اسم کے متعلق معلومات نمبر 3
وسعت (CAPACITY)
کسی اسم کے متعلق یہ معلوم کرنا کہ وہ عام اسم (اسم نکرہ) ہے یا خاص اسم (اسم معرفہ) ہے وسعت کہلاتا ہے دنیا کی تمام زبانوں میں کچھ الفاظ کا دائرہ کار بہت وسیع ہوتا ہے اور کچھ کا بڑا ہی محدود جیسے عربی میں لفظ رَجُلٌ (آدمی) اس کے دائرے میں دنیا میں بسنے والا ہر مرد مسلمان، کافر سب کے سب آجاتے ہیں اس کے مقابلے میں لفظ فیصل کا دائرہ بہت محدود ہے کہ اسم میں صرف وہی شخص آئے گا جس کا نام فیصل ہو گا کیونکہ دنیا کے ہر شخص کا نام فیصل نہیں۔ اس لیے لفظ رجلٌ اسم نکرہ ہے وسیع معنیٰ رکھتا ہے اور لفظ فیصل معرفہ ہے یہ صرف اس کے لیے مستعمل ہے جس کا ذاتی نام فیصل ہو۔
اسم معرفہ (DEFINITE/ PROPER Noun) اور اسم نکرہ (COMMON NOUN) میں فرق:
معرفہ کا معنیٰ پہچان ہے اور نکرہ کا معنیٰ انکار سمجھ لیجئے مثلاً آپ سے ملنے آپ کا کوئی دوست آئے اور آپ کو اطلاع دی جائے کہ باہر کوئی رجلٌ (آدمی) آیا ہے آپ انکار کر دیں گے کہ پتہ نہیں آنے والا کون ہے لیکن اگر یہ بتایا جائے کہ ’’فیصل‘‘ آیا ہے تو آپ فوراً پہچان جائیں گے کہ ہاں یہ تو فلاں دوست ہے اسی لیے کہ لفظ رجلٌ (ایک عام نام) ہے اس کو نکرہ اور فیصل (ایک خاص نام) ہے اس کو معرفہ کہیں گے۔
اسم معرفہ کی پانچ اقسام ہیں:
1۔ اسم علم/ خاص نام
2۔ اسم ضمیر
3۔ اسم اشارہ
4۔ اسم موصول
5۔ اسم معرف بالاف واللام
نوٹ: جس کسی اسم کا مندرجہ بالا اسم معرفہ کی 5 اقسام سے تعلق ثابت نہ ہو وہ اسم نکرہ ہوگا۔
1۔ اسم علم (خاص نام)
ایسے مخصوص اسماء (نام) جو کسی جاندار یا بے جان اشیاء کی پہچان بن جائیں اسم علم کہلاتے ہیں جیسے کسی کتاب کا نام مثلاً القرآن، التوراۃ، الانجیل وغیرہ یا کسی مرد کا مخصوص نام مثلاً زید، فیصل، محمد وغیرہ یا کسی عورت کا مخصوص نام جیسے عائشہ، رقیہ وغیرہ یا کسی جگہ کا نام جیسے مکہ، پاکستان، کراچی اسی طرح ہم سب کے مخصوص نام بھی اس میں شامل ہیں۔
ایسے تمام اسماء کو عربی میں اسم علم (علامت/ نشانی/ پہچان) کہا جاتا ہے۔
اس کے برعکس یہ نام جیسے رَجُلٌ (آدمی) وَلَدٌ (لڑکا) إمرأۃٌ (عورت) یہ تمام اسماء بالترتیب دنیا کے ہر مرد ہر لڑکے اور ہر عورت کے لیے بولے جاتے ہیں اس لیے یہ عام نام (اسم نکرہ) کہلاتے ہیں۔
2۔ اسم ضمیر
کسی کے خاص نام (اسم علم) کی جگہ استعمال ہونے والے اسم کو اسم ضمیر کہتے ہیں۔
مثلاً ہم کہیں فیصل صبح اٹھ کر نماز پڑھتا ہے پھر فیصل تلاوت کرتا ہے پھر فیصل باغیچہ کی سیر کو جاتا ہے پھر فیصل ناشتہ کرتا ہے وغیرہ اس طرح بار بار نام لینے کے بجائے ایسے کہا جائے گا کہ فیصل صبح اٹھ کر نماز پڑھتا پھر وہ تلاوت کرتا ہے پھر وہ باغیچہ کی سیر کو جاتا ہے پھر وہ ناشتہ کرتا ہے چنانچہ لفظ (وہ) فیصل کی جگہ استعمال ہو رہا ہے اس کو عربی گرامر میں ضمیر کہتے ہیں اور انگریزی میں کسی نام کی جگہ استعمال ہونے والے ایسے الفاظ کو (PRONOUN) کہتے ہیں مثلاً HE, SHE, THEYوغیرہ ضمیر کا معنیٰ ہے چھپا ہوا یا پوشیدہ عربی گرامر کی اصطلاح میں بھی اسے ضمیر اسی لیے کہتے ہیں کیونکہ ضمیر سے تعلق رکھنے والے لفظ میں کسی نہ کسی کا ذکر چھپا ہوا ہوتا ہے جیسے: زید ایک نیک انسان ہے وہ مسجد میں ہے اس جملے میں لفظ (وہ) کے اندر زید کا ذکر چھپا ہوا ہے اب اس جملے کو عربی میں بناتے ہیں ’’زیدٌ صالحٌ، ھُوَ فی المسجدِ‘‘ یہاں (ھو) ضمیر ہے جیسے اردو میں اس کی جگہ لفظ ’’وہ‘‘ ضمیر تھا۔
عربی میں مندرجہ ذیل ضمائر استعمال ہوتے ہیں۔
ضمائر غائب کے لیے
(جس کے متعلق بات کی جا رہی ہو)
جنس عدد ضمیر معانی
مذکر واحد ھو وہ (ایک مذکر)
مذکر تثنیہ ھما وہ دو مذکر
مذکر جمع ھم وہ سب مذکر
مؤنث واحد ھی وہ ایک مؤنث
مؤنث تثنیہ ھما وہ دو مؤنث
مؤنث جمع ھن وہ سب مؤنث
ضمائر حاضر/ مخاطب کے لیے (جس سے بات کی جا رہی ہو)
جنس عدد ضمیر معانی
مذکر واحد انتَ تم(ایک مذکر)
مذکر تثنیہ انتما تم دو مذکر
مذکر جمع انتم تم سب مذکر
مؤنث واحد انتِ تم ایک مؤنث
مؤنث تثنیہ انتما تم دو مؤنث
مؤنث جمع انتنّ تم سب مؤنث
ضمائر متکلم کے لیے (بات کرنے والا)
جنس عدد ضمیر معانی
مذکر واحد أنا میں مرد/عورت
مؤنث تثنیہ/جمع نحن ہم مرد/ عورتیں
3۔ اسم اشارہ
کسی کی طرف اشارہ کرنے کے لیے جو لفظ استعمال ہو عربی گرامر کی اصطلاح میں اس کو اسم اشارہ کہتے ہیں۔ عربی میں پنکھے کو مِروحَۃٌ کہتے ہیں یہ لفظ دنیا کے تمام پنکھوں کے لیے عام نام ہے لیکن اگر کوئی شخص اشارہ کر کے کہے کہ یہ پنکھا (ھذہ المروحۃ) تو پھر یہ پنکھا عام نہیں خاص ہو جائے گا لفظ اشارہ ’’یہ‘‘ کے اضافے نے اس کو مخصوص کر دیااسی لیے جب کسی بھی چیز جاندار ہو یا غیر جاندار کی طرف اشارہ کرنے کے لیے جو لفظ استعمال ہو گا عربی گرامر کی اصطلاح میں اس کو بھی ’’اسم معرفہ‘‘ کہتے ہیں کیونکہ اس سے مراد صرف وہی ہوتا ہے جس کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہو۔
اسم اشارہ کی اقسام:
(۱) اسم اشارہ قریب
(۲) اسم اشارہ بعید
اگر کوئی چیز قریب پڑی ہوئی ہے تو اس کے لیے لفظ ’’یہ‘‘ استعمال کرتے ہیں اور اگر دور ہے تو لفظ ’’وہ‘‘ استعمال کرتے ہیں اردو میں ہم صرف لفظ ’’یہ‘‘ اور ’’وہ‘‘ سے کام چلاتے ہیں لیکن عربی میں اسم اشارہ کے لیے مناسب تعداد میں الفاظ موجود ہیں جو کہ مذکر، مؤنث، تثنیہ اور جمع کے لیے الگ الگ ہیں۔
1۔ اسم اشارہ قریب:
اردو میں اسم اشارہ قریب کے لیے استعمال ہونے والے لفظ ’’یہ‘‘ کے معنی میں عربی میں پانچ الفاظ ہیںجو کہ مندرجہ ذیل جدول میں دیئے گئے ہیں۔
اسم اشارہ قریب (’’یہ‘‘ کے معنی میں)
جنس عدد اسم اشارہ معانی
مذکر واحد ھذا یہ ایک مذکر
مذکر تثنیہ ھذان یہ دو مذکر
مذکر جمع ھٰؤلاء یہ سب مذکر
مؤنث واحد ھذہ یہ ایک مؤنث
مؤنث تثنیہ ھاتان یہ دو مؤنث
مؤنث جمع ھٰؤلاء یہ سب مؤنث
مثلا ایک شخص آیا اس کے ساتھ ایک بچہ بھی ہے اگر آپ نے یہ پوچھنا ہو کہ یہ کون ہے؟ تو ایسے کہیں گے (من ھذا؟) اگر دو بچے ہیں تو (من ھذان؟) اگر ایک بچی ہے تو (من ھذہ؟) اگر دو بچیاں ہیں تو ایسے کہیں گے (من ھاتان؟) اگر دو سے زیادہ بچے/ بچیاں یا بچے، بچیاں ایک جگہ ہیں تو ان کے لیے ایک ہی لفظ (ھولاء) ہے تو آپ ایسے کہیں گے (من ھولاء؟)
(ب) اسم اشارہ بعید (دور کےلیے):
اردو میں دور کے اسماء کے لیے کہے جانے والے لفظ ’’وہ‘‘ کے معنیٰ میں استعمال ہونے والے عربی زبان کے 5 الفاظ ہیں۔
اسم اشارہ بعید (دور کے لیے ’’وہ‘‘ کے معنیٰ ہیں)
جنس عدد اسم اشارہ معانی
مذکر واحد ذلک وہ ایک مذکر
مذکر تثنیہ ذانک وہ دو مذکر
مذکر جمع اولٰئک وہ سب مذکر
مؤنث واحد تلک وہ ایک مؤنث
مؤنث تثنیہ تانک وہ دو مؤنث
مؤنث جمع اولٰئک وہ سب مؤنث
مثلاً دور کوئی لڑکا کھڑا ہے آپ پوچھنا چاہتے ہیں کہ وہ کون ہے تو ایسے کہیں گے (من ذلک؟) اگر لڑکی ہے تو یہ کہیں گے (من تلک؟) اگر دو لڑکے ہیں تو (من ذانک؟) اگر دو لڑکیاں ہیں تو یہ کہیں گے (من تانک؟) اگر بہت سے لڑکے ہیں یا لڑکیاں یا سب ایک جگہ ہیں تو ان کے لیے ایک ہی لفظ ’’اولٰئک‘‘ ہے تو ایسے کہیں گے (من اولٰئک؟)
4۔ اسم موصول
تعریف: دو نامکمل جملوں کو ملانے کے لیے استعمال ہونے والے اسم کو اسم موصول کہتے ہیں۔ لفظ موصول وصل سے بنا ہے جس کا معنیٰ ملانا یا جوڑنا ہے ہر زبان میں کچھ مخصوص الفاظ دو نامکمل جملوں کو جوڑنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔
مثلاً (۱) ایک شخص آیا (۲) کل بھی آیا تھا۔ یہ دو الگ الگ نا مکمل جملے ہیں ان دونوں کو ملا کر ایک جملہ بنانے کے لیے اردو میں لفظ ’’جو‘‘ استعمال ہوتا ہے اب ان جملوں کو ’’جو‘‘ کی مدد سے ملاتے ہیں ایک شخص آیا جو کل بھی آیا تھا۔ تو لفظ ’’جو‘‘ نے ان دو نا مکمل جملوں کو ملا کر ایک جملہ بنا دیا۔
اردو میں دو جملوں کو ملانے کے لیے مندرجہ ذیل الفاظ استعمال ہوتے ہیں مثلاً جو، جس کا، جس کو، جنہوں نے، جن کا وغیرہ جبکہ انگریزی میں WHo, WHOM, WHOSEوغیرہ اور عربی میں دو جملوں کو ملانے کے لیے کل سات الفاظ ہیں۔
عربی زبان میں اسماء موصولہ
جنس عدد اسم اشارہ معانی
مذکر واحد الذی یہ/ وہ/ جو/ جسکو/ جس نے
مذکر تثنیہ الذان یہ/ وہ/ جو/ جسکو/ جس نے
مذکر جمع الذین یہ/ وہ/ جو/ جسکو/ جس نے
مؤنث واحد التی یہ/ وہ/ جو/ جسکو/ جس نے
مؤنث تثنیہ التان یہ/ وہ/ جو/ جسکو/ جس نے
مؤنث جمع الاتی/الائی یہ/ وہ/ جو/ جسکو/ جس نے
5۔ المعروف بالالف واللام
اسم معرفہ کی پہلی چار مذکورہ اقسام تو اصلی ہیں لیکن یہ پانچویں قسم (المعرف بالالف واللام) جو ہے وہ اسم نکرہ کے شروع میں الف اور لام کے اضافے سے بنائی جاتی ہے۔
تعریف: کسی جاندار یا بے جان چیز کے عام نام (اسم نکرہ) کے شروع میں الف، لام (ا،ل) کے اضافے سے جو اسم بنتا ہے اس کو معرف بالالف واللام کہتے ہیں اس کے نام سےہی پتہ چل رہا ہے کہ الف اور لام کے ذریعے اس کو معرفہ بنایا گیا ہے اس لیے یہ حقیقی نہیں بلکہ معرفہ کی مصنوعی قسم ہے کیونکہ حقیقتاً یہ اسم نکرہ ہوتا ہے ایک آسان طریقے سے اس کو معرفہ بنا دیا جاتا ہے۔
مثلاً: وَلَدٌ (لڑکا) اسم نکرہ ہے اور کسی بھی لڑکے لے لیے بولا جاتا ہے اگر اس کو معرفہ یعنی اسم خاص بنانا ہو تو اس کے شروع میں (ا، ل) کا اضافہ کر دیں گے تو یہ معرفہ بن جائے گا جیسے الوَلَدُ۔
نوٹ: الف لام کے اضافے کے بعد وَلَدٌ سے دال پہ موجود دوہری حرکت (تنوین) کو ختم کر دیا گیا اس کی جگہ دال پر صرف ایک حرکت اَلوَلَدُ باقی رہی اس کی وضاحت پہلے بھی گزر چکی ہے کہ کسی اسم پر رجب الف لام داخل ہوتا ہے تو اس کی دوہری حرکت کو ختم کر دیتا ہے
معرفہ اور معرّف میں فرق:
معرفہ وہ اسم ہے جو حقیقتاً معرفہ ہو جیسا کہ اوپر معرفہ کی چار اقسام کا ذکر ہوا ہے اور معرف معرفہ کی وہ قسم ہے کہ جس میں اسم نکرہ کو الف لام کے اضافے سے معرفہ بنایا گیا ہو۔ اردو میں الف، لام کے مقابلے میں کوئی لفظ نہیں ہے جو اس کی نیابت کر سکے لیکن انگریزی میں الف لام (ا، ل) کا کام لفظ (THE) کرتا ہے جیسے ولدٌ کا ترجمہ انگریزی میں (A Boy) کریں گے اور الوَلدُ کا معنیٰ (THE BOY) ہو گا یعنی انگریزی کا لفظ (THE) وہی کام کرتا ہے جو عربی میں الف لام (ا،ل) کا ہے۔
نوٹ: معرفہ کی پہلی چار اقسام کے ساتھ الف، لام کا اضافہ نہیں کیا جا سکتا ہے جیسے المحمد کہنا یعنی جہاں انگریزی میں (THE) استعمال نہیں ہو سکتا وہاں عربی میں الف لام (ا،ل) کا اضافہ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ ایک کتاب ہے تو انگریزی میں (THIS IS A THE BOOK) نہیں کہہ سکتے بلکہ یہ کہا جائے گا (This is a book) اسی طرح بعض اسماء ہوتے معرفہ ہیں لیکن الف لام (ا،ل) پہلے سے ان کا حصہ ہوتا ہے جیسے عربی زبان میں دنیاکے ہر شہر کو مدینہ کہتے ہیں اور جب المدینہ کہا جائے گا تو اس سے مراد مدینہ منورہ ہو گا جبکہ مکہ کے ساتھ کسی صورت الف لام نہیں آ سکتا۔
اسم نکرہ: ہر وہ اسم جو معرفہ کی مذکورہ بالا پانچ اقسام میں سے کسی سے تعلق نہ رکھتا ہو وہ اسم نکرہ ہو گا۔
اسماء نکرہ کا معنیٰ ایک، چند یا کچھ کے ساتھ کیا جاتا ہے جیسے ولدٌ (ایک لڑکا) ولدانِ (دولڑکے) اولاد (چند لڑکے) وغیرہ۔
مثال: بنتٌ (لڑکی) ایک اسم ہے اب دیکھتے ہیں یہ معرفہ ہے یا نکرہ تو اس کو معرفہ کی پانچوں اقسام پر پیش کرتے ہیں اگر کسی نے بھی قبول نہ کیا تو نکرہ ہوگا۔
1۔ اسم علم (خاص نام) بنت کسی لڑکی کا خاص نام نہیں دنیا کی ہر لڑکی کو بنتٌ کہا جاتا ہے۔
2۔ اسم ضمیر: اسم ضمیر وہ ہوتا ہے جو کسی خاص نام کی جگہ استعمال ہو جبکہ بنتٌ ایک جنس کا نام ہے۔
3۔ اسم اشارہ: عربی میں اشارہ کرنے کے لیے 5 دور اور 5 نزدیک کے لیے نام موجود ہیں یہ لفظ بنتٌ ان میں سے بھی نہیں۔
4۔ اسم موصول: اسم موصول دو نا مکمل جملوں کو جوڑنے کے کام آتا ہے جبکہ لفظ بنت میں ایسی کوئی خاصیت نہیں اور عربی کے اسماء موصولہ بھی مخصوص الفاظ ہیں۔
5۔ المعرف بالالف واللام: وہ نکرہ جس کو الف لام کے اضافے سے معرفہ بنایا گیا ہو جبکہ بنتٌ میں الف لام (ا، ل) کا اضافہ بھی نہیں ہے۔ تو معلوم ہوا یہ معرفہ کی 5 اقسام میں سے کسی سے تعلق نہیں رکھتا لہٰذا یہ معرفہ نہیں بلکہ اسم نکرہ ہے۔ اس طرح ہم ہر ہر اسم نکرہ اور معرفہ کو علیحدہ کر سکتے ہیں۔
(جاری ہے)