قربانی کسی جبر کا نام نہیں نہ ہی یہ زبردستی کا عمل ہے بلکہ رضاکارانہ طور پر ادا کی جانے والی رسم کا نام قربانی ٹھہرا ہے۔اسلام رضاکارانہ قربانی کی ہدایت کرتا ہے اس لئے کہا گیا ہے جو صاحب حیثیت ہے وہی قربانی کرے جس کی حیثیت نہ ہو اس پر قربانی لازم نہیں ۔ ہر مسلمان کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ وہ اللہ کی راہ میں کچھ قربان کردے اس خواہش کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ذوالحجہ کی دس تاریخ کو اجتماعی قربانی کرنے کا حکم دیا ہے تاکہ عالم کو پیغام ربانی پہنچے اور اجتماعی عمل کے فوائد سمیٹے جا سکیں اور عالم کفر پر مسلمانوں کی دھاک بیٹھ جائے ۔

قربانی کو انفرادی اور اجتماعی زندگی میں بڑی اہمیت حاصل ہے۔ قربانی سے مومن روح کی پاکیزگی حاصل کرتا ہے، نفسانی خواہشات اور جبلتوں سے چھٹکارا پاتا ہے۔ اگر ہم اپنے اردگرد کاجائزہ لیں تو ہمیں روزمرہ زندگی میں بھی بہت سی قربانیاں نظر آئیں گی۔ وہ قربانیاں بہت سی صورتوں میں ہوتی ہیں۔ ان قربانیوں سے کوئی خوش ہوتا ہے تو کسی کی زندگی سنور جاتی ہے تو کسی کی زندگی اجڑ جاتی ہے ۔

لیکن اللہ کی راہ میں فدا کاری کی یاد کا نام عید الا ضحٰی ہے ذوالحجہ کی دس تاریخ کو کی جانے والی یہ قربانی ان سب سے الگ اور خاص ہے۔ یہ قربانی خالصتاً اللہ کے نام پر سچے جذبے، خلوصِ نیت سے ایسے جانور کو ذبح کرنے کا نام ہے جوہر عیب سے پاک ہو۔یہ شرط بھی اس لیے ہے کہیں لوگ اپنے نقص والے جانور نہ ذبح کریں جو کسی اور کام کے نہ ہوں ۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو نہ تو کسی کے گوشت کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی جانور کے خون کی بلکہ اللہ تعالیٰ انسان کے دل اور تقویٰ کو دیکھتا ہے اور اس پر انہیں اجر عطا کرتا ہے۔ اچھی سے اچھی قربانی کا مقصد بھی یہی ہے، دیکھا جائے کون اللہ تعالیٰ کے لئے کتنے خلوص دل سے قربانی کا فریضہ سر انجام دیتاہے۔اس فریضے کی انجام دہی کے لئے اچھے جانور کو اللہ کے حضور پیش کرنا سعادت ہے۔ اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ دیگر مذاہب میں اسلام کے بارے میں منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں کو موقع بھی نہیں ملتا کہ مسلمان اپنے خدا کے حضور یہ کس قسم کے جانور ذبح کر رہے ہیں۔اسی لئے قربانی میں ذبح ہونے والے جانور سے متعلق اسلام نے کچھ اصول متعین کیے ہیں۔ قربانی کے جانور کی عمر کی حد بھی مقرر کی گئی اور ساتھ یہ بھی تاکید کی گئی کہ چھری کو تیز کر کے وہ شحص ذبح کرے جو اچھی طرح ذبح کرنا جانتا ہو اور ذبح کرنے کے بعد جب تک جانور ٹھنڈا نہ ہو جائے، مطلب اس کے تمام اعضاء سے روح نہ نکل جائے اس وقت تک ہاتھ پائوں نہ کاٹیں اور نہ چمڑا اتاریں۔

اسلام ایک ایسا آفاقی دین ہے جس میں ہر چیز کے انفرادی اور اجتمائی فوائد موجود ہیں چاہیے وہ اسلام کے ارکان ہوں، سنتِ رسول ہوں، حقوق العباد ہوں یا حقوق اللہ ہوں۔قربانی بھی اسی طرح اپنے اندر کئی فوائد لئے ہوئے ہے۔

عیدالا ضحی پرسیدنا ابرہیم علیہ السلام کی بے مثال فدا کاری کی پیروی میں قربانی کی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کو سیدن ابرہیم علیہ السلام ؑ کا قربانی والا عمل اتنا پسند آیا کہ اس کو تا قیامت آنے والی اقوام کے لئے امر کر دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی امت کے لیے باقی رکھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کو حکم ہوا: فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ اپنے رب کے لیے نماز پڑھو اور قربانی کرو۔‘‘ (سورۃالکوثر،آیت: 2)

اگر دیکھا جائے تو سنت ابراہیمی ؑکی اس پیروی کا مطلب محض جانور قربان کرنا نہیں بلکہ اس کے بھی بہت سے فوائد ہیں۔ سب سے بڑا فائدا تو یہ ہے کہ اس دن وہ غرباء اور مساکین جن کو سارا سال گوشت میسر نہیں آتا وہ اس سے استفادہ کرتے ہیں۔ قربانی کے گوشت سے ایک حصہ خاص طور پر ان کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بڑے بڑے رفاہی اداروں کو سالانہ فنڈز مل جاتے ہیں اور قربانی سے انسان کے اندر جذبہ جہاد پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مویشی پالنے والوں کو سالانہ کمانے کا موقع بھی مل جاتا ہے۔کئی لاکھ لوگوں کو روزگار مل جاتا ہے ۔ چارہ کاشت کرنے والوں کا چارہ فروخت ہوجاتاہے ۔مویشی منڈیاں سجائی جاتی ہیں جس میں لاکھوں لوگ کئی دن تک بر سر روزگار ہوتے ہیں ۔ ریاست کو ٹیکس کی صورت میں کئی کروڑ روپے مل جاتے ہیں ۔ ٹرانسپورٹرز اچھا خاصا کما لیتے ہیں۔ قصاب لوگوں کو روزگار مل جاتا ہے۔ چمڑے کی صنعت کو سالانہ اچھا خاصا ذخیرہ مل جاتا ہے۔ جس سے سال بھر استفادہ کرتے ہیں۔اگران سب کاموں میں دکھاوا اور ریا                     کاری نہ ہو تو یہ سب اسی قربانی سے وابستہ کام ہیں اور ان کا اجر اللہ کے ہاں مسلم ہے۔

اسلام کے علاوہ کچھ دیگر مذاہب میں بھی قربانی کا تصور موجود ہے جبکہ کچھ مذاہب اسکی تردید کرتے ہیں جیسا کہ ’’ بدھ مت اور جین مت‘‘ ان کے ہاں جانوروں کو اذیت دینا سخت منع ہے اس لیے وہ کسی جانور کا گوشت تک نہیں کھاتے جبکہ ’’جین مت‘‘ کے پیرو کار منہ پر کپڑا وغیرہ باندھ کہ رکھتے ہیں کہ منہ میں غلطی سے بھی کوئی مچھر اور مکھی (جو کہ ایک مشکل ہی بات ہے) اچانک بھی نہ جائے اسی طرح ’’سکھ مت‘‘ میں بھی قربانیوں کا کوئی ثبوت نہیں ملتا اس مذہب میں ہولا کے تہوار میں بھیڑ کی قربانی کی جاتی ہے۔ یہ قربانی جھچے دار ایک ہی جھٹکے میں کرتا ہے۔ قربانی کا خون اکھٹا کر کے نہنگ گروہ کے سردار کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اس طرح سکھ برادری اپنے مذہب کے لیے قربانی کے جذبے کا اظہار کرتی ہے۔

اگر بات ’’یہودیت‘‘ کی کی جائے تو عید فصیح یہودیوں کا اہم تہوار ہے جو سات دن تک منایا جاتا ہے اس موقع پر ایک سالہ بھیڑ کے بچے کی قربانی دی جاتی ہے اور اس کا بھنا ہوا گوشت سب تبرک کے طور پر کھاتے ہیں۔ غیر یہودی کو اس میں شامل نہیں کیا جاتا۔ عید فصیح کے بعد پچاسویں دن یومَ خمس منایا جاتا ہے اس میں سات بھیڑیں یا بیل اور دو دنبے ذبح کئے جاتے ہیں اور غریب غرباء کو دعوت دی جاتی ہے۔

اس کے علاوہ دنیا کے کئی مذاہب میں دیوی، دیوتائوں کی خوشی اور رضا مندی کی خاطر بھی قربانیاں دی جاتی ہیں۔ ہندو مت میں سب سے زیادہ بلی دینے کا رحجان پایا جاتا ہے بعض لوگ دیوتائوں کی نوحہ اور منتوں کی تکمیل کے لیے بھی اولاد یا انسانی جانوں کی قربانی دیتے ہیں۔ عموماً انسانی جانوں کی بلی کو منظرِ عام پر نہیں لایا جاتا۔ یہ پوشیدہ قربانیاں ہوتی ہیں جو کہ خصوصی مقاصد کے لیے دی جاتی ہیں۔

اسلام سے پہلے بھی عرب کے لوگوں میں قربانیوں کا رواج تھا یہ قربانی سنتِ ابراہیمی کے مطابق جانوروں یعنی اونٹ، بھیڑ، بکریوں وغیرہ کی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ عرب میں خصوصی منتیں مان کر بھی اپنی اولاد کو قربان کرنے کا رواج تھا جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے والد گرامی عبداللہ کی قربانی کا واقعہ ہے۔ ’’ جب جنابِ عبدالمطلب زمزم کا کنواں جو گمنام ہو چکا تھا اسے الہام الٰہی سے نشاندہی ملنے کے بعد کھودنے لگے تو انہیں دشواری ہوئی تو انہوں نے منت مانی کہ اگر میرے دس بیٹے ہوں تو میں ان میں سے ایک کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں قربان کر دوں گا۔ ان کے بیٹے ہوئے تو انہوں نے قرعہ اندازی کی جس میں عبداللہ کا نام نکلا جو کہ ان کے چہیتے بیٹے تھے۔

جنابِ عبدالمطلب انہیں قربان گاہ کی طرف لے گئے تو ان کے بھائیوں اور قبیلے کے دوسرے لوگوں کے اصرار پر عبداللہ اور دس اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا مگر نام عبداللہ کا ہی نکلا پھر اونٹوں کی تعداد بڑھائی گئی مگر ہر بار قرعہ میں نام عبداللہ کا ہی نکلتا آخر کار سو اونٹوں پر قرعہ ڈالا گیا تو اونٹ پر قرعہ نکلا اس کے بعد عبداللہ کی جگہ سو اونٹوں کی قربانی کی گئی۔‘‘ (طبقات ابن سعد، سیرت ابن ہشام جلد اول)

اس کے علاوہ قربانی کی ایک قسم ’’انصاب‘‘ تھی جس کا ذکر ’’سورہ مائدہ‘‘ میں ہوا ہے ’’عرب کے لوگ کوئی ایک نشانی بنا لیتے تھے کوئی لکڑی وغیرہ زمین میں دبا کے اس کے قریب جانوروں کی قربانی کرتے تھے‘‘ یہ قربانیاں بھی بتوں کی خوشنودی کے لیے کی جاتی تھیں۔ دین ابراہیمی ؑپر ہونے کا دعویٰ کرنے والے بھی اصل قربانی کے طریقے سے منحرف تھے وہ لوگ قربانی کرنے کے بعد قربانی کا گوشت خانہ کعبہ کی دیواروں پر ملتے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی آمد کے بعد سورہ براۃ میں اللہ تعالیٰ نے حج اور قربانی کے تمام سابقہ طریقوں کو منسوخ کیا۔ ان کی تصحیح کر کے لوگوں کو سیدھی راہ دکھائی۔

قربانی ایک عظیم عبادت ہے ، جو تمام ادیان میں کسی نہ کسی صورت میں پائی جاتی ہے تاہم اسلام نے جس مقصد کے لئے قربانی کے اس عظیم فریضہ کو ہمارے لئے باقی رکھا ہے اگر اس مقصد اور طریقہ کار کے مطابق قربانی نہ کی گئی تو شاید دیگر ادیان کی طرح ہماری یہ قربانی بھی قابل قبول نہیں ہوگی۔ ہمیں قربانی کرتے وقت سنت ابراہیمی ؑ کو ادا کرتے ہوئے اسلامی طور طریقوں کو ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا، تب کہیں جا کر ہم اس قربانی کی حقیقت کو پاسکیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے