Monthly Magazine of jamia Abi Bakar Al Islamia Karachi Pakistan جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی کا ماھنامہ مجلہ اسوہ حسنہ

چیف ایڈیٹر: ڈاکٹر مقبول احمد مکی حفظہ اللہ

  • صفحہ اول
  • شمارہ جات 2020
  • شمارہ جات 2019
  • شمارہ جات 2018
  • سابقہ شمارے
    • 2009
    • 2010
    • 2011
    • 2012
    • 2013
    • 2014
    • 2015
    • 2016
    • شمارہ جات 2017
  • فہمِ قرآن کورس

مضمون نگار

  • ڈاکٹر مقبول احمد مکی ڈاکٹر مقبول احمد مکی
  • الشیخ  محمد طاہر آصف الشیخ محمد طاہر آصف
  • عبدالرشید عراقی عبدالرشید عراقی
  • بنت محمد رضوان بنت محمد رضوان
  • الشیخ ابو نعمان بشیر احمد الشیخ ابو نعمان بشیر احمد
  • الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی الشیخ شاہ فیض الابرار صدیقی
  • حبیب الرحمٰن یزدانی حبیب الرحمٰن یزدانی
  • خالد ظہیر خالد ظہیر
  • راحیل گوہر ایم اے راحیل گوہر ایم اے
  • عطاء محمد جنجوعہ عطاء محمد جنجوعہ
  • ڈاکٹر عبدالحی المدنی ڈاکٹر عبدالحی المدنی
  • مدثر بن ارشد لودھی مدثر بن ارشد لودھی
  • محمد شعیب مغل محمد شعیب مغل
  • الشیخ محمد شریف بن علی الشیخ محمد شریف بن علی
  • حافظ محمد یونس اثری حافظ محمد یونس اثری
  • الشیخ محمد یونس ربانی الشیخ محمد یونس ربانی

کثرتِ طلاق کے اسباب اوران کا شرعی حل

Written by الشیخ ابو نعمان بشیر احمد 13 Sep,2015
  • font size decrease font size decrease font size increase font size increase font size
  • Print
  • Email

فطری طور پر ہر انسان بلکہ حیوان بھی امن و سکون کا متلاشی ہے ۔اور اس کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرتا ہے ۔
لیکن پھر بھی امن و سکون سے محرومی ہوتی ہے ۔کیونکہ امن و سکون کا بنیادی اصول مدّ نظر نہیں رکھا جاتا ۔وہ بنیادی اصول یہ ہے کہ ہر انسان اپنے دائرے میں رہے اور اپنی لائن میں چلے ۔
کائنات کا نظام بھی اسی اصول کے تحت چل رہا ہے ۔ہر سیارہ و ستارہ اپنے دائرے میں اور اپنے مدار میں گردش کر رہا ہے تو امن میں ہے ۔اگر کسی دوسرے کے مدار میں چلنا شروع کر دے تو فساد واقع ہو جائے گا۔ گاڑی،ٹرین، اور جہاز اپنےراستے پر چلیں تو امن ہے ورنہ فساد واقع ہو گا ۔اسی طرح ہر انسان اپنے دائرے میں رہے اور اپنی لائن میں چلتا رہے تو امن و سکون ہے جب اپنے دائرے سے نکل کر کسی دوسرے کے دائرے میں دخل اندازی کرے یا اپنی لائن چھوڑ کر دوسروں کی لائن میں چلنا شروع کر دے تو پھر بگاڑ اور فساد ہو گا ۔حتّی کہ سب سے قریبی اور دائمی تعلق میاں بیوی کا ہوتا ہے اگر یہ دو افراد بھی اپنی لائن سے تجاوز کریں تو گھر میں فساد واقع ہو جاتا ہے اور نوبت عداوت و دشمنی اور علیحدگی تک پہنچ جاتی ہے۔ عصر حاضر میں طلاق کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور جو طلاق کی آفت سے بچے ہوئے ہیں وہ بھی ازدواجی زندگی مجبوری سے گزارتے ہیں۔ طلاق کے اسباب خاوند و بیوی دونوں کی جانب سے واقع ہوتے ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔
1-مردوں کی جانب سے طلاق کے اسباب ۔
(1) اسلامی تعلیم کا فقدان :
جس طرح عورت کے ذمے مرد کے حقوق ہیں اسی طرح مرد کے ذمے عورت کے بھی حقوق ہیں ،جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَلَھُنَّ مِثْلُ الّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِاْلْمَعْرُوْفِ وَلِلّرِجَالِ عَلَیْھِنّ َدَرَجَۃً(سورۃ البقرۃ،228)
اور عورتوں کے لئے بھی اسی طرح حقوق ہیں جیسے ان کے ذمے حقوق ہیں ،اور مردوں کو ان پر برتری حاصل ہے ۔
اور ان حقوق کو جاننے کے لئے اسلامی تعلیم کا جا ننا بہت ضروری ہے تاکہ حق تلفی کی وجہ سے تعلقات میںبگاڑ پیدا نہ ہوجس کا نتیجہ طلاق کی صورت میں ظاہر ہو اس لئے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرتے رہو کیونکہ تم نے ان کو اللہ کی امانت کے ساتھ حاصل کیا ہے اور اللہ کے کلمہ کےساتھ ان کی شرمگاہوں کو حلال کیا ہے۔ (مسلم 1218،ابوداؤد 1905)
اس لئے مرد کو ہر معاملے میں جابر حاکم اور حقوق وصول کرنے والا ہی نہیں بننا چاہئے بلکہ حقوق ادا کرنے والا بھی بننا چاہئے ۔
(2) اخراجات ادا نہ کرنا
نکاح کے بعد عورت کے تمام مناسب اخراجات مرد کے ذمے ہوتے ہیں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ۔
وَ عَاشِرُوْھُنَّ بِالْمَعْرُوْ فِ(النساء:19)
عورتوں کے ساتھ معروف طریقے سے زندگی گزارو،
 دوسری جگہ فرمایا:
 ’’وسعت والا اپنی وسعت کے مطابق اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق خرچ کرے‘‘(الطلاق7)
ایک صحابی نے سوال کیا کہ ہم میں سے کسی کی بیوی کا اس پر کیا حق ہے ؟تو آپ ﷺ نے فرمایا :
تُطْعِمْھَا اِذَا طَعِمْتَ وَ تَکْسُوْھَااِذَا اکْتَسَیْتَ وَلَا تَضْرِبْ الْوَجْہَ وَلَا تُقَبِّح وَلَاتَھْجُرْ اِلَّا فِی الْبَیْتِ (ابوداؤد,2142: ابن ماجہ:1850)
 جب تو کھائے تو اس کو بھی کھلا اور جب تو پہنے تو اس کو بھی پہناؤ ،چہرے پر مت مار ،برا بھلا مت کہہ اور اس سے علیحدگی مت کر، البتہ (اگر معاملہ زیادہ سنگین ہو تو)گھر تک محدود رہے۔
بعض مرد، بیوی کو لڑائی جھگڑے کی صورت میں گھر سے نکال دیتے ہیں یا نکالنے کی دھمکی دینا شروع کر دیتے ہیں یا کھانا پینا روک لیتے ہیں یا مارپیٹ شروع کر دیتے ہیں یہ تمام کام شرعی ،عرفی اور اخلاقی لحاظ سے انتہائی قبیح ہیں اور بعض اوقات ان کا نتیجہ طلاق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اور اسی طرح بعض لوگ شادی کی ابتداء میں وسعت سے بڑھ کر اخراجات شروع کر دیتے ہیں اور بیوی بچوں کو چٹخارے کی عادت ڈال دیتے ہیں اور بعد میں کنگال یا مقروض ہو کر بیٹھ جاتے ہیںاور پھر گھر میںاختلافات کی ابتداء شروع ہو جاتی ہے اور بات طلاق تک پہنچ جاتی ہے اس لئے ابتداء ہی سے میانہ  رویہ ختیار کرنا کامیابی ہے۔
(3)بیوی کو غربت کا طعنہ دینا :
بعض مردوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات پر بیوی کوغربت کا طعنہ دینا یا جہیز کم لانے کا طعنہ دینا یا یہ
کہنا کہ تجھے رقم بھر کر لایا ہوں ،شادی کے موقع پر اتنے ہزار لاگ دئیے تھے اور تم نے بارات کو کھانا اچھا نہیں دیا تھا وغیرہ یہ تمام باتیں اخلاق سے گری ہوئی اور جاہلانہ ہیں جس کی وجہ سے خاوند بیوی کے درمیان نفرت پیدا ہو جاتی ہے اور نتیجہ طلاق تک پہنچ جاتا ہے ۔
ایسے حریص اور لالچی شخص کو شادی سے پہلے ہی مالدار عورت کا انتخاب کرنا چاہئے نہ کہ شادی کے بعد عورت کی زندگی تلخ کیے رکھے۔ دولت اللہ تعالیٰ کی عطا ہوتی ہے اس پر طعن کرنا کم عقلی کی علامت ہے ۔
(4)اولاد نہ ہونے کا طعنہ دینا :
اولاد دینا یانہ د ینا اللہ تعالیٰ کا کام ہے۔ اسی طرح لڑ کے یا لڑکیاں بھی اسی کے اختیار میں ہیں ، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
’’زمین و آسمان کا نظام اسی کے اختیار میں ہے وہ جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے وہ جسے چاہے بیٹیاں عطا کرتا ہےاور جسے چاہے بیٹے عطا کرتا ہے اور جسے چاہے بیٹے اور بیٹیاں دونوں عطا کرتا ہے اور جسے چاہے محرومرکھتا ہے‘‘(الشوریٰ49)
بعض لوگ عورت کو اولاد نہ ہونے کا طعنہ دیتے ہیں اور بعض صرف بیٹیاں ہونے کا طعنہ دیتے ہیں:ایسے لوگ گھٹیا سوچ والے اور عدالت الٰہی کے مجرم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو ردّ کرنے والے ہوتے ہیں۔ اولاد نہ ہونے یا صرف بیٹیاں ہونے کی وجہ عورت سے خود پریشان ہوتی اور ان کو طعنے دینے والے زخمی دل کومزید زخمی کر کے ظلم کرتے ہیں اور بعض اسی بناء پر طلاق بھی دے دیتے ہیں ایسے لوگوں کو اپنے اس فعل شنیع سے بعض آ جانا چاہئے ورنہ اللہ تعالیٰ دنیا میں ہی اس کا نتیجہ دکھا دیتاہےاگر دنیا میں نہ ہو توآخرت کون سی دور ہے۔
 (5)بیوی سے بد زبانی کرنا :
دل اور زبان کی نرمی ہر کامیابی کا زینہ ہے ۔ان کی سختی کسی جگہ بھی پسند نہیں کی جاتی۔ اللہ تعالیٰ نے بھی ان میں ہڈی پیدا نہیں کی تاکہ نرم رہیں ۔دل اور زبان کی سختی جیسے دوسرے لوگ برداشت نہیں کرتے اسی طرح عورت بھی برداشت نہیں کرتی۔اس لئے بیوی سے نرم شیریں اورمہذب گفتگو کرنا،گھر کی آبادی ہے ۔
بعض لوگ معمولی غلطی پر سخت رویہ اور ڈانٹ ڈپٹ والا طریقہ شروع کر دیتے ہیں جس کا نتیجہ منفی نکلتا ہے جبکہ فرمان الٰہی ہے۔
فَاِنْ کَرِھْتُمُوْھُنَّ فَعَسٰی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئاً وَیَجْعَلَ اللّہُ فِیْہِ خَیْرًا کَثِیْرًا (النساء:19)
’’اگر تم انہیں نا پسند کرو تو ہو سکتا ہے کہ تم ایک چیز کو ناپسند کرو اور اللہ ا س میں بہت بھلائی رکھ دے ‘‘
رسول اللہﷺ نے فرمایا :
لَایَفْرَک مُؤمِنٌ مُؤْمِنَۃً،اِنْ کَرِہ َمِنْھَا خُلُقًا رَضِیَ مِنْھَا آخَرَ(مسلم:1469)
’’کوئی مومن کسی مومنہ بیوی سے بغض نہ رکھے ،اگر وہ اس سے ایک عادت کو ناپسند کرتا ہو تو کسی دوسری سے خوش بھی ہو جائے گا ‘‘
اسی طرح آپ ﷺ نے فرمایا :
أکْمَلُ الْمُؤمِنِیْنَ أِیْمَانًاأَحْسَنُھُم خُلُقًا،وَ خِیَارُکُمْ خِیَارُکُمْ لِنِسَائِھِمْ
(جامع الترمذی :1162، السلسلۃ الصحیحۃ284)
’’مؤمنوں میں سے سب سے زیادہ کامل ایمان والا وہ ہے جس کا اخلاق سب سے عمدہ ہو ۔اور تم میں سے بہتر شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے حق میں بہتر ہے ‘‘
(6) مہر جلدی ادا نہ کرنا :
نکاح کے وقت مقرر کردہ مہر عورت کا حق ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَآتُواالْنِسَائَ صَدُقَاتِھِنَّ نِحْلَۃً،فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیٗئًا مَرِیْئًا(النساء:4)
’’عورتوں کو ان کے مہر خوش دلی سے دو ،پھر اگر وہ اس میں سے کوئی چیز تمہارے لیے چھوڑنے پر دل سے خوش ہو جائیں تو اسے حسب منشاء کھا لو ‘‘
آپﷺ نے فرمایا :’’جو آدمی کسی عورت سے تھوڑے یا زیادہ مہر پر نکاح کرے اور اس کے دل میں مہر کی ادائیگی کا خیال ہی نہ ہو تو وہ اس عورت کو دھوکہ دینے والا ہے ،اگر مہر کی ادائیگی کے بغیر فوت ہو گیا تو وہ اللہ تعالی کے سامنے زانی کی حیثیت سے کھڑا کیا جائے گا‘‘(صحیح الترغیب والترھیب للالبانی :1807
عورت کا حق مہر ادا نہ کرنا یا حیلے بہانے سے جبراً معاف کروا لینا بھی تنازع اور طلاق کا سبب بنتا ہے۔
اسی طرح نکاح کے وقت طے کی گئی شرائط کو پورا کرنا بھی ضروری ہے ۔ رسول اللہ ﷺنے فرمایا :
ا ِٔنَّ أَحَقَّ الشَّرْطِ اَنْ یُّوْفٰی بَہِ اسْتَحْلَلْتُمْ بِہِ الْفُرُوْجَ،(مسلم:3470)
’’سب سے زیادہ پوری کی جانے والی شرط وہ ہوتی ہے جس کی وجہ سے تم نے شرمگاہوں کو حلال کیا ہوتا ہے‘‘
بعض مرد نکاح کے وقت طے کی شدہ شرائط کا لحاظ نہیں رکھتے ، جس کی وجہ سے گھر میں اختلافات شروع ہو جاتے ہیں ۔ بالآخر طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے ۔
اس لئے نکاح کے وقت مقرر کردہ مہر اور دیگر شرائط کو پورا کرنا چاہئے تاکہ خاوند بیوی کے درمیا ن الفت و محبت برقرار رہ سکے۔
(7)بد گمانی و شکوک و شبہات:
خا وند بیوی کے خوشگوار تعلقات کے لئے ضروری ہے کہ دونوں ایک دوسرے پر مکمل اعتماد کریں ۔ایک دوسرے کے بارے میںبد گمانی ، شکوک و شبہات ، الزام تراشی اور سنی سنائی باتوں پر عمل کرنے کی وجہ سے ہمیشہ بگاڑ پیدا ہوتا ہے جس کا نتیجہ اکثر طلاق کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے :
یَاَیُّھَا الّذِیْنَ آمَنُوْااجْتَنِبُوْا کَثِیْرًامِنَ الظَّنِّ، اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَلَا تَجَسّسُوا۔ (الحجرات12)
’’ایمان والو ! بہت زیادہ بد گمانی سے پرہیز کیا کرو (کیونکہ) کچھ بد گمانیاںگناہ ہوتی ہیں اور ایک دوسرے
کی جاسوسی بھی نہ کیا کرو‘‘
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
اِیّاکُمْ وَالظَّنَ فَاِنّ الظَّنَّ أَکْذَبُ الْحَدِیْثِ (بخاری 6066،مسلم :2563)
ا پنے آپ کو بد گمانی سے بچاؤ ،کیونکہ بد گمانی سب سے بڑا جھوٹ ہوتا ہےایک صحابی نے عرض کی کہ میری بیوی نے سیاہ رنگ کا بچہ جنم دیا ہے ،آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا تیرے پاس اونٹ ہیں تو اس نے جواب میں کہا کہ میرے پاس سرخ اونٹ ہیں ،آپ ﷺ نے پوچھا کہ کیا ان میں کوئی بھورے رنگ کا اونٹ ہے ؟تو اس نے عرض کی جی ہا ں ۔آپ ﷺ نے پوچھا سرخ اونٹوں میں بھورا کیسے آ گیا؟اس پر صحابی نے عرض کی کہ ہو سکتا ہے کہ اس کے آباؤ اجداد کی نسل میں اس رنگ کا ہو، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ اسی طرح تیرے پیدا ہونے والے بچے کے آباؤ اجداد میں اس رنگ کا ہو سکتا ہے۔ (ملخصاً بخاری :5303،مسلم 1500)
(8)اختلاف کو جلدی ختم نہ کرنا :
گھروں میں اختلاف کا ہو جانا ایک فطرتی عمل ہے۔ لیکن ہونے والے اختلاف جلدی ختم نہ کرنا بلکہ دن بدن اسے طول دیتے جانا بگاڑ کا سبب بن جاتاہے اور معمولی اختلافات آہستہ آہستہ سنگین حالات پیدا کر دیتے ہیں ۔اللہ تعالی نے مرحلہ وار اقدام کرنے کا حکم دیا ہے :
وَالّٰتِی تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَاھْجُرُوْھُنَّ فِیْ الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوْھُنَّ فَأِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْاعَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا (النساء:34)
’’اور وہ عورتیں جن کی نافرمانی سے تم ڈرتے ہو ،تو انہیں نصیحت کرو ،بستروں میں ان سے الگ ہو جاؤ،اور انہیں مارو، پھر اگر وہ تمہاری اطاعت فرمانبرداری کریں تو ان پر (زیادتی کا )کوئی راستہ تلاش نہ کرو‘‘
عورت کو نافرمانی و بغاوت سے روکنے کا طریقہ یہ بتایا گیا ہے کہ سب سے پہلے زبان سے سمجھانے و سلجھانے کی کوشش کرو ،اگر اس سے معاملہ حل نہ ہو تو بستر علیحدہ کر لو ،عقل مند عورت کو نصیحت کے لئے یہی کافی ہے ،اگر اس سے بھی مسئلہ حل نہ ہو تو ہلکی قسم کی مار سے تأدیب کریں ۔ آپ ﷺنے فرمایا:
 وَاضْرِبُوْھُنَّ ضَرْبًا غَیْرَ مُبَرَّحٍ(ترمذی :1163)
’’اس طرح ماریں کہ چوٹ نہ آئے‘‘
بعض لوگ سب سے پہلے مار کا طریقہ یا علیحدگی والا اصول اپنا لیتے ہیں جس کی وجہ سے گھر اجاڑ کر بیٹھ جاتے ہیں۔
(9)بیوی کے رشتہ داروں کی عزت نہ کرنا۔
جس طرح مرد کی تمنا و آرزو ہوتی ہے کہ اس کے رشتہ داروں کی عزت و تکریم کی جائے ،اور اگر وہ مہمان بن کرآئیں تو ان کی رہائش و طعام کا اچھا انتظام کیا جائے۔ اسی طرح عورت کی بھی یہی تمنا و کوشش ہوتی ہے ۔
اگر میاں بیوی میں سے کوئی ایک اپنے کا خیال کرے اور دوسرے کے رشتہ داروں کو بوجھ سمجھے اور انکی خوش و غمی میں شرکت سے بھی کنارہ کرے تو تعلقات خراب ہو جاتے ہیں آپ ﷺ نے فرمایا :
أَحَقُّ مَاأُکْرِمَ عَلَیْہِ الرَّجُلُ أِبْنَتُہُ أَوْ أُخْتُہُ (ابوداؤد:2129:النسائی:3355)
جس آدمی کی بیٹی یا بہن سے نکاح کیا ہو وہ سب سے زیادہ عزت و اکرام کا حق دار ہے ،،
 (10)گناہوں کا ارتکاب:
گناہوں اور نافرمانیوں کی وجہ سے دل زنگ آلود ہو جاتے ہیں اور پھر آہستہ آہستہ گناہوں کے اثرات سے دل مکمل سیاہ ہو جاتے ہیں جس طرح رسول اللہ ﷺ نے وضاحت فرمائی ہے ۔
مؤمن جب گناہ کرتا ہے تو اسکے دل پر ایک سیاہ نقطہ پڑجاتا ہے ۔پھر اگر وہ توبہ کر لیتا ہے اور اس گناہ کو چھوڑ کر معافی مانگ لیتا ہے تو اس کا دل صاف شفاف کر دیا جاتا ہے ۔اگر وہ لگا تار گناہ کرتا چلا جائے تو سیاہی مکمل دل پر چھا جاتی ہے اور یہی وہ زنگ ہے جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کیا ہے :
(کَلَّابَلْ،رَاْنَ عَلٰی قُلُوْبِھِم مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ) (جامع ترمذی :3334،ابن ماجہ:4244)
’’ہرگز نہیں، بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کی وجہ سے زنگ چڑ ھ چکا ہے ‘‘
اللہ تعالیٰ نے فرمایا :
وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِالرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْطٰنًافَھُوَ لَہُ قَرِیْنٌ۔(الزخرف:36)
’’جو شخص رحمان کی یاد سے غافل ہو جائے ہم اس پر شیطان مسلط کر دیتے ہیں جو اس کا ساتھی بن جاتا ہے ‘‘
اللہ کے احکام سے اعراض اور گناہوں کا ارتکاب کرنے کی وجہ سے دلوں اور گھروںمیں شیطانی اثرات کا غلبہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے دلوں میں سختی عداوت اور نفرت پیدا ہو جاتی ہے جو آپس میں اختلافات اور تنازع کا سبب بنتا ہے اور معمولی معمولی بات پر شیطان ہمیشہ کی جدائیاں واقع کر دیتا ہے ۔
عورتوں کی طرف سے کثرت طلاق کے اسباب :
اللہ تعالیٰ نے دنیاوی زندگی کا ایک حسین پہلو ازدواجی زندگی میں رکھ دیا ہے ۔روز اول ہی سے مردو عورت کی آپس میں کشش رکھ دی ہے ۔مرد ہزاروں خوبیوں کے باوجود نامکمل ہے جب تک عورت کا تعاون ساتھ نہ ہو۔
نکاح کے بعد خاوندو بیوی دونوں کی خواہش ہوتی ہے کہ احسن انداز میں اپنا گھر آباد کریں ۔اور دونوں کے والدین بھی یہی تمنا رکھتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود اکثر گھروں میں اختلافات و تنازع ہوتے رہتے ہیں جو آخر کارطلاق جیسے گھناؤنے فعل تک پہنچ جاتے ہیں ۔اس کے اسباب مندرجہ ذیل ہیں:
(1)اسلامی تعلیم و تربیت کا فقدان :
یقینًا وہ عورت اپنے گھر کو آباد رکھ سکتی ہے جس میںصبرو شکر ،کفایت شعاری،برداشت و حوصلہ ،اسراف سے پرہیز،اطاعت اور صلہ رحمی جیسی صفات ہوں ۔اور یہ صفات اسلامی تربیت کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتیں ۔
جس عورت کے شب و روزکیبل ،نیٹ ،موبائل اور فحش قسم کے ڈائجسٹ میں گزرتے ہوں تو یہ چیزیں ضرور اس کی زندگی کو متأثر کرتی ہیں۔اسی طرح مصنوعی ڈراموں میں عورتوں کاکردار ضرور اسکی زندگی میں اثر انداز ہوتا ہے۔جس کی وجہ سے گھر میں اختلافات کا پیدا ہونا بھی یقینی ہوتا ہے اور آخرکار نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے اس لئے والدین کو چاہیے کہ گھر میں اسلامی کتب ،کیسٹ اور سی ڈیز کا اہتمام کریں اور گاہے بگاہے خود بھی اولا دکی اسلامی خطوط پر تربیت کرتے رہا کریں۔تاکہ اپنے گھر جا کر عزت و وقار کی زندگی بسر کریں۔
 (2)انتخاب میں غلطی کرنا :
بیٹی و بیٹے کی شادی میں اہم چیز انتخاب ہوتا ہے۔جس میں عقیدہ و نظریہ ،تعلیم ،عمر اور قد قامت کے ساتھ ساتھ گھریلو زندگی کو بھی دیکھنا چاہئے اگر لڑکے و لڑکی میں ان چیزوں میں بہت زیادہ فرق ہو تو بھی نتائج مثبت نہیں نکلتے ۔سب سے مقدم چیز دین داری کو دیکھنا چاہئے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
تُنْکَحُ الْمَرْآۃُ بِاَرْبَعٍ: لِمَالِھَا وَلِحَسَبِھَا وَلِجَمَالِھَا وَلِدِیْنِھَا فَاظْفَرْبِذَاتِ الْدِّیْنِ تَرِبَتْ یَدَاک (مسلم :3635)
’’عورت سے نکاح چار چیزوں کی بنا پرکیا جاتا ہے ،مال کی وجہ سے ،خاندان کی وجہ سے ،حسن و جمال کی وجہ سے ،یا دینداری کی وجہ سے۔ تو دین والی کو پسند کر کے کامیابی حاصل کرنا تیرا ہاتھ خاک آلود ہو ‘‘
اور یہ کام سر پرست کو خود کرنے چاہئیں۔اس معاملے میں بیٹے و بیٹی کو کلی اختیار نہیں دینے چاہئیں کیونکہ گھروں کو آباد رکھنے کے لئے صرف رنگ و حسن، ملازمت اور روپیہ ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ اخلاق ، تہذیب،سلیقہ شعاری وغیرہ کا ہونا بھی ضروری ہے ۔اسی طرح والدین کو اپنےبیٹے و بیٹی کے احوال و کوائف بتانے میں بھی مبالغہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ اصل حقیقت بتلانی چاہئے۔اگر شادی سے پہلے بڑھا چڑھا کر کوائف ، ملازمت اور تنخواہ بتلائی جائے تو شادی کے بعد اصل حقیقت واضح ہونے پر اختلافات شروع ہو جاتے ہیں۔
 (3)زیادہ جہیز کی حرص:
مال کی حرص و لالچ نے جس طرح زندگی کے دیگر معاملات میں بگاڑ پیدا کر رکھا ہےاسی طرح ازدواجی زندگی میں بھی اس کا بگاڑ و فساد برابر کا ہے ۔ہمارے ہاں اکثر شادی میں تاخیراس بنا پر کردی جاتی ہے کہ پسند کا جہیز دینے یا لینے کی تمنا ہوتی ہے ۔لڑکے والے درجنوں رشتے دیکھتے ہیں اور جہیز پسند کا نہ ملنے کی وجہ سے انکار کر دیتے ہیں ۔اور لڑکی والوں کی بھی کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں سے بڑھ چڑھ کر جہیز دیا جائے تاکہ ان کی بیٹی اپناگھر آباد رکھ سکے۔حالانکہ کتنے ایسے واقعات ہیں کہ جہیز کے سامان کی پیکنک کھولنےسے پہلے طلاقیں ہو جاتی ہیں ،جہیز کے سامان پر گرد پڑنے سے پہلے دلوں پر نفرت کی گرد پڑ جاتی ہے۔اسلئےگھروں کو آباد رکھنے والا جہیز نہیں ہوتا بلکہ بیٹی کی اچھی تربیت ہوتی ہے ۔
ایک دفعہ سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہانے شکایت کی کہ گھر کے تمام کام خود کرنے پڑتے ہیں اس لئے ایک خادم دے دیا جائے تو آپ ﷺ نے فرمایا :رات کو سوتے وقت 33مرتبہ سبحان اللہ ،33مرتبہ الحمد للہ اور 34مرتبہ اللہ اکبر پڑھ لیا کرو یہ تمہارے لئے خادم سے بہتر ہے ۔
غو ر کریں آپ ﷺنے اپنی پیاری بیٹی کی کس انداز میں تربیت کی کہ خود بھی تکلف برداشت کر کے غلام مہیا نہیں کیا اور نہ ہی اپنے داماد سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو مجبور کیا کہ میری بیٹی کے لئے غلام مہیا کرو ،بلکہ محنت کرنے اور ذکر الہی کی تعلیم دی ہے۔ آج ہم بھی اس طرز پر تربیت کر کے اپنی بیٹیوں کا گھر آباد کر سکتے ہیں ۔
(4)عورت کی ملازمت:
اسلام نے کھانے پینے اور رہائش کی تمام ذمہ داریاں مرد کے ذمے لگائی ہیں اور عورت کے ذمے صرف گھریلو ذمے داریاں بیان کی ہیں۔ تاریخ اس بات کی شاھد ہے کہ جب تک مردو عورت نے اپنی اپنی ذمے داریاں ادا کی ہیںتو گھروں میں امن و امان اور سکون کا ماحول رہا ہے اور جب سے ان ذمے داریوں کو تبدیل کر دیا گیا ہے توازدواجی زندگی میں بگاڑو فساد واقع ہو گیا ہے کیونکہ جس عورت نے صبح سویرے ملازمت کے لئے جانا ہے اور شام کو واپس آنا ہے تو گھریلو کام کاج میں ضروری کمزوری واقع ہو گی نیز جب عورت تنخوا ہ دار ہو گی تو وہ اپنے آپ کو خاوند کی محتاج نہیں سمجھے گی بلکہ خاوند کو پلّے نہ باندھنے کے ساتھ ساتھ آنکھیں بھی دکھائے گی ۔خاوند کی ضروریات پوری کرنے اور گھریلومعاملات کو نمٹانے کی بجائے اسکی توجہ ملازمت کی طرف ہو گی جس کی وجہ سے تعلقات میں بگاڑ واقع ہونا شروع ہو جاتا ہے ۔
(5)والدین کی بے راہ روی:
ہر والدین کو اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے لیکن محبت میں افراط و تفریط نقصان کا باعث بن جاتی ہے ۔بعض والدین بیٹی کی شادی کے بعد اسے یہ سبق پڑھاتے ہیں کہ سسرال کے گھر ما تحت بن کر یا نوکرانی بن کر نہیں رہنا
بلکہ رعب و دبدبہ کے ساتھ رہنا ہوگا ۔اگر کوئی بات ہو تو فوراً ہمیں اطلاع کرنا ،پھر دیکھنا ہم ان کے ساتھ کیا کرتے ہیں۔ پھر خود بھی داماد اور اس کے والدین اور دیگر رشتہ داروں پر دوربین لگائے بیٹھے ہوتے ہیں اور گھر میں کوئی بھی معمولی سی بات ہوئی تو فوراًاپنی بیٹی کو لینے کے لئے آدھمکتے ہیں یا بیٹی کو بھاگ کر آجانے کا مشورہ دیتے ہیں ۔اور اپنی بیٹی کو سچا ثابت کرنے کے لئے ہرحربہ استعمال کرتے ہیں۔ایسے والدین اپنی بیٹی کی محبت میں حد اعتدال سے بڑھ جانے کی وجہ سے اس کا گھر اجاڑ کر بیٹھ جاتے ہیں اس لئے والدین کو چاہئے کہ اگرواقعی بیٹی کے خیر خواہ ہیں تو اس کا گھر آباد کرنے کی سوچ رکھیں اور ہمیشہ اپنی بیٹی کو سمجھانے کی کوشش کریں ۔
(6)ناجائز مطالبات:
عورت کو ہمیشہ قناعت پسند ،سلیقہ شعار اور خاوند کے مال کی محافظ بن کر رہنا چاہئے اور آمدن کو مد نظر رکھ کر اخراجات کرنے چاہئیں۔جس عورت کو چٹخارے کی عادت ہو ،کھانے پینے ،اورپہننے میں فضول خرچ ہو ،ٹیلی ویژن ،اور ڈائجسٹ اور اخبار میں آنے والی ہر مشہوری کی سب سے پہلے خریدار بنے اور اپنی تمناؤں کو پورا کرنے کے لئے دکان پر قرض چڑھائے رکھے تو وہ یقیناًخاوند کا دیوالیہ نکال دیتی ہے۔ اور وہ خاوند کے مال میں چوری وخیانت کی مرتکب بھی ہو جاتی ہے اور ہمیشہ خاوند کی ناشکری اور شکوے کرتی رہتی ہے آ خر کار خاوند ایسی بیوی سے علیحدگی میں عافیت سمجھتا ہے اور نوبت جدائی تک پہنچ جاتی ہے ۔
(7)خاوند کو اندھیرے میں رکھنا :
بعض عورتیں اپنے آپ کو بہت چالاک سمجھتی ہیں اور خاوند کو بدھو سمجھ کر اندھیرے میں رکھتی ہیں۔ مثلاً:خاوند کی اجازت کے بغیر بازاروں میں گھومتے رہنا اور خاوند کو تأثر یہ دینا کہ میں نے تو کبھی گھر سے باہر پاؤں بھی نہیںرکھا ،شادی و غمی کے موقعہ پر قرض لے کر بہت زیادہ خرچ کرنا ،خاوند کی اجازت کے بغیر خود سوٹ و بوٹ خریدنا اوراظہار یہ کرناکہ والدین یا بھائیوں کی طرف گفٹ کا اظہار کرنا یا جن رشتہ داروں سے خاوند اعراض کرتا ہو ان کے ساتھ تعلقات رکھنا وغیرہ، جب خاوند کو مذکورہ کاموں کی اطلاع ملتی ہے تو گھر میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے اور بعض اوقات یہ بگاڑ طلاق کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔
(8)ساس وسسر کی عزت نہ کرنا :
اسلام بڑوں کی عزت اور چھوٹوں سے پیار کرنے کی تعلیم دیتا ہے ۔خاوندکا والدین ساتھ بہت قریبی تعلق ہوتا ہے بلکہ ان کا عظیم احسان بھی ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنی بہو اور بیٹی بنانے کے لئے آپ کا انتخاب کیا ہوتا ہے۔اس لئے عورت کو اپنے سسروساس کو والدین کی طرح سمجھنا چاہئے اور انتہا درجے کی ان کی عزت وتکریم کرنی چاہئے۔ یقیناً ایسی عورت جو خدمت و احترام کے ساتھ سسروساس کا دل جیت لیتی ہے وہ سکون سے زندگی بسرکرتی ہے ۔اگر کبھی خاوند سے کوئی تنازع ہو جائے تو ساس وسسر کی حمایت کی وجہ سے خاوند کودرگزر کرنا پڑتا ہے۔ اور جو عورت ساس و سسر کو بوجھ سمجھے ،ان کے لئے کھانا پکانا اور کپڑے دھونا مصیبت سمجھے ،بات بات پر زبان درازی کرے ،ہر آنے جانے والے کے سامنے ان کی غیبت کرے اور خود کو ماڈرن سمجھتے ہوئے بوڑے ساس و سسر کو دھکے دے تو وہ کبھی سکون کا سانس نہیں لے سکتی۔ وہ اس مہاورے کی مصداق بنتی ہے:
جب بہو تھی تو ساس نہیں اچھی
جب ساس بنی تو بہو نہیں اچھی
رسول اللہ ﷺ نے بھی یہی اصول بیان فرمایا :
مَنْ َلّا یَرْحَمْ، لَا یُرْحَمْ (بخاری:5997،مسلم:2318)
’’جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا ‘‘
(9)بدزبان ہونا:
ایک صحابی نے سوال کیا کہ نجات کس کام میں ہے ؟تو آپ ﷺنے سب سے پہلی بات یہ فرمائی :
أَمْلِکْ عَلَیْکَ لِسَانَکَ۔ (ترمذی:2406،السلسلۃ الصحیحہ للالبانی:890)
’’اپنی زبان کو کنٹرول میں رکھ ‘‘
ہمارے معاشرے میں اکثر فسادو بگاڑ اسی زبان کے غلط استعمال کی وجہ سے ہے ۔خصوصاًعورتوں میں یہ وبا زیادہ پائی جاتی ہے ۔جو عورت صبرو ضبط سے کام لے ،خاوند کی تلخ کلامی کو برداشت کر لے وہ کامیاب ہےاور اپنے گھر کو آباد کرنے والی ہے ۔اور اس کے برعکس جو خاوند اور اس کے رشتہ داروں پر زبان درازی کرے، بیہودہ الفاظ بولے اور خاوند کو بھی ایک کی چار سنائے اور بچوں کے سامنے بھی خاوند کی تذلیل و تحقیر کرے وہ کسی نہ کسی دن طلاق کا طوق گلے میں ڈال ہی لیتی ہے۔
(10)خاوند کا راز نہ رکھنا :
قرآن مجید نے مردو عورت کو ایک دوسرے کا لباس کہا ہے ۔لباس پردہ پوشی بھی کرتا ہے اور خوبصورتی و وقار کاذریعہ بھی ہوتا ہے ۔ عورت کو بھی اپنے خاوندکے عیوب پرپردہ ڈالنا چاہئے اور اسکی عزت و وقار کا باعث بننا چاہئے ۔آپ ﷺنے فرمایا:
مَنْ سَترَمسْلِماً سَتَرَہُ اللّہُ فِی الْدُّنْیَاوَالْآخِرَۃِ
(صحیح مسلم)
خاوند و بیوی کے راز افشا کرنے کی بڑی وعید بیان کی ہے۔رسول اللہ نے فرمایا:
’’قیامت کے دن بدترین لوگوں میں سے وہ مرد اور عورت ہونگے جو ایک دوسرے کے پاس جائیں اور پھر ایک دوسرے کے راز افشاکریں‘‘ (مسلم:1437)
جو عورت اپنے خاوند کے کمزور پہلو اور اسکے عیوب رشتہ داروں اور سہیلیوں میں مرچ مصالحے لگا کر بیان کرےاوربھری مجلس میں خاوند کو رسوا کرے وہ کبھی بھی خاوند کے دل میں جگہ نہیں بنا سکتی ۔
(11)بلاوجہ خلع کا مطالبہ کرنا :
فطری طور پر عورت میں صبرو تحمل اور قوتِ برداشت کم ہوتی ہے، اس لئے اسے طلاق کا اختیار نہیں دیا گیا ۔البتہ انتہائی نا گزیر حالات میں عورت اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے جسے’’ خلع‘‘کہا جاتا ہے۔ اس صورت میں عورت کو مہر واپس دینا ہوگا ،جیسے سورت البقرۃ آیت 229میں بیان کیا گیا ہے۔ البتہ اگر وہ بلا وجہ طلاق کا مطالبہ کرے تو یہ بہت بڑا جرم ہے ۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَیُّمَاامْرأَۃٍسَأَلَتْ زَوْجَھَا الطَّلاَقَ مِنْ غَیْرِ مَا بَأسٍ فَحَرَامٌ عَلَیْھَا رَائِحَۃُالْجَنَّۃِ۔
 (ابوداؤد:2226،ترمذی:1187)
’’جو عورت بغیرکسی معقول عذر کے اپنے خاوند سے طلاق کا مطالبہ کرے تو اس پر جنت کی خوشبو حرام ہو جاتی ہےبعض عورتیں بلا وجہ یا کسی معمولی بات پر طلاق کا مطالبہ شروع کر دیتی ہیں جس کا نتیجہ آخرکار طلاق واقع ہو ہی جاتی ہے
(12)وراثت نہ لینا :
والدین کی وراثت میں لڑکے و لڑکیاں دونوں کاحصہ ہوتا ہے ۔بعض عورتیں غربت و تنگدستی کے باوجود والدین کی وراثت میں سے حصہ وصول نہیں کرتیں جبکہ خاوند اور اولاد کا وراثت لینے میں اصرار ہوتا ہے۔ پھر گھر میں اختلاف شروع ہو جاتا ہے اور بعض اوقات نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے ۔اس لئے اپنے گھر کے حالات کے پیش نظر وراثت حاصل کرنا بہتر ہوتا ہے تاکہ اختلافات رونما نہ ہو سکیں
(13)رخصتی کرنے میں بے احتیاطی:
بعض والدین بچی کی رخصتی کی تاریخ مقرر کرنے میں اپنے دفتری یا کاروباری حساب کو مدنظر رکھ کر تاریخ مقررکر دیتے ہیںاور بچی سے مشورہ نہیں کرتے۔ ممکن ہے کہ رخصتی والے ایام اسکی ماہواری کے ایام ہوں اس طرح پہلی رات ہی خاوند کے جذبات مجروح ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات جذبات کے ہاتھوں مجبور ہو کر طلاق دے دی جاتی ہے ۔ اسی طرح بعض بچیوں کو انکی سہیلیاں یہ غلط مشورہ دیتی ہیں کہ پہلی رات خاوند کو اپنے پر قدرت نہ دی جائے تو خاوند ہمیشہ تابع ہو کر رہتا ہے۔ اس غلط اصول پر عمل کرنے کی وجہ سے بھی نوبت طلاق تک پہنچ جاتی ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
أَلْمَرْأَۃُ لَا تُؤَدِّی حَقَّ اللّہِ حَتّٰی تُؤَدِّی حَقَ زَوْجِھَا،حَتّٰی لَوْسَأَلَھَا وَھِیَ عَلیٰ ظَھْرِ قَتَبٍ
لَمْ تَمْنَعْہُ نَفْسَھَا:(صحیح الترغیب والترھیب للألبانی:1943)
 عورت اللہ تعالیٰ کا حق ادا نہیں کر سکتی ،جب تک اپنے خاوند کا حق ادانہ کرے ،حتی کہ اگر عورت پالان پر سوار ہو اوراس کا خاوند اپنی حاجت کے لئے بلائے تو تب بھی وہ انکار نہ کرے۔
ایک مرتبہ آپ نے فرمایا ۔
اِذَا دَعَاالْرَّجُلُ أِمْرَأَتَہُ أِلیٰ فِرَاشِہ فَأَبَتْ فَبَاتَ غَضْبَانَ عَلَیْھَا لَعَنَتْھَا الْمَلَائِکَۃُ حَتّیٰ تُصْبِحَ ۔(بخاری: ,3237مسلم :1736)
جب خاوند اپنی بیوی کو اپنے بستر پر بلائے اور وہ انکارکردے، پھر وہ اس پر ناراضگی کے ساتھ رات گزارے تو فرشتے صبح ہونے تک اس پر لعنت بھیجتے رہتے ہیں‘‘
(14)دوسری شادی سے روکنا :
جب خاوند، بیوی کے تمام حقوق احسن انداز سے پورے کرتا ہو۔ پھر وہ جسمانی ومالی وسعت ہونے کی وجہ سے مزیدشادی کرنا چاہتا ہو تو شریعت نے مردکو اس کا حق دیا ہے۔بیوی کا دوسری شادی میں رکاوٹ بننا یا دھمکیاں دینا وغیرہ بھی طلاق کا سبب بنتا ہے ۔
(15)تعلق باللہ میں کمزوری :
نماز، روزہ ،صدقہ ،صبح شام کے اذکار اور تلاوت قرآن مجید کے ساتھ اللہ تعالی کی ذات سے تعلق مضبوط ہوتا ہے اور یہ کام حوصلہ ،صبر، برداشت کے ساتھ ساتھ ذہن کی طہارت و پاکیزگی اور دل میں نرمی جیسے اوصاف پیدا کرتے ہیں ۔جس کی وجہ سے گھریلووخاندانی معاملات نبھانا آسان ہو جاتے ہیں ۔ اگر قرب الہی والے کام چھوڑ دیئے جائیں تو دنیا کا لالچ و طمع ،حسد و بغض عداوت، نفس پرستی ،ہر کام میں انا کا مسئلہ وغیرہ کا پیدا ہونا لازمی ہوتا ہے جسکی وجہ سے گھر میں اختلافات برپا ہو جاتے ہیں اور آخر نتیجہ طلاق کی صورمیںظاہر ہوتا ہے۔

Read 1151 times Last modified on 12 Oct,2015
Rate this item
  • 1
  • 2
  • 3
  • 4
  • 5
(1 Vote)
Tweet
  • Social sharing:
  • Add to Facebook
  • Add to Delicious
  • Digg this
  • Add to StumbleUpon
  • Add to Technorati
  • Add to Reddit
  • Add to MySpace
  • Like this? Tweet it to your followers!
Published in اپریل 2015
الشیخ ابو نعمان بشیر احمد

الشیخ ابو نعمان بشیر احمد

Latest from الشیخ ابو نعمان بشیر احمد

  • فہم قرآن کورس سبق 16 سورۃالفیل تا سورۃ الکوثر
  • فہم قرآن کورس سبق 15 سورۃالعصر تا سورۃ الھمزہ
  • فہم قرآن کورس سبق 14 سورۃالعادیات تا سورۃ التکاثر
  • فہم قرآن کورس سبق 13 سورۃالقدر تا سورۃ الزلزال
  • سیرت النبی ﷺ اسوۂ حسنہ اور ہم

Related items

  • زلزلوں کی کثرت اسباب اور حل
    in جون 2016
More in this category: « قیامِ امن سیرت الرسول ﷺ کی روشنی میں اسلامی تہذیب و تمدن کی آفاقیت »
back to top

About Usvah e Hasanah

اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کا ماہنامہ تحقیقی، اصلاحی و دعوتی ماھنامہ مجلہ جس میں حالاتِ حاضرہ، کی مناسبت سے قرآن سنت کی روشنی میں مضامین اور تحقیقی مقالات شائع کئے جاتے ہیں

Contact us

ماھنامہ اسوہ حسنہ، جامعہ ابی بکر الاسلامیہ، گلشن اقبال بلاک 5،پوسٹ بکس نمبر11106، پوسٹ کوڈ نمبر75300 کراچی پاکستان

Phone: +92 0213 480 0471
Fax: +92 0213 4980877
Email: This email address is being protected from spambots. You need JavaScript enabled to view it.

facebook

good hits

 

  • sitemap
Copyright © جملہ حقوق بحق ماھنامہ اسوہ حسنہ محفوظ ہیں 2021 All rights reserved. Custom Design by Youjoomla.com
2015