قرآن مجید میں اللہ رب العزت نے انسان کی تخلیق کو اپنی وحدانیت پر سب سے بڑی دلیل قراردیاہے جیساکہ انسان کی تخلیق اسی طرف اشارہ کرتی ہےinsan ki azmat اور انسان کی اپنی ذات میں جو علامات بیان کی گئی ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اپنی پیچیدہ تخلیق کے حوالے سے فضلیت کو واضح کرتی ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

سَنُرِیہھمْ آَیَاتِنَا فِی الْآَفَاقِ وَفِی أَنْفُسِھِمْ حَتَّی یَتَبَیَّنَ لَھُمْ أَنَّہُ الْحَقُّ(فصلت: 53)

’’عنقریب ہم انہیں کائنات میں بھی اپنی نشانیاں دکھائیں گے اور ان کے اپنے اندر بھی یہاں تک کہ ان پر واضح ہوجائے کہ قرآن حق ہے۔‘‘

کائنات اور آیات النفس جنہیں بالترتیب عالم اکبر اور عالم اصغر سے بھی تعبیر کیا جاتاہے اس سے یہ معلوم ہوتاہے کہ انسان کی فضیلت کے شواہد خودانسان کے اندر بھی موجود ہیں جن کا مکمل احاطہ ناممکن ہے۔ لیکن یہ أمور مختلف عجائبات کی تحقیقات کے نتیجے میں انسان کے علم میں آتے رہیں گے خواہ اس کا تعلق انسان کے داخل سے ہو یا خارج سے۔

انسان کو کائنات اصغر کہنے کی وجوہات میں سے سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کائنات میں موجودتمام اشیاء کے خواص اس میں موجود ہیں۔ مثلاً زمین پر جو اشیاء پائی جاتی ہیں وہ جمادات سے تعلق رکھتی ہیں یا نباتات سے یا پھر حیوانات سے۔ جسامت کے لحاظ سے انسان جمادی ہے پھر یہ بڑھتا بھی ہے اس لحا ظ سے اس کا نفس نباتی ہوا پھر یہ حرکت بھی کرتاہے اس لحاظ سے اس کا نفس حیوانی بھی ہوا ، پھر اس سے بھی زیادہ کامل اور صاحب فضیلت ہوا تو اسے نفس انسانی ملا۔ اللہ رب العزت نے مشت خاکی کو کمال دیتے دیتے انسان بنا دیا اور اسے ایسی قوائے انسانیہ عطا کی گئی جن سے وہ امور کلی دریافت کرنے کے قابل بن گیا۔ اب انسان کے اندر جس جس قسم کی قوتیں اور قدرتیں رکھ دی گئی ہیں جس کی بناء پر انسان کو شرف وفضل ملا ان سب کا احاطہ کرنا خود نسان کے بس سے باہر ہے حالانکہ وہ اس کے اندر ہر وقت موجود ہیں اور موجود رہتی ہیں ، پھر انسان کے اندر نصب مشینری کو دریافت کرکے انسان کی طرح کی ایجادات معرضِ وجود میں لانےکے درپے ہوگیا۔ اس طرح انسان کے اندر کی دنیا میں اللہ تعالیٰ کی لااتعداد قدرتیںاور عجائبات موجود ہیںجوکہ انسان کی فضیلت کی طرف متوجہ کرتی ہیں۔

اس حوالے سے اللہ تعالیٰ نے فطرتاً انسان کو اتنی عقل عطا کی ہے کہ وہ اپنے اندر موجود علامات کی مدد سے اپنے خالق اور اس کی صفات کی معرفت حاصل کرسکے ، کیونکہ انسان تو اتنا جانتاہے کہ کوئی چیز اس کے خالق کے بغیر وجود میں نہیں آسکتی۔ چونکہ سب انسان ایک جیسی عقل کے مالک نہیں ہوتے لہذا اللہ تعالیٰ نےاپنے رسول بھیج کر انسان کو تمام حقائق سے مطلع فرمادیا کہ انسان کی اس پوری کائنات میں حیثیت کیا ہے؟ اسے یہاں رہ کر کیا کردار ادا کرنا ہے اور اگر وہ اس کردار کو ادا کرنے میں کامیاب رہا تو اس کو اخروی زندگی میں اس کا کیا اجر ملے گا ؟ اور اگر ناکام رہا تو اسے اخروی زندگی میں کیا کچھ دکھ اور مصائب برداشت کرنا ہونگے؟ کیونکہ انسان اگر اپنی ان قوائے انسانیہ کو جس کی بنیاد پر اسے دوسری مخلوقات پر فضیلت دی گئی ہے ان کے درست تقاضوں کے مطابق استعمال نہ کرے تو پھر اس کی فضیلت بے کارو عبث ہے۔

مفہوم فضیلت

لفظ فضیلت سہ حرفی ’’ف ض ل‘‘ سے ماخوذ ہے جوکہ نقص (کمی) کی ضدہے۔

علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں کہ فضل کے معنیٰ ہیں کسی چیز کا متوسط ضرورت سے زائد ہونا ،الفضیلۃکے معنی مرتبہ کی بلندی اور برتری کے ہیں ،یعنی بھلائی کی کثرت اور زیادتی تفضل علیہ وہ اس سے فضیلت وبرتری میں بڑھ گیااسی سے فُواضِل المال یعنی مال کا منافع مثلاً زمین کی پیداوار، جانوروں کا کرایہ یا دودھ یا اون وغیرہ۔

قرآن مجید میں یہ مادہ باب تفصیل سے فضیلت دینے کے معنوں میں آیاہے۔

فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ(البقرة: 47)

’’میں نے تمہیں تمہاری ہم عصر اقوام پر فضیلت دی۔ ‘‘

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی وحی کے وہبی طور پرملنے کو بھی فَضْلٌ کیا گیاہے۔

أَنْ يُنَزِّلَ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِهِ عَلَى مَنْ يَشَاءُ مِنْ عِبَادِہِ(البقرة: 90)

’’کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل(وحی) سے اپنے جس بندے کو چاہا اس پر نازل کردیا۔‘‘

یہ مادہ معاشی خوشحالی کے معنوں میں بھی آیا ہے مثلاً

لِتَبْتَغُوا مِنْ فَضْلِهِ(الإسراء: 66)

’’ تاکہ تم اس کا فضل(معاش) تلاش کرسکو۔‘‘

میدان جنگ کی فتوحات کو بھی فضل کہا گیاہے

فَانْقَلَبُوا بِنِعْمَةٍ مِنَ اللّٰہِ وَفَضْلٍ(آل عمران: 174)

’’یہ لوگ اللہ کا فضل اور اس کی نعمت حاصل کرکے واپس آئے۔‘‘

مصائب اور ناخوش گوار حوادث کے مقابلہ میں بھی یہ لفظ آیا ہے۔

وَإِنَّ مِنْكُمْ لَمَنْ لَيُبَطِّئَنَّ فَإِنْ أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَالَ قَدْ أَنْعَمَ اللّٰہُ عَلَيَّ إِذْ لَمْ أَكُنْ مَعَهُمْ شَهِيدًا وَلَئِنْ أَصَابَكُمْ فَضْلٌ مِنَ اللّٰہِ لَيَقُولَنَّ كَأَنْ لَمْ تَكُنْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ يَا لَيْتَنِي كُنْتُ مَعَهُمْ فَأَفُوزَ فَوْزًا عَظِيمًا (النساء: 72، 73)

’’تم میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو پیچھے رہ جاتاہے پھر اگر تمہیں کوئی مصیبت پہنچ جائے تو کہتاہے کہ مجھ پر تو اللہ نے احسان کیا ہے کہ میں ان میں موجود نہ تھا اور اگر تم پر اللہ کا فضل ہوجائے تو یوں بات کرتاہے جیسے تمہارے اور اس کے درمیان دوستی کا رشتہ تھا ہی نہیں اور کہتاہے کہ کاش میں بھی ان کے ساتھ ہوتا تو کتنی بری کامیابی سے ہم کنار ہوجاتا۔‘‘

اور فحشاء (بخل) کے مقابلہ میں بھی آیا ہے

الشَّيْطَانُ يَعِدُكُمُ الْفَقْرَ وَيَأْمُرُكُمْ بِالْفَحْشَاءِ وَاللّٰہُ يَعِدُكُمْ مَغْفِرَةً مِنْهُ وَفَضْلًا (البقرة: 268)

’’شیطان تمہیں مفلسی سے ڈراتاہے اور تمہیں شرمناک کام کرنے کا حکم دیتاہے جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے فضل اور مغفرت کی امید دلاتاہے۔‘‘

لہٰذا فضل کا عمومی مفہوم زندگی کی خوش حالیاں اور معاشی فارغ البالی ہے جن کو حاصل کرنے کی تاکید اہل ایمان کو کی گئی ہے۔

قوام کے باہمی موازنہ کے دوران بھی کیا گیا ہے، جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ

انْظُرْ كَيْفَ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَى بَعْضٍ(الإسراء: 21)

’’دیکھو ہم نے کس طرح ایک قوم کو دوسری قوم پر فضیلت عطا کی ہے۔‘‘

اس مفہوم میں وہ تمام نعمتیں شامل ہیں جو اللہ تعالیٰ کیطرف سے انسان کو ملیں جس میں وحی بھی شامل ہے کیونکہ وہ سب سے بڑی نعمت وفضیلت ہے جو نوع انسانی کو عطا کی گئی ہے۔

سورۃ النحل میں ہے کہ :

وَاللّٰہُ فَضَّلَ بَعْضَكُمْ عَلَى بَعْضٍ فِي الرِّزْقِ (النحل: 71)

’’اور اللہ تعالیٰ نے تم میں سے بعض کو بعض پر رزق کے معاملہ میں فوقیت بخشی ہے۔‘‘

یہ تو چند لفظ فضیلت (فضل) کے مختلف قرآنی استعمال تھے جس سے اس کے اصطلاحی مفہوم کو سمجھنے میں آسانی ہوگئی ۔

اصطلاحی مفہوم:

یعنی کہ کسی ایک شے کی دوسری شے پر فضیلت کا مفہوم یہ ہے کہ جس شے کو فضیلت عطا کی گئی ہے اس کی وہ صفات اور خصوصیات جو عموم سے زائد ہوں یا مفضّل علیہ میں موجود نہ ہوں اسے فضیلت(فضل )کہتے ہیں۔ اس حساب سے حضرت انسان کی فضیلت اپنی ہیئت ترکیبی، امر تخلیق ، عقل وشعور، برائی بھلائی کی پہچان بظاہر ایک نحیف اور ضعیف وجود کے ساتھ کائنات پر حکمرانی کرنا مراد ہے ۔ یہ تمام اوصاف کسی اور مخلوق میں مفقود ہیں اسی لیئے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت ہوئی۔

فضیلت انسان اور قرآن مجید :

قبل ازیں ہم فضیلت انسان کے مختلف پہلوؤں اور جہات پر بات کریں ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ قرآن مجید اس حوالےسے کیا کہتاہے کہ انسان کی حقیقت اس کا مقام اس کی حیثیت اور فضیلت کیا ہے۔

دین اسلام کا وہ تصور جو حضرت انسان سے متعلق ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ انسان اپنی طبیعت، ترکیب، اپنے کردار اپنے مقصد وجود اور اپنے انجام کے لحاظ سے اس ساری کائنات میں منفرد ہے۔ انسان ایک خاص بامقصد اور منفرد وجود ہے اس کے ذمہ ایک فرض ہے اور اس کا ایک مقصد وجود متعین ہے ۔ دنیاوی زندگی اس کے لیے امتحان گاہ ہے ۔ جس کے ذریعے اس کے اعمال کا حساب ہوگا او ریہی اعمال اس کا انجام متعین کریں گے۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي خَالِقٌ بَشَرًا مِنْ صَلْصَالٍ مِنْ حَمَإٍ مَسْنُونٍ فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (الحجر: 28، 29)

’’اور جب تیرے رب نے فرشتوں سے کہا کہ میں مٹی سے ایک بشر بنانے والا ہوں پھر جب میں اسے پوری طرح بنا دوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم اس کے سامنے سجدے میں گر جاؤ۔‘‘

وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَا هُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا(الإسراء: 70)

’’یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے بنی آدم کو بزرگی دی اور انہیں خشکی اور تری میں سواریاں عطا کی اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق دیا اور اپنی بہت سی مخلوقات پر فوقیت بخشی۔‘‘

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ ([التين: 4)

’’ہم نے انسان کو بہت خوبضورت سانچے میں ڈھالا ہے۔‘‘

وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ (الذاريات: 56)

’’ہم نے جنوں اور انسانوں کو صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے۔‘‘

الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا (الملك: 2)

’’وہی ہے جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہارا امتحان لے سکے کہ کون تم میںسے بہتر عمل کرنے والا ہے۔‘‘

فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَى وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى [طه: 123، 124]

’’تو جو شخص میری ہدایت کی اتباع کرے گا وہ نہ دنیا میں گمراہ ہو گا اور نہ آخرت میں شقی ہوگا اور جوشخص میری اس نصیحت سے اعراض کرے گا تو اس کے لیے تنگی کا جینا ہوگا اور قیامت کے روز ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے۔‘‘

فضیلت انسان کے مختلف پہلو:

ایک سلیم الفطرت انسان یہ چاہتا ہے کہ اپنے مقام انسانیت کو سمجھے اور ان امیتازی اوصاف کے ساتھ زندہ رہے جس کی وجہ سے وہ انسان کہلانے کا مسحق ہے اور اس عالم کون ومکان میں اس کی شخصیت کی عزت متعین ہے ۔ اس اعتبار سے ایک انسان کی فضیلت کے ممکنہ پہلو جن کا جائزہ لیا جاسکتاہے۔ بلاشبہ انسان اس وسیع وعریض کائنات میں بلحاظ وجود کچھ بھی نہیں لیکن اپنی روح اور اپنے معنوی وجود کے اعتبار سے بہت کچھ ہے۔

بقول شاعر :

وتزعم أنک جرمٌ صغیر
وفیک انطویٰ العالم الأکبر

’’تیرا خیال ہے کہ تو ایک چھوٹا سا وجود ہے حالانکہ تیرے اندرایک بڑا جہاں سمٹ آیا ہے۔‘

اس کا حقیقی شرف وعظمت اور بڑائی حیات دنیوی سے حیات اخروی کیطرف بلکہ حیات ابدی کیطرف ہے ۔

سَلَامٌ عَلَیْکُمْ طِبْتُمْ فَادْخُلُوہَا خَالِدِینَ (الزمر:33)

انسان کا یہی وہ مقام عزت ہے جس پر اللہ تعالیٰ نے قرںن مجید میں بے شمار آیات بیان کی ہیں۔

جس میں انسان کا رب کے ساتھ تعلق، پیدائش اور تکریم نیز ہدایت اور تعلیم کا تعلق بھی موجود ہےپورا قرآن انسان کی بلنددرجات اور مدارج کمال کے تذکروں سے بھرا پڑا ہے اور اگر کہیں فسق وفجور کی پستیوں میں گرے ہوئے انسانوں کا تذکرہ کیا گیا ہے تو مقصود وہاں بھی یہی ہے کہ اس قعر مذلت کا احساس دلاکر انہیں اپنی عظمت سے آشنا کیا جائے۔

فضیلت انسان کا درج ذیل مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جاسکتاہے۔

فضیلت انسان تخلیق کے حوالے سے

فضیلت انسان صفات کے حوالے سے

فضیلت انسان ہیئت کے حوالے سے

فضیلت انسان تسخیر کائنات کے حوالے سے

فضیلت انسان احترام جان کے حوالے سے

فضیلت انسان دوسری مخلوقات پر

فضیلت انسان علم کے حوالے سے

فضیلت انسان، اپنی تخلیق کے حوالے سے:

اس کائنا ت میں جتنی بھی اشیاء اللہ رب العزت نے پیدا کیں ’کُنْ‘’فَیَکُوْنُ‘ کے پس منظر میں نظر آتیں ہیں جبکہ حضرت انسان کو اللہ رب العزت نے اپنے ہاتھ سے تخلیق کیا جیسا کہ قرآن مجید اور احادیث اس بات پر دلالت کرتیں ہیں ، اللہ رب العزت کا اپنے ہاتھوں کسی کا تخلیق کرنا اس کی اہمیت اور انفرادیت کو واضح کرتاہے ۔

انسان جسے اللہ رب العزت نے اپنے ہاتھوں تخلیق کیا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ:

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ(ص: 75)

’’رب نے فرمایا اے ابلیس ! تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔‘‘

اس کے بعد اس انسان کے اندر تناسل کی طاقت رکھ دی کہ اس کے نطفے سے ویسے ہی انسان پیدا ہوتے چلے جائیں۔

ایک کمال یہ تھا کہ زمین کے مواد کو جمع کرکے ایک تخلیقی حکم سے اس میں وہ زندگی اور وہ شعور وتعقل پیدا کردیا جس سے انسان جیسی ایک حیرت انگیز مخلوق وجود میں آگئی۔ دوسرا کمال یہ ہے کہ آئندہ مزید انسانوں کی پیدائش کے لئے ایک ایسی مشینری خود انسانی ساخت کے اندر رکھ دی جس کی ترکیب اور کارگزاری دیکھ کر عقل دنگ رہ جاتی ہے۔

تخلیق انسان کے جس پہلو پر بھی نظر ڈالی جائے ایک نئی منفرد سوچ معلوم ہوتی ہے۔ جیسا کہ خالق کا کمال حکمت یہ ہے کہ اس نے انسان کی صرف ایک صنف نہیں بنائی بلکہ اسے دو صنفوں کی شکل میں پیدا کیا جو انسانیت میں یکساں ہیں جن کی بناوٹ کا بنیادی فارمولا بھی یکساں ہے لیکن دونوں ایک دوسرے سے مختلف جسمانی ساخت، مختلف ذہنی ونفسی اوصاف اور مختلف جذبات اورمیلانات لیکر پیدا ہوئی ہیں اور پھر ان کے درمیان یہ حیرت انگیز مناسبت رکھ دی گئی ہے کہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا پورا جوڑ ہے۔

یہ ایک دوسرے کے جسمانی ونفسیاتی تقاضوں کا مکمل جواب ہیں، جیسا کہ قرںن مجید میں ارشاد ہوتاہے

وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَكُمْ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ إِذَا أَنْتُمْ بَشَرٌ تَنْتَشِرُونَ وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً (الروم: 20، 21)

’’اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا پھر یکایک تم بشر ہوکر پھیلتے جارہے ہو اور اس کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے بیویاں بنائیں تاکہ تم ان کے پاس سکون حاصل کرسکو اور تمہارے درمیان محبت اور رحمت پیدا کردی۔‘‘

تخلیق انسانی کے تمام مراحل پکار پکار کرکہہ رہے ہیں کہ ہمارا دنیا میں ظہور فضیلت کا حامل ہےاور ہمیں تخلیق کرنے والا موجود ہے اور ہماری تخلیق کوئی اتفاقی امر نہیں اور نہ ہی کوئی ارتقائی عمل ہے جیسا کہ زمانۂ قدیم کی سائنس بیان کرتی ہے بلکہ ہماری زندگی بامقصد ہے اور فضیلت پر فضیلت یہ ہے کہ ہم اپنے مقصد تخلیق کو حاصل کریں۔

اس سے ہٹ کر اگر سائنسی بنیادوں پر تجزیہ کیا جائے تو ایک غالب نوع کی حیثیت سے بھی انسان کی کوئی مثال نہیں ہے کیونکہ دیگر غالب انواع سینکڑوں اور ہزاروں انواع میں منقسم ہیں۔پھر متعدد اجناس اور بڑے بڑے گروہوں میں جمع ہوگئی ہیں البتہ انسان نے اپنی سیادت کو بغیر تقسیم کے برقرار رکھا ہے اور انسان کا نسلی تنوع ایک ہی نوع میں محدود رہا ہے۔

رب العالمین نے حضرت انسان کو مشت خاکی سے بنایا اور پھر اس میں اپنی روح پھونکی جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے

فَإِذَا سَوَّيْتُهُ وَنَفَخْتُ فِيهِ مِنْ رُوحِي فَقَعُوا لَهُ سَاجِدِينَ (الحجر: 29)

’’جب اسکو (صورت انسانیہ میں) درست کرلوں اور اس میں اپنی (بے بہا چیز یعنی) روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا‘‘

اس سے معلوم ہوا کہ انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفات الٰہی کا ایککرشمہہے۔ حیات، علم، قدرت ، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی بھی صفات انسان میں پائی جاتیں ہیں جن کے مجموعہ کے نام ہی روح ہے اسی وجہ سے انسان کو جو دوسری تمام جانداروں سے زیادہ عقل، تمیز، قوت وارادہ واختیار ، مختلف اشیاء کے خواص معلوم کرنے کا علم نیز غوروفکر کے ذریعے استنباط یا نتائج حاصل کرنے کا علم دیاگیاہے۔ یہ سب کچھ اسی نفخہ کا نتیجہ ہے اور اسی بناء پر انسان زمین میں اللہکی افضل ترین مخلوقہے۔

’’لیکن یہاں ایک بات کا تذکرہ کرتے چلیں کہ ’’نَفَخْتُ فِیہِ مِنْ رُوحِی ‘‘ سے کچھ لوگوں نے بڑا گمراہ کن نظریہ اور مفہوم اخذ کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ انسان کی ذات میں حلول کرگیاہے۔اور بعض لوگوں نے کہا کہ جتنا حصہ اللہ نے اپنی روح کا انسان میں پھونکا اتنا اس میں کم ہوگیا(أعاذنا اللہ من ذلک) حالانکہ اس کی مثال ایسی ہی ہے جیسے سورج اپنی شعاعیں زمین پر ڈالتاہے تو وہ روشنی سے جگمگا اٹھتی ہے۔ اس سے نہ سورج کی روشنی میں کچھ کمی واقع ہوتی ہے اور نہ ہی یہ کہا جاسکتاہے کہ سورج زمین میں حلول کرگیاہے۔ اور دوسری قابل ذکر بات یہ ہے کہ انسان کی پیدائش کسی ارتقاء کا نتیجہ نہیں ہے کیونکہ انسان کو اللہ تعالیٰ نے بحیثیت انسان ہی پیدا کیا ہے کیونکہ اپنی روح کا کسی بندرمیں پھونکا جانا انتہائی واہیات اور غیر معقول نظریہ ہے جس کی کوئی بھی صاحب عقل سلیم تائید نہیں کرے گا‘‘

اسی لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا

وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي(الإسراء: 85)

’’اور جب تجھ سے روح کے بارے میں سوال کیا جائے تو کہہ دیجئے کہ روح میرے رب کا حکم ہے۔‘‘

درحقیقت روح ولطیف شئے ہے جو کسی کو نظر نہیں آتی لیکن ہر جاندار کی قوت وتوانائی اسی روح کے اندر مضمر ہے اس کی حقیقت وماھیت کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہے۔ یہودیوں نے بھی ایک مرتبہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو یہ آیت اتری ۔

فضیلت انسان سیادت کے لحا ظ سے :

اللہ رب العزت کا انسان میں روح پھونکے جانے کے بعد اسے جو صفات اورجو خوبیاں ملی ہیں اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اسے اگلی فضیلت جو عطا کی وہ نظام خلافت کی استعداد ہے جو ہر انسان میں بالقوۃ موجود ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سیدنا آدم علیہ السلام کو دنیا میں خلیفہ بنا کر بھیجا تھا تاکہ آدم علیہ السلام اور اس کی اولاد دنیا میں وہ نظام حیات قائم کرے جو اللہ کی مرضی کے مطابق ہو اور جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے رسل کے ذریعے بیان بھی کیا تھا اور اس نظام خلافت کو قائم کرنے میں کسی مخلوق میں جن اوصاف کی ضرورت تھی وہ سب اللہ تعالیٰ نے حضرت انسان کو ودیعت کردیئے تھے اور چونکہ یہ اوصاف (جن کی وضاحت ’’فضیلت انسان، صفات کے حوالے سے ‘‘ میں آئے گی) ہر انسان میں ہیں اس لیئے ہر انسان اس کا مستحق ہے اور اس حوالے سے انہیں قوت ارادہ اوراختیار بھی دیاگیاہے لہذا یہ اس کی عظمت اور فضیلت ہے جو کسی اور مخلوق کو نہیں عطا کی گئی۔

(عفیف عبد الفتاع طبارۃ/ روح الدین الإسلامی / مکتبہ دار العلم للملایین/ بیروت، ص:۱۳۵۔۱۳۶/ط:1989

اور اس کی خلافت کا اعلان اس کی تخلیق کے اعلان کے ساتھ ہی ہوگیا تھا جیسا کہ سورۃ البقرۃ میں آیا ہے۔

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلَائِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً(البقرة: 30)

’’پھر ذرا اس وقت کا تصور کرو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ :’’میں زمین میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں‘‘۔

اور یہ وہی بار خلافت تھا جو کہ حضرت انسان نے اپنے کاندھوں پر اٹھایا تھا جیسا کہ قرآن مجید میں آیا ہے کہ

إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمَانَةَ عَلَى السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَالْجِبَالِ فَأَبَيْنَ أَنْ يَحْمِلْنَهَا وَأَشْفَقْنَ مِنْهَا وَحَمَلَهَا الْإِنْسَانُ إِنَّهُ كَانَ ظَلُومًا جَهُولًا(الأحزاب: 72)

’’اور ہم نے اپنی امانت آسمانوں اور زمین اور پہاڑوں پر پیش کی تو انہوں نے اسے اٹھانے سے انکار کردیا اور اس سے ڈر گئے مگر انسان نے اٹھا لیا۔‘‘

امانت سے مراد بار خلافت ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا تھا کہ میں دنیا میں ایک خلیفہ بنانے والا ہوں۔

اس امانت کو اٹھانے کا سوال اللہ تعالیٰ نے پہاڑوں، آسمانوں اور زمینوں پر پیش کیا تھا سب ڈر گئے اور انکار کرگئے لیکن انسان جو ظاہراً ضعیف مخلوق ہے جو ایک منٹ بھی سانس نہ لے تو مر جائے اس بار عظیم کو اٹھانے کیلئے تیار ہوگیا۔ حضرت انسان نے بڑی جرأت سے کہہ دیا کہ مجھے اگر قوت ، تمیز، عقل وفہم اور ارادہ واختیار دے دیا جائے تو میں اس بار کو اٹھانے کیلئے تیار ہوں چنانچہ اللہ تعالیٰ نے انسان سے اس بات کا عہد بھی لیا جو ’’عھداً ألسْتُ بِرَبِّکُمْ‘‘ کے نام سے مشہور ہے یہ مکالمہ زبان حال سے ہوا تھا یا کال سے یا محض تمثیلی انداز ہے ؟ یہ باتیں تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے پھر یہ بات بھی قابل غور ہے کہ مکلف مخلوق دو ہیں ایک انسان اور دوسرے جن لیکن یہاں صرف ذکر انسان کا کیا گیا ہے وہ اس لیئے کہ جتنی استعداد اور قوت اللہ تعالیٰ نے انسان میں رکھی جنوں میں نہیں رکھی لہذا انسان اشرف المخلوقات ہے جن نہیں۔

(ابن کثیر / تفسیر ابن کثیر / مکتبہ بولاق ، جلد نمبر ۳، ص:398/ ط:1991،سید محمد قطب / فی ظلال القرآن/ مکتبہ دار العلوم الملایین / بیروت، ج:4/ص:472/ط:1993

یہاں یہ بات واضح رہے کہ انسان کے لئے خلافتِ عمومی کوئی معمولی فضیلت نہیں ہے جو کسی کو ایسے ہی دے دی جائے یہ تو ایک خاص رحمت اور بہت اونچے درجے کی رحمت ہے جس کے لیئے فرشتوں کو بھی موزوں نہ سمجھا گیا تھا اسی لیے انسان کو ذی اختیار مخلوق کی حیثیت سے پیدا کرکے اللہ نے اپنی زمین کے یہ وسیع ذرائع اس کے تصرف میں دے دئیے اور تمام ہنگامہ خیز طاقتیں اس کو بخشیں تاکہ یہ اُس امتحان سے گزر سکے جس میں کامیاب ہوکر ہی کوئی بندہ اس کی یہ رحمت خاص کو پاسکتاہے یہ رحمت اللہ کی اپنی مرضی سے ہے اس پر کسی کا اجارہ نہیں ہے۔

فضیلت انسان ، صفات کے حوالے سے :

اللہ تعالیٰ نے جس طرح انسان کی تخلیق اپنے ہاتھوں سے کی اور اس کا خاکہ بنانے کے بعد اس میں اپنی روح پھونکی اسی طرح اسے کچہ ایسی صفات بھی عطا کی جوکہ کسی اور مخلوق کو نہیں عطا کی گئی اور یہ صفات جس مکمل انداز میں انسان کو عطا کی گئی اس طرح کسی اور جاندار مخلوق کو نہیں عطا کی گئی اسی حوالے سے اللہ رب العزت کا ارشاد ہے کہ :

وَهُوَ الَّذِي أَنْشَأَ لَكُمُ السَّمْعَ وَالْأَبْصَارَ وَالْأَفْئِدَةَ قَلِيلًا مَا تَشْكُرُونَ (المؤمنون: 78)

’’وہ اللہ ہی تو ہے جس نے تمہیں سننے اور دیکھنے کی قوتیں دیں اور سوچنے کو دل دیئے مگر تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔‘‘

انسان کی تخلیق اور اس کی ذاتی اوصاف کے بعد اس کی صفات کا تذکرہ کیا جاتاہے جن کی بناء پر اسے دیگر مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔ مذکورہ بالا آیت میں اللہ تعالیٰ بنی نوع انسان کو مخاطب کرکے فرما رہے ہیں۔ یعنی اللہ نے تمہیں آنکھیں ،کان اور دل اس لیے نہیں دئیے تھے کہ تم ان سے اتنا ہی کام لو جتنا جانور لیتے ہیں۔ غور کیا جائے تو انسان میں جتنی بھی صفات موجود ہوسکتی ہیں۔ ان کا تعلق ان تینوں سے بلا واسطہ یا بالواسطہ ہے اور یہ تینوں صفات کا نتیجہ ہیں۔

(وَنَفَخَ فِيهِ مِنْ رُوحِهِ(السجدة: 9)

قرآن مجید نے حصولِ علم کے لیے سمع، بصر وقلب کا ذکرکیا ہے سماعت وبصارت ان حواس senses کے ترجمان ہیں جن کے ذریعے محسوس اشیاء کے متعلق معلومات ذہن انسانی تک پہنچتی ہیں ۔یعنی یہ علم محبوسات Perceptual Knowledge کے ذرائع ہیں۔ ان ذرائع سے جو معلومات Sense Data قلب Mindتک پہنچتاہے۔ وہ اس سے تصورات Concepts متعین کرتاہے۔ اس طرح سمع، بصر وقلب سے Perceptual Knowledgeحاصل ہوتاہے۔ قرآن مجید نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ جوشخص ان صفات سے کام نہیں لیتے وہ جانوروں سے بدتر ہیں۔

لہٰذا انسان کی سب سے اوّلین عظیم اور واضح منفرد خصوصیات اس کی غوروفکر اور عقل کی خوبی ہے اور یہی وہ خوبی ہے جس کی بناء پر انسان کو کائنات میں سیادت عطا ہوئی ہے کیونکہ اللہ رب العزت نے ایسے انسان کوجو غور وفکر سے عاری ہے مردہ بھی کہا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں آتاہے کہ :

إِنْ ہُوَ إِلَّا ذِکْرٌ وَقُرْآَنٌ مُبِینٌ لِيُنْذِرَ مَنْ كَانَ حَيًّا وَيَحِقَّ الْقَوْلُ عَلَى الْكَافِرِينَ(يس:69، 70)

’’ یہ تو ایک نصیحت ہے اور صاف پڑھی جانے والی کتاب تاکہ وہ ہر اس شخص کو خبردار کرے جو زندہ ہو اورانکار کرنے والوں پر حجت قائم ہوجائے۔‘‘

مولانامودودی رحمہ اللہ نے اس آیت سے استنباط کرتے ہوئے لکھا ہے کہ لہذا زندہ انسان وہی ہے جس کا دل اور ضمیر زندہ ہو۔

(ابو الأعلی مودودی/ انسان کی حقیقت قرآن کی روشنی میں/ ادارہ ترجمان قرآن/ لاہور ،ص:۲۹۳/ ط:1986

مولانا مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

’’عقل وشعور کے اعتبار سے مخلوقات کی تقسیم اس طرح ہے کہ عام جانوروں میں شہوات اور خواہشات ہیں عقل وشعور نہیں فرشتوں میں عقل وشعور ہے شہوات اور خواہشات نہیں انسان میں یہ دونوں چیزیں جمع ہیں ۔ عقل وشعور بھی ہے اور شہوات اور خواہشات بھی ہیں اسی وجہ سے جب خواہشات وشہوات کو عقل وشعور کے ذریعے مغلوب کرلیتاہے اور اللہ کی ناپسندیدہ چیزوں سے اپنے آب کو بچا لیتا ہے تو اس کا مقام فرشتوں سے بھی اونچا ہوجاتاہے‘‘

مفتی محمد شفیع/ معارف القرآن/کراچی،ج:۱/ ص:494/ط:1991

پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم کے ذرائع اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں دے کر بھلائی اور برائی کے راستے ممیز کر دئیے ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ہے کہ

لَمْ يَكُنِ الَّذِينَ كَفَرُوا مِنْ أَهْلِ الْكِتَابِ وَالْمُشْرِكِينَ مُنْفَكِّينَ حَتَّى تَأْتِيَهُمُ الْبَيِّنَةُ رَسُولٌ مِنَ اللّٰہِ يَتْلُو صُحُفًا مُطَهَّرَةً فِيهَا كُتُبٌ قَيِّمَةٌ(البينة: 1 – 3)

’’ اہلِ کتاب اور مشرکین میں سے جو لوگ کافر تھے وہ اپنے کفر سے باز آنے والے نہ تھے جب تک ان کے پاس روشن دلیل نہ آجائے یعنی اللہ کی طرف سے ایک رسول جو پاک صحیفے پڑھ کر سنائے جن میں بالکل راست اور درست تحریریں لکھیں ہوئی ہوں۔‘‘

یہاں یہ بات مد نظر رہے کہ اللہ رب العزت نے اس علم کی حقیقت بھی بتا دی ہے جو انسان کی فضیلت میں اہم کردار ادا کرتاہے۔ کہ یہ علم جس پر تم ناز کرتے ہو اور جس کی بدولت میں زمین کی دوسری مخلوقات پر تم کو شرف حاصل ہے یہ بھی اللہ تعالیٰ کا بخشا ہوا ہے تم اپنی آنکھوں سے یہ عبرتباک منظر دیکھتے رہتے ہو کہ جب کسی انسان کو اللہ تعالیٰ بہت زیادہ لمبی عمر دے دیتاہے تو وہی شخص جو کبھی جوانی میں دوسروں کو عقل سکھاتا تھا کس طرح گوشت کا لوتھڑا بن کر رہ جاتاہے جسے اپنے تن بدن کا بھی ہوش نہیں رہتا۔

جیسا کہ درج ذیل آیت میں بیان کیاگیاہے

إِنَّ اللهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الْأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ(لقمان: 34)

’’اس گھڑی (قیامت) کا علم اللہ ہی کے پاس ہے وہی بارش برساتاہے وہی جانتاہے کہ ماؤں کے پیٹوں میں کیا پرورش پارہا ہے کوئی نفس نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کمائی کرنے والا ہے اور نہ کسی شخص کو یہ خبر ہے کہ کسی سر زمین میں اس کو موت آنی ہے اللہ ہی سب کچھ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘

اور یہی وہ علم تھا جوکہ خلافت انسانی کے لیے ضروری شرط تھی اور اسی علم کی بناء پر انسان کو عمومی طور پر تمام مخلوقات پر فضیلت حاصل تھی اور خصوصی طور پر انہیں فرشتوں پر بھی فضیلت حاصل تھی کیونکہ فرشتوں کو صرف انہی أمور کا علم دیا گیا تھا جن پر وہ مدبرات امر کی حیثیت سے مامور تھے۔ مثلاً بادلوں اور پانی کا فرشتہ پانی کے متعلق تو جملہ معلومات رکھتاتھا مگر دوسری اشیاء کے افعال وخواص سے لا علم ہے یہی حال دوسرے فرشتوں کا ہے جبکہ انسان کو تمام اشیاء کا سرسری علم دیا گیا تھا پھر وہ تحقیق اور جستجو کے ذریعہ اس میں از خود اضافہ کرسکتاہے۔

جب فرشتوں کو آدم علیہ السلام کے علمی احاطہ کا علم ہوگیا تو انہوں نے اپنے عجز علمی کا اعتراف کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو وہ بات بھی بتا دی کہ انسان میں اگر فتنہ وشر کا پہلو ہے تو صلاح وخیر کا پہلو بھی موجود ہے اور صلاح وخیر کا پہلو غالب ہے اسی لیے اسے خلیفہ بنایا جارہا ہے کیونکہ وہ اپنے علمی کمال کی وجہ سے اس کی اہلیت رکھتاہے۔

اس قصہ سے ضمناً یہ بات بھی معلوم ہوگئی کہ علم عبادت سے افضل ہے عبادت کا تعلق صرف خالقسے ہے جبکہ علم کا تعلق خالق ومخلوق دونوں سے ہے اور سب سے بڑا عالم اور علیم خود اللہ تعالیٰ ہے بلاشبہ انسان فرشتوں جیسی اور جتنی عبادت نہیں کرسکتا تاہم علم کی بنا ء پر فرشتوں سے افضل اور مستحق خلافت قرار پایا ہے۔

فضیلت انسان ، ہیئت کے حوالے سے :

جسمانی اعتبار سے انسان تمام مخلوقات میں ممتاز ہے ۔ اللہ رب العزت نے انسان کی شکل وصورت تمام جانداروں سے اعلیٰ وبرتر بنائی دوسرے جانداروں سے انسان کی نمایاں خاصیت یہ بھی ہے کہ تمام جاندار اپنے منہ سے غذا کھاتے ہیں جبکہ انسان اپنے ہاتھ سے خوراک اپنے منہ تک لے جاتاہے۔ اکثر جانداز زمین پر رینگتے یا چار پیروں پر چلتے ہیں جبکہ انسان دو پاؤں پر چلتاہے اور اپنا جسم سیدھا رکھ کر چلتاہے انسان کے ہاتھ پاؤں کثیر المقاصد ہیں جتنا کام انسان اپنے ہاتھ ، پاؤں سے لے سکتاہے دوسرا کوئی جاندار نہیں لے سکتا ۔ اس کے بے نظیر جسم اور جسمانی صلاحیتوں کے علاوہ جتنی ذہنی قوتیں اللہ تعالیٰ نے انسان کو بخشی ہیں وہ کسی دوسرے جاندار میں نہیں ہیں اور یہ سب اللہ تعالیٰ کا خاص فضل وکرم ہے۔

اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا کہ

وَصَوَّرَكُمْ فَأَحْسَنَ صُوَرَكُمْ(غافر: 64)

’’اور تمہاری صورتیں بنائی تو نہایت عمدہ بنائیں۔‘‘

انسان اللہ تعالیٰ کی ایک ایسی صنعت ہے جو تمام نقائص سے پاک ہے اس سلسلہ میں محمد فاروق خان لکھتے ہیں کہ ’’کائنات کی ہر شے اللہ کی قدرت اور حکمت ودانائی کا سرچشمہ ہے اللہ کی کسی صنعت میں جسے ہم دنیا میں اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کوئی نقص نظر نہیں آتا اس لیئے اللہ کی وہ عظیم صنعت بھی تمام نقائص سے پاک ہے جس کا نام انسان ہے ۔

ایک اور جگہ ارشاد فرمایا کہ

لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ (التين: 4)

’’یقیناً ہم نے انسان کو بہترین صورت میں پیدا کیا ‘‘

یعنی انسان اپنی شکل وصورت اور ہیئت میں تمام جانداروں سے زیادہ خوبصورت اور مکمل وجود رکھنے والا ہے۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ اپنی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ ’’نوع انسانی کے فضل وکمال کا سب سے بلند نمونہ انبیاء علیہم السلام ہیں اور کسی مخلوق کے لیئے اس سے اونچا مرتبہ نہیں ہوسکتا کہ اللہ تعالیٰ اسے منصب نبوت پر فائز کرنے کے لئے منتخب فرمائے۔ اس لئے بہترین ساخت پر پیدا کرنے سے مطلب ہے کہ اس میں نبوت جیسے عظیم مرتبے کے حامل انسان پیدا ہوئے۔

أبو الأعلی مودودی/ تفہیم القرآن/ ادارہ ترجمان القرآن/ لاہور/ ج:6/ ص:387/ط:1995

فضیلت انسان، تسخیر کائنات کے حوالے سے :

انسان چونکہ ذات باری تعالیٰ کی قدرت کا شاہکار ہے اس لئے اس نے اپنے حکم ازلی اور قوت قاہرہ کے ذریعے تمام موجود عالم کو انسان کے خادم ہونے کی حیثیت سے مختلف کاموں پر مامور کر رکھا ہے۔ انسان کی کوئی مشکل اور اس کی کوئی فطری تمدنی ضرورت ایسی نہیں ہے جس کا حل ’’ضروریات سے بھرپور‘‘ اس کائنات میں موجود نہ ہو۔ قرآن پاک میں اس حقیقت کو بڑے دل نشیں انداز میں بیان کیاگیاہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا (البقرة: 29)

’’ وہی تو ہے جس نے زمین میں موجود ساری چیزیں تمہاری خاطر پیدا کیں۔‘‘

ایک اور مقام پر ارشاد ہے کہ:

أَلَمْ تَرَوْا أَنَّ اللهَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ (لقمان: 20)

’’ کیا تم دیکھتے نہیں کہ جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے بلا شبہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے کام پر لگا دیا ہے۔‘‘

مزید ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

أَلَمْ تَرَ أَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ(الحج: 65)

’’کیا تم نہیں دیکھتے کہ جتنی چیزیں زمین میں ہیں سب اللہ نے تمہارے لیے مسخر کر دی ہیں‘‘

کائنا ت اور انسانی ضروریات میں انتہا کا ربط وتعلق پایا جاتاہے ۔

محمد فاروق خان اپنی کتاب ’’انسان اور کائنات‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’کائنا ت کے اندر بے شمار ایسے انتظامات پائے جاتے ہیں کہ جن کے بغیر زمین میں زندگی اور زندگی کی مسرتوں کا کوئی امکان نہ تھا۔ زمین کی موجودہ جسامت ، سورج اور چاند سے اس کا موجودہ فاصلہ اس کا اپنے محور پر ساڑھے تیئس درجے جھکا ہونا، اس کے اندر قوت کشش کا پایا جاناوغیرہ ایسے انتظامات ہیں جن کے بغیر یہاں زندگی کا تصور بھی نا ممکن تھا۔ ان کے علاوہ کائنات کے اندر بے شمار ایسی حکمتوں کی کارفرمائیاں ہیں جن کے بارے میں نہ تو ہمیں علم حاصل ہے اور نہ ان کے صحیح طور پر سمجھنے کی ہمارے اندر صلاحیت ہے کیا ان باتوں کے باوجود اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں کہ ساری کائنات ہمارے لیئے مسخر کی گئی ہے ۔ کسی شک کی گنجائش باقی رہتی ہے ۔(محمد فاروق خان / انسان اور کائنات / افضل شریف پرنٹرز / لاہور ، ص:6/ط:1988)

تسخیر کائنات کے حوالے جامع ترین آیات درج ذیل ہیں جس میں بیان کیا گیا ہے کہ کائنات کو کن معانی میں انسان کے لیے مسخر کیاگیاہے۔

اللهُ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ وَأَنْزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَخْرَجَ بِهِ مِنَ الثَّمَرَاتِ رِزْقًا لَكُمْ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْفُلْكَ لِتَجْرِيَ فِي الْبَحْرِ بِأَمْرِهِ وَسَخَّرَ لَكُمُ الْأَنْهَارَ(إبراهيم: 32)

’’اللہ تعالیٰ وہی تو ہے جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا اور آسمان سے پانی برسایا پھر اس کے ذریعے سے تمہاری رزق رسانی کے لئے طرح طرح کے پھل پیداکیے ۔ جس نے کشتی کو تمہارے لئے مسخر کیا کہ سمندر میں اس کے حکم سے چلے اور دریاؤں کو تمہارے لئے مسخر کیا۔ جس نے چاند اور سورج کو تمہارے لئے مسخر کیا کہ لگاتار چلے جا رہے ہیں اور رات اور دن کو تمہارے لئے مسخر کیا۔‘‘

تسخیر کائنات کا مفہوم کیا ہے ؟

تسخیرِ کائنات کے دو مطلب ہیں ایک یہ کہ کائنات کی ہر چیز انسان کی خادم ہے اور انسان مخدوم ہے، زمین، سمندر،پانی، ہوائیں،پہاڑ، چاند،سورج، ستارے یہی موٹی موٹی اشیاء کائنات گنی جاسکتی ہیں۔ ان کے انسان کا خادم ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ اگر ان میں سے ایک چیز بھی نہ ہو تو انسان زندہ نہیں رہ سکتا مگر انسان کے بغیر ان چیزوں کا کچھ نہیں بگڑتا۔

اس کا دوسرا مطلب یہ ہے کہ زمین میں جتنی بھی اشیاء موجود ہیں۔ خواہ وہ جمادات ہوں، نباتات ہوں یا حیوانات ہو ں، اللہ نے انسان کو اتنی عقل عطا فرمادی ہے کہ وہ ان میں سے جس کو چاہے اپنے قابو میں لاسکتاہے اور اس سے حسب ضرورت فائدہ اٹھا سکتاہے۔ رہیں وہ چیزیں جن کا تعلق زمین سے نہیں مثلاً : سورج، چاند ،ستارے وغیرہ تو ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایسے قوانین بنادیئے ہیں اور انہیں ایسے نظم وضبط سے جکڑ رکھا ہے کہ انسان ان سے فائدے اٹھا سکتاہے اور اپنے معمولات زندگی اور کاروبار وغیرہ ٹھیک طرح سے سرانجام دے سکتاہے۔ وہ مدتوں پہلے یہ معلوم کرسکتاہے کہ سورج گرہن اور چاند گرہن کب ہوگا ؟ بروبحر کی تاریکیوں میں وقت اور راستے اور سمتیں معلوم کرسکتاہے۔ حتی کہ ہزار سال بعد تک کے لئے کلینڈرز بھی تیار کرسکتاہے۔ اور نت نئی ایجادات بھی وجود میں لاسکتاہے اور یہی تسخیر کائنات کا مطلب ہے تسخیر کائنات کا یہ مفہوم ہرگز نہیں کہ انسان پہلے اپنے قریبی سیارچے چاند پر پہنچنے کی کوشش کرے پھر دوسرے سیاروں پر پہنچنے میں اپنی قیمتی عمر برباد کردے۔

یعنی اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تمام اشیاء کو ایسے قوانین کا پابند بنا رکھا ہے کہ جن کی بدولت وہ انسان کے لیے نافع ہوگئی ہیں۔

لہٰذا اللہ نے کائنات کی تمام قوتوں کو انسان کے تابع تسخیر کر رکھا ہے، یہ قوتیں اور اشیاء اس کی معبود نہیں اس کی خادم ہیں۔ دیکھا جائے تو آدم علیہ السلام مسجود ملائکہ ہیں۔ جس سے انسان کا مقام کائنات کی ہر چیز سے بلند ہوگیا اور اس کے سامنے اشیاء فطرت کے تسخیر کے دروازے کھل گئے جس کی وجہ وہ علم ہے جو اللہ نے اـنسان کو دیا ہے۔ دنیا میں جو قوم بھی علم کی حامل ہوگی اور وہ اس علم کو اپنے لیے استعمال کرے گی کائنات کی تمام اشیاء اس کے تابع ہوجائیں گی۔ اس میں مومن اور کافر کی کوئی تخصیص نہیں البتہ مومن اس کو اللہ رب العزت کی توحید کی معرفت اور اس کے مطابق عمل کرنے میں صرف کرے گا اور کافر اسے اپنی مفاد پرستیوں کے کام میں لائے گا۔

اس سے یہ ظاہر ہوتاہے کہ فضیلت انسان کی حقیقت یہ ہے کہ وہ کائناتی اشیاء اور قوتوں کو مسخر کرکے ان کا مفید استعمال کرے اور ان کو انسانیت کی فلاح وبہبود کے لیے استعمال کرے اور جو ان قوتوں اور اشیاء کو غلط استعمال کرے ۔ مومن تو درکنا وہ مقام انسانیت سے بھی محروم ہوجاتاہے۔ جیسا کہ (انسان کی فضیلت صفات کے حوالے سے) گذشتہ سطور میں گزرا ہے۔

فضیلت انسان، احترام جان کے حوالے سے :

اللہ رب العزت نے کائنات میں جتنی بھی مخلوقا ت پیدا کیں ان میں سے کسی کی جان کی حرمت کے لیئے اتنی اہمیت عطا نہیں کی گئی جتنی انسان کی جان کو اہمیت عطا کی گئی اور یہ اہمیت بلا تفریق وتخصیص ہے یعنی اس میں کسی رنگ ونسل ، مذہب یا عقیدے کا عمل دخل نہیں ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

مِنْ أَجْلِ ذَلِكَ كَتَبْنَا عَلَى بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنَّهُ مَنْ قَتَلَ نَفْسًا بِغَيْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِي الْأَرْضِ فَكَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِيعًا وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعًا (المائدة: 32)

’’اسی وجہ سے بنی اسرائیل پر ہم نے یہ فرمان لکھ دیا تھا کہ ’’جس نے کسی انسان کو خون کے بدلے یا زمین میں فساد پھیلانے کے سوا کسی اور وجہ سے قتل کیا اس نے گویا تمام انسانوں کو قتل کردیا اور جس کسی نے جان بچائی اس نے گویا تمام انسانوں کو زندگی بخش دی۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوتاہے کہ بنی نوع انسان کو تمام مخلوقات میں کیا مقام حاصل ہے ۔ اس کی جان کی حرمت کے بعد اس کی عزت اور احترام میں یہاں تک فرمایا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے اور ایک انسان کی زندگی پوری انسانیت کی زندگی ہے۔

اس کے لیئے ضروری ہے کہ ہر انسان کے دل میں دوسرے انسان کی جان کا احترام موجود ہوناچاہیے اور ہر ایک دوسرے کی زندگی کے بقا وتحفظ میں مددگار بننے کا جذبہ رکھتا ہو۔ جوشخص ناحق کسی کی جان لیتا ہے وہ صرف ایک ہی فرد پر ظلم نہیں کرتا بلکہ یہ ثابت کرتاہے کہ اس کا دل حیات انسانی کے احترام سے ہمدردی نوع کے جذبہ سے خالی ہے۔ لہذا وہ پوری انسانیت کا دشمن اور قاتل ہے کیونکہ اس کے اندر وہ صفت پائی جاتی ہے جو اگر تمام انسانوں میں پائی جائے تو پوری نوع کا خاتمہ ہوجائے۔ اس کے برعکس جو شخص انسان کی زندگی کے قیام میں مدد کرتاہے وہ درحقیقت انسانیت کا حامی ہے۔کیونکہ اس میں وہ صفت پائی جاتی ہے جس پر انسانیت کے بقاء کا انحصار ہے۔

گویا جتنی اہمیت انسان کی جان کو حاصل ہے وہ کسی اور جاندار کو حاصل نہیں ہے۔ اور انسانی نسل کی بقاء کے تمام جانداروں کی نسل کی بقاء سے اہم ہے کہ دنیا میں بے شمار جانداروں کی اصناف اس وقتمعدوم ہوچکی ہیں۔

فضیلت انسان ، دوسری مخلوقات پر :

اللہ رب العزت نے حضرت انسان کو جہاں بڑے خاص اہتمام سے وجود بخشا اسے مسجود ملائکہ ٹھہرایا ۔ بے حد وحساب نعمتوں اور نوازشوں سے نوازا وہاں بطور خاص ایک شرف بھی عطا کیا کہ اسے قوت گویائی کا ایک خصوصی تحفہ عطا فرمایا ۔ جس سے دیگر مخلوقات محروم ہیں۔ زبان کے ذریعے اپنے دل کی بات دوسرے کو بتادینا اور تحریر اور خط کے ذریعے اپنی بات دوسروں تک پہنچا دینا۔ سب انسان ہی کا امتیاز ہے۔

مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ’’ انسان کے منہ میں دانتوں کی بندش کے اندر قدرت نے ایک ایسی مشین نصب فرمائی ہے جو غیر شعوری طور پر بلاتامل نئے سے نئے الفاظ بناتی چلی جاتی ہے منہ کے خول میں ہوا کی حرکت اور حلق کی آخری حد تک ہوا کے تموج سے لاکھوں الفاظ منٹوں میں بن جاتے ہیں۔ جن میں ہر لفظ ایک سے بڑھ کر ایک نیا اور جدا ہوتاہے ۔ دانتوں اور ہونٹوں کی رکاوٹ الفاظ کے بننے اور مخارج کی صحت میں مدد دیتی ہے۔ ذَلِكَ تَقْدِيرُ الْعَزِيزِ الْعَلِيمِ (الأنعام: 96)

اگرچہ انسان کے اور بھی بیسیوں اعضاء ہیں لیکن الفاظ اور نطق کی مشینری صرف منہ میں نصب کی گئی ہے جو کہ صرف انسان کو بخشی گی ہے یہ انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔(محمد اسماعیل سلفی / حجیت حدیث / اسلامک پبلشنگ ہاؤس / لاہور ،ص/۷۱/ط:1981)

اس کے علاوہ اللہ رب العزت نے انسان کو اپنے ہاتھ سے تخلیق فرمایا جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ:

قَالَ يَا إِبْلِيسُ مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ(ص: 75)

’’رب نے فرمایا اے ابلیس ! تجھے کیا چیز اس کو سجدہ کرنے سے مانع ہوئی جسے میں نے اپنے دونوں ہاتھوں سے بنایا۔‘‘

اس کے علاوہ انسان کی دوسری تمام مخلوق پر فضیلت اور تکریم یہ ہے کہ اللہ نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا کیا جو سیدھا کھڑا ہوکر چلتاہے پھر جس قدر توازن واعتدال انسانی جسم میں ہے اور جس قدر اس کے اعضاء جسم کثیر المقاصد ہیں اتنے کسی دوسری مخلوق کے نہیں ہیں۔

اللہ کی مخلوق میں سب سے برتر اللہ کے فرشتے ہیں لیکن اللہ نے ان سے بھی آدم کو سجدہ کروایا اور تمام مخلوق پر واضح کر دیا کہ انسان ہی اشرف المخلوقات ہے پھر انسان کا بچہ جو باقی تمام جانوروں کے بچوں سے کمزور پیدا ہوتاہے۔ اسے اتنی عقل عطا کی کہ وہ دنیا جہاں کی چیزوں کو اپنے کام میں لاتے ہوئے بڑے بڑے جسم اور طاقتور جانوروں کو رام کرکے ان پر سواری کرتاہے۔ دریاؤں اور سمندروں میں کشتیاں اور جہاز چلا کر سمندر کی پیٹھ پر سوار ہوتاہے تمام مخلوق کے مقابلہ میں کھانے کے لیے اعلیٰ سے اعلیٰ ، لذیز سے لذیز اور صاف ستھرے کھانے اپنی خوراک کے لئے تیار کرتا ہے ۔ اعلیٰ سے اعلیٰ لباس اور رہائش کے لیے مکان تعمیر کرتا ہے یعنی جتنا اقتدار واختیار اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا کیا اتنا دوسری مخلوق کو عطا نہیں کیا گیا۔

انسان کے اندر بھی ایک پوری کائنات آباد ہے اسی لیے انسان کے اندر کی دنیا کو عالم اصغر کہا جاتاہے اور بیرونی دنیا کو کائنات یا عالم اکبر۔

اس حوالے سے عالم اصغر یعنی انسان تمام مخلوقات میں امتیاز، خصوصیات کا حامل ہے جس کی بناء پر وہ دوسرے تمام جانداروں سے افضل واشرف ہے۔ مفاد خویش، تحفظ خویش اور بقائے نسل وغیرہ ایسے طبعی تقاضے ہیں جو ہر جاندار اور اسی طرح انسان میں بھی پائے جاتے ہیں۔ یعنی انسان کو درج ذیل خصوصیات دے کر اسے تمام مخلوقات میں ممتاز واشرف بنایا گیا ہے۔

۱۔ زمین اور اس کے ماحول میں بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو انسان کیلئے مسخر کردی گئی ہیں اور وہ ان سے جیسے چاہے کام لے سکتاہے اور یہ صفت انسان کے علاوہ دوسرے کسی جاندار میں نہیں ہے۔

۲۔ اسے خیر اور شر کی تمیز بخشی گئی وہ اپنے ہی کئے کاموں پر حکم لگا سکتاہے کہ میں نے فلاں اچھا کا م کیا تھا اور فلاں برا تھا یہ بات کافی حد تک اس کی فطرت میں رکھ دی گئی ہےپھر اسے وحی کے ذریعے متنبہ بھی کیا جاتارہاہے۔

۳۔ اسے قوت ارادہ واختیار بھی بخشا ہے اور وہ اپنے لیے اچھا یا برا کوئی بھی طرز زندگی اپنانے کا پورا اختیار رکھتاہے حتیٰ کہ ایک ایساوقت بھی آجاتاہے کہ وہ اپنے تحفظ کے فطری داعیہ کے علی الرغم کسی جذبہ کے تحت اپنی جان دینے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔

۴۔ اسے عقل وشعور کا وافر حصہ عطا کیاگیاہے جس کے ذریعے وہ چند معلوم اور دیکھی ہوئی اشیاء سے مزید کچھ حقائق اور نتائج کا سراغ لگانے کی اہلیت رکھتا ہے جسے اصطلاحی زبان میں علت Cause اور معلول Effect سے تعبیر کیا جاتاہے وہ مشاہدات کو دیکھ کر اس کی علت بھی معلوم کرنا چاہتا ہے اور اس سے آگے معلوم بھی۔

۵۔انسان کے علاوہ جتنی بھی جاندار مخلوق ہے تقریباً سب ہی سنتے بھی ہیں اور دیکھتے بھی ہیں لیکن سمیع اوربصیر نہیں ہیں۔ سمیع اور بصیر صرف انسان ہے۔ اور یہی چیز انسان کے لئے علم کے حصول کے سب سے بڑے ذرائع ہیں ۔ انسان اشیاء کو دیکھ اور بعض آوازیںسن کر ان پر غور کرتا انہیں قیاس اور استنباط کرتا پھر ان سے نتائج اخذ کرتاہے۔ جبکہ دوسرے جانور دیکھنے اور سننے کے باوجود ان میں سے کوئی کام بھی نہیں کرسکتے۔

فضیلت انسان ، علم کے حوالے سے :

نیابت الٰہی کے معاملہ میں فرشتوں پر انسان کو ترجیح کی اصل وجہ وہ علم ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو دیا۔قرآن مجید میں اس حقیقت کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے ۔

سورۃ البقرۃ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ

وَعَلَّمَ آدَمَ الْأَسْمَاءَ كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلَائِكَةِ فَقَالَ أَنْبِئُونِي بِأَسْمَاءِ هَؤُلَاءِ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ قَالُوا سُبْحَانَكَ لَا عِلْمَ لَنَا إِلَّا مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنْتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ قَالَ يَا آدَمُ أَنْبِئْهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ فَلَمَّا أَنْبَأَهُمْ بِأَسْمَائِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُلْ لَكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنْتُمْ تَكْتُمُونَ (البقرة: 31 – 33)

’’اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو تمام چیزوں کے نام سکھا دئیے۔پھر وہ چیزیں فرشتوں کے سامنے رکھیں اور کہا کہ اگر تم سچے ہو تو مجھے ان تمام چیزوں کے نام بتاؤ ۔ انہوں نے کہا تیری ذات پاک ہے ہمیں علم نہیں سوائے اس کے جتنا تو نے ہمیں دیا۔ بے شک تو ہی علم وحکمت والاہے۔ (اللہ نے ) کہا کہ اے آدم! ان فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتا دو پس آدم علیہ السلام فرشتوں کو ان چیزوں کے نام بتادئیے تو اللہ نے کہا کہ میں نے تمہیں نہیں کہا تھا کہ میں آسمانوں اور زمین کی پوشیدہ باتیں جانتا ہو اور جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو اسے بھی جانتا ہوں۔‘‘

اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم کے ہتھیار سے مسلح کرکے اس کارگاہ حیات میں اتارا اور اسی علم کی فضیلت کی وجہ سے انسان کو فرشتوں کے لئے باعث تعظیم قرار دیا گیا۔ جب فرشتوں نے اپنے علم کی کم مائیگی کا اعتراف کیا تو اس اعتراف کو پختہ بنانے کے لئے فرشتوں کو انسان کے سامنے جھک جانے کا حکم دیا ۔

ارشاد فرمایا

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلَائِكَةِ اسْجُدُوا لِآدَمَ فَسَجَدُوا إِلَّا إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ (البقرة: 34)

’’اور جب ہم نے فرشتوںکو حکم دیا کہ آدم کے آگے سجدہ کرو تو وہ سب سجد میں گر پڑے مگر شیطان نے انکار کیا اور کافر بن گیا۔‘‘

فرشتوں کے سجدے کرنے کا مطلب یہ ہے کہ زمین اور اس سے تعلق رکھنے والے طبقہ کائنات میں جس قدر فرشتے موجود ہیں ان سب کو انسان کی اطاعت کا حکم دے دیاگیا چونکہ اس دنیا میں وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کا خلیفہ بنایا جا رہا تھا اس لئے فرمان شاہی جاری ہوا کہ جس کام میں بھی وہ ہمارے عطا کردہ اختیارات کو استعمال کرنا چاہیے تو ہر قوت اس کا ساتھ دے اور اس کے راستے کی مزاحمت نہ کرے۔

یہ علم کونسا علم تھا جس کی وجہ سے سیدنا آدم علیہ السلام کو فرشتوں پر برتری حاصل ہوئی اس کا جواب مختلف انداز میں دیاگیا ہے جس کا خلاصہ درج ذیل ہے:

۱۔ مخلوقات کے نام تھے۔

۲۔ مختلف ممالک کی بولیاں مراد ہیں۔

۳۔ انبیاء وصلحاء کے نام مراد ہیں۔

۴۔ اسمائے الٰہی مراد ہیں۔

۵۔ اشیاء کے خواص اور معلومات ہیں۔

۶۔ قابل استعمال اشیاء کے نام مراد ہیں جو روز مرہ زندگی میں مستعمل ہیں۔

حافظ ابن کثیر/ تفسیر القرآن العظیم / مطبوعۃ استنبول/ ج:۱/ص:104/ط:1984،قرطبی/الجامع لأحکام القرآن/ مطبوعۃ استنبول /ج:1/ص:282/ط:1978

اس ضمن میں مولانا محمد شہاب الدین ندوی سے بڑے پتے کی بات کی ہے وہ کہتے ہیں:

’’انسان کو سب سے پہلا جو علم دیاگیا وہ علم اشیاء ہے یعنی تمام موجودات عالم اور ان کی خصوصیات وامتیازات کا علم جس کو ہم مختصر طور پر علم أسماء یا علم مظاہر کائنات کہہ سکتے ہیں۔ موجودہ دور میں سائنس جن چیزوں سے بحث کرتی ہے وہ یہی موجودات عالم ہیں اور جو باتیں بیان کرتی ہیں وہ یہی اشیاء کے آثار وخواص ہیں اور تمام سائنس علوم کا دائرہ مادی چیزوں اور ان کی خصوصیات کے گرد گھومتاہے۔

(محمد شہاب الدین ندوی / اسلام اور جدید سائنس / المطبعۃ العربیۃ / لاہور ، ص:۱۸/ط:1978)

اور مزید لکھتے ہیں کہ : اس اعتبار سے جو قوم یا ملک اس میدان میں زیادہ آگے ہو وہ نہ صرف ترقی یافتہ سمجھا جاتا ہے بلکہ وہ دیگر ممالک پر اپنی سیادت بھی قائم کرتاہے گویا کہ آج قومیں اپنی صنعت وحرفت کی بناء پر بڑی سمجھی جاتی ہیں اگرچہ وہ افرادی اعتبار سے چھوٹی ہی کیوں نہ ہوں اور آج صنعت وحرفت میں ترقی کا راز سائنس اور ٹیکنالوجی میں ترقی کرنے کا نتیجہ ہے جس کو قرآن کی زبان میں علم أسماء اور علم تسخیر کہا جاتاہے۔

(محمد شہاب الدین ندوی / قرآن ، سائنس اور مسلمان / المطبعۃ العربیۃ /لاہور ، ص:۵۶/ط:1988

لہذا ہمیں وہ علم جس کی بناء پرسیدناآدم علیہ السلام کو فرشتوں پر برتری حاصل ہوئی اسے حاصل کرنا ہوگا۔ تاکہ ہم اقوام عالم پر اپنی برتری وفضیلت ثابت کرسکیں اور ان کی درست سمت میں راہنمائی کا فریضہ ادا کرسکیں۔

———-

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے