آداب انسانیت میں سے ایک یہ ہے کہ آپ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی کچھ پسند کریں جو اپنے لئے پسند کرتے ہیں ، صحابی رسول ﷺ انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ

تم میں سے کوئی( مکمل) ایمان والا نہیں ہوسکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے۔یہ حدیث آداب کی اصل ہے، اس بات کی دلیل امام احمدرحمہ اللہ کی اس حدیث سے بھی ملتی ہے کہ’’ بندہ اس وقت تک حقیقت ایمان کو نہیں پہنچتا جب تک کہ وہ لوگوں کے لئے بھی اسی خیر کو پسند نہ کرے جو وہ اپنے لئے کرتا ہے‘‘

اس بات سے واضح ہوجاتا ہے کہ اپنے ارد گرد موجود لوگوں کے لئے بھی انسان وہی کچھ پسند اور نا پسند کرے جو وہ اپنے لئے کرتا ہے اگر ایسا نہیں کرتا تو پھر اس کا ایمان ناقص ہے۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے اس بات کی اہمیت کو اچھی طرح سمجھ لیا تھا جبھی تو وہ اس پر عمل پیرا تھے اس کی دلیل سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے قول سے ملتی ہے کہ : ’’میں جب بھی قرآن پاک کی کسی آیت کو سمجھ لیتا تو میری خواہش ہوتی کہ لوگ بھی اس آیت کو سمجھ اور جان لیں‘‘

ایک اور روایت کے مطابق: ’’ ایک غلام عتبہ جب روزہ کھولنے کی نیت کرتے تو اپنے کسی ایسے ساتھی کو جو اِن کے روزے کے بارے میں جانتا تھا کہتے کہ میرے لئے تھوڑا پانی یا کچھ کھجوروں کا انتظام کرو تاکہ تمہیں بھی میرے روزے جتنا ثواب مل جائے‘‘

اسی موضوع کی اہمیت میں آپ ﷺ کا ایک اور فرمان جو جناب أبو ہریرۃ رضی اللہ عنہ سے ارشاد فرمایا:’’لوگوں کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو تم مسلمان(کامل )ہو جائو گے‘‘

اسی طرح صحیح مسلم میں مذکور ایک حدیث جو سیدناعبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے روایت کی، فرمایا:’’جو چاہتا ہے کہ وہ آگ سے بچ جائے اور جنت میں داخل کیا جائے تو اسے موت اس حال میں آنی چاہئے کہ وہ اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہواوروہ لوگوں کے لئے بھی وہی پسند کرے جو اپنے لئے کرتا ہے‘‘

اس میں کوئی شک نہیں کہ جو آگ(جہنم) سے بچ کر جنت میں داخل کر دیا جائے درحقیقت وہ کامیاب ہوا،اور اسی کے لئے ہر مسلمان مومن کو تگ و دو کرتا ہے لیکن اس کے لئے نسخہ یہی ہے کہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر کامل یقین رکھے اوراس دن کی تیاری اللہ اور رسول اللہﷺ کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق کرے ، دوسری چیز کہ وہ لوگوں سے احسان کا رویہ رکھے صلہ رحمی کرے اچھی بات اور اچھا معاملہ کرے جیسا کہ وہ چاہتا ہے کہ دوسرے لوگ اس کے ساتھ رکھیں۔

احسان اور نصیحت حسنہ کو جانچنے کا یہی بہترین پیمانہ ہے، پس کوئی بھی ایسا معاملہ جس میں کہ آپ شش و پنج میں پڑ جائیں کہ لوگوں سے کیسے برتائو کریں تو پہلے یہ سوچیں کہ اگر ایسا ہی برتائو لوگ میرے ساتھ کریں تو کیا مجھے اچھا محسوس ہوگا؟ اگر آپ کو وہ چیز اچھی لگے تو جان جائیں کہ لوگوں کو بھی اچھی لگے گی اور اگر وہ معاملہ لوگوں کو اچھا نہ لگے تو جان لیں کہ آپ نے اس عظیم واجب کو ضائع کر دیا۔ لیکن یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوسکتا ہے جب آپ کا دل دھوکا دہی، فریب حسد اور جھوٹ سے پاک ہو، حاسد انسان یہ چاہتا ہے کہ جو بھلائی یا خیر اسے میسر ہے وہ کسی اور کو میسر نہ آئے کیونکہ وہ چاہتا ہے کہ معاشرے میں صرف اسی کی واہ واہ ہو در حقیقت ایمان کا تقاضا اس کے برخلاف ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ نفسِ بشر کی فطرت میں انانیت اور حبِ ذات ہے، ہمیں اسی انانیت اور حبِ ذات کی مذموم صفت کو خود سے دورر کرنا ہے اور اپنے نفس کو یہ باور کروانا ہے کہ اس کے بدلے اجر عظیم منتظر ہے اور وہ جنت ہے۔

ایک اور روایت میں یزید بن اسد القسری فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا:’’کیا تم جنت کا حصول چاہتے ہو؟ فرمایا ، جی ہاں۔ کہا اپنے بھائی کے لئے وہی پسند کرو جو اپنے لئے کرتے ہو‘‘

اپنے مسلم بھائی کے لئے خیر پسند کرنے میں اسے نیک نصیحت کرنا بھی شامل ہے اگر آپ دیکھیں کہ اس کے دین میں نقص ہے تو اسے دور کرنے میں اس کی مدد کریں۔

اللہ تعالی ہم سب کو اس اصول پر چلنے اور عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے تاکہ ہم سب جنت کے حقدار قرار پائیں۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے