قرآن مجیدفرقان حمید میں اللہ تبارک وتعالی کا حکم ہےکہ:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ قَدْ اَنْزَلْنَا عَلَيْكُمْ لِبَاسًا يُّوَارِيْ سَوْاٰتِكُمْ وَرِيْشًاوَلِبَاسُ التَّقْوٰى ۙ ذٰلِكَ خَيْرٌذٰلِكَ مِنْ اٰيٰتِ اللّٰهِ لَعَلَّهُمْ يَذَّكَّرُوْنَ(الاعراف:26)
اے آدم کی اولاد! بےشک ہم نے تمہارے لیے لباس ’’اتارا جو تمہاری شرم کی جگہوں کو چھپاتا ہے اور وہ سبب زینت ہے اور تقویٰ کا لباس یہ بہتر ہے، یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ہے تاکہ لوگ نصیحت حاصل کریں‘‘
مزید فرمایا:
يٰبَنِيْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِيْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ
’’اے آدم کی اولاد! ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کر لیا کرو‘‘(الاعراف:31)
اس آیت کا شان نزول یہ ہے کہ مشرکین مکہ مسجد حرام میں ننگے طواط کرتے تھے اس لیے انہیں حکم دیا گیا کہ عبادت کے وقت (زینت) خوبصورت لباس پہن کر اللہ تعالی کی عبادت کرو۔
دور حاضر میں بھی کچھ ایسی ہی صورتحال ہےکہ بازوؤں کے بغیر بنیان یا مختصر شرٹ اور گھٹنوں تک نیکر، شلوار پر ٹی شرٹ یا شرٹ یا رات کے پہننے کے کپڑےوغیرہ اس کے علاوہ تنگ لباس جس سے جسم کے تمام نشیب وفراز نمایاں ہوتے ہوں ، ایساباریک لباس جس سے جسم کا رنگ نظر آئے اس قدر عام ہوگیا ہے کہ بے دین اور بے نمازی طبقے کی تو بات چھوڑیں دیندار اور نمازی طبقے کو بھی شوق عریانی میں نہ تو مسجد کے تقدس کا لحاظ رہانہ ہی عبادت کے تقاضون سے کوئی دلچسپی رہ گئی ہے رکوع وسجود میں ایسی شرمناک عریانی دیکھنے میں آتی ہے کہ دیکھنے والے نمازیوں کی نمازیں جو پہلے ہی خشوع وخضوع سے خالی ہوتی ہیںمحض ایک نمائش اور دکھلاوا بن کر رہ جاتی ہیں۔
مسجد میں ہمارے کچھ مکینک بھائی نماز کے لیے آتے ہیں جن کے لباس پاک تو ہوتے ہیں پر گندے اور بدبودار ، وہ اس حالت میں آکر نماز پڑھتے ہیںجس کی وجہ سے مسجد کا ماحول تعفن زدہ اور اذیت ناک ہوجاتا ہے ، ٹوپی یا پگڑی رسول اللہ ﷺ کے لباس مبارک کا حصہ تھی ، کچھ لوگوںنے دوران نماز ٹوپی پہننے کو فرض کا درجہ دے دیا ہے اور کچھ نے نہ پہننے کو معمول بنالیا ہے۔
ایسے لباس میں مساجد میں جاکر نمازیں ادا کرنااور ا س لباس کو شائستہ ، پُرو قار اور مہذب لباس قرار دیا جاسکتا ہے ؟ کیا آپ اس لباس میں بازار یا کسی کے گھر دعوت میں جانا پسند کریں گے؟ دونوں جہانوں کے بادشاہ کے گھر آپ اس حالت میں آتے ہیں،کیا آپ کو اچھا لگتا ہے؟ ہماری ایمانی حرارت مردہ ہوگئی ہے؟
روشن خیالی اور جدّت پسندی کے اس دور میں کتنے خوش نصیب ہیں جو اس طرف غور وفکر کرتے ہیں لباس ایک مخصوص رسم ورواج یا ذاتی پسند یا نا پسند کا معاملہ نہیںبلکہ یہ دین کا حصہ ہے اور مسلمان لباس کے معاملے میں بھی شریعت کا پا بند ہے۔
لباس کے فتنے میں صرف وہی لوگ مبتلاء ہوتے ہیں جن کا ایمان بہت کمزرور اور ضعیف ہوتاہے۔
شیطان نے آج ہمیں لباس کے جن فتنوں میں مبتلاء کردیا ہے وہ تو ان گنت ہیں اور آئے روز ان میں اضافہ ہی ہوتاجارہاہے۔
اسلام نے ہمیں بلا شبہ کسی خاص وضع قطع کا لباس تو عطا نہیں کیا بلکہ اس کے شرعی حدود وقواعد بتاتے ہیں۔
عہدِ رسالت میں عربوں کا عام لباس دو چادریں تھیں ایک چادر نیچے اور ایک چادر اوپر شلوار قمیص کا بھی رواج تھا مگر نبی کریم ﷺ کو قمیص پسند تھی۔
سیدہ امّ سلمہr فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کو کپڑوں میںقمیص سب سے زیادہ پسند تھی۔ (سنن ابوداؤد4025)
سیدنا سوید بن قیس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم ﷺ ہمارے پاس تشریف لائے اور ہم سے شلوار کا سودا کیا ۔(ابن ماجہ3579)
سیدنا سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’سفید کپڑے پہنا کرو وہ زیادہ پاک اور زیادہ عمدہ ہیں۔‘‘(ابن ماجہ3527)
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص تکبر کے ساتھ اپنا کپڑا گھسیٹ کر چلتا ہے قیامت کے دن اللہ تعالی اسکی طرف (رحمت کی) نظر نہیں فرمائے گا ‘‘ (ابن ماجہ3529)
سیدنا ابن عمر wسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’جوشخص شہرت والا لباس پہنے گا اللہ تعالی اسے قیامت کے دن ذلّت والالباس پہنائے گا (ابن ماجہ:3202)
لباس کے متعلق ذکر کردہ بنیادی اصولوں کی رعایت کرتے ہوئے ہر قسم کا لباس پہننا مردوں کے لیے بلا شبہ جائز ہے تاہم شلوار قمیص پسندیدہ لباس ہے یہ لباس تمام غیر مسلم اقوام کے ساتھ مشابہت بھی نہیں اور دیگر جائز لباسوں کی نسبت زیادہ سترڈھانپنے والا ہے۔
سیدنا ابن عمرwسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ’’جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہے(سنن ابوداؤد4031)
لباسوں میں سب سے زیادہ بہترین لباس تقویٰ والا لباس ہے جو مکمل طور پر ساتر ہو ، نجاست سے پاک داغ دھبوں سے پاک ، صاف ستھرا، خوشبودار، باوقار، شوخ اور بھڑکیلا نہ ہو اس سے ریاء ، فخر ، غرور اور تکبر نہ ٹپکتا ہو۔
ٹخنوں سے اونچا ہو یہ متقی نمازی کے لباس کی نمایاں علامت ہے۔
اسلامی اقدار سے محبت رکھنے والے والدین کو چاہیے کہ وہ جس حد تک ممکن ہو اپنی اولاد کو لباس کے فتنوں سے بچائیں اور شرعی لباس پہنائیں ۔
نمازی بھائی اس حقیقت سے بےخبر ہیں یا خبر ہونے کے باوجود یہ بات فراموش کرچکے ہیں کہ کائنات کے خالق و مالک اللہ تعالی کے نازل کردہ دین میں جہاں اخروی معاملات میں رشد وہدایت کار فرماہے وہاں اس میں دنیاوی امور میں بھی انسانوں کی رہنمائی کی گئی ہے جس طرح اس دین کا مقصد آخرت میں انسانوں کو سر فراز و سر بلند کرنا ہے اسی طرح اللہ تعالی نے یہ دین اس لیے بھی نازل فرمایا ہے کہ انسانیت اس سے وابستہ ہوکر دنیا میں بھی خوش بختی اور سعادت مندوں کی زندگی بسر کرے اللہ تعالی ہم سب مسلمانوں کو نیک عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے(آمین)