خالق کائنات نے بنی نوع انسان کی راہ نمائی کے لیے مخصوص قوموں کی طرف انبیاء کرام مبعوث فرمائے۔ جنہوں نے پہلے انبیاءکرام علیہم السلام کی اور اپنے بعد آنے والے رحمت کائناتﷺ کی خوشخبری سنائی۔
قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے:

وَاِذْ قَالَ عِيْسَى ابْنُ مَرْيَمَ يٰبَنِيْٓ اِسْرَاۗءِيْلَ اِنِّىْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَيْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَمُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ يَّاْتِيْ مِنْۢ بَعْدِي اسْمُهٗٓ اَحْمَدُ

اور جب عیسیٰ ابن مریم نے کہا۔ اے بنی اسرائیل!میں یقینا تمہاری طرف اللہ کا بھیجا ہوا رسول ہوں اور اس تورات کی تصدیق کرنے والا ہوں جو مجھ سے پہلے نازل ہوئی۔ اور ایک رسول کی بشارت دینے والا ہوں جو میرے بعد آئے گا اور اس کا نام احمد ہوگا۔ (الصف 6)
اللہ تعالیٰ نے خوشخبری کے مصداق رحمۃ للعالمینﷺ کی نشانیاں انجیل میں واضح کر دیں جس کا تذکر ہ قرآن حکیم میں ہے:ترجمہ:محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ کے رسول ہیں اور جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں وہ کافروں پر تو سخت (مگر) آپس  میں رحم دل ہیں۔ تم انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے (کثرت) سجدہ کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر امتیازی نشان موجود ہیں ۔ ان کی یہی صفت تورات میں بیان ہوئی ہے اور یہی انجیل میں ہے۔(الفتح 29)
قرآنی آیت کی تصدیق کے لیے فتح بیت المقدس کا تاریخی واقعہ پیش خدمت ہے۔
فلسطین کے حکمران نے اسلامی لشکر کے سپہ سالار ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے درخواست کی کہ تمہارا امیر خود آکر بیت المقدس کی چابیاں وصول کرے چنانچہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اپنے غلام کے ہمراہ سفر پر روانہ ہوئے۔ راستے میں باری باری کبھی خود سوار ہوئے اور کبھی غلام کو سواری کے جانور پر بٹھاتے اور کبھی اونٹنی کی تھکاوٹ دور کرنے کے لیے دونوں پیدل چلتے۔ جب یہ قافلہ فلسطین کے حاکم کے دربار میں تشریف لایا تو پادری جعفر ونیوس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے کپڑے بڑے غور سے دیکھے اور نہایت اطمینان سے شہرکی کنجیاں انکے حوالے کر دیں پھر سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ہاں تم ہی وہ شخص ہو جس کے اوصاف ہم نے کتاب مقدس میں پڑھ رکھے ہیں ہماری کتاب میں لکھا ہوا ہے کہ وہ شخص جو مقدس سرزمین فلسطین کی کنجیوں کا مالک ہوگا اس ملک میں پیدل داخل ہوگا جبکہ اس کاغلام سوار ہوگا اور اس کے کپڑے میں سترہ پیوند لگے ہوئے ہوں گے۔
اہل مغرب! خلا میں جا کر چاند کی تسخیر کا دعویٰ کرنے والو اور سمندر کی گہرائی میں اتر کر خزانے تلاش کرنے والو تم اس پہلو پر غور و فکر کیوں نہیں کرتے۔ کہ مقدس سر زمین کے پادری نے نشانیوں کی تصدیق کرنے کے بعد بغیر جنگ و جدل کے شہر کی چابیاں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیں کیا تم فتح بیت المقد س کے تاریخی واقعہ کی تردید کر سکتے ہو؟ ہرگز نہیں تو پھر آپ کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیدنا محمدﷺ اور ان کے ساتھیوں کی نشانیاں انجیل میں مذکور تھیں اگر موجودہ انجیل میں نہ پاسکو تو آپ کو ماننا پڑے گا کہ مروجہ انجیل اصل نہیں بلکہ پولیس کی تحریف شدہ ہے۔
پادری جعفروینوس نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی علامات دیکھ کر شہر کی کنجیاں حوالے کیں یہ تاریخی واقعہ روشن دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام پر نازل شدہ انجیل میں نبی کریمﷺ کے خلیفہ دوم کی نشانیاں ظاہر کر دی تھیں وہ صاحبان جو دعویٰ کرتے ہیں کہ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے خلافت غضب کی ان کا نظریہ باطل ٹھہرتا ہے۔
سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے لباس پر سترہ پیوند اس امر کی وضاحت کرتے ہیں کہ مسلم حکمران کی عزت و مرتبہ زرق برق لباس میں نہیں بلکہ اسلام پر عمل کرنے  میں ہے۔ سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا پیدل چلنا اور غلام کا اونٹنی پر سوار ہونا ظاہر کرتا ہے کہ اسلامی نظام عدل میں آقا و غلام کی تمیز نہیں بلکہ حقوق کی ادائیگی میں مساوات کا علمبردار ہے۔
عورت کی عزت و آبرو کا محافظ کو ن اسلام یاعیسائیت
عورت کی عزت و احترام سے متعلق اسلام اور عیسائیت میں تقابلی جائزہ کے لیے مثال پیش خدمت ہے۔ ’’حیض و استحاضہ میں مبتلا عورت اس حد تک ناپاک ہے جو اسے چھوئے وہ بھی اور جو اس کا بستر چھوئے وہ بھی ناپاک ہے‘‘ (انجیل مقدس امبار)
مفتی اعظم سعودی عرب نے فرمایا کہ اسلام میں عورت حیض یا نفاس کی حالت میں پلید نہیں ہوتی امام مسلم رحمہ اللہ نے سیدنا انس سے روایت کیا ہے کہ یہودیوں کی عادت تھی کہ جب عورت حائضہ ہوئی تو اس کے ساتھ کھانا نہ کھاتے اس پر سیدنا محمدﷺ نے فرمایا:

اصْنَعُوا كُلَّ شَيْءٍ إِلَّا النِّكَاحَ  (مسند أحمد (19/ 356)

تم جماع کے علاوہ سب کچھ کر سکتے ہو۔
چنانچہ حیض و نفاس کے دوران نماز روزہ اور تلاوت قرآن کے علاوہ اس کے ساتھ مل کر کھانا پینا یا اس کے ہاتھ کا تیار کردہ کھانا استعمال کرنا منع نہیں ہوگا۔ (فتاویٰ برائے خواتین از دارالسلام ص 85)
صلیبی عورتو! تحقیق کرو تمہاری عزت و آبرو مغرب کی مروجہ عیسائیت میں ہے یا اسلام میں؟ تعصب سے بالاتر ہوکر غور و فکر کرنے سے ذی شعور اس نتیجہ پر پہنچے گا کہ روئے کائنات پر اسلام ہی عورت کی عزت اور حقوق کا محافظ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے