے بجانے کی آواز ان کے کانوں کے دروازوں سے نہ ٹکرائے ان کو نیند تک نہیں آتی۔

تو آخر کیوں ان کے ساتھ اتنا بھیانک سلوک کیا جا رہا ہے؟

اس کی بڑی وجہ اور سبب یہ ہے کہ یہ جملہ کام للھیت سے خالی اور اخلاص کے معطرلباس سے عاری تھے۔

اسی لیے پہلی چیز جس کا اہتمام بہت ضروری اور اہم ہے وہ ہر معاملے میں اخلاص و احتساب اور تصحیح نیت ہے اس لیے رسول اللہﷺ نے بعض ان خالص دینی واجباب و اعمال میں (جس کو انسان محض امر الہی کی تعمیل اور رضائے الہی کے حصول کے لیے کرتا ہے) ایمان واحتساب کی شرط لگائی ہے۔

مولانا ابو الحسن ندوی فرماتے ہیں:

امام بخاری نے اپنی کتاب کی ابتداء بڑی حکمت سے کی ہے اور اس میں توفیق الہی شامل ہے کہ انہوں نے سب سے پہلے یہ حدیث ذکر کی ہے:

إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِالنِّيَّاتِ، وَإِنَّمَا لِكُلِّ امْرِئٍ مَا نَوَى، فَمَنْ كَانَتْ هِجْرَتُهُ إِلَى دُنْيَا يُصِيبُهَا، أَوْ إِلَى امْرَأَةٍ يَنْكِحُهَا، فَهِجْرَتُهُ إِلَى مَا هَاجَرَ إِلَيْهِ (صحيح البخاري کتاب بدءالوحی(1/ 6)

اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر آدمی کو وہی ملے گا جیسی اس کی نیت ہو گی جس کی ہجرت حصول دنیا کے لیے یا کسی عورت سے شادی کے لیے ہو گی تو اس کی طرف اس کی ہجرت ہو گی یعنی اس کو ہجرت کرنے کا اجر نہیں ملے گا۔

اس حدیث سے کتاب کی ابتداء میں امام بخاری کے دو اہم مقاصد ہیں:

پہلا مقصد تو یہ ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ نے یہ ارشاد فرمایا کہ ان کا جمع و تالیف کا یہ عمل محض رضائے الہی کے حصول اور ثواب کی امید میں ہے اور اس کے لیے کلام رسولﷺ جو صحیح سندوں سے ثابت ہے اس کو عام طور پر مسلمانوں اور خاص طور پر علماء اور حدیث سے اشتغال رکھنے والوں تک پہنچا دیا جائے۔

دوسرا مقصد امام صاحب رحمہ اللہ کا یہ ہے کہ وہ پڑھنے والوں کو بھی تصحیح نیت کی دعوت دیں اور رضائے الہی کے حصول کا جذبہ یاد دلائیں اس طرح یہ حدیث شریف کسی بھی کتاب کے لیے بہترین دیباجہ اور مقدمہ ہے۔

اس بناء پر ہم سب کے لیے ضروری ہے کہ اپنی نیتوں کی تصحیح کریں اپنے اندر اخلاص و احتساب پیدا کریں تقرب الی اللہ کا جذبہ پیداکریں اس کے ثواب اور توفیق کی امید رکھیں اور طلب دنیا اور مادی اغراض و مقاصد کو دل سے نکال دیں شہرت و ناموری اور حصول دنیا کا جذبہ ان کے اندر نہ ہو اگر بغیر قصد و ارادے کے بھی یہ بات دل میں پیدا ہوتی ہو تو اس کو کاٹ کر پھینک دیں۔

(مطالعہ حدیث کے اصول و مبادی ص 73، 74)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے