سنت اعتکاف کی نیت سے کسی شخص کا خود کو مسجد میں مخصوص کیفیت میں روکے رکھنا اعتکاف ہے۔

ہر عمل کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے،اور نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں ،جبکہ زبان سے جو الفاظ ادا کئے جائیں انہیں اقرار کہا جاتا ہےنہ کہ نیت،اعتکاف کی نیت کے لئے مروجہ الفاظ نویت سنۃ الاعتکاف کسی بھی صحیح یا ضعیف حدیث سے ثابت نہیں،لہذا یہ الفاظ ادا کرنا بدعت ہے،کیوںکہ نہ نبی   نے ادا کئے نہ کسی صحابی نے حالانکہ وہ ہم سے زیادہ محتاط تھے۔

اعتکاف کرنا سنت موکدہ ہے کیونکہ نبی نے ہر سال اعتکاف کیا کبھی اعتکاف چھوڑا نہیںجیسا کی عائشہ؅کی حدیث میںہے۔ (صحیح بخاری،ح:2026-صحیح مسلم،ح:1172)

نبی نے فرمایا:’’سات قسم کے لوگوں کو اللہ سبحانہ وتعالی اپنا سایہ عطا فرمائے گا اس دن اسکے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔..جسکا دل مسجد کے ساتھ لگا رہے۔

(صحیح بخاری،ح:6806)

نیز فرمایا:مسجد ہر متقی کا گھر ہے،اللہ ہر اس شخص کو خوشی،رحمت،پل صراط سے صحیح سلامت گزارکر اللہ کی رضا،جنت کی طرف لیجانے کی ضمانت دیتا ہےجو مسجد کو اپنا گھر بنالے۔ (طبرانی کبیر،ح:6143-بیہقی شعب الایمان،ح:2689-جامع معمر بن راشد،ح:20029-زوائد البزار،ح:434-تمام المنۃ للالبانی:1/292)

نیز فرمایا:جو شخص بھی نماز و ذکر الہی کے لئے مسجد کو (گویا)وطن بنالیتا ہے اللہ اس سے ملکر اس طرح خوش ہوگا جس طرح وہ لوگ خوش ہوتے ہیں جنکا کوئی کھویا ہوا لوٹ آئے۔

  (صحیح ابن حبان،ح:16072278-سنن ابن ماجہ،ح        800  صحیح الترغیب،ح:327)

نیز فرمایا:(کچھ لوگ)مسجد کی میخیں ہیں،فرشتے انکے ہم نشین ہوتے ہیںاگر وہ نہ آئیں تو فرشتے انکا پوچھتے ہیں،اگر بیمار ہوں تو فرشتے انکی عیادت کرتے ہیں،اور اگر کسی کام(حاجت) کو جائیں تو فرشتے انکی مدد کرتے ہیں۔ (السلسلۃالصحیحۃ،ح:3401-مستدرک حاکم،ح:3507 مسند احمد،ح:9424)

حکمت:عطاءبن ابی رباح نے فرمایا:معتکف کی مثال محرم کی مانند ہے جس نے خود کو رحمٰن کے سامنے ڈال دیااور کہا:میں اسوقت تک نہ ٹلوں گا جب تک تو مجھے بخش نہ دے۔(بیہقی شعب الایمان،ح:3684)

اعتکاف ایک رات کا بھی جائز ہےجیسا کہ عمر؄نے مسجد حرام میں ایک رات اعتکاف کی نذر مانی تھی تو نبی نے نذر پوری کرنے کی اجازت دیدی۔ (بخاری،ح:20421656)

استحاضہ(ولیکوریا)کے مرض میں مبتلا خواتین بھی اعتکاف میں بیٹھ سکتی ہیں۔ملاحظہ ہو(صحیح بخاری،ح:2037)

اعتکاف خواہ مرد کرے یا خاتون صرف جامع مسجد(جس میں جمعہ ادا کیا جاتا ہو)میں جائز ہےتاکہ جمعہ کی ادائیگی کے لئے نکلنا نہ پڑے اسکے علاوہ اعتکاف جائز نہیں کیونکہ :

mاللہ تعالی نے قرآن میں جب بھی اعتکاف کا ذکر کیا مسجد میں کیا ارشاد فرمایا:(ترجمہ)اور تم ان(اپنی بیویوں) سےمباشرت نہ کرو جب تم مساجد میںاعتکاف میں ہو۔ 

(البقرۃ:187)

نیزابراہیم و اسماعیل ؉سےفرمایا:تم دونوں میرا گھر طواف کرنے،اعتکاف کرنے،رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک کرو۔(سورۃ البقرۃ:125)

mنبی کریم نے جب بھی اعتکاف کیا مسجد میں کیا مسجد کے بغیر اعتکاف نہیں کیااور آپکی حیات میں اورآپکی وفات کے بعد امہات المومنین نے بھی مسجد میں ہی اعتکاف کیا ۔ملاحظہ ہو:(صحیح بخاری،ح:2026-صحیح مسلم،ح:1172-سنن ابی داود، ح:2465

mنیززمانہ خیر القرون میں خواتین کا گھروں میں بنی مساجد(جاءنماز)میں اعتکاف بیٹھنا ثابت نہیں۔

mسیدنا ابن عباس؆نے فرمایا:اللہ کے نزدیک سب سے بدتر کام بدعت ہے اور گھروں میں بنی مساجد میں اعتکاف بیٹھنا بھی  ایک بدعت ہے۔(بیہقی کبری،ح:8573)

mسیدہ عائشہ؅نے فرمایا:جامع مسجد کے سوا اعتکاف نہیں ہوتا۔(سنن ابی داود،ح:2473– ارواءالغلیل، ح: 966– قیام رمضان للالبانی،ص:36-بیہقی کبری،ح:8594)

mسیدناعلی؄ سے بھی اس طرح کا قول مروی ہے ۔ملاحظہ ہو:    (مصنف عبد الرزاق،ح:5176)

نبی فجر کی نماز پڑھتے اور اعتکاف کی جگہ میں داخل ہوجاتے۔(صحیح بخاری،ح:2033-صحیح مسلم، ح:  1172 سنن ترمذی،ح:791)

درج ذیل امور معتکف کے لئے جائز ہیں: 

1-اعتکاف کی جگہ پر خیمہ لگایا جاسکتا ،اور اس میں چارپائی اور بستر بھی رکھا جاسکتا ہے (سنن ابن ماجہ،ح:1774-صحیح ابن خزیمۃ،ح:2236)

2-معتکف مسجد کی چھت پر جا سکتا ہے کیونکہ وہ بھی مسجد کا حصہ ہے۔(المغنی:3/196 ناشر:مکتبۃ القاہرہ ،1968ء)

3-معتکف سے اسکی بیوی ملنے ،بات کرنے آسکتی ہے اوراگر ضروری ہو تو وہ اسے گھر تک چھوڑنے جا سکتا ہے۔ (بخاری،ح:2038)

4-معتکف کے لئے مسجد میں کھانا،پینا اور سونا جائز ہے۔ (سنن ترمذی،ح:321-المغنی:3/196-فقہ السنۃ للسید سابق :1/421)

5-شہوت کے بغیر خاوند اپنی بیوی کو چھو سکتا ہے جیسا کہ سیدہ عائشہ؅ نبی کی کنگھی کیا کرتی تھیں۔

 (صحیح بخاری،ح:2029)

6-راہ چلتے (رکے بغیر)مریض سے اسکا حال پوچھا جا سکتا ہے۔(تفسیر ابن کثیر تفسیر سورۃ البقرۃ آیت نمبر:187)

7-اسی طرح،جنازہ اگر مسجد میں آجائے تو اس میں شامل ہوا جاسکتا ہے۔

8مسئلہ:معتکف کے لئے غسل راحت کرنا یا سر دھونا جائز ہے بشرطیکہ مسجد میں اسکا اہتمام ہو البتہ غسل جنابت کے لئے مسجد سے باہر جا سکتا ہے جبکہ مسجد میں انتظام نہ ہو۔ملاحظہ ہو:(صحیح بخاری،ح:2031-سنن ابی داود،ح: 2473)

9-کسی سخت حاجت کے لئے مسجد سے باہر جاسکتا ہے جو اسکے جائے بغیر پوری نہ ہو۔ (سنن ابی داود،ح:2473)

10-عورت کو اگر دوران اعتکاف ماہواری یا نفاس شروع ہوجائے تووہ اعتکاف ختم کرکے گھر چلی جائےاس میں کوئی حرج نہیں۔ (سنن ابی داود،ح: 232-ارواء الغلیل، ح:193)

واضح ہو کہ اگر دوران اعتکاف احتلام ہو جائے تو اس سے اعتکاف کی صحت پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ یہ غیر اختیاری ہے البتہ اس صورت میں غسل میں تاخیر نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ قیام مسجد میں ہے۔

درج ذیل امور معتکف کے لئے جائز نہیں:

1-امام ابن قدامہنے فرمایا:معتکف کے لئے بہتر ہے کہ نماز،تلاوت اورذکرمیں مصروف رہے نیز اس دوران قرآن پڑھانا ،تعلیم دینا ،فقہاء سے مناظرہ کرنا،انکی مجلس اختیار کرنا ،حدیث لکھنا اوراس جیسے دیگر ایسےکام کرنا جنکا نفع دوسروں تک پہنچتا ہو ہمارے اکثر اصحاب کے نزدیک بہتر نہیں،اور امام احمد کے کلام سے یہی ظاہر ہے۔ (المغنی لابن قدامہ3/201)

2سیدہ عائشہ ؅نے فرمایا:اعتکاف کرنے والے کے لئے سنت یہ ہے کہ وہ نہ کسی مریض کی عیادت کرے نہ نماز جنازہ میں شرکت کو جائے نہ عورت کو(شہوت کی نیت سے)چھوئے اور نہ اس سے مباشرت کرے(یعنی اسکے ساتھ لیٹے نہیں)۔ (سنن ابی داود ،ح:2473)

نیز فرمایا:اعتکاف کرنے والا مسجد سے باہر نہ نکلے مگر ایسی ضرورت کے لئے جس کے بغیر چارہ نہ ہو۔

(سنن ابی داود، ح:2473)

3-عورت کے لئے جائز نہیں کہ وہ اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اعتکاف کرے۔   (المغنی:3/205)

4-عورت کو اگر دوران اعتکاف ماہواری شروع ہوجائے تو اب اسکے لئے مسجد میں ٹہرنا جائز نہیں۔(سنن ابی داود،ح:232-ارواء الغلیل،ح:193)

5-دوران اعتکاف کسی بھی طرح خرید و فروخت کرنا کیونکہ: نبی نے مسجد میں خرید و فروخت کرنے سے منع کیا ہے۔(سنن نسائی،ح:714-سنن ترمذی، ح:1321 -المغنی:3 /195)

درج ذیل کاموں سے اعتکاف باطل ہوجاتاہے:

mکسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب کرنا کیونکہ کبیرہ گناہ عبادت کی ضد ہے جیسا کہ حدث طہارت اور نماز کی ضد ہے۔ (تفسیر قرطبی، البقرۃ آیت نمبر: 187 ،مسئلہ نمبر:32)

mجماع و ہمبستری کرنے سے کیونکہ اللہ تعالی نے فرمایا: ’’اور تم ان(اپنی بیویوں)سےمباشرت نہ کرو جب تم مساجد میںاعتکاف میں ہو۔(البقرۃ :187)

 نیز ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا:اگر اعتکاف کرنے والے نے جماع کرلیا تو اسکا اعتکاف باطل ہوگیا وہ نئے سرے سے اعتکاف بیٹھے۔(قیام رمضان للالبانی،ص:41 مصنف  ابن ابی شیبہ،ح: 9680)

mسی شدید ضرورت کے بغیر مسجد سے باہر چلے جانا۔(المغنی: 3/194) کیونکہ یہ اعتکاف کی حقیقت اور رکن کے خلاف ہے،مسجد میں ٹہرے رہنا اعتکاف کا بنیادی رکن ہے۔

اعتکاف کی بدعات:

mان مساجد میں اعتکاف کرنا جو قبروں پر یا قبرستان میں بنائی گئی ہوں۔

mگھروں میں اعتکاف کرنا۔

mمزاروں یا خانقاہوں میں اعتکاف کرنا۔

mذکر کے اجتماعی حلقے لگانا۔

mمعتکفین کا اجتماع کرنا مثلاًکھانے کے لئے،یا سحری و افطاری کے لئےکیونکہ یہ اعتکاف کی روح کے منافی ہے کیونکہ اعتکاف خلوت کا نام ہے نہ کہ جلوت و اجتماع کا نیز عہد رسالت میں ایسا ثابت بھی نہیں ہے ۔

mمعتکف کا با اہتمام استقبال کرنا یا اسے رخصت کرنا یا اعتکاف کی مبارکباد دینا۔

شب قدر کے فضائل مسائل:

اللہ تعالی نے فرمایا:’’ہم نے اسے(قرآن کو)شب قدر میں نازل کیا ،اور آپ کیا جانیں شب قدر کیا ہے،شب قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے، اس مہینے میں فرشتے اور  روح(جبرئیل ؈)ہر کام سرانجام دینے کے لئےاپنے رب کے حکم سے (زمین پر)تشریف لاتے ہیں،  طلوع فجر تک یہ رات سراسر سلامتی ہے ‘‘ (سورۃ القدر)

(وضاحت)یعنی اس ایک رات کی عبادت ایک ہزار مہینوں تقریباً83 سال 3 ماہ کی متواتر عبادت سے افضل ہے۔

mنبی کریم نے فرمایا:اس رات زمین پر آنے والے فرشتوں کی تعداد کنکریوں کی تعداد سے زائدہے (الصحیحۃ،ح:2205-مسندالطیالسی،ح:2668– ابن خزیمہ،ح:2194)

تنبیہ:شب قدر میں جبرئیل ؈ کے مصافحہ والی حدیث ضعیف ہے ۔ ملاحظہ ہو:(ضعیف الترغیب،ح:654 589-السلسلۃالضعیفۃ،ح:1333)

ایسے ہی شب قدر میں فرشتوں کے خانہ کعبہ کی چھت پر سبز پرچم لگانے والی حدیث بھی من گھڑت ہے ۔ ملاحظہ ہو:(ضعیف الترغیب،ح:594)

وقت:نبی کریم نے فرمایا:شب قدر کو رمضان کے آخری دس دنوں کی طاق راتوںمیں تلاش کرو۔(صحیح بخاری،ح:2021)

علامات:

mنبی کریم نے فرمایا: ’’شب قدر کی صبح سورج کے بلند ہونے تک اسکی شعاع(چمک میں تیزی)نہیں ہوتی وہ ایسے ہوتا ہے جیسے تھالی۔

(صحیح سلم،ح:762 -ابوداود،ح:1378-ترمذی،ح:     3351– نسائی کبری،ح:3392)

mنیز فرمایا:تم میں سے کسے یاد ہے (شب قدر میں) جب چاند طلوع ہوا تو بڑے تھال کے کنارے جیسا تھا۔(صحیح مسلم ،ح:1170)

mنیز فرمایا:شب قدر معتدل ہوتی ہے نہ گرم نہ ٹھنڈی اسکی صبح سورج اسطرح طلوع ہوتا ہے کہ اسکی سرخی مدھم ہوتی ہے۔ (بیھقی شعب الایمان،ح:3419-مسند طیالسی، ح:2802– ابن خزیمہ،ح:21902192-طبرانی کبیر۔ح :1962– صحیح الجامع ،ح:5475– ابن حبان،ح:3688)

mنیز فرمایا:میں نے خود کو دیکھا(یعنی خواب میں)کہ میں اس رات کیچڑ میں سجدہ کررہا ہوں،ابو سعید الخدری؄نے کہا:پھر اس رات آسمان پر ابر ہوا اور بارش برسی اور نبی کی نماز پڑھنے کی جگہ سے چھت ٹپکنے لگی…میں نے خود دیکھاکہ نبی فجر کی نماز پڑھاکر آرہے تھے اور آپ کے چہرہ مبارک پر مٹی اور پانی لگا تھا۔ (صحیح بخاری،ح:2018-صحیح مسلم،ح:1167)

شب قدر کے اعمال:  

mنبی کریم نے فرمایا:

’’جس نے ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے شب قدر کا قیام کیا اس کے گزشتہ گناہ معاف کردیئے گئے۔(بخاری،ح: 2014)

mبکثرت توبہ و استغفار کرنا: جیسا کہ عائشہ ؅کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے۔

 تلاوت قرآن : کیونکہ قرآن کا نزول اسی رات میں ہوا ہے۔

mبکثرت صدقہ وخیرات کرنا: کیونکہ ابن عباس؆ نے فرمایا:نبی خیر کے کاموں میں سب سے زیادہ سخی تھے اور آپکی سخاوت اسوقت بڑھ جاتی جب جبرئیل؈ سے رمضان میں ملاقات ہوتی، اور جبرئیل؈ سے رمضان کی ہر رات ملاقات ہوتی حتی کہ رمضان گزرجاتا،نبی جبرئیل؈سے قرآن کا دور کرتے،اور جب وہ آپ سے ملتے تو آپ تیز آندھی سے بھی زیادہ خیر کے کاموں میں سخاوت کا مظاہرہ کرتے۔

( بخاری،ح:1902-مسلم،ح:2308)

شب قدر کی خاص دعا:

عائشہ ؅نے فرمایا:میں نے نبی سے پوچھا: اگر مجھے یقین ہوجائے کہ یہ شب قدر ہے تو کیا پڑھوں؟ آپ نے فرمایا:یہ دعا پڑھو:

اَللَّھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی

یا اللہ تو معاف کردینے والا ہے،معاف کردینا تجھے پسند ہے،پس مجھے معاف کردے۔ (سنن ابن ماجہ،ح:3850 سنن ترمذی،ح:3513-نسائی کبری، ح:7665)

تنبیہ :علامہ البانی(سلسلہ صحیحہ،ح:3337)

کےذیل میں رقمطراز ہیں:سنن ترمذی کے ایک نسخے میں لفظ\\\’\\\’عفو\\\’\\\’   کےبعد  \\\’\\\’کریم\\\’\\\’ کا اضافہ ہےحالانکہ اسکی گزشتہ تخریج میںاوردیگر ناقلین سے اس اضافے کاکوئی ثبوت نہیں ہےچنانچہ ظاہرہے کہ یہ اضافہ کسی ناسخ یا ناشر کا درج کردہ ہے،سنن ترمذی کی ہندی طباعت جس میں اسکی شرح تحفۃ الاحوذی ازمبارکپوری (4/264) ہے اس میں نہ ہی کسی اور طباعت میں یہ لفظ موجود ہے،اسکی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ امام نسائی نے اپنی روایت (عمل الیوم واللیلۃ،ح:872)میں یہ حدیث بعینہ اس سند سے بیان کی ہے جس سند سے امام ترمذی نے اسے روایت کیا ہےان دونوں نے اپنے شیخ قتیبہ بن سعید سے یہ حدیث روایت کی ہےمگراس میں یہ (یعنی لفظ کریم کا)اضافہ نہیں ہے۔

 شب قدر کی بدعات ومفسدات:

m شب قدر کی مخصوص دعاکو لفظ \\\’کریم کے اضافے کے ساتھ سنت سمجھ کر پڑھنا،کیونکہ یہ لفظ سنت سے ثابت نہیں جیسا کی ہم ذکر کر آئے ہیں۔

mذکر کے اجتماعی حلقے بنانا۔

mزعفران سے یہ سوچ کر اجتناب کرنا کہ اس کے لگانے سے فرشتے قریب نہیں آتے۔

mنماز شب قدر مخصوص طریقے سے ادا کرنا۔

mصلاۃ التسبیح کے لئے شب قدر کو مخصوص کرلینا۔

mاس رات جمع ہوکر بحث و مباحثہ کرنا یا گپے لگانا ۔

وللہ الحمد والمنۃواللہ ولی التوفیق

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے