مملکت کی اجمالی تاریخ

آل سعود کے اقتدار سے قبل اس خطہ پر ایک طویل  وقت ایسا  بھی گزرا ہے کہ یہاں حکومت نام کی کوئی قابل ذکر چیز نہ تھی سوائے اس کے کہ ہر طرف ظلم وستم کا بازار گرم تھا۔ ڈاکہ زنی و چوری چکاری تھی، لوٹ کھسوٹ،ناخواندگی و لا علمی اور جہالت و گمراہی تھی ۔ قتل و غارت گری اور اندھیر نگری تھی ۔ یہ علاقہ جرائم پیشہ لوگوں کا میدان تھا ، اور کثرت خوف و خطرات اور فقدان امن و امان میں یہ اپنی مثال آپ تھا اور صورت حال یہ تھی کہ حجاج کرام کی چیخ و پکار اٹھتی، بیت اللہ اور حرم پاک بھی زبان حال سے چلاتے نظر آتے تھے اور مکہ مکرمہ میں اقوام و امم اپنے رب کو چیخ چیخ کر پکارا کرتی تھیں۔یہ اس وقت کے حالات ہیں جب اہل حجاز کے عقائد میں افراط و تفریط نے انہیں اصل اسلام سے بہت دور کر دیا تھا اور یہی اصل میں سب سے بڑا نقصان تھا کہ یہاں تک اللہ تعالی نے اپنے پسندیدہ دین کے اظہار کے لیے شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ اور امام دعوت توحید محمد بن عبدالوہاب رحمہ اللہ کو میدان میں اتارا اور خوف و خطرات کی کثرت کے زمانے میں سلطان حکومت اور سلطان علم و معرفت نے باہم معاہدہ کیا اور اس وقت سے پہلے تخلف و پسماندگی اور قلق و اضطراب کا دور دورہ تھا ، لوگوں کا اپنے عقائد سے تعلق کمزور پڑ چکا تھا ۔ اور اپنی شریعت سے وثوق اٹھ چکا تھا ۔ ایسے میں اللہ تعالی نے آئمہ دعوت و سعودی سلاطین اسلام کے ہاتھوں اس ملک اور اللہ کے بندوں کے لیے خیر و بھلائی کے چشمے جاری فرما دیے جس کی گواہی ہر منصف مزاج شخص دیتا ہے اور ہر حاقد کو اس سے کرنٹ لگتا ہے اور یہ اس کے گلے کی پھانس بنتا رہتا ہے ۔ اسلامی ورثے اور دور جدید کی مثالی مملکت سعودی عرب کا قومی دن ۲۳ستمبر ایسا درخشندہ باب ہے جسے عربوں اور مسلم امہ کی تاریخ میں سنہر ے حروف سے رقم کیا جاتا ہے۔ عرب دنیا کے سب سے بڑے ملک سعودی عرب کی۱۹۳۲ء میں شاہ عبدالعزیز بن عبدالرحمن السعود نے بنیاد رکھی، ان کی جانب سے۸۷ ہزار مربع میل پر پھیلے ہوئے اس خطے میں جو کہ براعظم ایشیاء یورپ اور افریقہ کے سنگم پر واقع ہے ایک جدید مثالی مملکت قائم کی گئی، جس کی تعمیر قرآن وسنت سے رہنمائی حاصل کر کے ملک کو استحکام ،خوشحالی، تحفظ، امن و امان کا گہوارہ بنا کر پائیدار مسلم معاشرہ کے طور پر اقوام عالم میں عزت و وقار سے روشناس کرایا گیا۔

آل سعود کی حکومت میںعلم توحید بلند ہوا خرافات  وبدعات زندہ درگور کر دی گئیں شرک کا بطلان واضح ہوا ۔ تاریخ نے ایسے مناظر کم ہی دیکھے ہوں گے کہ قیام امن کے لیے انقلاب بپا ہو جائے اور کوئی خون خرابا نہ ہو ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ تھی کہ شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ نے یہ سب کچھ اپنی ذات کے لیے نہیں کیا تھا بلکہ اس میں سب سے بڑا جزو للہیت تھا جو ان کی اولاد میں اسی طرح منتقل ہواکہ آج اسلام کی لیے جتنی خدمات اکیلے سعودی عرب کی ہیں اتنی خدمات پورے عالم اسلام کی مل کر نہیں ہیں اس کی سب سے بڑی مثال حرمین شریفین کی عدیم المثال توسیعات، اعلی دینی و دنیاوی تعلیم کے لیے جامعات کا قیام جس میں غیر سعودی طلبا کو فوقیت دی جاتی ہے ، قرآن مجید کی طباعت کے لیے ایک عالمی معیار کا طباعتی مرکز کا قیام ، حجاج کرام جو ضیوف الرحمن بھی ہوتے ہیں ان کی مہمان نوازی میں اپنے تمام مادی ، روحانی ،علمی وسائل کا صرف کرنا ۔ ان میں سے ہر ایک پر باقاعدہ تصنیفات تحریر کی جا سکتی ہیں ۔

سعودی عرب ان اسلامی ممالک کے لیے مثالی مملکت ہے،جو اسلام کی حقانیت کو جاننا چاہتے ہیں، سعودی عرب ایک ایسا ملک ہے، جس کا دستور قرآن وسنت ہے اور سعودی عرب کے حکمرانوں کا مقصد نظام اسلام کا قیام اور مسلمانان عالم کے لیے ملی تشخص کا جذبہ ہے۔ خادم حرمین شریفین نے امت مسلمہ کے لیے جو خدمات انجام دی ہیں وہ تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ اسلام اور امت مسلمہ کے لیے سعودی حکومت کی مخلصانہ و ہمدردانہ خدمات کو امت مسلمہ قوم کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔اہل پاکستان سعودی عرب اور خادم حرمین شریفین سے بے پناہ محبت رکھتےہیں اور سعودی عرب کی ترقی وخوشحالی کو اپنی ترقی وخوشحالی سمجھتےہیں۔

آج یہ مملکت اسلام اور مسلمانوں کا قلعہ ہے جس کی مقدس سر زمین پر قبلہ اور حرمین شریفین موجود ہیں، سعودی حکمرانوں کے اخلاص کی بدولت ملک میں قانون الہٰی کی عملداری اور اس کے باشندے اپنی مقبول قیادت سے محبت اور وفاداری کے باعث خوشحال اور پرمسرت زندگی گزار رہے ہیں۔ سعودی حکومت نے ہمیشہ اپنے عوام کو اسلامی طرز حیات، جدید علوم وفنون کی  خدمات اور مختلف شعبوں میں تعمیر و ترقی کے ہر ممکن مواقع فراہم کئے ہیں۔

توحید الٰہی کی بنیاد پر قائم ہونے والے اس ملک کی مثال آج پوری اسلای دنیا میں مستحکم، خوشحا ل اور پُرامن مملکت کے طور دی جاتی ہے۔مملکت کا نام حجاز و نجد سے تبدیل کر کے سعودی عرب رکھاگیا۔ اس کا شمار رقبے کے لحاظ سے دنیا کے 15 بڑے ملکوں میں ہوتا ہے، جس کی آبادی 2005ءکے اعداد و شمار کے مطابق 26.4 ملین ہے، جس میں 15.6 ملین غیر ملکی بسلسلہ روزگار آباد ہیں۔ سعودی عرب کو تیرہ صوبوں یا مناطق میں تقسیم کیا گیا ہے۔ مملکت کا تقریباً تمام علاقہ صحرائی و نیم صحرائی ہے، جبکہ 2 فیصد علاقہ قابل کاشت ہے۔ خلیج فارس کے ساتھ ساتھ قائم مشرقی علاقہ پتھریلا اور ریتلا ہے، جبکہ طائف، ابہا اور جیزان جیسے سرسبز اور خوشگوار موسم رکھنے والے علاقے بھی ہیں۔

قرآن وسنت کے نظام کے نفاذ کی برکات وثمرات کے نتیجے میں 1938ءمیں سعودی عرب میں تیل کی صورت میں رب ذوالجلال نے دولت کے ایسے ذخائر پیدا کر دئیے کہ اس سے حاصل ہونے والی آمدنی نے مملکت سعودی عرب کو ترقی کے عروج بام تک پہنچا دیا۔

سعودی عرب کی دین اسلام کے لئے مثالی خدمات ان چند صفحات میں سمیٹنا بحرِ بیکراں کو کوزے میں سمیٹنے کے مترادف ہے جو کہ ناممکن ہے البتہ ایک دو خدمات کا ذکر کئے بغیر نہیں رہ سکتا جن سے کروڑوں مسلمان مستفید ہورہے ہیں اور دینِ اسلام کی دعوت و تبلیغ میں سعودی حکومت کی یہ خدمات ناقابلِ فراموش ہیں۔

رابطہ عالم اسلامی

سعودی عرب کے فرمانروا شاہ فیصل بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ایک پرہیز گار حکمران تھے جو ملت اسلامیہ کے اتحاد کیلئے ہر وقت فکر مند رہتے تھے ۔ 1962 میںن کی کوششوں سے عالم اسلام کے ممتاز علماءاور داعیان دین کا نمائندہ اجلاس مکۃ المکرمہ میں طلب کیا گیاجس میں رابطہ عالم اسلامی کی بنیاد رکھی گئی۔ اس سے قبل1936 ءمیں مکہ المکرمہ میں ہی مسلم امہ کو درپیش مسائل پر غور کیلئے ایک نمائندہ کانفرنس منعقد کی گئی تھی۔ جس میں ایسی ہی تنظیم کے قیام کی ضرورت محسوس کی گئی۔ چنانچہ موتمر عالم اسلامی کے نام سے تنظیم قائم کی گئی جس کی کانفرنسوں میں ہندوستان سے سید سلیمان ندوی ،مولانا محمد علی جوہرؒ، سید ابولحسن ندوی ؒ اور علامہ اقبالؒ جیسی عظیم شخصیات نے شرکت کی ۔جس نے امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کیلئے تجاویز پیش کی گئیں۔ آگے جاکر پھر موتمر کی جگہ رابطہ عالم اسلامی نے لے لی جو آج عالم اسلام کی ہمہ گیر اور وسیع ترین عوامی تنظیم بن چکی ہے۔ یہ پوری دنیا کی اسلامی این جی اوز اور نمائندہ شخصیات کا ایک بین الاقوامی فورم ہے۔

مسلم زعماءرابطہ عالم اسلامی کے پلیٹ فارم پر ان امور کو زیر بحث لارہے ہیں جنہیں اوآئی سی صحیح معنوں میں اٹھانے کا حق ادا نہیں کرسکی۔ اس وقت رابط کی تنظیم اقوام متحدہ کی اقتصادی کمیٹی اور غیر حکومتی تنظیموں کی مجلس میں بطور مبصر یا مشیر کی حیثیت سے شریک ہو تی ہے۔ اسی طرح مسلم ممالک کی جملہ کانفرنسوں میں بھی مبصر کے طور پر شرکت کرکے اپنی آواز بلند کرتی ہے جبکہ تربیت وتعلیم اور ثقافتی امور کی بین الاقوامی تنظیم یو نیسکو اور بہبود اطفال کی بین الاقوامی تنظیم یونیسف کی مستقل رکنیت بھی اسے حاصل ہے۔مختلف اجلاسوں میں اتحاد اسلام کی اہمیت وضرورت اور غیر اسلامی افکار ونظریات سے اجتناب کی تجاویز منظور کی گئیں۔

جن شعبہ جات کی اب تک تشکیل کی جا چکی ہے۔اس میں اشاعت وترویج قرآن کیلئے ایک کونسل ہے جو مسلمانوں کے بچوں میں قرآن سے لگاؤ پیدا کرنے کیلئے حفظ قرآن کے مقابلوں کا اہتمام کرتی ہے پھرتعلیمی کونسل ہے جسکا کام دنیا بھر میں مسلم ممالک کے علاوہ مسلم اقلیتوں کے بچوں کی تعلیمی ضروریات کاخیال رکھنا ہے۔اسی طرح ،چیئرٹی فاؤ نڈیشن، اقصی مسجد فاؤ نڈیشن، انٹرنیشنل اسلامک ریلیف آرگنائزیشن، قرآن وسنت کے سائنسی انکشافات اور نشانیوں پر کمیشن ۔ورلڈ سپریم کونسل برائے مساجد، الفقہ کونسل کی شکل میں کمیٹیاں فعال ہیں۔ انہیں جدید اسلوب اور جدید فقہی، معاشی اور اقتصادی معاملات کے تناظر میں امور سونپے گئے ہیں۔ دنیائے اسلام با لخصوص جبکہ یورپ ، افریقہ ودیگر غیر اسلامی ممالک بالعموم جہاں مسلم اقلیتیں ہیں وہاں انکے میڈیکل اور ویلفیئر کے مشن کام کرتے رہتے ہیں۔پاکستان میں آنےوالے زلزلوں اور سیلابوں سمیت قدرتی آفات کے موقع پر سعودی عرب کی حکومت نے رابطہ کے ذریعے کروڑوں روپے کی امداد بھجوائی تھی۔ مصیبت اور پریشانی کا کوئی بھی موقع ہو رابط عالم اسلامی تعاون میں پیش پیش نظر آتا ہے۔اسلام دشمن عناصر کی طرف سے مسلمانوں پر طرح طرح کے الزامات اور اسلام کا غلط تصور پیش کرنےوالے عوامل کے تدارک کیلئے تقابل ادیان کے شعبہ کے تحت علمی وتحقیقی کام کررہی ہے۔ رابطہ کے فورم پر یورپ اور دیگر مغربی ممالک میں مذاہب کے درمیان مکالمے کی ضرورت واہمیت پر کانفرنسز منعقد کرائی گئی ہیں۔ اسلام کی حقیقی تعلیمات بیان کرکے اسے پر امن مذہب کے طور پر متعارف کرایا گیا ہے ۔ رواداری اور برداشت پر مبنی اسلامی تعلیمات عام کی جارہی ہیں اور مذہبی انتہا پسندی وغیرہ کے پراپیگنڈہ کی نفی کی جاتی ہے۔ الغرض اسلام اور مسلمانوں کےخلاف جب بھی کوئی سازش ہوتی ہے اسکا حکمت عملی سے جواب دیا جاتا ہے۔ غیرمسلموں کو اسلام کا خوبصورت امیج دینا اور دنیا کو تہذیبی ٹکراؤ سے بچانا اسکی ترجیحات کا حصہ ہے۔ پاکستان میں فرقہ ورانہ کشیدگی، فقہی اور گروہی مذہبی منافرت کم کرنے کیلئے رابطہ کا پلیٹ فارم اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔

شاہ فہد قرآن کمپلیکس

اللہ نےنبی آخر الزمان پر نازل ہونے والی کتاب مقدس کی اشاعت وطباعت کا اہم فریضہ بھی اسی شہر کے مکینوں کو تفویض فرمادیا اس اہم فرض کی تکمیل کے لیے سعودی حکمرانوں کو جہاں ان دونوں مقدس شہروں کی خدمت کرتےہوئے’’خادمین حرمین‘‘ کے لقب سےسرفراز فرمایا کہ وہ قرآن پاک کی اشاعت وطباعت کا اہم فریضہ بھی سر انجام دے اور آج سعودی حکومت کی کوششوں ہی سے مدینہ میں قرآن پاک کی اشاعت وطباعت کا پوری دنیا میں سب سے بڑا ادارہ باحسن وخوبی قائم ہوچکاہے اس قرآن کمپلیکس کا سنگ بنیاد اس وقت کے سعودی عرب کے فرمانبروا شاہ فہد بن عبد العزیز نے ۳ نومبر ۱۹۸۲ء کو رکھا اور اس کی تکمیل (اکتوبر ۱۹۸۴ ء) کی سعادت بھی اللہ نے شاہ فہدرحمہ اللہ ہی کو عطا فرمائی۔

شاہ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلیکس کا کل رقبہ اڑھائی لاکھ مربع میٹر ہے شاہ فہد قرآن کمپلیکس کی وسیع عمارت میں پرنٹنگ پلانٹ کے علاوہ استقبالیہ، دفتر، ویئر ہاؤس، کلینک، لائبریری اور ریستوران بھی بنائے گئے ہیں۔ اس عظیم الشان کمپلیکس کی تعمیر میں ایک بلین سعودی ریال ۲۷۰ ملین ڈالر خرچ ہوئے،شاہ فہد قرآن کمپلیکس کی عمارت جدید تعمیر کا عظیم الشان کام ہی نہیں بلکہ ظاہری اور معنوی طور پر جلال وجمال کا مظہر ہے۔

سماحۃ الشیخ عبد العزیز بن باز ،شیخ عبد العزیز بن صالح آل شیخ کی مشاورت سے دمشق کے عالمی شہرت یافتہ خوشنویس جناب عثمان طٰہ کےقلم کا لکھا ہوا قرآن کریم کانسخہ شاہ فہد قرآن کمپلیکس میں اولین طباعت کے لیےمنتخب ہوا اور ہر دیکھنے والا حسنِ انتخاب کی داد دیتا ہے۔ اس میں سالانہ ایک کروڑ قرآن پاک چھاپے جارہےہیں۔ اگر تینوں شفٹوں میں کام جاری رکھا جائے تو اس جدید کمپلیکس میں قرآن پاک چھاپنے کی استعداد تین کروڑ سالانہ تک جا پہنچتی ہے۔ اس کمپلیکس میں ۲۰۰۰ ملازمین کام کر رہے ہیں جن میں جید علمائے دین ، حفاظ کرام، مختلف زبانوں کے مترجم، یونیورسٹیوں کے پروفیسرز ، اسکالرز، پروف ریڈرز، انٹرنیٹ کے ماہرین اور انجینئرزشامل ہیں۔

اس قرآن کمپلیکس میں قرآن پاک کو دنیا کی تقریباً۴۴ زبانوں کے ترجمے کے ساتھ چھاپا جارہاہے۔ جن میں ۲۳ ایشائی، ۱۰ یورپین اور گیارہ افریقی زبانیں ہیں ۔ البانوی، بنگالی،برمی،انگریزی،فرنچ، یونانی، انڈنیشین، کشمیری،کورین، فارسی، صومالین، سپینی، تامل، تھائی، ترکش اور اردو بھی ان زبانوں میں شامل ہیں جلد ہی ترجمے کے ساتھ قرآن پاک چھاپے جانے والی زبانوں کی تعداد ۶۰ تک ہوجائے گی۔ قرآن پاک کی اشاعت کے لیے نفیس کوالٹی کاغذ اٹلی سے بطور خاص منگویا جاتاہے۔

دنیائے اسلام کے معروف قراء حضرات کی آوازوں میں قرآن پاک کی تلاوت والی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز پر ریکارڈنگ کرنے کا ایک جدید سٹوڈیو بھی موجود ہے۔ اس کے علاوہ نابیناؤں کے بریل سسٹم پر قرآن پاک بھی تیار کیاجاتاہے۔ غرضیکہ اس قرآن کمپلیکس میں ہر وہ جدید سہولت مہیا کی گئی ہے جس کو بروئے کار لا کر قرآن کریم کو عام فہم زبان میں تراجم کے ساتھ دنیا کے مسلمانوں کے ہاتھوں میں پہنچایا جاسکے۔

اس کمپلیکس میں چھپے ہوئے قرآن پاک ہر سال لاکھوں کی تعداد میں تمام دنیا سے آئے ہوئے حاجیوں میں بطور تحفہ تقسیم کیے جاتے ہیں۔ ہر سال کم وبیش تیس لاکھ حاجی حج کرنے آتے ہیں۔ اس کمپلیکس کے شائع شدہ قرآن پاک مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے علاوہ سعودی عرب کی دوسری مساجد میں بھی ہزاروں کی تعداد میں رکھے جاتے ہیں۔ یہی قرآن پاک تمام اسلامی ممالک کے سفارت خانوں اور یونیورسٹیوں کی لائبریریوں میں بطور تحفہ بھیجے جاتے ہیں۔ سعودی حکومت کے لیے یہ نہ صرف ایک اعزاز بلکہ قرآن پاک کا معجزہ ہےکہ اتنی بڑی تعداد میں چھاپ کریہ قرآن دنیا کے کونے کونے میں پہنچانے کا اہتمام کیاجاتاہے۔

قرآن پاک کی چھپائی میں اس کی کوالٹی، معیار، نفاست اور جلد بندی میں کسی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کیاجاتا۔ ترجمہ میں الفاظ کی صحت ،درستگی اور گرائمر پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے۔ اس کمپلیکس میں طلباء اور اسکالرز کے لیے ایک ریسرچ سنٹر کی سہولت بھی موجود ہے۔ جس میں بہت سی یونیورسٹیوں کے طلباء اسکالرز اور پروفیسرزخاطر خواہ فائدہ اٹھا رہے ہیں غرضیکہ شاہ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلیکس ان کے لیے ایک اکیڈمی کا درجہ رکھتاہے۔ گویا کہ شاہ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلیکس ملتِ اسلامیہ کے لیے سعودی حکومت کا ایک گراں قدر تحفہ ہے۔

اسلامی تعلیمات کے احیاءاور قرآن مجید کے ابدی پیغام کو عام کرنے کے لئے یہ ادارہ 17 سال میں اب تک 114 ملین قرآن مجید کے نسخے شائع کرکے دنیا بھر میں مفت تقسیم کرچکا ہے۔ اس کے علاوہ قرآن کریم کے اجزا تراجم آڈیو، ویڈیو کی شکل میں قرآن کریم وسیرت النبی کی لا کھوں کتب چھپوائی گئی ہیں اور دنیا کی تمام قابل زکر زبانوں میں جن کی تعداد 30 سے زیادہ ہے۔ قرآن مجید کے تراجم کردئیے گئے ہیں۔یہ منصوبہ مرحوم شاہ فہد کا سب سے بڑا کارنامہ تصور کیا جاتا ہے۔

یہ تمام خدمت خاموشی کےساتھ خالصتاً لوجہ اللہ انجام دیجاری ہے۔ وعند اللہ فی ذلک الجزاء

دعوتی سرگرمیاں:

خطہ حرمین کی موجودہ تاریخ شاھد ہے کہ سعودی حکومت نے دعوت کے عالمی میدانوں میں حصہ لیا ہے اور دنیا کے بہت سارے حصوں کی اسلامی و خیراتی سرگرمیوں میں اپنا حصہ ڈالا ہے ۔ اور امید ہے کہ وہ اس سلسلہ میں مزید آگے ہی بڑھتے چلے جائیں گے ۔ اور اس میں تعجب والی بھی کوئی بات نہیں کیونکہ یہ چیز اس جزیرے کے امتیازات و خصائص ، اس کے اغراض و مقاصد اور اھداف میں سے ہے اور یہ ایک انتہائی نادر قسم کے منھج کے تحت رونما ھوتا ہے ، جو کہ حق ، عدل وانصاف اور انسانی بھلائی کے جھنڈے کو بلند کرتا ہے اور برائی ، تشدد ، دھشت گردی اور لا قانونیت و انارکی سے اسے دور رکھتا ہے۔

اس کے علاوہ دعوت وتبلیغ اور افتاء وارشاد کا ایک نہایت وسیع سلسلہ ہے جو پوری دنیا میں پھیلا ہوا ہے۔ سعودی حکومت اپنی طرف سےمبعوث مقرر کرتی ہے جس کو گراں قدر ماہانہ مشاہرہ دیا جاتاہے یہ مبعوثین سعودی خرچ پر امریکہ،فرانس،انگلستان اور دیگر مغربی ممالک  کے علاوہ افریقہ،چین وجاپان وغیرہ اور عالم اسلام کے مختلف ملکوں میں اسلام کی تعلیم وتدریس اور ارشاد وتبلیغ کا کام بڑے وسیع پیمانے پر کر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ حجاج کرام کی خدمات کےلئے سہولیات کسی کی آنکھ سے اوجھل نہیںاور مختلف ممالک میں مساجد کی تعمیر سمیت کئی پروگرام جاری رکھے ہوئے ہیں جن سے براہِ راست فائدہ عالم اسلام کو ہو رہا ہے۔

جزاہم اللہ احسن الجزا

نوٹ : مندرہ بالا گزارشات کے لیے درج ذیل مراجع ومصادر سے استفادہ کیاگیا ہے۔

۱۔ ماہنامہ الاحسان (اسلام آباد)

خصوصی اشاعت برائے خدمات شاہ عبد اللہ رحمہ اللہ (مرتب:الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی)

۲۔ ہفت روزہ اہل حدیث ،جلد نمبر ۴۵، شمارہ نمبر ۳۷ ، 2014ء

۳۔ ماہنامہ صوت الحرمین اپریل 2015ء

۴۔ ماہنامہ نداء الاحسان لاہور جلد نمبر 3 شمارہ نمبر : 7 مارچ 2013ء

——–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے