عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:لَيْسَ الغِنَى عَنْ كَثْرَةِ العَرَضِ، وَلَكِنَّ الغِنَى غِنَى النَّفْسِ
تخریج:صحيح البخاري کتَابُ الرِّقَاقِ ، بَابُ الغِنَى غِنَى النَّفْسِ ،
حدیث نمبر(8/ 95)،صحيح مسلم، بَابُ لَيْسَ الْغِنَى عَنْ كَثْرَةِ الْعَرَضِ ، حدیث نمبر (2/ 726)
راوی کا تعارف:

حدیث نمبر 15 کی تشریح میں ملاحظہ فرمائیں۔

معانی الکلمات:

لَيْسَ  :   نہیں ہے                        No

الغِنَى :  دولتمندی              Wealth-Richness

الكَثْرَةِ:   کثرت                 Large quantity

العَرَضِ:مال ودولت                  Wealth

وَلَكِنَّ : لیکن                           But

النَّفْسِ: شخص /ذات/دل/روح  Person/heart/sou

ترجمہ :
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: دولتمندی کثرت مال نہیں بلکہ اصل دولتمندی دل کی سخاوت ہے۔
تشریح :
بلاشبہ عموماً غنا، تونگری اور دولتمندی کا معیار یہی ہےکہ مادی اسباب کی کثرت وبہتات ہو اور اگر دل میں احساس ذمہ داری نہ ہوتو یہ دولت اور وسائل اپنےاللّے تللّوں میں ہی صرف ہورہے ہوتے ہیں جبکہ خدمت خلق اور خدمت دین تواصل ذمہ داری ہے ان مقاصد سے پہلوتہی اور غفلت نہ صرف کہ شومیٔ قسمت ہے بلکہ ناکامی ونحوست ہے اس کے بر عکس اگر یہ مال ودولت اور وسائل مخلوق کی خدمت اور دین کی سربلندی کے لیے استعمال ہورہے ہوں تو دنیوی لحاظ سے موجب برکت اور اخروی زندگی میں باعث نجات ہیں چنانچہ سودمند اور ثمر آور وہی دولت ہے جو اللہ کی راہ میںخرچ ہو جائے اسی بناپر درحقیقت وہی شخص مالدار کہلائے گا جو اس مال کو توشۂ آخرت بنالے ورنہ وہ انتہائی غریب و فقیر انسان ہے اللہ تعالی تو اپنے بندوں پر اتنا مہربان ہے کہ اگر ایک شخص اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا سچا ارادہ کرلے حالانکہ اس کے پاس مال موجود ہی نہیں تب بھی اسے اپنی اس خالص نیت کا ثواب دیدیتاہے۔ بنا بریں مال موجود ہو یا نہ ہو اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کی مخلوق کی خدمت کے لیے اپنے وسائل صرف کرنے کا مخلص ارادہ ہی اصل دولتمندی ہے۔ واللہ اعلم

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے