آج کے دور میں جس میڈیا کے اندر ہم لوگ ہیں سید الانبیاء ﷺ کے اس دور کے بارے میں ایک حدیث جو ہے بالکل اس کے مصداق ہے آپﷺ نے فرمایا دجال کی آمد سے پہلے کے چند سال دھوکے اور فریب کے چند سال ہوں گے میڈیا بنیادی طور پر ایک فریب ہے ایک جھوٹ ہے جو یوں لگتا ہے کہ آپ کو سچ بولا جا رہا ہے اور سچائی کی بات ہو رہی ہے۔ پوری دنیا کا جو میڈیا ہے اس کا ستانوے فیصد حصہ جو ہے وہ دنیا کی تین بڑی کمپنیوں کی ملکیت ہے سب سے پہلا جو 37فیصد میڈیا ہے وہ والٹ ڈیزنی کی ملکیت ہے جس کو ہم سب جانتے ہیں جس کے بورڈ آف گورنر میں سارے یہودی شامل ہیں دوسرا اس کے بعد روپرٹ مر ڈوک کی کمپنی ہے اس میں نیوز آف ورلڈ وغیرہ شامل ہیں جس کے پاس ٹائمز ہے اس کی چاربنادی صفات بتائی ہیں ۔ اس نے اپنے لوگوں کو پالیسی پر رہتے ہوئے کہا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ دنیا پوری کا جو موسیقی ہے اس کو الیکٹرونک کر دو اور تیز کر دو کیونکہ اگر ہلکی پھلکی موسیقی ہوگی تو لوگ سمجھ کر اس کو آہستہ سے سنیں گے اور ان کے اندر ان کے مزاج میں ایک غصہ اور اشتعال جیسی چیزیں نہیں آئیں گی اور وہ ٹھنڈے دل سے جب غور کرنا شروع کریں گے تو ان کو اندازہ ہو گا کہ دنیا کی حقیقت کیا ہیںاور وہ جب ہر وقت ناچ گانے کی اس کیفیت میں رہیں گے تو ان کو اسی کے اندر ان کی جسمانی طور پر ریلیکسیشن ہو سکے گی اور وہ کچھ سوچ نہیں سکیں گے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں کہ وہ نہ سوچیں۔
دوسرا اس کا جو نقطہ تھا وہ بڑا کمال کا تھا وہ کہتا یہ ہے کہ اس دنیا میں کونسپر تھیوری یعنی ایسی تھیوری کو عام کریں کہ جس کے بارے میں لوگوں کو یہ اندازہ ہوجائے کہ وہ کچھ نہیں کرتے بلکہ عالمی طاقتیں کرتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

وتعزمن تشاء وتذل من تشاء

’’جس کو چاہتا ہوں بادشاہت دیتا ہوں اور جس کو چاہتا ہوں چھین لیتا ہوں‘‘
ہم کہتے ہیں نہیں امریکا ایسا کرتا ہے ہم کہتے ہیں نہیں یورپ ایسا کرتا ہے ہم نے وہ تمام تر اختیارات جو اللہ تعالیٰ نے اپنے لیے مختص کیے ہوئے ہیں ہم نے اس کو عالمی طاقتوں کے ہاتھ میں دیا ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میری مرضی کے مطابق پتہ نہیں ہلتا ہم کہتے ہیں امریکا کی مرضی کے مطابق پتہ نہیں ہلتا۔ تو یہ وہ کیفیت اسی لیے پیدا کردہ ہے کہ لوگوں کو اول تو اللہ تعالیٰ پہ یقین نہ رہے اور پھر اپنے آپ پر بھی یقین نہ رہے تیسری وہ پالیسی پہ رہتا ہے کہ آپ لوگوں کو ملائن کرو یعنی جو ایسے لوگوں کے اندر رہنما پیدا ہو جائے ان کی شخصیت کے خلاف اس طرح کا پروپیگنڈا کرو اوہ جناب یہ عجیب و غریب سے لوگ ہیں یہ مولوی جو ہیں یہ دیکھیں ان کے مدرسوں میں کیا ہوتا ہے بچوں کے ساتھ یہ کیا کرتے ہیں یہ دیکھو یہ داڑھی والا عورت کے ساتھ پکڑا گیا ہے اس کو ایک مجرم بنا کر پیش کرو تا کہ ان کے ہاںں ایسی کیفیت پیدا نہ ہوسکے آپ خود سوچیں آج سے پچیس تیس سال پہلے تھانوں میں یا چیک پوسٹوں میں کیسے لوگوں کی تلاشی کی جاتی تھی ایسے لوگوں کی تلاشی لی جاتی تھی جو سلطان راہی ٹائپ ہوتے تھی۔ جن کے کانوں میں بالیاں منہ میں پان ہوا کرتا تھا جو بڑی بڑی مونچھیں رکھا کرتے تھے۔
اب تلاشی کس کی ہوتی ہے جس کی داڑھی ہو جس کے ماتھے پہ مہراب ہوتا ہے جس کے ٹخنوں سے اونچی شلوار ہوتی ہے یعنی ایک imageبنادیا جاتا ہے کہ نہیں یہ بدمعاشی نہیں یہ بدمعاش ہے اور چوتھی اس نے یہ چیز کی کہ فحش کو اس طرح عام کرو کہ لوگوں کو فحاشی نظر نہ آئے وہ اس کو زندگی کا حصہ سمجھنے لگیں۔ TVہمارے گھر کا پانچواں فرد بن چکا ہے۔ باپ ہے بیٹا ہے بیٹی ہے ماں ہے باقی چاروں سو جاتے ہیں لیکن یہ جاگتا رہتا ہے ہو نا تو یہ چاہیے تھا کہ جس طرح باقی چاروں جو ہیں وہ لباس پہنتے ہیں جس طرح باقی چاروں زندگی گزارتیں ہیں اس طرح پانچویں فرد کو بھی ویسے ہی زندگی گزارنی چاہیے لیکن نہیں! لیکن کیا مجھے دنیا کے موڈرن ترین گھر کے اندر جو سارا کا سارا اتنا موڈرن ہو جس نے اخلاقیات بھی ختم کر دی ہوں اس کے اندر بھی کوئی بیٹی اپنے باتھ روم سے نکل کر اپنی ٹانگیںدکھاتے ہوئے یہ نہیں کہتی کہ اس کریم سے میرے ٹانگیں کتنی نرم ہو گئی ہیں لیکن میڈیا وہ دکھائی جاتی ہیں اور ہم اس کو روٹین میں کہتے ہیں ہمیں اس کا اندازہ تک نہیں ہوتا کہ یہ کیسے ہو گیا ہے یعنی اس طرح فحش کو عام کرو کہ جیسے لوگ اس کو سمجھیں کہ یہ فحش ہے نہیںتیسری بڑی ٹرنرز کی کمپنی ہے باقی سارے کا سارا جو میڈیا ہے وہ اس کا ایک قسم کا محتاج ہے حتیٰ کہ الجزیرہ تک انہوں نے خرید لیا ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی حدیث کی روسے دیکھا جائے تو یہ سال دھوکے اور فریب کا سالوں ہیں۔ اور اس دھوکے اور فریب کے سالوں میں ہمیں کیسے آگے بڑھنا ہے؟آپ اندازہ کریں کہ گزشتہ 400سالوں کے اندر افغانستان میں سب سے پر امن دور جو تھا وہ 1996ء سے لیکر 2001کا تھا پولیٹیکل سائنس کے اصولوں کے مطابق ریاست کامیاب وہ ہوتی ہے جہاں ریاست نظر نہ آئے مطلب وارڈن نہ ہو اس کے باوجود بھی لوگ اشارے کی پابندی کر رہے ہوں اس کے باوجوود امن ہو یعنی سات لوگ سے پسن بلاگ کے اندر اور Billionsکا کاروبار وہاں ہوتا تھا اور وہ صرف ٹریفک دیکھتے تھے Rit of the Govtاسٹیبلش کی تھی جس پوست کی کاشت کو ساری دنیا مل کر ختم نہ کر سکی اس کو صفر پر لے کر آ گئے تھےامن و امان کا حال یہ تھا کہ جلال عباس سے کابل تک اور کابل سے کندھار تک عورت چلتی تھی اس کو کوئی خوف نہیں ہوتا تھا۔
دوستو! ہمیں اپنا ہتھیار خود پیدا کرنا ہے۔ ہمیں اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ اور ہم سب نے مل کر اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور اگر ہم اپنا کام ٹھیک ٹھیک سر انجام نہیں دیں گے تو وہ اللہ اس بات پر قادر ہے کہ اس پوری بستی کو ختم کر دے اور اپنے خالص بندوں کو لاکر اپنے دین کا کام لے لے۔ میں امت مسلمہ کے ہر فرد نوجوان ہوں یا بزرگ،خواتیں ہوں یا مرد، خواہ کسی بھی رنگ سے ہوں یا کسی بھی نسل سے ہوں اللہ تعالیٰ کے حکم اور نبی اکرم ﷺ کی سنت پر عمل کریں تو پھر ان شاء اللہ ظلم کی اس سیاہ رات کا خاتمہ تھی ہوگا اور امن و امان کا سورج بھی طلوع ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے