اسرائیل کی بمباری سے غزہ کے مسلمان شہید ہوتے رہے لیکن حکمران ٹس سے مس نہ ہوئے کیونکہ مسلم ریاستوں میں داخلی استحکام نہیں ۔ صہیونی نیل سے فرات تک علاقہ پر گریٹ اسرائیل کے قیام کے منصوبے پر عمل پیر اہیں بد قسمتی سےمسلم دنیا ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہے ، شام ، عراق ، لیبیا، پاکستان، افریقہ ، مصر اور یمن میں خانہ جنگی کے دوران قتل عام جاری ہے کئی ایک اسباب ہیںاگر نظریاتی اختلاف کا تذکرہ کروں گا ،خلفاء راشدین کے دور میں اسلام کو پھیلتا پھولتا دیکھ کر یہودیوں کے پیٹ مروڑ ہوا۔
عبداللہ بن سبا نے اسلام کا لبادہ اوڑھ کر ملت اسلامیہ میں سیاسی اختلاف کو جنم دیا جو رفتہ رفتہ مذہبی نوعیت اختیار کرگیاوہ ایک دوسرے کے نظریاتی حریف بن گئے، جب کسی ریاست میں ایک مکتبہ فکر کی حکومت قائم ہوئی تو انہوں نے اپنے نظریات کو دوسروں پر مسلط کرنے شروع کردئیے پھر دوسری ریاستوں پر تسلط قائم کرنے کی مہم شروع کردی نظریہ تصادم خانہ جنگی کی صورت اختیار کرگیا ۔ایسے ہی امریکہ نے موقع سے فائدہ اٹھاکر عراق کو ایران سے الجھا دیا لاکھوں مسلمان انتہا پسندی کی آگ میں جھلس گئے جب دونوں ملکوں کی فوجی قوت ختم ہوگئی تو امریکہ نے تحفظ کا بہانہ بنا کر خلیجی علاقے میں فوجی ڈیرہ جمالیا،عراق ، شام، لبنان اور یمن مذہبی محاذ آرائی کے آماجگاہ بن گئے۔
ایران میں انقلاب برپا ہوا تو اہل مغرب نے علماء پر مشتمل نگہبان کونسل کی پارلیمنٹ پر بر تری تسلیم کرلی لیکن افغانستان میں طالبان نے شرعی نظام کو فو قیت دی تو مغربی دنیا نے حملہ کر کے ان کو غاروں میں پناہ لینے پر مجبور کردیا۔
عراق میں آبادی کے لحاظ سے اہل تشیع کی اکثریت تھی ، ملک شام میں معاملہ اس کے برعکس تھا، دونوں ممالک میں آمرانہ راج تھا، امریکی مداخلت سے عراق مین انتخابی عمل کے بعد اکثریتی طبقہ کی حکومت قائم ہوگئی لیکن شام میں دولاکھ سے زائد مظاہرین ہلاک ہوچکے ہیں، لیکن جمہوری انقلاب نہ آسکا۔
امریکہ کے دو غلے کردار کی وجہ سے مذہبی خانہ جنگی میں اضافہ ہوا وہ ایک دوسرے کے خلاف صف آرا ء ہیں۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ بلاک کی مسلم ریاستوں میں سوشلزم کی تردید اور اسلامی جمہوریت کی حمایت کرنے والے نوجوانوں کی کھیپ تیار ہوگئی، جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو وہی نوجوان مظلوم افغانیوں کی صفوں میں شامل ہوئے چنانچہ روسی فوج نے مجاہدین کی گوریلا جنگ سے دلبرداشتہ ہوکر پسپائی اختیار کرلی۔ امریکہ نے افغانستان پر ممکنہ حملے سے قبل اپنے لیے خطرہ سمجھا اور ان کو القاعدہ کا نام دے کر آپریشن شروع کردیا، مقابلے میں کچھ مارے گئے اور کثیر تعداد میں گرفتارہوئے جن کی برین واشنگ کی گئی وہ رہا ہوکر وطن پہنچے تو انہوں نے اپنی بندوق کی نوک پر شرعی قانون کی حکمرانی کا مطالبہ کردیا ، چند جذباتی افراد نے ان کی آواز پر لبیک کہا۔
طاغوتی لشکر نے بش کی صلیبی جنگ میںمسلمانوں پر ظلم و ستم کی انتہاکردی ۔ مسلمان حکمران چونکہ ان کا مقابلہ نہ کرسکے، پر امن دینی و سیاسی جماعتیں اس کا ادراک نہ کرسکیں لہٰذا چند مشتعل نوجوانوں نے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی ٹھان لی، مغرب اندرون خانہ ان مجاہدین کی مدد کرتا ہے اور اگر ایسا نہیں تو سوچنے کی بات ہے کہ ان انتہا پسندوں کو اسلحہ کون فراہم کرتاہے ، عالمی میڈیا پر ان کو کس طرح پذیرائی حاصل ہوجاتی ہے؟
ممکن ہے نوجوان خونی انتقامی جذبہ میں خلاف اسلام حرکات کرتے ہیں، بلاشبہ یورپ سے نو مسلم روحانی جذبہ کے تحت اپنے بھائیوں کی مدد کو آئے ہوں۔
تاریخ خود کو دہراتی ہے، صہیونی ایجنٹ بھی اسلام کے لبادے میں آئے ہونگے جنہوں نے قیدیوں اور صحافیون سے نازیبا سلوک کیا جن سے ہلاکو خان کی روح بھی پناہ مانگتی ہوگی۔
چنانچہ خلاف شرع انتقامی کا روائی سے اسلام کو بدنا م کرنے اور اہل مغرب کو کچلنے کا موقع ملتا رہاہے، طاغوتی جارحیت اور مسلم امہ کی باہمی محاذ آرائی کی وجہ سے ایک ہزار کے لگ بھگ مسلمان قتل ہوئے۔
یورپی اقوام کی محکومی کے دور میںشتر بے مہار آزادی کا نظریہ امت مسلمہ میں سرائیت کرگیا۔ آزادی کے بعد مسلم دنیا کی تعلیمی درسگاہوں میں جداگانہ نصاب ، ماحول اور تدریسی عملہ نے معاشرے کو لبرل اور قدامت پسند طبقوں میں بانٹ دیا، رہی سہی کمی میڈیا نے پوری کردی، سول سوسائٹی سسٹم بالغ شہریوں کو سیکولر ماحول میں ڈھالنے کےلیے سرگرم عمل رہے۔ جو اسلامی تشخص کو مجروح کرنے والی ہر تحریک میں قائدانہ کردار اداکرتی آرہی ہیں۔ موقع کی مناسبت سے اسلامی اور لبرل تحریکیں ایک دوسرے کے خلاف نفرت کا اظہار کرتی رہتی ہیں۔
کائنات کا نظام چلانے کے لیےمعاشرے میں غریب امیر حکمت الٰہی کا مظہر ہے ، اللہ تعالی کسی کو زر دے کر آزماتا ہے کہ وہ میری راہ میں خرچ کرتاہے کہ نہیں؟ اور کسی کو تنگ دستی میں مبتلا کر کے امتحان میں ڈالتا ہے کہ وہ محنت، مزدوری کرکے میر ادوست بننے کی جدوجہد کرتاہے کہ نہیں۔ یہ فرق ازل سے ہے اور ابد تک جاری رہے گا، تاہم موجودہ دور کا المیہ یہ ہے کہ سرمایہ دارانہ نظام کی بدولت امیر پہلے کی نسبت امیر ترین اور غریب غریب تر ہوتاجارہاہے اس سے معاشرہ دو طبقوں میںبٹ کر رہ گیا ہے ۔ ہوس زر کی دوڑ میں ان کے دلوں میں بجائے صبر شکر کے حسد اور کینہ کے جذبات امڈ آئے ہیں۔
مغرب میں یہ فلسفہ پذیرائی حاصل کرنے لگاکہ ’’انسان خیر وشر میںخود تمیز کر سکتاہے‘‘ اس کی بنیادپر یورپ میں انقلاب برپا ہوا۔ پھر یہ نظریہ یورپی اقوام کے تسلط کے دوران مسلم دنیا میں سرایت کر گیا مسلم ریاستوں میں خود ساختہ آئین کو سپریم لا کی حیثیت حاصل ہوگئی ، عوام کے منتخب نمائندوں کو اجتہاد کا حق حاصل ہوگیاجبکہ دوسری طرف شرعی حکومت کے قیام کے لیےانتخابی جدو جہد عبادت کا مرکز ومحور بن گیا، چنانچہ آزادی کے بعد مسلم ریاستوںمیں حاکمیت الٰہیہ کے لیے جماعتیں معرض وجود میں آئیں۔ کالج اور یونیورسٹی سطح پر ان کی طلباء تنظیمیں میدان عمل میں آئیں۔
ان کی تربیت سے نوجوان نسل اس نظریہ کی حامل ہوگئی، جنہوںنے نماز روزہ کی تلقین کرنے والوں کو مُلّااور بستر بند کہنا شروع کردیا، انتخابی جدوجہد کے ذریعےانقلاب کی دعوت دینے والے مفکر بن گئے ، دلفریب تحریروں اور تقریروں سے عوامی حمایت حاصل کرنے والے سیاسی لیڈر بن گئے، چنانچہ نئی نسل نے احتجاجی اور انتخابی جدوجہد کے ذریعے اسلامی حکومت کے قیام کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیا۔
سامراجی قوتیںایک طرف عوام کے احتجاجی دھرنوں اور لانگ مارچ کو جمہوری روح کہہ کر حوصلہ افزائی کرتی ہیں، جبکہ مسلم حکمران اقوام متحدہ کے ضابطوں کی وجہ سے خود ساختہ قانون نافذ کرنے کے پابند ہیں اس بنا پر اکثر اسلامی ممالک میں نظریاتی تصادم برپا ہے۔
سرد جنگ کے دوران مسلم دنیا میں اسلامی جمہوریت کے متوالوں کی کھیپ تیار ہوگئی روس کی پسپائی کے بعد امریکہ نے آزادی کی نیلم پری سے محروم مسلم دنیامیں جمہوری انقلاب برپا کرنے کی ٹھان لی ۔ اکثر اسلامی ممالک میں عوام کا جم غفیر سڑکوں پر نکل آیا ، جمہوری عمل شروع ہوا تو الہامی اور عوامی قانون کے پرستاروں میںنظریاتی اختلاف پیداہوگیا۔
اہل علم بخوبی واقف ہیں کہ امریکہ کے دنیا بھر خصوصاً مسلم ممالک حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے لیڈروں اور حکومت کے اعلیٰ مستقل عہدیداروں سے روابط رہتے ہیں ، وہ ان سے ہر قسم کی حساس اور اہم نوعیت کی معلومات حاصل کرلیتا ہے، وہ سیاسی جماعتوں کے نمایاں لیڈروں کی کرپشن کی فائلیں تیار کرتا ہے، جب کوئی مسلم حکمران صہیونی ورلڈ آرڈر کی کسی دفعہ کو قبول کرنے سے پہلو تہی کرتاہے تو امریکہ حزب اختلاف کے چہیتوں کو موقع کی مناسبت سے لانگ مارچ اور احتجاجی دھرنوں پر اکساتاہے ، تصادم سے بچنے کی خاطر فوج اقتدار پر قبضہ کر لیتی ہے سول حکومت جو عوامی رائے عامہ کی مخالفت سے وطن کی سلامتی یا شرعی قانون کے منافی صہیونی آرڈرکو قبول کرنے سے ہچکچا تی ہے لیکن فوجی حکمران آئینی خلاف ورزی کے خوف سے بلا چوں چراں تسلیم کر لیتا ہے، جس طرح مصر کےفوجی جنرل نے اسرائیل کو تسلیم کرلیا اور پاکستان کے ایک جنرل نے امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ فراہم کی اس کا مضر پہلو یہ بھی ہے کہ عوام کی نظروں میں فوج کا وقار مجروح ہوجاتا ہے عوام کے مابین اور حکومت و فوج میں نفرت کی خلیج حائل کرنا صہیونی منشا کا تقاضا ہے۔
روس کی پسپائی کے بعد سوشلزم کا نظریہ اپنی پذیرائی کھو چکا ہے لیکن دفن نہیں ہوا۔ اس کے نظریاتی حامی موجود ہیں، جس ملک کے افراد مزدوری کے لیے سردی اور گرمی کے دوران چوراہوں پر انتظار کرتے تھک جائیں اگر کسی کو مزدوری مل جائے تو اتنی اجرت ملے کہ روز افزوں مہنگائی کی وجہ سےپیٹ پالنا مشکل ہو ان حالات میں سوشلسٹ ان کو معاشی سبز باغ دکھا کر ہم نوا بنا لیتے ہیں جمہوری حکومت میں بنیادی حقوق کی بحالی کے لیے احتجاج، لانگ مارچ اور دھرنا سیاسی جماعتوں کا بنیادی حق ہے ، محب وطن ڈیمو کریٹ سیاست دان قطعاً نہیں چاہتے کہ احتجاج کے دوران قومی یا عوامی املاک کو نقصان پہنچےیا حکومت کے حفاطتی عملے سے تصادم کی نوبت آئے لیکن اس صورت میں المیہ یہ ہوتا ہے کہ سوشلسٹ ہمہ وقت اس موقع کے منتظر رہتے ہیں وہ حکومت کےخلاف ہر قسم کے احتجاج میں شامل ہوجاتے ہیں اور قانون شکنی کی گھنائونی وارداتیں کرتے ہیں جس سے حزب اختلاف اور حزب اقتدار میں تصاد م ہوجاتا ہے وہ ایک دوسرے پر حق تلفی اور کرپشن کا کیچڑ اچھالتے ہیں، میڈیا پر شہرت پیش کرنے کےدعوے کرتے ہیں، رفتہ رفتہ عوام جمہوری نظام سے نفرت کرنے لگتے ہیں اور یہ سوشلسٹ انقلاب برپاکرنے کاحربہ ہے۔
وہ کونسا فلسفہ ہے کہ جس کی اثر پذیری کا نتیجہ ہے کہ دینی جماعت کی پکار پر ہزاروں کی تعداد میں مسلمان سڑکوں پر نکل کر لانگ مارچ اور دھرنوں میں شریک ہوجاتے ہیں، ایک مصری اسکالر کا نظریہ پیش خدمت ہے۔
’’اسلامی معاشرہ وہ نہیں جو ’’مسلمان‘‘ نام کے انسانوں پر مشتمل ہو مگر اسلامی شریعت کو وہاں کوئی قانونی پوزیشن حاصل نہ ہو ۔ ایسے معاشرہ میں اگر نماز، روزہ اور حج کا اہتمام بھی موجود ہوتو بھی وہ اسلامی معاشرہ نہیںہوگا بلکہ جاہلی ہوگا‘‘
اس طبقہ کے نزدیک نماز، روزہ اور حج تربیتی مراحل ہیں جبکہ عبادات کا مرکز و محور بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابی جدوجہد کےذریعے شرعی حکومت کا قیام ہے۔
عبادت کیا ہے؟ اللہ سبحانہ وتعالی نے خاتم النبیین ﷺ کے ذریعے جن امور کا حکم دیا ہے اُن پر عمل پیرا ہونا اور جن کاموں سے روکا ہے اُن کو ترک کردینے کا نام عبادت ہے، عبادت کو سرانجام دینااور دوسروں کو دعوت دینا ہر مسلمان پر واجب ہے ، عبادت کی دو معروف قسمیں ہیں حقوق اللہ اور حقوق العباد۔
ہیومن ازم کے نظریہ سے متاثر مسلمان حقوق العباد کو فوقیت دیتے ہیں کہ بلکہ ان کے نزدیک رنگ ونسل مذہب انسانیت کی خدمت میں اصل عبادت ہے دوسرا طبقہ حقوق اللہ کی ادائیگی پر زور دیتاہے حقوق العباد کی پر وا نہیں کرتا اللہ سبحانہ وتعالی نے قرآن حکیم میں حقوق اللہ کےساتھ ساتھ حقوق العباد ادا کرنے کاحکم صادر فرمایا ہے ان کا آپس میں چولی دامن کا ساتھ ہے۔
ایک مریض رات کے وقت درد کی شدت سے چیخ رہا ہے تعاون کے لیے پکارتاہےاس کا پڑوسی آواز سُنلیتا ہے لیکن وہ نفل ادا کرنے میں مشغول رہتا ہے ، مریض بے کسی کے عالم میں دم توڑ جاتا ہے ، بلاشبہ نوافل کی کثرت قرب الٰہی کا ذریعہ ہے تاہم یہ بھی مذکور ہے کہ ایک اسرائیلی عورت نے پیاس کی شدت سے تڑپنے والے کتے کو پانی پلا یا تو اللہ سبحانہ وتعالی نے اس کے گناہوں کو معاف کردیا ۔ سوچنے کا مقام ہےکہ اس نازک صورتحال میں پڑوسی کا فعل کیا درست تھا؟
اسی طرح ایک مسلمان دل کھول کر زکوٰۃ، صدقات ادا کرتاہے غریبوں ، مسکینوں کا خیال رکھتا ہے لیکن جب اس پر مشکل آجائے تو وہ اللہ کا در چھوڑ کر غیروں کے آستانوں پر سجدہ ریز ہوکر آہ وزاری کرتاہے ، کیا اس کے اس کے نیک اعمال رب تعالی کے ہاں مقبول ہوں گے؟
ایک مسلمان توحید و رسالت کا اقرار کرتاہے لیکن نماز کو ثانوی حیثیت دے کر قائم نہیں کرتا صاحب نصاب ہونے کے باوجود زکوٰۃ ادا نہیں کرتا ۔ حقوق العباد کی ذرہ برابر پر واہ نہیں کرتا، سوچنے کی بات ہے کیا وہ توحید کے تقاضے پورے کررہاہے؟
جس طرح ایک عمارت میں بنیاد ، دیواروں، دروازوں اور چھت کا اپنا اپنا مقام ہے اسی طرح اسلام کی عمارت میں ارکان اسلام اور خدمت انسانیت کا اپنا اپنا مقام اور حیثیت ہے وہ آپس میں لازم و ملزوم ہیں۔
روز محشر ہر مسلمان سےصرف اس کی رعیت (رعایا) کے بارے میں باز پرس ہوگی۔
نماز مومن کی معراج ہے جو ہر مسلمان پر فرض ہے کہ خود قائم کرے اور اہل خانہ کو تلقین کرے لیکن پاگل پر لازم نہیں ، زکوٰۃ، حج اور قربانی صاحب استطاعت پر تو فرض ہے لیکن تنگ دست اس سے مستثنٰی ہیں روزہ تزکیہ نفس کا ذریعہ ہے لیکن مریض مسافر کےلیے رخصتہے، مگر بعد میں قضا ادا کرے گا۔
عقیدہ توحید اسلام میں داخلہ کی شرط ہے کہ وہ اللہ کی الوھیت میں کسی کو شریک نہ کرے اور حتیٰ المقدور اپنی رعایا کو بھی وعظ و نصیحت کرے، مزدور اور کسان کی رعایا اس کے اہل و عیال ہیں کا رخانہ دار کے مزدور اور زمیندار کے مزارعین اس کی رعایا ہیں، اسی طرح ڈی سی او کے ضلعی ملازمین اور ریاست کے سربراہ کے لیے تمام افسران اور شہری اُس کی رعایا ہیں۔
اسکول ٹیچر یا مدرسہ کےمعلم کی ذمہ داری ہے کہ وہ زیر تعلیم بچوں کی تعلیم و تزکیہ کا اہتمام کرے روز محشر ایک خطیب سے باز پرس ہوگی کہ تونے اپنے محلے کے لوگوں کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی تلقین کیوں نہ کی لیکن اس سے اس سے پر سش نہ ہوگی کہ تونے بادشاہ وقت کو اسلامی قانون نافذ کرنے کی تلقین کیوں نہیں کی البتہ ، اپنی جماعت کے سربراہ سے ضرور جواب طلبی ہوگی کہ تونےریاستی سربراہ کو شرعی قانون کے نفاذ کی تلقین کی ہے یا نہیں لیکن اس امر کی پوچھ گچھ نہ ہوگی کہ تونے طاقت کےبل بوتے پر سربراہ کو مجبور کیوں نہ کیا؟
اگر کسی ملک میں جمہوری نظام رائج ہے تو دینی جماعت کے امیر سے باز پرس ہوگی کہ تونے جس جماعت سے انتخابی اتحاد کیا ہے اس سے شرعی قانون کے نفاذ کا کونسا عہد و پیمان لیا ہے؟
حلیف جماعت کی کامیابی پر کس حد تک اسے وعدہ وفا کی تلقین کی؟ اگر اس نے انحراف کیا تو بائیکاٹ کیوں نہیں کیا ؟ قومی وصوبائی اسمبلی کے ارکان سے اس امر کی روز محشر باز پر س ہوگی کہ تونے اسمبلی میں کس حد تک قرآن وسنت کے نفاذ کی ذمہ دار ی پوری کی؟
اسی طرح بالغ مسلمان ووٹر زسے اس امر کی جواب طلبی ضروری ہوگی کہ تونے حلقہ میں اسلام، وطن اور عوام سے مخلص امید وار کو ووٹ دیاتھا کہ نہیں، لیکن ووٹر سے اس امر کی باز پرس نہ ہوگی کہ تونے شرعی قانون کی حکمرانی کے لیے احتجاجی مارچ اور دھرنوں میں حصہ کیوںنہیں لیا؟
تایخ اسلام شاہد ہے کہ خلیفہ سوم سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے خلاف شرپسند فسادیوں نے کوفہ و بصرہ و دیگر مقامات پر احتجاجی مظاہروں کا آغاز کیا پھر موقع کی مناسبت سے دارالخلافہ مدینہ منورہ جاکر خلیفہ کی رہائش پر دھرنا دیا تھا، جس نے سلطنت کے داخلی امن اور استحکام کو درہم برہم کردیا ۔ اس کے بعد امت کی یکجہتی پارہ پارہ ہوگئی اور مسلمان دو سیاسی گروہوں میں بٹ کر رہ گئے۔
خلفائے راشدین کےبعد نیک و بد حکمران آتے رہے اگر کسی حکمران نے اسلام کےمنافی فیصلہ صادر کیا تو اس دور کے علماء حق عزم و استقامت کے پہاڑ بن گئے ، منہ پر کالک سجواکر گدھے کی سواری منظور کرلی ، قید و بند کی صعوبتیں اور کوڑوں کا برسنا گوارہ کرلیا لیکن زہر کو قند نہ کہا اور حق کا اظہار کرنے سے باز نہ آئے ، تاہم اگر کسی غیر مسلم قوت نے اسلامی ریاست پر حملہ کیا تو انہیں علماء حق نے منبر ومحراب سے جہاد کا درس دیا اور ساتھیوں سمیت جہاد میں شریک ہوکر داد شجاعت دی۔
ہر صدی میں مجدد نمو دار ہوتے رہے انہوں نے عوام اور حکمران طبقہ کی اصلاح کا فریضہ سرانجام دیا، جس طرح مشہور تابعی سیدنا رجاء بن حیوۃ رحمہ اللہ نے سلیما ن بن عبدالملک کو تلقین کی کہ اپنے بعد عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو خلیفہ نامزد کرو۔
لیکن کسی مجدد نے عوام کو لانگ مارچ یا دھرنوں کی کال دے کر ریاست کو خانہ جنگی سے دوچار نہیں کیا ۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ علماء کرام اتحاد و یک جہتی کی فضا سازگار کرنے میں اہم کردار ادا کریں ، مذہبی کشیدگی کے خاتمہ کے لیے امن فارمولاوضع کریں۔
امر بالمعروف نہی عن المنکر کا فریضہ جہاد باللسان سے ادا کریں البتہ آئین کو قرآن و سنت کے تابع کرنے کے لئے عدالتی چارہ جوئی کریں۔
مغربی فکر و فلسفہ کے اثرات کو زائل کرنے کے لئے نئی نسل کو دورِ نبوی اور خلفائے راشدین کیتاریخ کی روشنی میں اسلام کے عدالتی شورائی معاشی و اخلاقی نظام کی برکات سے آگاہ کریں۔
خدانخواستہ طاغوتی قوت جارحانہ کاروائی کرے تو قومی فوج کے شانہ بشانہ جہاد بالقتال کا دفاعی فریضہ ادا کریں
فلاحی حکومت کی ذامہ داری:
جس معاشرے میں قتل و غارت گری، عصمت دری اور چوری و ڈکیتی کے واقعات روز مرہ زندگی کا معمول بن جائیں۔ مدعی صاحبان تھانہ کچہری کے چکر لگاکر تھک جائیں، طلباء ایم فل اور پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری لےکر بےکار پھریں، مزدور طبقہ چوراہوں پر انتظار کرتے رہیں انہیں مزدوری نہ ملے، ماہانہ اجرت سے تعلیمی اخراجات کجا، بچوں کا پیٹ پالنا مشکل ہوجائے، مذکورہ سنگین حالات میں کوئی لیڈر ظلم و بربریت کے خلاف آواز بلند کرتا ہے تو ظلم کی چکی میں پسا ہوا معاشرہ اسے مسیحا سمجھ کر سڑکوں پر نکل آتا ہے۔ احتجاجی سیاست کا پائیدار سد باب معاشی، قانونی عدل و انصاف ہے۔
عوام بنیادی حقوق کے تحفظ کے لئے حکومت کو اختیار سونپتی ہے چنانچہ فلاحی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
۱۔ وہ عوام کی عزت و جان و مال کا تحفظ یقینی بنائے
۲۔ روز مرہ زندگی کی ضروریات پانی، بجلی، گیس،تیل اورٹیلیفون اور خوردنی اشیاء ارزاں اور بآسانی دستیاب ہوں
۳۔ گریجویٹ سطح تک تعلیم اور بنیادی صحت کی مفت سہولت میسر ہو
۴۔ بے روزگاری کے خاتمہ کے لئے روزگار کے مواقع وافر مقدار میں ہوں۔
۵۔قلیل آمدنی والے شہریوں پر ٹیکس کی مقدار کم ہو
۶۔ عدل و انصاف کا حصول مفت اور جلد میسر ہو اور ملی تشخص کو مجروح کرنے والے اقدامات سے گریز کیا جائے۔
۷۔ سودی قرضہ سے نجات ریاست کی معاشی خوشحالی کی ضمانت ہے۔