پہلا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں،وہی رحمن و رحیم اور علیم و حکیم ہے، عظیم فضل والا ہے، میں اسی کی حمد و ثنا بجا لاتا ہوں اسی کی طرف توبہ کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ بر حق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی شریک نہیں، معزز عرش اسی کا ہے، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں، آپ بہت ہی اعلی اخلاق کے مالک تھے، یا اللہ! اپنے بندے اور رسول محمد پر، انکی آل اور صراطِ مستقیم کی دعوت دینے والے ہدایت یافتہ صحابہ کرام پر سلامتی، برکتیں اور رحمتیں نازل فرما۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
رضائے الہی کے مطابق عمل کرتے ہوئے اللہ سے ڈرو، حرام کاموں کو چھوڑ دو، تا کہ تم رضائے الہی اور اسکی جنت پا سکو، نیز غضب و عذاب الہی سے نجات حاصل کر سکو۔
مسلمانو!اللہ تعالی نے فضل و کرم اور جود و سخا کرتے ہوئے ہمارے لیے نیکی اور عبادات کے بہت سے دروازے کھول رکھے ہیں، مقصد صرف یہ ہے کہ مسلمان نیکی کے کسی بھی دروازے سے داخل ہو کر اطاعت گزار بنیں، اس کے بدلے میں اللہ تعالی دنیا و آخرت سنوار کر درجات بلند فرما دے، چنانچہ اللہ تعالی اسے دنیا میں سکھ و سعادت والی زندگی بخشے گا، اور مرنے کے بعد دائمی نعمتیں اور رضائے الہی حاصل کریگا، فرمانِ باری تعالی ہے:

فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ أَيْنَ مَا تَكُونُوا يَأْتِ بِكُمُ اللهُ جَمِيعًا إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

نیکیوں کی طرف بڑھ چڑھ کر حصہ لو، تم جہاں بھی ہو گے اللہ تعالی تم سب کو اکٹھا کر لے گا، بیشک اللہ تعالی ہر چیز پر قادر ہے۔(البقرة : 148)
نیز اللہ تعالی نے تمام لوگوں کیلئے نمونہ و قدوہ بننے والے انبیاء علیہم الصلاۃ و السلام کے بارے میں فرمایا:

إِنَّهُمْ كَانُوا يُسَارِعُونَ فِي الْخَيْرَاتِ وَيَدْعُونَنَا رَغَبًا وَرَهَبًا وَكَانُوا لَنَا خَاشِعِينَ(الأنبياء : 90)

بیشک وہ نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے، اور وہ ہمیں امید اور خوف کیساتھ پکارتے اور ہم سے خوب ڈرتے تھے۔
نیز نبی مکرم ﷺ نے معاذ رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
’’کیا میں تمہیںبھلائی کے دروازوں کے بارے میں نہ بتلاؤں؟: روزہ ڈھال ہے، صدقہ گناہوں کو ایسےبجھا دیتا ہے جیسے پانی آگ کو ختم کر دیتا ہے، اور قیام اللیل ، پھر آپ ﷺ نے یہ آیت پڑھی:

تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ يَدْعُونَ رَبَّهُمْ خَوْفًا وَطَمَعًا وَمِمَّا رَزَقْنَاهُمْ يُنْفِقُونَ فَلَا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ(السجدة :16 – 17)

’’ ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں ۔ وہ اپنے پروردگار کو خوف اور امید سے پکارتے ہیں اور جو رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ انکی آنکھوں کی ٹھنڈک کی کیا کچھ چیزیں ان کے لئے چھپا رکھی گئی ہیں یہ ان کاموں کا بدلہ ہوگا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
پھر آپ ﷺنے فرمایا:’’کیا میں تمہیں اصل ہدف ، ہدف کا ستون اور اس کی چوٹی کے بارے میں نہ بتلاؤں؟‘‘ میں نے کہا : ’’کیوں نہیں؟‘‘تو آپﷺ نے فرمایا:’’اصل ہدف : اسلام ہے، اس کا ستون نماز ہے، اور اس کی چوٹی جہاد فی سبیل اللہ ہے‘‘(ترمذی)
نیکیوں میں اضافے اور گناہوں کو مٹانے کا ایک طریقہ استغفار ہے، چنانچہ بخشش کا مطالبہ انبیاء و المرسلین علیہم الصلاۃ و السلام کی عادت مبارکہ ہے، اللہ تعالی نے بشریت کے والدین ،ان دونوں پر اللہ کی طرف سے سلامتی، رحمتیں، اور برکتیں نازل ہوں،کے بارے میں فرمایا:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنْفُسَنَا وَإِنْ لَمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ(الأعراف : 23)

(حوا اور آدم ) دونوں نے کہا: ہمارے پروردگار! ہم نے اپنی جانوں پر ظلم ڈھایا، اگر تو ہمیں نہ بخشے اور ہم پر رحم نہ کرے تو ہم خسارہ پانے والوں میں سے ہو جائیں گے‘‘
اور نو ح علیہ السلام کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:

رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَنْ دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ (نوح : 28)

’’میرے پروردگار! مجھے ، میرے والدین، اور میرے گھر میں داخل ہونے والے مؤمن مرد و خواتین تمام کو بخش دے‘‘
اور ابراہیم uکی بات حکایت کرتے ہوئے فرمایا:

رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ(ابراہیم : 41)

ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین، اور تمام مؤمنین کو حساب کے دن بخش دینا۔
اور موسی علیہ السلام کا مقولہ نقل کرتے ہوئے فرمایا:

رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِأَخِي وَأَدْخِلْنَا فِي رَحْمَتِكَ وَأَنْتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ (الأعراف : 151)

میرے پروردگار! مجھے اور میرے بھائی کو بخش دے، اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل فرما، تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔

وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ(ص : 24)

داؤد علیہ السلام سمجھ گئے کہ ہم نے انہیں آزمایا ہے، تو پھر اپنے رب سے استغفار کرنے لگے اور عاجزی کرتے ہوئے گر پڑے اور پوری طرح رجوع کیا ۔
اور نبی ﷺ کو حکم دیتے ہوئے اللہ تعالی نے فرمایا:

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ(محمد : 19)

’’سو (اے نبی!) آپ یقین کرلیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش مانگا کریں اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے حق میں بھی‘‘
اور آپ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ آپ کثرت سے استغفار کیا کرتے تھے، حالانکہ اللہ تعالی نے آپ کی گزشتہ و پیوستہ تمام لغزشیں معاف فرما دی ہیں ، چنانچہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ :”ہم رسول اللہ ﷺ کی ایک ہی مجلس میں سو سے زیادہ مرتبہ استغفار کے یہ الفاظ شمار کر لیتے تھے:

رَبِّ اغْفِرْ لِي وَتُبْ عَلَيَّ إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيْمُ

’’میرے پروردگار! مجھے بخش دے، اور میری توبہ قبول فرما، بیشک تو توبہ قبول کرنے والا اور نہایت رحم کرنے والا ہے‘‘(ابو داود، ترمذی اور اسے حسن صحیح قرار دیا ہے)
اور عائشہ rے مروی ہے کہ: رسول اللہﷺ وفات سے پہلے اکثر اوقات یہ فرمایا کرتے تھے:

سُبْحَانَ اللهِ وَبِحَمْدِهِ ، أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ

اللہ اپنی حمد کیساتھ پاک ہے، میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف جوع کرتا ہوں۔(بخاری و مسلم)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، وہ کہتے ہیں کہ : “میں نے رسول اللہ ﷺ سے زیادہ کسی کو

أَسْتَغْفِرُ اللهَ وَأَتُوْبُ إِلَيْهِ(نسائی)

“میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں اور اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں،کہتے ہوئے نہیں سنا”
آپ ﷺ نماز کا سلام پھیرنے کے بعد تین بار کہا کرتے تھے”أَسْتَغْفِرُ اللهَ” (میں اللہ سے مغفرت کا طالب ہوں)مسلم نے اسے ثوبان tسے روایت کیا ہے، اس کے بعد نماز کے بعد والے اذکار فرماتے۔
استغفار نیک لوگوں کی عادت ، متقی لوگوں کا عمل اور مؤمنوں کا اوڑھنا بچھونا ہے، اللہ تعالی نے انہی کی بات نقل کرتے ہوئے فرمایا:

رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ(آل عمران : 193)

ہمارے پروردگار! ہمارے گناہ بخش دے، اور ہماری برائیاں مٹا دے، اور ہمیں نیک لوگوں کیساتھ موت دینا۔
اسی طرح فرمایا:

اَلَّذِينَ يَقُولُونَ رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِالصَّابِرِينَ وَالصَّادِقِينَ وَالْقَانِتِينَ وَالْمُنْفِقِينَ وَالْمُسْتَغْفِرِينَ بِالْأَسْحَارِ (آل عمران : 17-16)

’’وہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب ہم ایمان لا چکے اس لئے ہمارے گناہ معاف فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا وہ صبر کرنے والے اور سچ بولنے والے اور فرمانبرداری کرنے والے اور اللہ کی راہ میں خرچ کرنے والے اور رات کے آخری پہر کو بخشش مانگنے والے ہیں‘‘
حسن بصری رحمہ ا للہ اس آیت کی تفسیر میں کہتے ہیں:
’’مؤمنین اپنی رات کی نماز اتنی لمبی کرتے ہیں کہ سحری کا وقت شروع ہو جاتاہے اور پھر نماز کے فوری بعد سحری کے وقت میں اللہ تعالی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگتے ہیں‘‘
ایسے ہی فرمایا:

وَالَّذِينَ إِذَا فَعَلُوا فَاحِشَةً أَوْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ ذَكَرُوا اللهَ فَاسْتَغْفَرُوا لِذُنُوبِهِمْ وَمَنْ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلَّا اللهُ وَلَمْ يُصِرُّوا عَلَى مَا فَعَلُوا وَهُمْ يَعْلَمُونَ(آل عمران : 135)

ایسے لوگوں سے جب کوئی برا کام ہو جاتا ہے یا وہ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے ہیں تو فوراً انہیں اللہ یاد آ جاتا ہے اور وہ اپنے گناہوں کی معافی مانگنے لگتے ہیں، اللہ کے سوا اور کون ہے جو گناہ معاف کر سکے؟ اور وہ دیدہ دانستہ اپنے کئے پر اصرار نہیں کرتے
ابن رجب رحمہ اللہ کہتے ہیں:” گناہوں سے استغفار کا مطلب یہ ہے کہ گناہوں کا مٹانے کا مطالبہ اللہ تعالی سے کیا جائے، انسان کو استغفار کی بہت زیادہ ضرورت ہے؛ کیونکہ انسان دن رات گناہوں میں ملوّث رہتا ہے، اور قران مجید میں توبہ و استغفار کا ذکر بار بار آیا ہے، نیز انسان کو کثرت سے استغفار کی ترغیب بھی دلائی گئی ہے”
اللہ سے گناہوں کی بخشش طلب کرنے پر اللہ کی طرف سے اسے قبول کرنے اور گناہ بخش دینے کا وعدہ ہے۔
اسی طرح کسی مخصوص گناہ سے توبہ کرنے کی بھی شرعاً اجازت ہے؛ کیونکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
جب انسان کوئی گناہ کر لے اور پھر کہے: “یا اللہ! مجھ سے گناہ ہو گیا ہے، تو میرا گناہ معاف کر دے” تو اللہ تعالی فرماتا ہے: “میرے بندے کو معلوم ہے کہ اس کا رب گناہ بخشتا بھی ہے اور ان پر پکڑتا بھی ہے، میں نے اپنے بندے کو معاف کیا”( بخاری و مسلم نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسے روایت کیا ہے)
اسی طرح مطلق طور پر گناہوں کی بخشش مانگنا بھی شرعی طور پر درست ہے، چنانچہ اس کیلئے “رَبِّ اغْفِرْ لِيْ، وَارْحَمْنِيْ “( پروردگار! مجھے بخش دے اور رحم فرما) کہہ سکتا ہے،کیونکہ اللہ تعالی نے حکم دیتے ہوئے فرمایا:

وَقُلْ رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنْتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ

اور آپ کہیں: میرے پروردگار! مجھے بخش دے اور رحم فرما، تو ہی سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔(المؤمنون : 118)
اور نبی ﷺ نو مسلم افراد کو دعا کرنے کیلئے مخصوص الفاظ سکھاتے ہوئے فرماتے:

اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِيْ، وَارْحَمْنِيْ، وَاهْدِنِيْ، وَعَافِنِيْ، وَارْزُقْنِيْ(اسے مسلم نےروایت کیا ہے)

’’میرے پروردگار! مجھے بخش دے، مجھ پر رحم فرما، مجھے ہدایت ، عافیت اور رزق سے نواز ‘‘
اسی طرح انسان اپنے سارے گناہوں کی بخشش بھی اللہ تعالی سے مانگ سکتا ہے، چاہے اسے اپنے گناہ یاد ہوں یا نہ یاد ہوں، کیونکہ انسان بہت سے گناہ کر کے بھول جاتا ہے، لیکن اللہ تعالی کو بندے کے سب گناہ یاد رہتے ہیں، اور انہی کی بنیاد پر بندے کا محاسبہ بھی ہوگا، چنانچہ ابو موسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: “نبی ﷺ عام طور پر دعا مانگا کرتے تھے:

اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي ، وَجَهْلِي وَإِسْرَافِي فِي أَمْرِيْ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي ، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي جِدِّيْ وَهَزْلِي، وخَطَئِيْ، وَعَمْدِي وَكُلُّ ذَلِكَ عِنْدِي ، اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي مَا قَدَّمْتُ ، وَمَا أَخَّرْتُ ، وَمَا أَسْرَرْتُ ، وَمَا أَعْلَنْتُ ، وَمَا أَنْتَ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّيْ، أَنْتَ الْمُقَدِّمُ ، وَأَنْتَ الْمُؤَخِّرُ ، وَأَنْتَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

’’میرے پروردگار! میرے گناہ، اپنے بارے میں جہالت و زیادتی سمیت ان تمام گناہوں کو بھی بخش دے جنہیں تو مجھ سے بھی زیادہ جانتا ہے، یا اللہ! میرے سنجیدہ و غیر سنجیدہ ، سمجھ و نہ سمجھ والے سب گناہ بھی بخش دے، میرے گناہوں میں یہ سب اقسام موجود ہیں، یا اللہ! میرے گزشتہ، پیوستہ، خفیہ، اعلانیہ، اور جنہیں تو مجھے سے بھی زیادہ جانتا ہے سب گناہ معاف فرما دے، تو ہی آگے بڑھانے اور پیچھے کرنے والا ہے، اور تو ہر چیز پر قادر ہے۔(بخاری و مسلم)
اور نبی ﷺ کا فرمان ہے کہ: ’’اس امت میں شرک چیونٹی کے رینگنے سے بھی زیادہ مخفی انداز میں سرایت کریگا، تو اس پر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا: “اس سے خلاصی کا کیا ذریعہ ہے؟” تو رسول اللہ ﷺ نے انہیں دعا سکھائی:

اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أُشْرِكَ بِكَ شيئا وَأَنَا أَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ مِنَ الذَّنْبِ الَّذِيْ لَا أَعْلَمُ

’’یا اللہ! میں جان بوجھ کر تیرے ساتھ کسی کو شریک بنانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں، اور ان گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں جو میرے علم میں نہیں ہیں۔(ابن حبان نے اسے ابو بکر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، جبکہ امام احمد نے ابو موسی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ عام طور پر دعا میں کہا کرتے تھے:

اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي كُلَّهُ، دِقَّهُ وَجِلَّهُ، خَطَأَهُ وَعَمْدَهُ، سِرَّهُ وَعَلانِيَتَهُ ، أَوَّلَهُ وَآخِرَهُ(مسلم ، ابو داود)

’’یا اللہ! میرے چھوٹے برے، عمداً اور خطاءً، خفیہ ، اعلانیہ، ابتدا سے انتہا تک سب گناہ بخش دے۔‘‘
چنانچہ اگر کوئی شخص اللہ تعالی سے اپنے تمام گناہ جنہیں جانتا ہے یا نہیں جانتا سب کی بخشش مانگے تو اسے بہت بڑی بات کی توفیق مل گئی ہے۔
گناہوں کی بخشش کیلئے انسان کی طرف سے کی جانے والی دعا اخلاص، اصرار، گڑگڑانے، اور اللہ کے سامنے عاجزی و انکساری کے اظہار پر مشتمل ہوتی ہے، نیز اس میں گناہوں سے توبہ بھی شامل ہے، اور اللہ تعالی سے توبہ مانگنا بھی استغفار ہی کی ایک شکل ہے، چنانچہ یہ تمام امور استغفار اور توبہ کے ضمن میں آتے ہیں، لہذا مذکورہ الفاظ الگ الگ ذکر ہوں تو تمام معانی ان میں یکجا ہوتے ہیں، اور جب یہ الفاظ سب یکجا ہوں تو استغفار کا مطلب یہ ہو گا کہ: گناہوں اور ان کے اثرات کے خاتمے، ماضی میں کیے ہوئے گناہوں کے شر سے تحفظ اور گناہوں پر پردہ پوشی طلب کی جائے۔
جبکہ توبہ کے مفہوم میں: گناہ چھوڑ کر اللہ کی طرف رجوع ، گناہوں کے خطرات سے مستقبل میں تحفظ اور آئندہ گناہ نہ کرنے کا عزم شامل ہے۔
اللہ تعالی نے توبہ اور استغفار کو اپنے اس فرمان میں یکجا بیان فرمایا:

وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى وَيُؤْتِ كُلَّ ذِي فَضْلٍ فَضْلَهُ وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنِّي أَخَافُ عَلَيْكُمْ عَذَابَ يَوْمٍ كَبِيرٍ (هود : 3)

’’اپنے رب سے مغفرت مانگو پھر اس کی طرف پلٹ آؤ تو وہ تمھیں ایک معین مدت تک اچھا فائدہ دے گا اور ہر فضل والے کو اس کا فضل دے گا اور اگر تم پھر گئے تو یقیناً میں تمھیں بڑے دن کے عذاب سے ڈراتا ہوں‘‘
اس کے علاوہ بھی دیگر آیات ہیں۔
نبی ﷺ کا فرمان ہے: (لوگو! اپنے رب کی طرف رجوع کرو، اور اس سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگو، کیونکہ میں ایک دن میں ایک سو بار توبہ و استغفار کرتا ہوں) نسائی نے اسےسیدنا اغر مزنی رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔
انسان کو ہر وقت استغفار کی سخت ضرورت رہتی ہے، خصوصاً دورِ حاضر میں کیونکہ اس وقت گناہوں اور فتنوں کی بھر مار ہے، نیز استغفار دنیاوی اور اخروی زندگی میں کامیابی کا ضامن بھی ہے، چنانچہ استغفار خیر و بھلائی کا دروازہ اور تکالیف و مصائب ٹالنے کا باعث ہے، پوری امت کو بحیثیت کل دائمی طور پر استغفار کرنے کی ضرورت ہے، تا کہ پوری امت پر نازل شدہ آفات اور تکالیف ٹل جائیں، نیز آنیوالی مصیبتوں سے تحفظ حاصل ہو۔
استغفار سے وہی شخص غافل ہوتا ہے جو استغفار کے فوائد و برکات سے نابلد ہو، حالانکہ قرآن و سنت استغفار کے فضائل سے بھر پور ہیں، صالح علیہ السلام کے بارے میں فرمانِ باری تعالی ہے:

قَالَ يَا قَوْمِ لِمَ تَسْتَعْجِلُونَ بِالسَّيِّئَةِ قَبْلَ الْحَسَنَةِ لَوْلَا تَسْتَغْفِرُونَ اللهَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ

(صالح علیہ السلام نے) کہا:میری قوم کے لوگو! تم بھلائی سے پیشتر برائی کو کیوں جلدی طلب کرتے ہو؟ تم اللہ سے بخشش کیوں نہیں طلب کرتے تاکہ تم پر رحم کیا جائے (النمل : 46)
چنانچہ استغفار کی وجہ سے امت پر رحمت نازل ہوگی؛ کیونکہ اللہ تعالی نے نوح علیہ السلام کے بارے میں فرمایا:

فَقُلْتُ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ إِنَّهُ كَانَ غَفَّارًا يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيُمْدِدْكُمْ بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَيَجْعَلْ لَكُمْ جَنَّاتٍ وَيَجْعَلْ لَكُمْ أَنْهَارًا (نوح : 10 – 12)

میں (نوح )نے کہا: تم اپنے رب سے بخشش مانگو، بیشک وہ بخشنے والا ہےوہ آسمان سے تم پر موسلا دھار بارش نازل فرمائے گااور تمہاری دولت کیساتھ اولاد سے بھی مدد کریگا، اور تمہارے لیے باغات و نہریں بنا دے گا۔
اور ہود علیہ السلام کی دعوت ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

وَيَا قَوْمِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُرْسِلِ السَّمَاءَ عَلَيْكُمْ مِدْرَارًا وَيَزِدْكُمْ قُوَّةً إِلَى قُوَّتِكُمْ وَلَا تَتَوَلَّوْا مُجْرِمِينَ(هود : 52)

میری قوم ! تم اپنے رب سے بخشش مانگو اور اسی کی طرف رجوع کرو، وہ تم پر موسلا دھار بارش نازل کریگا اور تمہاری موجودہ قوت میں اضافہ فرمائے گا، اس لیے تم مجرم بن کر رو گردانی مت کرو۔
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ(الأنفال : 33)

اور آپ کی موجودگی میں اللہ تعالی انہیں عذاب نہیں دیگا، نیز اللہ تعالی انہیں استغفار کرنے کی حالت میں بھی عذاب دینے والا نہیں ہے۔
ابو موسی رضی اللہ عنہ نے اس آیت کے بارے میں کہا ہے کہ: “تمہارے لیے عذاب الہی سے بچاؤ کے دو ذریعے تھے، ان میں سے ایک یعنی نبی ﷺ تو چلے گئے ہیں، اب صرف استغفار باقی ہے جو قیامت تک جاری رہے گا”
کثرت سے استغفار پوری امت کی مشکل کشائی اور حاجت روائی کیلئے معاون ہے، نیز آئندہ ممکنہ خطرات سے بچاؤ کا باعث بھی ہےکیونکہ کوئی بھی مصیبت گناہوں کی وجہ سے نازل ہوتی ہے اور توبہ و استغفار سے ان کا خاتمہ ممکن ہے۔
ابن عباس  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے استغفار کو اپنی عادت بنا لیا، تو اللہ تعالی اس کیلئے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ اور تمام غموں سے کشادگی عطا فرمائے گا، نیز اسے ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے گمان بھی نہیں تھا‘‘( ابو داود)
نبی ﷺ سے استغفار کے بارے میں متعدد الفاظ اور اذکار ثابت ہیں، انہیں اپنانے سے بہت ہی عظیم ثواب ملے گا، ان میں سے چند یہ ہیں:
آپ ﷺ کا فرمان ہے: ’’جس شخص نے کہا:

أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ

’’میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوںاس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ‘‘
تو اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے، چاہے وہ میدان جنگ کا بھگوڑا ہی کیوں نہ ہو( ابو داود، ترمذی نے روایت کیا ہے، اور حاکم نے کہا ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے)
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’جس شخص نے بستر پر لیٹتے وقت تین بار کہا:

أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ (ترمذی)

میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوں اس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں(اس کے سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں)
عبادہ بن صامت tکہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص رات کے وقت بیدار ہو اور پھر کہے:

” لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ لَهُ الْمُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ وَهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ سُبْحَانَ اللهِ وَالْحَمْدُ لِلهِ وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ وَاللهُ أَكْبَرُ وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ “( بخاری)

اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ تنہا و یکتا ہے، اسی کی بادشاہی ہے، اور تعریفیں اسی کیلئے ہیں، اور وہ ہر چیز پر قادر ہے، اللہ پاک ہے، تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، اللہ کے سوا کوئی معبودِ بر حق نہیں ، اللہ بہت بڑا ہے، نیکی کرنے کی طاقت اور گناہ سے بچنے کی ہمت صرف اللہ کی طرف سے ہی ملتی ہے)پڑھ کر اس نے کہا: “یا اللہ! مجھے بخش دے” تو اس کی دعا قبول ہوگی، اور اگر نماز پڑھے تو وہ بھی قبول ہوگی۔
اور ایک حدیث میں یہ بھی ہے کہ: (جو شخص جمعہ کے دن فجر سے پہلے کہے:

“أَسْتَغْفِرُ اللهَ الَّذِي لاَ إلَهَ إلاَّ هُوَ، الْحَيُّ القَيُّومُ، وَأتُوبُ إلَيهِ”

’’میں اللہ تعالی سے بخشش طلب کرتا ہوں جس کے علاوہ کوئی معبود بر حق نہیں ہے، وہ زندہ جاوید اور ہمیشہ قائم رہنے والی ذات ہے، اور میں اسی کی طرف رجوع کرتا ہوں ] اس کے سارے گناہ بخش دیے جائیں گے چاہے سمندر کی جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں ‘‘
نیز شداد بن اوس tسے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’سید الاستغفار یہ ہے کہ تم کہو:

“اَللَّهُمَّ أَنْتَ رَبِّي لَا إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبْدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبُوءُ لَكَ بِنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبُوءُ بِذَنْبِي فَاغْفِرْ لِي فَإِنَّهُ لاَ يَغْفِرُ الذُّنُوبَ إِلاَّ أَنْتَ”

یعنی: یا اللہ تو ہی میرا رب ہے، تیرے سوا میرا کوئی معبود نہیں، تو نے مجھے پیدا کیا ہے، اور میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد و پیمان پر قائم ہوں، میں اپنے کیے ہوئے اعمال کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، میں تیرے حضور مجھ پر ہونیوالی تیری نعمتوں کا اقرار کرتا ہوں، ایسے ہی اپنے گناہوں کا بھی اعتراف کرتا ہوں، لہذا مجھے بخش دے، کیونکہ تیرے سوا کوئی بھی گناہوں کو بخشنے والا نہیں ہے)
آپ نے فرمایا:’’ جس شخص نے کامل یقین کے ساتھ دن کے وقت اسے پڑھا، اور اسی دن شام ہونے سے پہلے اسکی موت ہو گئی ، تو وہ اہل جنت میں سے ہوگا، اور جس شخص نےاسے رات کے وقت کامل یقین کے ساتھ اسے پڑھا اور صبح ہونے سے قبل ہی فوت ہو گیا تو وہ بھی جنت میں جائے گا‘‘ (صحیح بخاری)
انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے وہ کہتے ہیں کہ : “میں نے رسول اللہ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا، آپ فرما رہے تھے: (اللہ تعالی فرماتا ہے: ابن آدم! اگر تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگیں، اور پھر تم مجھ سے مغفرت مانگو تو میں تمہیں بخش دونگا، مجھے [تمہارے گناہوں کی] کوئی پرواہ نہیں ہوگی) ترمذی نے اسے روایت کیا ہے اور اسے حسن قرار دیا۔
کسی بھی عبادت کے دوران اور اس سے فراغت کے بعد بھی استغفار کرنا شرعی عمل ہے، تا کہ عبادت میں ممکنہ کمی کوتاہی پوری ہوسکے، نیز خود پسندی اور ریاکاری سے انسان دور رہے، چنانچہ فرمانِ باری تعالی ہے:

ثُمَّ أَفِيضُوا مِنْ حَيْثُ أَفَاضَ النَّاسُ وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ

پھر تم بھی وہیں سے واپس آؤ جہاں سے لوگ واپس آتے ہیں، اور اللہ تعالی سے بخشش مانگو، بیشک اللہ تعالی بخشنے والا نہایت رحم کرنے والا ہے۔(البقرة : 199)
اسی طرح فرمانِ باری تعالی ہے:

وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَآتُوا الزَّكَاةَ وَأَقْرِضُوا اللهَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا وَاسْتَغْفِرُوا اللهَ إِنَّ اللهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ[المزمل : 20]

نماز قائم کرو، زکوٰۃ دو اور اللہ کو قرض حسنہ دوجو اپنے لیے بھلائی آگے بھیجو گے اسے اللہ کے ہاں موجود پاؤ گے، وہ بہتر اور اجر کے اعتبار سے بہت بڑا ہے، اللہ سے بخشش مانگتے رہو، بےشک اللہ بڑا غفور و رحیم ہے ۔
چنانچہ ان دونوں آیات میں اللہ تعالی نے عبادات مکمل کرنے کے بعد بھی استغفار کرنے کا حکم دیا ہے۔
اسی طرح ہر مسلمان تمام مؤمن و مسلم مرد و خواتین، زندہ و فوت شدہ سب کیلئے بخشش طلب کرے، کیونکہ یہ عمل نیکی، مسلمانوں سے محبت اور دلی صفائی کا باعث ہوگا، نیز اللہ کے ہاں ان کیلئے شفاعت کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے:

وَالَّذِينَ جَاءُوْا مِنْ بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَحِيمٌ(الحشر : 10)

’’جو ان کے بعد آئے وہ کہتے ہیں: اے ہمارے رب ہمیں اور ہمارے ان بھائیوں کو معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دلوں میں اہل ایمان کے بارے میں بُغض نہ رہنے دے ، اے ہمارے رب تو بڑا نرمی کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے ‘‘
اور عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جو شخص مؤمن مرد و خواتین کیلئے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کرے تو اللہ تعالی اس کیلئے ہر مؤمن مرد و خاتون کے بدلے میں ایک نیکی لکھ دے گا) ہیثمی کہتے ہیں کہ اس حدیث کی سند جید ہے۔
اس حدیث کے مصداق میں: جنازے کی دعائیں، اور قبرستان میں جا کر دعا کرنا بھی شامل ہے، نیز یہ عمل حملۃ العرش اور مقرب فرشتوں کی اقتدا بھی ہے، اللہ تعالی نے حملۃ العرش اور مقرب فرشتوں کی دعائیں ذکر کرتے ہوئے فرمایا:

اَلَّذِينَ يَحْمِلُونَ الْعَرْشَ وَمَنْ حَوْلَهُ يُسَبِّحُونَ بِحَمْدِ رَبِّهِمْ وَيُؤْمِنُونَ بِهِ وَيَسْتَغْفِرُونَ لِلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ(غافر : 7)

عرشِ الٰہی کے حامل فرشتے اور جو ملائکہ عرش کے گردوپیش حاضر رہتے ہیں، سب اپنے رب کی حمد کے ساتھ اس کی تسبیح کر رہے ہیں ، وہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں اور ایمانداروں کے حق میں دعائے مغفرت کرتے ہیں، نیز وہ کہتے ہیں اے ہمارے رب تو اپنی رحمت اور اپنے علم کے ساتھ ہر چیز پر چھایا ہوا ہے جنہوں نے توبہ کی اور تیرے راستے کی اتباع کی انہیں جہنم کے عذاب سے محفوظ فرما ‘‘
بلکہ یہ عمل تمام مؤمنوں کیلئے سب سے بڑی خیر خواہی کا عمل ہے۔
اللہ کے بندو!
اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرو؛ کیونکہ حدیث قدسی ہے کہ: ’’میرے بندو! تم شب و روز گناہ کرتے ہو، اور میں سارے گناہ معاف کرنے پر قادر ہوں، اس لئے تم مجھ سے مغفرت مانگو میں تمہیں معاف کر دونگا‘‘(مسلم)
اس لیے اپنے رب سے مغفرت طلب کرو تو تم اس کے فضل و کرم، جود و سخا، اور برکتوں کا مشاہدہ کر لو گے، تمہارے گناہ مٹا اور درجات بلند کر دیے جائیں گے۔
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی ﷺ نے فرمایا:
’’اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرو تو اللہ تعالی تمہیں ختم کر کے ایسی قوم کو لے آئے گا جو گناہ کر کے اللہ تعالی سے مغفرت طلب کیا کرینگے، تو اللہ تعالی انہیں معاف فرما دیا کریگا‘‘(مسلم)
اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالی انتہائی وسیع مغفرت اور جود و سخا کا مالک ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے فرمایا:

وَمَنْ يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللهَ يَجِدِ اللهَ غَفُورًا رَحِيمًآ(النساء : 110)

اور جو شخص گناہ کر لے یا اپنی جان پر ظلم کر بیٹھے پھر اللہ تعالی سے گناہ کی بخشش چاہے تو وہ اللہ تعالی کو بخشنے والا اور نہایت رحم کرنے والا پائے گا‘‘
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن کریم کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اسکی آیات سے مستفید ہونے کی توفیق دے، اور ہمیں سید المرسلینﷺ کی سیرت و ٹھوس احکامات پر چلنے کی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں، تم بھی اسی سے گناہوں کی بخشش مانگو ۔

دوسرا خطبہ:

تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں وہی گناہوں کو بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا ہے، سخت سزا اور انتہائی قوت والا ہے، اس کے سوا کوئی معبود بر حق ، میں اپنے رب کے عظیم فضل پر اس کی حمد خوانی اور شکر بجا لاتا ہوں، میں گواہی دیتا ہوں کہ اسکے علاوہ کوئی معبودِ بر حق نہیں وہ اکیلا اور تنہا ہے، وہی علیم و قدیر ہے، میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ ہمارے نبی اور سربراہ محمد اسکے بندے اور رسول ہیں، آپ ہی بشیر و نذیر ، سراج منیر ہیں ، یا اللہ !اپنے بندے اور رسول محمد ، انکی آل ، اور صحابہ کرام پر اپنی رحمت ، سلامتی اور برکتیں نازل فرما ۔

حمد و صلاۃ کے بعد:

تقوی الہٰی اختیار کرو، عبادات صرف اسی کی کرو اور اسکی پکڑ و قہر سے بچو۔
مسلمانو!نوجوانوں کو فتنوں سے دور رکھو؛ کیونکہ یہ دین و دنیا کو نقصان پہنچاتے ہیں، اور آخرت میں انسان کو تباہ و برباد کر دینگے، نیز دنیا کی زندگی کو گدلا کرنے کا باعث بنتے ہیں چنانچہ خوشحال وہی ہے جو ظاہری و باطنی فتنوں سے دور رہے۔
انسان کیلئے سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ حق و باطل ، گمراہی و بے راہی، نیکی و بدی، حلال و حرام میں فرق نہ کر سکے۔
اس وقت ملک و قوم کو کچھ فتنوں کا سامنا ہے جنہوں نے مسلم نوجوانوں کوپرامن تربیت گاہوں، محفوظ گھرانوں، اور محبت کرنے والے معاشرے سے نکال کر انتہا پسندی، منحرف افکار اور معاصر خارجی لوگوں کے پیچھے لگا دیا ہے اور انہوں نے جوانوں کو مسلمانوں کی تکفیر کے راستے پر چلایا، جس پر انہوں نے معصوم لوگوں کا قتل شروع کیا، بلکہ انہوں نے-معاذ اللہ- خود کش دھماکوں کو جائز قرار دیتے ہوئے فتوے بھی صادر کیے!
کیا خود کش بمبار یہ سمجھتا ہے کہ وہ اس طرح جنت میں داخل ہو جائے گا؟! اسے یہ نہیں معلوم کہ خود کشی کرنے والا جہنم میں جائے گا؟
کیا اس نے اللہ کے اس فرمان کو کبھی سنا یا پڑھا نہیں ہے؟

وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ إِنَّ اللَّهَ كَانَ بِكُمْ رَحِيمًا وَمَنْ يَفْعَلْ ذَلِكَ عُدْوَانًا وَظُلْمًا فَسَوْفَ نُصْلِيهِ نَارًا وَكَانَ ذَلِكَ عَلَى اللهِ يَسِيرًا(النساء : 30)

’’اپنی جانوں کا قتل مت کرو، بیشک اللہ تعالی تم پر بہت ہی رحم کرنے والا ہےاور جو شخص ظلم و زیادتی کرتے ہوئے ایسا کرے گا تو اسے ہم آگ میں ڈالیں گے، اور یہ اللہ تعالی کیلئے بہت ہی معمولی بات ہے‘‘
اور حدیث میں ہے کہ: (خود کشی کرنے والا جہنمی ہے)
کیا وہ یہ سمجھتا ہے کہ مسلمان کو قتل کرنے سے جنت ملے گی؟ اسے یہ معلوم نہیں ہے کہ مسلمان کا قتل دائمی جہنم بننے کا باعث ہے؟ کیا اس نے اللہ کا یہ فرمان کبھی سنا یا پڑھا نہیں ہے؟

وَمَنْ يَقْتُلْ مُؤْمِنًا مُتَعَمِّدًا فَجَزَاؤُهُ جَهَنَّمُ خَالِدًا فِيهَا وَغَضِبَ اللهُ عَلَيْهِ وَلَعَنَهُ وَأَعَدَّ لَهُ عَذَابًا عَظِيمًا(النساء : 93)

اور جو شخص کسی مومن کو دیدہ دانستہ قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، اس پر اللہ کا غضب اور اس کی لعنت ہے اور اللہ نے اس کے لیے بہت بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔
کیا اسے نبی ﷺ کا یہ فرمان کبھی سنائی نہیں دیا؟: ’’جس شخص نے معاہدہ کیے ہوئے شخص کو قتل کیا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا‘‘
کیا یہ لوگ اپنے پیش رو سے سبق حاصل نہیں کرتے؟ جنہوں نے حدود اللہ کو پامال کیا اور پھر ایسے موڑ پر جا کر ندامت اٹھانے لگے جہاں ندامت کسی کام کی نہ تھی! پھر وہاں پر ان کو ورغلانے والوں نے بھی کوئی ساتھ نہ دیا۔
لہٰذا جو تمہیں خود کش دھماکہ کرنے کا حکم دے تو آپ اسے کہیں کہ وہ خود یہ دھماکہ کرے، لیکن وہ ایسا کبھی نہیں کریگا، کیونکہ وہ صرف تمہیں جہنم میں دھکیلنا چاہتا ہے، صرف تمہیں مسلمانوں سے لڑانا چاہتا ہے، تمہیں استعمال کر کے امن و امان سبوتاژ اور بے چینی پیدا کرنا چاہتا ہے، تمہیں سامنے رکھ کر دہشت گردی، قتل و غارت کرنا چاہتا ہے، بلکہ تمہیں ملت اسلامیہ سے باہر کرنے کی کوشش میں ہے، حالانکہ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
’’جو حاکم کی اطاعت نہ کرے، اور ملت اسلامیہ سے رو گردانی کرے تو وہ جاہلیت کی موت مرے گا، اور جو شخص غیر واضح مقاصد کیلئے قتال کرے، یا کسی تعصب کیلئے غضبناک ہو اور اسی کیلئے لوگوں کو دعوت دے، اور یہ شخص اسی حالت میں قتل ہو جائے تو اس کی موت جاہلیت والی ہوگی، اور جو شخص میری امت کے خلاف بغاوت کرتے ہوئے نیک و بد سب پر تلوار اٹھائے ، کسی مؤمن سے احتراز نہ کرے ، اور نہ ہی کسی معاہد کے معاہدے کی پاسداری کرے تو اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں اور نہ میرا اس سے کوئی تعلق ہے‘‘( مسلم )
اللہ کے بندو!

إِنَّ اللهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيما

’’یقیناً اللہ اور اسکے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں، اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام پڑھو‘‘(الاحزاب: 56)
اور آپ ﷺ کا فرمان ہے کہ: جو شخص مجھ پر ایک بار درود پڑھے گا اللہ تعالی اس پر دس رحمتیں نازل فرمائے گا،اس لئے سید الاولین و الآخرین اور امام المرسلین پر درود و سلام پڑھو۔

اللهم صلِّ على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما صلَّيتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، اللهم بارِك على محمدٍ وعلى آل محمدٍ، كما باركتَ على إبراهيم وعلى آل إبراهيم، إنك حميدٌ مجيد، وسلم تسليما كثيراً

یا اللہ ! تمام صحابہ کرام سے راضی ہو جا، یا اللہ! ہدایت یافتہ خلفائے راشدین ابو بکر، عمر، عثمان ، علی اور تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے راضی ہو جا، تابعین کرام اور قیامت تک انکے نقشِ قدم پر چلنے والے تمام لوگوں سے راضی ہو جا، یا اللہ ! انکے ساتھ ساتھ اپنی رحمت و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا، یا ارحم الراحمین!یا اللہ! ہم تجھ سے اپنے نفسوں اور برے اعمال کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں اور ہر شریر کے شر سے تیری پناہ چاہتے ہیں۔
یا اللہ! ہمیں اور ہماری اولاد کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، یا اللہ! مسلمانوں کو شیطان اور شیطانی چیلوں اور شیطانی لشکروں سے محفوظ رکھ، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! تمام مسلمانوں کے دلوں میں الفت پیدا فرما، لڑے ہوئے لوگوں میں صلح کروا ۔
یا اللہ! مسلمان بہت کمزور ہے، اور کسی بھی نیکی کرنے کی طاقت اور برائی سے بچنے کی ہمت تیرے بغیر ممکن نہیں ہے، یا اللہ ! مسلمانوں کو اسلام کی وجہ سے تکلیف پہنچانے والے لوگوں پر اپنا غضب نازل فرما، یا رب العالمین! بیشک تو ہر چیز پر قادر ہے۔
یا اللہ! ہماری اور تمام مسلمانوں کی سب معاملات میں رہنمائی فرما، اور ہماری توبہ قبول فرما، بیشک تو ہی توبہ قبول کرنے والا ، نہایت رحم کرنے والا ہے، یا ارحم الراحمین!

إِنَّ اللهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ وَأَوْفُوا بِعَهْدِ اللهِ إِذَا عَاهَدْتُمْ وَلَا تَنْقُضُوا الْأَيْمَانَ بَعْدَ تَوْكِيدِهَا وَقَدْ جَعَلْتُمُ اللهَ عَلَيْكُمْ كَفِيلًا إِنَّ اللهَ يَعْلَمُ مَا تَفْعَلُونَ (النحل: 90، 91)

’’اللہ تعالی تمہیں عدل و احسان اور قریبی رشتہ داروں کو (مال) دینے کا حکم دیتا ہے، اور تمہیں فحاشی، برائی، اور سرکشی سے روکتا ہے ، اللہ تعالی تمہیں وعظ کرتا ہے تاکہ تم نصیحت پکڑو اور اللہ تعالی سے کئے وعدوں کو پورا کرو، اور اللہ تعالی کو ضامن بنا کر اپنی قسموں کو مت توڑو، اللہ تعالی کو تمہارے اعمال کا بخوبی علم ہے ‘‘
اللہ عز و جل کا تم ذکر کرو وہ تمہیں کبھی نہیں بھولے گا، اسکی نعمتوں پر شکر ادا کرو وہ تمہیں اور زیادہ عنایت کرے گا، اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے، اور اللہ جانتا ہے جو تم کرتے ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے