عہد رسالت میں دو بڑی طاقتیں ایك فارس جوکہ مجوسیت کی علمبردار تھی اور دوسری روم جوکہ مسیحی مذہب کی نام لیوا تھی ، ان دونوں ریاستوں میں رسول اکرم کی نبوت سے آٹھ برس پہلے یعنی 603ء میں خوفناک جنگوں کا آغاز ہوچکا تھاان جنگوں کی وجہ یہ تھی کہ سلطنت روم میں قیصر ماریس کا تختہ الٹ دیا گیا تھااور اس کی جگہ فوکاس سلطنت پر قابض ہوگیااور اس نے قیصر ماریس کے پانچوں بیٹوں کو اس کی آنکھوں کے سامنے ذبح کردیا اور ان کے سر کاٹ کر شہر کے بڑے بڑے چوراہوں میں لٹکا دئیے حتیٰ کہ ماریس کی بیوی اور شہزادیوں کو بھی انتہائی بے دردی سے قتل کردیا گیا، قیصر ماریس کی حکومت کے ختم ہونے پر ایرانی حکمران خسرو پرویز کو بہت زیادہ دکھ ہوااور اس نے فوکاس سے بدلہ لینے کی ٹھان لی اس طرح لڑائی کا ایک اور سلسلہ شروع ہوگیا ، خسرو پرویزکی فوج جنونیوں کا نہ رکنے والاطوفان بن گیا، فوکاس کو شکست دینے کے بعد دمشق تک جاپہنچا اور اسکے بعد مسیحوں کے مذہبی قبلے بیت المقدس پر بھی قبضہ کرلیااس فتح پر خسرو بہت خوش ہوا اس نے غرور اور تکبر میں آکر ہرقل کو ایک خط لکھا جس میں اس نے کہا: ’’سب خداؤں سے بڑے خدا ، ساری زمین کے تنہا مالک خسرو پر ویز سے اس کے کمینے اور بےعقل غلام (ہرقل) کے نام تو کہتا ہے کہ تجھے اپنے رب پر بھروسہ ہے ، کمینے ! تو پھر تیرے رب نے یروشلم کو میرے ہاتھ سے کیوں نہ بچایا؟‘‘۔  مشركین مكہ كی ہمدردیاں فارس كے ساتھ تھیں كیوں كہ دونوں غیر اللہ كے پجاری تھے، جب كہ مسلمانوں كی ہمدردیاں روم كی عیسائی حكومت كے ساتھ تھیں اس لیے كہ عیسائی بھی مسلمانوں كی طرح اہلِ كتاب تھے، وحی اور رسالت پر یقین ركھتے۔چونکہ اب فارس كی حكومت عیسائی حكومت پر غالب آگئی جس پر مشركوں كو خوشی اور مسلمانوں كو غم ہوا، اس موقع پر قرآنِ كریم كی یہ آیت نازل ہوئی۔ جن میں یہ پیشین گوئی كی گئی كہ (بِضعِ سِنِینَ)”کچھ سالوں“ كے اندر رومی پھر غالب آجائیں گے۔اور غالب مغلوب اور مغلوب غالب ہوجائیں گے بظاہر یہ پیشین گوئی ناممكن نظر آتی تھی، تاہم مسلمانوں كو اللہ كے اس فرمان كی وجہ سے یقین تھا كہ ا یسا ضرور ہو كر رہے گا اسی لیے سیدنا ابوبكرصدیق رضی اللہ عنہ نے ابو جہل سے یہ شرط باندھ لی (یہ اس وقت کی بات ہے جب شرط باندھنا جائز تھا)كہ رومی 5 سال كے اندر دوبارہ غالب آجائیں گے نبی كریم   كے علم میں یہ بات آئی تو فرمایا كہ (بضع) كا لفظ تین سے لے كر دس سے كم تك كے عدد كے لیے استعمال ہوتا ہے تم نے 5 سا ل كی مدت كم ركھی ہے، اس میں اضافہ كرلو چنانچہ آپ كی ہدایت كے مطابق سیدنا ابوبكرصدیق رضی اللہ عنہ  نے اس میں اضافہ كروالیا۔ اورپھر ایسا ہی ہوا رومی 9 سال كی مدت كے اندر اندر یعنی ساتویں سال عیسائی دوبارہ فارس پر غالب آگئے،جس سے یقینا مسلمانوں كو بڑی خوشی ہوئی۔ (ترمذی، تفسیر سورۃ روم )

پھر جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہو اتوامیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے یکے بعد دیگر فارس کے تمام فوجی مراکز کو سرنگوں کیا اور فارسی دار الحکومت مدائن کی طرف پیش قدمی کی دریائے دجلہ کی طغیانی اور تندو تیز موجیں بھی لشکر اسلام کا راستہ نہ روک سکیں اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے اللہ کا نام لیکر اپنے گھوڑے کو دریا میں ڈال دیا 16ہجری میں فارس فتح ہوا، پھر ایران پر مختلف ادوار میں حکومتیں بدلتی رہیں ، اموی ، عباسی خلفاء، قرامطہ ، فاطمی اور ساسانی آخر میں تذکرہ کرتے ہیں رضا شاہ پہلوی کا جس نے 1925ء میں قاچار خاندان کے آخری فرمانروا احمد شاہ قار چار کو معزول کرکے خاص طور پر بلائے گئے ایوان کے ذریعے نیا بادشاہ بن گیا۔

1970 کی بات ہے جب محمد رضا شاہ پہلوی نے امریکہ کی فرمانبرداری کرنا کم کردی تو امریکہ نے اس کی حکومت کو ختم کرنے اور اس کی جگہ کسی اور تابع فرماں کی تلاش شروع کردی ، اس دوران امریکی سی آئی اے نے اپنی ایک خفیہ رپورٹ میں سفارش کی کہ آیت اللہ خمینی جوکہ ایک با اثر شیعہ ذاکر ہے امریکہ کی توقعات پر پورا اتر سکتاہے اور پہلوی کا متبادل بھی ہو سکتا ہے اور اس خطہ میں امریکہ کے اسلام دشمن عزائم کی تکمیل کے لیے بہت زیادہ معاون ثابت ہوسکتاہے۔

انہی دنوں خمینی ملک بدر ہوکر فرانس میں پہنچا تو فرانس کے صدر کارٹر کے کہنے پر رمزے کلارک نے پیرس میں خمینی سے خفیہ ملاقاتیں کیں اور امریکہ کا پیغام پہنچایا تو خمینی نے کھلے عام امریکہ سے تعاون لینے پر مشکلات کا اظہار کیاالبتہ اگر امریکہ چاہے تو خفیہ طور پر ممکن ہے بظاہردونوں فریق ایک دوسرے کے خلاف مخالفت اور مخاصمت کا تاثر دیتے رہیں  تو امریکہ سے ہاتھ ملایا جاسکتاہے، مگر شرط یہ ہے کہ رضا پہلوی کی حکومت کو جتنی جلد ممکن ہو ختم کیا جائے۔چنانچہ 7 فروری 1979ء کو پہلوی کی حکومت کو چلتا کیا اور خمینی کے لیے ایرانی انقلاب کی راہ ہموار کی گئی پہلوی حکومت ختم ہوتے ہی امریکہ نے خمینی حکومت کو 24 گھنٹوں کے اندر تسلیم کرلیا۔

انقلاب سےلیکر آج تک ایرانی حکومت دنیا کو گمراہ کر رہی ہے کہ ظاہری طور پر ایک دوسرے پر سخت تنقید کی جاتی ہے خمینی امریکہ کو شیطان بزرگ کہتا اور امریکہ ایران کو بین الاقوامی دہشت گرد کے نام سے یاد کرتا لیکن یہ سب کچھ دونوں کی حکمت عملی کے عین مطابق ہےیہ ایرانی حکومت جب سے قائم ہوئی اسی وقت سے اس پالیسی پر گامزن ہے کہ ظاہری طور پر امریکہ ، اسرائیل مردہ باد کے نعرے لگائے جائیں اور اندرونِ خانہ دوستیاں مضبوط کی جائیں اسے نیویار ک ٹائمز کی خبر کے مطابق امریکہ نے ایران کو کئی بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنےکے لیے اسرائیل کو 1980 کی دہائی میںاجازت دی تھی۔

دوبئی کے نزدیک خلیج کے جزیرہ ابو موسی جس کا4/3 رقبہ  شارجہ کے زیر کنٹرول تھا پر مکمل قبضہ کرنے کے لیے مارچ 1992 میں امریکہ اور برطانیہ کی پشت پناہی سے ایرانی فوجیں چڑھ دوڑیں تھیں،ایک اخبار کےمطابق کم از کم 200 اسرائیلی کمپنیوں کے ساتھ ایران کے مضبوط تجارتی روابط ہیں جن میں سے اکثر تیل کمپنیاں ہیں جو ایران کے اندر توانائی کے شعبہ میں سرمایہ کاری رکرہی ہیں،اسرائیل میں ایرانی یہودیوں کی تعداد تقریباً20لاکھ کے قریب ہے ،تہران میں یہودی معبد خانوں کی تعداد 200 سے تجاوز کرچکی ہے جبکہ صرف تہران میں سنیوں کی تعداد 15لاکھ ہونے کے باوجود ایک سنی مسجد نہیں!!خاص ایرانی یہودیوں کےلیے اسرائیل کے اندر ریڈیو اسٹیشن ہیں جن میں سے ایک ’’radis‘‘ (راڈس ) نامی مشہور ریڈیواسٹیشن ہے بلکہ ان کے ہاں اور بھی ایرانی تعاون سے اس طرح کے ریڈیوا سٹیشن قائم کئے جاچکے ہیں، اسرائیل کےبعد ایران میں سب سے زیادہ یہودی آباد ہیں جنکی رشتہ داریاں ابھی تک اسرائیلی یہودیوں سے قائم ودائم ہیں۔

ایران اسرائیل کے ساتھ دشمنی کا ڈھونگ رچاکر کس طرح عرب ممالک کو دھوکہ دے رہا ہے حالانکہ ایران کے اندر یہودی 200 کمپنیوں کو سرمایہ کاری میں فوقیت دی جارہی ہے۔

ایران میں کوئی سنی رکن پارلیمنٹ نہیں بن سکتا جبکہ تین یہودی رکن پارلیمنٹ ہیں ایران کےدارالحکومت تہران میں مسلمانوں کو مسجد بنانے کی اجازت نہیں جبکہ اسی شہر میں 25 گرجا گھر 6 مندر 6 گردوارےاور20 آتش کدے ہیں ، اسکول اور کالج میں ان بچوں کو داخلہ نہیں ملتا جن کے نام میں ابوبکر ، عمر ، عثمان ، معاویہ ،عائشہ یاحفصہ آتا ہو، یہ ہے اسلامی انقلاب؟؟؟؟؟

ایران کے آرمی چیف کی سعودی عرب پر حملے کی دھمکی سے بلی تھیلی سے باہر آگئی ہےاور سعودی عرب کے حوثی باغیوں کےبارے میں خدشات بھی درست ثابت ہورہے ہیںاور ایران کا اصل چہرہ اور اس کے مکروہ عزائم دنیا کے سامنے عیاں ہوگئے، ایران حوثیوں کی سرپرستی کر کے عالم اسلام اور دنیا کا امن تباہ کررہا ہے۔

ایران جوکہ اسلامی انقلاب کا دعویدار ہے اس نے ہمیشہ غیر مسلم ممالک کا ساتھ دیا ہے مسلم ممالک خاص طور پر سنی مسلم ممالک کے ساتھ تعلقات خراب رکھے ہیں، پاکستان کی بھارت  کے ساتھ جب جنگ ہوئی تو ایران نےبھارت کا ساتھ دیا ، افغانستان میں مجاہدین کے بجائےامریکہ کی مدد کی اور سعودی عرب میں حج کے دنوں میں کئی بار وہاں کے حالات خراب کر کے بد امنی پیدا کرنے کی کوشش کی ۔

حالیہ چند سالوں میں عراق کی سنی حکومت کو ختم کرنے میں بھی ایران کا بہت بڑا ہاتھ ہےاور ایسے ہی شام میں فتنہ وفساد برپا کرنا وہاں کی شیعہ حکومت کا ساتھ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ ایران شیعہ حکومتوں کی مدد کر رہا ہے اور ایرانی وزیر خارجہ کے بیان (کہ عراق اور شام ہماری جیب میں ہیں اور اب سعودی عرب کی باری ہے) سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہےکہ ایران عالم اسلام میں اپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتا ہے، گویا ایران ظلم وبربریت میں ماضی کی تاریخ دہرانے جارہا ہے۔

دوسری طرف سعودی عرب ہے جس کی ابتداء بارہویں صدی ہجری میں خیر خواہی اور اصلاح معاشرے کے لیے ہوئی تاکہ سرزمین حجاز جوکہ جاہلیت کے اندھیروں میں ڈوب چکی تھی اور شرک وبدعت کی وہی کیفیت پیدا ہوچکی تھی جوکہ رسول اکرم کے مبعوث ہونے کے وقت تھی یہ خطہ مقدس ادوار جاہلیت کی تمام اقتصادی اخلاقی بیماریوں کی آماجگاہ بن چکا تھا مذہبی اقدار کو پاؤں تلے روندھا جارہا تھا اور زندگی کے تمام شعبوں میں فتنہ وفساد بر پا تھا اقتصادی ، اخلاقی ، معاشرتی ، سیاسی اور دینی امور میں غیر اسلامی طور طریقے جہاں ان کے خالص مذہبی امور کو دینی سرحدوں سے میلوں دور لے گئے تھے وہاں ان کے دنیوی معاملات میں اسلامی تعلیمات کی جھلک تک دکھائی نہ دیتی تھی، اسلام کی ترویج و اشاعت کا دائرہ کار نہایت مختصر اور محدود شکل اختیار کر چکا تھا عامۃ الناس اپنی خواہشات کے مطابق شرک اوہام پرستی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلاء ہوچکے تھے شرک ، قبر پرستی ، قبہ گری ، بدعات وخرافات کے مجموعے کا نام ہی اسلام تھا اور ان کے عقیدوں میں اس قدر تبدیلی آچکی تھی کہ وہ ان کو ہی دین کی اساس قرار دیتے ہوئے اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت سے انحراف کرتے ہوئے مشرکانہ کاموں میں لگے ہوئے تھے نفع ونقصان کی قدرت کا اعتقاد رکھتے ہوئے قبروں ، درختوں اور چٹانوں سے دعائیں کی جارہی تھیں اور ان سے مرادیں مانگی جارہی تھیں، ان پر چڑھاوے چڑھائے جارہے تھے، جانوروں کو ان کے نام پر ذبح کیا جارہا تھا تاکہ یہ ہم سے راضی ہوجائیں اور ہماری مرادیں پوری ہوجائیں لوگوں میں بد شگونی عام تھی اور وہ کاہنوں اور نجومیوں سے مشوروں میں مصروف رہتے تھے ’’ابلق‘‘ جو دور جاہلیت میں مشہور کاہن اور عراف سمجھا جاتا تھا کثرت کے ساتھ اس کے پیروکار نظر آنے لگے اور ان کاموں کو برا تصور کیا جانے لگا جو ان کی خواہشات کے موافق نہ ہوتے، گویا کہ انسانیت حیوانیت کے مناظر پیش کر رہی تھی، نفس امارہ کا غلبہ تھا اور عقل وخرد کی آنکھیں نور ھدایت کی بصیرت سے محروم ہوچکی تھی۔

حجاز کے شہر، دیہات اور شاہرائیں تک محفوظ نہ تھیں لوگ ڈاکووں لٹیروں اور چوروں کے رحم وکرم پر تھے، ڈاکو دن دیہاڑے لوگوں کو لوٹ لیتے تھے حتی کہ حجاج کرام، ضیوف الرحمٰن کے قافلوں کو بھی معاف نہ کیا جاتا تھا اور انہیں بھی لوٹ لیا جاتا حتی کہ قتل سے بھی دریغ نہ کیا جاتا اس ظلم و ناانصافی کےپیش نظر ہندوستان کے علماء کو حج کے موقوف ہونے کے فتوے صادر کرنے پڑے کیونکہ مکہ اور اس کے گرد ونواح میں ڈاکووں اور لٹیروں کا راج تھا ان حالات میں جب زندگی کے ہر شعبہ میں ابلیسی نظام مسلط اور رشد وھدایت کے تمام دروازے بند ہوتے جارہے تھے شرک اور وثنیت کے پنجے مضبوط ہورہے تھے بلکہ شرک کی پستی میں گرتے جارہے تھے۔

الفداء نامی بستی میں کھجور کا ایک درخت تھا جس کا نام فحال تھا اس کی زیارت اور عبادت کی غرض سے مردوزن دور دراز کا سفرطے کر کے آتے اور ایسے افعال کا ارتکاب کرتے جنہیں دین،عقل اور اخلاقی طور پر بھی پسند نہیں کیا جاتا جس انداز سے اللہ تبارک وتعالی کی عبادت بجا لانی چاہیے اسی انداز سے اس کے سامنے پیشانیوں کو رگڑتے، بیمار انسان شفایابی کے لیے ،تنگ روزی والے کسائش رزق اور مصیبت زدہ انسان مصائب کو دور کرنے کے لیے فحال کی زیارت کیلئے سرگرداں رہتے اس طرح بیسیوں جگہ پر شرک کا ارتکاب کیا جاتا تھا۔ ان حالات میںامت ایک مصلح کی آمد کا شدت سے انتظار کر رہی تو اللہ تعالیٰ نے اصلاح وتجدید کے لیےشیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کو چنا انہوں نے ان تمام خرافات،بدعات اور شرکیات کا قلع قمع کرنے کے لیے عَلم جہاد بلند کیا تو علماء ،طلباء اور مجاہدین جوق درجوق آپ کے حلقہ درس میں شامل ہونے لگے ۔ حاسدین اور قبرپرستوں نے آب پر طرح طرح کے ظلم کیے تاکہ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کو عقیدہ صحیحہ کی دعوت سے روکا جاسکے شیخ علیہ الرحمہ پر بار بار قاتلانہ حملے کیے گئے آپ کے بہت سے رفقاء ،علماء کرام کو قتل بھی کیاگیا ، اس لیے آپ کو بار بار ہجرت کرنا پڑی پہلے آپ اپنے آبائی علاقہ سے ہجرت کرکے عیینہ پہنچے اور وہاں کے حاکم عثمان بن معمرنے آپ کو مکمل تعاون کا بھرپور یقین دلایا مگر یہاں بھی لوگ شرک وبدعت اورخرافات میں مبتلا تھے ۔عیینہ میں بھی بعض درختوں کی تعظیم کی جاتی تھی جبیلہ میں ایک قبر کو زید بن خطاب رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرکے اس پر قبہ تعمیر کیاگیا تھا جس پر سرعام شرک کیا جاتا تھا۔ شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کو یہاں چنددن قیام کرنے کے بعد بعض ناگزیر حالات کی بناء پر یہاں سے بھی ہجرت کرنا پڑی اور یہاںسے ہجرت کرکے آپ درعیہ پہنچے جہاںدرعیہ کے حاکم محمد بن سعود نے گرم جوشی سے آپ کا استقبال کیا اور برملا اظہار کیا اس عظیم انسان کا ہمارے شہر کو مسکن بنانا ہمارے لیےباعث صدافتخار ہے شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ نے والی درعیہ کی معاونت پر ان کا شکریہ ادا کیا اور نصیحت کی جو شخص لا الہ الا اللہ کے ساتھ اپنا تعلق جوڑ لیتا ہے اس کے مطابق عمل کرتا رہتا ہے تو اس کی حکومت عدل وانصاف کا گہوارہ بن جاتی ہے شیخ محمد بن عبد الوہاب رحمہ اللہ کی باتوں کا والی درعیہ محمد بن سعود پر بہت گہرا اثر ہوا اور ان کا چہرہ خوشی سے لہلہا اٹھا اور کہا ہمیں چاہیے کہ ہم دونوں مل کر بدعات وخرافات اور گمراہی کےسوتوں کو بندکریں اور توحید وسنت کے پرچم کو تھام کر اس کی اشاعت اور احیاء کے لیے وقف ہوجائیں جہاد فی سبیل اللہ اور علوم اسلامیہ کی ترویج واشاعت کے لیے کمر بستہ ہوجائیں تاکہ جہالت کی تاریکی اور اس کے مضمرات سے معاشرہ کو پاک وصاف کر دیا جائے۔

اس کے بعد محمد بن سعود ،شیخ محمد بن عبد الوہاب کے ہاتھ پر بیعت کرتے ہوئے اسلامی شریعت کے قیام،جہاد فی سبیل اللہ ،امربالمعروف ونہی عن المنکر ،توحید وسنت کے احیاء کا عہد کرتے ہیں۔

ان حالات کے تناظر میں دیکھا جائے تو آل سعود اور امام محمد بن عبدالوھاب رحمہم اللہ کی مساعیٔ جلیلہ یقیناً کسی روشنی کے مینارے سے کم نہ تھیں جن سے آج تک دنیا بھر کے مسلمان استفادہ کر رہے ہیں اور امن و سلامتی کے ساتھ فریضہ اسلام کی ادائیگی کا شرف حاصل کیے ہوئے ہیں، اٰل سعود نے بلاد حرمین کو امن کا گہوارہ بنا دیا آج ہر آنے جانے والا امن وسلامتی کے ساتھ سفر کرتاہے اس کے علاوہ قرآن کی نشر واشاعت اور اسلامی کتب کی طباعت کے کام کا عظیم بیڑہ اٹھارکھاہے، صرف قرآن مجیدکی طباعت ہی کو  لیا جائے کہ دنیا کی44 زندہ زبانوں میں تراجم کے ساتھ طباعت ہورہی ہے، سعودی عرب کے عالم اسلام پر عموماً اور پاکستان پر خصوصاً بے شمار احسانات ہیں ، ہر معاملے میں سعودیہ نے پاکستان کا ساتھ دیا ہےجیساکہ جنگوں میں مالی تعاون دل کھول کرکیا، پاک بھارت جنگ میں یہاں تک کہہ دیا کہ پاکستان جتنا اسلحہ خریدے بل ہمارے سفارتخانے سے وصول کرلے ان باتوں سے اندازہ لگایا جاسکتاہےکہ سعودیہ پاکستان کا ہمدرد ہی نہیں بلکہ حقیقی بھائی ہے اور بطور خاص جب پاکستان 1998ء میں ایٹمی دھماکے کے کامیاب تجربہ سے عالم اسلام کا واحد ایٹمی ملک بنا تو اس وقت تیل کی فراہمی کی صورت میں 5.5 ارب ڈالر کی مدد کی، اور اس کے علاوہ ہر مشکل گھڑی میں سعودیہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہوتاہے۔

اہل اسلام کو ان شیطان صفت لوگوں کے مکر سے خبردار رہنے کی ضرورت ہے جو اسلام کے لبادے میں کفر کی مدد کر کے حرمین کے امن و امان کو تہہ و بالا کرنے کے ناپاک عزائم کے ساتھ سعودی حکومت کی جڑوں کو کھوکلا کرنے میں مصروف ہیں اللہ بلاد حرمین اور اس کے خادمین یعنی آل سعود کی حفاظت فرمائے۔آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے