یمن میں حوثی فسادات ! اسباب، اهداف اور حل

پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں جو آسمان و زمین کا پروردگار ہے، وہ جسے چاہے معزز بنائے، اور جسے چاہے ذلیل کر دے، وہ فیصلہ کر دے تو کوئی اس کے فیصلے کو چیلنج نہیں کر سکتا، جو اللہ چاہے وہ ہو جاتا ہے، اور جو نہ چاہے وہ نہیں ہو سکتا، وہ تکالیف میں مبتلا اس لیے کرتا ہے کہ خوشی میں شکر کرنے والوں کے اجر میں اضافہ ہو، اور تکالیف پر صبر کرنے والوں کو عظیم اجر سے نوازے، مسلسل عنایتوں پر میں اپنے رب کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں ، میں یہ گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ یکتا ہے ، وہی عظمت و کبریا ئی کا مالک ہے، اسی کے اچھے اچھے نام ، اور بلند صفات ہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی سیدنا محمد اللہ کے بندے اور رسول ہیں، اللہ تعالی نے آپکو روشنی و نور دیکر مبعوث فرمایا، یا اللہ! اپنے بندے ، اور رسول محمد ﷺ، انکی اولاد اور متقی و نیکو کار صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر اپنی رحمتیں ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

سچے دل سے اللہ کی عبادت کرتے ہوئے تقوی الہی اختیار کرو، مخلوق کیساتھ شریعتِ الہی کے مطابق معاملات کرو تو کامیاب ہو جاؤ گے، اور ان لوگوں کے راستے سے بچ جاؤ گے جن پر غضب الہی ہوا، اور جو گمراہ ہوئے۔

اللہ کے بندو! معرکہ خیر و شر ، حق و باطل ازل سے جاری ہے، چنانچہ جب اللہ تعالی نے آدم علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو اُنہیں ابلیس کے ذریعے آزمایا، تا کہ اولیاء اللہ کی دنیا و آخرت میں عزت ہو، اور اللہ کے دشمنوں کی دنیا و آخرت میں رسوائی ہو، فرمانِ باری تعالی ہے:

أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا وَكَانُوا يَتَّقُونَ لَهُمُ الْبُشْرَى فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَفِي الْآخِرَةِ لَا تَبْدِيلَ لِكَلِمَاتِ اللهِ ذَلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ

غور سے سنو! یقیناً اللہ کے دوستوں پر، نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گےجو لوگ ایمان لائے، اور تقوی پر قائم رہے انہی کیلئے دنیاوی اور اخروی زندگی میں خوشخبری ہے، اللہ تعالی کی باتوں کو کوئی تبدیل نہیں کر سکتا۔ یہی عظیم کامیابی ہے۔[يونس : 6264]

اللہ تعالی نے شیطانی کی پیروی کے بارے میں فرمایا:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يُجَادِلُ فِي اللهِ بِغَيْرِ عِلْمٍ وَيَتَّبِعُ كُلَّ شَيْطَانٍ مَرِيدكُتِبَ عَلَيْهِ أَنَّهُ مَنْ تَوَلَّاهُ فَأَنَّهُ يُضِلُّهُ وَيَهْدِيهِ إِلَى عَذَابِ السَّعِير (الحج : 3 – 4)

بعض لوگ ایسے ہیں جو علم کے بغیر اللہ کے بارے میں بحثیں کرتے ہیں اور ہر سرکش شیطان کی پیروی کرنے لگتے ہیں ایسے لوگوں کی قسمت میں یہ لکھ دیا گیا ہے کہ جو شیطان کو اپنا دوست بنائے گا، وہ اسے گمراہ کر کے چھوڑے گا اور جہنم کے عذاب کی راہ دکھلائے گا

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَنْ يَتَّخِذِ الشَّيْطَانَ وَلِيًّا مِنْ دُونِ اللهِ فَقَدْ خَسِرَ خُسْرَانًا مُبِينًا يَعِدُهُمْ وَيُمَنِّيهِمْ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا أُولٰٓئِكَ مَأْوَاهُمْ جَهَنَّمُ وَلَا يَجِدُونَ عَنْهَا مَحِيْصًا (النساء : 119 – 121)

اور جس شخص نے اللہ کو چھوڑ کر شیطان کو اپنا سرپرست بنا لیا اس نے صریح نقصان اٹھایا شیطان ان سے وعدہ کرتا اور امیدیں دلاتا ہے۔ اور جو وعدے بھی شیطان انہیں دیتا ہے وہ فریب کے سوا کچھ نہیں ہوتے ایسے لوگوں کا ٹھکانا جہنم ہے جس سے نجات کی وہ کوئی صورت نہ پائیں گے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

اسْتَحْوَذَ عَلَيْهِمُ الشَّيْطَانُ فَأَنْسَاهُمْ ذِكْرَ اللهِ أُولَئِكَ حِزْبُ الشَّيْطَانِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ الشَّيْطَانِ هُمُ الْخَاسِرُونَ ( المجادلۃ : 19)

شیطان ان پر مسلط ہو گیا اُس نے اِنہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے۔ یہی لوگ شیطان کی جماعت ہیں۔ سن لو! شیطان کی جماعت ہی خسارہ اٹھانے والی ہے۔

اور اللہ تبارک و تعالی نے اپنی رحمت، حکمت، علم، قدرت، عدل، تدبیر اور قضا و قدر کے تحت یہ چاہا کہ زمین پر حق و اہل حق کے ذریعے اصلاح فرمائے، ایمان و اہل ایمان ، اور اسلام کے غلبہ کے ذریعے زمین سے شر و فساد کا خاتمہ فرمائے، اہل توحید کی کڑک سے باطل کو ملیامیٹ کر دے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَفَسَدَتِ الْأَرْضُ وَلَكِنَّ اللَّهَ ذُو فَضْلٍ عَلَى الْعَالَمِينَ (البقرة : 251)

اگر اللہ تعالی بعض لوگوں کو بعض سے نہ ہٹاتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالی دنیا والوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے۔

مفسرین اس کے بارے میں کہتے ہیں: اگر اللہ تعالی فساد اور شرک کو حق و اہل حق کے غلبہ کے ذریعے ختم نہ فرماتا تو پوری زمین شرک، ظلم، زیادتی، خون خرابے، آبرو ریزی، خوف وہراس، بھوک پیاس سے بھر جاتی، مساجد مسمار کر دی جاتیں، اور شرعی احکام معطل ہو کر رہ جاتے، اس کے علاوہ بھی بہت سی خرابیاں پیدا ہوتیں۔

اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَلَوْلَا دَفْعُ اللهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَهُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَبِيَعٌ وَصَلَوَاتٌ وَمَسَاجِدُ يُذْكَرُ فِيهَا اسْمُ اللهِ كَثِيرًا وَلَيَنْصُرَنَّ اللهُ مَنْ يَنْصُرُهُ إِنَّ اللهَ لَقَوِيٌّ عَزِيزٌ الَّذِينَ إِنْ مَكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنْكَرِ وَلِلهِ عَاقِبَةُ الْأُمُورِ (الحج : 40 – 41)

اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے کے ذریعے دور نہ کرے تو خانقاہیں ، گرجے ، معبد خانے اور مسجدیں جن میں اللہ کا کثرت سے نام لیا جاتا ہے سب مسمار کر دی جائیں۔ اللہ ضرور ان لوگوں کی مدد کرے گا جو اس کی مدد کریں گے اللہ بہت قوت والا اور غالب ہے یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰۃ دیں گے ، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے منع کریں گے اور تمام معاملات کا انجام کار اللہ کے ہاتھ میں ہے ۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَلَوْ يَشَاءُ اللهُ لَانْتَصَرَ مِنْهُمْ وَلَكِنْ لِيَبْلُوَ بَعْضَكُمْ بِبَعْضٍ (محمد : 4)

اگر اللہ تعالی چاہے تو ان سے خود ہی انتقام لے لے، لیکن وہ تمہیں ایک دوسرے کیساتھ آزمانا چاہتا ہے۔

اللہ کے بندو! مخلوق کے بارے میں مخصوص سنتِ الہی ہے، جس میں تغیر و تبدل کرنے کی کوئی طاقت نہیں رکھتا، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَهَلْ يَنْظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ فَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَبْدِيلًا وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّتِ اللهِ تَحْوِيلًا (فاطر : 43)

’’کیا یہ صرف اس سنت الٰہی کا انتظار کر رہے ہیں جو پہلے لوگوں میں جاری رہی۔ اللہ کی اس سنت میں آپ نہ تو کبھی کوئی تبدیلی پائیں گے اور نہ تغیر ‘‘

فرمانِ باری تعالی ہے:

سُنَّةَ اللهِ الَّتِي قَدْ خَلَتْ مِنْ قَبْلُ وَلَنْ تَجِدَ لِسُنَّةِ اللهِ تَبْدِيلًا (الفتح : 23)

یہی اللہ کی سنت ہے جو پہلے لوگوں میں جاری رہی ہے اور آپ اللہ کی سنت میں کبھی کوئی تبدیلی نہ پائیں گے

فرمانِ باری تعالی ہے:

سُنَّةَ مَنْ قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِنْ رُسُلِنَا وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا (الإسراء : 77)

’’ہم نے آپ سے پہلے جو رسول بھیجے ان میں یہی ہمارا دستور رہا ہے اور ہمارے اس قانون میں آپ تفاوت نہیں پائیں گے‘‘

اور ثابت شدہ سنت الہی یہ ہے کہ: جو شخص اللہ کی اطاعت، غلبہ دین الہی کیلئے جد و جہد ، مظلوم کی مدد ، حق بات اور اہل حق کی تائید کرے تو اللہ تعالی بھی اس کی مدد و نصرت فرماتا ہے، اور جو شخص دین الہی سے دشمنی روا رکھے، اولیاء اللہ کی اہانت کرے، تکبر، سرکشی اور بغاوت کرے، حرام کاموں کو معمولی سمجھے، جرائم کرے، تو اللہ تعالی اسے ذلیل و رسوا کریگا، اور اسے دوسروں کیلئے نشان عبرت بنا دے گا، فرمانِ باری تعالی ہے:

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ تَنْصُرُوا اللهَ يَنْصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ وَالَّذِينَ كَفَرُوا فَتَعْسًا لَهُمْ وَأَضَلَّ أَعْمَالَهُم (محمد : 7 – 8)

اے ایمان والو! اگر تم اللہ کی مدد کرو، تو اللہ تمہاری مدد کریگا، اور تمہیں ثابت قدم بنائے گا اور جو لوگ مدد کرنے سے انکار کریں تو ان کیلئے تباہی ہے، اللہ انکے اعمال ضائع کر دے گا۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللهَ وَرَسُولَهُ كُبِتُوْا كَمَا كُبِتَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ (المجادلۃ : 5)

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتے ہیں وہ اسی طرح ذلیل کیے جائیں گے جس طرح ان سے پہلے لوگ ذلیل کیے گئے۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ الَّذِينَ يُحَادُّونَ اللهَ وَرَسُولَهُ أُولَئِكَ فِي الْأَذَلِّين (المجادلۃ: 20)

جو لوگ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کریں، تو یہی لوگ ذلیل لوگوں میں ہونگے ۔

ہمارے پیارے پڑوسی ملک یمن کے حکمرانوں پر شروع سے لیکر اب تک عدل پر مبنی سنت الہی جاری و ساری رہی ہے، جیسے کہ دیگر علاقوں کا حال ہے، چنانچہ جس حکمران نے اہل یمن کیساتھ عدل اور اچھا برتاؤ کیا تو اسے تمام خوشیاں نصیب ہوئیں، اور جس نے ظلم و زیادتی کی اور اہل یمن کو ذلیل و رسوا کیا تو اللہ تعالی نے اسے ذلیل و رسوا فرمایا۔

یمن میں اسلام ہجرت کے ابتدائی ایام میں بغیر کسی جنگ کے ہی داخل ہو گیا تھا، کیونکہ اہل یمن کے ہاں ایمان محبوب چیز تھی، اس بابرکت علاقے سے لوگوں کے وفود اطاعت گزار بن کر نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے، تو آپ انہیں اسلام کی تعلیمات سکھاتے۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی جانب اس عظیم دین کے احکامات سکھانے کیلئے اپنے گورنروں کو ارسال فرمایا، انہوں نے ان پر شریعت کا نفاذ بھی کیا، چنانچہ اس سلسلے میں آپ نے امیر المؤمنین علی بن ابی طالب، ابو موسی اشعری، معاذ بن جبل، خالد بن ولید اور دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو ارسال فرمایا۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل یمن کے ایمان کی وجہ سےتعریف بھی فرمائی، جس کی وجہ وہی تعلیمات تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے انہیں سکھائیں تھیں ، آپ نے فرمایا: (ایمان یمنی ہے، اور حکمت بھی یمنی ہے) مسلم

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’تمہارے پاس اہل یمن آئے ہیں، جن کے دل انتہائی رقیق اور نرم ہیں‘‘

اہل یمن نے اسلامی فتوحات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، جسے تاریخ نے محفوظ بھی کیا ، اس پیارے علاقے میں صحابہ کرام کے بعد مختلف حکومتیں اور حکمران آئے، چنانچہ جس حکمران کا طرزِ حکمرانی اچھا تھا، اور اس نے دین و عدل قائم کیا ، تو وہ خود بھی سعادت مند رہا اور اس کی رعایا بھی خوشحال رہی، اچھے لفظوں میں اسے یاد کیا گیا، اس کیلئے کی جانیوالی دعاؤں سے اسے فائدہ بھی ہوا۔

اور جس حکمران کا طرزِ حکمرانی برا تھا، وہ اپنی رعایا کے ہاں بد بخت اور ناپسند ٹھہرا، اسے قبر میں بھی حسرتوں کا سامنا کرنا پڑا، اور تاریخ نے بھی اسے ذلیل و رسوا کر دیا، اسے دنیا نے کوئی فائدہ نہیں پہنچایا، بلکہ اپنی دنیا سمیت آخرت بھی تباہ کر بیٹھا۔

پیارے یمن سے متعلق اللہ تعالی کی یہ رحمت اور سنت الٰہیہ ہے کہ جس نے بھی اہل یمن کے دلوں سے صحابہ کرام سے حاصل کردہ عقیدے کو تبدیل یا مٹانے کی کوشش کی تو اللہ تعالی نے اسے جلد ہی درد ناک، المناک، رسوا کن سزا سے دوچار کیا، آنیوالی نسلوں کیلئے اسے نشان عبرت بنا یا، پھر تاریخ نے بھی اس کی خوب تحقیر کرتے ہوئے اسود عنسی جیسے نبوت کے جھوٹے دعویداروں کی صورت میں یاد رکھا، اسو د عنسی کی شر انگیزی اتنی بڑھی کہ اس نے خوب خونریزی کی ، عورتوں کو قیدی بنایا، اور لوگوں کو زندہ جلا دیا، جن میں ابو مسلم خولانی اور عبداللہ بن ثوب تھے-اللہ ان سے راضی ہو-، لیکن ان کیلئے آگ سلامتی والی ٹھنڈی ہوگئی، تاہم اسود عنسی بھی جلد ہی قتل ہوگیا، اسے ایک یمنی شخص نے قتل کیا تھا، اس کے بعد مسلمانوں نے عہدی صدیقی میں اسود عنسی کے باقی ماندہ لوگوں کا پیچھا کیا، اور ظالم لوگوں کی جڑیں تک کاٹ دی گئی، اور تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کیلئے ہیں۔

پھر یمن کی برکات اسود عنسی اور اس کے پیروکاروں کے قتل ہونے کے بعد واپس لوٹ آئیں ۔

اس کے بعد تیسری صدی ہجری کے آخر میں علی بن فضل جدنی، حمیری، باطنی اور قرمطی نے سر اٹھایا، اس نے کم عقل ، اوباش ، اور کمینے لوگوں کو جمع کیا، اور شیعیت کا لبادہ اوڑھ لیا، یہ علی بن فضل سب سے بڑا کافر شخص تھا، اس نے تمام حرام کردہ امور کو حلال قرار دیا، نمازوں کا تصور بھی ختم کر دیا، مزید برآں قتل و غارت کابازار گرم کرتے ہوئے یمن کے کافی علاقوں پر قابض ہوگیا، اس شخص نے قرآن کی بے حرمتی کی، خوف و ہراس پھیلایا، اس فتنے میں قتل ہونے والوں کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا، آخر کار یمنی قبائل نے اسکا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور آخر کار اسے پکڑ کر درد ناک انداز میں قتل کر دیا، پھر انہوں نے اس کے چیلوں کو چن چن کر قتل کیا، اس کے بعد یمن میں برکت، امن و امان، اور استحکام دوبارہ قائم ہوا۔

ان تاریخی واقعات سے نصیحت پکڑنے والے کہاں ہیں؟ فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنَّ رَبَّكَ لَبِالْمِرْصَادِ (الفجر : 14)

بیشک تیرا رب گھات میں ہے۔

اسی طرح فرمایا:

إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ (البروج : 12)

بیشک تیرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے۔

اور پیارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’اللہ تعالی ظالم کو مہلت دیتا ہے، پھر جب پکڑتا ہے تو اسے بالکل موقع نہیں دیتا‘‘

قانون الہی سے نصیحت اور عبرت حاصل کرنے والے کہاں ہیں؟! یہ رذیل ترین جماعت یمن کا نظریاتی تشخص ، دین اور اخلاقی اقدار تبدیل کرنا چاہتی ہے، یہ جماعت معاشرے کے معزز لوگوں کو ذلیل اور دینی غیرت رکھنے والوں کو رسوا کرنا چاہتی ہے، یہ جماعت اپنے ہی ملک کیلئے ہر قسم کے دھوکے، خیانت، اور پست ذہنی کیلئے مشہور ہو چکی ہے۔

اندرون اور بیرون یمن میں اس جماعت کے پیچھے کون ہے؟ یہ سب کچھ تفصیلی طور پر سب کو علم ہو چکا ہے، ان کے اہداف اور مقاصد کسی بیان کے محتاج نہیں ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے:

قَدْ بَدَتِ الْبَغْضَاءُ مِنْ أَفْوَاهِهِمْ وَمَا تُخْفِي صُدُورُهُمْ أَكْبَرُ قَدْ بَيَّنَّا لَكُمُ الْآيَاتِ إِنْ كُنْتُمْ تَعْقِلُونَ ( آل عمران : 118)

’’ان کی عداوت ان کی زبان سے ظاہر ہو چکی ہے اور جو ان کے سینوں میں پوشیدہ ہے وہ اس سے کہیں بڑھ کر ہے۔ اگر تم عقل رکھتے ہو تو ہم نے تمہارے لیے آیات بیان کر دی ہیں‘‘

فرمانِ باری تعالی ہے:

إِنْ يَثْقَفُوكُمْ يَكُونُوا لَكُمْ أَعْدَاءً وَيَبْسُطُوا إِلَيْكُمْ أَيْدِيَهُمْ وَأَلْسِنَتَهُمْ بِالسُّوءِ وَوَدُّوا لَوْ تَكْفُرُونَ (الممتحنة : 2)

’’ اگر وہ تمہیں پالیں تو تمہارے دشمن بن جائیں اور برے ارادوں سے تم پر دست و زبان درازی کریں ۔ اور یہ چاہیں کہ تم دوبارہ کافر بن جاؤ ‘‘

یہ گمراہ جماعت عالمی امن و سلامتی کیلئے بڑا خطرہ بن چکی ہے، اور علاقائی امن و امان ، اور استحکام کیلئے سنگین خطرہ بن گئی ہے، بلکہ پڑوسی ممالک پر حملے کی دھمکیاں بھی دے رہی ہے۔

جب خادم حرمین شریفین شاہ سلمان بن عبد العزیز حفظہ اللہ نے اس فسادی گروہ کے سنگین جرائم کو دیکھا، کہ وہ ظلم و زیادتی سے باز نہیں آ رہے، اور یمن کی جمہوری حکومت نے اپنے پڑوسی اور دیگر اتحادی ممالک سے اپنا کردار ادا کرنے کا مطالبہ کیا، تا کہ اس فسادی گروہ کے بڑھتے ہوئے شر کو روکیں، علاقائی و عالمی سطح پر تسلیم شدہ اور آئینی حکومت کا تختہ الٹنے کی کوششوں کو ناکام بنائیں، مملکت سعودی عرب نے ان کی آواز پر لبیک کہا، اور قابل ستائش و شکر اقدامات اٹھائے، چنانچہ مملکت سعودی عرب نے اپنے پڑوسی مظلوم ملک کی مدد کی، اس کی حکومت پر شب خون مارا گیا، اور حکمرانوں کی صلاحیتیں چھین لی گئیں، عوام کے حقوق سلب کر لیے گئے۔

خادم حرمین شریفین شاہ سلمان حفظہ اللہ نے اللہ کی توفیق سے اپنے درست فیصلے کے ذریعے پڑوسی مظلوم ملک کو ٹوٹنے سے بچایا، اور فیصلے کے نفاذ کیلئے اللہ کی طرف عزم و ہمت سے شامل حال تھے۔

ایک قدیم شاعر کی بات اس صورت حال پر بالکل صادق آتی ہے:

وَقَلِّدُوا أَمْرَكُمْ لِلَّهِ دَرُّكُمُ
رَحْبَ الذِّرَاعِ بِأَمْرِ الْحَرْبِ مُضْطَلِعَا

’’اے میری قوم کے لوگو تمہارا بھلا ہو! ایسے شخص کو اپنا سربراہ بناؤ جو کشادہ دل اور حرب و ضرب کا ماہر ہو‘‘

لاَ يَطْعَمُ النَّومَ إِلاَّ رَيْثَ يَبْعَثُهُ
هَمٌّ يَكَادُ حَشَاهُ يَقْضِبُ الضِّلَعَا

’’وہ بالکل تھوڑی سی دیر ہی سستائے لیکن اسے اپنی قوم کا پسلی توڑ غم اسے آرام نہ کرنے دے‘‘

لاَ مُتْرَفًا إِنْ رَخَاءُ الدَّهْرِ سَاعَدَهُ
وَلاَ إِذَا عَضَّ مَكُرُوهٌ بِهِ خَشَعَا

’’مالدار ہونے کے باوجود عیش پرست نہ ہو، اور نہ ہی پریشانی و خوف میں گھبرانے والا ہو‘‘

اور شاعر بحتری نے کہا تھا:

قَلْبٌ، يُطِلُّ على أفكارِهِ، وَيَدٌ تُمضِي الأمورَ، وَنَفسٌ لهوُها التّعبُ

اس کا دل تدابیر کی بارش برساتا ہے، اس کے ہاتھ کام تمام کرتے ہیں، اس کی جان تھکاوٹ میں ہی راحت پاتی ہے۔

چنانچہ اس فسادی گروہ کے بارے میں ’’فیصلہ کن طوفان‘‘ کا فیصلہ بالکل صحیح وقت پر کیا گیا ، امت مسلمہ کو اس کاروائی کی اشد ضرورت تھی۔

لیکن کچھ مفاد پرست افراد کہتے ہیں کہ یہ زیدی فرقے کے خلاف جنگ ہے، اصل میں یہ لوگ حقائق سے نابلد ہیں، اور تاریخ ان کے اس بیان کو غلط ثابت کرتی ہے، کیونکہ زیدی جماعت سے تعلق رکھنے والے لوگ مملکت سعودی عرب کے پڑوس میں خوب امن و امان اور خوشحالی کے ساتھ زندگی گزارتے رہے ہیں، بلکہ انہوں نے اپنے ہم وطنوں کے ساتھ مل کر پر تعیش اور پر امن زندگی گزاری ، نیز اب بھی بہت سے زیدی لوگ خیر و عافیت کیساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔

یہ ملک صرف ان لوگوں کیساتھ جنگ لڑ رہا ہے جو فسادی، مجرم، تخریب کار ہیں، ایمان اور وطن کیلئے مخلص نہیں ہیں، جبکہ ایمان اور وطن کیلئے ہر مخلص شخص فسادی خیانت کاروں سے اعلان جنگ کرتا ہی رہتا ہے۔

بالکل اسی طرح کیا اس ملک کی تکفیریوں، دھماکے کرنے والوں، اور دہشت گردوں کے خلاف جنگ کسی خاص گروہ کیخلاف جنگ ہے؟ بلکہ فسادیوں سے انکی جنگ ہے، چاہے وہ کوئی بھی ہوں!

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:

’’میرے دوست صرف متقی لوگ ہی ہیں‘‘

اور “فیصلہ کن طوفان” کی شکل میں عسکری اتحاد یمن کی آئینی حکومت اور امن و امان کو قائم کرنے کیلئے وجود میں آیا ہے، نیز اس کی وجہ سے اہل یمن کو صحابہ کرام کی جانب سے ملے ہوئے صحیح اسلامی عقیدے کو غلط اور تباہ کن نظریات و افکار سے تحفظ بھی ملے گا ۔

یمن کی موجودہ صورت حال انتہائی کرب اور المناک ہے، ان حالات سے نجات سب سے پہلے اللہ کی مدد اور اس کے بعد باہمی اتحاد کے ذریعے ہی ممکن ہے، جس میں باطل کے سامنے حق کیلئے ڈٹ کر کھڑا ہونا پڑے گا، اور کتاب و سنت کو مضبوطی سے تھامنا ہوگا، اور حقیقی رسوائی اس مرحلے میں ناکامی کی شکل میں ہوگی۔

اہل یمن کیلئے پیغام یہ ہے کہ: اپنی آئینی اور علاقائی و عالمی سطح پر تسلیم شدہ حکومت کے دست راست بنیں، دانشور ، اور مفکرین اس فتنے کو بھجانے کیلئے سر توڑ کوشش کریں، اور جس وقت سب ایک پلیٹ فارم پر جمع ہو جائیں ، فتنے بھسم ہو جائیں تو حکومت و عوام باہمی تعاون کے ذریعے تعمیر و ترقی اور خوشحالی کیلئے ایک دوسرے کا تعاون کریں، جس کے ذریعے اسلام اور ملک کا بول بالا ہو، امن و امان قائم ہو، اور استحکام پیدا ہو۔

اور اگر پوری یمنی قوم اپنی حکومت کے ساتھ اس گمراہ فرقے کے مقابلے کیلئے ایک ہی جگہ جمع نہ ہوئی تو حالات مزید بگڑ جائیں گے، ان کی پشت پناہی کرنے والوں کا پیچھا نہ کیا تو زندگی اتنی بد مزہ ہو جائے گی کہ برداشت کرنا مشکل ہو جائے گا۔

ان کی پشت پناہی کرنے والے اپنے ہمنوا پیدا کرنے کیلئے دولت کی ریل پیل کر رہے ہیں، عنقریب انکا یہ اقدام دولت وصول کرنے والوں کی نسلوں کیلئے بھی ذلت و رسوائی کا باعث ہوگا، بلکہ اس کا نقصان حق بات سے خاموشی اختیار کرنے والوں کو بھی ہوگا۔

یمنی قوم ان کے سنگین جرائم کے بعد کس چیز کا انتظار کر رہی ہے؟

انہوں نے یہ جرائم مکمل کنٹرول حاصل کرنے سے پہلے کیے ہیں، تو اگر مکمل قبضہ کر لیں تو کیا کرینگے؟!!

لَا يَرْقُبُونَ فِي مُؤْمِنٍ إِلًّا وَلَا ذِمَّةً وَأُولَئِكَ هُمُ الْمُعْتَدُونَ(التوبة : 10)

وہ کسی مومن کے معاملہ میں نہ کسی قرابت کا لحاظ رکھتے ہیں اور نہ عہد کا۔ اور یہی لوگ زیادتی کرنے والے ہیں۔

کیا انہوں نے مدارس گرا کر ، مساجد مسمار کر کے قرآن سے اعلان جنگ نہیں کیا!؟

کیا انہوں نے قرآن پڑھانے والوں کیساتھ لڑائیاں نہیں لڑیں؟ کیا انہوں نے حدیث کے طلباء کو محصور کر کے قتل نہیں کیا!؟

انہیں گھروں سے بے دخل کر کے حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اعلان جنگ نہیں کیا!؟

کیا انہوں نے تعلیمی ادارے، یونیورسٹیز، اور ان کی املاک لوٹ کر علم سے دشمنی نہیں کی!؟

کیا انہوں نے املاک کو نہیں لوٹا!؟

کیا انہوں نے پر امن گھروں کو مسمار نہیں کیا!؟

کیا انہوں نے پاکدامن خواتین کی عصمت دری نہیں کی!؟

کیا انہوں نے بے دریغ قتل عام نہیں کیا!؟

کیا انہوں نے معزز لوگوں کی اہانت نہیں کی!؟

کیا انہوں نے علمائے کرام کو قتل کرنے کیلئے گھروں سے بے دخل نہیں کیا!؟

کیا انہوں نے رہزنی اور نقب زنی نہیں کی!؟

کیا انہوں نے زرعی زمینوں اور جانوروں کو تباہ و برباد نہیں کیا!؟

کیا انہوں نے زندگی کے چلتے پہیے کو جام نہیں کیا!؟

کیا انہوں نے مملکت کی سرحدوں کی خلاف ورزیاں اور باڈر سکیورٹی کے جوانوں سے جھڑپیں نہیں کیں!؟

کیا انہوں نے حرمین شریفین پر حملے کی دھمکیاں نہیں دیں!؟

کیا انہوں نے صحابہ رضی اللہ عنہم اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات امہات المؤمنین کو لعن طعن کا نشانہ نہیں بنایا!؟

کیا یہی جرائم -اے یمنی قوم- تمہارے متحد ہونے کیلئے کافی نہیں ہیں؟ کہ ان کی اور انکی پشت پناہی کرنے والوں کی شر انگیزیوں کو اکھاڑ پھینکو، تا کہ آنیوالی نسلیں ا س خطے میں پر امن زندگی گزاریں ، اللہ تعالی کا فرمان ہے:

وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَى وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ (المائدة : 2)

نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرو، جبکہ گناہ اور زیادتی کے کاموں میں تعاون مت کرو، اللہ سے ڈرو، بیشک اللہ تعالی سخت سزا دینے والا ہے۔

اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ

تمام تعریفات اللہ کیلئے ہیں ، اسی کے ہاتھ میں تمام بھلائیاں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، زمین یا آسمان کی کوئی چیز اس سے پوشیدہ نہیں ، وہ ہر چیز سننے اور دیکھنے والا ہے، میں بے بہا نعمتوں پر اپنے رب کی حمد اور شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور یکتا ہے ، آخرت ہو یا دنیا حمد اسی کیلئے ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمدﷺ اسکے بندے ، چنے ہوئے رسول اور برگزیدہ خلیل ہیں، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمدﷺ ، انکی آل ، صحابہ کرام ، اور ان کی ہدایات کے مطابق عمل پیرا لوگوں پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہی اختیار کرو! کیونکہ یہی ہر قسم کی مصیبت و تکلیف سے بچاؤ کا ذریعہ ہے، اور رضائے الہی و نعمتوں والی جنت پانے کا سبب ہے۔

اللہ کے بندو!میں تمہیں سچی توبہ کرنے کی نصیحت کرتا ہوں؛ کیونکہ سچی توبہ بھی نصرتِ الہی کی موجب ہے، اس کی وجہ سے سزائیں بھی ٹل جاتی ہیں۔

اڑتی پھرتی افواہوں سے بچو، تا کہ لوگوں کے عزائم میں کمی واقع نہ ہو، ان افواہوں کے ذرائع بہت زیادہ ہو چکے ہیں ؛ ان سب سے بچنا چاہیے۔

اسی طرح نوجوانوں کو افواہوں کے ان وسائل کے نقصانات سے بہرہ ور کرنا بھی ضروری ہے، کہیں انکے ذہن نقصان دہ ویب سائٹس سے متاثر نہ ہو جائیں۔

مسلمانو! انتہائی اخلاص کیساتھ کثرت سے اسلام اور مسلمانوں کیلئے دعائیں کرو، مسلم حکمرانوں ،اور عامۃ الناس کیلئے دعائیں مانگو، اسلام دشمن قوتیں چاہے کوئی بھی ہو، اور کہیں بھی ہوں انکی مکاریوں کے خاتمے کیلئے دعائیں کرو، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَقَالَ رَبُّكُمُ ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ إِنَّ الَّذِينَ يَسْتَكْبِرُونَ عَنْ عِبَادَتِي سَيَدْخُلُونَ جَهَنَّمَ دَاخِرِينَ (غافر : 60)

تمہارے رب کا فرمان ہے: مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کرونگا، بیشک جو لوگ میری عبادت سے رو گردانی کرتے ہیں یہی لوگ ذلیل و خوار ہو کر جہنم میں داخل ہونگے۔

اور ایک حدیث میں ہے:’’دعا عبادت کا مغز ہے‘‘

شرعی علم لوگوں میں عام کرو، بدعات کا انتشار جہالت اور کتمان العلم کے باعث ہی ہوتا ہے، جبکہ بدعات کا قلع قمع علم کے پھیلاؤ سے ہوگا، نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (جس کے پاس علم ہے، وہ علم نشر کرے) یہی بدعات کے عام ہونے کے وقت سب لوگوں کیلئے نبوی وصیت بھی ہے۔

ہم نوجوانوں اور اس ملک کے تمام ہم وطنوں سے اس بات کا مطالبہ کرتے ہیں کہ باہمی اتحاد، اتفاق، اور معاشرتی بنیادوں کو مضبوطی سے تھام لیں، قومی و ملکی مفادات کا تحفظ یقینی بنائیں، تا کہ فسادی لوگوں کو ہمارے اندر داخل ہونے کی کوئی جگہ ہی نہ ملے، اور وہ اسلام و مسلمانوں کے درمیان کسی قسم کا رخنہ بھی نہ ڈال سکیں۔

فرمانِ باری تعالی ہے:

وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا

’’اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو، اور گروہ بندی میں مت پڑو‘‘(آل عمران : 103)

بالکل اسی طرح ہم تمام اسلامی ممالک کو نصیحت کرتے ہیں کہ کسی بھی علاقے میں نقصانات غلط عقائد، نظریات، اور لوگوں کو صحیح عقیدے کی تعلیم دینے میں کمی کی وجہ سے ہی پیدا ہوتے ہیں۔

مسلمانو! اللہ تبارک و تعالی نے تمہیں ایک ایسے کام کا حکم دیا ہے، جس کی ابتدا خود اللہ تعالی نے فرمائی، اور بتلایا:

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (الأحزاب: 56)

’’یقینا اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو‘‘

اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ:

’’جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا‘‘

اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر کثرت کیساتھ درود پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد ۔

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا،یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان، اور علی سے راضی ہوجا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہوجا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت، اورکرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!

یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! اسلام اور مسلمانوں کو غالب فرما، یا اللہ! کفر ، اور کفار کو ذلیل کر دے ، یا اللہ! بدعات اور بدعتیوں کو ذلیل و رسوا فرما، یا رب العالمین! یا اللہ! شرک اور مشرکین کو ذلیل و رسوا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! اپنے دین، قرآن، اور سنت نبوی کو ساری دنیا میں غلبہ عطا فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! سنت نبوی کا پوری کائنات میں بول بالا فرما دے، یا اللہ! دینِ محمدی کو پوری کائنات میں غلبہ عطا فرما، چاہے کافروں کو برا لگے، دین محمدی غالب فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! ہمارے ملک کو ہمہ قسم کے نقصانات اور شر سے محفوظ فرما، یا رب العالمین!

یا اللہ! تو ہمارے اگلے ، پچھلے، خفیہ، اعلانیہ، اور جن گناہوں کے بارے میں تو ہم سے بھی زیادہ جانتا ہے، سب معاف فرما دے، تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے۔

یا اللہ! سب معاملات کا انجام ہمارے لئے بہتر بنا، اور ہمیں دنیا و آخرت کی رسوائی سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمیں نفسانی شر سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں نفسانی اور اپنے اعمال کے شر سے محفوظ فرما، اور ہمیں ہر شریر کے شر سے محفوظ فرما۔

یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو ابلیس، شیاطین اور انکے چیلوں سے محفوظ فرما، جن و انس کے شیطانوں اور انکے لشکروں سے محفوظ فرما، یا اللہ! تمام مسلمانوں کو ابلیس، شیاطین اور انکے چیلوں سے محفوظ فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! یا ذالجلال و الاکرام ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ اپنے دشمنوں سے انتقام لے، یا اللہ! دین کے دشمنوں سے انتقام لے، یا اللہ! دشمنان اسلام کے منصوبوں کو غارت فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! مسلمانوں کو کلمۂِ حق پر متحد فرما دے، بیشک آسمان و زمین میں کوئی چیز تجھے عاجز نہیں کر سکتی۔

یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ یمن کے اس فتنے کا خاتمہ فرما دے، یا اللہ! ہم تجھ سے سوال کرتے ہیں کہ یمن کے اس فتنے کا خاتمہ فرما دے۔

یا اللہ! بدعتی اور منافق لوگوں پر اپنی پکڑ نازل فرما، یا اللہ! یمن میں مسلمانوں کی حفاظت فرما، یا اللہ! یمن میں مؤمنین کی حفاظت فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! یمنی بھائیوں پر کوئی بدعتی ، یا منافق شخص مسلط نہ فرمانا، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ساری دنیا میں مسلمانوں کو منافقوں ، مشرکوں، اور بدعتیوں سے تحفظ عطا فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! اپنے مؤمن بندوں کی مدد فرما، یا اللہ! مسلمانوں پر نازل ہونے والی مصیبتوں اور تکالیف کا خاتمہ فرما دے۔ بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! “فیصلہ کن طوفان” کے نام پر بننے والے اتحاد کی حفاظت فرما، یا اللہ! اس اتحاد کو اس وقت تک قائم و دائم رکھ جب تک تیرے اور تمام مسلمانوں کے پسندیدہ نتائج سامنے نہ آ جائیں، یا رب العالمین! یا اللہ! اس اتحاد کو اس وقت تک قائم و دائم رکھ جب تک تیرے اور تمام مسلمانوں کے پسندیدہ نتائج سامنے نہ آ جائیں، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔

یا اللہ! ہمارے معاملات میں ہماری مکمل رہنمائی فرما، یا اللہ! اس مشترکہ کاروائی میں ہمارے جنگی طیاروں کی حفاظت فرما، یا اللہ! اس مشترکہ کاروائی میں ہمارے جنگی طیاروں کی حفاظت فرما، یا اللہ! مشترکہ کاروائی میں ہمارے فوجیوں کی حفاظت فرما، ہماری سرحدوں کی حفاظت فرما، یا رب العالمین! ہماری سر زمین کی حفاظت فرما، یا اللہ! حرمین شریفین کی حفاظت فرما، بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے، یا اللہ! مسلمانوں کے مقدس مقامات کی حفاظت فرما۔

یا اللہ! ہماری اور تمام مسلمانوں کی توبہ قبول فرما، یا اللہ! ہمیں اپنے دین کی سمجھ عطا فرما، یا ارحم الراحمین! یا علیم ! یا حکیم! یا اللہ مسلمانوں کو اپنے دین کی سمجھ عطا فرما۔

اللہ کے بندو!

إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللَّهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللَّهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللَّهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (النحل: 90، 91)

اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑواور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے ‘‘

تم اللہ کا ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنائت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے