فضا سوگوار ہے، ہوائیں دم بخود ہیں، زمین ساکت اور چشم فلک حیرت زدہ ہے کہ اللہ کی زمین کے ایک حصے پر ایک سو سالہ بوڑھے نے اپنے جواں سال، خوبرواور زندگی کی تمام تر رعنائیوں سے بھر پور بیٹے کو اوندھے منہ لٹایا ہوا ہے اور اپنے نحیف و نزار ہاتھ میں چمکتی ہوئی تیز دھار چھری کو اس کے گلے پر رکھا ہوا ہے جو کسی بھی لمحہ اس کو کاٹ سکتی ہے۔۔بیٹا فرمانبرداری، سعادت مندی اور شکر و سپاس کا پیکر بنا آنکھیں بند کیے منتظر ہے کہ کب اس کا باپ اس کے گلے پر چھری پھیرے۔
صبر و ثبات اور سعادت و نیک بختی کا یہ کیسا منظر تھا۔ آخر یہ کیسا امتحا ن تھا؟  یہ کون سی کڑی آزمائش تھی جس میں یہ باپ بیٹا مبتلا تھے؟ آخر یہ دونوں کس منزل کے مسافر تھے، جنہیں آزمائش کی اس جاں سوز اور جاں فرسا بھٹی سے گزارا جارہا تھا۔عظمت و عزیمت کے یہ کوہِ گراں آخر کون تھے جو ایثار و قربانی کی معراج کو چھو رہے تھے۔وہ کون سا ایسا جذبہ تھا جس کے جنوں نے ایک باپ کو اپنے پدری شفقت سے محروم کر دیا تھا۔اور یہ کیسی سعادت مندی اور آدابِ فرزندی تھے جس نے بیٹے کو زندگی جیسی قیمتی متاع کو جانِ آفریں کے سپر کر دینے پرآمادہ کیا ہوا تھا۔بالآخر باپ نے چھری پر اپنی گرفت مضبوط کی اور بیٹے کے گلے پر اس کی دھار رکھ دی اور چاہا کہ گلا کاٹ دے ۔آسمان لرزنے لگا، زمین تھرّا اٹھی ، یوں لگا گویا کائنات کی تمام گردشیں یکلخت تھم گئی ہوں، ایک شفیق باپ کے ہاتھ سے اپنے چہیتے بیٹے کا ذبح ہونا۔بھلا وہ علیم و قدیر ہستی کیسے گوارہ کر سکتی تھی جو اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیا دہ پیار کر تا ہے۔اس دردناک منظر کا صرف ایک ہی مقصد تھا ۔۔ اور وہ تھا ، اس پیرانہ سالی میں اپنے خلیل ،اپنے پیغمبر ابراہیم علیہ السلام اور ان کے سعا دت مند سپوت کا کڑاامتحان لینا ، باپ بیٹے کے جذبہ ایثار و قربا نی کوجانچنا تھا۔ایک کا امتحان اپنے لخت جگر کو اللہ کی راہ میں قربا ن کر نا تھا جبکہ دوسرے کا امتحان اس کی زندگی جیسی گراں مایہ شے کو اللہ کی رضا پر لٹا دینا تھا۔ دونوں اس کڑی آزمائش اور بھاری امتحان میں کامیاب ہوئے اور امتحان لینے وا لا ہی با لآخر پکار اٹھا۔

وَنَادَيْنٰهُ اَنْ يّـٰٓاِبْرٰهِيْمُ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّءْيَا ۚ اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ اِنَّ ھٰذَا لَهُوَ الْبَلٰۗــــؤُا الْمُبِيْنُوَفَدَيْنٰهُ بِذِبْحٍ عَظِيْمٍوَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْاٰخِرِيْنَسَلٰمٌ عَلٰٓي اِبْرٰهِيْمَ كَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِيْنَ

’’ اے ابراہیم! تونے خواب سچ کر دکھایا، ہم نیکی کر نے والوں کو ایسا ہی بدلہ دیا کر تے ہیں، بلا شبہ یہ ایک کھلی ہوئی آزمائش تھی اور ہم نے ایک بڑی قربانی کا ان کو فدیہ دیا اور بعد میں آنے والوں میں ابراہیم کا ذکر چھوڑ دیا،ابراہیم پر سلام و رحمت ہو وہ ہمارے فرماں بر دار بندوں میں سے تھے‘‘(  الصافات ۱۰۴۔۱۱۱)
اس آیت کی تشریح میں مولانا ابو الا علیٰ مودودی ؒ ’’ تفہیم القرآن‘‘ کی جلد چہارم میں لکھتے ہیں:
’’یہاں ’’بڑی قربانی ‘‘سے مرادجو بائیبل اور دیگر اسلامی روایات سے ثابت ہوتا ہے یہ ایک مینڈھا ہے ، جو اس موقع پر اللہ تعا لیٰ کے فرشتے نے ابرا ہیم علیہ السلام کے سامنے پیش کیا تاکہ بیٹے کے بدلے میں اس کو ذبح کردیں۔اور اسے اللہ تعالی نے ایک بے نظیر قربانی کی نیت پوری کر نے کا وسیلہ بنا دیا۔اس کے علاوہ اسے ’’ بڑی قربانی‘‘ قرار دینے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قیا مت تک کے لیے اللہ تعالیٰ نے یہ سنت جاری کر دی کہ اسی تاریخ کو تمام اہل ایمان دنیا بھر میں جانور قربان کریں اور وفا داری و جاں نثاری کے اس عظیم الشان واقعہ کی یاد تازہ کریں۔‘‘
چنانچہ اللہ نے ایک مینڈھا ابراہیم علیہ السلام کے فر زندِ ارجمند کے بدلے قربان کر وا دیا۔اور اس طرح قیامت تک کے لیے اس سنت ابراہیمی کو مسلمانوں پر واجب کر دیا ۔سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسولﷺ ! ان قربانیوں کی حقیقت کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’یہ تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘ (مسند احمد، ابنِ ماجہ)
گویا جانوروں کی یہ قربانیاں اصلاً علامت ہیں امت مسلمہ کی اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی، یہی وجہ ہے کہ قرآن حکیم میں اس کی اصل غرض و غایت یہ بیان کی گئی ہے:

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ  (الحج ۳۷)

’’ اللہ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون، بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پر ہیزگاری پہنچتی ہے‘‘۔
ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کایہ صرف ایک منظر تھا۔ ورنہ حقیقت یہ ہے کہ ان کی پوری زندگی نت نئی آزمائشوں کی داستانِ عزیمت ہے۔زندگی میں چند ساعتیں بھی تو ایسی میسر نہ ہوئیں جب اللہ کے اس بطل جلیل نے سکھ کا سا نس لیا ہو۔آپ نے جس معاشرے میں آنکھ کھولی وہ اپنے عقائد و نظریات میں پوری طرح سے کفر و شرک کی غلاظت میں لتھڑا ہوا تھا۔ تورات میں درج ہے کہ ابراہیم علیہ السلام عراق کے شہر اَور کے باشندے اور اہل فداّن میں سے تھے اور ان کی قوم بت پرست تھی۔ انجیل برناباس میں تصریح ہے کہ ان کے باپ نجار تھے اور اپنی قوم کے مختلف قبائل کے لیے لکڑی کے بت بناتے اور فروخت کیا کر تے تھے ، نہ صرف یہ بلکہ ان کے باپ وہا ں کے بڑے مندر کے پروہت بھی تھے ۔مگر اللہ تعالیٰ نے ابراہیم علیہ السلام کو حق کی بصیرت اور رشد و ہدایت عطا کی تھی۔ انہیں اس بات کا کامل یقین تھا کہ یہ لکڑی کے بے جان بت نہ سن سکتے ہیں، اور نہ کسی کو کوئی نفع  و نقصان پہنچا سکتے ہیں ۔وہ روزانہ یہ دیکھتے کہ ان کا باپ ان بے جان مورتیوں کو اپنے ہاتھوں سے بناتا اور گھڑتا ہے اور جس طرح چاہتا ہے ان کے ناک ،کان اور جسم تراش لیتا ہے اور پھر فروخت کر دیتا ہے۔تو وہ خود سے سوال کرتے، کیا انسان کے ہاتھوں بنایا ہوا معبود ہوسکتا ہے؟  یا معبود حقیقی کا مثل یا ہمسر ہو سکتا ہے؟ بھلا یہ کیسے ممکن ہے!  ان کی فطرت سلیمہ اور عقل صحیحہ نے انہیںجلد ہی یہ بات سمجھا دی کہ کفر و شرک کا سب سے بڑا مرکز تو ان کا اپنا ہی گھر بنا ہوا ہے، اس لیے فطرت کا تقاضا یہ ہے کہ دعوت حق اور پیغام صداقت اور اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی شروعات اپنے گھر سے ہی ہونی چاہئے، اس لیے سب سے پہلے انہوں نے اپنے باپ آزر ہی کو مخاطب کیا:

وَاِذْ قَالَ اِبْرٰهِيْمُ لِاَبِيْهِ اٰزَرَ اَتَتَّخِذُ اَصْنَامًا اٰلِهَةً  ۚ اِنِّىْٓ اَرٰىكَ وَقَوْمَكَ فِيْ ضَلٰلٍ مُّبِيْنٍ

’’ اور (وہ وقت یاد کرو) جب ابرا ہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا کیا تو بتوں کو معبود قرار دیتا ہے ، میں تجھ کو اور تیری قوم کو کھلی ہوئی گمراہی میں دیکھتا ہوں‘‘ ( الانعام ۷۴)
پھر انہوں نے ہر ڈوبنے والی چیز، چمکتے دمکتے چاند ،سورج اور ستاروں کا طلسم توڑ کر، اپنا اور اپنی زندگی کا رخ صرف ایک اللہ کی طرف کر لیا اور سب سے بڑھ کر صرف اللہ کی محبت دل میں جا گزیں کر لی تھی، صرف اس کو ہی طلب و سعی کا مرکز و محور بنا لیا تھا۔ان کی توجہ اور  وابستگی میں ، اللہ کے سوا اور کوئی رخ تھا نہ کوئی شریک۔ با لآخر اس مشرک و سرکش قوم کے درمیان رہتے ہوئے ہی انہوں نے ایک نعرۂ رندانہ لگایا:

اِنِّىْ وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِيْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ حَنِيْفًا وَّمَآ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِيْنَ

’’ بلا شبہ میں نے یکسو ہوکر اپنا چہرہ اس کی طرف پھیر لیا ہے، جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور میں مشرکین میں نہیں ہوں۔‘‘  (الانعام  ۷۹)
یہ ان کو عطا کیے ہوئے اس جوہر کا فیضان تھا جسے قلب سلیم کہتے ہیں۔قلب سلیم کا مطلب ہے صحیح سلامت دل ،یعنی ایسا دل جو تمام اعتقادی اور اخلاقی خرابیوں سے پاک ہو ، جس میں شرک و کفر اور شکوک و شبہات کا شائبہ بھی نہ ہو، جس میں نافر مانی اور سرکشی کا کوئی جذبہ نا پایا جاتا ہو،جس میں کوئی الجھاؤ اور پیچ و خم نہ ہو، جو ہر قسم کے بر ے میلانات اور نا پاک خواہشات سے با لکل مصفا ہو، جس کے اندر بغض و حسد یا بد خواہی نہ پائی جاتی ہو اور جس کی نیت میں کوئی کھوٹ نہ ہو۔ابرا ہیم علیہ السلام ان تمام زیغ و ضلال سے پاک تھے۔ چنانچہ شرک سے بیزاری کے اس اعلان کی گونج اس وقت کے مطلق العنان مشرک اور جابر بادشاہ کے ایوانوں سے ٹکرا ئی تو ایک ہلچل سی مچ گئی، کفر و الحاد کے اس بحرمردار میں جوار بھاٹا آگیا۔خود ساختہ معبودوں کی توہین اور وحدہ ‘ لاشریک کو ماننے پر اصرار نے پوری قوم کو غیض و غضب کی آگ میں جھلسا دیا۔ فیصلہ ہوا کہ اس(معاذ اللہ)  سرکش اور گمراہ انسان کو نذر آتش کر دیا جائے تاکہ ہمیشہ کے لیے قصہ ہی ختم ہوجائے۔لیکن سلام ہے ابراہیم علیہ السلام کی ہمت و عزیمت کو ،کہ پیشانی پر فکر و تردد کی ایک شکن بھی نمودار نہ ہوئی۔حب الٰہی کی یہ تپش اور جذب و آگہی کی یہ بلند پروازی، عقل و خرد کی تمام حدیں اس طرح پار کر گئیںکہ خود عقل انگشت بدنداں رہ گئی ؎
بے   خطر  کود  پڑا  آتش  نمرو د   میں   عشق
عقل  ہے  محوِ  تماشائے  لبِ   بام   ابھی!
ابراہیم علیہ السلام کو آگ کے بہت بڑے الاؤ میں پھینک دیا گیا۔ لیکن مارنے والے سے بچانے والا زیادہ قوی ہوتا ہے، اللہ تعا لیٰ نے اس بھڑکتی اور دھکتی آگ کو ابراہیم کے لیے ٹھنڈ ی اور سلامتی بخشنے والی بنا دیا۔
دشمن  اگر  قویست  نگہباں  قوی  ترست
چنانچہ جب اللہ تعا لیٰ نے ابراہیم علیہ السلام اور اپنے دین کے دشمنوں کو ان کے ارادوں میں ناکام اور انہیں ذلیل و رسوا کر دیا اور دہکتی ہو ئی آگ کو ’’ بَرْدًا وَسَلَامًا (الأنبياء: 69) ’’ٹھنڈی اور سلامتی والی‘‘ بنا دیا تو اب ابرہیم علیہ السلام نے ارا دہ کیا کہ اللہ کی زمین بہت وسیع ہے ، کہیں اور جا کر بیغام الٰہی سنائیں اور دعوت حق  اللہ کے بندوں تک پہنچائیں اور یہ سوچ کر آپ نے فداّن سے ہجرت کا رادہ فرمالیا۔ان کا قول قرآن میں یوں نقل ہوا ہے:

وَقَالَ اِنِّىْ ذَاهِبٌ اِلٰى رَبِّيْ سَيَهْدِيْنِ  ( الصافات ۹۹)

’’ اور ابراہیم علیہ السلام نے کہا ’’ میں اپنے رب کی طرف ہجرت کر رہا ہوں یقینا وہ میری رہنمائی فرما ئے گا‘‘
یعنی اب مجھے کسی ایسی آبادی کی طرف رخ کرنا چاہئے جہاں اللہ کی آواز حق نیوش سے سنی جائے، اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے، یہ لوگ نہ سہی کوئی اور سہی، میرا کام تو اللہ کا پیغا م پہنچا دینا ہے، ربّ العزت اپنے دین کی اشاعت کا سامان خود پیدا فرمادے گا۔اور اس طرح ابراہیم علیہ السلام اپنے وطن مالوف اور اپنے اعزہ و اقارب پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈالتے ہوئے کسی انجانی منزل کی طرف گامزن ہوگئے۔اس وقت آپ کے ہمراہ آپ کی رفیقہ حیات سارہ سلام علیہا اور آپ کے بھتیجے لوط (علیہ السلام) تھے۔
سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا یہی موڑ (turning point  ) ہے جہاں سے ان کی ہجرت اور مسافرت کا دور شروع ہوتا ہے۔آج شام میں ہیں تو کل مصر میں ، آج شرق اردن میں تو اگلے روز حجاز میں۔ بس ایک ہی سودا ذہن پر سوار ہے کہ توحید کا کلمہ اللہ کی سر زمین پر بلند ہو جائے اور توحید کا رنگ دلوں میں جم جائے۔انہوں نے وحدہ‘ لا شریک کی بندگی کی خاطر وطن کو خیر باد کہا ، اہل و عیال کو وادیٔ غیر ذی زرع میں بسایا، اللہ کے ہر حکم پر بے چوں چرا سر تسلیم خم کر دیا۔بندگی رب اور توحید خالص انسانوں کے قلوب و اذہان میں راسخ کرنے کی اس تگ و میں جب قویٰ مضمحل ہونے لگے تو بے اختیار یہ دعا لبوں پر آگئی۔
پروردگار! مجھے نیک وارث عطا فرما!
دعا قبول کر لی گئی اور ستاسی سال کی عمر میں اللہ نے ایک ایسا صالح بیٹا عطا کیا جسے خود اللہ نے غلام حلیم  قرار دیا۔لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں کے مصداق بیٹا جوان ہوا اور اس قابل ہوا کہ بوڑھے باپ کا دست و بازو بن سکے ۔۔تب سیدنا ابراہیم علیہ السلام کو  بارگاہِ الٰہی کی طرف سے ایک خواب دکھایا گیا، جس میں وہ اپنے بیٹے کو ذبح کر رہے ہیں۔ لیکن جو عزیمت کا کوہ گراں ہو اور جس کی پوری زندگی آزمائیشوں کا تسلسل ہو وہ بھلا کہاں گھبرانے والا تھا۔ بیٹے سے پوچھا ، بیٹے! میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں، اس بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ بیٹا بھی نبی زادہ تھا، ذہین و فطین تھا، جانتا تھا کہ ابا جان اللہ کے نبی ہیں اور نبی کا خواب بھی ایک طرح کی وحی ہوتا ہے۔باپ سے بولا: ابا جان! کر گزریئے ! جو کچھ آپ کو حکم دیا جا رہا ہے، ان شاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں پائیںگے۔ اورپھر اللہ کے حکم کی تعمیل میں اپنے تئیں تو سید نا ابرا ہیم علیہ السلام نے بیٹے کے گلے پر چھری پھیر ہی دی تھی، مگراللہ کا مقصد بیٹے کی جان لینا نہیں بلکہ پیرانہ سالی میں باپ کا امتحان لینا مقصود تھا۔ اور اللہ کے یہ خلیل اس کڑے امتحان میں بھی سر خرو ہوئے۔
توحید خالص کا مطلب ریاضی کے فارمولے کی طرح ، اللہ کو ایک مان لینا نہیں ہے، بلکہ سیدنا ابراہیم کی طرح سب کچھ چھوڑ کر صرف اسی کا بن جانا اور اسی ایک معبو د بر حق کا ہوکر رہنا ہے۔بقول اقبال     ؎
باطل   دوئی   پسند   ہے  حق  لا  شریک  ہے
شرکت  میانۂ  حق  و   باطل   نہ   کر   قبول
مکہ کی بے آب و گیاہ وادی میں پہلا وہ گھر خدا کا، جس کی زیارت کے لیے لا کھوں فرزندانِ توحید دنیا کے ہر گوشے سے پر وانہ وار کھنچ کھنچ کر یہاں آتے ہیں اور فریضۂ حج ادا کرتے ہیں اس کی تعمیرکی سعادت بھی سیدنا ابرا ہیم علیہ السلام کے حصے میں ہی آئی۔ ارشاد باریٔ تعالی ٰ ہے:

إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ فِيْهِ اٰيٰتٌۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِيْمَ  ڬ وَمَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا  ۭ وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا  ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ
(آل عمران: 96-97)

’’اللہ کا پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے ، جو تمام دنیا کے لیےبر کت و ہدایت والاہے، جس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں، مقام ابراہیم ہے، اس میں جوآجائے امن والا ہوجاتا ہے، اللہ تعا لیٰ نے ان لوگوں پر جو اس کی طرف راہ پا سکتے ہوںاس گھر کا حج فرض کر دیا گیا ہے۔‘‘ (۹۶۔ ۹۷)
ان آیات بینات میں سب سے نما یاں ، وہ اخلاص و محبت ، اطاعت و بندگی اور وفا شعاری کے گہرے نقوش ہیں جو سیدنا ابراہیم علیہ السلا م کا فطری جوہر ہے۔جو اس مبارک گھر کے ایک ایک پتھر، ایک ایک چپہ پر رشد وہدایت کی شمع کی مانند روشن و تابناک ہے۔سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے اس گھر کو اور اس شہر کو ایسا گہوارۂ امن بنایا کہ جو اس میں داخل ہوجائے اس کا جان و مال سب محفوظ ہوجاتے ہیں۔اور یہی ایک ایسا بے مثال مرکز ہے کہ جس میں داخل ہونے سے قلب و روح، فکر و سوچ، اخلاق و کردار ، انفرادی و اجتماعی زندگی سب کے سب محفوظ و مامون ہوجاتے ہیں۔اگر کہیں انسان خوف و حزن، ظلم و فساد اور دنیا کے گمراہیوں اور بد اعتقادیوں سے امن حاصل کر سکتا ہے تو اس رشد و ہدایت میں پناہ لے کر ہی حاصل کر سکتاہے جو عا لم معنوی میں خانۂ کعبہ کی شکل میں پتھر کی ایک عمارت ہے۔ اسی لیے یہ تاکید کی گئی:

 وَلِلّٰهِ عَلَي النَّاسِ حِجُّ الْبَيْتِ مَنِ اسْـتَـطَاعَ اِلَيْهِ سَبِيْلًا  ۭ وَمَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الْعٰلَمِيْنَ

’’ لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھا ہو وہ اس کاحج کرے‘‘ ( آلِ عمران  ۹۷)
سورۃ الحج کی آیات ، ۲۷ اور ۳۴ میں دو بنیادی ارکان کا ذکر ہے ایک اللہ کے نام پر جانوروں کی قربانی اور وسری بیت اللہ کا حج، اور ان میں بھی زیادہ اصرار قربانی پر ہے۔جانوروں کی قربانیاں اصلاً علامت ہیں امت کی اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و انقیاد کی۔ اسی مقصد کے پیش نظر ارشاد ربانی ہوا ہے:

لَنْ يَّنَالَ اللّٰهَ لُحُوْمُهَا وَلَا دِمَاۗؤُهَا وَلٰكِنْ يَّنَالُهُ التَّقْوٰي مِنْكُمْ  ۭ كَذٰلِكَ سَخَّرَهَا لَكُمْ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰي مَا هَدٰىكُمْ  ۭ وَبَشِّرِ الْمُحْسِنِيْنَ  (الحج ۳۷)

’’ اللہ کو قربانیوں کے گوشت نہیں پہنچتے نہ ان کے خون بلکہ اسے تو تمہارے دل کی پرہیزگاری پہنچتی ہےاسی طرح اللہ نے ان جانوروں کو تمہارا مطیع کر دیا ہے کہ تم اس کی راہنمائی کے شکریے میں اس کی بڑائیاں بیان کرو، اور نیک لوگوں کو خوش خبری سنادیجئے!‘‘
جسے ہم ظاہری ضوابط و قوانین یا عبادات کا مجموعہ سمجھتے ہیں، وہ دراصل ایک ایسی تہذیبی روح کا نام ہے جو انسانوں کو بدل دیتی ہے۔ یہ جو قربانی اور ایثار کا جذبہ ہے ،  یہ اسلامی تہذیب کی بنیادی روح ہے۔اور اس قربانی کی آخری حد یہ ہے کہ اخلاص نیت کے ساتھ   آدمی ان اقدار کی بقا و سلامتی کے لیے اپنی جان تک قربان کر دینے یا اپنی سب سے قیمتی چیز قربان کر نے پر آمادہ ہوجاتا ہے، اور اسی کا نام جہاد ہے۔
درد مندی اور للہیت کے جذبے کا ساتھ آج کے عالم اسلام پر نظر ڈالیے ! آج امت مسلمہ غیر مسلموں اور مشرکوں کے رنگ میں پوری طرح سے رنگی ہوئی ہے، الا ماشاء اللہ! آج انھیں کی طرح ہم بھی بے شمار ٹکڑوں میں تقسیم ہیں۔اور ہر ٹکڑے میں ایک الگ معبود براجمان ہے۔اغراض و مقاصد ہمارے بھی وہی ہیں جو ان کے ہیںاور ان میں سب سے کم مقام ان کا ہے جو اللہ کے نزدیک محبوب ترین ہیں۔نماز میں بلا شبہ ہمارا رخ قبلہ کے علاواہ اور کسی طرف نہیں ہوتا، لیکن زندگی کے دیگر معاملات میں غیر مسلموں کی طرح ہمارے  بی بہت سے قبلے ہیں جو ہماری تمام توجہات اور وابستگیوں کا مرکز و محور ہیں۔زبان پر یقینا لبیک ہے ، لیکن ہم نہ خود اپنے کو، نہ اپنی کسی محبوب شے کو اللہ کے لیے حاضر کر نے کو تیار ہوتے ہیں۔اللہ کے ہر حکم کی تعمیل میں ہماری کسی نہ کسی خواہش، پسند و ناپسنداور محبوب و مبغوض کی قربانی دامن گیر ہوجاتی ہے۔یا ہزاروں اندیشے اور کئی انجانے خوف ہمیں چاروں طرف سے گھیر کر ہماری راہ مسدود کر دیتے ہیں۔حج ہو یا استقبالِ قبلہ ، ہمارے بے جان مراسم عبادت نہ ہمارے قلوب کو بیدار کرتے ہیں ، نہ نگاہوں میں پاکیزگی و یکسوئی پیدا کر تے ہیںاور نہ ہمارے عمل میں صالحیت ہے۔ہمارا طرز عبادت نہ ہما ری سوچ بدلتا ہے ، نہ شخصیت اور نہ ہماری زندگی کے شب و روز۔
صحیح بخاری میں سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کا ایک واقعہ درج ہے جب اللہ کے حکم کی تعمیل میں ایک وقت ایسا بھی آیا تھا جب آپ کو اپنی رفیقۂ حیات اور معصوم بچے اسما عیل علیہ السلام کو مکہ میں بسانے کے لیے ایسی جگہ چھوڑنا پڑا، جہاں نہ انسان کا نام و نشان تھا، نہ پانی،نہ زراعت کااور نہ خورد و نوش کا کوئی انتظام تھا۔ایک تھیلی کھجوروں کی اور ایک مشکیزہ پانی کا ، بس یہی کل کائنات تھی جو آپ اپنے اہل خانہ کے پاس چھوڑ کے چل دیے تھے۔آپ کی رفیقۂ حیات نے کئی بار سوال کیا کہ اس بے آب و گیاہ صحرا میں ہمیں کس کے سہارے چھوڑے جارہے ہو، لیکن سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کوئی جوا ب نہ دیا۔ پھر حاجرہ سلام علیہا نے سوال کیا کہ کیا اس کا حکم آپ کو اللہ نے دیا ہے۔تب سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے فرمایا، ہاں۔۔ بس اس جواب کے بعد آپ کی رفیقۂ حیات نے کوئی سوال نہ کیا بلکہ صرف اتنا کہا کہ: اِذَنْ لَا یُضیِعُنَا( پھر تو وہ ہم کو ضائع نہ کرے گا)۔ صحیح بخاری کی ہی ایک دوسری روایت کے مطابق، حاجرہ سلام علیہا کے یہ الفاظ بھی آتے ہیں کہ ، رَضِیْتُ بِاللہ ِ(میں اللہ پر راضی ہوں)
آج امت مسلمہ کی کشتی سر کش طوفانوں کی زدمیں ہے۔ ہم نے خود کو اپنے شامت اعمال کے سبب اللہ کے غضب کا شکار بنا لیا ہے۔ ہمیں اللہ سے زیادہ غیر اللہ پر بھروسہ اور اعتماد ہے۔ہم دنیا میں کامیابی کو اغیار کی نقالی میں ڈھونڈتے ہیں۔ اگر ہم اسوۂ ابراہیمی علیہ السلام کو اپنے لیے مشعل راہ بنا ئیں تو ہماری دنیا و دیں دونوں ہی سنور جائیں۔ ذرا سو چئے! کیا اپنے خالق و مالک پرسیدنا ابراہیم علیہ السلام و حاجرہ علیہا السلام طرح مکمل بھروسہ کئے بغیر،اس کی فرماں برداری و اطاعت کی راہ میں اپنا سب کچھ قربان کیے بنا، اس رب کی راہ میں جان و مال سے سعی و جہد کیے بغیر، اپنی گردابوں میں پھنسی کشتی کو بحفاظت نکالنے کی ہم کوئی اور راہ پا سکتے ہیں؟  ایک بے بس عورت کا یہ یقین کامل کہ ’’ پھر اللہ ہم کو ضائع نہیں کرے گا‘‘ اور یہ اعلان کہ ’’ میں اللہ سے راضی ہوں‘‘ ، اور پھر اس کی صفا اور مروہ کے درمیان سعی و جہد کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ پتھروں کے ایک معمو لی گھر کو یہ مقام عظیم عطا کر سکتا ہے، اور سنگلاخ زمین سے زم زم کا چشمہ جاری کر سکتا ہے، تو آج دنیا میں دین کو غلبہ کیوں نہیں حاصل ہو سکتا؟  ا ور ظلم وفساد سے بھری اس دنیا میں نیکی اور للہیت کا چشمہ کیوں نہیں پھوٹ سکتا؟
عزت و عظمت، شان و شوکت، فتح و کامرانی اور غلبہ و اقتدار عطا کرنے والی قوی و عزیز ہستی وہ ہے جو کسی اعتبار سے بھی در ماندہ اور عاجز نہیں، نہ اسے اونگھ آتی ہے اور نہ وہ نیند کا شکار ہوتا ہے۔اس کا دامن کریمی ہمارے شعور و ادراک سے بھی ما وراء ہے۔ہم ہی عاجز و در ماندہ ہیں۔اپنے اصل مقاصد اور اپنی قوت و سربلندی کے خزانوں سے غافل ہیں، ہمارے ربّ کو سعی و عمل اور اخلاص و وفا کی جو دنیا ہم سے مطلوب ہے اس کو ہم نے اپنے اراد ہ و اختیار سے باہر کیا ہوا ہے۔ اس طرف ہمارا ذہن و دل راغب ہی نہیں ہوتا۔ انسانیت ہدایت کے لیے جاں بلب ہے، فسادِ آدمیت  کے اس بیاباں میں زیر زمین امن کا چشمہ موجزن ہے ، مگر اس کو حاصل کر نے کے لیے ابراہیمی فکر و نظراور آہنی عزیمت در کار ہے۔
ع:
براہیمی نظر  پیدا مگر مشکل سے  ہوتی  ہے
ہوس چھپ چھپ کر سینوں میں بنا لیتی تصویریں
————–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے