زبان اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے اور قیا مت کے دن اس کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ تم نے اپنی زبان سے کن کن لوگوں کی چغلی کی اور کن کن لوگوں پر بہتان لگایا کس کا اس زبان سے مذاق اڑایا ، کس کو لعن طعن کیا؟ زبان کا کیسا استعمال کیا؟ جب ہم اپنے رب کے سامنے کھڑے ہوں گےتو اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ کہ اللہ ہم نے اپنی زبان کو کیسے استعمال کیایہی وقت ہے ہمیں اپنا محاسبہ کرنا چاہیے زبان کے حوالے سےتاکہ قیامت کے دن یہ زبان ہمارے لیے جنت میں جانے کاسبب بنے نہ کے ہمیں جہنم کی گہرائیوں میں جا پھینکے ۔

کیونکہ ہماری ہر بات لکھی جارہی ہے، محفوظ کی جارہی ہے اور اس کی رپورٹ تیار ہو رہی ہے جوکہ کل قیامت کے دن ساری انسانیت کی مو جودگی میں اللہ رب ذوالجلال کی بارگاہ میں پیش کی جائے گی۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ اپنے کلام پاک میـںارشاد فرماتا ہے:

’’وَلَا تَــقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهٖ عِلْمٌ ۭ اِنَّ السَّمْعَ وَالْبَصَرَ وَالْفُؤَادَ كُلُّ اُولٰۗىِٕكَ كَانَ عَنْهُ مَسْــــُٔــوْلًا‘‘

’’اور ایسی بات کے پیچھے نہ پڑا کرو جس کا تمہیں علم نہ ہو، کہ بلاشبہ کان، آنکھ اور دل، سب ہی کے بارے میں باز پرس ہوگی‘‘(سورہ بنی اسرائیل ،آیت: 36)

اور مزید فرمایا:

’’مَا يَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَـدَيْهِ رَقِيْبٌ عَتِيْدٌ‘‘

’’وہ منہ سے کوئی بات بھی نکالنے نہیں پاتا مگر اس کے پاس ایک حاضر باش نگران موجود رہتا ہے ‘‘(سورہ ق،آیت:18)

امام ابو ذکریا محی الدین بن شرف النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’معلوم ہونا چاہیے کہ ہر مکلف انسان کے لیے مناسب ہے کہ وہ اپنی زبان سے کی جانے والی ہر قسم کی گفتگو سے حفاظت کرے، صرف وہ گفتگو کرے جس میں مصلحت واضح ہو اور جہاںمصلحت کے اعتبار سے بولنااور خاموش رہنادونوں برابر ہوں تو وہاںخاموش رہنا سنت ہے، اس لیے بعض دفہ جائز گفتگو بھی ناجائز یا حرام تک پہنچا دیتی ہےاور ایسا عام طور پر ہوتا ہے اور پرہیز کے برابر کوئی چیز نہیں‘‘

سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’جو مجھے اپنے دو جبڑوں کے درمیان چیز (زبان) کی اور دو ٹانگوں کے درمیان چیز (شرم گاہ) کی حفاظت کی ضمانت دے دے تو میں اس کے لیے جنت کی ضمانت دیتاہوں‘‘

(صحیح البخاری، کتاب الرقاق،باب حفظ اللسان حدیث:6474)

ابو عبد الرحمٰن بلال بن حارث مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  نے فرمایا: ’’آدمی اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی بات کرتاہے ، اس کو گمان بھی نہیں ہوتا کہ کہاںتک پہنچے گی اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے قیامت کے دن تک اپنی رضامندی لکھ دیتا ہے اور آدمی (بعض اوقات) اللہ کی ناراضگی کا ایسا کلمہ بول لیتاہے اسے گمان بھی نہیں ہوتاکہ کہاں تک پہنچے گااللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے اس کے لیے اپنی ملاقات کے دن تک اپنی ناراضگی لکھ لیتاہے‘‘

(موطاء امام مالک ، کتاب الکلام، صححہ، زبیر علی زئی)

عقبۃ ابنِ عامر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میںنے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! نجات کس طرح ممکن ہے ؟ نبیٗ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’اپنی زبان کو قابومیں رکھو، تمہارا گھر تمہیںاپنے اندر سمالے (بغیر ضرورت کے گھر سے نہ نکلو) اور اپنی غلطیوں پر خوب آنسو بہاؤ‘‘ (جامع ترمذی)

سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم  سے عرض کیا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ! مجھے ایسا عمل بتائیے جو مجھے جنت میں لے جائے اور مجھے جہنم سے دور کردے ، نبیٗ کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’تو نے بہت بڑی بات کا سوال کیا ہے لیکن یہ اس کے لیے آسان ہےجس پر اللہ تعالیٰ اس کو آسان فرمادے(عمل کی توفیق دے دے) تو اللہ کی عبادت کر، اس کے ساتھ کسی کو شریک مت ٹھہرا، نماز قائم کر ، ذکوٰۃ دے ، رمضان کے روزے رکھ اوربیت اللہ کاحج کر اس کی طرف راستے کی طاقت رکھے‘‘ پھر فرمایا: ’’کیا میں تجھے بھلائی کے راستے نہ دبتلاؤں؟ روزہ ڈھال ہے ، صدقہ گناہ کو ایسے مٹادیتا ہے، جیسے پانی آگ کو بجھا دیتا ہے، آدمی کا رات کے پچھلے پہر میں نماز پڑھنا‘‘ پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی:

’’تَتَجَافَا جُنُوبُھُم عَن المَضَاجِعِ‘‘

’’ان کے پہلو بستروں سے دور رہتے ہیں‘‘

یہاں تک کہ ’’یَعمَلُون‘‘ تک پہنچ گئے، پھر فرمایا:’’کیا میں تمہیں دین کی اصل اس کا ستون ، اور اس کی کوہان اس کی بلندی نہ بتلاؤں؟‘‘ میںنے کہا ، کیوں نہیں، اےاللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم ؟نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’کیا میں تجھے ایسی بات نہ بتلاؤں؟ جس پر ان سب کادارومدار ہے ‘‘ میں نے کہا کیوں نہیں؟ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم پھر نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے اپنی زبان پکڑی اور فرمایا: ’’اس کو روک رکھ‘‘ میں نے عرض کیا، کیا ہم جس بقیہ: زبان کی حفاظت

زبان سے جو گفتگو کرتے ہیں، اس پر بھی ہماری پکڑ ہوگی؟ نبی صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : ’’تیری ماںتجھے گُم پائے(یہ عربی محاورہ ہے کوئی بد دعا ‏نہیں) جہنم میں لوگوں کو ان کی زبانوں کی کاٹی ہوئی کھیتیاں ہی اوندھے منہ گرائیںگیں‘‘(جامع ترمذی، کتاب الایمان، باب ماجاء فی ‏حرمۃالصلاۃ، حدیث:2661)‏

اس حدیث کے ایک ایک لفظ پر غور کیا جائےتو معلوم ہوتا ہے کہ نبیٗ اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نےتقویٰ کی بنیاد ہی زبان پر رکھی ہے یعنی تقویٰ اختیار ‏کر نے کے لیے زبان کو اپنے قابو میں رکھنا تقویٰ کی بنیاد ہےاور جب تک بنیاد مظبوط نہ ہو تو کوئی عمارت زیادہ دیر اپنی جگہ نہیں رہ سکتی۔

ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’ہر مسلمان کاخون ، اس کی آبرو اور اس کا مال ہر دوسرے ‏مسلمان پر حرام ہے۔‘‘‏

‏(مسلم،البر والصلۃ:حدیث2564)‏

ایک مومن و مسلمان اپنی زبان کا غلط استعمال کرنا تو دور کی بات ہے ایسی مجلس میں بیٹھنا بھی گوارا نہیں کرتاجہاں زبان سے مسلمانوں کی غیبتیں کی جارہی ‏ہوںیا زبان کا کسی بھی طریقے سے غلط استعمال کیا جارہا ہو ، مومنوں کی یہ صفت اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں بیان فرمائی ہے ، فرمانِ باری ہے: ’’

وَالَّذِيْنَ ‏هُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ‘‘‏

‏’’جو دور و نفور رہتے ہیں لغو اور بےکار باتوں سے‘‘‏

آخر میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتاہوں میری اس کاوش کو امت کے لیے ہدایت کا ذریعہ بنائے اور ہم سب کو زبان کے غلط استعمال سے پرہیز کرنے کی توفیق ‏عطا فرمائے۔ ‏

آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے