اسلام امن وسلامتی کا دین ہے اس کا آفاقی پیغام بھی امن وآشتی ، صلح رحمی انسان دوستی ، اخوت ، محبت وبھائی چارہ اور اتفاق واتحاد ہے اسلام کے پانچ ارکان میں سے ہر رکن میں اخوت ومحبت ، اتفاق واتحاد، صبر وبرداشت اور ایثار وقربانی کا درس پنہا ں ہے ، حج بھی ارکان اسلام میںا ہم ترین رکن ہے ، جس میں مالی استطاعت کے ہوتے ہوئے بدنی طاقت بھی ضروری ہے گویا کہ جسمانی طاقت کا پایا جانا حج کا ایک اہم رکن ہے بلکہ اگر یوں کہاجائے تو بعید از قیاس نہ ہوگاکہ حج میں حقیقتاً جسمانی مشقت ہی مطلوب ہے اسی جسمانی مشقت کی وجہ سے حج عورتوں کے جہاد کا متبادل قراردیاگیا ہے ، جیساکہ سیدہ عائشہ بنت الصدیق رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ

:عليهنَّ جهادٌ لا قتالَ فيه الحجُّ والعُمرةُ(الترغيب والترهيب)

عورتوں پر بھی جہاد ہے مگر اس میں قتال نہیں، یعنی حج اور عمرہ ۔ایک دوسری روایت میںفرمایا:

جِهَادُ الْكَبِيرِ، وَالصَّغِيرِ، وَالضَّعِيفِ، وَالْمَرْأَةِ: الْحَجُّ، وَالْعُمْرَةُ

بوڑہوں، کمزوروں اور عورتوں کا جہاد حج اور عمرہ ہے(سنن النسائی)
حج میں صبر وتحمل اور برداشت بے حد ضروری ہے ورنہ حج کے ثواب کے ضائع ہونے اور گناہ کے لازم ہونے کا بھی خطرہ ہے ، عدم تحمل سے اپنا حج تو خراب ہوتاہی ہے دوسروں کا بھی خراب ہوسکتاہے ، جبکہ حج مسلمانوں کے اتفاق، اتحاداور یگانگت کی علامت ہے حج میںاعلیٰ وافضل ، امیر وغریب ، حکمران ومحکوم کی تمیز ختم ہوجاتی ہے ، بلکہ تمام مسلمان رنگ ونسل ، قومیتوں ، ملکوں اور زبانوں کی تفریق کو بالائے طاق رکھ کر ایک دن ایک ہی وقت میں ایک ہی لباس زیب تن کر کے ایک ہی رب کے حضور حاضر ہوتے ہیں اور یک زبان ہوکر ایک ہی کبریا کی کبریائی کاعلم بلند کرتے اور شرک سے بیزاری کا اعلان کرتے ہوئے ایک ہی جملہ زبانوں پر جاری ہوتاہے:

لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ، إِنَّ الحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالمُلْكَ، لاَ شَرِيكَ لَكَ(صحيح البخاري (2/ 138)

  اے اللہ! میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، میں حاضر ہوں، تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں، بلاشبہ ہر تعریف اور نعمت تیرے ہی لیے ہے اور تیری ہی بادشاہت ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔جبکہ امام حج فضیلۃ الشیخ عبدالعزیز بن عبداللہ آل الشیخ نے میدان عرفات میں اپنے خطبہ حج میں عالم اسلام کے حکمرانوں اور عوام کو مخاطب کرتے ہوئےفرمایا کہ مسلمانوںکو چاہیے کہ وہ اپنی صفوں میں اتفاق و اتحاد اور اعتماد پیدا کریں تاکہ دشمنانِ اسلام کی سازشوں کو خاک میں ملایا جاسکےانہوں نے یہ بھی کہا کہ کچھ گروہ اسلام کا لبادہ اوڑھ کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سازشوں میں مصروف عمل ہیں اوروہ مسلم ممالک میں شر انگیزیاں ، نفرتیں ، فتنہ وفساد برپا کرنے میں پیش پیش ہیں اور اسلام دشمن قوتوں کے ہاتھ مضبوط کررہے ہیں امام صاحب نے فرمایا ایسے فتنہ گروں اور فسادیوں کے خلاف تمام مسلم ممالک کو متحد ہوجانا چاہیے۔
امیر حج اور مفتی اعظم سعودی عرب کے عرفات کے مید ان میں مسلمانوں کو اتحاد ویگانگت کی تلقین کیے ایک دن بھی نہیں گزرپایا تھا کہ منیٰ میں جمرہ کبریٰ کو کنکریاں ما رتے ہوئے دلدوز اور افسوس ناک حادثہ پیش آگیا جس میں چند ساعتوں میں ہزار کے لگ بھگ ضیوف الرحمٰن حجاج کرام شہید ہوگئے ، باوجود اس کے کہ سعودی حکومت اللہ کے مہمانوں کی خدمت کے لیے ہر طرح سےتیار رہتی ہے حجا ج کرام کو حج وعمرہ کی سہولت بہم پہنچانے کےلیے اپنے خزانوں کے منہ کھو ل دیتی ہے کہ جس کی عملی دلیل حرمین شریفین کی مسلسل توسیع اور منیٰ میں جمرات کو کنکریاں مارنے میں آسانی پیدا کرنے کے لیے جمرات پر چار کشادہ پل تعمیر کیے گئے ہیں اور آمد رورفت کے راستوں کو علیحدہ علیحدہ کرنے کے ساتھ ساتھ رمی کے لیے ستونوں کے بجائے دیواریں تعمیر کی گئی ہیںاس کے علاوہ حجاج کرام کی بہتری کے لیے لاکھوں ریال خرچ کر کے ہزاروں لوگوں کے ذریعے ہر موسم حج میں مختلف سروے کروائے جاتے ہیں ، راقم الحروف خود بھی 1993 سے لیکر 1998تک اس سروے ٹیم کا حصہ رہا ہے مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ ہم سے مکہ مکرمہ میں ایام حج میں داخل ہونے والی چھوٹی بڑی گاڑیوں کی تعداد کو شمار کروایا گیا تاکہ آئندہ سال حجاج کرام کی سہولت کے پیش نظر ان گاڑیوں کو مکہ سے باہر روکا جائے تاکہ شہر مکہ کے رش کو کم کیا جاسکے اس غرض کےلیے مکہ سے باہر بڑی بڑی گاڑیوں کی پارکنگ کا انتظام کیا گیا۔
منیٰ حادثہ کے اسباب کے بارے میں بات کریں تو مسلمان ہونے کے ناطے قدراللہ ماشاء فعل کہہ سکتے ہیںمگر اس کے ظاہری اسباب پر بھی نظر رکھنی ہوگی تاکہ آئندہ ایسے حادثات کی روک تھام ہوسکے عینی شاہدین کے بیانات کے مطابق طاغوطی حکمرانوں نے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ناپاک عزائم کی تکمیل کروانے کی کوشش کی ہےتاکہ وہ جگہ جو پوری دنیا میں پر امن ترین تصور کی جاتی ہےوہاں حج کے موقعہ پر خوف کی فضاء پیدا کی جاسکے ، بعض عینی شاہدین نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ایک ملک کے باشندے جن کو آل سعود سے خداواسطےکا بیر ہے ان کو جمرات کے پُل پر نعرے بازی کرتے ہوئے دیکھا، حجاج کرام ان کی اس حرکت سے خوف وحراس میں مبتلاء ہوگئے کہ کہیں ماضی کی تاریخ پھر نہ دھرائی جارہی ہو جس میں اسی ملک کےباشندوںنے حجاج کرام کی ایک بڑی تعدادکو دوران حج قتل اورزخمی کیا تھا اور کچھ عینی شاہدین نے یہ بھی کہا کہ ایک گروپ اچانک ہی ون وے پر مخالف سمت سے چڑھ دوڑھاجس کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی یہ گروپ کو ن تھا؟ کہاں تھا؟ ان کے مقاصد کیا تھے ؟ان کو ہر ذی شعور مسلمان جانتاہے ان کے مقاصد بھی کسی سے مخفی نہیں ضرورت اس امر کی ہےکہ اگر ان لوگوں پر سازش ثابت ہوجائے تو ان کا معقول علاج کیا جائے تاکہ آئندہ ایسے حادثات کو کم کیا جاسکے۔اور ہر ملک حجاج کرام کو حج پر جانے سے پہلے تعلیم وتربیت کا بطور خاص اہتمام کروائے انہیں صبر وتحمل اور برداشت سے کام لینے کی تلقین کی جائے۔
سانحہ منیٰ کے چند ہی لمحے بعد سوشل میڈیا میں جہاں بہت سارے لوگوں نے اس واقعہ پر دکھ ، افسوس ،دعا اور تعزیت کا اظہار کیا وہیں کچھ ناعاقبت نا اندیش لوگ اس سانحے کو سعودی عرب کے ساتھ اپنی دیرینہ اور نظریاتی دشمنی نبھانے کےلیے بطور ہتھیار استعمال کرنے لگے بقول شاعر
فرقوں کی وکالت میں یہ ابلیس کے فرزند                 خوں رنگ ہے مکہ کی زمین حج کے لہوسے
کیوں بھول گئے سرپہ قیامت کی گھڑی ہے             اور کوفہ مزاجوں کو سیاست کی پڑی ہے!
یہ بہت کم ظرف اور نہایت جلد باز لوگ تھے ورنہ ایسے سانحات کے موقعوں پر دشمن سے بھی اظہار ہمدردی کی جاتی هے، جیساکہ مندرجہ ذیل سطور سے واضح ہوتاہےکہ رومن کیتھولک کے روحانی پیشوا پوپ فرانسیس نے مکہ مکرمہ میں سات سو سے زیادہ حجاج کرام کی بھگدڑ کے دوران شہادت پر دنیا کے تمام مسلمانوں کے ساتھ افسوس ،ہمدردی اور قُربت کا اظہار کیا ہے۔
نیویارک کے سینٹ پیٹرک کیتھیڈرل میں شام کی دعائیہ تقریب کے دوران تقریر کرتے ہوئے پاپائے روم نے کہا کہ’’میں مکہ میں رونما ہونے والے سانحے کے موقع پر مسلمانوں کے ساتھ ہوں۔میں خدا کے حضور آپ کے ساتھ ہوں اور دعا گو ہوں‘‘۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بانکی مون نے اپنے تعزیتی بیان میں کہا کہ’’مجھے وادیِ منیٰ میں مہلک حادثے میں حجاج کی سات سو سے زیادہ اموات کا سن کر گہرا صدمہ پہنچا ہے۔یہ سانحہ اس لحاظ سے زیادہ افسوس ناک ہے کہ یہ عیدالاضحیٰ کے پہلے روز رونما ہوا ہے‘‘۔انھوں نے شہید ہونے والے تمام حجاج کے خاندانوں سے دلی افسوس اور تمام متعلقہ حکومتوں کے ساتھ اپنی ہمدردی کا اظہار کیا ہے۔
درایں اثناء وائٹ ہاؤس نے منیٰ میں بھگدڑ کے واقعے میں قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر ان کے لواحقین سے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔امریکا کی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا کہ دنیا بھر کے تمام مسلمان عیدالاضحیٰ منارہے ہیں،ایسےمیں ہم حجاج کرام کی قیمتی جانوں کے ضیاع پر سوگواروں کے ساتھ ہیں۔
برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون اور جنوبی افریقہ کے قائم مقام صدر سیرل راما فوسا نے بھی ایک بیان میں منیٰ کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور اس میں زخمی ہونے والوں کی جلد صحت یابی کی دعا کی ہے۔
مجھے یاد ہے کہ جب مئی 1994 میں اسی جمرات پر اسی طرح کا حادثہ پیش آیا تھا جس میں 700 حجاج کرام شہید ہوئے تھے میں خود بھی ان متاثرین میں شامل تھا بلکہ غازیوں میں سے تھا کیونکہ بھکدڑ کی وجہ سے کثیر تعدادمیں لوگ ایک دوسرے کے اوپر گرے ہوئے تھے اور ان گرنے والوں میں میں بھی شامل تھا آدھ گھنٹہ تک زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلاء رہنے کے بعد قیامت صغریٰ کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھاجس میںمیرے عزیز محترم دوست چوہدری شوکت علی ڈولہ صاحب نے اللہ تعالی کی توفیق سے اُس پُر خطرہجوم سے جس میں میں بُری طرح پھنس چکا تھا نکلنے میں میری بھر پور مدد کی اور ہسپتال تک لے جانےمیں بھی میرا تعاون کیا ،اگر اس منظر کو بیان کیا جائے تو قیامت کا منظر تھا نفسانفسی کا عالم تھا کسی انسان کو دوسرے کی خبر تک نہ تھی حالات کچھ اس حدیث کے مصداق بنے ہوئے تھے کہ جس میں رسول اللہ ﷺ نےسیدہ عائشہ رضی اللہ وعنہاسےفرمایا کہ قیامت والے دن لوگ بغیر لباس کے ہونگے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے حیران ہوکر سوال کیاکہ مردوعورت سب بغیر لباس کے ہونگے تو رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا کہ اے عائشہ لوگوں کو صرف اپنی اپنی فکر ہوگی کسی دوسرے کی کوئی پر واہ نہ ہوگی ایسی ہی صورتحال میں نے منیٰ میںاپنی آنکھوں سے دیکھی لوگوں کے احرام کھلے ہوئے تھے عورتیں سروں سے ننگی تھیں مگر کچھ یاد نہیں کون تھا اور کیا تھا؟ بس صرف اپنی فکر تھی ایسے میںکسی کی مدد کرنا بہت بڑی بات تھی۔
1994 کے منیٰ حادثہ کے اسباب پر غور کیا جائے تو حجاج کرام کی تربیت کا فقدان ہی نظر آتاہے کیونکہ حادثہ سے پہلے یہ بات میں نے اپنے کانوں سے سنی تھی کہ یہ کیسی عبادت ہے یہ کیسا حج ہے کہ جس میں اتنی مشقت اٹھانی پڑتی ہے اتنا رش اور اوپر سے اتنی تیز دھوپ اور گرمی اس حج سے تو ہم ایسے ہی اچھے بس یہ سننا تھا کہ دھکم پیل شروع ہوگئی لوگوں نے وہاں سے نکلنے کے لیے زور آزمائی شروع کردی لوگ ایک دوسرے کے اوپر گرنا شروع ہوگئے گرنے والوں کے ڈھیر لگ گئے اسی گرنے والے ڈھیر کا میں بھی حصہ تھا مگر اللہ تعالیٰ کے خاص فضل وکرم سے مجھے دوبارہ زندگی ملی۔

اسی لیے حج میں خاص طور پر صبر وتحمل اور برداشت کا سبق یاد کرکے جانا چاہیے اگر ایسا ممکن نہیں ہے تو پھر حج پر جاکر دوسروں کی زندگیوں کے لیے خطرے کا سبب نہیں بننا چاہیے آخر میں دل کی گہرائیوں سے دعاہےکہ اللہ تعالی مرحومین کو درجۂ شہادت پر سرفراز فرمائے اور لواحقین کو صبر جمیل عطافرمائے ، زخمیوں کو شفایاب فرمائے ، حجاج کرام کو خاص کر اور مسلمانوں کو عام طور پر اپنے حفظ وامان میں رکھے اللہ تعالی حکومت سعودیہ کی مدد اور حفاظت فرمائے اور شرپسندوں کے شر سے محفوظ فرمائے ضیوف الرحمٰن کی مزید خدمت اور احسن انتظامات کی توفیق عنایت فرمائے ۔
پاکستان کے سیاسی حالات کی اگر بات کی جائے تو امیر جیش جنرل راحیل شریف کا نام سرفہرست آتاہے کہ جنہوں نے ملک میں امن وامان کی بگڑی صورتحال کو بہتر کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور دوسرے نمبر پر ملک کے وزیر اعظم نواز شریف کا نام آتاہے کہ جنہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے خطاب میں واضح اور دوٹوک الفاظ میں بھارت کو مخاطب کرکے پاکستانیوں اور کشمیریوں کے سر فخر سے بلند کردیئے ہیں۔
وزیر اعظم صاحب نے جو چار نکاتی امن کا فارمولا پیش کیا اس کی پوری دنیا میں تعریف کی گئی وہ چار نکاتی ایجنڈہ درج ذیل ہے۔
پاکستان کے وزیرِ اعظم نے کہا کہ سال 2013 میں تیسری بار وزیرِ اعظم منتخب ہونے کے بعد ان کی مسلسل کوشش رہی ہے کہ بھارت سے تعلقات بہتر ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کو کشیدگی کا باعث بننے والی وجوہات کو حل کرنے کے لیے تمام ممکن اقدامات کرنے چاہیئے ہیں۔
اسی لیے میں آج اس موقعے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بھارت کو امن کے لیے تجاویز پیش کرنا چاہتا ہوں۔ یہ وہ اقدامات ہیں جن پر عمل کرنا نہایت آسان ہے۔
1: پاکستان اور بھارت دونوں ممالک کو سال 2003 کے لائن آف کنٹرول پر مکمل جنگ بندی کے معاہدے کا احترام کرتے ہوئےاس پر عمل کرنا چاہیے۔ دونوں ملکوں میں اقوام متحدہ کے فوجی مبصرگروپوں کومزید فعال کیا جائے۔
2: ہم یہ تجویز کرتے ہیں کہ پاکستان اور بھارت کسی بھی طرح کے حالات میں طاقت کا استعمال نہیں کریں گے۔ یہ اقوامِ متحدہ کے چارٹر کا مرکزی حصہ ہے۔
3: کشمیر کو ڈیملیٹرائز یعنی غیر عسکری کرنا۔
4: دنیا کے بلند ترین محاذ سیاچن سے فوجوں کی غیر مشروط واپسی۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی بڑھنے سے روکنے کا میکنزم بنایا جائے، جبکہ پاکستان اور ہندوستان تنازعات کے حل کےلیے جامع مذاکرات کاسلسلہ شروع کریں۔
———–

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے