فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ(النور:36)

’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو‘‘
ایک اور مقام پر فرمایا :

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ ڛ لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ(البقرہ:114)

’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے ان کی بربادی کی کوشش کرے ایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے‘‘
دین اسلام میں مساجد ومدارس کو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان کی تخلیق کا مقصد ہی اللہ تعالی احکم الحاکمین کی عبادت کرناہے ، نہ کہ اس (خالق) کے ساتھ کسی مخلوق کو شریک کرناہے۔
اور تمام عبادات میں اہم ترین عبادت نماز ہے اس لیے قرآن مجید میں بیسیوں بار نماز کا تذکرہ کیا گیا ہےاور مسجدیں نماز کی جگہیں ہیں جہاں اللہ سبحانہ کی بارگاہ میں قیام ، رکوع وسجود اور دعائیں ومناجات کی جاتی ہیں۔
اور چونکہ عبادت قرآن وسنت کی تعلیم حاصل کیے بغیر ادا نہیں کی جاسکتی اس لیے مساجد کے ساتھ ساتھ مدارس دینیہ کی ترغیب دی گئی ہے جہاں قرآن وسنت کی تعلیم دی جائےرسول اللہ ﷺ کے دور میں مدینہ اور گردونواح میں جتنی مسجدیں معرض وجود میں آئیں تمام میں تعلیم وتربیت کے لیے مدارس کا بھی اہتمام تھا۔
اور وہاں ایسے مخلص دینی طالب علم قیام پذیر تھے جو اپنی معاشی ضروریات کے لیے لکٹریاں اکٹھی کر کے بیچتے اور دین سیکھ کر دوسرے لوگوں میں دین کی تعلیم وتربیت کا اہتمام کرتے تھے۔
دنیا میں بڑے بڑے جلیل القدر پیغمبروں کی چھوڑی ہوئی یادگاریں کوئی شاہی محلات نہیں نہ کوئی عالیشان بنگلے ہیں نبیوں کی نشانیاں اور یادگاریں تو مساجد ومدارس ہیں ۔
حتیٰ کہ سیدنا سلیمان علیہ السلام جو کہ عظیم الشان بادشاہت کے مالک تھے ان کی نشانی آج بھی اگر موجود ہے تو کوئی تفریح گاہ، پارک، محل یا کوٹھی نہیں بلکہ ان کی عظیم یاد گار مسجد اقصیٰ کی صورت میں موجودہے ۔
جد الانبیاء خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام نے بھی اگر کوئی عمارت بنائی تو وہ بیت اللہ بنایا جو مسلمانوں کا قبلہ ہے ، پیغمبروں کے امام اور اولاد آدم کے سردار نبی رحمۃ ﷺ قبل از نبوت تعمیر کعبہ میں بنفس نفیس شریک تھے اس کی تعمیر کے لیے پتھر لاتے اور اس کام میں اپنے چچاؤں کا ہاتھ بٹایااور جب ہجرت کر کے مدینہ سے پہلے قُباء کے مقام پر قیام فرمایا تو پہلا جو کام کیا وہ تعمیرِمسجد ہی تھا اور جب مدینہ تشریف لائے تو اپنے گھر کے لیے نہیں بلکہ سب سے پہلے زمین پسند کر کے خریدی تو مسجد ہی کےلیے خریدفرمائی اور صحابہ کے ساتھ خود اپنے مبارک ہاتھوں سے اس کی تعمیر فرمائی، دوران تعمیر پیش آنے والا ایک ایمان افروز واقعےکا ذکر پیش خدمت ہے:
سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ مسجد نبوی ﷺ کی تعمیر کے وقت پتھر اٹھا رہے تھے ان کی کمر پر مٹی لگ گئی رسول اللہ ﷺ بڑے پیار سے اپنے دست مبارک سے مٹی جھاڑ رہے تھےاور دعافرمارہے تھے۔
غور کیجیے ! رسول اللہ ﷺ ہجرت فرماکر مدینہ آئے چند دن قباء کے مقام پر رونق افروز ہوئے تو مسجد قباء تعمیر کرادی پھر مدینہ شہر میں جلوہ افروز ہوئے ، ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ کے مکان میں ٹھہرے اپنی رہائش کے بجائے مسجد کی تعمیر کی فکر ہے جب مسجد تعمیر ہوگئی تو اس سے متصل انتہائی معمولی قسم کے حجرات امہات المؤ منین کے لیے تعمیر کروائے اور اپنی حیات طیبہ کے آخری ایام تک انہی حجرات میں رہائش پذیر رہے، غنیمت میں جتنا مال آتا مسلمانوں میں تقسیم فرماتے حتیٰ کہ اپنے حصے کا مال بھی تقسیم فرمادیا کرتے کبھی اپنے گھر کی زینت کاخیال نہ کیا۔
نبی مکر م ﷺ نے اپنے ارشادات میں بھی مسجد یں بنانے ، ان کی صفائی ونظافت کا خیال رکھنے اور انکی ضرورتیں پوری کرنے اور آباد کرنے کی زبردست ترغیب دی ہے اس موضوع کے متعلق چند احادیث مبارکہ ذیل میں درج کی جارہی ہیں۔

مَنْ بَنَى لِلَّهِ مَسْجِدًا صَغِيرًا كَانَ أَوْ كَبِيرًا بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الجَنَّةِ(سنن الترمذي ت بشار (1/ 421)

’’جس نے اللہ کے لیے مسجد بنائی چھوٹی ہویابڑی اللہ تعالی اس کے لیے جنت میں گھر بنائےگا‘‘
کیسی زبردست فضیلت ہے کہ دنیا میں مسجد تعمیر کرنے کے بدلے میں جنت کے اندر ہمیشہ کےلیے بنگلہ مل جائے۔

أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ فِي الدُّورِ وَأَنْ تُنَظَّفَ وَتُطَيَّبَ

’’رسول اللہ ﷺ نے آبادیوں اور کالونیوں میں مسجدیں بنانے کا حکم دیا ہے اور انہیں صاف ستھرا رکھنے اور خوشبو لگانے کا حکم دیا ہے‘‘(سنن أبي داود (1/ 124)
عرش کا سایہ پانے والے پانچ خوش نصیبوں میں وہ شخص بھی ہوگا جس کا دل مساجد میں لگا رہتاہے۔

وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِي المَسَاجِدِ(صحيح البخاري (1/ 133)

’’وہ شخص جس کا دل مساجد سے معلق رہتاہے‘‘
سبحان اللہ مسجد سے دل لگانے کی کتنی بڑی فضیلت ہے کہ ایسے شخص کو اس دن اللہ تعالی کے عرش کا سایہ حاصل ہوگا جس دن اس کے سائے کے سوا اور کوئی سایہ نہ ہوگا۔
ایک شخص (مرد یاعورت) مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتا تھا ایک روز نبی کریم ﷺ نے اسے نہ پایا ، ساتھیوں سے اس کے بارے میں دریافت کیا توصحابہ نے بتایاوہ رات وفاپاگیا (پاگئی) تھا ہم نے دفنادیا، نبی مکرم ﷺ نے فرمایا:
’’مجھے خبر کیوں نہیں دی؟ صحابہ نے عرض کیا ہم نے رات کے وقت آپ ﷺ کو زحمت دینا گوارہ نہ کیا ، آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اس کی قبر بتلاؤ، پھر آپ ﷺنے اس کی قبر پر جاکر نماز جنازہ اداکی۔ (بخاری)
غور کیجیے ! مسجد کاخادم، جھاڑو دینے والا رسول اللہ ﷺ کی نگاہ میں کس قدرو منزلت کا حامل تھا۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:

فِي الْإِنْسَانِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ مَفْصِلًا، فَعَلَيْهِ أَنْ يَتَصَدَّقَ عَنْ كُلِّ مَفْصِلٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ بِصَدَقَةٍ “. قَالُوا: وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللهِ؟ قَالَ: “النُّخَاعَةُ تَرَاهَا فِي الْمَسْجِدِ فَتَدْفِنُهَا، أَوِ الشَّيْءُ تُنَحِّيهِ عَنِ الطَّرِيقِ، فَإِنْ لَمْ تَقْدِرْ فَرَكْعَتَا الضُّحَى تُجْزِئُكَ(مسند أحمد ط الرسالة (38/ 145)

انسان کے (جسم میں) 360 جوڑ ہیں پس اسے چاہیے کہ ہر جوڑ کے بدلے صدقہ کرے، (لوگوں نے) کہا کون اس کی قدرت رکھتاہے اے اللہ کے رسول ﷺفرمایا( ان تین کاموں میں سے کوئی ایک کام کرلو تمام جوڑوں کا صدقہ ادا ہوجائے گا )مسجد میں کوئی گندگی وغیرہ ہواسے باہر پھینک دو صفائی کردویا راستے سے تکلیف دہ چیز ہٹادو یا پھرچاشت(ضحی) کی دو رکعتیں پڑھ لو انگ انگ کا صدقہ ادا ہوجائے گا۔
زمین کے تمام ٹکڑوں میں اللہ تعالی کے ہاں محبوب ترین ٹکڑے مسجدیں ہیں(مسلم)
مسجد میں داخل ہونے کی دعا :

’’اللَّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ‘‘

’’اے اللہ! مجھ پر اپنی رحمت کے دروازے کھول دے‘‘
اس دعاء سے ثابت ہے کہ مسجد میں اللہ تعالی کی خصوصی رحمتوں کا نزول بھی ہوتاہے
بلا عذر شرعی فرض نماز مسجد میں ادا کرنا ضروری ہےاور اسکا فائدہ یہ ہےکہ مسجد میں باجماعت ادا کی جانے والی نماز درجے میں 20 یا 25 گنا زیادہ اجر کی باعث ہے(مسلم)
نماز کے انتظار میں مسجد میں بیٹھنا گناہوں کی بخشش کا ذریعہ ،درجات کی بلندی اور شیطان کے حملوں سے بچاؤ کے لیے مورچہ بندی کا کام کرتاہے(مسلم)
جو شخص نماز پڑھنے کے بعدمسجد میں بیٹھا رہے ، اور باتیں نہ کرے اور کسی کو تکلیف نہ پہنچائے توفرشتے اس کے لیے مغفرت کی دعائیں کرتےہوئے کہتےہیں:

اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَهُ، اللَّهُمَّ ارْحَمْهُ، اللَّهُمَّ تُبْ عَلَيْهِ،(سنن ابن ماجه (1/ 262)

’’یا اللہ اس کو بخش دے یا اللہ اس پر رحم فرما، یا اللہ اس کو معاف کردے‘‘
قرآن کریم میں مساجد کی فضیلت بیان کرتے ہوئے رب تعالی کا رشاد ہے:

فِيْ بُيُوْتٍ اَذِنَ اللّٰهُ اَنْ تُرْفَعَ وَيُذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ ۙ يُسَبِّحُ لَهٗ فِيْهَا بِالْغُدُوِّ وَالْاٰصَالِ (النور:36)

’’ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے وہاں صبح و شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرو ‘‘
ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا:

اِنَّمَا يَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَاَقَامَ الصَّلٰوةَ وَاٰتَى الزَّكٰوةَ وَلَمْ يَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰٓى اُولٰۗىِٕكَ اَنْ يَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِيْنَ (التوبۃ:18)

’’اللہ کی مسجدوں کی رونق و آبادی تو ان کے حصے میں ہے جو اللہ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں، نمازوں کے پابند ہوں، زکوٰۃ دیتے ہوں، اللہ کے سوا کسی سے نہ ڈرتے ہوں، توقع ہے یہی لوگ یقیناً ہدایت یافتہ ہیں ‘‘
اور ان لوگوں کے لیے قرآن میں وعید آئی ہے جو مساجد سے لوگوں کو روکتے اور مساجد کو گراتے ہیں:

وَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ يُّذْكَرَ فِيْهَا اسْمُهٗ وَسَعٰى فِيْ خَرَابِهَا ۭاُولٰۗىِٕكَ مَا كَانَ لَھُمْ اَنْ يَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَاۗىِٕفِيْنَ ڛ لَھُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَّلَھُمْ فِي الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيْمٌ(القرۃ:114)

’’اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالیٰ کی مسجدوں میں اللہ تعالیٰ کے ذکر کئے جانے کو روکے ان کی بربادی کی کوشش کرےایسے لوگوں کو خوف کھاتے ہوئے ہی اس میں جانا چاہیے ان کے لئے دنیا میں بھی رسوائی ہے اور آخرت میں بھی بڑا عذاب ہے‘‘
مساجد امن کی جگہیں ہیں اور اللہ کی پسندیدہ جگہوں میں سے ہیں، اور مساجد سے باہر انسان کے فتنوں میں مبتلاء ہونے کا ڈر ہوتاہے، اسی لیے نبی کریم ﷺ نے مسجد سے باہر نکلنے کی جو دعاسکھائی ہے اس میں اللہ سے اس کے فضل کا سوال کیا گیاہے

’’اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ‘‘

( اے اللہ! میں تیرے فضل کا طالب ہوں)
(سنن أبي داود ، كتاب الصلاة : 465)
بعض اسلامی ممالک میں فحاشی کے اڈے سینماگھر یا اور اسی طرح کی فضولیات کی تعمیر آسان ہے مگر مسجد کی تعمیر مشکل ہوچکی، نہ جانے کتنے محکموں سے اجازت نامہ لینا پڑتاہےاور مزے کی بات یہ ہے کہ بعض نام نہاد مذہبی جماعتیں نئی مساجد کو اپنی دکانداری کے لیے خطرہ تصور کرتے ہوئے تعمیر مساجد کو روکواتی ہیں اور انتہائی بھونڈے قسم کے الزامات لگائے جاتےہیں تاکہ عوام کو

اشتعال دلایا جاسکے اور تعمیر روکوادی جائے۔
یہ لوگ اللہ کے نور کو پھونکوں سے بجھانا چاہتے ہیںلیکن اللہ اپنے ہر کام پر قادر ہے۔
آئیے آپ کو اسی طرح کے ایک مفتی صاحب کا واقعہ سناؤںجو تعمیر مسجد کو روکوانے کے کس حد تک جا پہنچا:
’’گوجرنوالہ میں ایک مفتی صاحب ایم این اے بن گئے ان کے محلے میں بہت بڑا سینماگھر تھا وہ اسے ختم نہیں کرواسکے اور نہ کبھی اس کے لیے کوشش کی، بہر حال ان کے علاقے میں ایک نئی مسجد کی بنیاد رکھی گئی جب اس مسجد کی تعمیر شروع ہوئی تو انہوں نے اس کی تعمیر کو روکوانے کےلیے زور لگایااور یہاں تک کہ انہوں نے یہ کہا کہ یہ لوگ (مسجد بنانے والے) ہماری لاشوں سے گزر کر مسجد بنا سکیں گے‘‘

گھر کی مسجد:

رسول اللہ ﷺ کی عادت مبارکہ تھی کہ نوافل گھر میں ادا فرماتے اور فرض نماز مسجد میں پڑھاتے اور لوگوں کو بھی اپنے گھروں میں مساجد کی تعمیر کی ترغیب دلاتے، خیر القرون میں تقریباً ہر گھر میں نماز کے لیے مخصوص جگہ ضرور ہوتی جسے مسجد البیت ، یا مسجد الداریعنی گھر کی مسجد کہا جاتا ، آج ہم بھی مکانات تعمیر کرواتے ہیں نقشہ جات بنائے جاتے ہیں، ٹی وی لاؤنچ، ڈائننگ ہال نشت وبرخاست کی مخصوص جگہیں تو بنوانے کا بڑا ہتمام کرتے ہیں ، اپنے من سے سوال کیجئے کیا ہم نے اپنے گھروں کے نقشہ جات میں مسجد کے لیے بھی کوئی جگہ مختص کی ہے؟؟ بلکہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ اس کا تصور ہی نہیں۔
آخر میں رب تعالی سے دعا گو ہوں اللہ ہم سب کو سمجھ کر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے