عاصفۃ الحزم سے اعادۃ الامل تک کا سفر کوئی آسان نہ تھا بلکہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر یہ حرمین شریفین کے تحفظ کا عزم صمیم تھا تو اس کے ساتھ یہ عقیدہ کا تحفظ بھی تھا چہار اطراف سے اس یلغار کی اس کڑی کا سامنا جھاد جیسے آفاقی عقیدےسے ہی کیا جا سکتا تھا کیوں کہ جھاد علم و عمل سے تعبیر ہے ۔ابتدا میں پروپیگنڈا کیا گیا کہ اقتدار کی جنگ ہے ، یہ دو ملکوں کی جنگ ہے، ظالم و مظلوم کی جنگ ہے الغرض جتنے منہ اتنی باتیں لیکن درحقیقت یہ فرمان رسالت پر عمل تھا المسلم اخو المسلم ، مسلمان بھائی کی تکلیف کو ایسے ہی محسوس کرنا جیسا کہ جسم کے کسی حصے میں کوئی تکلیف ہو تو پورا جسم اس تکلیف کی وجہ سے بے چین ہوجاتا ہے ۔

یہ آپریشن بھی ایسی ہی مودت ، اور اخوت ایمانیت کا مظہر تھا جب جائز اور قانونی یمنی حکومت پر شب خون مارا گیا اور بغاوت کی گئی تو اس جائز حکومت نے باغیوں کے خلاف مدد مانگی تو سعودی عرب کی حکومت نے اپنے اتحادیوں سے مشاورت کے بعد ان باغیوں کی سرکوبی کے لیے فضائی آپریشن شروع کر دیا یہ آپریشن صرف سعودی عرب ہی نہیں بلکہ دس سے زائد اتحادی اس میں شامل رہے اگر محض یمن کے معاملات میں دخل اندازی مطلوب ہوتی تو یمن کے احوال تو گزشتہ کئی عشروں سے خراب تھے لیکن اس مرتبہ بغاوت کے اھداف میں حرمین شریفین پر قبضہ اور دیگر مذموم مقاصد بھی علی الاعلان بیان کیے گئے اور اسے فرقہ واریت کا رنگ دینے کی بھی بھرپور کوشش کی گئی ۔لیکن الحمدللہ موحد حکومت کے بروقت اور مناسب فیصلوں کی وجہ سے اس خطرے کا سدباب ممکن ہوا اور اس خطے میں امن و امان کی بحالی کی تعبیر بھی ممکن ہو رہی ہے ابتدا میں حرمین شریفین پر قبضہ کے اعلان اور فضائی حملوں کے بند ہونے سے ایک دن قبل یہ اعلان کہ حرمین شریفین مقدس مقامات ہیں ان کے بارے میں غلط سوچ بھی نہیں سکتے۔ اس سے اندازہ ہو سکتا ہے کہ ان باغیوں کی سرکوبی کے لیے کیا گیا آپریشن کتنا کامیاب ہوا۔

یہ اسلامی تاریخ کا سنہرا باب ہے کہ کبھی بھی کسی زمین پر اس نیت سے لشکر کشی نہیں کی گئی کہ وہاں قبضہ کیا جائے جیسا کہ عمومی طور پر دنیا کے فاتحین نے کیا سکندر اعظم سے نپولین بونا پارٹ اور پھر انگریز ی استعمار سب کا مقصد تسلط اور غاصبانہ قبضہ تھا ۔ لیکن اسلام میں جہاد کے بنیادی آداب اگر معلوم کرنے ہیں تو خلیفۂ اوّل ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جب شام کی طرف فوجیں روانہ کیں تو ان کو دس ہدایات دی تھیں جن کو تمام مؤرخین اور محدثین نے نقل کیا ہے۔ وہ ہدایات یہ ہیں:

1-عورتیں، بچے اور بوڑھے قتل نہ کیے جائیں۔

2– مثلہ نہ کیا جائے۔

3-راہبوں اور عابدوں کو نہ ستایا جائے اور نہ ان کے معابد مسمار کیے جائیں۔

4– کوئی پھل دار درخت نہ کاٹا جائے اور نہ کھیتیاں جلائی جائیں۔

5– آبادیاں ویران نہ کی جائیں۔

6– جانوروں کو ہلاک نہ کیا جائے

7– بدعہدی سے ہر حال میں احتراز کیا جائے۔

8-جو لوگ اطاعت کریں، ان کی جان و مال کا وہی احترام کیا جائے جو مسلمانوں کی جان ومال کا ہے۔

9– اموالِ غنیمت میں خیانت نہ کی جائے۔

10– جنگ میں پیٹھ نہ پھیری جائے۔

ان احکام کے مطالعہ سے معلوم ہوتاہے کہ اسلام نے جنگ کو تمام وحشیانہ افعال سے پاک کردیا جواس عہد میں جنگ کا لازمی جزو بنے ہوئے تھے ۔اس اصلاحی تعلیم نے آٹھ سال کی قلیل مدت میں جو عظیم الشان نتائج پیدا کیے اس کابہترین نمونہ فتح مکہ ہے۔ ایک طاقت پر دوسری طاقت کی فتح اور خصوصاًدشمن کے بڑے شہر کی تسخیر کے موقع پر وحشی عرب ہی نہیں بلکہ متمدن روم و ایران میں بھی جو کچھ ہوتا تھا، اسے پیش نظر رکھیے اس کے بعد غور کیجیے کہ وہی عرب جو چند برس پہلے تک جاہلیت کے طریقوں کے عادی تھے اسی شہر میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتے ہیں جس سے آٹھ ہی برس پہلے ان کو بری طرح تکلیفیں دے دے کر نکالا گیا تھا اور انہی دشمنوں پر فتح حاصل کرتے ہیںیہ وہی فاتحین ہیں جنہیں گھر سے بے گھر کرنے پر قناعت نہیں کی گئ تھی بلکہ جس جگہ اُنہوں نے پناہ لی تھی وہاں سے بھی ان کو نکال دینے کے لیے کئی مرتبہ چڑھ کر آئے تھے۔ ایسے شہر اورایسے دشمنوں پر غلبہ حاصل ہوتا ہے مگر کوئی قتل عام نہیں کیا جاتا، کسی قسم کی لوٹ مار نہیں ہوتی، کسی کی جان ومال اور عزت وآبرو سے تعرض نہیں کیا جاتا، پرانے اور کٹر دشمنوں میں سے کسی پر انتقام کا ہاتھ نہیں اٹھتا،تسخیر شہر کی پوری کارروائی میں صرف چوبیس آدمی مارے جاتے ہیں اور وہ بھی اس وقت جب کہ دست درازی میں پیش قدمی خود ان کی طرف سے ہوئی۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے داخلہ سے پہلے اعلان کر دیا جب تک تم پرکوئی ہاتھ نہ اُٹھائے تم بھی ہاتھ نہ اُٹھانا۔

پھرتکمیل تسخیر کے بعد یہ اعلان:

لا تثریب علیکم الیوم اذهبوا أنتم الطلقاء

تاریخ نے اپنے صفحات میں محفوظ کر لیا۔

”جاؤ تم آزاد ہو آج تم سے باز پرس نہیں۔”

قتیبۃ بن مسلم نے اسلامی لشکر کشی کے اصولوں سے انحراف کرتے ہوئے سمرقند کو فتح کر لیا تھا، اصول یہ تھا کہ حملہ کرنے سے پہلے تین دن کی مہلت دی جائے۔ سمرقند کے پادری نے مسلمانوں کی اس غاصبانہ فتح پر قتیبۃ کے خلاف شکایت دمشق میں بیٹھے مسلمانوں کے حاکم کو ایک پیغامبر کے ذریعہ خط لکھ کر بھجوائی۔امیر المومنین عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ نےسمرقند میں تعینات اپنے عامل کے نام خط لکھاکہ ایک قاضی کا تقرر کرو جو پادری کی شکایت سنے۔ مہر لگا کر خط واپس پیغامبر کو دیدیا۔پیغامبر وہاں سے چل تو دیا مگر اپنے آپ سے باتیں کرتے ہوئے، کیا یہ خط مسلمانوں کے اُس عظیم لشکر کو ہمارے شہر سے نکالے گا؟ سمرقند لوٹ کر پیغامبر نے خط پادری کو تھمایا، جسے پڑھ کر پادری کو بھی اپنی دنیا اندھیر ہوتی دکھائی دی، خط تو اُسی کے نام لکھا ہوا تھا جن سے اُنہیں شکایت تھی، اُنہیں یقین تھا کہ کاغذ کا یہ ٹکڑا اُنہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچا سکے گا۔ مگر پھر بھی خط لیکر مجبورا اُس حاکمِ سمرقند کے پاس پہنچے جس کے فریب کا وہ پہلے ہی شکار ہو چکے تھے۔ حاکم نے خط پڑھتے ہی فورا ایک قاضی (جمیع نام کا ایک شخص) کا تعین کردیا جو سمرقندیوں کی شکایت سن سکے۔

موقع پر ہی عدالت لگ گئی، ایک چوبدار نے قتیبہ کا نام بغیر کسی لقب و منصب کے پکارا، قتیبہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر قاضی کے رو برو اور پادری کے ساتھ ہو کر بیٹھ گیا۔قاضی نے سمرقندی سے پوچھا، کیا دعویٰ ہے تمہارا؟

پادری نے کہا: قتیبہ نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ہم پر حملہ کیا، نہ تو اِس نے ہمیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی تھی اور نہ ہی ہمیں کسی سوچ و بچار کا موقع دیا تھا۔واضح رہے کہ قتیبہ بن مسلم رحمہ اللہ کا اس وقت تک انتقال ہوچکا تھا۔

قاضی نے قتیبہ (کے نائب) کو دیکھ کر پوچھا، کیا کہتے ہو تم اس دعویٰ کے جواب میں؟

قتیبہ (کے نائب)نے کہا: قاضی صاحب، جنگ تو ہوتی ہی فریب اور دھوکہ ہے، سمرقند ایک عظیم ملک تھا، اس کے قرب و جوار کے کمتر ملکوں نے نہ تو ہماری کسی دعوت کو مان کر اسلام قبول کیا تھا اور نہ ہی جزیہ دینے پر تیار ہوئے تھے، بلکہ ہمارے مقابلے میں جنگ کو ترجیح دی تھی۔ سمرقند کی زمینیں تو اور بھی سر سبز و شاداب اور زور آور تھیں، ہمیں پورا یقین تھا کہ یہ لوگ بھی لڑنے کو ہی ترجیح دیں گے، ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا اور سمرقند پر قبضہ کر لیا۔

قاضی نے قتیبہ (کے نائب) کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے دوبارہ پوچھا: میری بات کا جواب دو تم نے ان لوگوں کو اسلام قبول کرنے کی دعوت، جزیہ یا پھر جنگ کی خبر دی تھی؟

قتیبہ (کے نائب) نے کہا: نہیں قاضی صاحب، میں نے جس طرح پہلے ہی عرض کر دیا ہے کہ ہم نے موقع سے فائدہ اُٹھایا تھا۔

قاضی نے کہا: میں دیکھ رہا ہوں کہ تم اپنی غلطی کا اقرار کر رہے ہو، اس کے بعد تو عدالت کا کوئی اور کام رہ ہی نہیں جاتا۔

قتیبہ: اللہ نے اس دین کو فتح اور عظمت تو دی ہی عدل و انصاف کی وجہ سے ہے نہ کہ دھوکہ دہی اور موقع پرستی سے۔

میری عدالت یہ فیصلہ سناتی ہے کہ تمام مسلمان فوجی اور انکے عہدہ داران بمع اپنے بیوی بچوں کے، اپنی ہر قسم کی املاک، گھر اور دکانیں چھوڑ کر سمرقند کی حدوں سے باہر نکل جائیں اور سمر قند میں کوئی مسلمان باقی نہ رہنے پائے۔ اگر ادھر دوبارہ آنا بھی ہو تو بغیر کسی پیشگی اطلاع و دعوت کے اور تین دن کی سوچ و بچار کی مہلت دیئے بغیر نہ آیا جائے۔

پادری جو کچھ دیکھ اور سن رہا تھا وہ ناقابل یقین بلکہ ایک مذاق اور تمثیل نظر آ رہا تھا۔ چند لمحوں کی یہ عدالت، نہ کوئی گواہ اور نہ ہی دلیلوں کی ضرورت۔ اور تو اور قاضی بھی اپنی عدالت کو برخاست کرکے قتیبہ کے ساتھ ہی اُٹھ کر جا رہا تھا۔

اور چند گھنٹوں کے بعد ہی سمرقندیوں نے اپنے پیچھے گرد و غبار کے بادل چھوڑتے لوگوں کے قافلے دیکھے جو شہر کو ویران کر کے جا رہے تھے۔ لوگ حیرت سے ایک دوسرے سے سبب پوچھ رہے تھے اور جاننے والے بتارہے تھے کہ عدالت کے فیصلے کی تعمیل ہو رہی تھی۔

اُس دن جب سورج ڈوبا تو سمرقند کی ویران اور خالی گلیوں میں صرف آوارہ کتے گھوم رہے تھے اور سمرقندیوں کے گھروں سے آہ و پکار اور رونے دھونے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں، اُن کو ایسے لوگ چھوڑ کر جارہے تھے جن کے اخلاق ، معاشرت، برتاؤ، معاملات اور پیار و محبت نے اُن کو اور اُن کے رہن سہن کو مہذب بنا دیا تھا۔

تاریخ گواہ ہے کہ سمرقندی یہ فراق چند گھنٹے بھی برداشت نہ کر پائے، اپنے پادری کی قیادت میں لا الٰہ الاّ اللہ محمّد رسول اللہ کا اقرار کرتے مسلمانوں کے لشکر کے پیچھے روانہ ہوگئے اور اُن کو واپس لے آئے۔

اور یہ سب کیوں نہ ہوتا، کہیں بھی تو ایسا نہیں ہوا تھا کہ فاتح لشکر اپنے ہی قاضی کی کہی دو باتوں پر عمل کرے اور شہر کو خالی کردے۔ دینِ رحمت نے وہاں ایسے نقوش چھوڑے کہ سمرقند ایک عرصہ تک مسلمانوں کا دارالخلافہ بنا رہا۔

آل سعود کے حکمرانوں کی تاریخ کی طرف دیکھا جائے تو یہ وسعت ظرفی ہمیں بارہا نظر آتی ہے مثال کے طور پر جب ایک گروہ نے حرمین شریفین میں فساد بپا کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں کئی مسلمانوں کی جانیں بھی ضائع ہوئی تھی اور املاک کو بھی نقصان پہنچا تھا مگر اس ملک کے حجاج پر کوئی پابندی نہیں لگائی گئی ۔

ملک سلمان بن عبدالعزیز حفظہ اللہ کا یمن کے باغیوں کی سرکوبی کے لیے کیا گیا 27 روزہ آپریشن اور پھر یمن میں امن و امان کی بحالی کے لیے مالی اور معنوی امداد کا اعلان کرنا دراصل تاریخ مسلمانان عالم کے ایسے ہی سنہرے واقعات کا تسلسل ہے اور اس نئے آپریشن کا نام آپریشن ’ریسٹورنگ ہوپ‘ ہے جس کا مقصد اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش کرنا ہے اور سعودی عرب میں سکیورٹی اور انسدادِ دہشت گردی کے کام پر توجہ دینا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ ضرورت کے تحت مناسب فوجی کارروائی کے بعد ان کی حکومت نے مسئلے کے سیاسی حل کو ایک موقع دیا ہے اور اس کے لیے’’بحالی امید‘‘ آپریشن شروع کیا گیا ہے۔ اس آپریشن میں نہ صرف یمن میں امدادی کارروائیوں کا آغاز کیا گیا ہے بلکہ ملک میں آئینی حکومت کی بحالی اور بحران کے سیاسی حل کے لیے بھی اقدامات کیے جا رہے ہیں

اعادۃ الامل کے اھداف درج ذیل ہیں:

سب سے پہلے بنیادی اور اساسی ھدف یمن میں منتخب حکومت کی بحالی امید‘‘ آپریشن کے دوران حوثی باغیوں کی یمنی عوام مخالف سرگرمیوں کو روکنے کی بھرپور کوشش کی جائے گی باغیوں کے اسلحے کے ذخائر دوبارہ نہ بن سکیں ۔

باغی عناصر کو باہر کسی بھی ملک سے ایسی کوئی کمک نہ مل سکے جس سے یہ پھر بغاوت جیسا قدم اٹھائیں تعمیر نو کے لیے خطیر مالی امداد تعلیمی اداروں کی از سر نو تعمیر اور بحالی دینی مدارس اور مساجد جو حوثیوں نے تباہ و برباد کر دی تھی ان کی دوبارہ تعمیر درحقیقت یمن میں امن و امان کی بحالی اور تعلیمی سرگرمیوں کا دوبارہ شروع ہو جانا اور حکومت مخالف حرکات پر قدغن لگایا جانا اور منتخب حکومت کی بحالی کے ذریعے ہی سعودی عرب کو ایک اچھا پڑوسی مل سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے