Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2021
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • 2017
    • 2018
  • فہمِ قرآن کورس

گانوں کی حرمت

Written by محمد سفیان سیف 13 Sep,2015
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

زمانہ جس قدر دورِ نبویe سے دُور ہوتا جارہا ہے، اسی قدر فتنوں اور قیامت کے قریب تر ہوتا جارہا ہے، حتیٰ کہ موجودہ دور کے مسلمان‘ اللہ اور اس کے رسولe کے احکامات کی بجاآوری میں اپنے آپ کو بہت دُور پاتے ہیں؛ حالانکہ وہ اس بات کو خوب جانتے بھی ہیں۔

اور وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ اللہ رب العالمین نے مسلمانوں کو اسلام میں مکمل داخل ہونے کا حکم دیا ہوا ہے۔ اور یہ بھی کہ مسلمانوں پر یہ بات بھی فرض ہے کہ اللہ اور اس کے رسولe کی ہر بات پر کماحقہ ٗ ایمان لائیں اور جس چیز کا بھی ان سے مطالبہ کیا جائے‘ اسے فوری عملی جامہ پہنائیں اور یہ بھی کہ شریعت ِ اسلامیہ کے کسی بھی معاملے پر اپنی عقل یا چاہت کو پیشِ نگاہ رکھنا سراسر گمراہی ہے، مگر اس کے باوجود مسلمان ان تمام احکامات کی کھلی نافرمانی پر تلے ہوئے ہیں، بلکہ موجودہ معاشرے کی بدبختی یہ ہے کہ اب اس کھلی بغاوتِ شرعیہ کو ’’فیشن‘‘ بنادیا گیا ہے۔

اللہ کے پیارےحبیب e نے کا فرمانِ عالیشان ہے:

’’اسلام کے تمام کڑے ایک ایک کرکے توڑ دیئے جائیں گے۔ جیسے ہی ایک کڑا ٹوٹے گا‘ لوگ دوسرے کڑے کے پیچھے پڑ جائیں گے۔ سب سے پہلے ’’انصاف‘‘ اور سب سے آخرمیں ’’نماز‘‘ کا کڑا توڑا جائے گا ۔‘‘ (مسند احمد: ح:18524، عن براء بن عازبt)

عین اسی طریقے سے باری باری تمام کڑے توڑے جارہے ہیں،مگر مذکورہ حدیث میں سب سے افسوسناک پہلو ‘ جس کی نشاندہی کی گئی ہے ‘ وہ یہ ہے کہ یہ تمام کڑے خود مسلمانوں کے ہاتھوں ہی ٹوٹیں گے۔

انہی کڑوں میں سے ایک کڑا گانوں کی حرمت کا بھی ہے، جسے توڑ کر آج خود مسلمانوں نے ہی گانوں کو اپنے اوپر حلال تصور کرلیا ہے؛ حالانکہ اس فعل ِ قبیح کی حرمت قرآن وحدیث اور آثارِ صحابہy سے بالکل واضح اور صاف الفاظ میں وارد ہوچکی ہے۔

گانوں کی حُرمت

کلامِ الٰہی سے دلائل:

1- اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَہْوَالْحَدِيْثِ لِيُضِلَّ عَنْ سَبِيْلِ اللہِ بِغَيْرِ عِلْمٍ۝۰ۤۖ وَّيَتَّخِذَہَا ہُزُوًا۝۰ۭ اُولٰۗىِٕکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِيْنٌ وَاِذَا تُتْلٰى عَلَيْہِ اٰيٰتُنَا وَلّٰى مُسْتَکْبِرًا کَاَنْ لَّمْ يَسْمَعْہَا کَاَنَّ فِيْٓ اُذُنَيْہِ وَقْرًا۝۰ۚ فَبَشِّرْہُ بِعَذَابٍ اَلِيْمٍ (لقمان:6-7)

’’اور بعض وہ لوگ جو بری باتوں کو خریدتے ہیں ، تاکہ لوگوں کو اللہ کے راستے سے گمراہ کریں اور اسے (حکم الٰہی کو)مذاق بنالیں، ایسے ہی لوگوں کیلئے رسواکن عذاب ہے۔ اور جب ایسے کسی شخص پر ہماری آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو وہ تکبر کرتا ہوا پھر جاتا ہے، گویا کہ اس نے (آیات) سنی ہی نہیں یا اس کے دونوں کانوں پر پردہ پڑا ہو اہے، ایسے شخص کو آپ دردناک عذاب کی بشارت دیدیجئے۔‘‘

مذکورہ آیت ِ مبارکہ کی تفسیر میں جلیل القدر صحابی سیدنا عبداللہ بن مسعودt   فر ماتے ہیں کہ :

’’اس اللہ کی قسم !جس کے سوا کوئی معبود نہیں‘ ’’لہو الحدیث‘‘ سے مراد ’’گانا‘‘ہے۔ اور یہ بات انہوں نے تین مرتبہ حلفاً دھرائی۔‘‘

مفسّرِ قرآن سیدنا عبداللہ بن عباسw ، سیدنا جابر بن عبد اللہt اور دیگر صحابہ و تابعین] نے بھی ’’لہو الحدیث ‘‘ سے مراد ’’گانا، سماع اور اسی قسم کی دیگر چیزیں‘‘ ہی لی ہیں۔ (تفسیر الطبری /تفسیر مجاہد/تفسیر ابن ابی حاتم/تفسیر عز بن عبدالسلام/ زیر ِ تفسیر:لقمان: 6-7)

2- وَاسْتَفْزِزْ مَنِ اسْـتَطَعْتَ مِنْہُمْ بِصَوْتِکَ وَاَجْلِبْ عَلَيْہِمْ بِخَيْلِکَ وَرَجِلِکَ وَشَارِکْہُمْ فِي الْاَمْوَالِ وَالْاَوْلَادِ وَعِدْہُمْ۝۰ۭ وَمَا يَعِدُہُمُ الشَّيْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا (الاسریٰ:64)

’’اور ان میں سے جن پر بھی تیرا بس چل سکے‘ انہیں اپنی آواز سے بہکالے اور ان پر اپنے سوار اور پیادے چڑھالا اور مال اور اولاد میں ان کا شریک بن جا اور انہیں (جھوٹے ) وعدے دے اور شیطان تو انہیں بس فریب ہی کا وعدہ دیتا ہے۔‘‘

مذکورہ آیت ِمبارکہ میں لفظِ ’’بِصَوْتِکَ‘‘ کے بارے میں سیدنا عبداللہ بن عباسw کے شاگردِ رشید اور جلیل القدر تابعی امام مجاہد المکیh   فرماتے ہیں کہ : ’’اس سے مراد لہو و لعب اور گانا ہے۔‘‘

(تفسیر ابن رجب /تفسیر ابن کثیر/ تفسیر الطبری:زیر ِ تفسیر: الاسراء:64)

3- اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِيْثِ تَعْجَبُوْنَ۝۵۹ۙ وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ۝۶۰ۙ وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ۝۶۱ فَاسْجُدُوْا لِلہِ وَاعْبُدُوْا۝۶۲ۧ۞ (النجم)

’’کیا پھر اس بات (قرآن) پر تم تعجب کرتے ہو؟ ۔اور ہنستے ہو اور روتے نہیں؟ اور تم غفلت و اعراض کرنے والے ہو۔ پس تم(اے مسلمانو!) اللہ کو سجدہ کرو اور (اسی کی) عبادت کرو۔‘‘

مفسر ِقرآن سیدنا عبداللہ بن عباسw ’’سٰمِدُوْنَ‘‘ کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ : ’’اس سے مراد گانا ہے۔‘‘ مشرکین مکہ جب قرآن سنتے تو گانے گاتے اور کھیل تماشہ کیا کرتے تھے۔(تفسیر الطبری/تفسیر البغوی/تفسیر لابن قیم/تفسیر ابن کثیر:زیر ِ تفسیرآیت، النجم:61)

مذکورہ تمام دلائلِ قرآنی سے یہ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ غناء (گانا) کلامِ الٰہی کی رُو سے حرام اور مشرکین کے افعالِ شر اور رُسوماتِ بد میں سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی میوزک تمام کفار و مشرکین کی عبادات کا لازمی حصہ ہے۔

اَحادیثِ رَسُول e سے دلائل:

1- ’’عنقریب میری امت میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوں گے‘ جوزنا، ریشم، شراب اور آلاتِ موسیقی کو حلال سمجھ لیں گے۔ ‘‘

(صحیح بخاری: کتاب الاشربہ، باب ما جاء فيمن يستحل الخمر ويسميہ بغير اسمہ)

مذکورہ حدیث طیبہ میں ’’ یَسْتَحِلُّوْنَ‘‘ (حلال سمجھ لیں گے) کے الفاظ اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ حقیقت میں مذکورہ تمام چیزیں حرام ہیں؛ البتہ کچھ بدبخت اور رَذیل قسم کے لوگ ان کی حرمت کو اپنی غلط اور فاسد تاویلات کے ذریعہ سے توڑنے کی کوشش کریں گے۔

مذکورہ حدیث میں آلاتِ موسیقی کا زنا، ریشم اور شراب کے ساتھ تذکرہ اس کی حرمت پر مزید مہر ِ تصدیق ثبت کررہا ہے؛ لہٰذا کوئی شخص بھی اس کے حلال یا جائز ہونے کی غلط فہمی کا شکار نہ ہو۔

2- ’’میری اُمت کے کچھ لوگ ضرور بالضرور شراب نوشی کریں گے اور شراب کا نام کوئی اور رکھ لیں گے۔ ان کے سروں پر آلاتِ موسیقی (میوزک) بجائے جائیں گے اور گانے والیاں (اداکارائیں) گانے گائیں گی۔ اللہ تعالیٰ انہیں زمین میں دھنسا دے گا، انہی میں سے کچھ لوگوں کو بندر اور خنزیر بنا دےگا۔‘‘

(سنن ابن ماجہ: کتاب الفتن، باب العقوبات)

ملاحظہ فرمائیں کہ اللہ کے حبیبeنے کس اندازِ کراہیت سے ان لوگوں کی محافل شراب وشباب اور رقص و سرود کا تذکرہ فرمایا اور انہیں اللہ کی طرف سے بدترین اور ذلت آمیز سزاؤں کا مستحق گردانہ ہے۔

مزید اس حدیث سے بھی موسیقی (میوزک) اور گانے سننے اور رقص وغیرہ کی حرمت اور عذاب بھی ایک ہی جیسا بیان کیا گیا ہے۔

3- ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تم پر شراب، جوئے اور ڈھول کو حرام کردیاہے۔ اور ہر نشہ آور چیز حرام ہے۔‘‘

(مسند احمد: 3274)

اس حدیث مبارک میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے شراب، جوئے اور ڈھول (موسیقی) کی حرمت کو بالکل ہی دوٹوک انداز سے حرام قرار دیدیا گیا ہے۔ جو شخص اتنے واضح دلائل کے ہوتے ہوئے بھی اس کی حرمت کا منکر ہو، اسے اپنے ایمان کی خیر منانا چاہئے۔ اور جو شخص ان چیزوں کو حرام جانتے ہوئے بھی اس قسم کے شوق پالتا ہے، وہ حرام کام کا مرتکب اور کبیرہ گناہ میں مبتلا ہے۔

مزید اس حدیث ِپاک میں نام لیکر ڈھول کا ذکر کیا گیا ہے، اس لئے کہ یہ زمانۂ قدیم سے ہی موسیقی کا لازمی جزء رہا ہے۔ اور آج بھی یہ میوزک کا بنیادی حصہ ہے، اگرچہ اب اس کی جدید شکلیں بھی موجود ہیں۔

4- ’’عنقریب قربِ قیامت دھنسنے، پتھروں کے بارش اور چہرے مسخ ہونے کے واقعات رُونما ہوںگے۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا : ایسا کب ہوگا؟ فرمایا: جب آلاتِ موسیقی اور گانے والیاں عام ہوجائیں گی اور شراب کو حلال سمجھ لیا جائے گا۔ ‘‘

(معجم الکبیر للطبرانی: 5810)

اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ مذکورہ تمام چیزیں اللہ تعالیٰ کے عذاب کا موجب ہیں۔ اور جیسے جیسے ان گناہوں اور مبتلائے گناہ لوگوں کی کثرت ہوتی جائے گی‘ عذاب ِ الٰہی کی شدت بڑھتی جائے گی۔

5- ’’دو آوازیں دنیا اور آخرت‘ ہر دوجہاں میں لعنت زدہ ہیں: خوشی کے وقت گانوں کی آواز۔ اور مصیبت کے وقت نوحوں کی آواز۔‘‘ (الجامع الصحیح، 3801، السلسلۃ الصحیحہ: 3801)

وہ لوگ‘ جو ہر خوشی بالخصوص شادی بیاہ اور دیگر رسوم و رواج، عام محفلوں، دورانِ سفر گاڑیوں اور راہ چلتے ہوئے گانے سننے اور گنگنانے کے شوقین ہیں۔ اور وہ لوگ‘ جو ہر مصیبت بالخصوص میت کے موقع پر نوحہ اور مرثیہ خوانی اور غمگین گانے سننے کے عادی ہیں‘ وہ ذرا مذکورہ حدیث ِطیبہ پر غور کریں کہ وہ کن خبیث اور لعنتی کاموں کے مرتکب اور مبتلائے مرض ہیں۔

یاد رکھیں کہ ہر عمل ِ بد اپنے عامل کی ذات پر اپنا اثر ضرور ڈالتا ہے۔ لعنتی عمل کا مرتکب اللہ تعالیٰ کے ہاں ملعون ہی قرار پائے گا۔

6- ’’گانا، دل میں اس طرح نفاق اُگاتا ہے، جیسے پانی زمین میں کھیتی اُگاتی ہے۔‘‘ (سنن الکبریٰ للبیہقی: 21008)

مذکورہ تمام دلائل روزِ روشن کی طرح اس بات پر شاہد ہیں کہ دین اسلام میں ہر طرح کا گانا، خواہ اس کی جدید شکل کچھ بھی ہو ، اپنی تمام تر جزئیات‘ خواہ وہ آلات (Musical Instroments) کے قبیل سے ہوں یا گانے(Singing) سننے(Listen) اور بجانے (Musicians) کے قبیل سے ‘ مطلق حرام ہے۔ فاسد اور باطل تاویلات کے ذریعہ سے انہیں حلال یا جائز بنانے کی ہر کوشش قرآن و حدیث اور آثارِ صحابہy کا کھلا انکار اور شریعت سے بغاوت ہے۔ اور اس کو حرام سمجھنے کے باوجود اس گناہ کا اِرتکاب کبیرہ گناہ ہے۔ ایسے لوگ کسی بھی وقت اللہ کے سخت عذاب کی گرفت میں آسکتے ہیں۔ وہ چاہے تو انہیں خنزیر بنادے، چاہے تو بندر بنادے، چاہے تو زمین میں دھنسا دے، چاہے تو ان پر پتھروں کی بارش نازل فرمادے، چاہے تو ان کے چہروں کو مسخ کردے اور چاہے تو بیک بارگی ہی تمام عذاب ان پر مسلط کردے۔

پاکستان اور دنیا بھر میں آنے والے قیامت خیززلزلے، سونامی اور دیگر سمندی طوفان، وبائی امراض کی صورت میں کثرت سے ہلاکتیں اور مختلف شکلوں میں آنے والے اللہ کے عذاب انہی نافرمانیوں کی عملی صورتیں ہیں‘ جو ہمارے لئےیقیناً تنبیہ اور پیشگی اصلاح کا پیغام ہیں۔ باز نہ آنے کی صورت میں یہی عذاب اللہ ہم پر بھی مسلط کرسکتا ہے۔

دِلوں کا اِطمنان:

موسیقی کے دِلدادہ عموماً یہ نظریہ رکھتے ہیں کہ ’’موسیقی رُوح کی غذا ہے۔‘‘ یہ جملہ اپنے اندر بے شمار مفاسد سموئے ہوئے ہے۔

سب سے پہلے تو اس بات کو اچھی طرح پہچان لیں کہ ’’روح‘‘ کا خالق کون ہے؟ ہر شخص جانتا ہے کہ ہر چیز کا خالق اللہ رب العالمین ہی ہے۔ پھر اس بات کو بھی جان لیں کہ ہر مخلوق کی غذا کا تعین بھی اُسی خالق کا خاصہ ہے اور حق بھی۔ جیسے ہر موجد اپنی ایجاد کردہ چیز کی ضروریات کو سب سے بہتر جانتا ہے، ویسے ہی اللہ خالق ِ کائنات‘ جو کہ رُوح کا بھی خالق ہے‘ اس کی تمام تر ضروریات‘ بشمول غذا کو بھی خوب جانتا ہے۔

انسانی زندگی کا حقیقی دار و مدادار ’’رُوح‘‘ پر ہے۔ جس طریقے سے انسانی جسم غذا کا محتاج ہے، اسی طریقےسے رُوح کی بھی ایک غذا ہے۔ جس طریقے سے جسمانی غذا کا محل انسان کا پیٹ ہے، اسی طریقے سے رُوحانی غذا کا محل انسان کا دِل ہے۔ جسم کا اطمنان زمینی غذاؤں پر مشتمل ہے، جبکہ رُوح کا اطمنان آسمانی غذا پر مشتمل ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام تر ایمانیات اور فقاہت ِ شرعیہ کا تعلق صرف دِل سے ہی وابستہ کیا ہے؛ حتیٰ کہ نزولِ قرآن کا مرکز بھی اسی دِل کو بنایا گیا ہے۔ اللہ تعالی ٰکا ارشادِ گرامی ہے:

وَاِنَّہٗ لَتَنْزِيْلُ رَبِّ الْعٰلَمِيْنَ نَزَلَ بِہِ الرُّوْحُ الْاَمِيْنُ عَلٰي قَلْبِکَ لِتَکُوْنَ مِنَ الْمُنْذِرِيْنَ

’’اور بلاشبہ یہ (قرآن) رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ رُوح الامین (جبریل) اسے لیکر نازل ہوا۔ آپ (e )کے دِل پر، تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہو جائیں۔ ‘‘(الشعراء92،93،94)

مزید فرمایا:   اَفَلَا يَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰي قُلُوْبٍ اَقْفَالُہَا (محمد24)

’’وہ لوگ قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے یا ان کے دلوں پر تالے (لگے ہوئے) ہیں؟ ‘‘

مزید فرمایا:

لَہُمْ قُلُوْبٌ لَّا يَفْقَہُوْنَ بِہَا۝۰ۡ (الاعراف:179)

’’ان کے دل تو ہیں (مگر) وہ ان سے (حق کو ) نہیں سمجھتے۔‘‘

مزید فرمایا: وَلٰکِنَّ اللہَ حَبَّبَ اِلَيْکُمُ الْاِيْمَانَ وَزَيَّنَہٗ فِيْ قُلُوْبِکُمْ (الحجرات:7)

’’لیکن اللہ نے ایمان کو تمہارا محبوب بنا دیا ہے اور اس نے اسے تمہارے دِلوں میں آراستہ کردیا ہے۔‘‘

مزید فرمایا:   اَلَّذِيْنَ اٰمَنُوْا وَتَطْمَىِٕنُّ قُلُوْبُہُمْ بِذِکْرِ اللہِ۝۰ۭ اَلَا بِذِکْرِ اللہِ تَطْمَىِٕنُّ الْقُلُوْبُ (الرعد28)

’’جو لوگ ایمان لائے انکے دل اللہ کے ذِکر سے اِطمنان حاصل کرتے ہیں، یادرکھو! اللہ کے ذکر سے ہی دلوں کو سکون ملتا ہے۔‘‘

یہ تمام دلائل اس بات پر شاہد ہیں کہ انسان کا دل ہر اَحسن فکر و عمل کا مرکز و منبع ہے؛حالانکہ گانے ‘ پھر جبکہ وہ حیاسوز بھی ہوں‘ اور نوحے‘ پھر مزید یہ کہ غیرشرعی غلو پر مشتمل بھی ہوں‘ تو اس پاکیزہ مقام کی غذا اور زینت کیسے بن سکتے ہیں؟ بلاشبہ ’’موسیقی رُوح کی غذا ہے‘‘ کا نظریہ کسی نفس پرست اور شیطان کے حواری کا گھڑا ہوا ہے۔

اللہ خالق و مالک نے رُوح کی جو غذا، یعنی ذِکر الٰہی‘ اور اس کے لوازمات، یعنی احکاماتِ شرعیہ میں تدبر اور تفقّہ فی الدین‘ متعین فرمائے ہیں، بلاشبہ وہی اس کی اصل حقیقت ہیں۔ جو شخص اپنی طرف سے اس کی غذا اور لوازمات متعین کرنے کی کوشش کرےگا یا اس کے بارے میں کوئی منفی نظریہ رکھے گا‘ وہ بلاشبہ اسلام کے کڑوں کو توڑنے کا مرتب ٹھہرے گا۔

یہاں ایک اور بدترین پہلو بھی ہے ۔ اور وہ یہ کہ بعض لوگ‘ جو اپنے آپ کو بزعم خود اللہ اور اس کے رسولe کی محبت کی طرف منسوب کرتے ہیں ‘ انہوں نے اپنے باطل عقائد کی بنیاد پر اسی حرام کام کو اسلام اور حبّ ِ الٰہی کا عین ذریعہ سمجھ لیا ہے۔ ان کی تمام نعتیں، نوحے، قوالیاں اور اس طرح کی تمام محفلیں میوزک کی دھن پر سجتی ہیں۔ اور جن مقدس ہستیوں نے ان کاموں کی حرمت بیان کی ہے، انہی کا نام میوزک کی ان دھنوں پر بے خوف و خطر لیا جارہا ہے، بلکہ اب تو باقاعدہ ناچ بھی ہوتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ اب لوگ قرآن کی تلاوت بھی میوزک کی ذہنوں کے ساتھ کرنے لگے ہیں۔ العیاذ باللہ۔

ایسے ہی لوگوں کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْضٍ۝۰ۭ (النور:40)

’’اندھیروں پرمزید اندھیرے ہی ہیں۔‘‘

اللہ تعالیٰ ہم سب کو اپنے دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے اور ہر قسم کے کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے اور ہماری مغفرت فرمائے۔ آمین۔

وماعلینا الاالبلاغ المبین

Read 656 times
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(0 votes)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in مارچ 2015

Related items

  • ألات موسيقي اور گانا بجانا ایک بہت بڑی لعنت
    in اکتوبر 2015
  • حُرمة دم المسلم
    in جولائی 2015
More in this category: « حدیث رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا دفاع کیوں ضروری ہے؟ تہذیب و ثقافت اور اسلام »
back to top

مضمون نگار

  • ڈاکٹر مقبول احمد مکی ڈاکٹر مقبول احمد مکی
  • الشیخ  محمد طاہر آصف الشیخ محمد طاہر آصف
  • عبدالرشید عراقی عبدالرشید عراقی
  • بنت محمد رضوان بنت محمد رضوان
  • الشیخ ابو نعمان بشیر احمد الشیخ ابو نعمان بشیر احمد
  • الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
  • حبیب الرحمٰن یزدانی حبیب الرحمٰن یزدانی
  • خالد ظہیر خالد ظہیر
  • راحیل گوہر ایم اے راحیل گوہر ایم اے
  • عطاء محمد جنجوعہ عطاء محمد جنجوعہ
  • ڈاکٹر عبدالحی المدنی ڈاکٹر عبدالحی المدنی
  • مدثر بن ارشد لودھی مدثر بن ارشد لودھی
  • محمد شعیب مغل محمد شعیب مغل
  • الشیخ محمد شریف بن علی الشیخ محمد شریف بن علی
  • حافظ محمد یونس اثری حافظ محمد یونس اثری
  • الشیخ محمد یونس ربانی الشیخ محمد یونس ربانی

About Usvah e Hasanah

اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں

Contact us

ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان

Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

facebook

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2022 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2015