بھی عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے، ایک ولولہ ایک جذبہ جسے ہم قربانی کا نام دیتے ہیںاس کا موسم بھی آیا چاہتا ہے، مسلمانی ایک بار پھر گلیوں، محلوں میں نظر آتی ہے،لوگ سنتِ ابراہیمی پر عمل پیرا ہونے کی تیاری بہت پہلے سے کرنے لگ جاتے ہیں، ذوالحجہ کے پہلے روز سے عشرہ ذوالحجہ کے فضائل و مسائل سے آشنا بہت سے مسلمان روزے، عبادات،ذکر و اذکار کے ساتھ ساتھ تکبیرات کا ورد کرتے ہیں۔ ہر مسلمان اپنی اپنی استطاعت کے مطابق قربانی کا انتظام کرتاہے۔ایثار و محبت کے عملی نمونے بھی نظر آتے ہیں، لوگ قربانی کے گوشت عزیز و اوقارب، غرباء و مساکین میں تقسیم کرکے اسلامی اخوت و بھائی چارگی کا ثبوت بھی دیتے ہیں۔ پھر عید کے بعد جذبات آہستہ آہستہ مدھم ہوجاتے ہیں، لوگ بھائی چارگی، جذبہ ایثار، قربانی کا فلسفہ آہستہ آہستہ بھول جاتے ہیں۔ اور واپس اسی روش پر آجاتے ہیں جس پر سال کے بقیہ مہینے قائم تھے، حالانکہ یہ اسلامی تہوار، خاص مہینے، خاص ایام انسان کی پوری زندگی کی تربیت کے لئے ہوتے ہیں کہ سال میں ایک بار قربانی کرکے سال کے بقیہ مہینوں میں بھی جذبہ ایثار و قربانی قائم رکھا جائے۔ سنت ابراہیمی کو ادا کرتے وقت ابراہیم و اسماعیل علیہما السلام کی سیرت کو ملحوظ خاطر رکھتے ہیں، تو سال کے بقیہ ایام میں بھی ان کی سیرت کو مشعلِ راہ بنایا جائے ، نہ کہ کچھ دنوں کے لئے ان کا نام زور و شور، ہر محلے کی مسجد میں لیا جاتا ہے مگر سال کے بقیہ ایام میں نہ تو ان کی سنت پر روشنی ڈالی جاتی ہے، نہ ہی قربانی کرنے والے ان کی سنت و سیرت پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کرتے ہیں۔ جیسے قربانی کےو قت چھری پھیری تھی، ویسے ہی سال بھر کے لئے اپنی خواہشاتِ نفسانی کو قربان کرنے کی ضرورت ہے۔ الغرض ہم اسلامی تہواروں کو محض رسم کے طور پر ادا کرتے ہیں۔ پھر ذہن میں یہی بات آتی ہے کہ شایدعید و عشرہ ذوالحجہ کے دوران جو تکبیریں بلند ہورہی تھی، اب وہ سسک رہی ہونگی !!

آج سے کم و بیش دو ماہ پہلے ایک ’’ عید ‘‘ نامی خوشی مسلمانوں میں آئی تھی،اس سے پہلےروز وشب عبادت و ریاضت، اطاعت و بندگی، تسبیح و تہلیل، حمد و ثناء، درودو سلام ، سحر و افطار اور تراویح ، صدقات و خیرات سمیت بہت سی نیکیوں میں مسلمانوں مشغول ہوتے نظر آئے۔ مساجد ایک دم سے بھر گئیں، جگہ کم پڑنے کی وجہ سے پنج وقتہ نمازوں کے لئے روڈ بلاک کرکے نماز ادا کرنے لگ گئے، ہر طرف گہما گہمی اور مساجد کی جانب ایک ولولہ اور غیر معمولی جوش و خروش دیکھنے میں آیا۔ یقینا مساجد ، وضوخانے، قرآن مجید کے نسخے خوش ہوئے ہونگے کہ مسلمان شاید اپنے رب کی جانب پلٹ آئے ہیں، لیکن ان سب کی یہ خوشیاں ’’عید‘‘ کی خوشی کے بعد مانند پڑ گئیں کیونکہ جو جومساجد عید الفطر سے قبل ایک ماہ تک نمازِ فجر ہو یا ظہر، عصر ہو یا عین افطاری کے وقت کی نماز یعنی مغرب ہو، عشا ہو یا رات کی نمازیں (قیام اللیل ) نمازیوں سے بھر جاتی تھیں، ’’عید ‘‘ کی خوشی آنے کے بعد مسلمانوں نے ان مساجد کو ’’اجنبی مقام‘‘ سمجھ کر کبھی کبھار، یا جمعہ کے روزحتیٰ کہ بعض نے بالکل ہی رخ موڑ لیا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ اس عید کے جاتے وقت تکبیروں کی آوزیں بھی آرہی تھیں، اور ایک دوسرے کو مبارک ماہ کی عبادات کی قبولیت کی دعائیں بھی دی جارہی تھیں۔ رفتہ رفتہ لوگ یہ بھی بھول گئے تھے کہ وہ اس ’’عید ‘‘سے قبل اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مگن تھے، وہ رب تواب بھی ان کا رب ہے، وہ ذات اس عید سے پہلے بھی لائقِ عبادت تھی، آج بھی ہے اور ہمیشہ لائقِ عبادت ہی رہے گی۔ قرآن پاک سے رشتہ اس عید سے پہلے قائم کرلیا تھا تو اس سے ناطہ توڑنے کی نوبت کیسے آئی؟ مساجد اگر آباد کرنا کسی غیر مسلم کا کام ہوتا اور وہ نہ کرتا تو شاید مسلمانوںکا بچہ بچہ فتویٰ دیتا کہ یہ گستاخ ہے،اور شاید ان سے جہاد کی ایک وجہ یہ بھی ہوتی کہ انہوں نے مساجد کو ویران کررکھا ہے۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔ لیکن افسوس !اسے آباد کرنے کی ذمہ داری مسلمانوں کی ہے۔ اور پورے سال میں شاید ایک مہینہ ایسا ہوتا ہے جس میں یہ مساجد آباد ہوتی ہیں، عموماً بھر جاتی ہیں ورنہ بقولِ اقبال !

مسجدیں مرثیہ خواں ہیں کہ نمازی نہ رہے

لیکن اس مرثیہ پر کوئی کان دھرنے کو تیار نہیں۔ سوائے ان چند خوش نصیبوں کے جن کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی عبادت پورے سال، سب مہینوں میں، سب ایام میں اور جو جو وقت مقرر ہیں ان میں لازمی ادا کرنی ہے، اور حقیقت میں یہی حقیقی مسلمان کہلانے کے لائق ہیں، کیونکہ ان کے دل میں خشیتِ الہٰی رچی بسی ہے، ان کے نزدیک عبادت، ریاضت ہی انسان کی تخلیق کا سبب ہے لہٰذا وہ عید سے پہلےبھی عبادتِ الہی بجا لاتے تھے، عید کے بعد بھی بجالاتے ہیں، کوئی بھی موسم آئے اور نماز کی حفاظت کرتے ہیں، مساجد کو آباد کرتے ہیں، قرآن کریم سے اپنا تعلق مضبوط رکھتے ہیں، غریب و مساکین کا خیال رکھتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے حقیقی مسلمانوں کی صفات قرآن کریم میں یوں بیان فرمایا ہے:(ترجمہ)اور جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں ۔(المومنون:9)

یعنی رمضان ہو یا شعبان، ذوالحجہ ہو یا محرم وہ ہر وقت اپنی نمازوں پر مداومت اختیار کرتے ہیں۔

’’عید ‘‘کیا ہے؟ امام ابن تیمیہ ؒ لکھتے ہیں کہ ’’ عید اللہ کی جانب سے نازل کر دہ عبادات میں سے ایک عبادت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان ’’ان لکل قوم عیدا ون عید نا ھذا ‘‘ ہر قوم کے لئے عید ہوتی ہ اور یہ ہماری عید ہے ( صحیح بخاری)

عید ان کی نہیں جنہوں نے عمدہ لباس سے خود کو آراستہ کیا بلکہ عید تو اس کی ہے ۔ جو اللہ کی پکڑ اور وعید سے ڈر گئے عید اس کی نہیں جنہوں نے آج بہت سی خوشیوں کا استعمال کیا عید تو اس کی ہے جنہوں نے گناہوں پر تو بہ کی اور اس پر قائم رہے۔ عید اس کی نہیں جنہوں نے دیگیں چڑھائیں اور بہت سے ‏کھانے پکائے بلکہ ‏عید اس کی ہے جنہوں نے نیک بننے کی کوشش کی اور استطاعت کے مطابق سعادت حاصل کی عید س کی نہیں جو دنیا کی ‏زیب و زینت کے ساتھ نکلے عید ‏اس کی ہے جنہوں نے تقویٰ اور پر ہیز گاری کا گوشہ بنایا۔ عید اس کی نہیں جنہوں نے عمدہ سواریوں پر ‏سواری کی عید اس کی ہے جنہوں نے گناہوں کو چھوڑ ‏دیا۔ عید اس کی نہیں جنہوںنے گناہوں کو چھوڑ دیا ، عید اس کی نہیں جنہوں نے اعلیٰ ‏درجہ کے فرش سے اپنے گھر کو آراستہ کیا ، عید اس کی ہے جو پل صراط ‏سے گزر گئے۔

سوال کریں خود سے اس ایک ماہ کی آسمانی تربیت سے ہم نے کیا سیکھا۔ روزوں کے علاوہ ایک اور عادت فجر سے پہلے اٹھنے کی اور فجر کا قرآن ‏یہ صرف ‏رمضان کے ساتھ مخصوص نہیں ، عشرہ ذوالحجہ میں ہم ایک بار پھر اپنا تعلق اللہ سے مضبوط کرنے کی تگ و دو کرتے ہیں، 10 ذی ‏الحجہ کو قربانی کرتے ہیں کیا ‏اس قربانی سے ہم نے کیا درس حاصل کیا؟

یقینا یہ اسلامی تہوار نہ صرف تہوار ہیں بلکہ عبادات ہیں ان کا مقصد سال کے بقیہ ایام کے لئے مسلمان کی تربیت ہے جس میں نہ صرف وہ ‏پنج وقتہ نماز کی ‏پابندی کرے بلکہ صدقات، خیرات کے ساتھ ساتھ رات کی نفلی نمازوں کا بھی اہتمام کرے اورسنت ابراہیمی پر عمل کرنے ‏کے بعد جذبہ ایثار و قربانی کو ‏بھول نہ جائے بلکہ پوری زندگی اپنی خواہشات نفسانی کو قربان کرنے کےساتھ ساتھ باہمی اخوت کو فروغ دیتا ‏رہے۔

ایسا نہ ہو کہ جس طرح رمضان المبارک کی عید کے بعد تکبیریں سسکتی رہ گئی تھیں، مسجدیں ویران ہوگئی تھیں،اس عید کی تکبیرات بھی ‏سسکتی رہ جائیں۔‏

‏ آگے بڑھئے! اسلامی تعلیمات کو پوری زندگی کے لئے اپنائیے!!!   —-‏

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے