آزمائش ہے نشان بندگان محترم

جانچ ہوئی انہیں کی جن پے ہوتا ہے کرم

یہ بات تو سب کو معلوم ہے کہ ہر انسان کو اپنی زندگی میں مصائب و مشکلات کا سامنا ضرور کرناپڑتا ہے چاہے وہ غریب ہو یا امیر، نیک ہو یا بد، مرد ہو یا عورت، بوڑھا ہو یا جوان، ہر انسان کو مصائب اس کے حالات، ماحول اور مزاج کی مناسبت سے پیدا ہوتے ہیں اور یہ بات تو قرآن و حدیث کی روشنی میں ہم سابقہ ایک تحریر میں بیان کر چکے ہیں اب ہمیں اس پہلو پر غور کرنا ہے کہ مصائب اور مشکلات سے نجات کیسے ممکن ہے ذیل میں ہم چند ایسے امور ذکر کر رہے ہیں۔

1۔ بُرے اعمال سے توبہ کرنا:

بعض مصائب انسان کے بُرے اعمال کی وجہ سے نازل ہوتے ہیں اس لیے ہر برائی اور گناہ کے کاموں سے ہمیں اجتناب کرنا چاہیے جن گناہوں کا آدمی ارتکاب کر چکا ہے ان پر ندامت کا اظہار اللہ تعالیٰ سے معافی اور سچی توبہ کرنی چاہیے اور ہمیشہ کے لیے گناہوں سے بچنے اور برائیوں سے دور رہنے کی حتی المقدور کوشش کرنی چاہیے اگر ہم ایسا کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو یقیناً ہماری پریشانیوں اور مصائب کا ایک بہت بڑا حصہ ختم ہوجائےگا۔

ہر وہ کام گناہ ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کے بھیجے ہوئے دین کی خلاف ورزی ہو۔ گناہوں سے رک جانا اور اللہ رب العزت سے گناہوں کی معافی مانگنے کو توبہ و استغفار کہا جاتا ہے کوئی انسان و جن ایسا نہیں ہے جسے معصوم عن الخطاء کہا جا سکتا ہو۔ ایمان لانے کے بعد بھی انسان بشری تقاضوں کی وجہ سے گناہ اور معصیت کا مرتکب ہوتا رہتا ہے۔ جیسا کہ حدیث مبارکہ میں ہے۔ ہمارے پیارے نبی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے:

كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ

(سنن ابن ماجه (2/ 1420)

تمام اولاد آدم خطا کار ہیں البتہ ان خطاکاروں میں سے بہترین لوگ وہ ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرنے والےہیں۔

ایک اور روایت میں سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَوْ لَمْ تُذْنِبُوا لَذَهَبَ اللهُ بِكُمْ، وَلَجَاءَ بِقَوْمٍ يُذْنِبُونَ، فَيَسْتَغْفِرُونَ اللهَ فَيَغْفِرُ لَهُمْ (صحيح مسلم (4/ 2106)

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں مٹا دے اور تمہاری جگہ ایسی قوم کو لے آئے جو گناہ کرے گی پھر وہ اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی بھی مانگے گی اور اللہ تعالیٰ انہیں معاف کر دیں گے۔

پتاچلا کہ انسان چاہیے مؤمن ہو پھر بھی انسان بشری تقاضوں کے سبب گناہوں کا مرتکب ہو جاتا ہے اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو مخاطب کر کے فرمایا:

يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا تُوْبُوْٓا اِلَى اللّٰهِ تَوْبَةً نَّصُوْحًا   ۭ عَسٰى رَبُّكُمْ اَنْ يُّكَفِّرَ عَنْكُمْ سَيِّاٰتِكُمْ وَيُدْخِلَكُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِيْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ ۙ يَوْمَ لَا يُخْزِي اللّٰهُ النَّبِيَّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مَعَهٗ ۚ نُوْرُهُمْ يَسْعٰى بَيْنَ اَيْدِيْهِمْ وَبِاَيْمَانِهِمْ يَقُوْلُوْنَ رَبَّنَآ اَتْمِمْ لَنَا نُوْرَنَا وَاغْفِرْلَنَا ۚاِنَّكَ عَلٰي كُلِّ شَيْءٍ قَدِيْرٌ (التحریم8)

اے ایمان والو! اللہ کے حضور خالص توبہ کرو کچھ بعید نہیں کہ تمہارا پروردگار تم سے تمہاری برائیاں دور کردے اور تمہیں ایسی جنتوں میں داخل کرے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ۔ اس دن اللہ اپنے نبی کو اور ان لوگوں کو جو اس کے ساتھ ایمان لائے ہیں رسوا نہیں کرے گا۔ ان کا نور ان کے آگے آگے اور دائیں جانب دوڑ رہا ہوگا (اور) وہ کہہ رہے ہوں گے: اے ہمارے پروردگار! ہمارے لیے ہمارا نور پورا کردے اور ہمیں بخش دے یقینا تو ہر چیز پر قادر ہے۔

خالص توبہ واستغفار سے مراد یہ ہے کہ:

1۔ جو گناہ انسان کر چکا ہے اس گناہ سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں ندامت کا اظہار کرے۔

2۔ جس گناہ سے آدمی توبہ کر رہا ہے اسے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ترک کر دے۔

3۔ جس گناہ سے آدمی توبہ کر رہا ہے اسے آئندہ نہ کرنے کا عزم رکھے۔

4۔ اگر اس کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو جس آدمی کا حق غصب کیا ہے اس کا حق اسے لوٹا دے، جس کے ساتھ زیادتی، ظلم وغیرہ کیا ہے اس سے معافی مانگے اگر وہ آدمی فوت ہو چکا ہے تو اس کے لیے بخش کی دعا کرے محض زبان سے توبہ توبہ کہہ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔

2۔ اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرنا

مصائب سے نجات حاصل کرنے کا ایک بہت بڑا ذریعہ اللہ تعالیٰ سے دعائیں التجائیں کرنا بھی ہے کیونکہ دل کی گہرائیوں سے نکلنے والی آہ بھی بغیر کسی کے واسطے وسیلے کے سیدھی اس کے عرش تک پہنچتی ہے بشرطیکہ صرف اللہ رب العزت کو ہی پکارا جائے اس کے ساتھ کسی اور کو حصہ دار نہ بنایا جائے کیونکہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُوْنِيْٓ اَسْتَجِبْ لَكُمْ

آپ کے پروردگار نے فرمایا ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (المؤمن 60)

اسی لیے اگر کسی نبی کو مصائب کا سامنا کرنا پڑا تو انہوں  نے صرف ایک اللہ کو ہی پکارا ابونا آدم علیہ السلام کوتاہی کے مرتکب ہوئے تو انہوں نے صرف اللہ کو ہی پکارا سیدنا یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں جا پہنچتے تو انہوں نے اللہ کو پکارا تھا سیدنا ایوب علیہ السلام بہت بڑھی آزمائش میں مبتلا ہوئے تو انہوں نے بھی صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا اور اسی طرح سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے آگ میں۔ سیدنا یعقوب علیہ السلام نے فراق یوسف علیہ السلام میں اور ہمارے پیارے نبیﷺ نے اپنی مشکلات میں صرف ایک اللہ وحدہ لا شریک کو ہی پکارا۔

اللہ تعالیٰ کی ادا کیسی ہے کہ اگر کوئی آدمی اللہ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ خوش ہوتے ہیں اور اگر کوئی دعا نہیں کرتا اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتا نہیں تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوتے ہیں۔

رسول کائناتﷺ نے ارشاد فرمایا:

إِنَّهُ مَنْ لَمْ يَسْأَلِ اللَّهَ يَغْضَبْ عَلَيْهِ

(سنن الترمذي (5/ 456)

جو آدمی اللہ تعالیٰ سے دعا نہیں کرتا تو اللہ تعالیٰ اس سے ناراض ہوتے ہیں۔

ایک اور حدیث میں آپﷺ نے فرمایا: اے اللہ کے بندو! تمہارے لیے ضروری ہے کہ دعا کیا کرو۔

رسول اللہﷺ نے دعا کرنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ اس کے قبولیت کے اوقات بھی بتا دیئے ہیں مثلاً رات کے آخری پہر میں اذان و اقامت کے دوران، نماز میں، سجدے میں، نمازوں کے بعد، جمعہ کے دن کے خاص گھڑی میں، یوم عرفہ میں، لیلۃ القدر میں وغیرہ وغیرہ اور اسی طرح آپﷺ نے چند ایسے حالات بھی ذکر کئے ہیں جن میں دعا قبول ہوتی ہے مثلاً مظلوم کی مسافر کی باپ کی بیٹے کے حق میں، حج و عمرہ کرنے والوں کی، بھائی کی عدم موجودگی میں اور عادل حکمران وغیرہ کی اللہ تعالیٰ کسی کی دعا کو رد نہیں کرتے۔

جیساکہ شاعر کہتا ہے۔

مرض بڑھتا نہیں مٹ جاتا ہے عشرت ان کا

جس نے دربار الٰہی سے شفا مانگنی ہے

3۔ ایمان باللہ وعمل صالح

دنیاوی مصائب و آلام سے نجات کا ایک بہت بڑا ذریعہ ایمان باللہ اور عمل صالح ہیں۔ جیساکہ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے:

مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَكَرٍ اَوْ اُنْثٰى وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهٗ حَيٰوةً طَيِّبَةً ۚ وَلَـنَجْزِيَنَّهُمْ اَجْرَهُمْ بِاَحْسَنِ مَا كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ (النحل 97)

جو شخص بھی نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی بسر کرائیں گے اور (آخرت میں) ان کے بہترین اعمال کے مطابق انہیں ان کا اجر عطا کریں گے۔

اس آیت کریمہ میں اللہ عزوجل اپنے بندوں سے وعدہ کر کے فرما رہے ہیں کہ جس آدمی نے ایمان اور عمل صالح کو اپنالیا تو ہم اسے دنیا میں بھی پاکیزہ زندگی عطا کریں گے جو کہ دنیاوی تکلیفوں و مصائب کا دفاع کرنے والی ہو گی اور اسے اگلے جہاں میں بھی بہترین انعامات سے نوازا جائے گا۔

ایک اور آیت عظیمہ میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

بَلٰي ۤ مَنْ اَسْلَمَ وَجْهَهٗ لِلّٰهِ وَھُوَ مُحْسِنٌ فَلَهٗٓ اَجْرُهٗ عِنْدَ رَبِّهٖ ۠ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا ھُمْ يَحْزَنُوْنَ

(البقرۃ 112)

بات دراصل یہ ہے کہ جو شخص بھی اپنے آپ کو اللہ کا فرمانبردار بنا دے اور وہ نیکو کار بھی ہو تو اس کا اجر اس کے پروردگار کے ہاں اسے ضرور ملے گا اور ایسے لوگوں کو نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔

4۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کثرت سے کرنا

مصائب سے نجات کا ایک بڑا ذریعہ اللہ تعالیٰ کا ذکر کو کثرت سے کرتے رہنا ہے بلا شبہ اس سے پریشان دل کو اطمینان اور چین مل جاتا ہے ذکر الٰہی کی کثرت حیران کن تاثیر کی حامل ہے جیساکہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُهُمْ بِذِكْرِ اللّٰهِ ۭ اَلَا بِذِكْرِ اللّٰهِ تَـطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد 28)

(یعنی) جو لوگ ایمان لاتے ہیں اور ان کے دل اللہ کے ذکر سے سے مطمئن ہوجاتے ہیں۔ یاد رکھو! دل اللہ کے ذکر سے ہی مطمئن ہوتے ہیں۔

اس لیے ہم کو کثرت سے ذکر و افکار کرنے چاہئیں صبح و شام کے خصوصی اور عمومی اذکار وغیرہ۔

ہمارے پیارے نبی محمدﷺ کی زبان ہروقت ذکر الٰہی سے تر رہتی تھی۔

جیساکہ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:

كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَذْكُرُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ عَلَى كُلِّ أَحْيَانِهِ (سنن أبي داود (1/ 5)

رسول اللہﷺ ہر وقت اللہ تعالیٰ کا ذکر کیا کرتے تھے۔ کسی بھی مسلمان کو مرد ہو یا عورت کسی بھی حال میں اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غافل نہیں رہنا چاہیے۔ (سوائے بیت الخلاء وغیرہ کے)۔

5۔ مخلوق پر احسان کرنا

مصائب اور دکھوں کو زائل کرنے کا ایک سبب اللہ تعالیٰ کی مخلوق پر احسان کرنا بھی ہے اگر کوئی آدمی کسی کی تنگدستی پریشانی کو اپنی استطاعت کے مطابق دور کردے تو یقیناً اللہ تعالیٰ اس آدمی کی مصیبت اور پریشانی سے نجات نصیب فرما دیں گے۔

جیسا کہ سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول کائناتﷺ کا ارشاد گرامی ہے:

مَنْ نَفَّسَ عَنْ مُؤْمِنٍ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ الدُّنْيَا، نَفَّسَ اللهُ عَنْهُ كُرْبَةً مِنْ كُرَبِ يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَمَنْ يَسَّرَ عَلَى مُعْسِرٍ، يَسَّرَ اللهُ عَلَيْهِ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَمَنْ سَتَرَ مُسْلِمًا، سَتَرَهُ اللهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، وَاللهُ فِي عَوْنِ الْعَبْدِ مَا كَانَ الْعَبْدُ فِي عَوْنِ أَخِيهِ (صحيح مسلم (4/ 2074)

جس آدمی نے کسی مومن کی مشکلات میں سے ایک مشکل حل کر دی تو اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی مشکلات میں سے ایک مشکل حل کردیں گے اور جس آدمی نے کسی تنگدست کی تنگدستی کو آسان کیا تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اس پر آسانی فرمائیں گے اور جس نے کسی مسلمان آدمی کی پردو پوشی کی تو اللہ رب العزت اس کی دنیا اور آخرت میں پردو پوشی کریں گے۔ اور جب تک کوئی آدمی اپنے بھائی کی مدد کرتا رہتا ہے تب تک اللہ تعالیٰ اس کی مدد کرتے رہتے ہیں۔

6۔ بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز کرنا

مصائب و مشکلات سے نجات کا ایک بڑا ذریعہ بارگاہ الٰہی میں سجدہ ریز ہوجانا بھی ہے مصائب و مشکل میں نماز کا سہارا لینا چاہیے۔ جب اللہ تعالیٰ مومن آدمی کا مدد گار بن جاتے تو کیا مجال ہے کہ کوئی مصیبت باقی رہ جائے آپﷺ کا بھی یہ ہی معمول تھا کہ جب بھی آپ کو کوئی پریشانی، آزمائش آتی تو آپ نماز میں مصروف ہو جایا کرتے۔

جیسا کہ سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ:

إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ، صَلَّى (سنن أبي داود (2/ 35)

آپﷺ کو جب بھی کوئی مشکل حالات پیش آتے تو آپ نماز پڑھنے لگتے تھے۔

ایک اور روایت میں ہے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

إِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يَقُولُ: يَا ابْنَ آدَمَ تَفَرَّغْ لِعِبَادَتِي أَمْلَأْ صَدْرَكَ غِنًى وَأَسُدَّ فَقْرَكَ، وَإِلَّا تَفْعَلْ مَلَأْتُ يَدَيْكَ شُغْلًا وَلَمْ أَسُدَّ فَقْرَكَ (سنن الترمذي (4/ 643)

بیشک اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اے ابن آدم میری عبادت کے لیے خود کو فارغ کرو میں تیرے سینے کو تو نگری سے بھر دوں گا اور تیری محتاجی کو ختم کر دوں گا اور اگر تو نے ایسا نہ کیا تو میں تیرے ہاتھ کاموں میں اتنے الجھا دوں گا اور تیری مفلسی ختم نہ کروں گا۔

7۔ صبر و استقامت

انسان کو مصائب و مشکلات میں گھبرانا نہیں چاہیے بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے صبر و استقامت سے کام لینا چاہیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے پاس بہت اچھا بدلہ ہے۔ جیسا کہ سیدنا محمد رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے:

عَجِبْتُ مِنْ قَضَاءِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ لِلمُؤْمِنِ، إِنِ أصَابَهُ خَيْرٌ حَمِدَ رَبَّهُ وَشَكَرَ، وَإِنِ أصَابَتْهُ مُصِيبَةٌ حَمِدَ رَبَّهُ وَصَبَرَ، الْمُؤْمِنُ يُؤْجَرُ فِي كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى فِي اللُّقْمَةِ يَرْفَعُهَا إِلَى فِي امْرَأَتِهِ

)مسند أحمد مخرجا (3/ 82)

بندہ مومن کے متعلق اللہ تعالیٰ تقدیر اور فیصلے پر مجھے تعجب ہوتا ہے کہ اگر اسے کوئی بھلائی حاصل ہوتی ہے تو وہ پروردگار کا شکر ادا کرتا ہے اور اگر اسے کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس پر الحمد للہ کہہ کر صبر کرتا ہے مومن کو تو ہر چیز کے بدلے ثواب ملتا ہے حتی کہ اس لقمے پر جو وہ اپنی بیوی کی طرف اٹھاتا ہے۔

والحمد للہ رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے