قائد خلقت جناب آدم علیہ السلام سے لیکر اب تک انبیاء و رسل ، صحابہ، ائمہ کرام نے احکام الہی کی بجا آوری شریعت اور نظریہ کے نفاذ شریعت اور دین کی سربلندی، نظریہ کی صداقت اور مئوقف کی حقانیت ثابت کرنے کے لئے مختلف انداز سے قربانیوں کا سلسلہ جاری رکھا۔انہی قربانیوں میں سے ایک قربانی جناب ابراہیم اور جناب اسماعیل علیہما السلام کی ہے، جو رہتی دنیا تک مثال بن گئی اور اسلامی شریعت میں اس قربانی کی یاد عید الاضحی کی شکل میں منائی جاتی ہے۔ اگرچہ عید الاضحی کے دن نماز عید کی ادائیگی کے بعد اس عظیم اربانی کی یاد میں جانور کی قربانی کرنے کی سنت بھی ادا کی جاتی ہے جس سے اس بات کا درس ملتا ہے کہ اگر اللہ کی راہ میں ہمیں اپنے آپ کو یا اپنی اولاد کو بھی قربان کرنا پڑے تو اس میں کسی قسم کی ہچکچاہٹ اور گریز سے کام نہیں لینا چاہئے۔بلکہ اسے احکامات الہی اور اس کے نظام کے استحکام کا ذریعہ سمجھ کر ادا کر دیا جائے اور اپنے آپ کو اللہ کے لئے وقف کر دیا جائے،اور اپنی تمام تر خواہشات اور مفادات کو اللہ کے لیے قربان کر دیا جائے۔

ان قربانیوں میں دین کے استحکام اور ترویج کے لئے مال کی قربانی ، دین کی صحیح تصویر پیش کرنے کے لئے غلط نظریات اور منفی عقائد کی قربانی، اسلام کی بہترین شناخت کے لئے غلط رسومات کی قربانی، اشاعت اسلام کے لئے تحریر اور تقریر کی قربانی، وسعت دین کے لئے انحرافی وقت کی قربانی، اور استحکام پاکستان کے لئے لسانی وعلاقائی اور فرقی ورانہ تعصبات کی قربانی شامل ہیں۔

جناب ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام کی یہ لازوال قربانی انسانیت اور اسلام سے وابستہ لوگوں کے لئے اطاعت اور ایثار کا عملی اور حسین نمونہ ہے،تاکہ وہ اپنے مفادات ذاتی خواہشات، غلطیوں، کوتاہیوں اور خطائوں کو قربان کرنے کے بعد جانور کی قربانی کریں، اور ان کے سامنے یہ نظریہ نہ ہو کہ اللہ کے حضور ان کے قربان کردہ جانور کا گوشت اور خون پہنچتا ہے،بلکہ صدق اور یقین سے یہ بات ان کے مد نظر ہونا چاہئے کہ قربانی تو یہ ذریعہ ہے اصل میں ان کی نیت ، ان کا ایثار ، خلوص اور جذبہ خدا کے حضور پیش ہوتا ہے لہذا انہیں عید الاضحی مناتے وقت اور قربانی کرتے وقت اس خاص امر کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہئے۔

قربانی جہاں ابراہیمی یادگار ہے وہاں سنت حبیب خدا صلی اللہ علیہ و سلم بھی ہے، جناب عبداللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم مدینے میں دس سال قربانی کرتے رہے، ایک اور روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس نے یہ عمل ادا کیا اس نے ہماری سنت کو پالیا۔

قربانی کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی خود انسان کی، اور یہی وجہ ہے کہ ہر قوم اور معاشرے نے اپنے اپنے مذہبی نظریات کے مطابق اسے اپنائے رکھا، تاریخ انسان نے سب سے پہلی قربانی انسان اول جناب آدم صلی اللہ علیہ و سلم کے دونوں بیٹوں نے پیش کی ، سورۃ المائدہ آیت نمبر27ترجمہ{اور انہیں آدم کے دو بیٹوںں کی خبر ٹھیک ٹھیک پرھ کر سنائیے! جب دونوں نے قربانی دی تو ایک سے قبول کی گئی اور دوسرے سے قبول نہ کی گی، (اس دوسرے نے )کہا قسم ہے میں تمہیں قتل کر ڈالوں گا،(پہلے نے)کہا،(تو بلا وجہ ناراض ہوتا ہے)اللہ صرف پرہیز گاروں سے قبول فرماتا ہے}،

واضح رہے کہ اسلام کا تصور قربانی سب سے عمدہ، اعلی اور پاکیزہ ہے، اس کے نزدیک قربانی کا مقصد عیش و طرب، خواہشات نفسانی کی تکمیل اور محض جانور کا خون بہانانہیں، بلکہ اسلام نے اپنے متعلقین اور منسلکین کو قربانی کی صورت میں رضائے الہی کے حصول کا بہترین ذریعہ اور نفیس طریقہ سکھایا ہے، قربانی کا مقصد اللہ کو منانا، سنت نبوی صلی اللہ علیہ و سلم کو اپنانا اور طریقہ ابراہیمی کو بجا لانا اور شیطانی قوتوں کو خائب و خاسر بنانا ہے۔قربانی کے لئے حکم الہی ہے کہ{ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کی تاکہ وہ ان جانوروں کو اللہ کا نام لیکر ذبح کریں جو انہیں عنایت ہوئے ہیں،} ایک اور جگہ فرمایا{اللہ کو ان جاوروں کے گوشت اور خون نہیں پہنچتے البتہ تمہاری جانب سے تقوی پہنچتا ہے،} اس آیت مبارکہ میں تقوی کا ذکر کر کے ارشاد فرمایا کہ قربانی کے بارے میں تمہارا خلوص اور تقوی دیکھا جائے گا، دل میں تقوی کا رنگ جتنا زیادہ ہوگا بارگاہ ربوبیت میں قربانی کا شرف اتنا ہی زیادہ نصیب ہوگا، لہذا خلوص اور تقوی کے متعلق ہر ممکن کوشش کرو،

اسلام میں حرمت والے چار مہینے بیان کئے گئے ہیں، ان میں ایک ماہ ذی الحجہ بھی ہے،بے شک اس ماہ مبارکہ میں عبادت اور ذکر و اذکار کرنے والوں کے لئے رب کائنات کی جانب سے اپنے بندوں کے لئے اجروثواب کے دروازے کھول دئیے جاتے ہیں، اور اس بابرکت مہینہ میں اللہ اپنے نیک بندوں کو خصوصی انعامات سے نوازتا ہے بالخصوص اس ماہ مبارکہ کا پہلا عشرہ کی فضیلت اس قدر اہمیت کی حامل ہے کہ ان ایام کو اللہ نے قرآن مجید میں “ایام معلومات” کہہ کر مخاطب کیا،نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کا ارشاد ہے کہ { اس شخص کے لئے ہلاکت ہے جو ان دس دنوں کی بھلائی سے محروم رہا، اور نویں ذی الحجہ کے روزے کا خیال رکھو اس میں اس قدر بھلائیاں ہیں جن کا شمار نہیں}ایک اور روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا{ جس وقت ذی الحجہ داخل ہوجائے اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا رادہ رکھتا ہو تو اسے چاہئے کہ بال اور جسم سے کسی چیز کو نہ چھوئے}، یعنی بال نہ کتروائے اور نہ ناخن کٹوائے،صحابہ کرام نے ایک بار آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھا کہ یہ قربانی کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا، یہ تمہارے باپ ابراہیم ؑ کی سنت ہے، اس پر صحابہ نے فرمایا کہ یا رسول اللہ اس قربانی سے ہمیں کیا ثواب ملے گا؟ آپ نے فرمایا کہ ہر بال کے عوض ایک نیکی، صحابہ نے پھر عرض کیا ، یا رسول اللہ اگر مینڈھا ہو تو؟ آپ نے فرمایا تب بھی ہر بال کے عوض ایک نیکی ملے گی۔ اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ایک بار فرمایا کہ جس شخص نے دل کی خوشی کے ساتھ طلب ثواب کے لئے قربانی کی وہ قربانی اس کے لئے دوزخ کی آگ سے آڑ ہوگی۔

بے شک یہ ماہ مبارکہ اس جلیل القدر نبی کی یادگار ہے جن کی زندگی قربانی کی عدیم المثال تصور تھی، یہ جد الانبیاء جناب ابراہیم علیہ السلام ہیں، آپ اندازہ کریں کہ وہ کون سا امتحان ہے جو اللہ نے آپ (ابراہیم) سے نہیں لیا، مگر آپ کی ذات کو کسی بھی میدان میں پائے ثبات کو لغزش نہیں آئی، یہ بھی حقیقت ہے کہ دو چیزیں انسان کو دنیا میں سب سے زیادہ عزیز ہوتی ہیں ، ایک اپنی جان اور دوسری اپنی اولاد، کروڑوں سلام ہوں جناب ابراہیم ؑ پر کہ آپ نے اس وقت بھی ثابت قدمی اور تقوی کا وہ عظیم مظاہرہ کیا جب نمرود کی جلائی ہوئی آگ کے شعلے آسمان سے باتیں کر رہے تھے اور آپ کو اس میں پھینکا جارہا تھا۔

اس کے بعد سب سے بڑا اور کٹھن امتحان شروع ہوا جو اولاد سے متعلق تھا اس میں بھی آپ ثابت قدمی کے ساتھ پورے اترے، اپنی اہلیہ اوردودھ پیتے اسماعیل کو حکم الہی کی تعمیل میں بے آب و گیاہ پہاڑیوں کے درمیاں اکیلا چھوڑ گئے، جناب ہاجرہ نے عرض کی حضور یہ کس جرم کی سزا ہے آپ نے کچھ نہ کہا، کچھ دیر بعد ہاجرہ خود بولیں کیا یہ حکم ربی ہے؟جواب میں ابراہیم ؑ نے اتنا ہی کہا کہ ہاں، اس کے بعد اماں ہاجرہ نے کہا کہ اب مجھے کوئی غم نہیں، اللہ ہمیں ضائع نہیں فرمائے گا۔کچھ دور جاکر جناب خلیل اللہ نے اللہ کے حضور دعا کی (اے میرے رب میں نے اپنی اولاد ایک وادی میں بسائی ہے جس میں کھیتی نہیں ہوتی تیری حرمت والے گھر کے پاس، اس لئے کہ وہ نماز قائم کریں، تو لوگوں کے دل ان کی جانب مائل کردے اور پھل کھانے کو دے تاکہ وہ احسان کریں، آج وہ وادی جناب ابراہیم کی دعائوں کی بدولت حسین اور خوبصورت وادی م میں تبدیل ہوگئی ہے، یہی دعائیں ہیں جنکی بدولت جو فروٹ دنیا کے کسی بھی کونے میں نہیں ملتا وہ مکہ میں موجود ہے۔ اسی طرح اللہ نے آپ کی سب سے پیاری چیز یعنی اولاد کی قربانی طلب کی ، اللہ کے حکم کے مطابق آپ اسماعیل ؑ کو خوب تیار کر کے جنگل لے گئے، شیطان بی بی ہاجرہ کے پاس آیا اور ورغلانے کے کہا کہ ابراہیم اسماعیل کو اللہ کے حکم پر ذبح کرنے گئے ہیں، جواب میں آپ نے فرمایا کہ اگر یہ اللہ کا حکم ہے تو میں کون ہوتی ہوں جو اس میں رکاوٹ بنوں،اللہ کو حکم پر تو میں سو اسماعیل قربان کردوں،اس جواب پر شیطان مایوس لوٹ گیا، ادھر جب باپ بیٹا دونوں راضائے الہی پر راضی ہوگئے اور ابراہیم نے اسماعیل کو جبین کے بل زمین پر لٹا دیا اور چھری بیٹے کے گلے پر رکھ دی، تسلیم و رضا کا یہ منظر آج تک چشم فلک نے نہیں دیکھا ہوگا، تیز چھری اسماعیل کے گلے پر پہنچ کر کند ہوگئی، دو بار ایسا ہی ہوا، تیسری بار چھری کو تیز کر کے پھر گلے پر رکھا تو اسی وقت جبرائیل ؑ ایک میندھا لے اائے اور اسماعیل ؑ کی جگہ اسے رکھ دیا اور چھری چل گئی، آسمان سے آواز آئی، اے ابراہیم بے شک تو نے اپنا خواب سچ کر دکھایااور ہم نیکوں کو یوں ہی جزا دیتے ہیں، جناب ابراہیم کی قربانی اللہ نے منظور فرما لی اور اسے قیامت تک باقی رکھا،اب پر سال اس سنت کو تازہ کیا جاتا ہے،ان مطالب اور مقاصد کی روشنی میں کوئی بھی مسلمان قربانی کی اہمیت اور ضرورت سے انکار نہیں کر سکتا، اور آج کل اغیار اور دشمنان اسلام مسلمانوں کے دلوں سے اسی جذبہ قربانی کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور اس کے لئے ان کے دلوں میں آزادی اور روشن خیالی کا ایسا پودہ لگایا ہے کہ آہستہ آہستہ مسلمان حکم خداوندی اور سنت نبوی سے دور ہوتے جارہے ہیں جو کہ لمحہ فکریہ ہے۔کیا ہم حکم الہی کہ پیروی نہ کر کے کامیاب ہوسکیں گے؟ ذرا سوچئے۔

٭٭٭

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے