یمن و سعودی عرب کی صور تحال پر خصوصی دورے پر پاکستان تشریف لانے والے سعودی وزیر مذہبی امور کے مشیر خاص جناب ڈاکٹر عبد العزیز بن عبد اللہ العمار کا جیو ٹی وی کو دیا گیا خصوصی انٹر ویو، استفادۂ عام کے لیے شائع کیا جارہاہے ۔ (ادارہ)

مہمان :ڈاکٹرعبد العزیز بن عبداللہ العمار حفظہ اللہ  | میزبان: سلیم صافی \\ |جمع وترتیب: ابراہیم شاہ، فتح الرحمٰن (طالب علم: کلیۃ الحدیث ، السنۃ الرابعۃ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ)  

سوال:ناظرین یمن کی صورتحال کی وجہ سے نہ صرف عالم عرب بلکہ پورے عالم اسلام بالخصوص پورا پاکستان شدید تشویش میں مبتلا ہےچونکہ پاکستان اور سعودی عرب کے خصوصی تعلقات ہیںاور اسی لیے ذہن میں یہ سوال آتاہے کہ سعودی عرب کی پاکستان سے کیا توقعات ہیں؟پاکستان کی حکومت نے ان توقعات کے جواب میں کیا کیاہے؟اور کیا کر رہی ہے؟

اور یہ کہ یمن کا قضیہ آگے کس طرف جائے گا؟ یہ اور اس طرح کے دیگر سوالات کا جواب دینے کے لیے ، پاکستانی حکومت اور سیاسی رہنماؤں سے مشاورت کے لیے حکومت سعودیہ نے مشیر خاص برائے مذہبی امور جناب الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ العمارحفظہ اللہ کو پاکستان کے دورے پر بھیجا ہے ہم ان کے مشکور ہیںکہ ہماری درخواست پر مجھے اور جیو ٹیلیویژن کو یہ اعزاز بخشاکہ وہ مملکت سعودی عرب کا موقف اور پاکستانی عوام اور حکومت سے توقعات سے آگاہ کریںاور یمن اور عرب دنیا کا معاملہ ہےلہٰذا اس کے مختلف پہلوؤں سے ہمیں آگاہ کریں بہت شکریہ۔

جواب: بعد الحمد والصلاۃ !

سب سے پہلے تومیں جیو ٹی وی نیٹ ورک اور ان کے منتظمین سب کا شکریہ ادا کرتاہوںاور اس طرح اپنے ناظرین کا بھی شکریہ ادا کرتاہوں جنہوں نے مجھے یہ موقع دیا کہ میں اپنے پاکستانی بھائیوں سے کچھ باتیں کر سکوں جوکہ میرے لیے سگے بھائیوں جیسے ہیں ۔

ہمیں اس ملاقات پر بہت خوشی ہے اور امید کرتاہوں کہ یہ ملاقات بہت اچھی ثابت ہوگی اور اس سے ہمیں فائدہ حاصل ہوگا۔

سوال:شیخ میرا پہلا سوال یہ ہوگا کہ آپ کے پاکستان کے دورے کا مقصد اور ہدف کیا ہے؟

جواب: سچ تو یہ ہے کہ ہمارے دورے کا مقصد واضح ہے پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات بہت مضبوط ہیں ہماری مثال اس طرح دی جاسکتی ہے کہ ایک جان دو قالب، اور پاکستان ہم میں سے اور ہم پاکستان میں سے ہیںاور یہ اس وقت سے ہے جب یہ پاکستان قائم ہوا۔

دونوں ممالک کی کثرت سے ملاقاتیں بھی اسی حقیقت کا مظہر ہیں یہ ملاقات خواہ ثقافتی پس منظر میں ہوں یا سیاسی یا اقتصادی پس منظر میں یا دینی پس منظر میں ہوں اس حوالے مجھے یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پاکستان کو اپنا وطن سمجھتے ہیںجیسا کہ سعودی عرب ہماراوطن ہے۔

سوال: خادم الحرمین الشریفین کی طرف سے یہ توقع کی جارہی تھی کہ وہ عالم اسلام کو متحد کرنے کے لیے اپنا کردار ادا کرے گااور ماضی میں کئی مواقع پر سعودی عرب نے کردار اداکیا بھی ہے، تو اس وقت یہ کچھ لوگ کہتے ہیںکہ یمن پر کاروائی کرکے سعودی حکومت مسلمان ملکوں کے درمیان افتراق ڈالنے کا باعث بنی ہےتو آپ اس کی کیا تو جیہ کرتے ہیں کہ یمن پر کار وائی کیونکر ضروری ہوگئی ۔

جواب: حقیقت تو یہ ہے کہ سعودی عرب اپنی تاسیس اور ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ کے وقت سے آج تک اسی امر کا بطور خاص اہتمام کرتا آرہا ہے کہ امت اسلامیہ میں وحدت پیدا ہواو ر انہیں ایک کلمے پر اکٹھا کیا جاسکے اور اس حوالے سے ملک عبدالعزیز رحمہ اللہ نےسعودی عرب کا نام تجویز کیے جانے سے قبل مکہ مکرمہ میں ایک کانفرنس کا انعقاد کیااور اس بات کا اعلان کیا کہ مملکت سعودی عرب امت اسلامیہ کے لیے ہر ممکن کوشش بروئے کار لائےگا بلکہ عبدالعزیز کے بعد آنے والے تمام فرمانرواملک سعود ملک فیصل ،ملک خالد، ملک فہد ، ملک عبداللہ رحمہم اللہ یہ سب ہر اعتبار سے وحدت امت اسلامیہ کے لیے کوششیں کرتے رہے اور اس کے مختلف مظاہر رابطہ عالم اسلامی اوآئی سی وغیر ہ کی صورت میں موجودہیں۔

اسی طرح ملک سلمان حفظہ اللہ بھی اس مہم پر کا ربند ہیں اور اس امر پر کوئی شک نہیں کہ امت اسلامیہ کی کمزوری اور ضعف نے انہیں مختلف جماعتوں میں بانٹ دیا ہے اور مشرق سے مغرب تک دشمنانِ اسلام اسی امر پر قادر نہ ہوسکےکہ اس امت کو مزید تقسیم کرسکتے ۔

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

’’اللہ تعالیٰ کی رسی کو سب ملکر مضبوط تھام لو اور پھوٹ نہ ڈالو ‘‘(اٰل عمران: 103)

لہٰذا جب ہم اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لیں گے تو ہم مضبوط بھی ہوسکتے ہیں اور ہمارے درمیان اقتصادی ، ثقافتی ، اجتماعی وشرعی الٖغرض تمام روابط پائے جاسکتے ہیں اور ہم ایک امت بن سکتے ہیں ۔

إِنَّ هَذِهِ أُمَّتُكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَأَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُونِ (الأنبياء: 92)

’’یہ تمہاری امت ہے جو حقیقت میں ایک ہی امت ہے اور میں تم سب کا پروردگار ہوں پس تم میری ہی عبادت کرو ‘‘

غور کرنے کی بات یہ ہے کہ عبادت کا حکم امت کے ایک ہونے کے بیان کے بعد آیا لہٰذاہم عقلی و شرعی طورپر اپنی اس ذمہ داری کو سمجھتے ہیں اور نبھاتے بھی ہیں کہ مسلمانوں کو ایک کلمہ پر جمع کریں اور اختلافات کا پایا جانا غیر فطری عمل نہیں لیکن جب بھی اختلاف در آئے تو ہماری ذمہ داری اسے حل کرنے میں ہے۔

سوال: پھر سوال یہ آتا ہے کہ اسلامی جمہوریہ ایران اور مملکت سعودی عرب ، یا عرب دنیا اس پر بیٹھ کر اختلافات ختم کیوں نہیں کرتی اور دونوں اسرائیل کے مقابلے میں ایک کیوں نہیں ہوجاتےکہ بجائے اس کے آپس میں اختلاف کریں؟

جواب :سعودی حکومت اپنی تأسیس کے روز اول سے ہی اس مہم پر کا ربند ہے کہ امت اسلامیہ کو ایک امت بنایا جائےاور اپنے مسلمان بھائیوں کی مدد کی جائے خواہ ایران پر یا ایران کے علاوہ کوئی اور ملک ۔

ہم اسلامی ملکوں میں کوئی فرق نہیں کرتے یعنی ہم اسلامی ملکوں کو ان کے مسالک یا مذاہب کی بنیاد پر پیش نہیں آتے اور ہم ان سب کے ساتھ مسلمانوں کا معاملہ کرتےہیں اور مملکت سعودی عرب نے اپنا دل اور گھر الغرض سارے دروازے پوری دنیا کے لیے کھلے ہیں اور اس امر پر ہمارا ایمان بھی ہے اور یقین بھی ہے اور یہی ہماری خارجہ پالیسی کی بنیاد بھی ہے ۔

سوال:لیکن کچھ لوگ یہ تاثر دے رہے ہیں کہ یمن میں جوکچھ ہورہا ہے ہو ایک مسلکی لڑائی ہے ، اس بات کی کیا حقیقت ہے ؟

جواب : دیکھئے جو کچھ یمن میں ہوراہا ہے وہ ہرگز فرقوں کی جنگ نہیں ہے اور اگر واقعی ایسا ہے تویہ بہت پہلے شروع ہوچکی ہوتی کہ یمن میں زیدی وشافعی ایک دوسرے کے ساتھ پچھلے ایک ہزار سال سے رہ رہے ہیں اور ان کے درمیاں آپس میں کوئی لڑائی نہیں یہاں تک کہ ان میں آپس کی رشتے داریاں بھی چلی آرہی ہیںبلکہ یہ بھی دیکھنے میں آرہاہے کہ زیدی اہل سنت کی مساجد میں نمازیں ادار کرتےہیںبلکہ میں تو یوں کہوںگا کہ اس جنگ کا تعلق دین اور مذہب سے نہیں ہے بلکہ یہ خالصتاً ایک سیاسی مسئلہ ہے یمن میں باغیوں نے ایک آئینی حکومت کے خلاف مسلح بغاوت شروع کر رکھی ہے اور قتل وغارت گری کا بازار گرم کر رکھا ہے ۔

سعودی حکومت نے پچھلے پانچ سالوں سے جب سے یہ مسئلہ شروع ہوا ہے اسی وقت سے امر کو مکالمہ اور مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی اور یمن میں یہ حوثی قبائل ایک فیصد ہیں اور یہ امر واضح ہے کہ ایک فیصد آبادی کو ننانوے فیصد پر طاقت کی بنیاد پر مسلط ہونے کی اجازت کوئی نہیں دے سکتابلکہ سعودی عرب نے داخلی جنگ کے خاتمے کے لیے عملاً ان کو یہ حل پیش بھی کیا جب وہ ریاض آئے تھے اور ایک معاہدے پر دستخط بھی ہوئے جو علی عبداللہ صالح اور ان کے درمیان طے ہوا تھا مملکت عربیہ نے مذاکرات کی بہت کوشش کی ہے کہ اور مشکل ختم کرنے کی کوشش کی ہے جوبھی ہوا مملکت عربیہ سعودیہ نے حوثیوں کے یمنی ہونے کا انکار نہیں کیا اگر چہ وہ بہت اقلیت میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان سے وہ مذاکرات کی میز پر بیٹھیں اور ان کے درمیان انتخابات ہوں اور یہ انتخابات بالکل سیاسی اور ڈیمو کریسی کے مطابق ہوںاور یمن کے اس مشکل سے بغیر مذاکرات اور انتخابات کے نکلنا ناممکن ہے اور میں یہاں ایک بات کا اضافہ کرنا پسند کروں گا زیدیہ کے بارے میںہمارے بھائی زیدی وہ کتب اہل سنت کی طرف رجوع کرتے ہیں اور دوسری بات کہ وہ مسلم ممالک کے اندرہیںاور ہم نے خود بھی ان کی بعض کتب کا مطالعہ کیا ہے جیسا کہ تفسیر فتح القدیر جوکہ میں نے خود بھی پڑھی ہے

ہم زیدیہ کو صر ف اور صرف اپنا بھائی اور مسلمان سمجھتے ہیں ان میں اور ہم میں فرق نہیںوہ ہمارے ساتھ رہتے ہیں اور ان کے ساتھ یمن میں جو لڑائی ہے وہ محض بیرونی مداخلت کی وجہ سے شروع ہوئی ہے۔

سوال:شیخ اعتراض یہ ہورہا ہے کہ مملکت سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں نےطاقت کے استعمال کی بجائے یا فضائی کاروائی کی بجائے مذاکرات یا مصالحت سے یمن کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ یا اس کا انتظار کیوں نہیں کیا ؟

جواب : پہلی بات تو یہ ہے کہ مملکت سعودیہ عربیہ نے سالوں مذاکرات اور مصالحت کی کوشش کی ہے اور حوثی ان مذاکرات میں شریک بھی ہوئے ہوتے رہے ہیں مگر جب ان کی فوج آئی تو اچانک انہوں نے بغاوت کردی اور قانونی حکومت کو ختم کر کے خون بہانے کا کا م کیا اور بچوں کو مارنا شروع کردیا او ر طلباء کو قتل کیا اور مدارس کوختم کرڈالا، یہاں تک کہ وہ طلباء جو دس سال سے بھی کم عمر تھے انہیں ان کے مدرسے سمیت تباہ کرڈالا اور تعز اور عدیدہ کی طرف پہنچ گئے پھر یمن کی قانونی حکومت کے صدرعبدلرب ھادی نے خلیجی ممالک سے مدد طلب کی پھر حلف التحالف شروع ہوااور یہ صور ت حال اب قتل وغارت تک پہنچ چکی تھی۔

اگر قوۃ التحالف نہ ہوتی تو یمن کے اندر خون کی ندیاں بہہ چکی ہوتیںکیونکہ یہ قبائل سب کے سب مسلح ہیں کیونکہ

یمن ان حوثی قبائل سے راضی نہیں ہیں وہ راضی ہوگااگر وہ انتخابات اور سیاسی طریقے سے داخل ہوں مگر وہ تو ہر ممکن کوشش کرکے شہروں کو غصب کرنے کے چکروں میں ہیں ، یہ ہوئی پہلی بات۔

اور دوسری بات کہ یمن کے قانونی صدر نے وہاں قانونی قیادت سے اس بات کا مطالبہ کیا تھا کہ کوئی قوۃ التحالف ہونی چاہیے جو حوثیوں کو روکے او ر ان کے ساتھ مذاکرات کر ے اور چونکہ مذاکرات بھی اسی صورت میں ممکن ہیں جب باغی ہتھیار پھینک دیں یہ مطالبہ عبدالرب ھادی نےکیا اور انتخابات کے بارے میں کہا۔

تیسری بات یہ ہے کہ تین سال پہلے حوثیوں کے تین بحری جہاز سعودی سرحد پر آئے تھے اور تب سے یعنی تین سال سے وہ سعودی سرحدوں پر حملے کرتے چلے آرہے ہیں ۔

اور چوتھی بات یہ ہے کہ جب سے یہ بغاوت شروع ہوئی ہے تب سے تہران سے صنعاء تک تین تین بحری جہاز اسلحے سے بھرے ہوئے روزانہ پہنچ رہے ہیں اور یمن میں اس وقت ٹریننگ یافتہ ایرانی اور حزب اللہ کے آدمی موجود ہیں جوکہ حوثیوں کے ساتھ کھڑےہیںحوثیوں کی اپنی کوئی عسکری طاقت نہیں ہے بلکہ حزب اللہ نے حوثی قبائل کو تربیت دی ہے اور ایرانی مداخلت بھی بہت ہے وہاں پر اگر بیرونی مداخلت نہ ہوتی تو یمنی حکومت اس کے سامنے کھڑی ہوسکتی تھی اس لیے خلیجی ممالک نے تجاویز دی ہیں کہ اس مشکل سے مذاکرات کے ذریعےنمٹا جائے اور بیرونی مداخلت ختم کی جائے اور حوثی بغاوت چھوڑ دیں اور ہتھیار پھینک دیں اور آئینی حکومت کو بحال کیا جائے کیونکہ ایک فیصد آبادی کو ننانوے فیصد پر مسلط نہیں کیا جاسکتا۔

یمن میں حوثیوں کی نسبت 100 میں ایک ہے اور وہ آج 99 فیصدسنیوں پر حکومت کررہے ہیں گذشتہ رات سعودی حدود کی خلاف ورزی کی گئی اور جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ جب سعودی عرب پر حملہ کیا جائے تو ہم مداخلت کریں گے ۔

میری ذاتی رائےیہ ہے کہ بات یہاں تک پہنچی ہےکہ ہم صلح اور جنگ کی طرف دعوت دیتےہیں نہیں تو جو غیر ملکی افراد یمن میں قیام پذیر ہیں وہ کہاں جائیں گے ، ہم شیعوں سے نہیں لڑ رہے ہیں بلکہ مملکت سعودیہ عربیہ میں شیعوںکی کثیر تعداد موجود ہے اور وہ ہمارے بھائی ہیں اور وہ سعودی عرب کے باشندے ہیں، شیعہ تو پوری دنیا میں موجود ہیں یہ بات تو تاریخ میں بھی واضح ہے اور سعودی حکومت نے کبھی بھی شیعہ اور سنی کے قضیہ میں کبھی دخل نہیں دیابلکہ یہ ذہنیت مطلقاً ہمارے ہاں موجود نہیںکہ ہم شیعوں سے لڑیں اور یمن میں تو سنی ہیں وہاں شیعہ نہیں بلکہ یمن جزیرہ عرب کا ایک بہت بڑا حصہ ہے ہم اس بات کے خواہاں ہیں کہ ایک بار پھر سے یمن میں امن او ر حکومت کو واپس لایا جائے چنانچہ ایسے نہیں ہوا تو یمن ایک قبرستان کی شکل اختیار کرے گا جوکہ اللہ عزوجل ہی جانے کہ کیا صور تحال ہوگی۔

سوال: شیخ اب آتے ہیں پاکستان کے کردار کی طرف مملکت سعودی عرب نےہر مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اب جبکہ سعودیہ کے لیے ایک چیلنج سامنے آیا تو کیا حکومت پاکستان مملکت سعودیہ کی توقعات پر پوری اتری ہے؟

جواب :سب سے پہلے میں یہ کہنا چاہوں گا کہ مملکت سعودی عرب او ر پاکستان کے درمیان ایک مضبوط اور تعلقات ابھی سے نہیں بلکہ جب سے پاکستان کی تأ سیس ہوئی تب سے استوار اور برقرار ہیں ، مملکت سعودیہ نےہر موڑ پر پاکستان کا ساتھ دیا ہے چاہےوہ جنگ ہو یا امن پاکستان کو جو حوادث پیش آئے ہیں پاکستان کی امداد میں سعودی حکومت اور عوام سر فہرست رہتےہیں۔

سعودی عوام کے سامنے جب پاکستان کا تذکرہ کیا جائے تو فوراً ان کے ذہن میں اسلام کا ذکر آتا ہے اور میں یہ بھی کہوں گا کہ بلکہ تکرارسے کہوں گا کہ ہم اور پاکستان ایک جان دو قالب کی مانندہیں۔

پاکستانی قوم کو جو بھی مصیبت اور دکھ پہنچتا ہےتو سعودی عوام ان کے درد میںبرابر شریک ہیںاور پاکستانی قوم کوئی خوشی اور مسرت پہنچے تو بھی سعودی عوام کی فرح وخوشی ہیں۔

اور یہ بھی کہوں تو بعید ازقیاس نہیں ہےکہ پورے عالم اسلامی کے لیے اگر کوئی تالاہوتو پاکستان ایک چابی ہے اور سعودی عرب دوسری چابی ہے۔

اور یہ بھی کہوں گا کہ پاکستانی قوم اور تمام دینی اور سیاسی جماعتیں سب کا ایک ہی مضبوط موقف ہیں سعودی عرب کےلیے جو کبھی بھی مملکت سعودی کو اکیلااور بے یار ومددگار نہیں چھوڑے گا، جیساکہ سعودی حکومت اور عوام نے بھی ہمیشہ پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور دیتا رہے گا ان شاء اللہ ، قطع نظر از بعض امور مجھے پورایقین ہےکہ پاکستانی قوم پاکستانی دینی جماعتیں سعودی عرب کو کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گی اور ہمیشہ ساتھ دیں گی اور نہ سعودی عرب پاکستان کو اکیلاچھوڑے گا۔

سوال: یمن کا قضیہ کیا ہے اس کے متعلق سعودیہ کا موقف کیا ہے اور پاکستان سے کیا توقعات ہیں سعودی عرب کی اور اس وقت پاکستان کےساتھ کیامعاملات چل رہے ہیں۔

جواب :پاکستانی حکومت نے مدد کا فیصلہ کرنے یا اس کی نوعیت متعین کرنے میں جو تاخیر کردی تو سعودی عرب او ر اس کے عرب اتحادیوں میں اس حوالے سے تشویش نہیں ہے۔

سب سے پہلی بات یہ ہےکہ ایسی کوئی تشویش نہیں ہے اور پاکستان کی حمایت میں تاخیر کوئی اثر اندا ز نہیں ہوگی کیونکہ سعودی اتحادیوں نے طریقہ ٔ کار وضع کرلیا ہے کہ وہ اسی پر عمل پیرا ہیں اور وہ اپنے مشن میں کامیاب بھی ہیں الحمدللہ

اس بات کی دلیل یہ ہے کہ ابھی حوثی باغیوں کی عسکری قوت کو بہت نقصان پہنچا یا جاچکا ہے اور حوثی باغی داد فریاد اور واویلا کرنے پر مجبور ہوئےہیں، کیونکہ انہیں اسی طاقت سے پالا پڑا ہے کہ اس سے مقابلہ کرنا ان کے بس میں نہیںاو ر دوسری بات یہ ہے کہ مجھے اس پر یقین ہےکہ پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام اور اس کی سیاسی جماعتیں کسی طور پر سعودی قوم کی مد د کرنے سے پیچھے نہیں رہیں گی ۔

سعودی بھی کسی حالت میںپاکستان کو نہیں بھو ل سکتے ہر گز نہیں، اور مجھے الحمدللہ بالکل یقین ہے کہ میں نے کل دیکھا ہے کہ اور میں سعودی قیادت کو یہ بتاؤں گا کہ پاکستان ایک مضبوط طاقت ہے اور اپنے بھائیوں کی مد د و نصرت کےلیے ضرور کھڑی ہوگی۔

سوال : سعودی عرب نے جو پاکستان نے تعاون طلب کیا ہےوہ صر ف مملکت سعودیہ کے دفاع کے لیےہے یا پاکستان سےیہ توقع کر رہے ہیں کہ وہ یمن کے اندر جنگ میں یا یمن کے اندر کاروائی کرنے میں بھی آپ کا ساتھ دے ؟

جواب :پہلی جو چیز ہے وہ یہ کہ ہم یمن کی جنگ میں داخل نہیں ہوئےاور کبھی ہو بھی نہیں سکتے کیونکہ یمن ہمارے ملک کا حصہ ہے اور ہم اس کا حصہ ہیں اور یمن ہمیں عزیز ہے اور ان شاء اللہ ہم یمن کی جنگ نہیں کریں گے، قیامت تک نہیں کریں گےکیونکہ وہ مملکت کا حصہ ہے مکینوں کے اعتبار سےیمنی لوگ ہماری مملکت میںرہ رہے ہیں وہاں ان کے ہمارے ساتھ کاروباری لین دین بہت پرانےوقتوں سے جاری ہیں کیونکہ یمن مملکت کا حصہ ہے اور یہ بغیر کسی احسان کے وہ ہمارا حصہ ہے اور ہمیں عزیز ہے ہماری یمن سے کوئی لڑائی نہیں ہے بس وہاں کچھ علاقےہیں جہاں حوثی رہتے ہیں ہم نے انہیں راستے اور ہسپتال بنا کے دیئے ہیں اور ہم نے انہیں مدارس اور زراعت کے لحاظ سےبھی مدد کی ہے ہمیں ان کے سا تھ معاملات کرنے میںکوئی حرج نہیں ہے کیونکہ یمن ہمار ا حصہ ہے اور اس کے ساتھ جنگ نہیں چاہتے۔

سوال: شیخ وزیر دفاع نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے یہ کہا کہ مملکت سعودیہ نے فوج بھی مانگی ہے اور نیول سپور ٹ بھی مانگی ہے اور ائر فورس کا بھی تو آپ پاکستانی قوم کو بتا سکتے ہیں کہ اسی وقت سعودی عرب کو پاکستان سے کس طرح کا تعاون چاہیے تینوں مسلح افواج کی کس قسم کی سپورٹ چاہیے اور کتنی ؟

جواب :یہ تفاصیل تو فوج کے پاس ہوتی ہیں ہمارے پاس نہیں کیونکہ یہ انہی کا کام ہے اور فوج کے کام کے بارے میںکوئی خبر نہیں دی جاتی کہ ابھی کیا کرنا ہے اور یہ راز تو صر ف اور صر ف فوج کے پاس ہوتے ہیںوہی اس کو اچھی طرح جانتےہیںاور مجھےیقین ہے کہ جمعرات کے دن دو ہفتے یا تین ہفتے پہلے قوۃ التحالف کا وجود نہیں تھا مگر ان کے پاس اس کا باقاعدہ پلان موجود تھا کہ کب شروع ہوگا اور کب ختم ہو گا لیکن حوثی اور جو لوگ باہر سے آئے ہوئے ہیںان کی طاقت توڑنے میںکافی حد تک کامیابی ملی ہے۔

سوال: پاکستانی وزیر اعظم اس سے پہلے پاکستان بھی آئےتھے تو کاروائی کے آغاز سے پہلے دیگر اتحادیوں کی طرح کیا پاکستان کو بھی سعودی عرب کی طرف سے اعتماد میںلیا گیاتھا؟

جواب :ہم ہمیشہ پاکستان کےساتھ مشاورت کرتے ہیںاور پاکستان بھی ہمارے ساتھ مشاورت کرتاہے پاکستان اور سعودیہ کے آپس میں گہرے تعلقات ہیںہم چھوٹے چھوٹے معاملات میں پاکستان سے مشاورت کرتے ہیں تو بڑے معاملات پر تو بالاولی مشاورت کریں گے، ہم ہر پاکستانی حکومت سے مضبوط تعلقات رکھتے ہیںہم پاکستان کے ہر حکمران کے ساتھ ہوتے ہیں۔

سوال :سعودی عرب کی توقعات یا مطالبات کے جواب میں ابھی تک حکومت پاکستان کا جواب کیا ہے ہاں میں یا نا میں ہےیا انتظار میں ہے؟

جواب : میں تفاصیل نہیں جانتا ابھی لیکن مجھے معلوم ہے کہ کچھ بھی ہو پاکستان سعودیہ کے ساتھ کھڑا ہوگا کیونکہ پاکستان اچھی طرح جانتا ہے کہ ایک ملک اکیلا دنیا میں جو اس کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے اور کھری ہے اور مستقل میں کھڑے رہینگے وہ ہے مملکت عربیہ سعودیہ اس کے دشمن میں اور مملکت سعودیہ پاکستان کے ساتھ کھڑے رہیںگے۔

سوال:پاکستان کے پارلیمنٹ کی قراداد کے بعد متحدہ عرب عمارات کے وزیر کا جو بیان آیا ہے اس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ پاکستان اپنے عرب دوستوں کی توقعات پر پورا نہیں اترااس بات سے آپ کتنا اتفاق کرتے ہیں ؟ متحدہ عرب امارات کے نائب وزیر کے شکوے سے اور کیا سعودی عرب میں بھی احساس ہے؟

جواب :سب سے پہلی بات یہ ہے کہ میں ایک پاکستانی کی طرح ہوں میں متاثر ہوتا ہوں جوکچھ یہاں ہورہا ہے جیسا کہ پاکستان میں رہتاہوں اور دیکھتاہوں کہ پورا پاکستان سعودیہ کے ساتھ ہے اس لیے میں کہتا ہوں کہ پاکستان سعودیہ کے ساتھ ضرور کھڑا ہوگااور دوسری بات جوکہ ضروری ہے کہ امارات کے وزیر جو نائب ہیں وہ اپنی جگہ ہے انہوں نے یہ بیان دیا ہے کہ وہ ایساہےکہ بھائی ہی اپنے بھائی پر غصہ کرتا ہے تاکہ دشمن اگر آپ پر کوئی غصہ ہوتا ہے تو مطلب ہے وہ آپ سے محبت کرتاہے اور چاہتا ہےکہ آپ کے ساتھ کھڑاہو۔

سوال: اس سے تو یہ واضح نہیں ہوتا کہ پاکستان عرب دوستوں کی توقعات پر پورا نہیں اترا اور آپ شاید یہ سفارتی آداب کا خیال رکھ رہے ہیں کہ سعودی عرب بھی اپنے پاکستان سے یہ توقعات نہیں رکھتا تھا۔

جواب : نہیں نرمی سے نہیں بلکہ سختی سے کیونکہ میں نے بات کی ہے ایک پاکستانی کی طرح میں پاکستان میںرہ رہاہوںنر می نہیں بلکہ مجھے غصہ ہے اور مجھے پکا یقین ہے کہ پاکستان ضرور کھڑا ہوگا کہ پاکستان کی مصلحت اور اسٹریٹجک طاقت اور اس کے لیے لازمی ہے کہ وہ سعودی طاقت اور خلیجی ممالک کے ساتھ کھڑا ہو۔

سوال: پاکستان ، ترکی یا کو ئی اور ملک ثالثی کر سکتاہے اور کرنے لگے تو مملکت سعودیہ اس کو ثالثی کا اختیا ر دینے کے لیے آمادہ ہے؟

جواب :صلح تو لڑے ہوئے گروہوں کے درمیان ہوتی ہے اور یہاں کوئی دو گروہ نہیں لڑ رہے بلکہ وہا ں ایک گروہ باغی ہے اور ہم ظالم کا ہاتھ روکیں گے اور پاکستان کے معاملے میں کوئی ثالثی کا کردار نہیں ادا کریگا کیونکہ یہ ایک مذاق کے مترادف ہےکیونکہ ثالثی کا کردار یہا ں پر ظلم کی مدد کرنےکے مترادف ہے ۔

سوال: آپ کا پیغام یہاں جیو پہ دیکھنے والوں کے نام اور پاکستانی بہن بھائیوں کے نا م۔

جواب :سب سے پہلی بات یہ ہےکہ میں جیو ٹیم کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے موقع دیا کہ میںدل سے دلوں تک بات پہنچاؤں، میں اس وقت دلوں سےمخاطب ہوں اور یہ پاکستانی کے دل کا اظہار ہے اور اس کو اللہ تعالی ہی جانتے ہیں کہ میں پاکستانیوں کے دلوں سے مخاطب ہوں اور لوگوں سے بات کرتے ہوئے ان کے چہروں کو دیکھتاہے جوکہ میرے دل میں ہےوہ ان کے دل میں ہے اور میرا خلاصہ کلام یہ ہے کہ مملکت سعودیہ ایک طاقتور ملک ہے اور ظالم کو روکنے کی طاقت رکھتی ہے اور مظلوم کو صنعا تک واپس پہنچانےپر قادر ہے اور وہ مظلوم واپس صنعا ء ضرور جائے گا اور میر اپیغام پاکستانیوں کے لیے ہےکہ یہ ایک شیعہ سنی کی لڑائی نہیں ہے ، ہم مذہب کا احترام کرتے ہیںاور ان کی موجودگی کی قدر کرتے ہیں اوریہ بھی ٹھیک نہیں کہ اس جنگ کو فرقہ واریت کی جنگ کا رنگ دےدیا جائے بلکہ یہ جنگ تو عرب اتحاد اور ظالم کے ہاتھ روکنے اور مظلوم کی مدد کرنے کی جنگ ہے اور سب باتوں کو مذاکرات سے واپس اسی طرح ٹھیک کرنا چاہتے ہیں جیسے پہلے تھیں۔

اور میرا پاکستانی معاشرے کو ایک پیغام ہے کہ تم مسلمان معاشرے کے افراد ہو اور ہمارے سگے بھائیوں کی طرح ہو اور ہمارے گھر کی طرح ہو اگر ہمارے درمیان کوئی ناراضگی ہوتو وہ ایک بھائی کی دوسرے بھائی کے لیے ناراضگی کی طرح ہوگی اور پاکستان ہمارے دلوں میں ویسے رہے گا جیسے پہلے تھا۔

اوریہ ہمارے قائدین کی وصیت ہےکہ پاکستانی ہمیں ہمارے دلوں کے نزدیک ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے