ادلہ شرعیہ اور مصادرشریعت کے تذکرے میں قرآن کریم کے بعد حدیث رسول کا نمبر آتا ہے یعنی قرآن کریم کے بعد شریعت اسلامیہ کا یہ دوسرا ماخذ ہے۔ حدیث کا اطلاق رسول اللہﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات پر ہوتا ہے۔ تقریر سے مراد ایسے امور ہیں جو نبی کریمﷺ کی موجودگی میں کیے گئے لیکن آپ نے اس پر کوئی نکیر نہیں فرمائی بلکہ خاموش رہ کر اس پر اپنی پسندیدگی کا اظہار فرما دیا۔ ان تینوں قسم کے علوم نبوت کے لیے بالعموم چار الفاظ استعمال کیے گئے ہیں:
1  خبر     2  اثر      3حدیث       4  سنت

خبر

ویسے تو ہر واقعے کی اطلاع اور حکایت کو کہا جاتا ہے مگر رسول اللہﷺ کے ارشادات کے لیے بھی ائمہ کرام اور محدثین عظام نے اس کا استعمال کیا ہے اور اس وقت یہ لفظ حدیث کے مترادف اور اخبار الرسول کے ہم معنی ہوگا۔
اثر
کسی چیز کے بقیہ اور نشان کو کہتے ہیں اور نقل کو بھی اثر کہا جاتا ہے۔ اسی لیے صحابہ و تابعین سے منقول مسائل کو آثار کہا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب آثار کا لفظ مطلقاً بولا جائے گا تو اس سے مراد آثار صحابہ ہی ہوں گے۔ لیکن جب اس کی اضافت، الرسول، کی طرف ہو گی یعنی ’’آثار الرسول‘‘ کہا جائے گا تو اخبار الرسول کی طرح آثار الرسول بھی احادیث الرسول ہی کے ہم معنی ہوگا۔
حدیث
اس کے معنی گفتگو کے ہیں اور اس سے مراد وہ گفتگو اور ارشادات ہیں جو رسول اللہﷺ کی زبان مبارک سے نکلے۔

سنت:

عادت اور طریقے کو کہتے ہیں اور اس سے مراد عادات و اطوار رسولﷺ ہیں اس لیے جب سنت نبوی یا سنت رسول کہیں گے تو اس سے مراد نبیﷺ ہی کی عادات و اطوار ہوںگے۔
اول الذکر دو لفظوں (خبر اور اثر) کے مقابلے میں ثانی الذکر الفاظ (حدیث اور سنت) کا استعمال علوم نبوت کے لیے عام ہے اور اس میں اتنا خصوص پیدا ہو گیا ہے کہ جب بھی حدیث یا سنت کا لفظ بولا جاتا ہے تو اس سے مراد نبیﷺ کے اقوال و افعال اور تقریرات ہی مراد ہوتے ہیں۔ اس مفہوم کے علاوہ کسی اور طرف ذہن منتقل ہی نہیں ہوتا۔ اگرچہ بعض لوگوں نے حدیث اور سنت کے مفہوم میں بھی فرق کیا ہے کہ سنت سے مراد رسول اللہﷺ کے اعمال و عادات ہیں اور حدیث سے مراد اقوال۔ اور بعض لوگوں نے اس سے بھی تجاوز کر کے یہ کہا کہ آپ کے اعمال و عادات عرب کے ماحول کی پیداوار تھیں اس لیے ان کی اتباع ضروری نہیں، صرف آپ کے اقوال قابل اتباع ہیں۔ اسی طرح بعض لوگوں نے اس کے برعکس یہ کہا کہ آپ کے اقوال پر عمل ضروری نہیں جسے وہ حدیث سے تعبیر کرتے ہیں تاہم آپ کے اعمال مستمرّہ (دائمی اعمال) قابل عمل ہیں اسے وہ سنت کہتے ہیں۔ لیکن یہ سب باتیں صحیح نہیں۔ محدثین نے سنت اور حدیث کے مفہوم کے درمیان کوئی فرق نہیں کیا ہے وہ سنت اور حدیث دونوں کو متراداف اور ہم معنی سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سنت سے صرف عادات و اطوار مراد لے کر ان کی شرعی حجیت سے انکار بھی غلط ہے اور انکار حدیث کا ایک چور دروازہ ہے اور اسی طرح صرف اعمال مستمرہ کو قابل عمل کہنا، احادیث کے ایک بہت بڑے ذخیرے کا انکار ہے اور منکرین حدیث کی نہ انداز دیگر ہم نوائی۔
بہر حال حدیث اور سنت، رسول اللہﷺ کے اقوال، افعال اور تقریرات کو کہا جاتا ہے اور یہ بھی قرآن کریم کی طرح دین کا ماخذ، شریعت کا مصدر اور مستقل بالذات قابل استناد ہے۔ چنانچہ امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

اعْلَمْ أَنَّهُ قَدِ اتَّفَقَ مَنْ يُعْتَدُّ بِهِ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى أَنَّ السُّنَّةَ الْمُطَهَّرَةَ مُسْتَقِلَّةٌ بِتَشْرِيعِ الْأَحْكَامِ وَأَنَّهَا كَالْقُرْآنِ فِي تَحْلِيلِ الْحَلَالِ وَتَحْرِيمِ الْحَرَامِ

معلوم ہونا چاہیے کہ اہل علم کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سنت مطہرہ تشریع احکام میں مستقل حیثیت کی حامل ہے اور کسی چیز کو حلال قرار دینے یا حرام کرنے میں اس کا درجہ قرآن کریم ہی کی طرح ہے۔ (ارشاد الفحول ص 33)
پھر آگے چل کر لکھتے ہیں:

إَنَّ ثُبُوتَ حُجِّيَّةِ السُّنَّةِ الْمُطَهَّرَةِ وَاسْتِقْلَالَهَا بِتَشْرِيعِ الْأَحْكَامِ ضَرُورَةٌ دِينِيَّةٌ وَلَا يُخَالِفُ فِي ذَلِكَ إِلَّا مَنْ لَا حَظَّ لَهُ في دين الإسلام

سنت مطہرہ کی حجیت کا ثبوت اور تشریع احکام میں اس کی مستقل حیثیت ایک اہم دینی ضرورت ہے اور اس کا مخالف وہی شخص ہے جس کا دین اسلام میں کوئی حصہ نہیں۔ (ارشاد الفحول ص 33)
سنت کا مستقل حجت شرعی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ نبیﷺ کی صحیح حدیث سے جو حکم ثابت ہو وہ مسلمان کے لیے قابل اطاعت ہے چاہے اس کی صراحت قرآن میں ہو یا نہ ہو۔ آپ کے صرف وہی فرمودات قابل اطاعت نہیں ہوں گے جن کی صراحت قرآن کریم میں آگئی ہے جیسا کہ گمراہ فرقوں نے کہا ہے اور اس کے لیے ایک حدیث بھی گھڑ لی کہ ’’میری بات کو قرآن پر پیش کرو، جو اس کے موافق ہو اسے قبول کر لو اور جو اس کے مخالف ہو اسے رد کر دو‘‘۔ (امام شوکانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں: فقال يحيى بن معين: إنه موضع وَضَعَتْهُ الزَّنَادِقَةُ (ارشاد الفحول ص 33) امام یحییٰ بن معین کہتے ہیں کہ قرآن پر حدیث کو پیش کرنے والی روایت موضوع ہے جسے بے دینوں نے گھڑا ہے) بلکہ رسول اللہﷺ کے ہر فرمان پر عمل کرنا ضروری ہے بشرطیکہ وہ صحیح سند سے ثابت ہو۔
اس لیے کسی بھی حدیث رسول کو ظاہر قرآن کے خلاف باور کرا کے اسے رد کرنا اہل اسلام کا شیوہ نہیں۔ یہ طریقہ صرف اہل زیع اور اہل اہواء کا ہے جنہوں نے موافقت قرآن کے خوش نما عنوان سے بے شمار احادیث رسول کو ٹھکرا دیا۔ چنانچہ امام ابن عبد البر رحمہ اللہ (المتوفی 463 ہجری) لکھتے ہیں:

وَقَدْ أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِطَاعَتِهِ وَاتِّبَاعِهِ أَمْرًا مُطْلَقًا مُجْمَلًا لَمْ يُقَيَّدْ بِشَيْءٍ وَلَمْ يَقُلْ مَا وَافَقَ كِتَابَ اللَّهِ كَمَا قَالَ بَعْضُ أَهْلِ الزَّيْغِ

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کی اطاعت کا مطلقا حکم فرمایا ہے اور اسے کسی چیز سے مقید (مشروط) نہیں کیا ہے اور اللہ نے یہ بھی نہیں کہا کہ نبیﷺ کی بات تم اس وقت مانو جب وہ اللہ کی کتاب کے موافق ہو جس طرح کہ بعض اہل زیع کہتے ہیں۔ (جامع بیان العلم وفضلہ 2/190)
اور امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

إن قول من قال تعرض السنة على القرآن، فإن وافقت ظاهره وإلا استعملنا ظاهر القرآن وتركنا الحديث، فهذا جهل

یعنی قبولیت حدیث کو موافقت قرآن سے مشروط کرنا جہالت (قرآن و حدیث سے بے خبری) ہے۔ (اختلاف الحدیث برحاشیہ کتاب الام: 7/45، دارالشروق، بیروت)
اور امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

وَالسُّنَّةُ مَعَ الْقُرْآنِ عَلَى ثَلَاثَةِ أَوْجُهٍ؛ أَحَدُهَا: أَنْ تَكُونَ مُوَافِقَةً لَهُ مِنْ كُلِّ وَجْهٍ؛ فَيَكُونُ تَوَارُدُ الْقُرْآنِ وَالسُّنَّةِ عَلَى الْحُكْمِ الْوَاحِدِ مِنْ بَابِ تَوَارُدِ الْأَدِلَّةِ وَتَظَافُرِهَا. الثَّانِي: أَنْ تَكُونَ بَيَانًا لِمَا أُرِيدَ بِالْقُرْآنِ وَتَفْسِيرًا لَهُ. الثَّالِثُ: أَنْ تَكُونَ مُوجِبَةً لِحُكْمٍ سَكَتَ الْقُرْآنُ عَنْ إيجَابِهِ أَوْ مُحَرِّمَةً لِمَا سَكَتَ عَنْ تَحْرِيمِهِ، وَلَا تَخْرُجُ عَنْ هَذِهِ الْأَقْسَامِ، فَلَا تُعَارِضُ الْقُرْآنَ بِوَجْهٍ مَا، فَمَا كَانَ مِنْهَا زَائِدًا عَلَى الْقُرْآنِ فَهُوَ تَشْرِيعٌ مُبْتَدَأٌ مِنْ النَّبِيِّ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ -: تَجِبُ طَاعَتُهُ فِيهِ، وَلَا تَحِلُّ مَعْصِيَتُهُ، وَلَيْسَ هَذَا تَقْدِيمًا لَهَا عَلَى كِتَابِ اللَّهِ، بَلْ امْتِثَالٌ لِمَا أَمَرَ اللَّهُ بِهِ مِنْ طَاعَةِ رَسُولِهِ، وَلَوْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ – صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ – لَا يُطَاعُ فِي هَذَا الْقِسْمِ لَمْ يَكُنْ لِطَاعَتِهِ مَعْنًى، وَسَقَطَتْ طَاعَتُهُ الْمُخْتَصَّةُ بِهِ، وَإِنَّهُ إذَا لَمْ تَجِبْ طَاعَتُهُ إلَّا فِيمَا وَافَقَ الْقُرْآنَ لَا فِيمَا زَادَ عَلَيْهِ لَمْ يَكُنْ لَهُ طَاعَةٌ خَاصَّةٌ تَخْتَصُّ بِهِ، وَقَدْ قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: {مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ}

یعنی حدیثی احکام کی تین صورتیں ہیں:
ایک تو وہ جو من کل الوجوہ قرآن کے موافق ہیں۔
دوسرے وہ جو قرآن کی تفسیر اور بیان کی حیثیت رکھتےہیں۔
تیسرے وہ جن سے کسی چیز کا وجوب یا اس کی حرمت ثابت ہوتی ہے حالانکہ قرآن میں اس کے وجوب یا حرمت کی صراحت نہیں۔
احادیث کی یہ تینوں قسمیں قرآن سے معارض نہیں ہیں۔ حدیثی احکام زائد علی القرآن ہیں وہ نبیﷺ کی تشریعی حیثیت کو واضح کرتے ہیں یعنی ان کی تشریع و تقنین (قانون سازی) آپﷺ کی طرف سے ہوئی ہے جس میں آپ کی اطاعت واجب اور نافرمانی حرام ہے اور اسے تقدیم علی کتاب اللہ بھی نہیں کہا جا سکتا بلکہ یہ اللہ کے اس حکم کی فرماں برداری ہے جس میں اس نے اپنے نبیﷺ کی اطاعت کا حکم دیا ہے۔ اگر اس (تیسری) قسم میں نبی کریمﷺ کی اطاعت نہ کی جائے اور یہ کہا جائے کہ آپ کی اطاعت صرف انہی باتوں میں کی جائے گی جو قرآن کے موافق ہوں گی تو آپ کا حکم بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے اور آپ کی وہ خاص اطاعت ہی ساقط ہو جاتی ہے جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے دیا ہے: مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ
(اعلام الموقعین، ج 2، ص314 بتحقیق عبدالرحمن الوکیل)
حدیث کی اس تیسری قسم (زائد علی القرآن) ہی کی بابت نبی کریمﷺ نے بھی اپنی اس امت کو تنبیہی انداز میں فرمایا تھا:

أَلا إِنِّي أُوتِيتُ القُرآنَ ومِثلَهُ مَعَهُ

خبردار! یاد ررکھنا مجھے قرآن بھی عطا کیا گیا ہے اور اس کی مثل (یعنی سنت) بھی۔ (سنن ابی داؤد، السنۃ، باب لزوم السنۃ، حدیث: 4604 ومسند احمد: 4/131)
اور آپ کا یہی وہ منصب ہے جو قرآن کریم کی اس آیت میں بیان فرمایا گیا ہے:

وَأَنْزَلْنَا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ مَا نُزِّلَ

اے پیغمبر! ہم نے آپ کی طرف قرآن اس لیے اتارا ہے تاکہ آپ لوگوں کو اس کی تشریح و تبیین کر کے بتلائیں۔ (النحل 16:44)
چنانچہ رسول اللہﷺ نے اپنے اس منصب کے مطابق توضیح و تشریح کی اور اس کے اجمالات کی تفصیل بیان فرمائی جیسے نماز کی تعداد اور رکعات، اس کے اوقات اور نماز کی وضع وہیئت، زکاۃ کا نصاب، اس کی شرح، اس کی ادائیگی کا وقت اور دیگر تفصیلات۔
قرآن کریم کے بیان کردہ اجمالات کی یہ تفسیر و توضیح نبوی امت مسلمہ میں حجت سمجھی گئی اور قرآن کریم کی طرح اسے واجب الاطاعت تسلیم کیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ نماز و زکاۃ کی یہ شکلیں عہد نبوی سے آج تک مسلم و متواتر چلی آرہی ہیں۔ اس میں کسی نے اختلاف نہیں کیا۔
قرآن کریم کے اجمال کی تفصیل و تفسیر جس طرح نبی کریمﷺ کا منصب ہے بالکل اسی طرح عمومات قرآن کی تخصیص اور اطلاقات (مطلق) کی تقیید بھی تبیین قرآنی کا ایک حصہ ہے اور قرآن کے عموم و اطلاق کی آپ نے تخصیص و تقیید بھی فرمائی ہے اور اسے بھی امت مسلمہ نے متفقہ طور پر قبول کیا ہے، اسے زائد علی القرآن کہہ کر رد نہیں کیا جا سکتا، جیسا کہ آج کل بعض گمراہ اذہان اس طرح کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ ذیل میں چند مثالیں ایسے عموم قرآنی کی پیش کی جاتی ہیں جن میں رسول اللہﷺ کی حدیث سے تخصیص کی گئی ہے۔
1۔ قرآن کریم میں کہا گیا ہے:

وَالسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ فَاقْطَعُوا أَيْدِيَهُمَا

چور (مرد و عورت) کے ہاتھ کاٹ دو۔ (المائدہ 5:38)
(اَلسَّارِقُ وَالسَّارِقَةُ) (چوری کرنے والا مرد اور چوری کرنے والی عورت) بالکل عام ہے جس کے عموم میں ہر قسم کا چور آ جاتا ہے لیکن اس عموم سے حدیث رسول نے اس چور کو خارج کر دیا جس نے ربع دینار (4/1) سے کم کی چوری کی ہو۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

لَا يُقْطَعُ السَّارِقُ إِلَّا فِي رُبْعِ دِينَارٍ فَصَاعِدًا

چور کے ہاتھ نہیں کاٹے جائیں گے جب تک وہ ربع دینار، یعنی ایک چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی چوری نہ کرے۔ (سنن النسائی، قطع السارق، باب ذکر اختلاف ابی بکر بن محمد و عبداللہ۔۔۔ ، حدیث: 4932)
اس حدیث نے چور کے عموم میں تخصیص کر دی کہ اس سے وہ خاص چور مراد ہے جس نے ایک خاص قدر و قیمت کی چیز چرائی ہو، نہ کہ ہر قسم کے چور کے ہاتھ کاٹ دیے جائیں گے جیسا کہ آیت ’’السارق‘‘ کے عموم کا اقتضاء ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور تخصیصات بھی احادیث سے ثابت ہیں نیز بعض فقہاء نے بعض شرطیں عائد کر کے اس کے عموم میں تخصیص کی۔ مثلا چوری محفوظ کیے ہوئے مال کی کی گئی ہو، چور مجبون نہ ہو، اضطرار کا شائبہ نہ ہو، وغیرہ وغیرہ۔ اگر ایسی صورتیں ہوئیں تب بھی چور ’’السارق‘‘ کے عموم میں شامل نہیں ہوگا۔
2۔ قرآن کریم کی آیت ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةُ وَالدَّمُ

مردار اور خون تمہارے لیے حرام ہیں۔ (المائدہ 5:3)
لیکن اس عموم میں حدیث رسولﷺ نے تخصیص کی اور مچھلی اور ٹڈی (دو مردار) اور جگر اور تلی (دو خون) حلال قرار دیے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا:

أُحِلَّتْ لَنَا مَيْتَتَانِ وَدَمَانِ : اَلْجَرَادُ  وَالْحُوْتُ وَالْكَبِدُ  وَالطِّحَالُ

حالانکہ عموم آیت کی رو سے یہ چیزیں حرام قرار پاتی ہیں۔
3۔ قرآن کریم میں ہے:

قُلْ لَا أَجِدُ فِي مَا أُوحِيَ إِلَيَّ مُحَرَّمًا عَلَى طَاعِمٍ يَطْعَمُهُ إِلَّا أَنْ يَكُونَ مَيْتَةً أَوْ دَمًا مَسْفُوحًا أَوْ لَحْمَ خِنْزِيرٍ فَإِنَّهُ رِجْسٌ أَوْ فِسْقًا أُهِلَّ لِغَيْرِ اللَّهِ بِهِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَإِنَّ رَبَّكَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

اس آیت میں کلمہ حصر (الا) کے ساتھ چار محرمات کی تفصیل ہے (مردار جانور، بہتا ہوا خون، سور کا گوشت اور وہ چیز جس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیاہو) جس کا اقتضاء یہ ہے کہ ان محرمات مذکورہ کے علاوہ دیگر چیزیں حلال ہوں۔ لیکن اس عموم میں بھی حدیث رسول سے تحصیص کی گئی اور ہر ذی ناب ’’کچلی والا درندہ‘‘ اور ذی مخلب ’’پنجے سے شکار کرنے والا پرندہ‘‘ بھی حرام کر دیا گیا۔ حدیث میں ہے:

نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ، وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ

(اس مفہوم کی کئی روایات کتب حدیث میں ہیں) اسی طرح حدیث رسول سے محرمات میں گدھے کا اضافہ کیا گیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا:

إَنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَنْهَاكُمْ عَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ

اللہ اور اس کا رسول تمہیں پالتو گدھے کے گوشت سے منع  کرتے ہیں۔ (صحیح البخاری، المغازی، باب غزوہ خیبر)
4۔ اسی طرح قرآن صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کی حرمت بیان کرتا ہے۔ رضاعی بیٹی کی حرمت کا اضافہ حدیث رسول ہی سے کیا گیا ہے۔
5۔ قرآن صرف دو بہنوں کو جمع کرنے سے منع کرتا ہے خالہ اور بھانجی، پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے کی ممانعت قرآن کریم میں نہیں ہے بلکہ (وَأُحِلَّ لَكُمْ مَا وَرَاءَ ذٰلِكُمْ) کے عموم سے ان کے جمع کرنے اباحت نکلتی ہے۔ لیکن حدیث رسولﷺ ہی نے اس عموم میں یہ تخصیص کی کہ (مَا وَرَاءَ ذٰلِكُمْ) کے حکم عموم میں خالہ بھانجی اور پھوپھی بھتیجی کو جمع کرنے کی اجازت نہیں ہے۔
6۔ اسی طرح سورۃ النور کی آیت:

الزَّانِيَةُ وَالزَّانِيْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ وَلَا تَأْخُذْكُمْ بِهِمَا رَأْفَةٌ فِيْ دِيْنِ اللهِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلْيَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَائِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِيْنَ

میں زانی مرد اور زانی عورت کی جو سزا، سو کوڑے بیان کی گئی ہے یہ عام ہے جس سے بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ زانی شادی شدہ ہو یا غیر شادی شدہ، ہر قسم کے زانی کے لیے سو کوڑوں کی سزا ہے۔ لیکن اس آیت کے عموم میں بھی حدیث رسول نے تخصیص کر دی اور نبیﷺ نے اپنے طرز عمل سے بھی اس کی وضاحت فرما دی کہ سورۃ النور میں جو زنا کی سزا بیان کی گئی ہے وہ صرف غیر شادی شدہ زانیوں کی ہے اگر زنا کار مرد یا عورت شادی شدہ ہوں گے تو ان کی سزا سو کوڑے نہیں جو قرآن میںبیان کی گئی ہے بلکہ رجم۔۔۔ سنگساری۔۔ ہے۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو راقم کی کتاب ’’حد رجم کی شرعی حیثیت اور شبہات و مغالطات کا جائزہ‘‘ )
اسی طرح اور متعدد مقامات ہیں جہاں قرآن کے عموم کو حدیث رسول سے خاص اور مقید کیا گیا اور جس کو آج تک سب بالاتفاق مانتے آئے ہیں اس لیے رسول اللہﷺ کا جس طرح یہ منصب ہے کہ آپ قرآن کے مجمل احکام کی تفسیر اور تفصیل بیان فرمائیں جیسے نمازوں کی تعداد، رکعتوں کی تعداد اور دیگر مسائل نماز، زکاۃ کا نصاب اور اس کی دیگر تفصیلات، حج و عمرہ اور قربانی کے مناسک و مسائل اور دیگر اس انداز کے احکام ہیں۔ اسی طرح آپ کو یہ تشریعی مقام بھی حاصل ہے کہ آپ ایسے احکام دیں جو قرآن میں منصوص نہ ہوں جس طرح چند مثالیں ابھی بیان کی گئی ہیں۔ انہیں ظاہر قرآن کے خلاف یا زیادہ علی القرآن یا نسخ قرآن باور کرا کے رد نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسے احکام حدیثیہ کو ظاہر قرآن کے خلاف یا قرآن پر زیادتی یا قرآن کا نسخ کہنا ہی غلط ہے۔ یہ تو رسول اللہﷺ کا وہ منصب ہے جس کو قرآن نے اطاعت رسولﷺ کا مستقل حکم دے کر بیان فرمایا ہے: مثلاً

يَا أَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا أَطِيْعُوا اللهَ وَأَطِيْعُوا الرَّسُوْلَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ

اے ایمان والو! اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اپنے اولوالامر کی۔ (النساء 4:59)
اس آیت میں اللہ کی اطاعت، رسول اللہﷺ کی اطاعت اور اولوالامر کی اطاعت کا حکم مسلمانوں کو دیا گیا ہے۔ لیکن اولو الامر کی اطاعت کے حکم کے لیے الگ ’’اطیعوا‘‘ کے الفاظ نہیں لائے گئے البتہ ’’اطیعوا اللہ‘‘ کے ساتھ ’’اطیعواالرسول‘‘ ضرور کہا، جس کا واضح مطلب یہی ہے کہ جس طرح اللہ کی اطاعت مستقل ہے بالکل اسی طرح اطاعت رسول بھی مستقلاً ضروری ہے تاہم اولو الامر (فقہاء و علماء یا حاکمان وقت) کی اطاعت مشروط ہے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے ساتھ۔ اگر اولو الامر اطاعت رسول یا اطاعت الٰہی سے انحراف کریں تو حدیث:

لَا طَاعَةَ لِمَخْلُوقٍ فِي مَعْصِيَةِ الْخَالِق

خالق کی نافرمانی میں، مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ (شرح السنۃ: 1/44)
کے تحت ان کی اطاعت واجب نہیں رہے گی بلکہ مخالفت ضروری ہو گی اور آیت مذکورہ کے دوسرے حصے:

فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ

اپنے آپس کے جھگڑے اللہ اور اس کے رسول کی طرف لوٹا دو۔ (النساء 4:59)
سے بھی یہی ثابت ہو رہا ہے کیونکہ اگر صرف کتاب الٰہی ہی کو ماننا کافی ہوتا تو تنازعات کی صورت میں صرف کتاب الٰہی کی طرف لوٹنے کا حکم دیا جاتا لیکن اللہ تعالیٰ نے کتاب الٰہی کے ساتھ رسول کی طرف لوٹنے کو بھی ضروری قرار دیا ہے جو رسول اللہﷺ کی مستقل اطاعت کے وجوب کو ثابت کر رہا ہے۔
رسول اللہﷺ کی اس مستقل اطاعت کے حکم کو قرآن کریم نے بڑا کھول کر بیان فرمایا ہے۔ اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول کو بہ تکرار متعدد جگہ ذکر فرمایا۔ مثلاً سورہ نساء کے علاوہ سورہ مائدہ: 92، سورہ نور: 45، سورہ محمد: 33، سورہ تغابن: 12 نیز فرمایا:

وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللهِ

ہم نے ہر رسول کو اسی لیے بھیجا کہ اللہ کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔ (النساء 4: 64)

مَنْ يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللهَ

جس نے رسول اللہﷺ کی اطاعت کی بلا شبہ اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ (النساء 4:80)

قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي

اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو تو میری اتباع کرو۔ (آل عمران 3:31) وغیرھا من الآیات
ان آیات سے واضح ہے کہ رسول اللہﷺ کی حیثیت ایک مطاع اور متبوع کی ہے جس کی اطاعت و اتباع اہل ایمان کے لیے ضروری ہے۔
علاوہ ازیں آپ کو فصل خصومات اور رفع تنازعات کے لیے حاکم اور حَکَم بنایا گیا ہے جیسا کہ آیت مذکورہ بالا

(فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللهِ وَالرَّسُولِ) کے علاوہ ذیل کی آیات سے بھی واضح ہے:
فَلَا وَرَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْٓ أَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِمَّا قَضَيْتَ وَيُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا

آپ کے رب کی قسم! لوگ اس وقت تک مومن نہیں ہوں گے جب تک وہ (اے پیغمبر!) آپ کو اپنے جھگڑوں میں اپنا حکم (ثالث) نہیں مانیں گے پھر آپ کے فیصلے پر اپنے دلوں میں کوئی تنگی بھی محسوس نہ کریں اور دل سے اس کو تسلیم کر لیں۔ (النساء 4:65)
نیز ارشاد الٰہی ہے:

وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ وَلَا مُؤْمِنَةٍ إِذَا قَضٰى اللهُ وَرَسُوْلُهُ أَمْرًا أَنْ يَّكُونَ لَهُمُ الْخِيَرَةُ مِنْ أَمْرِهِمْ

جب اللہ اور اس کا رسول کسی معاملے کا فیصلہ کر دیں تو پھر کسی مومن مرد و عورت کو اپنے معاملے کا اختیار نہیں۔ (الاحزاب 33:36)
ان آیات میں بیان کردہ نبیﷺ کی یہ حاکمانہ حیثیت بھی آپ کی مستقل اطاعت کو ضروری قرار دیتی ہے اسی طرح قرآن کریم کی آیت:

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْا

رسول اللہﷺ تمہیں جو دیں وہ لے لو اور جس سے وہ روک دیں رک جاؤ۔ (الحشر 59:7)
میں بھی آپ کا یہی منصب بیان کیا گیا ہے کہ رسول اللہﷺ جس بات کو حکم فرمائیں وہ لے لو (یعنی اس پر عمل کرو) اور جس سے منع فرما دیں اس سے رک جاؤ گویا آپ ’’آمر‘‘ اور ’’ناہی‘‘ بھی ہوئے۔
اسی طرح قرآن کریم نے رسول اللہﷺ کے جو فرائض منصبی بیان فرمائے ہیں ان میں تلاوت آیات کے ساتھ ساتھ تعلیم کتاب و حکمت کا بھی ذکر ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيْهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ

وہ پیغمبر ان پر اللہ کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے ان کا تزکیہ کرتا اور ان کو کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ (آل عمران 3:164، الجمعۃ 62:2)

يَتْلُو عَلَيْكُمْ آيَاتِنَا وَيُزَكِّيكُمْ وَيُعَلِّمُكُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ

وہ تم پر ہماری آیتیں پڑھتا ہے تمہارا تزکیہ کرتا اور تمہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ (البقرۃ 2: 151)
ظاہر بات ہے کہ یہ تعلیم کتاب و حکمت، تلاوت آیات سے یکسر مختلف چیز ہے اگر آپ کا مقصد بعثت صرف تلاوت آیات ہی ہوتا اس کی تعلیم و تشریح آپ کی ذمہ داری نہ ہوتی تو قرآن تعلیم کتاب و حکمت کے الگ عنوان سے اس کا ذکر کبھی نہ کرتا۔ اس سے معلوم ہوا کہ تعلیم کتاب و حکمت بھی آپ کا منصب ہے اور اس سے مراد آپ کی وہی تبیین و تشریح ہے جس کی وضاحت گزشتہ صفحات میں کی گئی ہے۔
بہرحال قرآن کریم کی بیان کردہ تفصیلات سے واضح ہے کہ نبی اکرمﷺ کی حیثیت نعوذ باللہ صرف ایک ’’قاصد‘‘ اور ’’چٹھی رساں‘‘ کی نہیں ہے جس طرح کہ حدیث کی تشریعی حیثیت سے انکار کر کے بارو کرایا جا رہا ہے بلکہ آپ کی حیثیت ایک مطاع و متبوع، قرآ ن کے معلم و مبین اور حاکم و حکم کی ہے اس لیے آپﷺ کے جو فرامین صحیح سند سے ثابت ہیں وہ دین میں حجت اور اسی طرح واجب الاطاعت ہیں جس طرح قرآنی احکام پر عمل کرنا اہل ایمان کے لیے ضروری ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے قرآن کریم اور احادیث رسول میں کوئی فرق نہیں کیا اور دونوں کو نہ صرف یکساں واجب الاطاعت جانا بلکہ احادیث کو قرآن ہی کا حصہ گردانا۔ چنانچہ صحیح بخاری میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا واقعہ مذکور ہے کہ انہوں نے ایک موقع پر فرمایا:

لَعَنَ اللهُ الوَاشِمَاتِ وَالمُوتَشِمَاتِ، وَالمُتَنَمِّصَاتِ وَالمُتَفَلِّجَاتِ، لِلْحُسْنِ المُغَيِّرَاتِ خَلْقَ اللَّهِ

اللہ تعالیٰ گود نے والیوں اور گدوانے والیوں پر، چہرے کے بال اکھاڑنے والیوں اور حسن کے لیے آگے کے دانتوں میں کشادگی کرنے والیوں پر لعنت کرے کہ یہ اللہ کی پیدا کی ہوئی صورت میں تبدیلی کرنے والی ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی اس بات کا علم قبیلہ بنی اسد کی ایک عورت، ام یعقوب، کو ہوا تو وہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آئی اور آکر کہا مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نے اس اس قسم کی عورتوں پر لعنت بھیجی ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

وَمَا لِي لَا أَلْعَنُ مَنْ لَعَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ هُوَ فِي كِتَابِ اللَّهِ

آخر میں کیوں نہ ان پر لعنت کروں جن پر رسول اللہﷺ نے لعنت کی ہے اور جو کتاب اللہ کے مطابق بھی ملعون ہیں۔
اس عورت نے کہا: میں نے سارا قرآن پڑھا ہے اس میں تو کہیں بھی (مذکورہ) عورتوں پر لعنت نہیں ہے جس طرح کہ آپ کہتے ہیں آپ نے فرمایا: اگر تو قرآن کو (غور سے) پڑھتی تو اس میں ضرور یہ آیت پاتی:

وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا

رسول اللہﷺ تمہیں جو دیں وہ لے لو اور جس سے وہ روک دیں رک جاؤ۔ (الحشر 59:7)
وہ عورت کہنے لگی: ہاں یہ آیت تو ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تو نبیﷺ ہی نے (مذکورہ قابل لعنت چیزوں سے) منع فرمایا ہے۔ (صحیح البخاری، التفسیر، باب وما آتاکم الرسول مخذوہ، حدیث: 4886)
اس حدیث میں دیکھ لیجئےسیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہﷺ کے فرمان کو اللہ کا فرمان اور کتاب اللہ کا حکم قرار دیا اور جب اس دور کی پڑھی لکھی خاتون کو بھی یہ نکتہ سمجھایا گیا تو اس نے بھی اسے بلا تامل تسلیم کر لیا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک نبیﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ قرآن ہی کی طرح وحی الٰہی کا درجہ رکھتے تھے۔
گفتۂ او گفتۂ اللہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود
خود نبی اکرمﷺ نے بھی اپنے ایسے فیصلوں کو، جو قرآن میں منصوص نہیں ہیں کتاب الٰہی کا فیصلہ قرار دیا ہے۔ جس طرح شادی شدہ زانی کی سزا۔۔۔ حدِّ رجم۔۔۔ ہے جو نبیﷺ نے قرآن کے عموم میں تخصیص کر کے مقرر فرمائی۔ آپ نے اس حد رجم کو ’’کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ‘‘ قرار دیا:

لَأَقْضِيَنَّ بَيْنَكُمَا بِكِتَابِ اللَّهِ

میں تم دونوں کے درمیان اللہ کی کتاب کے ساتھ فیصلہ کروں گا۔ (اور پھر آپ نے یہی فیصلہ فرمایا تھا کہ شادی شدہ زانی کو رجم کیا جائے گا۔) (صحیح البخاری، الحدود، باب الاعتراف بالزنا، حدیث: 6828)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بابرکت دور کو دیکھ لیجئے آپ کو نمایاں طور پر یہ چیز ملے گی کہ ان کے مابین مسائل میں اختلاف ہوتا تو حدیث رسولﷺ کے معلوم ہوتے ہی وہ اختلاف ختم ہو جاتا اور حدیث کے آگے سب سر تسلیم خم کر دیتے۔
نبیﷺ کی وفات کے بعد آپ کی تدفین اور آپ کی جانشینی کے مسئلے میں اختلاف ہوا، جب تک ان کی بابت حدیث کا علم نہ ہوا اس پر گفتگو ہوتی رہی لیکن جوں ہی حدیث پیش کی گئی مسئلے حل ہوگئے۔ تدفین کے مسئلے میں بھی اختلاف ختم ہو گیا اور جانشینی جیسا معرکہ آرا مسئلہ بھی پلک جھپکتے حل ہو گیا۔
اس طرح متعدد قضایا اور واقعات ہیں جن میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ حدیث رسول کی بلا تامل حجت شرعیہ سمجھا گیا اور اس کا علم ہوتے ہی بحث و تکرار کی بساط لپیٹ دی گئی۔ عہد صحابہ کے بعد تابعین و تبع تابعین اور ائمہ و محدثین کے ادوار میں بھی حدیث رسول کی یہ تشریعی حیثیت قابل تسلیم رہی بلکہ کسی دور میں بھی اہل سنت و الجماعت کے اندر اس مسئلے میں اختلاف نہیں رہا۔
حدیث رسول کی یہی وہ تشریعی اہمیت تھی جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے تکوینی طور پر محدثین کا ایسا بے مثال گروہ پیدا فرمایا جس نے حدیث رسول کی حفاظت کا ایسا سروسامان کیا کہ انسانی عقلیں ان کاوشوں کو دیکھ کر دنگ رہ گئیں اور محدثین نے حدیث رسول کی تہذیب و تنقیح کے لیے ایسے علوم ایجاد کیے جو مسلمانوں کے لیے سرمایہ صد افتخار ہیں۔ اگر حدیث رسول کی یہ تشریعی اہمیت نہ ہوتی جس طرح کہ آج کل باور کرایا جارہا ہے تو سوچنے کہ بات یہ ہے کہ محدثین رحمہم اللہ کو حفاظت حدیث کے لیے اتنی عرق ریزی اور جگر کاوی کی پھر ضرورت کیا تھی؟
مولانا حالی نے کیا خوب محدثین کو منظوم ہدیہ عقیدت پیش کیا ہے۔ فرماتے ہیں:

گروہ ایک جویا تھا علمِ نبی کا
لگایا پتا جس نے ہر مفتری کا
نہ چھوڑا کوئی رخنہ کذبِ خفی کا
کیا قافیہ تنگ ہر مدعی کا
کیے جرح و تعدیل کے وضع قانوں
نہ چلنے دیا کوئی باطل کا افسوں
کیا فاش راوی میں جو عیب پایا
مناقب کو چھانا مثالب کو تایا
مشائخ میں جو قبح نکلا جتایا
ائمہ میں جو داغ دیکھا، بتایا
طلسم ورع ہر مقدس کا توڑا
نہ مُلّا کو چھوڑا نہ صُوفی کو چھوڑا

قرآن کریم جس قسم کا انسانی معاشرہ تشکیل دینا چاہتا ہے جو تہذیب و تمدن انسانوں کے لیے پسند فرماتا ہے اور جن اقدار و روایات کو فروغ دینا چاہتا ہے اس کے بنیادی اصول اگرچہ قرآن کریم میں بیان کر دیے گئے ہیں لیکن واقعہ یہ ہے کہ اس کی عملی تفصیلات و جزئیات سیرت رسولﷺ ہی نے مہیا کی ہیں اس لیے یہ اسوہ رسول۔۔۔ اسوہ حسنہ۔۔۔ جو احادیث کی شکل میں محفوظ و مدون ہے ہر دور کے مسلمانوں کے لیے ایک بیش قیمت سرمایہ رہا ہے۔ اسی اتباع سنت اور پیروی رسول کے جذبے نے مسلمانوں کو ہمیشہ الحاد و زندقہ (بے دینی) سے بچایا ہے شرک و بدعت کی گرم بازاری کے باوجود توحید وسنت کی مشعلوں کو فروزاں رکھا ہے مادیت کے جھکڑوں میں روحانیت کے دیے جلائے رکھے ہیں اور یوں شرار بولہبی پر چراغ مصطفوی غالب رہا ہے۔
آج جو لوگ سنت رسولﷺ کی تشریعی حیثیت کو ختم کرنے پر تلے ہوئے ہیں وہ دراصل اتباع سنت کے اسی جذبے کو نیست و نابود کرنا چاہتے ہیں جو قرآن کریم کے بپاکردہ اسلامی معاشرے کی روح اور بنیاد ہے اور جس کے بعد انسانوں کے اس معاشرے کو، جس میں مسلمان بستے ہیں مغربی تہذیب و تمدن میں ڈھالنا مشکل نہیں ہوگا۔ چنانچہ ہمارے معاشرے کا یہی طبقہ۔۔۔ جو بد قسمتی سے ہمہ مقتدر بھی ہے۔۔۔ حدیث رسول کی حجیت کا مخالف ہے اور صرف قرآن کریم کی پیروی کے نام پر مغربی افکار و تہذیب کو بڑی تیزی سے فروغ دے رہا ہے پچھلے مختلف ادوار میں بھی اگرچہ انکار حدیث کا یہ فتنہ کسی نہ کسی انداز سے رہا ہے لیکن جو عروج اسے اس زمانے میں حاصل ہوا ہے اس سے پیشتر کبھی نہ ہوا اور جو منظم سازش اس وقت اس کے پیچے کار فرما ہے پہلے کبھی نہ تھی۔
اسلام کی ابتدائی دو صدیوں کے بعد معتزلہ نے بعض احادیث کا انکار کیا لیکن اسے سے ان کا مقصود اپنے گمراہ کن عقائد کا اثبات تھا اسی طرح گزشتہ ایک ڈیڑھ صدی پہلے نیچر پرستوں نے احادیث کی حجت شرعیہ میں مین میکھ نکالی اس سے بھی ان کا مقصود اپنی نیچر پرستی کا اثبات اور معجزات قرآنی کی من مانی تاویلات تھا۔ نیچر پرستوں کا یہی گروہ اب مستشرقین کی ’’تحقیقات نادرہ‘‘ سے متاثر، ساحران مغرب کے افسوں سے مسحور اور شاہد تہذیب و معاشرت سے محروم کرنا اور اسلامی اقدار و روایات سے بیگانہ کر کے تہذیب جدید کے سانچے میں ڈھالنا چاہتا ہے۔ چنانچہ مغربی نو مسلم فاضل علامہ محمد اسد مرحوم لکھتے ہیں:
’’آج جب کہ اسلامی ممالک میں مغربی تہذیب کا اثر و نفوذ بہت بڑھ چکا ہے ہم ان لوگوں کے تعجب انگیز رویے میں، جن کو ’’روشن خیال مسلمان‘‘ کہا جاتا ہے ایک اور سبب پاتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ایک ہی وقت میں رسول اللہﷺ کی سنتوں پر عمل کرنا اور زندگی میں مغربی تہذیب کو اختیار کرنا نا ممکن ہے۔ پھر موجودہ مسلمان نسل اس کے لیے تیار ہے کہ ہر مغربی چیز کو عزت کی نگاہ سے دیکھے اور باہر سے آنے والے ہر تمدن کی اس لیے پرستش کرے کہ وہ باہر سے آیا ہے اور طاقتور اورچمک دار ہے۔ مادی اعتبار سے یہ افرنگ پرستی ہی اس بات کاسب سے بڑا سبب ہے کہ آج احادیث رسول اللہﷺ اور سنت کا پورا نظام رواج نہیں پا رہا ہے۔ سنت نبوی ان تمام سیاسی افکار کی کھلی اور سخت تردید کرتی ہے جن پر مغربی تمدن کی عمارت کھڑی ہے اس لیے وہ لوگ جن کی نگاہوں کو مغربی تہذیب و تمدن خیرہ کر چکا ہے وہ اس مشکل سے اپنے کو اس طرح نکالتے ہیں کہ حدیث و سنت کا بالکلیہ یہ کہہ کر انکار کر دیں کہ سنت نبوی کا اتباع مسلمانوں پر ضروری نہیں کیونکہ اس کی بنیاد ان احادیث پر ہے جو قابل اعتبار نہیں ہیں اور اس مختصر عدالتی فیصلے کے بعد قرآن کریم کی تعلیمات کی تحریف کرنا اور مغربی تہذیب و تمدن کی روح سے انہیں ہم آہنگ کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔‘‘ (اسلام ایٹ دی کراس روڈز، بحوالہ ’’اسلامی مزاج و ماحول کی تشکیل و حفاظت میں حدیث کا بنیادی کردار‘‘ ص: 42 طبع ہند، لکھنو
یہی علامہ محمد اسد، سنت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’سنت نبوی ہی وہ آہنی ڈھانچہ ہے جس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے۔ اگر آپ کسی عمارت کا ڈھانچہ ہٹا دیں تو کیا آپ کو اس پر تعجب ہوگا کہ عمارت اس طرح ٹوٹ جائے جس طرح مٹی کا گھروندا۔‘‘
’’یہ اعلیٰ مقام جو اسلام کو اس حیثیت سے حاصل ہے کہ وہ ایک اخلاقی، عملی، انفرادی اور اجتماعی نظام ہے اس طریقے سے (یعنی حدیث اور اتباع سنت کی ضرورت کے انکار سے) ٹوٹ کر اور بکھر کر رہ جائے گا۔‘‘ (حوالہ مذکورہ)
ایسے مدعیان اسلام کی بابت جو اتباع رسول ﷺ سے گریزاں اور حجیت احادیث کے منکر ہیں علامہ فرماتے ہیں:
’’ایسے لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جو کسی محل میں داخل ہونے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس کنجی کو استعمال کرنا نہیں چاہتا جس کے بغیر دروازے کا کھلنا ممکن ہی نہیں۔‘‘ (اسلام ایٹ دی کراس روڈز، بحوالہ ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ، دسمبر 1934ء، ص: 421)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے